آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر25)

 

آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر25)

دو دن بعد بارش رکی اور میں رائفل سنبھال کر تیندوے کی ٹوہ میں جنگل کی طرف نکل کھڑا ہوا۔منی رام نے میرے ساتھ چلنے پر اصرار کیا۔ میری سفارش پر اس کے باپ نے اجازت دے دی۔ وہ بارہ بور کی دو نالی بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس کی عمر پندرہ سولہ برس کی تھی مگر اسے بندوق چلانے کا شوق بہت تھا۔ میں نے اس کی ہمت بڑھائی اور وعدہ کیا اگر موقع ملا تو تیندوے پر پہلے اسی کی گولی چلواوؤں گا۔ہم کیچڑ میں لت

پت دیر تک جنگل میں مارے مارے پھرتے رہے۔تیندوے کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔ تیز بارش نے اس کے پنجوں کے نشان مٹا دیے تھے۔

میلوں پھیلے ہوئے وسیع و عریض جنگل میں ایک سے زیادہ تیندوے ہوسکتے تھے۔کیسے پتا چلتا کہ وہ خاص تیندوا کون سا ہے۔۔۔اور یوں بھی وہ عادی آدم خور نہ تھا۔ محض اتفاق سے سار میں داخل ہوتے ہی مہابیر سے اس کی مڈبھیڑ ہو گئی اور گھبراہٹ میں اس نے حملہ کر دیا۔ راز داری کے پاس نے مہا بیر کوشور مچانے سے باز رکھا اور اس نے چپ چاپ مر جانا پسند کیا،تاہم جس رسوائی سے بچنے کے لیے مہابیر نے جان کی بھینٹ دی اور شانتی نے خود کشی کی، وہ ہو کررہی۔

ہلکی ہلکی پھوار رک رک کر پڑتی رہی اور ہم یونہی ادھر ادھر چکر لگاتے رہے۔چکاروں کا ایک جوڑا نظر آیا تو منی رام سے رہا نہ گیا۔

’’بڑے بھیا، کھانے کے لانے ایک آدھ پھسکرا جو مارلیو۔‘‘

’’کیوں،مرغی کھلانے کا ارادہ نہیں؟‘‘

’’وہ تو جتنی کھانی ہوں،سب آپ ہی کے لانے توہیں۔پن کباب کا مجا تو پھسکرا ہی میں آئے گا۔‘‘

پھسکراوہاں چھوٹے چنکاروں کی اس نسل کے لیے بولا جاتا ہے جوجوڑوں میں رہتے ہیں،یہ چھوٹے ہرن ہوتے ہیں۔کسی کو دیکھ کر پھس پھس کر آوازیں نکالتے ہیں،پھر اپنی چھوٹی سی دم ہلاتے ہوئے بھاگ جاتے ہیں۔پھسکرار مارنے کو جی تو نہ چاہتا تھا مگر ایک نیا طریقہ آزمانے کا خیال آیا جو میں نے اپنے ماموں سے سیکھا تھا۔

تب اپنی رائفل منی رام کے حوالے کی اور بارہ پور میں ایسی جی کے کارتوس بھر کر اسی جگہ ساکت وصامت کھڑا ہو گیا جہاں سے چکارے بھاگے تھے۔منی رام کو تاکید کر دی کہ وہ بالکل چپ چاپ کھڑا رہے اور تماشا دیکھے۔

’’اتی ٹھاڑے رہنے سے کچھو فائدہ نہ ہو گا۔ ڈھکائی کرکے کا ہے نا ہیں مارو۔‘‘

’’ڈھکائی کی ضرورت نہیں۔‘‘

’’پھسکرا تو بھاگ لیے، بے فضول میں ٹیم خراب کررہے ہو۔اب وہ تو تھوڑی آئیں گے۔‘‘

’’آئیں گے،منی رام، ضرور آئیں گے۔تم چپکے کھڑے رہو۔‘‘

شکار کا یہ طریقہ خاصا صبر آزما اور تکلیف دہ ہے مگر اس میں کامیابی سو فیصد ہوتی ہے۔چکاروں کی عادت ہے جس جگہ سے بھاگتے ہیں،کچھ دیر بعد یہ تصدیق کرنے کے لیے پھر وہیں واپس آتے ہیں کہ وہ بھاگنے میں حق بجانب تھے یا نہیں۔چکاروں کی نظر میں بھی شاید کمزور ہوتی ہے۔وہ سیاہ اور بھورے تنے والے تیندو، اچار اور یاکرکے درختوں کے تنوں،جھاڑیوں اور چٹانوں کے درمیان خاکی کپڑوں میں ملبوس بے حس و حرکت کھڑے ہوئے آدمیوں میں تمیز نہیں کر سکتے۔

تقریباً چالیس منٹ گزر گئے اور دور دور چکا روں کا نام و نشان نہ تھا۔انتظار سے تنگ آکر میں اپنا منصوبہ ختم ہی کرنے والا تھا کہ دور جھاڑیوں کی درمیانی پگڈنڈی پر آہستہ خرای سے آگے پیچھے آتے ہوئے دونوں چکاروں پر میری نگاہ پڑی۔ تجربے کی کامیابی پر مسرت سے سانس پھولنے لگا۔ چکارے بڑے محتاط اناز میں چند قدم بڑھتے اور پھر ٹھہر کر گردوپیش کا جائزہ لیتے، کان ہلاتے،پھس پھس کرتے جیتے نتھنوں سے ہماری بوسو سنگھنے کی کوشش کررہے ہوں۔وہ ابھی تک زد میں نہ آئے تھے مگر فائر کرنے کا سب سے مناسب وقت وہی ہوتا ہے جب وہ قدم آگے بڑھا رہے ہوں۔

قدرت کا اصول ہے کہ جن جانوروں کی نگاہ کمزور ہو، ان کی قوت شامہ حیرت انگیز طور پر تیز ہوتی ہے۔کتے کی قوت شامہ تیز ہے مگر بصارت اسی اعتبار سے کم۔شیر قوت شامہ سے محروم ہے۔۔۔ہاتھی،ریچھ اور سور میں باصرہ کی کمی ہے۔اسی طرح سانپ سننے اور بچھو دیکھنے کی قوت سے قریب قریب محروم ہیں۔

اس وقت ہوا چکاروں کی سم سے ہمایر جانب چل رہی تھی،اس لیے وہ ہمارا وجود سونگھ نہ سکے تھے۔ہلکی ہلکی پھوار برابر جاری تھی۔ پیش منظر دھند لا تھا،اس لیے اور بھی اطمینان تھا۔اب میں نے موقع پاکر بندوق سیدھی کی اور ان کے زد میں آجانے کا انتظار کرتا رہا۔

چکارے تقریباً تیس گز ادر آگئے تو بندوق کی لبلبی پر میری انگلی بے چین سی ہو گئی اور پھر زوردار دھماکے کے ساتھ دونوں چکارے زمین پر لوٹنتے لگ۔ایس جی کے تین دانے نر کو لگے اور اور دومادہ کو،باقی خالی گئے۔میں نے چکارے ذبح کیے اور انہیں لے کر جب ہم اودھے پورہ پہنچے تو شام ہو چکی تھی۔

دوزوز بعد ایک بسوڑنے آکر بتایا،رات تیند وااس کے گھر کے قریب غرار رہا تھا جہاں سار میں بکریاں بند تھیں۔وہ موقع نہ پا سکا اور کوئی واردات کیے بغیر واپس چلا گیا۔

میں نے گھر کے قریب جاکر نرم زمین پر تیندوے کے نشانات دیکھے اور اس کے آنے کا راستہ ذہن نشین کرلیا۔ اسی شب گھر کے قریب ہی بیل کے درخت کے نیچے ایک بکرا بندھوایا اور تقریباً بیس گز دور،ایک لودھی کی بلندی پر بنی ہوئی چھپری میں پھونس اور بانس کی ٹٹیوں سے مناسب اوٹ بنوا کر بیٹھ گیا۔منی رام اپنی بارہ بور کے ساتھ میرے ہمراہ تھا۔ چکاروں کا شکار دیکھ کر اس کا حوصلہ بڑھ گیا تھا اور میں بھی حسب وعدہ یہی چاہتا تھا کہ میری ہدایات کے مطابق تیندوے پر پہلا فائر وہی کرے۔

رات اندھیری تھی۔گہرے بادلوں کے باعث ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ بکرا تنہائی اور بارش میں بھیگنے کے سبب مسلسل ہنگامہ مچاتا رہا۔رات کے دو بجے تک ہمیں اپنے شکار کی کوئی آہٹ نہ مل سکی، پھر بارش بھی کچھ دیر کے لیے رک گئی۔میرے تجربے کے مطابق تیندوے کی حملہ آوری کا سب سے مناسب وقت یہی تھا۔

میں اور زیادہ چوکنا ہو کر سمٹ گیا۔ بکرا، جوبیٹھ گیا تھا، اچانک اٹھ کھڑا ہوا۔رسی کی گنجائش کے برابر پیچھے ہٹا اور گلا پھاڑ کر مدد کے لیے چیخنے لگا۔پھر تین چار فٹ اونچی انڈبجور اور کانٹوں کی باڑ کے قریب ہلکی سے کھرکھراہٹ محسوس ہوئی جیسے کسی نے باڑ کو ہلایا اور پتوں پر رکے ہوئے پانی کے قطرے ایک ساتھ ٹپکے ہوں۔میں نے منی رام کو بندوق کا گھوڑا چڑھا کر مستعد رہنے کی تاکید کی۔ ذرا سا آگے کھسک کر اس نے میری ہدایت کے مطابق ٹٹی میں بنائے ہوئے بالشت بھر لمبے چوڑے سوراخ سے بندوق کی نالی باہر نکالی۔ اسی طرح کے دوسر ے شگاف سے میری رائفل پہلے ہی بکرے اور اس کے محاذ کو زد میں لیے ہوئے تھی۔

منی رام نے بتایا تھا، وہ بارہ بور کی بندوق پہلے بھی چلا چکا ہے اور دھان کے کھیت کی چوکسی کرتے ہوئے اس نے دو سور بھی مارے تھے۔بندوق اٹھانے،اسے گرفت میں لینے اور کارتوس لگانے یا گھوڑا(ہیمر)چڑھانے اتارنے کی مہارت دیکھ کر مجھے اس پر بھروسہ تھا۔اب بات صرف نشانے کی تھی، اسی لیے میں نے گولی کے بجائے ایل جی کا کارتوس چلانے کی اجازت دی تھی۔ سات دانوں میں سے دو ایک تو تیندوے کو لگ ہی جاتے۔ اس کے علاوہ میری نو ایم ایم رائفل کی گولی بھی مدد کے لیے موجودتھی، اس لیے پورا اطمینان تھا اور میں حسب وعدہ پہلا فائر کرنے کا موقع منی رام ہی کو دینا چاہتا تھا۔اس سارے عرصے میں میری نگاہیں بکرے پرمرکوز رہیں لیکن نہ جانے کب پپلتیوں کے جھنڈ سے نکل کر تیندوے نے اسے دبوچ لیا۔ خلاف توقع بکرے کی آواز بند ہو گئی ۔

بجلی چمکی اور بکرا مجھے پھر بیٹھا ہوا نظر آیا۔میں سمجھا،شاید خطرہ ٹل گیا اور وہ مطمئن ہو کر دوبارہ بیٹھ گیا ہے مگر اپنے قیاس پر اعتبار نہ آرہا تھا کہ بادل کے تڑاخ کے ساتھ دوبارہ بجلی کو ندی، شبہہ ساہوا، گویا وہ بکرانہ ہو،تیندوا ہو، تاہم روشنی کا وقفہ اتنا کم تھا کہ بارش کی پھوارکے پردے نے پیش منظر واضح نہ ہونے دیا۔نگاہ صحیح کام نہ کر سکی اور ساری قوتیں منتقل ہو کر سماعت پر مرکوز ہو اگئیں اوراب بکرے کے رخ پر میں نے مدہم سی خرخراہٹ کی آواز سنی۔

ایسے موقع پردرندے کی موجودگی کا اطمینان کیے بغیر ٹارچ روشن کرنا غلط اور بسا اوقات خطرناک ہوتا ہے اور پھر یہ اہتمام بھی ضروری ہے کہ فوکس کی ہوئی روشنی کا سب سے روشن دھبہ سیدھا درندے کی آنکھوں پر پڑے، ورنہ دوسری صورت میں یا تووہ چشم زدن میں اچھل کر نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے یا پھر جست لگا کر سیدھا اس جگہ پہنچتا ہے جہاں سے روشنی آرہی ہو۔ ویسے بھی ہم کھلے دالان میں زمین سے صرف چار پانچ فٹ بلند بہت غیر محفوظ بیٹھے تھے۔اسی لیے شبہے کے باوجو مجھے ٹارچ روشن کرنے میں تامل تھا۔

مگر خرخراہٹ کی آواز نے میرا شبہہ یقین میں بدل دیا اور میں نے ٹارچ روشن کر دی۔ تیندوا،بکرے کا نرخرہ منہ میں دبائے اس کا خون پی رہا تھا۔ وہ خون سڑکتا تو بکرے کا سارا جسم سکڑ کر دوہرا سا ہو جاتا اور سانس باہر نکالتا تو پھر اپنی اصلی حالت پر آجاتا۔ اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں اور جسم بھی دھند لا نظر آرہا تھا۔

میں نے اپنی رائفل سے اس کے سر کا نشانہ باندھا اور بائیں کہنی سے منی رام کو اشارہ کیا کہ وہ اپنی بارہ بور سے فائر کرے۔ وہ تیندوے کو پہلے ہی زد میں لے چکا تھا۔ خوف و استعجاب یا پہلی مرتبہ تیندوے پر گولی چلانے کی خوشی کے باعث اس کا سانس پھول رہاتھا۔

منی رام بندوق کا دھکا برداشت نہ کر سکا اور دھماکے کے ساتھ ہی الٹ کر مجھ پر یوں گرا کہ میرا بھی ہاتھ ہل گیا۔ رائفل کی نالی اوپر اٹھ گئی اور اس پر نصب ٹارچ بھی۔ پھر تیندوے کی ’’اونہہ‘‘کی آواز سنائی دی۔سنبھلتے ہی میں نے فوراً رائفل اور ٹارچ کا رخ درست کیا مگراب قرب و جوار میں اس کا کہیں پتا نہ تھا۔وہ کانٹوں کی باڑ اور اس سے ملحق جھاڑیوں کی اوٹ میں نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔

پانی کے تار کے جھلملاتے اور موتیوں کی طرح چمکتے پردے کے پیچھے بے حس و حرکت سیاہ بکرا البتہ اسی جگہ پڑا تھا۔تیندوے سے نا امید ہوتے ہی میں نے ٹارچ فوراً گل کر دی کہ زخمی تیندوا اس کی روشنی میں ہماری کمین گاہ بآسانی پا سکتا تھا۔

شدید خطرے کے احساس سے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور اب سارے حواس مجتمع ہو کر آہٹوں کے لیے وقف تھے۔ ہم خوب جانتے تھے زخمی ہونے کے بعد تیندوا کتنا خوفناک اور خطرناک ہوتا ہے اور انتقام لینے پر آجائے تو اپنے زخموں یا جان کی پرواہ نہیں کرتا۔ ہر ہلکی سی آہٹ ہمارے دل دہلا دیتی۔ایک ایک لمحہ سخت اضطراب اور بے چینی میں کٹ رہا تھا۔ میرے کہنے پر منی رام کھسک کر میری اوٹ میں بیٹھ گیا۔

مجھے اپنی غلطی پر شدید افسوس ہو رہا تھا کہ میں نے منی رام کو پہلے فائر کرنے کا موقع کیوں دیا۔ تیندوے کی ’’اونہہ‘‘ سے یہ یقین تھا کہ ایل جی کے دانے اسے لگے ہیں مگر کتنے لگے اور کہاں لگے؟اس کا کچھ اندازہ نہ تھا۔بارش کی آواز کے سوا مکمل خاموشی تھی۔ تقریباً پانچ منٹ اسی حالت میں گزرے۔پھر کہیں قریب ہی سے تیندوے کے غرانے کی آواز آئی جو رات کے بھیانک سناٹے میں ایسا ہیبت ناک ارتعاش پیدا کر رہی تھی کہ پھونس کی ٹٹی کی جگہ شیشے کی کھڑکی ہوتی تو شیشہ ضرور ٹوٹ جاتا، پھر تیندوا زور سے دھاڑا۔

منی رام خوفزدہ ہو کر مجھ سے لپٹ گیا۔ یہ حملے کا الارم تھا اور تجربے کے مطابق اسی لمے تیندوے کو جھپٹ کر حملہ کرناتھا۔میں گھبرا کر ٹارچ روشن کرنے ہی والا تھا۔میرے ہاتھ نے جسے آگے بڑھ کر نالی پر نصب ٹارچ کا سوئچ آن کرنا تھا،اپنی جگہ سے ہلنے سے انکار کر دیا۔ دستے کو اور مضبوطی سے گرفت میں لے لیا اور انگلی رائفل کی لبلبی سے ہٹنے پر آمادہ نہ ہوئی۔یہ بھی اچھا ہوا،ورنہ اس وقت روشنی ہو جاتی تو تیندوا نظر آئے بغیر بآسانی روشنی کے منبع پر جست کر سکتا تھا۔

کچھ دیر دلوں میں ہلچل، مگر گردوپیش میں سکوت رہا، پھر تیندوے کی آواز سے سنائی دی اور ہماری جان میں جان آئی۔

بسوڑا کا مکان گاؤں کے شمالی سرے پر تھا۔ ان خطرناک حالات میں جنوبی سرے پرتقریباً پچاس ساٹھ گز دور رکھی رام کی بکھری تک جانا خطرناک بھی تھا اور مشکل بھی اور وہاں بیٹھے رہنا بھی فضول اور لا حاصل،کیونکہ فائر کے بعد تیندوے کا بکرے کے لیے لوٹنا تقریباً ناممکن تا۔

قدرے توقف کے بعد میں نے بڑھ کر بسوڑا کی کنڈی کھٹکھٹائی۔فائر کے بعد وہ جاگ رہا تھا اور ہمارے سگنل کا منتظر تھا۔ آہٹ پاتے ہی اس نے فورًا دروازہ کھول دیا۔ رات ہم نے اس گھر بسر کی۔

تیندوے کے زخمی ہونے کے بعد میرے لیے مہم کا ترک دینا ممکن نہ رہا کیونکہ بہت جلد اس کے آدم خور بن جانے کا امکان تھا۔ دکھتے ہوئے زخم یا ناکارہ عضو کے باعث درندوں میں وہ توانائی اور چستی نہیں رہتی جو جنگلی جانوروں کو پکڑنے اور ہلاک کرنے کے لیے ضروری ہے۔جنگل میں بھوکا مر جانے کے خوف سے وہ پالتو مویشی ہڑپ کرنے کے لیے بستیوں کا رخ کرتا ہے۔ جان کی بازی لگا کر کسی انسان پر حملہ کر بیٹھتا ہے اور اسے حیرت ہوتی ہے کہ اس سے پہلے ایسا کیوں نہ کیا۔ یہ شکار تو سب سے آسان،سب سے مزیدار اور سب سے نرم ہے۔نہ کھال میں سختی، نہ ہڈیوں میں،نہ سینگوں کا ڈر نہ کھروں کا خدشہ۔پھر گوشت بھی نمکین اور لذیذ!

میں نے منی رام سے اس کی کم ہمتی کے بارے میں اس وقت کچھ نہ کہا۔دوسرے روز جب میں اپنی مہم پر روانہ ہونے لگا تو اسے نرمی سے منع کر دیاکہ جنگل میں زخمی تیندوے کی تلاش سخت خطرناک ہے،اس لیے اسے ساتھ لے جانا مناسب نہیں۔وہ اداس ضرور ہوا لیکن قرین مصلحت یہی تھا، جلد مان گیا۔

ہم نے اپنی جستجو کا آغاز اسی جگہ سے کیا جہاں مردہ بکرا پڑا تھا۔ معلوم ہوا تیندوا اسے کھانے کا موقع بالکل نہ پا سکا، صرف خون ہی پیا تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ بھوک مٹانے کے لیے دو تین روز کے اندر ہی اندر کوئی واردات کرے گا۔ اس کے پنجوں کے اکا دکا نشانات سے یہ بھی واضح ہوا کہ وہ گاؤں کے شمالی رخ کے جنگل میں گیا۔ یہ جنگل بسوڑا کے گھر سے دو چھوٹے چھوٹے کھیتوں کے بعد ہی بڑے پہاڑ کے دامن سے شروع ہو کر بتدریج بلند ہوتا چلا جاتا ہے۔ترائی میں چند ڈھاک اور ببول کے درخت اور کروندوں اور جھڑبیری کی جھاڑیاں ہیں۔اس کے بعد تیندو،اچار،کاکیں،بڑ،بہیڑہ،آنوالہ اور کھیر(کتھا)کے درخت ہیں۔پہاڑی کی بلندی پر ساگوان کے پیڑ بھی ہیں۔پیپلی اور بابڑنگ کی تو بھر مار ہے۔

میرے ہمراہ وہ مضبوط گوند جگو اور چھدامی تھے۔جگو کے پاس دھنی رام کو بارہ بور تھی اور چھدامی نے اپنی بھر مار بندوق پر برچھے کو ترجیح دی تھی کہ نمی اور سیلن کے سبب برسات کے موسم میں بارود آگ نہیں پکڑتا اور بھرمار کا چلنا مشتبہ ہو جاتا ہے۔باہمی مشورے کے بعد طے پایا پہاڑ پر چڑھتے ہوئے بیس تیس گز کا فاصلہ رکھیں گے۔یوں ہم دو مختلف مقامات سے جنگل میں داخل ہوئے گھنی جھاڑیوں اور درختوں سے پٹے ہوئے کٹے پھٹے پتھر یلے راستے پر ہماری رفتار بے حد سست تھی۔ پہاڑی تقریباً پانچ سو فٹ بلند تھا۔چلتے چلتے ہم ادھرادھر پتھر بھی پھینکتے جاتے کہ تیندوا کسی جھاڑی یا غار میں چھپا ہو تو باہر نکل آئے۔ ابھی ہم بمشکل دو سوفٹ چڑھے ہوئے کہ جگو کے چیخنے کی آواز آئی اور پھرفائر ہوا جس کے ساتھ تیندوا غرایا۔ میں تیزی سے اس طرف بڑھا، پھرکراہنے کی آواز کے ساتھ ہی پاڑی کی بلندی پر ایک بھیڑ نے خوفزدہ انداز میں چیخنا شروع کر دیا۔

آدم خور درندوں کا شکاری (قسط نمبر 26)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں