آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر26)

 

آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر26)


بھیڑ(BARKING DEER)کی آواز دور ہٹتی چلی گئی اور یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ تیندوا اسی جانب گیا ہے۔اب میں نے جگو کو آواز دی:

’’جلدی پہنچو بھیا۔‘‘چھدامی کی آواز آئی۔

کانٹوں اور پتھروں سے بچتا بچاتا میں بمشکل ان تک پہنچا اور خونی منظر دیکھ کر لرز اٹھا۔جگو اوندھے منہ خون میں لت پت پڑا تھا۔ قمیض تار تار تھی اور پیٹھ کا گوشت یوں ادھڑا ہوا تھا کہ پسلیاں باہر جھانک رہی تھی۔ گردن بری طرح چبائی ہوئی تھی۔ سامنے بارہ بور بندوق رکھی ہوئی تھی۔ اس سے تقریباً دس گز دور چھدامی پڑا ہوا تھا جس کے بائیں رخسار کا گوشت ادھڑ کر لٹکا ہوا تھا۔ دائیں کوہلے کا ایک لوتھڑا دور پڑا تھا۔ پیٹ پھٹ گیا تھا اور آنتیں باہر نکل آئی تھی۔جگو بے ہوش تھا۔

چھدامی نے سسکتے ہوئے بتایا، تیندوا گھنی جھاڑیوں میں ڈھکی ہوئی چٹان کی اوٹ میں چھپا رہا اور جونہی جگو آگے بڑھا،اس نے عقبی رخ سے جست کرکے اس پر حملہ کر دیا۔ اسے سوچنے کا موقع ہی نہ ملا اور وہ اوندھے منہ گر پڑا۔ اس کے چیخنے کی آواز سن کر میں لپکا مگر اس سے پہلے کہ میں جگو کی مدد کر سکتا، تیندوا اس سرعت سے اس پر جھپٹا کہ پہلے ہی حملے میں اپنے نوکیلے پنجے کے بھرپور وار سے اس کا بایاں رخسارادھیڑ یا، دوسرا پنجہ پیٹ پر یوں مارا کہ سارے کا سارا پھٹ گیا۔ تیندوے کا وزن برچھے پر پڑا تو وہ میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ میں نیچے گرا اور تیندوے نے مجھے بھنبھوڑنا ہی چاہاتھا کہ جگو نے بندوق کی لبلبی دبا دی۔دھماکے سے دہشت زدہ ہو کر تیندوا بھاگ کھڑا ہوا۔ وہ دونوں زخموں سے چور تھے اور چند منٹ بعد انہوں نے دم توڑ دیا۔

’’یہ سب کچھ میری غلطی سے ہوا۔‘‘میں نے افسوس کرتے ہوئے چھدامی کی بیوہ سے کہا۔

’’نہیں مالک، تمہاری کیا غلطی؟ان کی موت ایسے ہی لکھی تھی ‘‘

وہ روتے ہوئے برابر کھڑی عورت سے بولی:’’دیکھو ناری، بندوق سوؤ ساتھ نہ ہتی!پن موت جوبدی تھیٖ!سوئی تو کچھو نہ کرتی بنو۔‘‘

سارا گاؤں اکٹھا ہو چکا تھا،سب لوگ سوگوار تھے اور میں شرمندہ اور پشیمان اپنی قیام گاہ میں سرنہوڑائے بیٹھا تھا۔ میری پوری شکاری زندگی میں ایسا اتفاق کبھی نہ ہوا تھا۔

دوسرے دن بارش تھم گئی اور تھوڑے تھوڑے وقفوں کے لیے دھوپ بھی نکلتی رہی۔موسم بہتر ہو گیا لیکن ابھی تک میں فیصلہ نہ کر سکا تھا تیندوے کو کیونکر تلاش کروں گا۔ پھر خاموشی سے تنہا جنگل کی جانب روانہ ہوا۔ پہاڑ کے دامن میں دونوں بدنصیبوں کی چتاؤں سے ابھی تک دھواں اٹھ رہا تھا اور ہوا بند ہونے کے سبب جلے ہوئے گوشت کی بو سے فضا مکدر تھی۔آگے بڑھا اور پہاڑی کی چوٹی تک جا پہنچا۔دوسری جانب اترنے تک کوئی واقعہ پیش نہ آیا۔ اب میں پہاڑ کے دامن کے ساتھ ساتھ چھوٹی سی نہر کی پٹری پر چل رہا تھا۔ قریب ہی پونڈی بڑا قصبہ تھا جہاں چاروں طرف کے دیہاتی سودا سلف خریدنے آتے جاتے رہتے۔وہاں جاکر لوگوں کو آدم خور تیندوے سے خبردار کرنا بہت ضروری تھا۔چھوٹے لال بنیے کی دکان میں تیندوے کی گزشتہ واردات کا ذکرکرہی رہا تھا کہ دو دیہاتی جو نمک خرید رہے تھے،چونک پڑے۔

’’یہ واردات کل دس گیارہ بجے کے لگ بھگ ہوئی تھی؟‘‘ان میں سے ایک نے سوال کیا۔

’’ہاں!شاید ساڑھے دس بجے تھے۔‘‘

’’پھر تو گڑ بڑ ہے۔‘‘اس نے اپنے ساتھی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔’’بھگوان داس کو آنا تو جرور تھا۔‘‘

ان کے چہروں پر تشویش کے آثار دیکھ کر میں نے سبب پوچھاتو انہوں نے بتایا کہ وہ یہاں سے پانچ میل دور، دیوری گاؤں کے رہنے والے ہیں۔گزشتہ شام ہمارے ایک ساتھی بھگوان دس کو ساتھ ہی پونڈی آنا تھا۔ پروگرام یہ تھا وہاں مزے سے رام لیلا دیکھیں گے اور دھڑمشالے میں شب گزار کر دوسرے دن کچھ نون تیل خرید کر ساتھ ہی دیوری واپس جائیں گے۔

’’پھر بھگوان داس کہاں گیا؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’اسے کوئی کام تھا۔اس نے کچھ دیر بعد روانہ ہونے کا وعدہ کیا تھا مگر نہ جانے کیا بات ہے،آیا نہیں۔‘‘

’’کسی اور ضروری کام میں لگ گیا ہوگا۔‘‘میں نے کہا۔

’’نہیں،اسے ضرور آنا تھا۔ دیوری میں کوئی اورکام تھا بھی نہیں۔‘‘ ان میں سے ایک بولا۔

چھوٹے لال بنیے کے یہاں کچھ دیر بیٹھ کر اور جلپان سے فارغ ہو کر میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد تھانے پہنچا، وہاں نہر کا ایک جمعدار پہلے ہی سے موجود تھا۔ اس نے بتایا دیوری سے تقریباً دو میل دور نہر کی پٹری کے پاس جنگل میں اس نے ایک آدمی کی لاش دیکھی ہے۔کسی جانور نے اسے کھایا ہے۔

اس نے جس مقام کا ذکر کیا، وہ اسی دائرے میں آتا تھا جہاں تیندوے کی موجودگی کا امکان تھا۔ جمعدار کے ساتھ ہم چھوٹے لان کی دکان پر آئے۔اتفاق سے دیوری کے دونوں آدمی ابھی وہیں موجود تھے ۔ان سے بھگوان داس کا حلیہ پوچھا تو ن ہر کے جمعدار کی دیکھی ہوئی لاش کے عین مطابق تھا۔ ہم کسی تاخیر کے بغیر جمعدار کی رہنمائی میں نہر کی پٹڑی پٹڑی لاش تک پہنچے۔چہرہ قابل شناخت نہ تھا۔ آنتیں اور پیٹ کے ساتھ کمر کا کچھ حصہ بھی کھایا جا چکا تھا۔ چہرے، سینے اور کولہوں پر بھی گوشت باقی نہ بچا تھا۔پھٹے ہوئے لباس اور کالے رنگ کی بنڈی سے نکلنے والے تمباکو اور چونے کی ڈبیا سے لاش کی شناخت ہوئی۔وہ بھگوان داس ہی تھا۔

دن ڈھل چکا تھا اور میرے اصرار پر لاش اسی جگہ چھوڑ دی گئی۔میں نے نہر کے کنارے ہی آم کے ایک موزوں درخت پر جلد جلدی الٹی سیدھی ایک مچان بنوائی اور سب کو رخصت کر کے اس میں چھپ گیا۔دونوں دیہاتی،پولیس کا حوالدار، نہر کا جمعدار اور دو تین دوسرے آدمی جو پونڈی سے ساتھ آئے تھے،دیوری چلے گئے۔

جب میں چلا تھا اس وقت دن تھا اور اس المناک سانحے کا گمان بھی نہ تھا۔ میں اپنے ساتھ ٹارچ نہ لایا تھا۔ پونڈی میں بھی اس کا خیال نہ آیا۔ اب اسے حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ تھا نہ وقت، چنانچہ میں نے اندھیرے ہی میں قسمت آزمانے کا فیصلہ کرلیا۔بھگوان داس کی چونے کی ڈبیا کام آئی اور اپنی نوایم ایم ماؤزر رائفل کی نالی دو دو انچ کے فاصلے پر چونے کی ٹپکیاں لگا دیں۔دیدبان بھی سفید کر دیے کہ کچھ تو نظر آتے رہیں۔

تیندوے کے آنے کی امید کم تھی، کیونکہ لاش کا بڑا حصہ کھایا جا چکا تھا، پھر بھی چند فیصد امید یوں بندھی تھی کہ شاید اس نے حسب عادت صرف آنتیں اور پیٹ کھایا ہواور بقیہ گوشت دوسرے جانور چٹ کر گئے ہوں اور اس رات گوشت کھانے کے لیے وہ چلا آئے۔

سورج پہاڑ کی اوٹ میں اوجھل ہو رہا تھا، تاہم ابھی غروب نہ ہوا تھا کہ بارش پھر شروع ہو گئی۔موسلادھار بارش کے موٹے موٹے قطرے تڑا تڑ میری برساتی اور سر پر گرنے لگے۔آم کے پتے سایہ نہ کیے ہوتے تو وہاں بیٹھنا مشکل ہو جاتا۔ اب گہرا اندھیرا ہو چکا تھا گہرا کہ قریب رکھی ہوئی رائفل بھی نظر نہ آتھی تھی۔میں نے اس کی نالی برساتی میں چھپالی تھی کہ چونا بہہ نہ جائے اور دل ہی دل میں دعائیں مانگ رہا تھا،بارش تھم جائے۔ساتھ ہی یہ بھی کہ بجلی برابر چمکتی رہے۔وہی ایک روشنی تھی جس میں مجھے پندرہ گز دور پڑی ہوئی لاش نظر آجاتی تھی۔جنگل کا ماحول رات میں یوں بھی کیا کم بھیانک ہوتا ہے،پھر برسات کی رات میں مسخ شدہ لاش کے احساس نے ماحول اور بھی دہشت ناک بنا دیا تھا اور پھر لاش بھی ایسی مسخ کہ بغیر گوشت کا چہرہ کھانے کو آتا تھا۔رات جوں جوں گزرتی رہی، دل کی دھڑکن تیز ہوتی چلی گئی۔بارش دھیمی ہوئی،دور کہیں بھیڑ کے چیخنے کی آواز آئی ۔اب میرے کان کھڑے ہوئے اور نگاہیں لاش پر یوں مرکوز ہوئیں کہ ایک لمحے کے لیے بھی اسے اوجھل کرنے کو تیار نہ تھیں۔

گھڑی دیکھی۔ ریڈیم کی سوئیوں نے گیارہ بج کر دس منٹ کی اطلاع دی۔بجلی چمکی۔۔۔میں نے نہر کی پٹڑی پر ایک سایہ چلتا ہوا دیکھا۔ فوراً رائفل سنبھال لی مگر اس کے پیچھے تین چار اوربھی ویسے ہی سیاہ دھبے رینگتے ہوئے نظر آئے۔ان کا رخ لاش کی جانب نہ تھا بلکہ وہ پٹڑی ہی پٹڑی آگے بڑھتے جارہے تھے۔یقیناً وہ سورتھے جو جنگل سے نکل کر کھیت اجاڑنے جارہے تھے۔

بارہ بجنے میں پانچ منٹ باقی تھے جب میں نے لاش کے قریب ایک سایہ امڈتا دیکھا اور اسے رائفل کی زد میں لے کر بجلی چمکنے کا انظار کرنے لگا۔بدقسمتی سے بجلی چمکنے میں وقفہ لمبا ہو گیا اور جب وہ چمکی تو یہ دیکھ کر میرے اوسان خطا ہو گئے کہ لاش غائب تھی۔ آس پاس کی جھاڑیوں میں بھی جھانکنے کی کوشش کی مگر نظر نہ آئی۔ ضرور تیندوا اسے اٹھا کر جھاڑیوں میں روپوش ہو گیا اور میری ساری محنت اکارت گئی۔

میں سخت الجھن میں تھا اور سمجھ میں نہ آتا تھا کیا کروں۔دفعتاً جھاڑیوں میں سے غرانے کی آواز آئی۔ پھر کوئی جانور گھبرا کر وہاں سے نہر کی جانب بھاگا۔ دوسرے ہی لمحے اندھیرے میں درندوں کی خوفناک آوازیں آنے لگیں۔میرے مچان کے عین نیچے تیندوے اور لگڑ بگڑ کی لڑائی ہو رہی تھی۔روشنی ہوئی تو بڑا دلچسپ منظر سامنے آیا۔ لڑائی اس قدر تندوتیز تھی کہ تیندوا بجلی کی سی تیزی سے اپنی جگہ بدلتا رہا اور مجھے گولی چلانے کا موقع نہ مل سکا۔

میں سمجھ گیا تھا لاش ہٹانے والا لگڑ بگڑ ہے اور ابھی شاید کھانا بھی شروع نہیں کر سکا تھا کہ دوسرے رخ سے تیندوا وارد ہوا۔لاش کی حالت اور لگڑ بگڑ کی اس درید جرات پر طیش میں آگیا اور اس پر ٹوٹ پڑا۔میں جانتا تھا، لگڑ بگڑ کو ہلاک کرنے سے پہلے ہی دونوں پھر جھاڑیوں میں چلے گئے تو تیندوا کبھی ہلاک نہ کیا جا سکے گا۔ میرا دل بے تحاشا دھڑک رہا تھا اور امید وبیم کی کشمکش سوہان روح بنی ہوئی تھی۔

بجلی پھر چمکی ۔میں نے دیکھا لگڑ بگڑ ہار مان کر چت لیٹ گیا ہے۔اس نے اپنے مڑے ہوئے پاؤں اوپر اٹھا رکھے تھے اور گھگھیائی ہوئی کوں کوں کے ساتھ غلطی کی معافی اور جان کی امان مانگ رہا تھا۔ ایسے حالات میں بالعموم شیر یا تیندوے اپنے شاہانہ وقار کو مجروح نہیں ہونے دیتے اور مقابل درندے کی جان بخشی کی التجا کو نہیں ٹھکراتے مگر تیندوا سخت غصے میں آپے سے باہر تھا۔ کوں کوں کی آواز ایک وحشت ناک چیخ میں بدلی۔پھر شدید دردو کرب کی کراہ بن کر ماحول کی وحشت میں اور اضافہ کر گئی۔اب نگاہ پڑی تو لگڑ بگڑ کی انتڑیاں اس کے قریب ہی ڈھیر تھیں اوروہ انہیں پر تڑپ رہا تھا۔ تین چار گز دور کھڑا ہوا تیندوا بڑے پر نخوت انداز میں اس غریب کی موت کا تماشا دیکھ رہا تھا۔

اب تیندوے نے اپنے پچھلے اور اگلے پیروں کا فاصلہ بڑھایا اور پیٹھ اور کمرا کڑا کر انگڑائی سی لی۔میرے سامنے وہ آڑا پڑتا تھا اور یہ بات میرے لیے غیبی امداد سے کم نہ تھی، اس لیے کہ بغیر ٹارچ کے رائفل سے سریا دل کو نشانہ بنانا قریب قریب نا ممکن تھا۔مجھے اندازہ تھا کہ انگڑائی کے ساتھ ہی تیندوا ڈھار کر اپنی فتح کا نعرہ لگائے گا مگریہ خدشہ بھی کہ دھاڑتے ہی جست کرکے جھاڑیوں میں روپوش ہوجائے گا۔ میں نے اندازے سے اس کی بغل اور پسلیاں زد میں لیں اورابھی اس کافاتحانہ نعرہ گونجنے بھی نہ پایا تھا کہ میری رائفل کی گرج میں مدغم ہو کررہ گیا۔ بجلی چمکی، وہاں صرف لگڑ بگڑ پڑا تڑپ تڑپ کر دم توڑ رہا تھا اور تیندوے کا کوئی پتا نہ تھا۔ شاید گولی نہیں لگی۔ میں نے سوچا ویسے بھی ان نا مساعد حالات میں گولی کا نشانے پر لگنا شاید ناممکن تھا۔

بوندیں پڑنی بند ہو چکی تھیں اور بادلوں کے درمیان اکا دکا تارے بھی نظر آنے لگے تھے۔ ابھی دو چار منٹ بھی نہ گزرے ہوں گے کہ قریبی جھاڑیوں میں ہنگامے یا غرانے کی خوفناک آوازیں آنے لگیں،بالکل ویسی ہی جیسے تیندوے اور لگڑ بگڑ کی لڑائی کے وقت آئی تھیں۔چار پانچ منٹ بعد خاموشی طاری ہو گئی۔

میں درخت پر دن نکلنے کا انتظار کرتارہا۔سورج نکلنے کے بعد نیچے اترا اور بھری ہوئی رائفل سنبھالے نہایت محتاط قدموں کے ساتھ ان جھاڑیوں کی جانب بڑھا جس طرف گولی لگتے وقت تیندوے کا منہ تھا۔ ایسے مواقع پر تیندوا اسی جانب جست کرتا ہے جدھر اس کا منہ ہو۔

میں ابھی دس گز بھی نہ گیا تھا کہ جھاڑی کے اندر تیندوا نظر آیا۔ اس نے اپنا سر اپنے اگلے پنجوں پر ڈال رکھا تھااور لہولہان تھا۔ قریب ہی بھگوان داس کی لاش کے ٹکڑے ادھرادھر اس طرح پڑے تھے،گویا کسی نے کلہاڑی کے کاٹ کر پھینک دیئے ہوں۔سر اور سینہ البتہ ابھی تک قاتل تیندوے کے اگلے پنجوں میں دبے ہوئے تھے۔اس نے اپنا سارا غصہ غریب بھگوان داس کی لاش پر ہی اتارا تھا۔ جس طرح وہ اسکی لاش کو کھارہا تھا سے دیکھنے کی کوئی تاب نہیں رکھتا۔ میں نے ایک پتھر اٹھا کر اس کی طرف پھینکا۔ اس نے آہستہ سے سر اٹھایا۔ غنودگی میں ڈوبی ہوئی آنکھیں کھولیں ۔مجھے دیکھا اور سر اپنے پنجوں پررکھ کر آنکھیں بند کرلیں۔شاید اس میں ہلنے جلنے کی سکت نہ رہی تھی اور کوئی دم کا مہمان تھا۔پھر بھی اس کی شہر آفاق مکاری نے مجھے پس و پیش کا موقع نہ دیا اور میری دوسری گولی اس کے ماتھے پر پڑی۔تقریباً سات آٹھ گز سے گولی کا دھکا اتنا زبردست تھا کہ وہ اپنی جگہ سے پڑے پڑے گھوم گیا۔ کھوپڑی کی ہڈی کا چھوٹا سا حصہ گولی کے ساتھ اڑ گیا اور بھیجے کے ٹکڑے بکھر کر جھاڑیوں سے چمٹ گئے۔پھر بھی بدن تھر تھرایا یا شاید اس وقت تک جان نہ نکلی تھی۔میری پہلی گولی اس کے پیٹ میں لگی تھی۔بھگوان داس کے قاتل کو بھی اسی طرح مرنا چاہئے تھا ۔

میں نہر کی پٹڑی پر بیٹھا دیوری سے مدد کا انظار کررہا تھا کہ سائیکل پر بندوق سنبھالے پونڈی کی طرف سے منی رام تنہا آتا نظر آیا۔ مجھے اس لڑکے کی جرات اور بے خوفی پر حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی۔

وہ میرے رات بھرغائب رہنے کے سبب پریشان تھا۔ علی الصبح اس نے سائیکل اور بندوق اٹھائی اور تین چار میل دور ایک گھاٹی سے پہاڑ پارکرکے تنہا پونڈی پہنچا۔شاید میں نے اس سے ذکر کیا تھا کہ گونڈوں کی موت کی رپورٹ درج کروانے پونڈی جاؤں گا۔وہاں سے اسے میرا پتا ملا تو خبر لینے دوڑتا ہوا میرے پاس پہنچا۔ مجھے بخیر و خوبی پاکر خوشی سے اس کے آنسو نکل آئے۔دیوری کے لوگوں کی آمد کے بعد میں نے تیندوے کو منی رام کی سائیکل کے کیرئیر پر لاددیا کہ وہ اسی راستے سے اودھ پورہ آجائے۔منی رام کے آنے کے بعد سائیکل کے ساتھ ہی یادگار کے طور پر اس کی اور تیندوے کی تصویر اتاری۔ یہ شکار اسی کا تو تھا کہ سب سے پہلے اسی کی گن شاٹ کا دانہ تیندوے کی ران پر لگا اور اسے زخمی کر گیا تھا۔

یادگارباقی ہے۔رہا منی رام، تو دوسرے ہی برس ٹائیفائڈ میں مبتلا ہو کر اپنی بہن شانتی سے جا ملا۔

****

آدم خور درندوں کا شکاری (قسط نمبر 27 آخری)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں