آدم خور درندوں کا شکاری (قسط نمبر 27 آخری)

 

آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر27 آخری)

بھوک کے مارے میری حالت انتہائی غیر ہوئی جارہی تھی۔میں نے بے صبری سے آگ پر رکھے ہوئے برتن کا ڈھکنا اٹھایا۔ سوندھی سوندھی خوشبو نتھنوں میں گھس گئی۔میں اپنے چچا اور ان کے ایک ریڈ انڈین ملازم کے ساتھ شکار کے لیے آیا ہوا تھا۔ ہم صبح سے لے کر شام تک گھوڑے کی پشت پر ہرنوں کا پیچھا کرتے رہے تھے اور میرے جسم کا انگ انگ دکھ رہا تھا۔اس پریہ پشیمانی مستزاد کہ ایک بھی ہرن ہاتھ نہ آیا تھا۔خیمے کے سامنے گرے ہوئے درخت کے تنے سے ٹیک لگا کر میں نے ٹانگیں پھیلا دیں۔اسی اثناء میں دریا کی جانب سے چچا جم آتے دکھائی دیے۔ان کے ایک ہاتھ میں بالٹی تھی اور دوسرے میں تین موٹی موٹی شکر قندیاں۔ ان پر سرخ مٹی کی تہہ جمی ہوئی تھی۔پانی کی بالٹی انہوں نے ایک طرف رکھی اور تینوں شکر قندیاں آگ میں دبا دیں،پھر میری طرف دیکھ کر مسکرائے اوربولے:


’’جانتے ہو ،بھنی ہوئی شکر قندی بڑی لذیذ ہوتی ہے۔‘‘

شاید وہ میری تھکاوٹ کا احساس کرتے ہوئے مجھے خوش کرنا چاہتے تھے۔میں نیم دلی سے مسکرانے لگا۔

’’ہاں چچا،آپ درست کہتے ہیں۔سرما کی یخ بستہ راتوں میں بھنی ہوئی شکر قندی بڑا مزا دیی ہے۔‘‘

چچا جم نے کنکھیوں سے مجھے دیکھا:’’ہونہہ،معلوم ہوتا ہے تم نے پہلے بھی کبھی چکھی ہیں۔‘‘یہ کہہ کر اس نے کھانا آگ سے اتارااور پلیٹ میں ڈال کر سامنے رکھ دیا۔میں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کھانا لیا اور جلدی جلدی زہر مار کرنے لگا۔ خنک ہوا کا ایک جھونکا آیا اور مجھے تخیلات کی دنیا میں اڑا لے گیا۔

ہم ہر سال اس موسم میں شکار کھیلا کرتے تھے۔چچا جم ہماری شکایر پارٹی کے لیڈر ہوتے۔گزشتہ سال ہم نے جنگلی سوروں سے دو دو ہاتھ کیے تھے۔یہ انتہائی خوفناک مہم تھی۔ اس میں ہمارا تیسرا ساتھی جوپیل، چچا جم کا ریڈ انڈین ملازم، ایک مشتعل جنگلی سور کے حملے سے بال بال بچا تھا۔

ہوا یوں کہ ہم وسطی امریکہ کے ایک دریا میں سفر کررہے تھے۔صبح کا وقت تھا۔ ہماری لانچ دریا کی موجوں سے اٹھکیلیاں کرتی ہوئی رواں دواں تھی۔ میں جنگل سے ٹیک لگائے گرما گرم کافی سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ میرے کانوں میں سنکھ کی آواز آئی جو وقفوں سے بلند ہو رہی تھی۔ میں نے چچا اور جوپیل کی اس طرف متوجہ کیا۔ انہوں نے آواز پر کان لگا دیے، پھر جوپیل بولا:

’’کوئی ریڈ انڈین ہم سے بات کرنا چاہتا ہے،وہ اپنی کشتی میں ہمارے پیچھے آرہا ہے۔‘‘

چچا جم نے ڈرائیور کو ہدایت کی کہ لانچ کی رفتار کم کر دے۔تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ریڈ انڈین کی مخصوص طرز کی کشتی اپنی طرف بڑھتی ہوئی نظر آئی۔دونوجوان ریڈ انڈین لمبے چپوؤں سے کشتی کھے رہے تھے اور ایک ادھیڑ عمر کا شخص ہاتھ میں سنکھ پکڑے کشتی میں کھڑا تھا، جوپیل نے انہیں شناخت کرلیا اور بتایا کہ یہ لوگ مسکیٹو قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔اس اثناء میں کشتی، لانچ کے بالکل قریب پہنچ گئی۔ لٹکی ہوئی رسی کی مدد سے ادھیڑ عمرکا آدمی ہماری لانچ پر آگیا اور جو سے مقامی زبان میں باتیں کرنے لگا۔ جونے بتایا کہ یہ مسکیٹو قبیلے کا سردار جورابیلا ہے۔اس کے ساتھ اس کے دو بیٹے لاکا اور پیک ہیں۔یہ ہمیں اپنے علاقے میں جنگلی سوروں کے شکار کی دعوت دینے آئے ہیں۔

جنگلی سوروں کا شکار بڑا مشکل ،دلچسپ اور جوش انگیز ہوتا ہے۔چچا نے فوراً دعوت قبول کرلی۔ ہم نے لانچ سے بندھی ہوئی ڈونگی کھولی، بندوقیں وغیرہ لیں اور ان لوگوں کے ساتھ ہو لیے۔کچھ دور تک بڑے دریا میں سفر کرنے کے بعد ہم اس کی ایک معاون ندی کے دہانے میں داخل ہوئے۔تقریباً چار سوگز مزید آگے جاکر ہم نے کشتیاں کنارے سے لگا دیں۔خشکی پر اترے اور وسیع و عریض جنگل میں گھس گئے۔ریڈ انڈین تیر کمان، لمبے نیزوں اور چوڑے پھل والے چھروں سے مسلح تھے۔آھ گھنٹے کے سفر کے بعد جورابیلا اور اس کے بیٹے کچھ محتاط سے ہوگئے۔انہوں نے ہمیں بھی خاموش رہنے کا اشارہ کیا:

”ہم جنگلی سوروں کے قریب پہنچ چکے تھے۔“جوپیل نے میرے کان میں آہستہ سے کہا:”میں ان کی بوسونگھ رہا ہوں۔“

لاکا آہستہ سے چند قدم آگے بڑھا اور جھک کر جھاڑیوں کی اوٹ سے دیکھنے لگا،پھر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے سر کو جنبش دی۔

”لاکا نے سوروں کا سراغ لگا لیا ہے“۔جوپیل نے سرگوشی کے انداز میں کہا۔

اب ہم جورابیلا کی ہدایت پر نصف دائرے کی شکل میں آگے بڑھے۔ریڈ انڈین پرندوں کی آوازوں سے ملتی جلتی سیٹیاں بجا کر ایک دوسرے کو ہدایات دے رہے تھے۔میں زندگی میں پہلی بار اس انوکھے تجربے سے دو چار ہو رہا تھا۔میرا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ یوں لگتا تھا، جیسے میری ریڑھ کی ہڈی میں چنگاریاں سلگ رہی ہیں۔اچانک لاکا نے نعرہ بلند کیا اور نیزہ جھاڑی میں دے مارا۔ایک بڑا جنگلی سور تیزی سے لاکا پر حملہ آور ہوا۔لاکا نے فوراً اچھل کر ایک درخت کی شاخ پکڑ لی۔سور کا وارخالی گیا اور وہ نیچے سے گزر گیا۔ اس ناکامی سے اس کے اشتعال میں مزید اضافہ ہوگیا۔

”فائر کرو۔“جوپیل نے چیخ کر کہا:”ورنہ ہماری خیر نہیں۔“

میں نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے گولی چلا دی لیکن نشانہ خطا گیا۔اب جو رابیلا نے کمان سے تیر پھینکا جو سیدھا سور کے شانے پر پیوست ہو گیا۔وہ دوڑتے دوڑتے گر پڑا لیکن پھر اٹھا اور دگنی شدت سے دوبارہ ہم پر حملہ آور ہوا۔اب کے چچا جم نے انتہائی پھرتی دکھائی۔انہوں نے سور کے سر کا نشانہ لیا اور گولی چلا دی۔سور کے پرخچے اڑ گئے اوروہ زمین پر گر پڑا۔

ہم آگے بڑھ گئے۔ایک کھلے میدان میں سوروں کا گلہ اپنے دانتوں میں زمین میں دبی ہوئی جڑیں کھود کھود کر کھا رہا تھا۔ چچا نے مجھے فائرکرنے کا موقع دیا۔میں نے ایک جھاڑی کی اوٹ میں بیٹھ کر گولی چلا دی۔ایک سور ڈھیر ہو گیا۔ فائرکی آواز سے جنگل گونج اٹھا۔ایک سور حلق سے بھیانک آوازیں نکالتا ہوا میری طرف بڑھا۔ جورابیلا نے اس پر تیر چلایا۔ سورنے اپنا رخ موڑا۔ اب وہ پیک کی طرف لپک رہا تھا۔ جب وہ اس کے قریب پہنچا تو پیک اچھل کر ایک طرف ہو گیا۔ اس کی اس پھرتی پر سبھی عش عش کراٹھے۔دراصل خطرے کے وقت حاضر دماغی اور مستعدی ریڈ انڈین باشندوں ہی کا خاصہ ہے۔میں نے اس کا مظاہرہ کہیں اور نہیں دیکھا، حالانکہ میں پورے افریقہ اور یورپ میں شکار کھیل چکا ہوں۔

پیک نے اپنا لمبا نیزہ سور کے شانے کے نیچے جھونک دیا۔اس کی جرات قابل داد تھی کہ وہ اس خوفناک جانور کے ساتھ دوڑتے ہوئے نیزے پر دباﺅ ڈال کر اسے اور زیادہ گہرا جھونکنے کی کوشش کررہا تھا۔ بالآخر سور تکلیف کی شدت سے زمین پر گر پڑا۔پیک نے کمر سے چوڑے پھل والا چھرا جسے”میچٹی“کہتے ہیں،کھولا اور سور پر پے درپے وار شروع کر دیے۔سور نے بھیانک چیخ ماری اور تڑپ تڑپ کر دم توڑ گیا۔ ہم دم بخود کھڑے انسان اور جنگل کے خوفناک جانور کی اس جنگ کو دیکھ کر رہے تھے۔پیک نے جوش مسرت سے نعرہ بلند کیا اور لاش کے گرد رقص کرنے لگا۔

جورابیلا نے اعلان کیا کہ فائرنگ کی آواز سے باقی سور محتاط ہو گئے،اب مزید شکار نہیں ملے گا، لہٰذا واپس چلنا چاہیے۔پیک اور لاکا نے ہلاک کیے ہوئے سوروں کو ایک جگہ اکٹھا کیا، ان یک ٹانگیں جنگلی بیلوں سے باندھیں اور ایک موٹی ٹہنی سے لٹکا کر کندھوں پر اٹھالیا۔ جو رابیلا نے چچا سے پوچھا:

”کیا آپ بھی کچھ حصہ لینا پسند فرمائیں گے؟“

چچا نے اس کے شوق کو دیکھ کر کہا:”نہیں ہم اور شکار کرلیں گے،یہ سب آپ لے جائیں۔“

جورابیلا بے حد خوش ہوا اور اپنے ہاتھ نچا کر شکریہ ادا کرنے لگا۔ ریڈ انڈین کسی کے ممنون احسان ہوتے ہیں تو اسی طرح شکریہ ادا کرتے ہیں۔

ہمیں شکار کے لیے یہ جگہ اتنی پسند آئی کہ اگلے دن بھی یہیں کا پروگرام بنا لیا۔ ڈونگی میں بیٹھ کر ندی میں آگئے۔ چچا اور جوپیل چپو چلا رہے تھے اور میں رائفل تھامے کشتی میں بیٹھا تھا۔ اچانک جونے کنارے پر ایک سور دیکھ لیا۔ اس نے اچھل کر کہا:

”اب میری باری ہے،میں اسے شکار کروں گا۔“ پھر میرے ہاتھ سے رائفل لی نشانہ باندھا اور گولی چلا دی۔سور لڑکھڑا کر گر پڑا۔جو نے نعرہ ماراا ور چپو ہاتھ ہی میں لیے ڈونگی سے کود کر ندی پار کی، جوں ہی وہ سور کے قریب پہنچا ،اس نے ایک بھیانک چیخ ماری اور اٹھ کھڑا ہوا اور پھر جو پرٹوٹ پڑا۔ جونے گھبرا کے سور کے سر پر چپودے مارا۔ چپو کے ٹکڑے ہو گئے اور جولڑھک کر ایک طرف گر پڑا،تاہم وہ فوراً سنبھلا،پھرتی سے اٹھا اور چوڑے پھل والا چھرا نکال لیا۔ سور کا حملہ اتنا شدید تھا کہ اسے وار کرنے کی مہلت ہی نہ ملی۔میں نے ضطرار کی حالت میں ڈونگی میں پڑی ہوئی رائفل اٹھالی۔ چچا جم چیخے:

”کوپرٹریگر مت دباﺅ، جوبھی گولی کا شکار ہو جائے گا۔“

یہ کہہ کر انہوں نے اپنی رائفل لی، ڈونگی سے کودے اور جوکی طرف دوڑے۔میں بھی اس کے پیچھے ہولیا۔ جو سور سے گتھم گتھا ہو چکا تھا۔ کبھی کبھار اس کا چھرے والا ہاتھ اٹھتا اور سور کے جسم پر کاری وار لگا دیتا لیکن وہ خود بھی اس کے تندو تیز حملوں سے لہولہان ہو چکا تھا۔ چچا جم نے جرات سے کام لیا اور سور کو زور سے رائفل کا بٹ دے مارا۔سورنے وحشت ناک آنکھوں سے چچا کو دیکھا۔ ان کی رائفل نے شعلہ اگلا۔ اگلے ہی لمحے سور کا بھیجا اڑ گیا۔ وہ آخری بار کانپا،دھڑام سے گرا اور دم توڑ گیا۔

ہم نے جو کو سہارا دے کر اٹھایا۔اس کی چھاتی پر کئی زخم آئے تھے اور سر سے بھی خون کی ایک تیز دھار ابل کر چہرے کو رنگین کررہی تھی۔ ہم نے اسے اٹھایا اور ڈونگی میں لے آئے۔زخم صاف کیے اور خون روکنے کے لیے پٹی باندھی۔جوپیل کے اوسان بحال ہوئے تو مسکراکر بولا:

’’جنگ کا مزاہی آگیا لیکن میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ گولی کھانے کے بعد وہ کیسے اٹھ کھڑا ہوا؟‘‘

’’اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں۔‘‘چچا نے جواب دیا:’’تمہاری گولی اس کی کھال کو چھوتی ہوئی گزر گئی۔ اس سے سور کچھ دیر کے لیے سن ہو کررہ گیا۔ جب تم قریب پہنچے تو تو اس نے پاگل ہو کر تم پر ہلہ بول دیا۔شکر ہے تمہاری جان بچ گئی۔‘‘

جو کی حالت پھر خطرناک ہو گئی اور بے ہوش ہو گیا۔ ہم ڈونگی میں تیزی سے روانہ ہوگئے اور شہر لے جاکر جوکی کی مہم پٹی کروائی۔ زخم مندمل ہونے میں متعدد ہفتے لگ گئے۔

میں پہلے بتا چکا ہوں کہ چچا جم ہر سال موسم سرما میں شکار کھیلا کرتے تھے۔ اب انہیں اپنے بچھڑے چراگاہوں سے جمع کرکے محفوظ باڑوں میں پہنچاتے دیر ہو گئی،چنانچہ جب شکار پر روانہ ہوئے تو میری موسم سرما کی چھٹیاں ختم ہو رہی تھیں۔پھر بھی میں ضد کرکے چچا کے ہمراہ شکار پر جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ابا جان نے ہدایت کی کہ سکول کھلنے سے پہلے واپس شہر پہنچ جاؤں۔میں نے وعدہ کرلیا۔

کھانا کھانے کے بعد چچا نے کافی تیار کی اور ہم اطمینان سے چسکیاں لینے لگے۔جوپیل گزشتہ تین روز سے غائب تھا۔ میں نے چچا سے اس کے متعلق پوچھا تو وہ بولے:

’’کوپر،میرے بیٹے،کیچی کریک جو کا آبائی علاقہ ہے۔اس کا قبیلہ مدتوں اس علاقے میں قیام پذیررہا۔جب کبھی ہم ان جنگلوں میں شکار کے لیے آتے ہیں تو اسے بے بہا مسرت ہوتی ہے اور وہ ان جنگلوں میں گھومتے گھامتے بہت دور نکل جاتا ہے۔بہرکیف اگر وہ آج بھی واپس نہ آیا تو میں کل اسے ضرور تلاش کرنے جاؤں گا۔‘‘

کافی سے فارغ ہو کر ہم اٹھ کھڑے ہوئے۔آسمان پر آہستہ آہستہ اندھیرے قابض ہوتے جارہے تھے۔دور مغرب میں ’’چوکیدار چٹان‘‘ تاریکی کے دبیز پردے میں لپٹتی جارہی تھی۔ چچا نے خاموشی توڑتے ہوئے کہا:

’’مجھے یقین ہے جوپیل کسی حادثے کا شکار نہیں ہوا ہو گا،تاہم اب اسے جنگلوں میں یوں نہیں گھومنا چاہے، وہ خاصا بوڑھا ہو چلا ہے۔‘‘

جوپیل ایک عجیب و غریب شخص تھا۔وہ چھ سال پہلے چچا کے پاس آیا تھا۔ چچا نے اس کی شخصیت سے متاثرہو کر اسے ملازم رکھ لیا۔ جنگلوں کے بارے میں جوکی معلومات بہت وسیع تھیں۔چچا کی طرح وہ شکار کا زبردست شوقین تھا۔

ہم خیمے میں داخل ہوئے ہی تھے کہ چچا جم ٹھٹک کر کھڑے ہو گئے اور کچھ سننے کی کوشش کرنے لگے۔میں نے بھی کان لگا دیے۔جھاڑیوں میں کسی کے چلنے کی آواز آرہی تھی۔ مڑ کر باہر دیکھا تو جوپیل جھاڑیوں کی اوٹ سے نکل آیا تھا۔اس کے کاندھے پر ایک مردہ ہرن تھا۔ جو لمبے لمبے سانس لے رہا تھا۔اس کا کندھا اور چہرہ ہرن کے خون سے لتھڑا ہوا تھا۔

’’واہ!جو تم نے کمال کر دیا۔‘‘میں نے مسرت سے بے خود ہوتے ہوئے کہا:

’’گزشتہ دوروز سے باسی گوشت کھا کر تنگ آچکا تھا۔آج تازہ گوشت مزے سے کھاؤں گا۔‘‘اور چچا جم ہرن کا جائزہ لینے لگے۔ایک نظر دیکھنے ہی سے پتا چل گیا کہ معاملہ گڑ بڑ ہے۔ہرن کی گردن ٹوٹ کر پیچھے کو مڑی ہوئی تھی۔ اس کی چھاتی اور گلے پر گہرے زخم تھے۔معلوم ہوا سے شیر نے مارا ہے۔

میں تعجب سے دیکھنے لگا۔اس کی آنکھوں میں ایک عجیب وحشیانہ چمک تھی۔ رائفل اسکے بائیں کندھے سے لٹکی ہوئی تھی اور چوڑے پھل کا’’میچٹی‘‘ چھرا اس کی کمر سے لٹک رہا تھا۔

’’کیچی کے جنگلوں میں گزشتہ کئی برس سے کوئی شیر موجود نہیں ہے۔کم از کم اس کی خبر کسی کو نہیں۔‘‘ چچا نے بھی حیرت سے کہا:’’مجھے تو تمہاری بات کایقین نہیں آتا۔‘‘

جوپیل خاموش رہا۔وہ آگ کے قریب بیٹھ کر ہاتھ سینکنے لگا۔چند لمحے بعد بولا:

’’کافی عرصہ پہلے میرا قبیلہ اس علاقے میں رہتا تھا،ایک شیر آگیا تھا، اس وقت یہاں ہر نوں کی بہتات تھی۔ قبیلے کے آدمی ان کے شکار پر گزر اوقات کرتے تھے لیکن شیر کے آنے سے ہرنوں میں کمی واقع ہو گئی۔

’’پیارے جو،یہ کافی عرصہ پہلے کی بات ہو گی۔‘‘چچا جم نے لمبا سانس لیتے ہوئے کہا:’’آج کل ان جنگلوں میں شیر کہاں؟جس شیر کا تم شکار اٹھا لائے ہو،یہ میکسیکو سے آیا ہو گا۔‘‘

جو کوئی جوابدینے کے بجائے ہرن کی کھال اتارنے لگا۔ چچا شاید مطمئن نہ ہو سکے تھے، چنانچہ دوبارہ سوال داغ دیا:

’’ہرن کہاں سے اٹھایا تھا؟‘‘

’’بڑی چٹان کے قریب سے۔‘‘جو نے کہا۔میں سمجھ گیا کہ اس کا اشارہ ’’چوکیدار چٹان‘‘ کی طرف تھا جوپہاڑی سے قدرے آگے نکلی ہوئی تھی۔

’’میں علی الصبح جاکر کتے لے آؤں گا۔‘‘چچا نے کہا:’’پھرہم تمہارے اس شیر کا تعاقب کریں گے۔‘‘

’’نہیں جم، کتوں کی ضرورت نہیں۔‘‘جو تیزی سے بولا:’’میں تنہا اس کا شکار کروں گا، جیسا کہ کبھی میرے باپ نے کیا تھا۔‘‘

چچا یہ سن کر بڑے متعجب ہوئے۔شمال کی طرف سے آنے والی سرد ہوا میں اب تیزی آچکی تھی۔ہمارے جسم سن ہوئے جارہے تھے۔آگ بھی ہمیں گرم رکھنے میں ناکام ثابت ہو رہی تھی۔


’’جو تم کتوں کی مدد کے بغیر شیر کا تعاقب نہیں کر سکتے۔‘‘چچا نے اسے سمجھانے کی کوشش کی:’’کتے اس دس بیس میل کے علاقے میں سراغ لگا لیں گے۔تم سے اتنی مشقت نہ ہو سکے گی۔ تمہاری جوانی کی گرمی ختم ہو چکی ہے۔اب تم بڑھاپے کی سردیوں سے دو چار ہو چکے ہو۔‘‘

جو نے ٹھنڈا سانس بھرتے ہوئے کہا:’’لیکن یہ شیر بھی اسی موسم کا شکار ہو چکا ہو گا۔‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’ٹھیک کہتے ہو جم۔‘‘چچا نے پوچھا۔ساتھ ہی انہوں نے جیب سے سگریٹوں کا پیکٹ نکال کر ایک سگریٹ خود لیا اور دوسرا جوکی طرف اچھال دیا۔جو نے ایک چنگاری سے سگریٹ سلگایا اور لمبا کش لے کر بولا:

’’جب یہ شیر پہلی بار یہاں آیا تھا تو میں کوپر کی طرح لڑکپن کی منزل سے گزررہا تھا۔ ایک بارشیر سے میرے باپ کی مڈ بھیڑ ہو گئی۔انہوں نے اس پر تیر چلائے لیکن بدقسمی سے کمان ٹوٹ گئی۔ بڑی چٹان کے نیچے دونوں میں شدید جنگ ہوئی، میرا باپ ہلاک ہو گیا۔ شیر بھی زخمی ہوا مگر بچ گیا۔ اس نے دوبارہ ہرنوں کا شکار شروع کر دیا۔

نتیجہ یہ ہوا کہ ہم لوگ خوراک کی قلت کا شکار ہو گئے اور پورا قبیلہ یہاں سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گیا۔ بہت سے لوگ موسم کی سختیوں اور بھوک کا لقمہ بن گئے۔ اب اس علاقے میں میرے قبیلے کا کوئی آدمی نہیں رہتا۔‘‘

اچانک دور شیر کی زبردست دھاڑ سے جنگل گونج اٹھا۔میرے تو رونگٹے کھڑے ہوگئے۔چچا بھی کافی پریشان تھے، ان کے ہاتھ میں کافی کا پیالہ لرز رہا تھا، تاہم انہوں نے مجھے تسلی دی:

’’کوپر، پر سکون رہو، درندہ ہم سے کافی دور ہے۔‘‘

جو کے لبوں پر پراسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ اس نے رائفل پکڑی اور کہنے لگا:’’خدا حافظ دوستو، میں شیر سے دودو ہاتھ کرنے جارہا ہوں۔‘‘

’’جو احمق مت بنو۔تم رات کے اندھیرے میں اس کا سراغ نہ لگا سکو گے۔آرام سے بیٹھو،صبح دیکھا جائے گا۔‘‘

لیکن جوپیل کیمپ کے باہر پھیلی ہوئی تاریکوں میں گم ہو چکا تھا۔چچا اس کے پیچھے بھاگے مگرچند قدم چل کر واپس آئے اور کہنے لگے:

’’میں اسے تلاش کرنے جارہا ہوں۔تم پریشان مت ہونا۔‘‘

’’میں بھی آپ کے ہمراہ چلوں گا۔‘‘

’’نہیں،تمہیں پرسوں سکول جانا ہے۔‘‘چچا غرائے۔’’اس اندھیری رات میں تمہیں ساتھ رکھ میں کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتا۔‘‘لیکن میرے چہرے کو بغور دیکھ کر انہوں نے جانے کا ارادہ ترک کر دیا۔ پھر اپنے دل کو تسلی دینے کے لیے کہنے لگے’’میکیکو سے آئے ہوئے شیر عموماً بزدل ہوتے ہیں۔جوپیل اسے آسانی سے گولی کا نشانہ بنا لے گا۔‘‘

ہم نے ہرن کا گوشت آگ پر بھون کر کھایا، پھر بستروں میں دبک گئے۔دن چڑھا تو کافی کے دو دو گھونٹ پینے کے بعد گھوڑوں پر سوار ہو کر جوکی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔چچا نمدار زمین پر جو کے قدموں کے نشان بڑی آسانی سے دیکھتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھی۔کافی دور جاکر ان کے ساتھ شیر کے پنجوں کے نشان بھی دکھائی دینے لگے۔چچا نے غور سے دیکھتے ہوئے کہا:

’’درندہ زخمی ہو چکا ہے اور اپنی پچھلی بائیں ٹانگ گھسیٹ کر چلتا رہا ہے۔‘‘

آگے چل کر ہم نے شیر کا پہلا شکار دیکھا۔ یہ ایک مردہ ہرن تھا جس کا پیٹ پھٹا ہوا تھا،چچا اسے اچھی طرح دیکھنے کے بعد ہنس دیے:

’’جونے بڑی کامیابی سے شیرکا تعاقب کیا ہے۔اس نے شیر کو اپنا شکار کھانے بھی نہیں دیا۔‘‘

ہمارے گھوڑے پھر دوڑنے لگے۔ہم کیچی کے جنگل میں کافی دور تک آچکے تھے۔ایک جگہ شیر کا دوسرا شکار نظر پڑا۔ یہ بھی ایک ہرن تھا جس کی گردن شیر نے مخصوص انداز میں توڑ ڈالی تھی لیکن اس کا پیٹ پھٹا ہوا نہیں تھا۔ چچا گھوڑے سے نیچے اترے اورہرن پر ہاتھ رکھ کر بولے۔

’’یہ ابھی تک گرم ہے،اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم درندے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔زندہ باد جوپیل، تم نے شیر کو یہ شکار بھی کھانے دیا۔‘‘

اب ہم بڑی احتیاط سے آگے بڑھنے لگے۔شاید گھوڑوں کوشیر کی بو آنے لگی تھی۔انہوں نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا۔ ہم نے چابک پہ چابک رسید کیے لیکن ان پر کوئی اثر نہ ہوا۔ مجبوراً ہم گھوڑوں سے اتر پڑے اور لگام پکڑ کر آگے سے انہیں کھینچنے لگے۔یہ طریقہ کامیاب رہا۔چند گز آگے شاہ بلوط کے درخت کے نیچے شیر مرا پڑا تھا۔ چوڑے پھل کا’’میچٹی‘‘چھرا دستے تک اس کے سینے میں گھسا ہوا تھا۔شیر خاصا بوڑھا تھا۔

’’جو کہاں ہے؟‘‘ میں نے ادھرادھر دیکھتے ہوئے چچا سے پوچھا:

چچا نے شاید میرا سوال نہ سنا تھا، وہ بڑے انہماک سے شیر کا جائزہ لے رہے تھے:

’’یہ دیکھو۔‘‘چچا نے شیر کی پچھلی ٹانگ کی طرف اشارہ کیا:’’گولی لگنے سے اس کی ٹانگ ٹوٹ چکی ہے۔میرے خیال میں جونے درندے سے دو بدو جنگ بھی کی ہے۔ممکن ہے وہ زخمی ہو گیا ہو۔تم شیر کو گھوڑے پر لادکر خیمے کی طرف واپس جاؤ اور میں جوکو تلاش کرتا ہوں۔

میں شیر کو گھوڑے پر لاد کرکیمپ کی طرف روانہ ہوا۔چچا جم آگے بڑھ گئے۔گھوڑا درندے کی بو اور لاش سے قدم قدم پر بدک رہا تھا۔ بڑی مشکل سے لگام کھینچ کھینچ کر آگے بڑھتارہا۔ کیمپ میں پہنچا تو سورج غروب ہو را تھا۔ چچا جم مجھ سے پہلے وہاں موجود تھے اور خیمے کے سامنے بڑی خاموشی سے سر جھکائے بیٹھے تھے۔مجھے دیکھ کر وہ آہستگی سے بولے:

’’جوپیل مرچکا ہے۔‘‘

میری آنکھیں پرنم ہو گئیں۔خیمے کے اندر جوکی لاش رکھی ہوئی تھی۔ اس کا دایاں ہاتھ گلے کے زخم پر تھا اور بائیں ہاتھ میں اس نے ابھی تک ونچسٹر رائفل مضبوطی سے تھام رکھی تھی۔میں آنسو پونچھتا ہوا باہر نکلا ۔ہمارے شکار کا ساتھی ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ چکا تھا۔

ختم شد

تمام قسط وار کہانیاں یہاں سے پڑھ سکتے ہیں

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں