آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر6)


آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر6)

یکایک بیل رک گئے اور گردنیں ہلاہلاکر منہ سے خوخو کی آوازیں نکلانے لگے۔میں نے فوراًرائفل سنبھالی اورلالہ جی کو ایک درخت پر پناہ لینے کا اشارہ کیا۔ بیلوں کا یوں رکنا خطرے کی علامت تھی۔ میں گاڑی سے اترا اور گاڑی کا رخ بدل کر اسے دوسری سمت میں کھڑا کر دیا۔ شام کے ساڑھے پانچ بج رہے تھے اور سورج پہاڑیوں کے عقب میں غائب ہو گیا تھا۔مجھے خدشہ تھا کہ یہاں ریچھ کے بجائے کوئی درندہ چھپا ہوا ہے،ممکن ہے وہ چیتا ہی ہو۔

ایک درخت کے نیچے رک کر میں نے اردگرد غور سے دیکھا۔ کوئی خاص بات محسوس نہ ہوئی۔اپنا شبہ دور کرنے کی غرض سے میں پھر گاڑی کی طرف گیا اور بیلوں کوہانک کر پہلی جگہ پر لایا، لیکن کوشش کے باوجود بیلوں نے قدم بڑھانے سے انکار کر دیا۔ اب مجھ پورا یقین ہو گیا۔ایک درخت پراچانک نگاہ پڑی تو تین بندر دکھائی دیے جو بری طرح سہمے ہوئے اور بالکل بے حس و حرکت بیٹھے تھے۔ بندروں کا یوں دہشت زدہ ہو کر بیٹھنا خالی از علت نہ تھا۔ سابقہ تجربے اور مشاہدے نے فوراً میرے کان میں کہا کہ یہ چیتا ہے جس نے بندروں کوخوفزدہ کر رکھا ہے۔بندر جانتے ہیں کہ چیتا آسانی سے درخت پر چڑھ کر انہیں پکڑ سکتا ہے اور ان کے خاموش بیٹھنے اور جنبش نہ کرنے کی یہی ایک وجہ تھی۔ چیتے کی جگہ اگر شیر ہوتاتو بندر چیختے چلاتے اور شوخیاں کرتے، کیونکہ انہیں معلوم ہے، شیر درخت پر چڑھنا نہیں جانتا۔میں نے بندروں کی نظر کا تعاقب کیا کہ بندر ٹکٹکی باندھے کس طرف دیکھ رہے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ مکار درندہ نالے میں چھپا ہوا ہے۔

لالہ بدری رام جس درخت پر چڑھے ہوئے تھے،وہ نالے کے بالکل قریب تھا۔اب اگرمیں لالہ جی سے کہتا کہ ذرا نظر دوڑا کر چیتے کا سراغ لگائیے تو ظاہر ہے ان کی روح پھڑ پھڑا کر جسم کی قید سے آزاد ہو جاتی۔کچھ عجب نہیں کہ غش کھا کر نیچے گر پڑتے، چنانچہ میں انہیں بتائے بغیر کہ چیتا نالے میں چھپا ہوا ہے اور ایک لمبا چکر لے کر نالے کے دائیں کنارے پر پہنچا۔لالہ جی غالباً میری اس نقل و حرکت کا بغور جائزہ لے رہے تھے کہ معاً انہوں نے بیٹھے بیٹھے نعرہ لگایا:

’’ریچھ۔۔۔ریچھ۔۔۔‘‘

میں حواس باختہ ہو کر پیچھے پلٹا۔کیا دیکھتا ہوں،ایک بھاری بھرکم ریچھ درختوں کے جھنڈ سے اچھلتا اور غراتا ہوا برآمدہوا۔مجھ سے اس کا فاصلہ چند فٹ سے زائد نہ تھا اور مجھے سنبھلنے کا موقع بھی نہ ملا کہ وہ د انت کٹکٹا کر مجھ پر حملہ آور ہوا۔ فائر کرنے کی مہلت ہی نہ تھی۔ میں جلدی سے پیچھے ہٹ گیا، ورنہ اس کا پنجہ میری گردن کا گوشت نوچ کر لے جالا۔ لالہ جی پھر چلائے:

’’گولی چلائیے۔‘‘

مجھے خوب معلوم تھا کہ چیتا نالے میں موجود ہے اور غالباً وہ ریچھ کے خوف ہی سے وہاں چھپا ہوا تھا۔میں نالے میں کودتا ہوں تو چیتا ہر گز ہر گز مجھے زندہ نہ چھوڑے گا۔ ریچھ میری طرف لپکا اور مجھے اپنے بازوؤں میں جکڑنے کی کوشش کی۔ میں نے رائفل اس کے سر پر دے ماری، مگر اس پر بلا پر کیا اثر ہوتا؟اب میں نالے کے بالکل کنارے پر پیر جمائے کھڑا تھا۔ ذرا پیچھے ہٹتا تو دھڑام سے نیچے جا گرتا۔ موت کے بھیانک قہقہے میرے کانوں میں گونجنے لگے۔لالہ بدری رام کے چیخنے چلانے کی آواز جیسے میلوں دور سے آرہی تھی۔ایک ثانیے کے لیے میں نے گردن کو ذرا خم دیا اور نالے میں دیکھا، چیتے کی جھلک دکھائی دی۔وہ منہ دوسری طرف کیے، دبے پاؤں نالے کی پرلی طرف دبکا بیٹھا تھا۔ ریچھ کی دہشت اس پر بھی اثر انداز ہو رہی تھی۔

اب میں پھرتی سے نالے میں کود گیا اور چیتے پر فائر کیا۔ ایک ہولناک گرج سے چیتا اچھلا۔ گولی اس کی گردن کو مس کرتی ہوئی اندرونی مٹی میں کھب گئی۔ میں دوسرا فائر کرنے ہی والا تھا کہ چیتا جست کرکے نالے سے نکلا اور ریچھ سے ٹکرا گیا۔ ریچھ قلا بازی کھا کر گرا، مگر فوراً ہی اس نے پوری قوت سے چیتے کو پنجہ رسید کیا۔ چیتا پھر لڑکھڑا تا ہوا نالے میں آن گرا۔ اب وہ خون میں لت پت تھا۔ اس کا جبڑا ہیبت ناک انداز میں کھلا ہوا تھا اور اس کی لرزہ خیز چیخوں سے جنگل کی پوری فضا گونج رہی تھی۔

چیتے کا بس چلتا تو وہ آناًفاناً مجھے چیر پھاڑ کر برابر کر دیتا۔ میں اتنی دیر میں نالے کے دوسرے کنارے پر پہنچ چکا تھا، دوسرا فائر میں نے ریچھ پر کیا، گولی اس کے سینے میں لگی، لیکن کس بلا کی قوت اس میں پوشیدہ تھی قطعاً اثر نہ ہوا۔ جارحانہ انداز میں گرجتا ہوا میری طرف لپکا۔رائفل ایک طرف پھینک کر میں نے آٹھ انچ لمبے پھل کا چمکتا ہوا شکاری چاقو نکال لیا اور گھٹنوں کے بل جھک کر ریچھ کا انتظار کرنے لگا۔ چیتے کی دھاڑ اور مسلسل گرج سے ریچھ کی توجہ نالے کی طرف لگی ہوئی تھی اور یہی موقع تھا کہ میں نے چاقو ریچھ کی بائیں پسلی میں پوری قوت سے گھونپ دیا۔ گرم گرم خون کا ایک فوارہ سا ابل کر میرے چہرے اور کپڑوں پر آن گرا۔ ریچھ تیورا کر گرا اور اپنا سارا بوجھ مجھ پر ڈال دیا۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں بے پناہ تاریکی کے اندر غوطہ کھا رہا ہوں۔

ہوش آیا تو میرے چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا اور ناقابل برداشت بدبو سے میرا دماغ پھٹا جاتا تھا۔ میں نے ہاتھ ہلانے کی کوشش کی تو سیاہ کھردرے بالوں کا گچھا میرے ہاتھ میں آیا۔اب مجھے معلوم ہوا کہ میں مرے ہوئے ریچھ کے قریب پڑا ہوا ہوں۔اس کے وزنی دھڑ اور گردن نے مجھے دبا رکھا تھا۔ پھر مجھے لالہ بدری رام یاد آئے۔میں نے انہیں پکارنا چاہا، تو پہلے حلق سے آواز ہی نہ نکلی، پھر تکلیف کے باعث ہلکی سی چیخ نکل گئی۔

معاً کچھ فاصلے سے ایسی آواز آئی جیسے کوئی جانور درخت پر چڑھنے کی کوشش کررہا ہے۔ذہن میں فوراً زخمی چیتے کا خیال آیا اور مجھ میں مدافعانہ قوت از سر نو پیدا ہو گئی۔ریچھ کی لاش دھکیل کر میں بڑی مشکل سے اٹھا اورپھولا ہوا سانس روکنا چاہا،کیونکہ رات کی تاریکی میں چیتے کے لیے ترلقمہ بننا پسند نہ کرتا تھا۔ ٹٹول ٹٹول کر رائفل تلاش کی، پھر ریچھ کی پسلی میں کھبا ہوا چاقو نکالا اور پیٹ کے بال چلتا ہوا اسی نالے کی طرف چلا۔چیتے سے محفوظ رہنے کی وہی بہترین جگہ تھی۔ ابھی چند قدم ہی آگے بڑھا تھا کہ ایک بار پھر کھڑکھڑ کی آواز سنائی دی اور میں وہیں ساکت ہو گیا اور غور سے اس طرف دیکھنے لگا۔ایک اونچے درخت کی شاخوں میں چھپا ہوا سفید سفید سا جانور نظر آیا۔ میں سوچنے لگا یہ چیتا تو نہیں ہو سکتا، کوئی اور ہی جانور ہے۔ممکن ہے کوئی الو یا بندر ہو، مگر اس کا رنگ سفید تو نہیں ہو سکتا۔ میں نے آہستہ سے رائفل سیدھی کی اور نشانہ لے کر فائر کرنے ہی والا تھا کہ دفعتہً ایک اور خیال بجلی کی مانند میرے ذہن میں آیا اور میں نے فوراً لبلبی سے انگلی ہٹالی۔۔۔مجھے یاد آیا یہی وہ درخت ہے جس پر میں نے لالہ بدری رام کوچڑھنے کی ہدایت کی تھی۔

’’بدری رام جی۔۔۔‘‘میں نے آواز دی۔

’’ہاں،جناب۔۔۔‘‘فوراً جواب آیا اور میں تکلیف کے باوجود اپنی ہنسی نہ روک سکا۔ بیچارہ اسی وقت سے درخت پر ٹنگا ہوا ہے۔

’’نیچے آجائیے لالہ جی،خطرہ ٹل گیا۔‘‘تھوڑی دیر بعد لالہ جی میرے پاس کھڑے مجھے سہارا دے کر اٹھانے کی کوشش کرہے تھے،پھرانہوں نے جیب سے دیا سلائی کی ڈبیا نکال کر تیلی جلائی اور میں نے انہیں اور انہوں نے مجھے غور سے دیکھا۔ لاللہ جی کا چہرہ خوف سے سکڑ گیا تھا اور وہ برسوں کے بیمار نظر آتے تھے،لیکن میرے زخم دیکھ کر انہیں کچھ کہنے کی ہمت نہ ہوئی صر ف اتنا کہا

’’جناب، آج ہم دونوں کے مرنے میں کوئی کسر باقی نہ تھی۔ آئیے اب واپس چلیں۔خدا جانے بیل گاڑی کدھر گئی۔ میں نے دیکھا تھا کہ چیتے کی آواز سن کر دونوں بیل ایک طرف بھاگ نکلے اور اب نہ جانے کہاں بھٹک رہے ہوں گے۔‘‘

’’بیل گاؤں کا راستہ پہچانتے ہیں،وہ سیدھے وہیں گئے ہوں گے‘‘۔میں نے جواب دیا۔اور ہم دونوں دیا سلائی کی تیلیوں کے سہارے دیکھتے بھالتے اور چھپتے چھپاتے بستی کی طرف لوٹ آئے۔ چیتا زخمی ہو چکا تھا اور ہمارا یوں جنگل میں آدھی رات کو پھرنا سخت حماقت تھی۔وہ کسی بھی لمحے ہم پر حملہ کر سکتا تھا،ل یکن خدا نے ہمیں بچایا۔ ہم دونوں صحیح سلامت گاؤں کے اندر پہنچ گئے۔

لالہ بدری رام جاتے ہی اپنی کھاٹ پر پڑ کر بے خبر سو گئے،لیکن زخموں کی ٹیس نے مجھے سونے نہ دیا۔۔۔جانے کہاں کہاں چوٹ لگی تھی۔اردلی نے بیرا کے بارے میں بتایا کہ وہ آرام سے ہے اور سورہا ہے۔اس کی بیوی اور بچوں کو بلانے کے لیے آدمی صبح بھیجا جائے گا۔

لالہ بدری رام تو صبح سویرے پنگرام کی طرف سدھارے، کیونکہ ان کی ’’نوکری‘‘ کا سوال تھا، اور وہ ایک لمحہ بھی میرے پاس ٹھہرنے کے لیے تیار نہ تھے۔بیرا کی حالت اس قابل نہ تھی کہ وہ میرا ساتھ دے سکتا۔ اب میں تن تنہا رہ گیا، لیکن چیتے کو تلاش کرنا ضروری تھا۔ کیونکہ زخمی ہونے کے بعد اس کا آدم خور بن جانا ایک فطری امر تھا۔ سارا دن جنگل میں گھومتا رہا، لیکن اس کا کہیں پتا نہ ملا۔ رات کے آخری حصے میں بھی جان پر کھیل کر اس کے کھوج میں نکلا،لیکن بے سود۔اب میں کسی بری خبر کے انتظار میں تھا اور یہ خبر تیسرے روز رات کے آٹھ بجے مجھ تک پہنچ گئی۔بتایا گیا کہ پنگرام سے تین میل ادھر ایک چرواہا مویشی لے کر جنگل سے گزر رہا تھا کہ کسی درندے نے حملہ کیا اور اسے اٹھا کر لے گیا۔ مویشی بھاگتے دوڑتے بستی کے اندر پہنچ گئے۔ لیکن چرواہا نہ آیا۔ یہ ایک حیران کن بات تھی، چنانچہ دس پندرہ آدمی جمع ہو کر جنگل میں گئے اور تلاش بسیار کے بعد انہوں نے ادھڑی اور کھائی ہوئی لاش کے اجزا ایک گھنی جھاڑی کے اندر پڑے پائے۔چرواہے کے خون آلود کپڑوں کی دھجیاں بھی ادھر ادھر بکھری دکھائی دیں۔جب یہ لوگ روتے پیٹتے واپس آرہے تھے ،تو انہوں نے چیتے کے غرانے کی آوازیں سنیں۔اگرچہ ان لوگوں کے پاس کلہاڑیاں اور گنڈاسے موجود تھے، تاہم چیتے کا سامنا کرنے کی جرات نہ ہوئی۔ ایک شخص نے جو جنگل میں گیا تھا۔مجھے بتایا:

’’میں نے چیتے کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔وہ چمالیا(چرواہے)کی لاش سے کچھ فاصلے پر لمبی گھاس کے اندر چھپا ہوا تھا۔ اس نے ہم لوگوں کو دیکھ کر بھاگنے کی کوشش نہ کی،بلکہ غضب ناک ہو کر غرانے لگا۔ اگر ہم دس بارہ آدمی نہ ہوتے،تو وہ یقیناً ہم ایک آدھ پر حملہ کر دیتا۔ پھر وہ اسی گھاس میں بے پروائی سے چلتا ہوا نہ جانے کہاں غائب ہو گیا۔‘‘

’’کیا تم مجھے وہ جگہ دکھا سکتے ہو؟‘‘

’’ہاں جناب۔۔۔‘‘

’’تو چلو میرے ساتھ۔۔۔‘‘میں نے جلدی جلدی رائفل ،ٹارچ اور تمباکو کی تھیلی اور چائے کا تھرماس سنبھالا اور اس مزدور کو لے کر روانہ ہوا۔ میں نے محسوس کیا کہ یہ بے چارہ میرے ساتھ جانے کی حامی تو بھر چکا ہے،مگر خوف زدہ سا ہے۔میں نے اس سے کہا کہ وہ چند اور آدمیوں کو بھی چلنے کے لیے کہے، تاکہ ہم آسانی سے چیتے کی تلاش کر سکیں۔قصہ مختصر پانچ آدمیوں کا یہ مختصر سا گروہ جنگل کو روانہ ہوا۔ رات تاریک اور گرم تھی۔چمگادڑوں کے چیخنے اور الوؤں کے مسلسل بولنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔کبھی کبھی کسی مور کے جھنکارنے کی آواز بھی سنائی دے جاتی تھی۔ جھاڑیوں کے اندر دبکا ہوا کوئی چرخ یا گیدڑ ہمارے قدموں کی آہٹ پاکر بھاگتا،تو سب لوگ ڈر کررک جاتے،کیا معلوم چیتا کدھر سے نکل آئے۔

کئی میل کا فاصلہ طے کر کے جب ہم اس مقام پر پہنچے، جہاں چرواہے کی لاش کے ٹکڑے پڑے تھے، تو میں نے ٹارچ روشن کی اور اردگرد یک زمین کا بغور معائنہ کیا۔ چیتے کے زخموں کے مدھم نشان نظر آئے۔دراصل پہ نشان آدمیوں کے قدموں کی وجہ سے مٹ چکے تھے اور بہت غور کرنے کے بعد دکھائی دیے۔مشرقی افق سے آہستہ آہستہ چاند ابھر رہا تھا، لیکن اس کی روشنی اس حصے تک بمشکل پہنچ رہی تھی۔ جہاں ہم سب آدمی چرواہے کی المناک موت اور مکار چیتے کی ظالمانہ حرکت پر رنج و غم کی تصویر بنے کھڑے تھے۔میں نے قریب ہی ایک محفوظ اور بلند قامت درخت تاکا اور اپنے ساتھیوں کو واپس جانے کی ہدایت کرکے اس درخت پر چڑھ کر چپ چاپ بیٹھ گیا۔مجھے یقین تھا کہ چیتا ادھر سے ضرور گزرے گا۔کیونکہ وہ شام کے وقت آدمیوں کو آتے جاتے دیکھ چکا ہے اور اپنی فطرت کے باعث کسی نہ کسی آدمی پر حملہ کرنے کا ارادہ ضرور کر چکا ہو گا۔عجب نہیں کہ وہ اب بھی ہمارے تعاقب میں یہاں تک آیا ہو اور آس پاس کسی جگہ چھپ کر ہماری حرکات دیکھ رہا ہو۔چیتے کی مکاری، دور اندیشی اور پھرتی کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسی حرکتیں کچھ بعید نہ تھیں۔میں نے واپس جانے والوں مزدوروں کو خوب سمجھادیا تھا کہ وہ ہرگز ہر گز علیحدہ نہ ہوں اور آپس میں باتیں کرتے ہوئے جائیں،تاکہ چیتا ان پر وارکرنے کی جرات نہ کر سکے۔

چاند مشرقی پہاڑیوں کے پیچھے سے جھانک رہا تھا اور اب اس کی روشنی اچھی طرح جنگل کو منور کررہی تھی۔ میرے سامنے کوئی پچیس تیس فٹ کے فاصلے پر وہ جھاڑیاں تھیں جہاں چیتا چرواہے کی لاش گھسیٹ کر لایا تھا اور یہیں بیٹھ کر کر اس نے پیٹ بھرا تھا۔ جھاڑیوں اور گنجان درختوں کا سلسلہ میرے چاروں طرف پھیلا ہوا تھا۔ میں نہایت صبرو سکون کے ساتھ چیتے کا انتظار کرنے لگا۔ رات کے دو بج گئے۔ جنگل کے باسی اپنی پانی جگہ دبکے ہوئے چپ چاپ سو رہے تھے اور کوئی آواز اور کسی قسم کا شور سنائی نہ دیتا تھا۔ میں نے غنودگی دور کرنے کے لیے تھرماس کھول کر چائے کے چند گھونٹ حلق میں اتارے، پھر پائپ سلگایا اور ابھی تین چار کش لگائے تھے کہ کچھ فاصلے سے خشک پتوں کے چرچرانے کی ہلکی سی آواز آئی۔میں نے فوراً پائپ جھاڑ کر جیپ میں رکھ لیا اور اعشاریہ بارہ کی شاٹ گن سختی سے تھام کر مستعد ہو گیا۔ یقیناً کوئی جانور ادھر آرہا تھا۔ پھرمیں نے اسے جھاڑیوں میں سے برآمد ہوتے دیکھا۔ اس کی زرد آنکھیں تاروں کی مانند چمک رہی تھیں۔جھاڑیوں میں سے سر نکال کر اس نے اپنی پتلی گردن گھمائی،گردوپیش کا جائزہ لیا اور مطمئن ہو کر کھلی جگہ میں نکل آیا، اب وہ چاند کی روشنی میں پورے قدوقامت کے ساتھ شاہانہ انداز میں کھڑا نظر آرہا تھا۔میں نے سانس روک کر نشانہ لیا اور اس کی کھوپڑی پر فائر کیا۔ فائر کا دھماکہ ہوتے ہی چیتا فضا میں اچھلا اور گرجتا ہوا جھاڑیوں میں غائب ہو گیا۔

نشانہ خطا ہونے پر مجھے بے حد صدمہ پہنچا۔ چیتا مسلسل گرج رہا تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ اس کی آواز مدھم اور دور ہوتی چلی گئی۔میں نے اس جلد بازی پر اپنی قسمت کو کوسا اور دوبارہ پائپ بھرنے لگا۔ اب میں سورج نکلنے سے پہلے درخت سے نیچے ا ترنہ سکتا تھا۔ چیتے کا دوبارہ ادھررخ کرنا محال تھا۔

ایک ہفتہ گزر گیا ۔اس دوران میں چیتے نے بیس مربع میل کے علاقے میں خوف وہراس کی جو فضا تیار کی اسے بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں....ایک مرتبہ زخمی ہونے اور دوسری مرتبہ بچ کر نکل جانے کے باعث وہ نہایت خونخوار اور ہوشیار ہو چکا تھا۔ ایک ہفتے کے اندر اندر اس نے تین افراد کو ہڑپ کیا۔ اس کی نقل و حرکت کے بارے میں صحیح صحیح اندازہ کرنا ممکن نہ رہا۔ایک واردات اگر وہ مشرق میں سات میل دور کرتا تو اگلے روز مغرب میں اتنے ہی فاصلے پر دوسری واردات ہوتی۔میں دن کا چین اور رات کی نیند حرام کیے ہوئے تازی کتوں کی طرح اس کے تعاقب میں تھا، لیکن ہر بار و جل دے جاتا۔ بیرا کے زخم رفتہ رفتہ مندمل ہوتے جارہے تھے۔ اس کی بیوی، جو نہایت سیدھی سادی اور شریف عورت تھی، اپنے خاوند کی تیمارداری میں لگی ہوئی تھی۔

دسویں روز صبح سویرے، میں جنگل کے سرے پر بیٹھا بندروں کی اٹھکیلیوں سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ چیتے کو گھیرنے کی تدبیریں سوچ رہاتھا کہ بیل گاڑی کے پہیوں کی آواز آئی۔ مجھے خیال ہوا کہ آنے والا اجنبی ہے یا اسے کوئی حادثہ پیش آیا ہے۔اتنے میں گاڑی قریب آگئی۔ میں نے دیکھا کہ اس میں جتا ہوا بیل بے تحاشا دوڑ رہا ہے اور گاڑی میں کسی آدمی کا دھڑ خون میں لت پت اس طرح لٹکا ہوا ہے کہ اس کے ہاتھوں کی انگلیاں زمین کو چھو رہی ہیں۔میں نے لپک کر گاڑی روکی۔ گاڑی بان کو نیچے اتارا، تو اس کا سانس ابھی چل رہا تھا۔ اتنے میں گاﺅں کے لوگ جمع ہو گئے۔ ہم نے اس کے منہ میں پانی ٹپکانے کی کوشش کی ،لیکن پانی حلق میں نہ جا سکا اور باچھوں سے بہہ گیا۔

میں نے دیکھا، اس کا سینہ اور پیٹ زخمی ہے اور خون بڑی مقدار میں بہہ چکا ہے۔مرنے سے چند منٹ پہلے اس نے آنکھیں کھولیں اور صرف دو لفظ کہے:

”بدری رام ....چیتا....“پھر اس کی گردن ڈھلک گئی۔

گاڑی بان کی حالت سے اندازہ ہوا کہ یہ حادثہ پیش آئے زیادہ دیر نہیں گزری۔ شاید لالہ بدری رام ادھر آرہے تھے کہ چیتے نے راہ میں حملہ کر دیا اور گاڑی بان کو زخم کر کے لالہ بدری رام کو اٹھا کر لے گیا....میں نے فوراً گاﺅں کے لوگوں کو جمع کیا اور پچاس ساٹھ آدمیوں کا گروہ تیار کرکے جنگل میں گھس گیا۔ بیل گاڑی کے نشانات دیکھتے دیکھتے آخر ہم پگ ڈنڈی کے اس حصے پر جا نکلے جہاں چیتے نے حملہ کیا اور بیل پگ ڈنڈی چھوڑ کر جنگل میں جا گھسے تھے۔یہاں خون کے دھبے بھی دکھائی دیئے۔میں سوچ رہاتھا کہ اتنی دیر میں چیتا بدری رام کی لاش گھسیٹ کر دور لے گیا ہو گا، لیکن چند قدم جانے کے بعد اندازہ ہوا کہ چیتے نے زیادہ دور جانے کی زحمت گوارا نہیں کی اور بدری رام کو ہلاک کرکے وہیں کھانا شروع کر دیا تھا، کیونکہ لاش ایک جھاڑی کے باہر اس حالت میں پڑی تھی کہ اس کی ایک ٹانگ غائب تھی اور چیتے نے پشت پر سے بھی تھوڑا سا گوشت کھایا تھا۔چنانچہ میں نے لاش کو وہیں پڑا رہنے دیا اور لوگوں سے کہا کہ وہ واپس گاﺅں چلے جائیں۔

یتا لاش یہیں چھوڑ گیا ہے اور وہ کسی بھی وقت دوبارہ ادھر آئے گا۔ میں اس کا مقابلہ کرنے کے لیے موجود ہوں۔گاﺅں والے واپس جاہی رہے تھے کہ میرے دیکھتے دیکھتے چیتا ایک طرف سے برآمد ہوا۔ اتنے آدمیوں کو دیکھ کر وہ رکا۔ لیکن بے پروائی سے چلتا ہوا لاش کے قریب پہنچا۔ اسے منہ میں دبایا اور گھسیٹ کر جھاڑیوں کے اندر جانے لگا۔ لوگ اس چیتے کو دیکھ کر اس قدر ہراساں اور بدحواس ہوئے کہ چیختے چلاتے بھاگ اٹھے۔میں خود چیتے کی دیدہ دلیری اور بے خوفی پر حیران تھا۔اگر ایک لمحہ اور غفل ہوتا، تو میری نظروں کے عین سامنے سے چیتا فاتحانہ انداز میں لاش لے جان میں کامیاب ہو جاتا۔میں نے یکایک جیسے خواب غفلت سے چونک کر دو نالی بندوق سیدھی کی اور بیک وقت دو فائر کیے۔ دونوں گولیاں چیتے کا بھیجا پھاڑتی ہوئی نکل گئیں اور اس طرح تلوادی کا وہ آدم خور چیتا اپنے انجام کو پہنچا جس کا قد کھوپڑی سے لے کر دم تک 9فٹ ساڑھے آٹھ انچ تھا اور میری شکاری زندگی میں یہ پہلا اتفاق تھا کہ اتنا زبردست چیتا میرے ہاتھوں ماراگیا۔

اگر آپ کو بڑے شکار سے دلچسپی ہے،لیکن آپ نے ابھی تک مرکزی ہندوستان، یعنی مدھیہ پردیش کے جنگل نہیں دیکھے تو یقین فرمائیے کہ آپ ان تمام نعمتوں اور لطائف سے محروم ہیں جو ان خطرناک جنگلوں میں چپے چپے پر کسی بھی شکاری کو میسر آسکتے ہیں۔مجھے دیکھیے تیرہ برس کی عمر میں ان جنگلوں کا ایسا اسیر ہوا کہ تقسیم ملک کے بعد بھی پاکستان کی شہریت اختیار نہیں کر سکا، حالانکہ میرے تمام قریبی عزیز رشتے دار سب پاکستان میں ہیں۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنگل اگر ایک مرتبہ کسی کو ا سیر کرلے، تو پھر وہ کہیں اور نہیں جا سکتا۔ میں اتنا بڑا شکاری تو نہیں ہوں جتنے بڑے شکاری آنجہانی جم کاربٹ یا کینتھ اینڈرسن جیسے لوگ تھے، تاہم یہ بات یقینی ہے کہ ان دونوں عظیم شکاریوں کی زندگی کا بڑا حصہ ہندوستان کے انہی جنگلوں میں بسر ہوا اور یہاں آج بھی لوگ انہیں یاد کرکے ٹھنڈی آہیں بھرتے ہیں،اس کی وجہ محض یہ ہے کہ ان انگریز شکاریوں نے بے شمار آدم خوروں سے معصوم اور نہتے دیہاتیوں کو نجات دلائی تھی....یوں کہنے کو میں نے بھی اپنی بھرپور شکاری زندگی میں کوئی ڈیڑھ سو چیتے ہلاک کیے ہیں۔ان میں سے اکثر مردم خور تھے اور بعض تو ایسے بھی نکلے جو سینکڑوں انسانی جانوں کو اپنا لقمہ بنا چکے تھے اور کسی طرح قابو میں نہ آتے تھے۔

میرے شکاری بننے کی داستان بھی عجیت ہے۔بچپن ہی سے اگرچہ مجھے ویرانوں اور غیر آباد جگہوں پر پھرنے کاشوق تھا، تاہم یہ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ میں ایک دن پیشہ ور شکاری بنوں گا۔ میرے گھرانے میں بھی سوائے بڑے بھائی امیر مرتضیٰ کے اور کسی کو شکار وغیرہ سے لگاﺅ نہ تھا کہ خیال ہوتا شاید مجھ میں اپنے آباﺅ اجداد یا خاندان کے دوسرے افراد کا کچھ اثر ا ٓیا ہو گا۔ یہ بھی درست ہے کہ پڑھنے لکھنے سے کچھ دلچسپی نہ تھی اور موقع ملتے ہی میں اسکول سے نکل کر ادھرادھر گھومنے چلا جاتا۔

پنجاب کے شہر گجرات میں1903ءمیں میری پیدائش ہوئی اور پانچ سال کی عمر میں مجھے مشن سکول گجرات میں داخل کرادیا گیا۔لیکن واقعہ یہ ہے کہ اپنی جماعت میں میرا جی نہ لگتا اور جونہی مجھے کوئی بہانہ ملتا اسکول سے نکل کر ا ردگرد کے تالابوں یا ندی نالوں پر پہنچ جاتا۔ان دنوں مجھے مچھلی کے شکار سے خاص دلچسپی تھی اور میں نے چھری کانٹے وغیرہ کا خود ہی انتظام کر لیا تھا۔مچھلیاں پکڑنے سے فرصت پاتا، تو اونچے دشوار درختوں پر چڑھنے کی مشق شروع کر دیتا۔ درختوں پر چڑھ کر پرندوں کو پکڑنا یا ان کے انڈے بچے چرا لینا میرا محبوب مشغلہ تھا۔ سارا سارا دن ایسی ہی جگہوں پر بھوکا پیاسا مارا مارا پھرتا، لیکن شوق میں کمی نہ آئی۔ آہستہ آہستہ میں نے غلیلیں اور تیر کمان بھی بنا لیے۔ان ہتھیاروں سے پرندوں کو شکار کرنا بہت آسان ہو گیا۔ غرض مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ شکار کا جنون میرے رگ وپے میں خون کی طرح گردش کرنے لگا۔

آدم خور درندوں کا شکاری (قسط نمبر 7)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں


Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں