انوکھا ایڈوانچر (چوتھا حصہ)

اردو کہانیاں

 

اتنی دیر میں آس پاس کے گھروں سے چند عورتیں بھی وہاں پہنچ گئی تھی، انہوں نے اس بین کرتی عورت کو سنبھالا اور رونے کی وجہ پوچھی تو اس عورت نے بتایا کہ اس کا شوہر کھیتوں کی طرف گیا تھا، 

لیکن واپس نہیں آیا، ابھی میں اس کے پیچھے جانے کے لیے گھر سے نکلی تو وہاں پر کوئی خوفناک بلا تھی جو میرے شوہر کو زمین پر گرا کر اس کے سینے پر چڑھی بیٹھی تھی، میرے سامنے ہی اس نے میرے شوہر کا گلہ اپنے جبڑوں میں لے کر ایک جھٹکا دیا اور پھر بڑے بڑے قدموں سے ریگستان کی جانب نکل گئی، میں اتنی گھبرا گئی تھی کہ الٹے پیروں گھر کی جانب بھاگی اور یہاں صحن میں آ کر گر گئی، ہائے ۔۔۔ اس نے میرے شوہر کو مار ڈالا ۔۔۔ کوئی جا کر پتا کرے اس کا، یہ کہتے ہی وہ عورت دوبارہ سے آہ و فغاں کرنے لگی، اس کے رونے کی آواز سے پوری بستی گونج رہی تھی، اور لوگ بڑی تعداد میں وہاں جمع ہو چکے تھے، کچھ لوگ بھاگتے ہوئے عورت کے شوہر کی تلاش میں باہر نکل گئے، بستی سے کوئی دو سو میٹر باہر اس آدمی کی لاش مل گئی تھی، اس کا گلہ بھی اسی طرح چبایا گیا تھا جیسے سردار کے بیٹے ماکھے کا،

 جب اس کی لاش گھر پہنچی تو قبیلے کا سردار تارا خان بھی وہاں پہنچ گیا، اس نے عورت سے پوچھا کہ تم نے جو بلا دیکھی وہ کیسی تھی، اور کتنی بڑی تھی مجھے تفصیل سے بتاؤ، اس عورت نے بتایا کہ وہ بلا جسامت میں بھینس جتنی بڑی تھی لیکن اس کے جسم پر سیاہ بال اتنے بڑے تھے کہ زمین تک پہنچتے تھے، پھر جب وہ میرے شوہر کو مار کر وہاں سے بھاگی تو میں نے دیکھا کہ اس نے دونوں اگلی ٹانگیں اوپر اٹھا لی تھیں اور پچھلی ٹانگوں پر بھاگتی جا رہی تھی، اتنا کہہ کر وہ عورت بے ہوش ہو کر گر پڑی، پوری بستی میں موت کا سناٹا چھا گیا تھا، دو تین عورتیں مل کر بے ہوش پڑی اس عورت کو سنبھالنے لگیں، سردار تارا خان بولا کہ یہ کیا چیز ہو سکتی ہے؟ اس طرح کا تو ریچھ ہوتا ہے، لیکن ہمارے علاقے میں اب ریچھ نہیں ہوتے، اگر کوئی ہو گا تو وہ بھینس جتنا بڑا نہیں ہو سکتا، یقیناً اس عورت کو غلط فہمی ہوئی ہے،

سردار کی بات سن کر مجمع میں سے وہی شخص آگے آیا، جس کے سر اور چہرے پر کوئی بال نا تھا، یہ وہ شخص تھا جس نے سردار کو یقین دلایا تھا کہ تمہارا بیٹا ماکھا بزدل نہیں تھا بلکہ اس کو مارنے والا درندہ بہت بڑا تھا، وہ عجیب صورت آدمی سردار کے سامنے آ کر بولا کہ سردار یہ بات ہم کو مان لینی چاہیے کہ وہ بلا واقعی بہت بڑی ہے، اور میں نے اپنے علم سے حساب لگایا ہے کہ یہ آفت ہماری بستی پر کیوں ٹوٹی ہے،
عجیب صورت شخص کی بات اور لہجے میں کچھ ایسا تھا کہ سب لوگ سانس روک کر اس کی بات سن رہے تھے، کیا مطلب تمہارا؟ تم کہنا کیا چاہتے ہو؟ جیسے ہی وہ آدمی خاموش ہوا تو سردار نے بے صبری سے پوچھا، وہ آدمی کہنے لگا کہ ہماری بستی میں اور ہم لوگوں کے درمیان ایک منحوس آدمی آیا ہے، اور اس کی نحوست کا سایہ ہے کہ ہمارا اوپر والا دیوتا ہم سے ناراض ہو گیا ہے، میں نے یہ بات اپنے علم سے جان لی ہے، وہ شخص بے دین ہے اور ہمارے اوپر والے دیوتا کو نہیں مانتا، اگر اس کو فوراً سے پکڑ کر قبیلے سے باہر نا نکالا گیا تو پھر روز لاشیں اٹھانی پڑیں گی۔۔

عجیب صورت آدمی کی باتیں سن کر میں اندر سے کانپ کر رہ گیا تھا،۔ اس بستی میں اجنبی تو صرف میں ہی تھا،۔ اور مجھے واقعی ان لوگوں کے دیوتا یا بھگوان سے کوئی سروکار نہیں تھا نا ہی میں اس کو مانتا تھا،۔ ایک مسلمان بھلا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی پاور کو کیسے تسلیم کر سکتا ہے، اگر میں ان لوگوں کے لیے بے دین تھا تو وہ ان کی اپنی سوچ تھی، لیکن صورت حال میرے خلاف ہو چکی تھی،

سردار تارا خان گرجتے ہوئے بولا کہ کون آیا ہے ہماری بستی میں؟ اور مجھے خبر کیوں نہیں دی؟ کون ہے وہ منحوس جس کی وجہ سے دیوتا ہم سے ناراض ہو کر ہمارے لوگوں کی زندگیاں لے رہا ہے؟
یہ بات واضح کر دوں کہ اب تک اس قبیلے کے کافی لوگ مجھے دیکھ چکے تھے اور میرے بارے میں جان بھی گئے تھے کہ میں کون ہوں اور کہاں سے آیا ہوں،

وہ عجیب صورت آدمی، جس کی یہاں پر حیثیت شاید مذہبی پیشوا یا نجومی کی تھی، اس کو بھی میرے بارے میں اس وقت معلوم ہو گیا جب میں ناشی بابا کے ساتھ ماکھے کی لاش دیکھنے گیا تھا، میں نے اس آدمی کی نظروں میں اپنے لیے نفرت دیکھی تھی لیکن میں نے اسے اپنا وہم سمجھ کر نظر انداز کر دیا تھا، اب موقع دیکھ کر وہ آدمی کھل کر میرے خلاف آگیا تھا، تھوڑی دیر بعد میں سر جھکائے مجرموں کی سردار تارا خان کے سامنے کھڑا تھا، اس نے بڑے مشکوک انداز میں کرید کرید کر مجھ سے سوال پوچھے، کہ میں کون ہوں، کہاں سے آیا ہوں، کس خدا کو مانتا ہوں وغیرہ وغیرہ، سردار نے ناشی بابا کو سرزنش کی اور کہا کہ تم کو فوراً مجھے اطلاع دینی چاہیے تھی کہ ایک اجنبی لڑکا ہمارے قبیلے میں آیا ہے، ورنہ ہمارا اتنا نقصان نا ہوتا،

 تمہاری غفلت کی وجہ سے مجھے اپنا اکلوتا بیٹا گنوانا پڑا، اور یہ دوسرا آدمی جس کی لاش تمہارے سامنے پڑی ہے یہ بھی اسی وجہ سے مرا ہے، یقیناً دیوتا ہم سے ناراض ہو گیا ہے، اور اس نے یہ عذاب ہم پر نازل کر دیا ہے، کچھ دیر پہلے جس سردار کو میں بہت عقل مند اور بہادر سمجھ رہا تھا اس کا عقیدہ اتنا کمزور اور گمراہ کن دیکھ کر مجھے افسوس ہوا، مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ لوگ میرے ساتھ کیا کرنے والے ہیں، سردار تارا خان نے حکم دیا کہ اس لڑکے کو لے جا کر قید کر دو، ہم مرنے والے دونوں افراد کی رسومات سے فارغ ہو کر اس منحوس نوجوان کے بارے میں فیصلہ کریں گے، اور پھر چار ہٹے کٹے آدمی آگے بڑھے اور مجھے بازوؤں سے پکڑ کر دھکے مارتے ہوئے ایک جانب لے جانے لگے، میں نے مڑ کر اس عجیب صورت والے نجومی کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں کی چمک اور پراسرار سی مسکراہٹ مجھے اشارہ دے رہی تھی کہ مجھے پھنسا کر وہ بہت خوش ہے، چاروں آدمی مجھے پکڑ کر ناشی بابا کے گھر کی جانب لے گئے، اس کے گھر کے ساتھ ہی ایک اور گھر تھا، جس کے اندر کافی زیادہ جھونپڑیاں بنی ہوئی تھیں، مجھے ایک جھونپڑی میں ڈال کر دو آدمی باہر کھڑے ہو گئے اور دو واپس چلے گئے، ایک طرح سے یہ ان کا قید خانہ تھا

جہاں پر مجھے قید کر دیا گیا تھا، مجھے معلوم تھا کہ اس بستی میں اگر کسی کو مجھ سے ہمدردی ہے تو صرف ناشی بابا اور اس کے گھر والوں کو تھی باقی سب لوگ تو میرے دشمن بن گئے تھے، مجھے یہ بھی خطرہ تھا کہ کہیں مجھے قتل نا کر دیں، کیونکہ ان کے نزدیک میں منحوس تھا، آج رات میری تقدیر کا فیصلہ ہونے والا تھا، میں چھوٹی سی جھونپڑی میں بے چینی سے وقت گزار رہا تھا، آخر کار مجھے نیند نے گھیر لیا، اور میں زمین پر لیٹ کر سو گیا اور صبح تک سوتا رہا، اگلی صبح جب میری آنکھ کھلی تو میں نے اٹھ کر جھونپڑی سے باہر جھانکا تو وہاں پر دو کی بجائے صرف ایک پہریدار کھڑا تھا، میں نے اس سے پوچھا کہ رات تمہارے قبیلے والوں نے میرے لیے کیا فیصلہ کیا ہے؟ تو اس نے جو کچھ مجھے بتایا، وہ سن کر میں کانپ کر رہ گیا

 پہریدار کے مطابق آج شام کو قبیلے والے مجھے بستی سے باہر لے جا کر ویران جگہ پر ایک درخت کے ساتھ باندھنے کا ارادہ رکھتے تھے تاکہ رات کو وہ خوفناک بلا مجھے قتل کر دے اور یوں قبیلے سے نحوست کا سایہ ٹل سکتا تھا، یہ بات جان کر میں بہت بے چین ہو گیا تھا، میں کسی خونی درندے کا نشانہ بننا نہیں چاہتا تھا، لیکن سب کچھ میرے اختیار میں نہیں تھا، مزید بے بسی کی بات یہ تھی کہ میں یہاں سے کسی طرح بھاگ بھی جاتا تو صحرا میں بھوک اور پیاس سے لازمی مر جاتا، مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ صحرا کتنا خطرناک اور جان لیوا تھا،

دوپہر سر پر آ گئی تھی اور مجھے بھوک ستانے لگی تھی کیونکہ مجھے قید میں ڈالنے سے لے کر اب تک صرف پانی ہی دیا گیا تھا، پہریدار نے مجھے بتایا کہ تمہارے کھانے کا انتظام ناشی بابا ہی کرے گا اور تھوڑی دیر بعد تم کو آخری کھانا کھلا دیا جائے گا، اور پھر شام کا اندھیرا پھیلنے سے پہلے تم کو بستی سے باہر ویران جگہ پر باندھ کے بلا کے ہاتھوں مرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے گا، یہ باتیں سن کر میری بھوک اڑ گئی تھی ، تھوڑی دیر بعد جھونپڑی میں ناشی بابا آ گیا، اس کے پیچھے پیچھے کومل بھی تھی جس نے کھانے کے برتن ہاتھ میں پکڑ رکھے تھے، میں نے دیکھا کہ کومل کی آنکھیں بھیگی ہوئی ہیں، یقیناً وہ مجھے یوں مرتے ہوئے دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔

کومل کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں شاید وہ مجھے مرتا ہوا دیکھنا نہیں چاہتی تھی، میری بھوک تو ختم ہو چکی تھی لیکن پھر بھی تھوڑا سا کھانا کھا ہی لیا، ناشی بابا کہنے لگا کہ تم جانتے ہو کہ آج رات یہ لوگ تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والے ہیں؟ میں نے سر ہلا کر بتایا کہ مجھے پتا چل گیا ہے، ناشی بابا بولا کہ مجھے افسوس ہے میں چاہ کر بھی تمہاری مدد نہیں کر سکا، میری دو جوان بیٹیاں ہیں اگر میں تمہارے ساتھ کوئی نرمی کروں گا تو قبیلے والے مجھے اپنا دشمن سمجھیں گے، میں نے کھانا کھا کر برتن واپس کر دیے، اور ناشی بابا اور کومل کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ تم لوگوں نے میری جان بچائی، مجھے اپنے گھر میں پناہ دی، میرے لیے یہ بڑی بات ہے، اس سے زیادہ تم لوگ کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے اور مجھے تم سے کوئی شکوہ نہیں ہے، ناشی بابا اٹھتے ہوئے بولا کہ ہم چلتے ہیں گھر میں رمشا اکیلی ہے، پھر وہ جھونپڑی سے باہر نکل گیا اور کومل برتن سمیٹنے لگی، میں نے پہلی بار قریب سے اس کے چہرے کو دیکھا تھا، وہ نا صرف خوبصورت تھی بلکہ نرم دل کی مالک تھی،

میں دعا کروں گی کہ تم زندہ بچ جاؤ اور کسی طرح اپنے گھر واپس چلے جاؤ، اچانک کومل نے میری طرف دیکھ کر دھیرے سے کہا تو میں نے مسکراتے ہوئے سر ہلا دیا۔۔ پھر وہ کہنے لگی کہ تمہارے موبائل میں میری اور رمشا کی تصویر بھی ہے، اگر تم اپنے گھر پہنچ گئے تو تصویر کو دیکھ کر مجھے یاد کیا کرنا، میں نے کومل سے کہا کہ چلو ایک تصویر تمہاری اکیلی کی بناتا ہوں، امید تو نہیں ہے کہ یہ لوگ مجھے زندہ چھوڑیں گے، پھر بھی اگر میں بچ گیا تو لازمی تمہاری تصویر دیکھ کر تم کو یاد کیا کروں گا، میری بات سن کر وہ نم آنکھوں سے مسکرانے لگی، اور میں نے جھٹ سے اس کی تصویر کھینچ لی، پھر وہ جانے کے لیے اٹھی اور جب جھونپڑی کے دروازے کے پاس گئی تو رک کر مجھے دیکھنے لگی اور بولی کہ میں بھی تم کو یاد کروں گی، اور آخری بات۔۔۔ میں جو کچھ کر سکی، تمہارے لیے کروں گی
پھر وہ جلدی سے باہر نکل گئی۔۔۔

اور میں افسردگی سے اسے جاتے ہوئے دیکھنے لگا، جب وہ نظروں سے اوجھل ہو گئی تو میں زمین پر لیٹ گیا اور شام ہونے کا انتظار کرنے لگا، میرے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا، شام ڈھلتے ہی قبیلے کے سات آدمی مجھے لینے آ گئے، ان کے پاس ایک سیاہ رنگ کا بکرا بھی تھا، جس کو ساتھ لانے کا مقصد مجھے سمجھ نہیں آیا تھا، انہوں نے مجھے بازؤں سے پکڑا اور گھسیٹتے ہوئے لے کر ایک جانب چلے گئے، ان ساتوں آدمیوں نے سر منڈوایا ہوا تھا، اور ان کے کپڑے بھی ایک جیسے تھے صرف ایک آدمی ایسا تھا جس نے اپنا چہرہ نقاب میں چھپا رکھا تھا، مجھے سمجھنے میں زرا دیر نہیں لگی تھی کہ وہ مجھے اس خونی بلا کے سامنے ڈالنے والا کام مذہبی فریضہ سمجھ کر ادا کرنے والے تھے، کافی دیر چلنے کے بعد وہ مجھے ایسی جگہ لے آئے جہاں پر چاروں جانب ریت کے بلند ٹیلے تھے اور ان کے درمیان اکلوتا درخت سر اٹھائے کھڑا تھا، انہوں نے مجھے اس درخت کے ساتھ کھڑا کر کے پہلے میرے دونوں ہاتھ باندھے، اور پھر رسی کے ساتھ مجھے چاروں جانب سے جکڑ کر درخت کے تنے سے باندھ ڈالا، رسی اتنی مضبوط تھی کہ میں کبھی بھی اس کو کھول یا توڑ نہیں سکتا تھا، جب وہ اس کام سے فارغ ہوئے تو ایک آدمی نے لباس سے چاقو نکال کر بکرے کی گردن کاٹ دی، اور اس کے خون کو اچھی طرح آس پاس گرا دیا،

 پھر وہ ساتوں آدمی درخت کے گرد دائرہ بنا کر کھڑے ہو گئے، اور بلند آواز میں مل کر کچھ پڑھنے لگے، کچھ دیر بعد وہ ساتوں واپسی کے لیے چل پڑے، ان میں سے جو نقاب پوش تھا وہ سب سے پیچھے پیچھے جا رہا تھا، اچانک وہ رک گیا اور میری جانب دیکھنے لگا اور پھر اس نے اپنا نقاب ہٹا دیا، یہ تو وہی عجیب صورت گنجا تھا جس نے سردار تارا خان کو الٹی سیدھی پٹیاں پڑھا کر مجھے مروانے کا انتظام کیا تھا، میرا بس چلتا تو میں رسی تڑوا کر اس بدنیت کو پکڑ کر مار ہی ڈالتا لیکن میں بے بس تھا، وہ آدمی چند لمحے میری بے بسی کا تماشہ دیکھ کر مسکراتا رہا پھر واپس پلٹ گیا اور جلد ہی وہ ساتوں میری نظروں سے اوجھل ہو گئے، میں اس بدنصیب بکرے کے ٹھنڈے ہوئے جسم کو دیکھ رہا تھا جو مجھ سے پہلے ہی اگلی دنیا میں جا چکا تھا اور سنیاسی قبیلے کی کسی فضول رسم کی بھینٹ چڑھ گیا تھا اچانک میرے دماغ میں ایک بات آئی اور میں لرز کر رہ گیا، مجھے یہ خیال پہلے ہی آجانا چاہیے تھا، بکرے کا گلہ کاٹ کر اس کا خون آس پاس پھیلانا کوئی مذہبی رسم نہیں تھی بلکہ یہ ان لوگوں کا مجھے بلا کے ہاتھوں مروانے کے پلان کا حصہ تھا، وہ جانتے تھے کہ رات ہوتے ہی اگر بلا اس جانب نا بھی آئی تو خون کی بو سونگھ کر تو لازمی آ جائے گی اور پھر سب سے پہلے میرا نرخرہ چبائے گی،

اور بعد میں بکرے کو کھائے گی، میرے لیے ہر طرف سے امید کے دروازے بند ہو چکے تھے، پچھلی رات اس خونی بلا نے جس طرح دو بندوں کو موت کے گھاٹ اتارا تھا تو مجھے یقین تھا کہ وہ مجھے بھی نہیں چھوڑے گی، اور کسی بھی وقت حملہ آور ہو جائے گی، اندھیرا تیزی سے پھیلتا جا رہا تھا، اور خوف اور پریشانی سے میرا دل بیٹھ رہا تھا، میں دل میں سوچ رہا تھا کہ اگر خونی بلا اس جانب نا بھی آئی تو بھوک اور پیاس مجھے مار ہی ڈالے گی، میں ایک مصیبت سے نکل کر دوسری میں پھنس گیا تھا، یہاں سے زندہ بچنے کے چانس کم ہی تھے، اب مکمل رات چھا گئی تھی چاند بھی نکل آیا تھا، جس کی روشنی میں ریگستان بہت پراسرار لگ رہا تھا، پھر ایک جانب سے صحرائی لومڑیوں کا ایک غول نمودار ہوا، اور دانت نکوستا ہوا مردہ بکرے کی جانب بڑھنے لگا، خون کی بو ان کو یہاں کھینچ لائی تھی، پھر میری آنکھوں کے سامنے وہ بکرے کے جسم کو نوچ نوچ کر کھانے لگیں،

 یہ منظر بہت دردناک تھا لومڑیوں کی چیخوں نے آسمان سر پر اٹھایا ہوا تھا، اور پھر ایک دم سے تیز ہوا چلنی شروع گئی، اس ہوا نے دیکھتے ہی دیکھتے آندھی کی شکل اختیار کر لی، اور گرد و غبار کے بادل ہر جانب پھیل گئے، چاند کی روشنی مدہم ہو کر غائب ہو گئی تھی، تیز آندھی کی سرسراہٹ میں لومڑیوں کے چیخنے اور غرانے کی آوازیں دل کو دہلا رہی تھیں، میں جان گیا تھا کہ یہ سب کچھ مل کر خونی بلا کو اس جانب متوجہ کر دیں گے، اور پھر وہی ہوا، اس شور و غل میں مجھے کسی چیز کے قدموں کی آوازیں سنائی دینے لگیں، دوڑتے قدموں کی یہ آوازیں لمحہ بہ لمحہ قریب آتی جا رہی تھیں یوں لگتا تھا کہ خونی بلا کسی بھی وقت یہاں پہنچ جائے 
گی۔

انوکھا ایڈوانچر (پانچواں اور آخری حصہ)


تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories for adults only, Urdu stories
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں