انوکھا ایڈوانچر (پانچواں اور آخری حصہ)

اردو کہانیاں
 

اگر گرد و غبار کا طوفان نا ہوتا تو شاید مجھے کچھ نظر آجاتا، لیکن ریت کے ذرے آنکھوں کو کھلنے نہیں دے رہے تھے، کچھ لمحوں بعد مجھے لگا کہ قدموں کی آوازیں میرے سر پر آ گئی ہیں،

 میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو مجھے شدید حیرانی ہوئی، میرے سامنے کوئی خونی بلا نہیں بلکہ دو گھوڑے اپنے سواروں سمیت کھڑے تھے، دونوں نے اپنے جسم چادروں میں اور چہرے نقاب میں چھپا رکھے تھے، پھر وہ گھوڑوں کو میرے قریب لے آئے، اور باری باری دونوں نیچے اتر گئے، مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ دونوں کون ہیں اور مجھ سے کیا چاہتے تھے، پھر ایک نقاب پوش گھڑ سوار نے لباس میں ہاتھ ڈال کر بڑا سا چمکیلا خنجر نکال لیا، اور میرے قریب کھڑا ہو کر مجھے دیکھنے لگا،

میں سمجھا کہ قبیلے والوں نے خونی بلا سے پہلے ہی مجھے قتل کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے، مجھے مت مارو، میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے؟ میں تو پہلے سے ہی بھٹکا ہوا بدنصیب مسافر ہوں. میں نے کانپتی آواز میں اس آدمی سے کہا تو اس نے ایک دم سے خنجر والا ہاتھ بلند کیا اور گھما کر اس رسی پر وار کیا جس سے مجھے باندھا گیا تھا، اس سے پہلے کہ میں کچھ سمجھتا، رسی ٹوٹ کر زمین پر گر چکی تھی، میں سمجھ رہا تھا کہ اس میں بھی ان گھڑسواروں کی کوئی چال ہے اور یہ مجھے ریگستان میں بھگا کر مارنا چاہتے ہیں، پھر ایک نقاب پوش نے اپنا نقاب نیچے کر دیا، اور حیرت سے میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا، کومل تم؟؟ میں نے حیرانی سے پوچھا تو وہ مسکراتے ہوئے بولی کہ میں نے وعدہ کیا تھا نا کہ جو کچھ ہو سکا تمہارے لیے کروں گی، تبھی دوسرے نقاب پوش نے بھی اپنا نقاب ہٹا دیا، اب وہ میرے ہاتھوں کی رسیاں کاٹ رہا تھا وہ ناشی بابا تھا، کومل کا باپ، خوشی سے میرے آنسو نکل آئے، مجھے آزاد کر کے ناشی بابا کہنے لگا کہ شکیل، تم فوراً روانہ ہو جاؤ، ورنہ ہماری جان کو بھی خطرہ ہو جائے گا،

 ہم نے تمہاری جان بچانے کے لیے اپنے قبیلے والوں سے غداری کی ہے، لیکن ناشی بابا۔۔۔ میں یہاں سے کس طرف کو جاؤں، میں دوبارہ بھٹک کر بھوک پیاس سے مر جاؤں گا، میں نے پریشانی سے پوچھا تو کومل بولی کہ تم کو لگتا ہے کہ ہم تم کو بھٹک کر بھوک پیاس سے مرنے دیں گے، یہ گھوڑا جس پر میں آئی ہوں، یہ بہت سدھرا ہوا ہے، یوں سمجھو کہ ریگستان کا شہزادہ ہے، اپنے سوار کو گرنے نہیں دیتا، اور یہ جو تھیلے ساتھ لٹک رہے ہیں، ان میں پانی اور کھانے کی وافر چیزیں موجود ہیں، پانچ دن بھی تم سے ختم نہیں ہوں گی، اب تم جاؤ، تمہارے منزل پر پہنچنے میں ہی ہماری خوشی ہے، 

میں نے ناشی بابا اور بالخصوص کومل کا شکریہ ادا کیا، اس لڑکی نے دو بار میری جان بچائی تھی، پہلی بار جب میں ہمت ہار کر ڈھلوان سے نیچے گرا تھا اور دوسری بار آج۔۔۔ ناشی بابا نے اپنے تجربے کی بنیاد کر مجھے بتا دیا تھا کہ میرا شہر کس طرف ہے اور مجھے کتنا وقت لگ سکتا ہے، میرا اندازہ تھا کہ اگر میں صحیح سمت میں چلتا رہا تو ایک ڈیڑھ دن میں اپنے گاؤں پہنچ جاؤں گا، پھر میں نے اپنے دونوں محسن انسانوں پر الوداعی نگاہ ڈالی اور رات کے اندھیرے میں اپنی منزل کی جانب نکل پڑا، چند قدم آگے جانے کے بعد میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو دونوں باپ بیٹی واپس جانے کے لیے اپنے گھوڑے پر سوار ہو چکے تھے، پھر میں نے گھوڑے کی رفتار بڑھا دی، اگرچہ اس سے پہلے میں گھوڑے پر کبھی سوار نہیں ہوا تھا، لیکن یہ گھوڑا سدھایا ہوا تھا، اور اپنے سوار کا خیال رکھنے والا تھا، جلد ہی میں اس خوفناک علاقے سے خوبصورت یادیں لے کر بہت آگے نکل آیا، اب موسم صاف ہو گیا تھا اور چاند کی روشنی ہر طرف پھیل چکی تھی،

چاروں جانب ریت کا پھیلا سمندر عجیب اور پراسرار لگ رہا تھا، ہلکی ہلکی ٹھنڈک بہت خوش گوار لگ رہی تھی، میں بہت احتیاط اور سوچ سمجھ کر گھوڑے کو آگے بڑھا رہا تھا، چاند کی وجہ سے مجھے سمت تلاش کرنے میں آسانی ہو رہی تھی، میں چاہتا تھا کہ رات کو موسم چونکہ ٹھنڈا ہوتا ہے اس لیے جتنا ہو سکا رات کو ہی سفر کروں گا، اور دن کو کسی جگہ آرام کروں گا، تاکہ گھوڑا بھی تازہ دم ہو سکے، ساری رات چلنے کے بعد صبح سویرے میں جیسے ہی ایک ٹیلے سے نیچے اترا تو میری خوشی کی انتہا نا رہی، سامنے ایک آدمی بھیڑ بکریوں کا ریوڑ لے کر ان کو چرانے جا رہا تھا،

 مجھے دیکھ کر وہ بھی رک گیا اور میں اس کے قریب جا پہنچا، گھوڑے سے نیچے اتر کر میں اس سے ملا اور اپنے شہر صادق آباد کا راستہ پوچھا تو وہ کہنے لگا کہ تم بالکل قریب پہنچ چکے ہو، یہ والا راستہ پکڑ لو، ایک گھنٹے بعد تمہارا علاقہ شروع ہو جائے گا میں اس کی بات سن کر بہت خوش ہوا، اس کا شکریہ ادا کر کے گھوڑے پر سوار ہونے ہی والا تھا کہ وہ آدمی بولا کہ رکو زرا ، میں رک کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا، وہ آدمی کہنے لگا کہ تم وہی تو نہیں ہو جس کے دو ساتھی اور بھی تھے جو صحرا میں الگ ہو گئے تھے، اس آدمی کی بات سن کر حیرت سے میری آنکھیں پھٹ گئیں، میں نے جلدی سے آگے بڑھ کر اس آدمی کا ہاتھ تھام لیا اور پوچھا کہ میں وہی ہوں اور وہ دونوں میرے ساتھی تھے، تم کو کیسے پتا چلا، وہ دونوں کیسے ہیں، کہاں ہیں، زندہ تو ہیں نا؟ میں نے ایک ہی سانس میں بہت سے سوال پوچھ ڈالے تھے تو وہ مسکراتے ہوئے بولا کہ حوصلہ رکھو، تمہارے دونوں ساتھی ڈیڑھ دن میرے گھر میں مہمان رہنے کے بعد کل رات ہی واپس اپنے گھر چلے گئے ہیں،

 میں معمول کے مطابق بکریوں کا ریوڑ لے کر نکلا ہوا تھا، دوپہر کا وقت تھا جب میں نے ویرانے میں دو آدمی کو زمین پر گرے ہوئے پایا۔۔ میں بھاگ کر ان کے پاس گیا تو میرا شک صحیح نکلا، وہ دونوں بھٹکے ہوئے مسافر تھے اور ان کی حالت بہت خراب تھی، میں فوراً واپس گھر گیا، ایک برتن میں کچھ پانی اور اپنے بھائی اور بھتیجوں کو ساتھ لے کر دوبارہ وہاں گیا، دونوں کے منہ میں پانی ٹپکایا تو ان کو تھوڑا سا ہوش آیا، ایک لڑکے کی حالت زیادہ خراب تھی اس کے پاؤں پر کسی زہریلی چیز نے کاٹا ہوا تھا،

ہم ان دونوں کو کسی نا کسی طرح اٹھا کر اپنے گھر لے گئے، ان کو پانی پلایا، کھانا کھلایا، اور گاؤں کے حکیم سے اس لڑکے کا علاج کروایا، جس کے پاؤں پر کسی چیز نے کاٹ لیا تھا، چونکہ اس صحرا میں زہریلی چیزیں کثرت سے پائی جاتی ہیں، اس لیے ہمارے حکیم کے پاس ان کے علاج کے لیے اچھی دوا بھی ہوتی ہے، ایک دن بعد ہی دونوں لڑکے بھلے چنگے ہو گئے تھے ہم نے مزید ان کو ایک دن اپنے ہاں مہمان رکھا اور پھر کل ہی میرا بھائی ان دونوں کو بحفاظت گھر تک چھوڑ کر آیا ہے، ان لڑکوں نے ہمیں تمہارے بارے میں بتایا تھا اور تمہارا حلیہ بھی اچھی طرح سمجھا دیا تھا کہ ہمارا ایک ساتھی اور بھی تھا اگر کہیں پر نظر آیا تو اس کی مدد ضرور کرنا،

 وہ دونوں کہہ رہے تھے کہ اگر تم گھر نا پہنچے ہوئے تو وہ گاؤں والوں کو ساتھ لے کر اونٹ اور گھوڑوں کی مدد سے سارا ریگستان چھان ماریں گے، اور تم کو لازمی بچا لیں گے، ہو سکتا ہے آج صبح وہ لوگ تم کو ڈھونڈنے صحرا کی جانب نکلنے والے ہوں، اس لیے تم جلدی سے گھر جا کر ان سے مل لو، اس آدمی کی باتیں سن کر میرا دل خوش ہو گیا تھا، پھر اس کے پوچھنے پر میں نے اسے بتا دیا کہ مجھے کوئی اچھا انسان مل گیا تھا اس نے اپنا گھوڑا اور ضرورت کا سامان مجھے دے کر وہاں سے بھیج دیا، باقی باتیں میں گول کر گیا تھا، پھر میں نے اس آدمی سے ہاتھ ملایا اور اس کے بتائے راستے پر گھوڑے کو بھگانا شروع کر دیا، ایک گھنٹے بعد اس وقت میری آنکھوں میں خوشی اور تشکر کے آنسو آ گئے،

 
جب میرا گاؤں میری نظروں کے سامنے تھا، میں اب جلد سے جلد گھر پہنچ جانا چاہتا تھا کیونکہ مجھے معلوم
 تھا کہ میرے دوست تو گھر واپس پہنچ گئے ہیں لیکن میری وجہ سے میرے گھر والے اور سب لوگ پریشان ہوں گے۔۔۔ اور ابھی گاؤں جا کر سب کو اس "انوکھے ایڈونچر" کی داستان بھی تو سنانی تھی نا، اور ہاں ۔۔۔ میں نے دوبارہ بھی اس قبیلے میں واپس جانا تھا۔۔ کیونکہ میرا دل بار بار مجھے کومل کی جانب کھینچتا تھا اور مجھے معلوم تھا کہ وہ بھی میری راہ دیکھا کرے گی۔۔۔۔ اور اس خونی بلا کا بھی تو پتا کرنا تھا نا کہ وہ قبیلے والوں کے قابو آئی تھی یا نہیں۔

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories for adults only, Urdu stories
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں