اک لڑکی کا خوفناک سفر (پہلا حصہ)

Urdu stories
 

ایک لڑکی کی دل دہلا دینے والی خوفناک کہانی

وہ جب سٹیشن پوھنچی تو رات کے 10 بج رہے تھے سردی سے اس نے خود کو بچانے کے لئے صرف ایک گرم چادر لپیٹی ہوئی تھی باقی اس کے پاس کوئی سامان نہیں تھا دھند کی وجہ سے تھورے فاصلے پہ بھی کوئی نظر نہیں آرہا تھا.

 سٹیشن بلکل ویران تھا یا پھر کوئی تھا بھی تو دھند کی وجہ سے نظر نہیں آرہا تھا وہ بینچ پہ بیٹھ کر ٹرین کا انتظار کرنے لگی تھوڑی دیر بعد ہی علان ہوا کے ٹرین پوہنچنے والی ہے اتنے میں چاۓ والا آیا باجی چاۓ لاؤں آپ کے لئے چاۓ کا سن کے اسے یاد آیا کے اس نے تو صبح سے کچھ بھی نہیں کھایا اس نے ہاں میں سر ہلایا تو چاۓ والا چلا گیا اب سردی سے اس کے پاؤں سن ہونے لگے تو پاؤں سمیٹ کر وہ بیٹھ گئی آج جو اس کے ساتھ ہوا تھا اس نے اس کی بھوک نیند سب ختم کر دی تھی ایک آنسو اس کی آنکھ سے نکلا تو اس نے جلدی سے صاف کیا کیوں کے چاۓ والا چاۓ لا چکا تھا اور اب پوچھ رہا تھا آپ چاۓ کے ساتھ کچھ لیں گی 

اس نے کہا نہیں بس تو وہ چلا گیا صبح سے اس کے سر میں بہت درد ہو رہا تھا چاۓ پی کے کچھ سکون آیا تو اٹھ کے ٹکٹ لینے چلی گئی اب اس کے پاس ایک ہی اسرا تھا اور وہ تھی اس کی بوڑھی نانی ماں کا بچپن میں ہی انتقال ہوا تھا باپ تھا جس نے اسے ماں باپ دونوں کا پیار دیا تھا لیکن آج باپ کا سایہ بھی نہیں رہا تھا باپ مزدوری کر کے اس کی چھوٹی موٹی خواھشیں پوری کرتا تھا ایک دن گھر سے نکلا تو 2 دن کوئی خبر نہیں آئ سیرت ساتھ والے چاچا کے گھر گئی کے چاچا میرے بابا کل سے گھر نہیں آے چاچا بھی پریشان ہوئے کے ایسے بچی کو چھوڑ کے کہاں جا سکتے ہیں اس نے سیرت کو تسلی دی کے بیٹا تم پریشان مت ہو میں پتہ کرتا ہوں کام والی جگہ پہ سیرت ہاں میں سر ہلاتی ہوئی پریشان گھر واپس آئی⁦⁩ اور اپنے پیارے بابا کے لئے دعا کرنے لگی کے اللّه میرے بابا کو گھر لیکے آ میرا تو بابا کے سوا کوئی بھی نہیں ہے روتے روتے پتہ نہیں کتنا ٹیم گزرا تھا کہ دروازے پہ دستک ہوئی وہ آنسو صاف کرتی ہوئی جلدی سے اٹھی کے شاید بابا آگیے ہیں

 دروازہ کھولا تو سامنے چاچا کھڑے تھے پریشان سیرت نے جلدی سے پوچھا چاچا کچھ پتہ چلا میرے بابا کہاں ہیں تو اس نے سیرت کی طرف دیکھ کے کہا کے بیٹا تمہارے بابا کام کرتے ہوئے چھات چھت سے گر گئے تھے تو کچھ لوگ ہسپتال لیکے گئے ہیں میں نے پتہ کیا ہے ہسپتال کا میں تمہیں لیکے چلتا ہوں سیرت یہ سن نے سے پہلے ہی زمین پہ گر گئی تھی پھر چاچا نے اپنی بیوی کو بلایا تو پھر رحمت چچی نے اسے اٹھا کے چارپائی پہ ڈالا اور منہ پہ پانی کے چھنٹے مارے پھر سیرت ہوش میں آئ اور ہوش میں آتے ہی چیخنے لگی کے مجھے بابا کے پاس جانا ہے پھر چاچا اور چچی رحمت دونوں اس کے ساتھ ہسپتال گئے

 وہاں جا کے معلوم ہوا کے اس کے جان سے پیارے بابا آئ سی یو میں ہیں چاچا نے ڈاکٹر سے کہا کے ڈاکٹر صاحب یہ اس کی بیٹی ہے کیا اپنے باپ سے مل سکتی ہے ڈاکٹر نے اجازت تو دی لیکن یہ کہ کے مریض کی کنڈیشن ٹھیک نہیں زیادہ بات نہیں کرنی اور ڈاکٹر نے نرس کو اشارہ کیا کے اس کو لیکے جا اندر تو نرس سیرت کو لیکے ایک کمرے کی طرف بڑھ گئی اندر اور بھی بہت سے مریض پڑے تھے کوئی بھی سہی حالت میں نہیں تھا وہاں سیرت کو خوف نے گھیر لیا اینڈ پہ جا کے دیکھا تو اس کے بابا سر سے پاؤں تک پٹیوں میں لپٹے ہوئے تھے سیرت چیخ مار کے باپ سے لپٹ گئی اتنے میں بابا نے بھی آنکھیں کھولی ہلکی سی اور ایک آنسو نکلا آنکھ سے گال پہ پٹیوں میں جذب ہوگیا سیرت نے کہا بابا کیا ہوا آپ کو بابا یہ سب کیسے ہوا تو بابا نے کہا بیٹا میں بہت شرمندہ ہوں تم سے میں اپنی گڑیا کا خیال نہیں رکھ پاؤں گا میری جان اگر مجھے کچھ ہوا تو تم اپنی نانی کے پاس چلی جانا سیرت نے جلدی سے کہا نہیں بابا میں آپ کے بغیر نہیں رہ سکتی بابا آپ کو کچھ نہیں ہوگا آپ بہت جلد ٹھیک ہو جاینگے 

اتنے میں بابا کی سانس خراب ہونے لگی تو نرس نے اس سے کہا کے آپ باہر جاؤں پلیز مریض کو آرام کرنے دو تو وہ بابا کا ماتھا چوم کے روتے ہوئے باہر آئ چاچا نے کہا بیٹا گھر چلیں کل انشااللہ پھر آجاینگے تو سیرت نے کہا نہیں چاچا میں اپنے بابا کے پاس رہوں گی تو چاچا اور چچی چلے گئے پھر اس نے وضو کیا اور کمرے کے پاس ہی بینچ پہ بیٹھ گئی اور دعایں پڑھنے لگی پڑھتے پڑھتے پتہ نہیں کتنا ٹیم گزرا تھا کے ایک نرس آئ اور کہا کے آپ کے ساتھ اور کوئی ہے تو سیرت نے کہا نہیں کوئی نہیں ہے کیا بات ہے تو نرس نے کہا کے آپ کے والد کی ڈیتھ ہو گئی ہے سیرت نے یہ سنا تو کچھ دیر اسے سمجھ نہیں لگی کے یہ کیا بول رہی ہے دماغ میں عجیب سی آندھياں چل رہی تھی جب سمجھ لگ گئی تو چیخے مار مار کے رونے لگی پھر ہمت کی اور چچا کو فون کیا چچا بھی پوھنچ گئے اور پھر بابا کی لاش کیسے گھر لیکے گئے ہوش تو تب آیا جب محلے کے لوگ اس کے بابا کو ان کی آخری آرام گاہ کی طرف لیجا رہے تھے

 پھر بابا کو دفن کیا گیا اس کی تو دنیاں ہی اجڑ گئی تھی ویران ہوگئی تھی رات ہوئی تو رحمت چچی اور محلے کی باقی عورتیں اس کے پاس آئ ایک عورت نے کہا بٹیا کوئی رشتے دار ہے تمہارا جہاں تم جا سکو اکیلی کیسے رہو گی اب اس نے کہا میری نانی ہیں ملتان میں میں چلی جاؤں گی پھر اس رات تو رحمت چچی اس کے پاس رک گئی اور صبح دونوں نے مل نے اس کا سامان پیک کرنا شرو کیا.

سیرت نے اپنا ضروری تھوڑا تھوڑا سامان پیک کیا اس کے پاس تھا بھی کیا کچھ کپڑے ہی تو تھے جو بابا نے اسے لا کے دئے تھے چچی نے کہا بیٹا رات 11 بجے کی ٹرین جاتی ہے ملتان تم تب تک اپنی تیاری کر لو اور اگر کسی چیز کی ضرورت پڑی تو بتانا پھر چچی یہ کہ کر چلی گئی اور سیرت گھر کی ایک ایک چیز دیکھ کر روتی رہی دوپہر کو چچی کھانا لیکے آئ اس نے لے تو لیا پر کھایا نہیں چچی نے کہا بھی کے بیٹا کھانا کھا لینا تم نے صبح ناشتہ بھی نہیں کیا سیرت نے کہا جی میں کھا لوں گی پر اس سے کھایا نہیں گیا آج وہ اس جگہ سے جا رہی تھی جہاں وہ پیدا ہوئی بڑی ہی 18سال گزارے تھے اس نے اس گھر میں یہاں بابا کی یادیں بسی ہوئی تھی پر کیا کرتی وہ یہاں چاہ کے بھی نہیں رہ سکتی کے اب اس کا کوئی نہیں تھا یہاں کام کرتے کرتے رات ہو گئی پتہ بھی نہیں چلا اور چچا اسے لینے آگۓ 

چچا کار لیکے آئے تھے اسے کہا تم لوگ جاؤ میں آتا ہوں سامان لیکے اور اب وہ سٹیشن پہ چچا کا انتظار کر رہی تھی اتنے میں چاچا بھی آگئے سامان لیکے اور ٹرین کی بھی روشنی نظر آنے لگی چاچا نے سیرت کو تاکعید کی کے بیٹا اپنا خیال رکھنا اور اپنا نمبر دیا کے جاتے ہی فون کرنا ٹرین آگئی تو چاچا نے اس کا سامان رکھ دیا اور اسے سیٹ پہ بٹھا دیا پورے ڈبے میں اس کے علاوہ کوئی نہیں تھا سیرت نے کہا کے چاچا مجھے تو بہت ڈر لگ رہا ہے پورا ڈبہ خالی پڑا ہے تو چچا نے کہا کے بیٹا ڈرو نہیں اگے اگے جا کے پھر لوگ چڑھتے ہیں حوصلہ رکھ اور چاچا نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا دعایں دی اور چلا گیا چچا کے جانے کے بعد سیرت خود کو بلکل اکیلا محسوس کرنے لگی اور روتی رہی ٹرین بھی چل پڑی تھی اب تو اسے اور خوف محسوس ہونے لگا ایک تو سردی اندھیرا اور پھر پورا ڈبہ خالی پڑا تھا اللّه جانے باقی ڈبوں میں بھی کوئی تھا یا نہیں وہ یہ سوچتے سوچتے کب نیند کی وادی میں چلی گئی اسے خود بھی پتہ نہیں چلا 

وہ 2 دن سے سوئی بھی تو نہیں تھی اس لئے جلدی ہی سو گئی نیند کتنی دیر گزری تھی اسے پتہ بھی نہیں چلا اچانک اس کی آنکھ کھلی تو ٹرین کے ایک جھٹکے سے رکنےکی وجہ سے اس نے ہاتھ میں بندھی گھڑی میں ٹیم دیکھا تو رات کے 2بج رہے تھے اس نے آنکھیں مل کے ادھر ادھر دیکھا پر ٹرین میں اس کے علاوہ کوئی نہیں تھا باہر دیکھا تو خوف سے اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے کیوں کے یہ ایک عجیب اور غریب جگہ تھی ہر طرف ریت ہی ریت چاند کی روشنی میں چمک رہی تھی اور اس کے بیچ ٹرین کھڑی تھی نا کوئی پٹڑی تھی بس ٹرین ریت میں ہی کھڑی تھی اب تو اس کا پورا جسم کانپ رہا تھا کے یہ کیسے ہو سکتا ہے اور وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور دروازے پہ گئی دروازہ کھولا کے میں دیکھوں کے اور بھی کوئی باہر آیا ہے ٹرین سے یا سب لوگ سو رہے ہیں۔

 جیسے ہی اس نے دروازہ کھولا اور باہر دیکھا وہاں کوئی نہیں تھا وہ دوسرے ڈبے میں دیکھنے لگی حیرت تب ہوئی جب دوسرا ڈبہ بھی خالی پڑا تھا اور یہ ہی حال پورے ٹرین کا تھا اس میں سیرت کے سوا کوئی بھی نہیں تھا وہ باہر دیکھنے کے لۓ لئے ہمّت کر کے ٹرین سے اتری اور اتر تے ہی اس کی چیخیں آسمان کو چھونے لگی نیچے سارا قبرستان تھا جہاں وہ کھڑی تھی قبروں کے بیچ کھڑی تھی.

سیرت خوف سے کانپ رہی تھی اسے ایسا لگ رہا تھا کے وہ یہ سب خواب میں دیکھ رہی ہے وہ حیران اور پریشان کھڑی تھی کے ٹرین ایک جھٹکے سے پھر چلنے لگی وہ ٹرین کی آواز سے ہوش کی دنیاں میں واپس آئ اور جلدی سے ٹرین میں چڑھ گئی کیا دیکھتی ہے کے ٹرین تو لوگوں سے بھری ہوئی ہے اسے حیرت ہوئی کے تھوڑی دیر پہلے تو کوئی نہیں تھا یہاں پھر یہ اتنے لوگ کہاں سے آے وہ خاموشی سے اپنی جگہ پہ جا کے بیٹھ گئی اور دل میں سوچنے لگی کے چلو شکر ہے اب میں اکیلی تو نہیں ہوں سب لوگوں نے اپنے چہروں پہ کچھ نا کچھ ڈالا ہوا تھا اور شاید سب سو رہے تھے سب کے چہرے ڈھکے ہوئے تھے وہ بھی تھوڑی دیر میں سو گئی کچھ دیر سوئی ہوگی کے اس کی آنکھ شور سے کھلی وہ اٹھ کے ادھر اودھر دیکھنے لگی یہ شاید کوئی سٹیشن تھا پر بہت ہی عجیب سب لوگ ٹرین سے اتر گئے تھے سیرت بھی اتر گئی اور باہر دیکھنے لگی وہ لوگ جو ٹرین میں تھے

 اب ایک دائرے کی صورت ایک دوسرے سے جڑ کے بیٹھے تھے اور شاید کچھ کھا رہے تھے سیرت بھی اگے بڑھی کےدیکھوں یہ لوگ کیا کر رہے ہیں سیرت جیسے ہی آگے بڑھی ایک عجیب سی شکل والا آدمی جو آدمی کم اور بکرا زیادہ لگ رہا تھا اس آدمی کی شکل اور جسم بلکل کسی جانور کی طرح لگ رہا تھا وہ آیا اور سیرت سے کہنے لگا آپ بھی آؤ نا میڈم کھانا لگا ہوا ہے سیرت کو اس آدمی سے خوف انے لگا پھر بھی وہ اس آدمی کے ساتھ ان لوگوں کے پاس آگئی جو کھانا کھا رہے تھے جیسے ہی سیرت کی نظر نیچے پڑی جہاں سے وہ لوگ کھا رہے تھے اسے بے اختیار الٹی آگئی کیوں کے وہ لوگ ایک انسان کا گوشت نوچ نوچ کے کھا رہے تھے اور ان کے منہ اور ہاتھوں پہ خون لگا ہوا تھا اور زمین بھی خون سے سرخ ہو گئی تھی سیرت چیخ مار کے وہاں سے بھاگنے لگی پھر اسے ہوش نہیں رہا کے وہ کہاں جا رہی ہے بس بھاگ رہی تھی پھر پاؤں شاید کسی چیز سے ٹکرایا تھا اور وہ گر پڑی تھوڑی دیر ایسے ہی پڑی رہی پھر اٹھنے کی کوشش کی تو پاؤں میں درد کی وجہ سے پھر بیٹھ گئی

 پھر آہستہ آہستہ اٹھی اور اپنے پیچھے دیکھنے لگی اپر دیکھا تو چارو طرف پہاڑ ہی پہاڑ تھے اور اس کے پیچھے گھنا جنگل تھا سیرت خوف سے کانپنے لگی یا اللّه یہ میں کہاں پھنس گئی ہوں یہ کیا ہو رہا ہے میرے ساتھ پھر وہ آگے بڑھنے لگی چلتے چلتے بہت تھک گئی پر یہاں نا تو کوئی سڑک تھی اور نا ہی کوئی انسان نظر آرہا تھا پھر اسے دور پہاڑ پہ دھواں نظر آنے لگا تو وہ خوش ہوئی کے شاید یہاں لوگ رہتے ہیں میری مدد ضرور کریں گے پھر اس نے تیز تیز دوڑنا شروع کیا اور پھر وہاں پوھنچ گئی یہ ایک جھونپڑی تھی اور اس کے اندر شاید کوئی آگ جلا کے کچھ پکا رہا تھا سیرت نے آواز دی کوئی ہے اندر سے کوئی آواز نہیں آئ اس نے پھر آواز دی کوئی ہے پلیز میں مصیبت میں ہوں میری مدد کریں جب پھر بھی اندر سے کوئی آواز نہیں آئ تو سیرت آهستہ آهستہ چلتی ہوئی دروازے پہ پوھنچی اور ہلکا سا دروازے کو دھکہ دیا تو وہ کھلتا چلا گیا اندر دیکھا تو ایک مٹی کا چولھا جل رہا تھا جس میں لکڑیاں پڑی ہوئی تھی ایسا لگ رہا تھا کے جیسے ابھی ابھی کوئی جلا کے گیا ہو تھوڑے برتن پڑے تھے زمیں پہ گھاس اس طرح بچھای گئی تھی کے وہاں سویا جا سکتا تھا جھونپڑی گرم ہو رہی تھی جو کے سیرت کو سکون دے رہی تھی

 باہر سردی عروج پہ تھی اور اب تو آسمان پہ گرج چمک بھی شروع ہو چکی تھی اور تھوڑی دیر میں طوفانی بارش بھی آگئی ایسا لگ رہا تھا کے بارش اور طوفاں اس جھونپڑی کو اڑا لے جاۓ گی سیرت آگ کے پاس بیٹھ کر خود کو گرم کرنے لگی اور سوچنے لگی کے نجانے اس جھونپڑی میں رہنے والے لوگ اتنی بارش میں کہاں پھنس گئے ہونگے پھر اسے نیند آئ تو وہ گھاس پہ لیٹ گئی اور اپنی زندگی کے بارے میں سوچنے لگی کے نجانے اور کون کون سی مصیبت کا سامنا کرنا پڑے گا تھکاوٹ کی وجہ سے وہ جلد ہی نیند کی وادی میں پوھنچ گئی پھر رات کا ناجانے کونسا پہر تھا کے باہر سے باتیں کرنے کی آوازیں آنے لگی اور اس کی آنکھ کھل گئی باتوں پہ غور کرنے لگی پر یہ ایک عجیب ہی زبان تھی جس میں 2لوگ باتیں کر رہے تھے اور ان دونوں کی آوازیں ایسی تھی جیسے گہرے كنوے سے آرہی ہو اور ان کو شاید شک ہوا تھا کے اندر کوئی ہے بارش اب بھی برس رہی تھی اور وہ جو بھی تھے اتنی سردی اور بارش میں بلکل آرام سے باہر کھڑے ہو کے باتیں کر رہے تھے.
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں