اک لڑکی کا خوفناک سفر (دوسرا حصہ)

پرانے زمانے کی کہانیاں
 

ایک لڑکی کی دل دہلا دینے والی کہانی

اب آوازیں دروازے کے پاس سے آنے لگی سیرت کو خوف محسوس ہونے لگا اسے کسی گڑ بڑ کا احساس ہونے لگا تو وہ جلدی سے اٹھی اور کمرے میں چھپنے کی جگہ ڈھونڈھنے لگی

 اسے کمرے کے کونے میں لکڑیوں کا ڈھیر نظر آیا تو وہ جلدی سے جا کے اس کے پیچھے چھپ گئی اور باہر بھی دیکھنے لگی اتنے میں کمرے میں ایک عجیب مخلوق آئ یہ ایک چھوٹے قد کا آدمی تھا شاید جس کے پورے جسم پہ کالے لمبے بال تھے اور اس کی زبان اتنی لمبی تھی کے وہ اس کے پیٹ پہ لٹک رہی تھی اور زبان سے خون کے ٹپکے نیچے گر رہے تھے اور وہ کمرے کے چارو طرف سونگنے لگا اتنے میں پیچھے سے ایک بہت ہی بدصورت بوڑھیا بھی اندر آئ اس بوڑھیا کا چہرہ ایسا تھا کہ گوشت کا نام نشان بھی نہیں تھا اس پہ آنکھیں بلکل چھوٹی اور گول تھی بال ایسے تھے کے جیسے گھاس کا ڈھیر ہو اس کے جسم پہ کوئی کپڑا نہیں تھا اور سر کے بل اتنے لمبے گھنے غلیظ تھے کے بالوں نے پورا جسم ڈھانپا ہوا تھا

 اس کے ہاتھ میں ایک انسانی پیر تھا جو وہ نوچ نوچ کے کھا رہی تھی سیرت نے جب یہ دیکھا تو مارے خوف کے وہی پہ بیہوش ہوگئی پتہ نہیں کتنا ٹیم گزرا تھا جب اسے ہوش آیا اور اب کو جلدی سے بیٹھ گئی اب جھونپڑی خالی تھی وہاں کوئی نہیں تھا باہر بھی بلکل خاموشی تھی شاید بارش بھی رک گئی تھی اور وہ لوگ بھی نظر نہیں آرہے تھے سیرت جلدی سے اٹھی اور آہستہ آہستہ سے دروازہ کھول کے باہر دیکھنے لگی باہر بھی کوئی نہیں تھا وہ جلدی سے باہر نکلی اور دوڑنے لگی 

اب شاید صبح ہونے والی تھی کیوں کے ہلکی ہلکی روشنی ہو رہی تھی وہ دوڑتے ہوئے کتنی ہی بار گر جاتی کیوں کے بارش کی وجہ سے کچی زمین کھیچڑ سے بھری ہوئی تھی یہ ایک گھنا جنگل تھا جہاں وہ دوڑ رہی تھی، اب تو بھوک اور پیاس سے اس کا برا حال تھا،وہ ایک درخت کے پاس بیٹھ گئی اور لمبے لمبے سانس لینے لگی جب کچھ سکون ملا تو وہ اٹھی اور جنگل کا جائزہ لینے لگی یہ بہت ہی گھنا جنگل تھا وہ ہمّت کر کے پھر چلنے لگی تو اسے روشنی نظر آنے لگی شاید اب جنگل ختم ہونے لگا تھا وہ اور تیز دوڑنے لگی تو روشنی اور تیز ہونے لگی اب وہ جنگل سے نکل کر ایک کھلے میدان میں آگئی تھی

 اسے دور سے کچھ گھر نظر آنے لگے تو وہ خوش ہوکے اس طرف جانے لگی نزدیک جاکے دیکھا تو وہ کچھ گھر نہیں پورا گاؤں تھا وہ گاؤں کے اندر داخل ہو گئی پر اسے ایک بھی انسان نظر نہیں آیا اور نا کسی انسان کی آواز سنی وہ ایک گھر کا دروازہ کھڑ کا کے اندر گئی اندر استعمال کی ہر چیز پڑی تھی گھر صاف ستھرا پڑا تھا پر گھر میں کوئی انسان نہیں تھا اسی طرح اس نے بہت سے گھر دیکھے پر سب خالی سیرت حیران پریشان کھڑی رہ گئی کے گھر تو ہیں پر انسان نہیں ہیں آخر یہ لوگ کہاں گئے سب وہ یہ سب سوچ ہی رہی تھی کے اس کے کانوں میں بچے کے رونے کی آواز آئ وہ حیرانی سے دیکھنے لگی کے یہ بچہ کہاں سے رو رہا ہے وہ ایک گھر کے پاس رکی آواز اسی گھر سے آرہی تھی وہ جلدی سے اندر گئی کیا دیکھتی ہے کہ کمرے میں ایک جھولا لٹکرہا ہے اور اس جھولے میں شاید کوئی بچہ تھا وہ جھولے کے پاس گئی تو دیکھا ایک بلکل چھوٹا سا بچہ پڑا ہے جھولے میں جو بمشکل تین ماہ کا بھی نہیں تھا

 بچہ سیرت کو دیکھ کے چپ ہو گیا سیرت نے بچہ اٹھایا بچہ بہت ہی پیارا تھا جو اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے سیرت کو دیکھ رہا تھا سیرت کو بچے پہ بہت پیار آیا اور ترس بھی کے پتہ نہیں اس کے ماں باپ کہاں ہیں بچے کو شاید بھوک لگی تھی وہ دونوں ہاتھوں کے انگوٹھے منہ میں ڈالے ہوئے تھا سیرت نے کمرے میں نظر دوڑای کے شاید کچھ کھانے کو مل جاۓ تو خود بھی کھا لے اور بچے کو بھی کھلاۓ کمرے میں تو کچھ نہیں تھا وہ بچہ اٹھاۓ باہر آگئی یہاں کمرے کے پاس شاید کچن تھا وہ اندر گئی تو یہاں کھانے کا سارا سامان پڑا تھا خوشک دودھ کے ڈبے بھی پڑے تھے سیرت نے ایک ڈبہ کھولا اور پانی میں دودھ ملا کے اب وہ بچے کو چمچ سے پلانے لگی سیرت نے تین بار دودھ بنایا اور بچے نے پیا سیرت کو ترس آنے لگا کے پتہ نہیں کب سے بھوکا ہے یہ بیچارہ وہ اپنا غم بھول گئی اور بچے کے لئے پریشان ہونے لگی بچہ دودھ پی کے اس کی گود میں ہی سو گیا

 سیرت نے خود اپنے لئے بھی ایک دبے میں سے دودھ نکالا اور پانی میں حل کر کے وہی پیا جو کے اسے بہت اچھا لگا اس نے کچن کی تلاشی شروع کی کے شاید کچھ اور مل جاۓ اسے ایک کاٹن میں سے بسکٹ کے پیکٹ ملے اس نے وہ بھی ساتھ لئے اور دودھ کے دو ڈبے بھی ساتھ لئے ایک بوتل میں پانی ڈالا ایک چادر سے تھیلا سا بنا کے اس میں یہ سب چیزیں ڈال کے کمر کے ساتھ باندھ دیا اور بچے کو اٹھا لیا کے چلو اللّه کے سپورد اور چل پڑی گھر سے نکل کر اس نے پورے گاؤں پہ ایک نظر ڈالی اور کہا اللّه جانے ان لوگوں کے ساتھ کیا ہوا ہوگا پھر وہ چل پڑی گاؤں سے نکل کر وہ اب سوچنے لگی کے یا اللّه اب میں کس طرف جاؤں اب تو میرے ساتھ یہ چھوٹا بچہ بھی ہے رحم کر اللّه ہم پہ پھر اللّه کا نام لیکر وہ ایک طرف چلنے لگی یہ ایک چھوٹا سا راستہ تھا جو نیچے کی طرف جا رہا تھا اب ایک سائیڈ پہ کھیت تھے اور دوسری سائیڈ پہ ایک ندی بہہ رہی تھی وہ ندی کے کنارے کنارے چلنے لگی کے شاید میں سڑک تک پوہنچ جاؤں چلتے چلتے بہت دیر ہو گئی پر نا تو سڑک نظر آئ اور نا ہی کوئی انسان اس نے دیکھا،،

 سوچنے لگی یہ کیسا امتحان ہے اللّه میرے ساتھ اور یہ کونسا جہان ہے جہاں میں پھنس گئی ہوں گئی ہوں، پتہ نہیں زندہ سلامت گھر پوہنچ بھی پاؤں گی یا نہیں اب تو شام ہونے والی تھی وہ بہت تھک گئی ایک جگہ بیٹھ کے بچے کو دودھ بنا کے دیا اور خود بسکٹ کھانے لگی ابھی وہ بیٹھی ہی تھی کے آسمان پہ کالے کالے بادل آیے ایسا لگ رہا تھا کے بہت تیز بارش شروع ہونے والی ہو سیرت نے آسمان کی طرف دیکھا اور سوچنے لگی کے اگر بارش شروع ہو گئی تو کیا ہوگا یہاں تو سر چھپانے کی جگہ بھی نہیں ہے وہ بچے کو اٹھا کے اب دوڑ رہی تھی کے اتنے میں گرج چمک کے ساتھ بہت تیز بارش شروع ہو گئی اور پیچھے سے ایسا شور آنے لگا جیسے بہت بڑا سیلاب آرہا ہو،

شور کی آواز سے سیرت نے ایک دم پیچھے دیکھا ایسا لگ رہا تھا کے آج ہی دنیاں ختم ہو جاۓ گی قیامت سا شور سیرت دوڑنے لگی اس نے سختی سے بچے کو خود سے باندھا ہوا تھا اور دوڑ رہی تھی بارش ایسی تھی کے آج نہیں برسے گی تو کب برسے گی اتنے میں ایک بلند چوٹی پہ اسے ایک گھر دکھا وہ بےتحاشا اس دوڑ کے اس چوٹی پہ چڑھنے لگی اور کامیاب بھی ہو گئی سامنے ایک کچا چھوٹا سا گھر تھا وہ زور زور سے دروازہ پیٹنے لگی پھر کسی نے دروازہ کھولا وہ بنا پوچھے بنا دیکھے اندر چلی گئی جس نے دروازہ کھولا تھا وہ حیران اور خوفزدہ نظروں سے سیرت دیکھے گئی

 یہ ایک بوڑھی عورت تھی اب وہ پوچھ رہی تھی کون ہو تم اور کہاں سے آئ ہو زندہ کیسے آئ سیرت نے کہا کے بہت بارش ہے مجھے اندر جانے دو میرے ساتھ ایک چھوٹا بچہ بھی ہے ہم بھیگ گئے ہیں پلیز پھر اس نے کہا ہاں ہاں جلدی چلو اندر پھر وہ اندر کی طرف بڑھ گئے یہ ایک چھوٹا کمرہ تھا جس میں ایک چارپائی پڑی تھی زمین پہ چٹآئی بچھی ہوئی تھی کھجور کے چھال سے بنی ہوئی کچھ برتن تھے ایک مٹی کا گڑھا تھا اور کمرے کے کونے میں مٹی کا چولہا جل رہا تھا جس پہ مٹی کی ہانڈی پڑی ہوئی تھی اور شاید اس میں کھانا پک رہا تھا سیرت نے اندر جا کے جلدی جلدی بچے کو کھولا بچہ حل نہیں رہا تھا اور نیلا پڑ گیا تھا سیرت نے جلدی سے بچے کے کپڑے اتارے اسے چولہے کے پاس گرم کرنے لگی پر بچہ پھر بھی نہیں ہلا سیرت رونے لگی بوڑھیا نے کہا مجھے دو بچہ ذرا اس نے بچہ بوڑھیا کو دیا سیرت نے کہا اما دیکھو کیا ہو گیا ہے کچھ کرو پلیز اما نے کہا رو نہیں یہ سردی کی وجہ سے بیہوش ہوا ہے گرم کریں گے تو ہوش میں آجاۓ گا پھر وہ اٹھی اور ایک کونے کی طرف بڑھ گئی جہاں ایک پرانی پیٹی پڑی تھی 

بوڑھیا نے اس میں سے ایک چادر نکالی اور پھر چادر چولہے کے پاس جا کے گرم کی پھر جلدی سے اس میں بچہ لپیٹا پھر سیرت سے کہنے لگی تمہارے کپڑے بھی تو گیلے ہو گئے ہیں میرے پاس اچھے کپڑے تو نہیں لیکن میری بیٹی کے کپڑے پڑے ہیں تم وہ پہن لو اما نے اسے کپڑے دئے سیرت نے اس کا شکریہ ادا کیا اما نے کمرے کے کونے کی طرف اشارہ کیا جہاں ایک پردہ پڑا ہوا تھا کہا وہاں بدل لو کپڑے سیرت نے کپڑے بدلے تو اسے تھوڑا سکون ملا سردی سے تو اس کا بھی برا حال تھا بس بچے کے غم میں خود کو بھول گئی تھی اب وہ بوڑھیا ایک تھیلے سے کچھ جڑی بوٹیاں نکالنے لگی پھر اس نے ایک مٹی کا برتن لیا اور اس میں کاڑا بنایا ان جڑی بوٹیوں کا پھر وہ سیرت کو دیا کے خود بھی پی لو اور بچے کو بھی پلاؤ تم لوگوں کو سردی لگی ہے سیرت نے تشکر بھری نظروں سے اما کو دیکھا جو اس وقت کسی فرشتے سے کم نہیں لگ رہی تھی اس کے لئے یہ گھر اور یہ عورت کسی خوبصورت معجزے سے کم نہیں تھے وہ بھی اتنے خوفناک بارش اور طوفان میں جس نے اسے سہارا دیا تھا وہ اما کے ہاتھ سے مٹی کا برتن لیکے آہستہ آہستہ پینے لگی دوائی کڑوی تو تھی پر بہت اچھی تھی منٹ میں اس سردی ختم ہو گئی

 اس نے کچھ قطرے بچے کے منہ میں بھی ڈالے تھوڑی دیر میں بچہ بھی ہاتھ پاؤں ہلانے لگا سیرت کو بہت خوشی ہوئی وہ اما کا شکریہ ادا کرنے لگی اما نے کہا اب بتاؤ کہاں سے آئ ہو اس وقت میں نے اس لئے نہیں پوچھا کچھ کے تمہاری حالت بہت خراب تھی اب بتاؤ اپنے بارے میں تو سیرت نے شروع سے سب بتا دیا گاؤں والی بات پہ اما کا رنگ پیلا پڑ گیا وہ حیرت سے اس بہادر لڑکی کو دیکھنے لگی جس پہ نجانے کتنی مصیبتیں آئ تھی اور یہ پھر بھی زندہ تھی اما نے سیرت سے کہا کے حیرت ہو رہی ہے کے تم اس گاؤں سے زندہ واپس آئ ہو اور ساتھ میں یہ بچہ بھی اٹھا لائی ہو سیرت نے کہا اما آپ کو پتہ ہے اس گاؤں کا آپ نے دیکھا ہے وہ گاؤں وہاں تو کوئی انسان نہیں تھا سواۓ اس بچے کے اما کہاں گئے وہاں کے لوگ آپ جانتی ہو ان کے بارے میں اما کا بوڑھا وجود اب ہولے ہولے کانپ رہا تھا اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے کہنے لگی بیٹا یہ گاؤں بہت ہی خوب صورت گاؤں تھا یہاں کے لوگ بہت ہی ہمدرد اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے والے لوگ تھے سب آپس میں ایک خاندان کی طرح رہتے تھے ہر خوشی غمی میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہتے تھے پھر نجانے کس کی نظر لگ گئی وہاں کے لوگوں کو ہمارے گاؤں کو سیرت حیرت سے دیکھنے لگی اما آپ بھی وہاں رہتی تھی ؟

اما نے کہا ہاں بیٹا میرا پورا گھر تھا بیٹے بیٹیاں سب سیرت نے کہا پھر کیا ہوا اما تو اما اپنا قصّہ سنانے لگی کہنے ⁦⁩ لگی ہمارے آدمی کھیتی باڑی کرتے تھے اور جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر بیچتے تھے اچھا گزارا ہوتا تھا کے ایک دن کہیں سے ایک عورت آئ اس کے پانچ لڑکے تھے بڑا تیرا سال کا اس سے چھوٹا 9سال کا پھر اس سے چھوٹا 7 سال کا اور باقی ان سے 2 چھوٹے تھے وہ پورے گاؤں والوں کو بہت تنگ کرتے تھے ہر روز کسی نا کسی کے گھر سے کچھ نا کچھ چوراتے تھے باپ ان کا تھا نہیں پھر گاؤں کے جاگیردار کے پاس لوگ شکیتں لانے لگے جاگیردار نے بہت بار سمجھا یا پر وہ نہیں سمجھے پھر ایسا ہوا کے کسی نے انھیں گھر میں باندھ کر منہ بند کر کے ان کے گھر کو باہر سے تالا لگا دیا 

گاؤں والے سکون میں آگئے کے چلو جان چھوٹ گئی ان سے گاؤں والوں کو لگا کے شاید وہ لوگ اس گاؤں سے چلے گئے ہیں پر وہ بیچارے تو اندر رسیوں سے بندھے ہوئے تھے کسی کو پتہ نہیں تھا کے وہ گھر کے اندر ہے پھر اس بات کو مہینہ ہونے کو آیا تو اب جو بھی وہاں سے گزرتا انھیں بدبو محسوس ہوتی لوگوں نے جاگیردار سے بدبو کی شکایت کی تو اس نے تالا توڑنے کو کہا سب گاؤں والے اس دن اس گھر کے پاس جمع تھے یہ دیکھنے کے لئے کے ناجانے یہ لوگ ایسا کیا چھوڑ کے گئے ہیں کے گھر سے بدبو آرہی ہے جب تالا توڑا گیا تو وہاں کا منظر بہت ہی خوفناک تھا سب بچوں کے جسم پگھل گئے تھے اور گوشت زمین پہ پڑا ہوا تھا ان کا اما نے کہا بیٹا تب گرمی اتنی تھی کے گاؤں کے آدمی دن کو ندی کے کنارے چارپائیاں ڈال کے سارا دن وہاں بیٹھے ہوتے تھے پھر سوچو ان بیچاروں کا کیا حال ہوا ہوگا سب لوگ وہاں سے بھاگ گئے کچھ خوف سے تو کچھ بدبو سے کیسے کیسے کر کے ان لوگوں کو دفنایا گیا بس اس رات سے پھر جو شروع ہوا وہ کسی نے نہیں سوچا تھا ،،

اس دن جاگیر دار نے پورا گاؤں ایک کھلے میدان میں اکٹھا کیا اور سب گاؤں والوں سے کہاں کے یہ حرکت کس کی ہے یہ اتنا بڑا ظلم کس نے کیا ہے وہ لوگ روٹی ہی تو چراتے تھے اس کے لئے اتنی بڑی سزا تم لوگوں کے دل میں بلکل بھی خوف نہیں آیا یہ سب کرتے ہوئے اتنے چھوٹے بچوں کو اتنی بےدردی سے مارا اللّه کا خوف کرو اور جس نے یہ گناہ کیا ہے وہ خود سامنے آئے،

پر کوئی بھی سامنے نہیں آیا تو جاگیر دار نے کہا میں سزا نہیں دوں گا اب وہ قدرت کی سزا کے لئے تیار رہے یہ کہ کر جاگیر دار اور سب گاؤں والے اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے جاگیر دار کو کیا پتا تھا کے جب جنگل میں آگ لگتی ہے تو سوکھے پیڑوں کے ساتھ گیلے بھی جلتے ہیں اور یہ ہی کچھ ان گاؤں والوں کے ساتھ ہونے والا تھا گناہ تو ایک نے کیا تھا پر سزا سب کو ملنے والی تھی بس اس رات سے گاؤں پہ آفت آئ ایسی آفت جس نے پورا گاؤں اپنی لپیٹ میں لے لیا اس رات گاؤں والے اپنے اپنے گھروں میں سوئے ہوئے تھے کے رات فضلو چاچا کا دروازہ کسی نے اتنی زور سے کھڑکایا کے جیسے ابھی کوئی توڑ کے اندر آجاۓ گا سب گھر والے ایک دم جاگ گئے فضلو چاچا کے ساتھ اس کے 2 بیٹے ایک بیٹی اور اس کی بیوی رضیہ رہتے تھے رضیہ نے کہا اقبال کے ابّا اس ٹیم کون ہے جو دروازہ اتنی زور سے پیٹ رہا ہے فضلو چاچا نے کہا اللّه خیر کرے لگتا ہے کوئی بیمار ہے گاؤں میں فضلو چاچا حکیم بھی تھے اور ان سے لوگ دوائی لیکے جاتے تھے تو اسے لگا کوئی بیمار ہے شاید اتنے میں پھر دروازہ بہت زور سے بجا فضلو چاچا جلدی سے اٹھا اور دروازے پہ پوچھا کون ہے پر آواز کوئی نہیں آئ پھر پوچھا اس بار بھی آواز نہیں آئ تو چاچا نے دروازہ کھولا تو دیکھا سامنے بچے کھڑے ہیں اور کہ رہے ہیں ہمیں بھوک لگی ہے ہمیں بھوک لگی ہے

 اندھیرا تھا فضلو چاچا نے پہچانا نہیں کے کون ہیں اسے لگا ہونگے کوئی غریب جسے بھوک میرے دروازے پہ لائی ہے شاید اس نے کہا رک میں گھر میں دیکھتا ہوں کچھ لاتا ہوں اتنے میں سارے بچے چاچا کے پیچھے ہی گھس گئے گھر میں اور ان کے بیوی بچوں پہ ایسے ٹوٹ پڑے جیسے بھوکے بھیڑئے جانوروں پہ ٹوٹ پڑتے ہیں اور منٹوں میں زندہ انسانوں کو ڈھانچے بنا کے چل دئیے فضلو چاچا یہ دیکھنے سے پہلے ہی دنیاں چھوڑ گئے خوف سے صبح لوگ وہاں سے گزر رہے تھے تو گھر کا منظر سب کے ہوش اڑانے کے لئے کافی تھے اور اس کے بعد ہر روز وہ بچے کسی نا کسی کے گھر رات گھستے اور سب کا گوشت کھاتے گاؤں میں بہت خوف پھیل گیا تھا اب تو رات میں لوگ کسی کے لئے دروازہ بھی نہیں کھولتے تھے

 لیکن پھر لوگ اپنے گھروں سے ہی غائب ہونے لگےآدھا گاؤں ان کی بھینٹ چڑھ گیا اور اب تو گاؤں والوں کا ایک ہی آسرا تھا اور وہ تھا جاگیر دار لوگ ان کے پاس گئے کے حضور کچھ کریں پورا گاؤں خالی ہو رہا ہے جاگیردار نے کہا میں ایک عامل کو جانتا ہوں میں کل ہی جا کے اسے لاتا ہوں بس آپ لوگ آج کی رات اپنی حفاظت کریں انشااللہ میں کل صبح سویرے ہی نکل جاؤں گا لوگ مطمئن ہوکے گھر گئے لیکن خوف میں سب لوگ تھے کے پتہ نہیں آج کس گھر کی باری ہوگی رات اللّه اللّه کر کے لوگوں نے جاگتے ہوئے گزار دی اور صبح سب گاؤں والے خوش تھے کے کل رات کوئی واقعہ نہیں ہوا سب نے کہا چلو جاگیر دار کو یہ خبر سناتے ہیں سب لوگ جاگیر دار کے گھر گئے گھر کے دروازے کھلے پڑے تھے سب لوگ حیران تھے کے لگتا ہے ان لوگوں نے دروازے بند نہیں کئے تھے

 پھر لوگ تشویش کے مارے اندر چلے گئے پر اندر کے منظر نے ہر ایک کو ہلا کے رکھ دیا جاگیر دار اور اس کے بیوی بچے ڈھانچوں کی صورت پڑے ہوئے تھے زمین پہ اب تو لوگوں کی ہمّت ہی ختم ہو گئی اب تو گاؤں کا بڑا بھی نہیں رہا تھا جس کے دم پہ باقی لوگ جی رہے تھے خیر لوگ روتے پیٹتے لاشیں دفنا کر اپنے گھروں کو چلے گئے اور اس رات امّا یہ بول کے خوف سے کانپنے لگی سیرت نے امّا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا جو کے کانپ رہا تھا سیرت نے کہا امّا پھر کیا ہوا تو امّا کسی گہری سوچ سے چونک کر سیرت کو دیکھنے لگی پھر اس رات میرے گھر کی باری تھی اور امّا پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی جب اچھے سے دل کا غبار ہلکا ہوا تو کہنے لگی اس رات میں اپنے بچوں کے ساتھ ایک کمرے میں تھی میں نے اپنے بچوں کو اپنے ساتھ ایک ہی چارپائی پہ سب کو بٹھایا ہوا تھا میں نے سب کو کہا تھا کے سونا نہیں ہے آج کی رات اور میں نے باہر اور کمرے کے دروازے اچھے سے بند کئیے تھے ہم سب جاگ رہے تھے اگر کوئی سو بھی جاتا تو میں اسے اٹھا دیتی اتنے میں باہر کا دروازہ دھڑا دھڑ بجنے لگا اور ہم سب خوف کی وجہ سے ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے تھے 

پھر دروازہ بجا اور اب تو باقاعدہ رونے کی آوازیں آنے لگی کے کھولو ہمیں بھوک لگی ہے کچھ دیر تو رونے کی آوازیں آتی رہی پھر خاموشی چھا گئی اور ہم نے تھوڑا سکون کا سانس لیا تھوڑی ہی دیر گزری ہوگی کے اب بہت ہی خوفناک آوازیں آنے لگی اور اتنے میں باہر کا دروازہ کھلنے کی آواز آئ اور خوف سے میرے بچے بیہوش ہو گئے ہوش میں تھی تو صرف میں اور اب صحن میں دوڑنے کی آوازیں آنے لگی میں نے اپنے بچوں کو اپنے نزدیک کر لیا دل پھٹ رہا تھا کے میں کہاں چھپاؤں اپنے بچوں کو پھر کمرے کا دروازہ بجا اور مجھے اپنی اور بچوں کی موت سامنے دکھائی دینے لگی اور پھر ایک دھماکے سے کمرے کا دروازہ کھلا اور اس کے بعد کیا ہوا وہ دیکھنے کے لئے میں ہوش سے بیگانہ ہو چکی تھی جب ہوش آیا تو میری گود میں میرے بچوں کے ڈھانچے پڑے تھے اور میں نا جانے کیسے زندہ بچ گئی تھی اتنا کہ کے امّا چیخ چیخ کے رونے لگی اور ساتھ میں سیرت بھی رو رہی تھی،،

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں