آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر4)

Adam Khore Urdu Story
 

آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر4)

اگلے روز جب بیرا چلم پی رہا تھا، میں نے اس سے پوچھا
’’شیر دیکھ کر تم چیخے کیوں تھے؟تمہیں معلوم نہ تھا کہ وہ مجھ پر یاسانا پر حملہ کر دے گا؟‘‘
’’سرکار مجھ سے قصور ہوا، معاف کر دیجیے۔‘‘اس نے مکاری سے پلکیں جھپکاتے ہوئے کہا۔

’’معاف تو میں تمہیں اچھی طرح کروں گا۔‘‘میں نے غصے سے دانت پیستے ہوئے کہا:’’بیرا میں اتنا نادان نہیں،جتنا تم سمجھتے ہو۔ پہلے تم نے تلوادی جنگل کا ذکر چھیڑ کر میری آتش شوق بھڑکائی تاکہ میں کسی سانپ، بچھویا مکڑی سے ڈسا جاؤں لیکن تم نے دیکھا کہ ان چیزوں کا مجھ پر اثر نہیں ہوتا۔ پھرتم نے مجھے شیر کے ذریعے مروانے کی تدبیر نکالی جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔‘‘

وہ اٹھا اور روتا ہوا میرے پیروں پر گر پڑا۔
’’سرکار، یہ بالکل غلط ہے،بھلا میں آپ کو کیوں مروانے لگا؟ کہاں آپ، کہاں میں۔۔۔میں آپ سے دشمنی کرکے زندہ بچ سکتا ہوں؟‘‘

’’زیادہ بک بک مت کرو۔ اب تم ٹھیک ہو چکے ہو، کل تم میرے ساتھ جنگل میں چل کر اس شیر یا چیتے کو تلاش کرو گے اور تمہاری جان بخشی کی یہی صورت ہے کہ چیتے کو ہلاک کر ویا شیر کو۔۔۔میں تمہاری مدد کے لیے تیار ہوں لیکن درندے پرگولی تم چلاؤ گے اور کان کھول کر سن لو، اگر تم نے بھاگنے یا دھوکا دینے کی کوشش کی تو میں اپنے کارتوسوں کا پورا ڈبا تم پر خالی کر دوں گا، سمجھے؟‘‘

ب اتفاق دیکھیے کہ میں جس وقت بیرا سے یہ باتیں کررہا تھا، اسی وقت گاؤں کا مکھیا چند آدمیوں کے ساتھ رونی شکل بنائے آیا اور کہنے لگا کہ اس کی ایک گائے گزشتہ رات سے گم ہے اور تلاش کرنے کے باوجود اس کا کچھ پتا نہیں چل سکا۔ شاید شیر اسے پکڑ کر لے گیا ہے۔

’’تم رات کے وقت گائے کہاں باندھتے ہو؟‘‘میں نے پوچھا۔
’’اپنے مکان کے صحن میں اور دروازہ بند تھا۔‘‘
’’پھر گائے کیسے باہر نکل گئی؟‘‘

’’صاحب،آدمی رات کو اچانک میری آنکھ کھلی تو میں نے کتوں کے بھونکنے کی آواز سنی۔کتے مسلسل بھونک رہے تھے۔ میں وجہ معلوم کرنے کے لیے اٹھا تو دیکھا صحن کا دروازہ کھلا ہے اور گائے موجود نہیں۔میں بھاگتا ہوا باہر نکلا اور گائے کو آواز دی۔اس کا نام’’رانی ‘‘ہے۔وہ میری آواز پر پلی ہوئی ہے۔ جہاں ہو، فوراً آجاتی ہے لیکن چیختے چیختے میرا گلا بیٹھ گیا۔ رانی نہ آئی۔ اس کے گلے میں جو رسی بندھی تھی، وہ بھی ٹوٹی ہوئی تھی۔ صحن کی دیوار اگرچہ کچی ہے لیکن زیادہ اونچی نہیں اور کوئی بھی شخص باہر سے دیوار چڑھ کر میرے گھر میں آ سکتا ہے لیکن گاؤں بھر میں مجھ سے کسی کو دشمنی نہیں۔پھر کون ایسا بے رحم ہو گا جو گؤما تاکو یوں کھول کر جنگل میں لے جائے گا۔‘‘

’’جنگل میں؟تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ گائے جنگل میں لے جائی گئی ہے؟‘‘
’’جناب،گاؤں کے آدمیوں نے گائے کے کھروں کے نشان جنگل کو جاتے دیکھے ہیں اور ان نشانوں کے ساتھ ساتھ کسی آدمی کے پیروں کے نشان بھی پائے گئے ہیں۔‘‘

میں سوچ میں ڈوب گیا۔ صریحاً کسی شخص نے شرارت کی تھی اور مکھیا کے گھر میں آدھی رات کو کودکر گائے کھولی اور جنگل میں لے گیا لیکن سوال یہ تھا کہ کس لیے؟

’’اچھا،تم لوگ اطمینان سے بیٹھو۔ہم اس معاملے کی چھان بین کریں گے۔‘‘
میں نے سب کو دلاسا دے کر رخصت کیا اور بیرا کو ساتھ لے کر بیل گاڑی پر بیٹھا۔میں نے محسوس کیا، بیرا کچھ کہنا چاہتا ہے لیکن خوف کے مارے کہتے ہوئے ہچکچاتا ہے۔یکایک وہ رونے لگا ۔میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا اور نرمی سے بولا:

’’بیرا،دیکھو سچ مچ بتا دو،میں کچھ نہ کہوں گا۔کیا گائے تم ہی کھول کر جنگل میں لے گئے تھے؟‘‘
اس نے آنکھوں سے گنگا جمکنا بہاتے ہوئے اثبات میں گردن ہلائی ا ور بھری ہوئی آواز میں کہا:

’’سرکار ،یہ لمبی کہانی ہے اگر جیتا رہا تو سناؤں گا۔ آپ چاہتے ہیں کہ میں اس شیر کو ماروں یا مرجاؤں تو میری بندوق مجھے دے دیجیے۔‘‘
اس نے جس انداز میں بندوق کے لیے التجا کی تھی،وہ میں رد نہ کر سکا۔ بندوق لاکر اسے تھمادی۔اس کے چہرے پر بے پناہ خوشی کے آثار نمودار ہوئے۔ اس نے اپنی بندوق پر ہاتھ پھیرا اور ایسی آواز میں ،جس سے عزم کا اظہار ہوتا تھا،کہا:

’’آپ سمجھتے ہیں کہ بیراڈرپوک ہے۔۔۔سرکار، میں ڈرپوک نہیں۔۔۔مجھے حالات نے ایسا بنا دیا ہے۔اگر آپ میری دیکھ بھال کا وعدہ کریں تو میں سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے شیر مار کر آپ کے پاس لے آؤں گا۔ آپ جائیے، بنگلے میں آرام کیجیے، میں اکیلا جنگل میں جاؤں گا۔‘‘

’’بہت اچھا،میں تمہاری بات سے خوش ہوا لیکن پھر کہے دیتا ہوں اگر تم نے بھاگنے کی کوشش کی تو عبرتناک سزا دوں گا کہ زندگی بھر یادرکھو گے۔‘‘میں نے کہا اور الٹے پاؤں اپنی قیام گاہ کی طرف لوٹ گیا۔

بیرا کی شخصیت میرے لیے ناقابل فہم معمہ بن گئی تھی۔ جب سے میری اس سے ملاقات ہوئی تھی ،اس کی پراسرار شخصیت کے بہت سے پہلو میرے سامنے آچکے تھے اور کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اس کی فطرت میں کیا ہے اوروہ کس کینڈ ے کاآدمی ہے۔ جس اعتماد اور عزم سے وہ اپنی بندوق لے کر گیا اور سورج چھپنے سے پہلے پہلے شیر کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا، اس پر مجھے بار بار حیرت ہوتی تھی، پھر خیال آتا ،وہ مجھے دھوکا دے کر بھاگ تو نہیں گیا۔گاؤں کے مکھیا اور اس کی گائے کے راتوں رات غائب ہو جانے کا معاملہ مزید حیران کن تھا۔بیرا نے اس کی گائے کیوں کھولی اور اسے جنگل میں درندوں کا کھاجا بننے کے لیے کیوں چھوڑا؟۔

ان سوالات پر غور کرتا ہوا میں قیام گاہ میں پہنچا۔ میری یہ قیام گاہ گاؤں کے درمیان بنا ہوا کچا مکان تھا جو میرے آنے سے پیشتر ایک لکڑہارے کے قبضے میں تھا۔ گاؤں والوں نے لکڑ ہارے کو ایک دوسری جگہ منتقل کر کے یہ مکان لیپ پوت کر میرے لیے تیار کر دیا۔دودھ، دہی اور مکھن یہاں افراط سے تھا اور انڈوں اور گوشت کے لیے مرغیاں بھی کثرت سے تھیں۔گاؤں کے سادہ دل اور سادہ لوح باشندے میرے ازحد خاطر تواضع کرتے اور میں ان کی مہمان نوازی سے پورا پورا لطف اٹھا رہاتھا۔

تیسرے پہر جب میں مکان سے باہر بیٹھا تھا، میں نے دیکھا، گاؤں کا مکھیا اپنے دو تین لڑکوں اور کئی آدمیوں کے ساتھ ادھر سے گزرا۔ مکھیا کا ایک لڑکا نہایت تندرست اور خوبصورت سفید گائے کی گردن میں بازو حائل کئے چل رہا تھا۔ان سب کے چہرے خوشی اور مسرت کے جذبات سے روشن تھے۔ مجھے باہر بیٹھا دیکھ کر مکھیا فوراً میری طرف آیا اور آتے ہی میرے پاؤں چھوئے اور کہنے لگا:

’’جناب،میری گائے مل گئی۔وہ بڑی پہاڑی کے قریب ایک درخت سے بندھی ہوئی تھی۔ابھی ابھی میرا ایک لڑکا ادھر گیا تو گائے دکھائی دی۔‘‘

میں دم بخود اس کا منہ تکنے لگا۔ عجیب بات تھی کہ اس تمام عرصے میں کسی درندے نے گاؤں کو گزندنہ پہنچایا۔مکھیا نے اپنے ساتھیوں کو چلے جانے کا اشارہ کیا اور زمین پر اکڑوں بیٹھ کر جیب سے ایک چھوٹی سی چلم نکالی اور اس میں تمبا کو بھرا۔ چلم سلگانے کے بعد اس کے دو تین کش لگائے اور آہستہ سے کہنے لگا:

’’جناب، یہ بیرا پجاری آپ کو کہاں سے مل گیا۔ بھگوان کے لیے اپنے آپ پر ترس کھائیے اور اس شخص کے ساتھ جنگل میں نہ جایا کیجیے۔ یہ اب تک کئی شکاریوں کو مروا کر ان کے روپے پیسے اور سامان پر قبضہ کر چکا ہے۔‘‘اسکی بات سن کر میں چونک اٹھا۔

حیرت سے اسکی آنکھوں میں دیکھا اور پوچھا’’جب میں یہاں آیا تھا تو یہ بات تم اس وقت بتاتے۔‘‘
’’جناب،مجھے بیرا سے ڈر لگتا ہے۔وہ جب چاہے، مجھے مروا دے کیونکہ میں اس کے بہت سے بھیدوں سے واقف ہوں۔مجھے یقین ہے کہ میری گائے کھول کر جنگل میں باندھ کر آنے کی حرکت بیرا کے سوا اور کوئی نہیں کر سکتا۔اس نے اس طریقے سے مجھے تنبیہہ کر دی کہ میں اس کا بھید آپ کے سامنے نہ کھولوں۔‘‘

’’تم بیرا کو کب سے جانتے ہو؟‘‘
’’اس روز سے جس روز وہ پیدا ہوا۔‘‘مکھیا نے جواب دیا۔’’بیرا میرا سگا چھوٹا بھائی ہے۔‘‘

میرے سر پر جیسے کسی نے ہتھوڑا دے مارا۔چند لمحوں تک میں گم سم بیٹھا مکھیا کی طرف دیکھتا رہا۔ مجھے احساس ہوا کہ اس کے چہرے کے خدوخال، جسمانی قدوقامت اور کسی حد تک آواز بھی بیرا سے ملتی جلتی ہے۔ فرق صرف ا تنا تھا کہ بیرا کے جسم پر لنگوٹی تھی اور مکھیا کے جسم پر کرتا اور دھوتی۔بیرا کا سرمنڈا ہوا، ڈاڑھی مونچھ صاحب اور چوٹی لمبی تھی۔ مکھیا کے سر پر بڑے بڑے بال اور چہرے پر گھنی مونچھیں تھیں۔

’بیرااگر چہ میرا بھائی ہے لیکن اس کی قاتلانہ سرگرمیاں اتنی بڑھ چکی ہیں کہ میں آپ پر ظاہر کر دینا ضروری سمجھتا ہوں۔‘‘مکھیا نے کہنا شروع کیا۔’’مجھے اپنی جان کی پروا نہیں۔میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ دوسرے لوگوں کو اس کے ہاتھ سے بچایا جائے۔شاید آپ کو معلوم ہو کہ تین مہینے پہلے اس جنگل میں ایک نوجوان انگریز شکاری کو شیر نے مار ڈالا ہے۔اسے شیر نے نہیں مارا تھا جناب،خود بیرا اسے وہیں چھوڑ کر چلا آیا اور اگلے روز گیدڑوں اور لگڑ بگھوں نے شکاری کو نوچ نوچ کر ہڑپ کرلیا۔‘‘

’’تمہیں اس واقعے کا کیسے پتا چلا؟‘‘

’’جناب مجھے اتفاقہ طورپر علم ہوا۔وہ انگریز نوجوان اسی گاؤں میں بیرا کے ساتھ آیا تھا۔ میں اسی وقت سمجھ گیا کہ بیرا اس نوجوان کے پیچھے کسی بری نیت سے لگا ہوا ہے کیونکہ شکاری کے بٹوے میں بہت سے نوٹ بھرے ہوئے تھے۔شکاری نے گاؤں کے ایک آدمی کو کچھ رقم دے کر ایک بچھڑا خریدا اور بیرے کے کہنے کے مطابق جنگل میں لے جاکر ایک درخت سے باندھ دیا۔ اس کا خیال تھا کہ شیر اس بچھڑے کی بو پرآئے گا اور وہ اسے مار لے گا۔

 دوروز تک بچھڑا محفوظ رہا لیکن تیسری رات شیر نے اسے مار ڈالا اور گھسیٹ کر بہت دور ایک گہری کھائی کے قریب لے گیا۔ اس کھائی کے دوسرے کنارے پر ایک پہاڑی ٹیلا ہے جس میں کئی غار بنے ہوئے ہیں۔شیر اور ریچھ انہی غاروں میں رہتے ہیں۔اگلے روز صبح جب بیرا نے بچھڑا وہاں نہ پایا تو شکاری کو خبر کی اور شکاری اسی وقت بیرا کے ساتھ چل پڑا۔ اس کھائی کے اتر کی جانب پنگرام کو جانے والی سڑک گزرتی ہے۔ میں اس روز پنگرام سے گاؤں کی طرف آرہا تھا کہ کھائی کے قریب پہلے فائروں کی اور پھر شیر کے گرجنے کی آواز سنی،میں جلدی سے ایک درخت پر چڑھ گیا۔ 

میں نے دیکھا کہ ایک شیر بھاگتا ہوا آیا اور کھائی پھلانگ کر غار میں پناہ لینے کے بجائے ایک جھاڑی کے اندر چھپ کر ہانپنے لگا۔ میں درخت پر بیٹھا ہوا شیر کو بخوبی دیکھ رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہی انگریز شکاری نمودار ہوا۔ اس کے کپڑے تار تار تھے اور وہ جوش و خروش سے جھاڑیاں پھلانگتا اورگھاس روندتا ہوا بڑھ رہا تھا۔ میں نے بیرا کوبھی اس کے پیچھے پیچھے دوڑتے دیکھا۔ بیرا نے شکاری کو بتایا کہ شیر کھائی پھلانگ کر دوسری طرف چلا گیاہے۔نوجوان شکار جونہی کھائی عبور کرکے پتھر کے نزدیک پہنچا،شیر نے جست کی اور ایک ہی دوہتڑ میں شکاری کو پرے پھینک دیا۔ یہ حملہ اس قدر غیر متوقع اور اچانک تھا کہ شکاری سخت زخمی ہو کر دور جاگرا اور بے ہوش ہو گیا۔

 شیر دھاڑتا ہوا اپنے غار کی طرف بھاگ گیا۔ میرے سامنے بیرا نے بے ہوش اور زخمی شکاری کی تلاشی لے کر اس کا بٹوہ اور رائفل سنبھالی اور رفوچکر ہو گیا۔ میں نے خوف سے شکاری کے نزدیک جانے کی جرات نہ کی اور چپ چاپ گاؤں چلا آیا۔ تین دن بعد میں پھر گیا تو ہڈیوں کے سوا وہاں کچھ نہ تھا۔۔۔‘‘

مکھیا نے بات ختم ہی کی تھی کہ گاؤں کے پرلے سرے پر غل مچا اور چند لمحوں بعد میں نے دیکھا کہ بیرا کندھے پر بندوق رکھے فاتحانہ شان سے گاؤں والوں کے جھرمٹ میں چلا آتا ہے۔اسے دیکھتے ہی مکھیا چپکے سے کھسک گیا۔ بیرا نے میرے پاس آن کر بندوق ایک طرف رکھی اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا:

’’سرکار، شیر مارا گیا۔۔۔میرے ساتھ چل کر دیکھئے۔‘‘
اب اس کا ایک نیا روپ میرے سامنے تھا۔ میں نے کچھ کہے بغیر رائفل اور ٹارچ اٹھائی اور بیرا کے ساتھ جنگل کی طرف روانہ ہو گیا۔

جب میں بیرا پجاری کے ساتھ شیر کو دیکھنے لگا تو سخت حیران تھا کہ شیر اس شخص کے ہتھے چڑھ کیسے گیا۔ بیرا پجاری کا گزشتہ کرداراس امر کا ثبوت تھا کہ وہ نہایت بزدل اور گیڈر صفت آدمی ہے۔شیر کا سامنا اس کے بس کی بات نہیں۔ممکن ہے کسی اتفاق حادثے کے تحت شیر مارا گیا ہو۔

’’مجھے یقین نہیں آتا بیرا کہ تم نے شیر مار لیا ہو گا۔‘‘میں نے کہا۔
’’سرکار،بھگوان نے آج میری جان بچائی ورنہ میرے مرنے میں کوئی کسر نہ تھی۔‘‘
’’کیوں کیا ہوا؟تفصیل سے بتاؤ۔‘‘

’’سرکار،مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ شیر، جسے میں نے مارا ہے،وہی تھا جو کسی دوسرے گاؤں سے بیل پکڑ کر لے آیا لیکن پیٹ بھرنے سے پہلے ہی چھوڑ کر بھاگ گیا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ اس کی گردن پر شیر کے دانتوں کے نشان موجود تھے۔ آپ سے اپنی بندوق لے کر میں سیدھا اسی طرف گیا جہاں اس ظالم شیر نے سانا پر حملہ کیا تھا۔ میں نے اس کے پنجوں کے نشان بھی دیکھے اور کہیں کہیں تازہ خون بھی گرا ہوا پایا۔خون کے یہ دھبے ندی کے پار بھی نظر آئے۔

 میں سمجھ گیا کہ شیر کسی وجہ سے زخمی ہے ا ور یہ خون اسی کا ہے، چنانچہ میں پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہوا آگے بڑھا۔کیا دیکھتا ہوں کہ شیر جھاڑیوں کے قریب بے حس و حرکت بیٹھا ہے۔بس سرکار میں نے اسی وقت اس کا نشانہ لیا اور فائر کر دیا۔گولی شیر کی گردن میں لگی اور وہ آواز نکالے بغیر مر گیا۔ میں نے بالکل قریب سے دیکھا تو اس کے سینے اور پیٹھ پر گہرے زخم تھے جن پر گاڑھا خون جما ہوا تھا۔‘‘

’’اس کہانی سے تو کچھ یوں معلوم ہوتا ہے شیر پہلے ہی مرا ہوا تھا۔‘‘میں نے کہا۔
وہ حیرت سے میری طرف تکنے لگا:’’نہیں سرکار، اس نے آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھا تھا۔‘‘
’’جھوٹ بولتے ہو۔‘‘میں نے زور دے کر کہا:’’ابھی سب کچھ پتا چل جاتا ہے۔اچھا یہ بتاؤ کہ گاؤں کا مکھیا تمہارا بھائی ہے؟‘‘
بیرا کے ہاتھ سے بندوق چھوٹ کر گر پڑی اور وہ تھر تھر کانپنے لگا۔

’’بولو،جواب دو۔‘‘میں نے غصے سے کہا:’’یہ بات مجھے پہلے کیوں نہ بتائی۔ تمہیں شرم آنی چاہیے کہ تم نے اتنے شریف ا ور غریب آدمی کی خوبصورت گائے کھول کر جنگل میں باندھ دی۔ اس نے مجھے سب کچھ بتا دیا ہے۔میں اس انگریز شکاری کا قصہ بھی سن چکا ہوں جو تمہاری ذلیل حرکتوں کے باعث شیر کے ہاتھوں مارا گیا اور تم نے اس کا روپیہ ہڑپ کرلیا۔سچ سچ بتاؤ تم نے اب تک کتنے شکاریوں کو درندوں کے ذریعے مروا کر ان کا سامان قبضے میں کیا ہے اور وہ سامان کہاں ہے؟‘‘
میرے اس انکشاف پر بیرا کی جو حالت ہوئی وہ بیان سے باہر ہے

آدم خور درندوں کا شکاری (قسط نمبر 5)


تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں


Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں