آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر5)

adamkhore udu story

آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر5)

اس کا سانس زور زور سے چل رہا تھا۔ سوکھی ہوئی برہنہ ٹانگیں بری طرح کانپ رہی تھیں اور چہرہ فرط دہشت سے سفید پڑ چکا تھا۔ اس نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر آواز نہ نکلی۔ یکا یک وہ زمین پر گرا اور بے ہوش ہو گیا۔ میں نے اسے ہوش میں لانے کی کوئی تدبیر نہ کی اور گھسیٹ کر ایک محفوظ جگہ پر ڈال دیا۔ ایسے شخص کو اب کسی ریچھ یا چیتے کے ہاتھوں مر ہی جانا چاہیے۔ میں نے نفرت سے زمین پر تھوکا۔ بندوق اٹھائی اور ندی کی طرف روانہ ہو گیا۔

راستے میں پنجوں کے نشان اور خون کے دھبے نظر آئے۔میں نے خون کا معائنہ کیا،بلاشبہ یہ شیر کے جسم سے گرا تھا۔ میں سخت حیران تھا کہ شیر آخر کس حادثے میں زخمی ہوا۔ آدھ گھنٹے کی کوشش کے بعد اس کی لاش دکھائی دی۔ شیر کی کھوپڑی مزل لوڈنگ بندوق کی گولی سے چور چور ہو چکی تھی اور بارود کی ہلکی سی تہہ اس وقت بھی اس کی گردن اور کھوپڑی پر جمی ہوئی تھی۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ بندوق شیر کے بالکل قریب کھڑے ہو کر چلائی گئی ہے اور فائر ہونے سے کچھ دیر پیشتر وہ مر چکا تھا۔

مجھے بیرا کی خوش قسمتی پر حیرت ہوئی ا ور اس کی چالاکی محسوس کرکے غصہ بھی آیا۔میں نے شیر کے زخموں کا معائنہ کیا تو پتا چلا کہ وہ کسی ا ور درندے سے لڑتا ہوا زخمی ہوا۔ یکایک میں نے دیکھا کہ شیر کی کھال پر سیاہ رنگ کے لمبے بال چمٹے ہوئے ہیں۔شام کے پھیلتے ہوئے اندھیرے کے باعث یہ بال مجھے پہلے نظر نہیں آئے۔ٹارچ کی روشنی میں غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ ریچھ کے بال ہیں۔ریچھ کا خیال آتے ہی میرے جسم میں جھر جھری سی دوڑ گئی۔شیر نہایت طاقتور اور نوساڑھے نو فٹ لمبا تھا لیکن ریچھ نے اس زخمی اور بے بس کر کے مارا تھا۔ یہ بات پیش نظر رکھتے ہوئے میرے لیے فیصلہ کرنا مشکل نہ تھا کہ ریچھ کس قدر قوی ہیکل اور خونخوار ہو گا۔ مجھے یاد آیا کہ ندی کے پار بنے ہوئے ٹیلوں اور غاروں میں ریچھ رہتے ہیں۔ممکن ہے رہائش کے مسئلے پر شیر اور ریچھ کی ٹھن گئی ہو۔

اس موقع پر ریچھ کے بارے میں کچھ کہنا لا حاصل ہو گا۔ اس جانور کی انسان سے حد سے بڑھی ہوئی کینہ پروری اور دشمنی سب پر عیاں ہے۔اس کی فطرت ہے کہ اپنے حریف کا پیچھا اس وقت تک نہیں چھوڑتا جب تک اسے ہلاک نہ کر دے یا خود ختم نہ ہو جائے۔ جنگل کے جس حصے میں رہنا شروع کر دے، وہاں اپنے سوا دوسرے جانوروں کا آنا یا رہنا پسند نہیں کرتا۔حریف اگر کمزور ہے تو وہ بھاگ جائے گا ورنہ مارا جائے گا۔قوی ہے کہ دو دو ہاتھ کرکے فیصلہ ہو گا کہ اس مقام پر وہ رہے گا یا ریچھ۔

یہی باتیں سوچتا ہوا میں واپس چلا۔ سورج غروب ہوئے تھوڑی دیرہی ہوئی تھی لیکن جنگل میں ایسا اندھیرا تھا جیسے تاریک رات۔۔۔ٹارچ کی روشنی میں راستہ تلاش کرتا ہوا ایک کھلی جگہ نکل آیا اور وہاں رک کر سوچنے لگا کہ میں نے بیرا کو گھسیٹ کر کس طرف ڈالا تھا۔ جھاڑیاں ایک جیسی تھیں اور ہزارہا درخت ایک دوسرے سے اتنی مشابہت رکھتے تھے کہ میں بہت جلد چکرا گیا۔ ممکن ہے بیرا ہوش میں آکر کسی درخت پر چڑھ گیا ہو۔ یہ خیال آتے ہی میں نے اسے آوازیں دینا شروع کیں۔چیخ چیخ کر تھک گیا مگر کوئی جواب نہ آیا۔

کچھ ایسا محسوس ہوا کہ میں بھٹک کر کسی اور طرف جا نکلا ہوں۔جنگل پر ہیبت ناک سناٹا طاری تھا۔ جیسے یہاں کوئی جانور یا کوئی پرندہ موجود نہیں۔جنگل میں پھیلا ہوا یہ اعصاب شکن سناٹا ایک تجربہ کار شکاری کے لیے کوئی خوشگوار بات نہیں ہوتی۔ اس سناٹے کے ساتھ ساتھ کوئی نامعلوم خطرہ ہمیشہ سر پر منڈلاتا رہتا ہے۔چپکے چپکے دبے پاؤں تعاقب کرنے والا چیتا، کوئی آدم خور شیر یا مکار ریچھ، جنگل میں بسنے والے یہ جانور اپنی حد سے بڑھی ہوئی قوت شامہ، بصارت اور سماعت کے باعث بھولے بھٹکے شکاری کویوں آدبوچتے ہیں جس طرح باز کبوتر کو آناً فاناً پکڑ کر آسمان کی پہنائیوں میں گم ہو جاتا ہے۔

مجھے اس وقت اپنے سے زیادہ بیرا کی فکر تھی۔ یہ شخص ہر چند نفرت اور حقارت کا مستحق تھا اور اس کی مذموم حرکتیں دیکھتے ہوئے جتنی بھی سزا دی جاتی کم تھی لیکن میرا دل نہ چاہتا تھا کہ اسے یوں موت کے منہ میں چھوڑ کر چلاجاؤں،اس لیے کہ وہ بالکل نہتا اور کمزور آدمی تھا۔ کم از کم بندوق ہی اس کے پاس ہونی چاہیے تھے۔وہ بڑی آسانی سے چیتے یا ریچھ کے قابو میں آسکتا ہے۔ان تمام خدشات کے باوجود یہ بھی جانتا تھا کہ بیرا جتنا بزدل اور ڈرپوک ہے اتنا ہی عیار اور دوراندیش بھی ہے۔ممکن ہے،اس نے مجھ سے پیچھا چھڑانے کے لیے بے ہوش ہو جانے کی ایکٹنگ کی ہو اور اب کسی محفوظ جگہ پر بیٹھا نئے نئے منصوبے باندھ رہا ہو۔

ایک جھاڑی کے قریب سے گزرتے ہوئے یکایک میرے کانوں میں ایسی آواز آئی جیسے کوئی شخص گھٹی گھٹی آواز سے رو رہا ہے۔میں وہیں ٹھٹک گیا اور کان لگا کر سننے لگا۔یقیناً کسی کے رونے اور سسکیاں لینے کی آواز تھی۔

’’کون ہے؟‘‘میں نے بلند آواز سے کہا لیکن دل میں خوفزدہ بھی تھا کہ کوئی دھوکا نہ ہو۔ میں نے سن رکھا تھا کہ جنگلوں میں اکا دکا شکاریوں کو لوٹ لینے اور انہیں ہلاک کرنے کی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں۔مکن ہے یہ بھی ایسا ہی معاملہ ہو۔ اس قسم کے قاتلوں اور ٹھگوں کو پکڑنا پولیس کے بس کی بات ہے نہ فوج کے۔میں نے بیرا کی بندوق زمین پر رکھی اور اپنی رائفل کندھے سے اتار کر ہاتھ میں لے لی اور آواز کی طرف دبے پاؤں بڑھا۔

’’یہ کون رو رہا ہے،کیا تکلیف ہے؟‘‘میں نے ایک بار پھر آواز دی اور ٹارچ روشن کر دی۔

’’سرکار، میں ہوں۔‘‘بیرا پجاری کا ستا ہوا دہشت زدہ چہرہ میرے سامنے تھا۔وہ جھاڑی کے اندر سہمے ہوئے خرگوش کی مانند دبکا بیٹھا تھا۔

’’باہر نکلو بدمعاش۔‘‘میں نے ڈپٹ کر کہا:’’اٹھاؤ اپنی بندوق،اتنی دیر سے تمہیں ڈھونڈرہا ہوں۔یہاں چھپنے کی کیا تک تھی؟‘‘

’’سرکار مجھے چھوڑ کر چلے گئے تھے۔‘‘اس نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا:’’اگر میں کچھ دیر اور پڑا رہتا تو ریچھ مجھے مار ڈالتا۔‘‘

’’ریچھ؟‘‘میں چلایا:’’کہاں ہے؟‘‘

’’سرکار وہ میرے قریب سے گزر گیا اور میں دم سادھے پڑا رہا۔اس نے مجھے نہیں دیکھا۔ اتنا بڑا ریچھ میں نے اس جنگل میں پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ پہاڑ کا پہاڑ تھا۔ سیاہ رنگ کا اس کے پنجے اور تھوتھنی خون میں لٹ پت تھی۔ آئیے آپ آپ کو اس کا نشان دکھاؤں۔‘‘

بیرا نے اپنی بندوق اٹھائی اور چل پڑا۔ میں ٹارچ روشن کیے اس کے پیچھے پیچھے تھا۔
’’یہ دیکھئے سرکار، یہ رہے اس کے پنجوں کے نشان اور یہ رہے خون کے ہلکے ہلکے دھبے۔۔۔ریچھ سخت زخمی تھا اور میرا خیال ہے وہ زیادہ دور نہیں جا سکا ہو گا۔‘‘

ہم ان نشانات کا تعاقب کرتے ہوئے جنگل کے ایسے حصے میں نکل آئے جہاں پہاڑی ٹیلے اور کئی کئی من وزنی پتھر کثرت سے پھیلے ہوئے تھے۔میں پورے کپڑے پہننے کے باوجود ٹھنڈ محسوس کررہا تھا لیکن بیرا کے جسم پر لنگوٹی کے سوا کوئی کپڑا نہ تھا۔میں حیران تھا کہ اس شخص کو سردی لگتی ہے نہ گرمی اور تھکنے کا تو نام ہی نہیں لیتا۔

’’بیرا تمہیں سردی نہیں لگتی؟‘‘ میں نے پوچھ ہی لیا۔وہ ہنس کر پڑا، پھر بولا’’سرکار،ہم غریبوں کو سردی، گرمی سے کیا واسطہ، ہماری زندگی تو ایک کپڑے میں گزر جاتی ہے جناب،پیدا ہونے سے مرنے تک ہم اسی طرح رہتے ہیں اور ہمارے بعد ہمارے بال بچے بھی اسی طرح اپنی زندگی گزاریں گے۔‘‘

’’تم آدمی تو اچھے ہو بیرا،اگر اپنی ذلیل حرکتیں چھوڑ دو تو میں تمہیں اپنے پاس ملازم رکھ لوں گا۔‘‘میں نے کہا۔دفعتاً ریچھ کے غرانے کی آواز سن کر بیرا الٹے پاؤں پیچھے ہٹا اور پناہ لینے کے لیے ایک درخت کی طرف دوڑا۔
’’سرکار،ریچھ آگیا،گولی چلائیے۔‘‘وہ بندر کی طرح درخت پر پھرتی سے چھڑہتے ہوئے چلایا۔

اگرچہ میں نے ریچھ کی آواز سن لی تی، تاہم وہ مجھے دکھائی نہ دیا۔ چند لمحوں کے لیے میں بھی بدحواس ہو گیا۔ ٹارچ روشن کرکے میں نے چاروں طرف دیکھا، ریچھ اب بھی نظر نہ آیا، البتہ اس کے غرانے کی آواز مسلسل سنائی دے رہی تھی۔ ادھر بیرا گلا پھاڑ پھاڑ کر چیخ کر رہا تھا۔
’’وہ رہا۔۔۔آپ کے دائیں جانب۔۔۔جھاڑیوں میں دیکھیے جناب۔۔۔گولی چلائیے ،وہ بھاگا۔۔۔‘‘

میں نے اندھا دھنددائیں طرف کی جھاڑیوں میں کئی فائر جھونک دیئے۔فائروں کی آواز سے جنگل کی سوئی ہوئی زندگی جاگ اٹھی۔ دور کہیں بندر چیخنے لگے اور درختوں پر بسیرا کرنے والے پرندے اور ہزارہا چمگادڑیں پھڑ پھڑاتی ہوئی آسمان کی تاریک فضا میں اڑنے لگیں۔میں نے کچھ دیر بعد جھاڑیوں کا معائنہ کیا تو کہیں کہیں خون کے دھبے اور سیاہ بالوں کے گچھے پڑے دکھائی دیئے لیکن ریچھ کا پتا نہ تھا۔میں نے بیرا کو نیچے اترنے کا حکم دیا۔

’’سرکار،آپ نے دیر کر دی ورنہ ریچھ بچ کر نہ جا سکتا تھا۔‘‘ اس نے کہا۔
’’بچ کر جائے گا کہاں؟‘‘ میں نے جھینپ مٹانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ’’اب گاؤں چلتے ہیں،صبح منہ اندھیرے آن کر اسے تلاش کریں گے۔‘‘

واپسی پر بیرا نے مجھے نوجوان انگریز شکاری کے مرنے کا قصہ سنایا اور بتایا اس کا نام ہیری سن تھا اور اسے منداچی پالم کے آدم خور نے ہڑپ کیا تھا۔ منداچی پالم کا علاقہ تلوادی کے مغرب میں تقریباً بارہ مربع میل تک پھیلا ہوا ہے۔کسی زمانے میں آدم خوروں نے یہاں بڑا اودھم مچایا تھا اور ان گنت افراد ہلاک کر ڈالے تھے۔آخر گورنمنٹ نے آدم خوروں کو ہلاک کرنے کے لیے بڑے بڑے انعام مقرر کیے۔ بہت سے شکاری قسمت آزمانے آئے۔ان میں میرا دوست اور دنیا کا نامور شکاری آنجہانی جم کاربٹ بھی شامل تھا۔ جم کاربٹ نے ایک سال لگاتار کوشش کے بعد تین آدم خور مارے۔ ان میں دو شیر تھے، ایک شیرنی۔جم کاربٹ سے پیشتر دو شکاری آدم خوروں کا لقمہ بن گئے۔کئی شدید زخمی ہونے کے بعد جنگل سے بھاگ نکلے اور انہوں نے دوبارہ ادھر کا رخ نہ کیا۔ جم کاربٹ نے جب جنگل کا چارج لیا اور تین آدم خوروں کو ٹھکانے لگا دیا تو علاقے میں امن و امان قائم ہوا۔ اس کے بعد کسی آدم خور کی ہلاکت خیز سرگرمیوں کی خبر نہ آئی اور اب بیرا مجھے بتا رہا تھا کہ منداچی پالم میں کم از کم ایک اور آدم خور موجود ہے جو شکاری ہیری سن کی موت کا باعث بنا تھا۔

مجھے پنگرام کے پوسٹ ماسٹر کا بھیجا ہوا خط یاد آیال جس میں اس نے ایک زبردست چیتے کے بارے میں لکھاتھا کہ یہ مویشیوں کو اٹھا کر لے جارہا ہے۔اور جلد ہی انسانوں کی باری آنے والی ہے۔گویا ہمارا مقابلہ بیک وقت ایک آدم خور شیر(اگر واقعی وجود ہے)ایک خونخوار چیتے اور ایک قوی ہیکل ریچھ سے تھا۔ میں نے سب سے پہلے ریچھ سے دو دو ہاتھ کرنے کا فیصلہ کیا۔

اگلے روز منہ اندھیرے آنکھ کھلی تو بستر چھوڑنے کو جی نہ چاہا۔ طبیعت سخت کسل مند تھی اور مجھے یوں محسوس ہوا جیسے ہلکا ہلکا بخار ہے۔غالباً یہ گزشتہ روز کی تھکن کا اثر تھا۔تھوڑی دیر بعد بیرا اندر آیا اور مجھے جاگتا پا کر بولا’’چلیے صاحب، میں بالکل تیار ہوں۔‘‘

میں نے طبعیت کی ناسازی کا عذر کرتے ہوئے اس سے کہا کہ وہ گاؤں کے چند آدمیوں کو ساتھ لے کر جنگل میں جائے اور ریچھ کا کھوج لگانے کی کوشش کرے۔اگر دوپہر تک میں ٹھیک ٹھاک ہو گیا تو اگلا پروگرام طے ہو گا۔ بیرا چند لمحے سوچتا رہا ۔اس کے چہرے پر گھبراہٹ اور خوف کے آثار نمودار ہوئے لیکن اس نے کچھ نہ کہا اور باہر چلا گیا۔

میں پھر کمبل سے منہ ڈھانپ کر سو گیا۔ دن چڑھے آنکھ کھلی تو سر میں شدید درد تھا اور بخار پہلے سے بھی تیز۔اردلی کو ایک روز پہلے پنگرام کے پوسٹ ماسٹر صاحب کے پاس تازہ خبر لانے کے لیے بھیج چکا تھا۔ دیر تک پڑا ہائے ہائے کرتا رہا، کوئی پانی پلانے والا بھی نہ تھا۔ تھوڑی دیر بعد شور کی سی آواز میرے کانوں میں آئی، جیسے کچھ لوگ آپس میں لڑ رہے ہوں۔آہستہ آہستہ یہ شور نزدیک آتا گیا اور پھر ایک دم دس پندرہ آدمی میرے مکان میں گھس آئے۔انہوں نے بیرا پجاری کو ہاتھوں پر اٹھا رکھا تھا۔ میں نے دیکھا کہ بیرا سخت زخمی ہے۔اس کی پیٹھ ،سینے اور کندھوں پر گہرے زخم ہیں اور سارا جسم خون میں لت پت ہے۔اس کا چہرہ ہلدی کی مانند زرد تھا۔

آنے والوں نے اسے فرش پر ڈال دیا اور کچھ لوگ گاؤں کے بڈھے وید کو بلانے دوڑے، میں نے دیکھا کہ ایک طرف مکھیا بھی کھڑا ہے اور اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی ہے۔بیرا زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے بے ہوش ہو چکا تھا اور اس کی حالت دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ چند گھنٹوں کا مہمان ہے۔میں نے اپنا سوٹ کیس کھول کر فرسٹ ایڈ کا سامان نکالا۔ گرم پانی سے بیرا کے زخم دھوئے اور پٹیاں باندھ دیں۔اتنے میں وید جی آگئے۔ انہوں نے بیرا کی طرف تشویشناک نظروں سے دیکھا، مایوس ہو کر گردن ہلائی، پھر مجھ سے مخاطب ہو کر بولے:

’’یہ کس طرح زخمی ہوا؟‘‘

میرے کچھ کہنے سے پہلے گاؤں کا ایک آدمی بول پڑا ’’ہم اس کے ساتھ جنگل میں گئے تھے اس نے ہمیں بتایا کہ ایک جگہ شہد کی مکھیوں کا چھتا لگا ہوا ہے چلو اسے اتاریں۔یہ دیر تک چھتا تلاش کرتا رہا،پھر کہنے لگا شاید وہ کسی اور طرف ہے۔ہم یوں پھرتے پھرتے ندی کی طرف جا نکلے۔ وہاں اچانک ایک بڑے ریچھ نے جو جھاڑیوں میں دبکا بیٹھا تھا، بیرا پر حملہ کر دیا۔ بیرا نے جان بچانے کی بڑی کوشش کی مگر بھاگتے ہوئے ٹھوکر کھا کرگر پڑا اور ریچھ نے اسے پکڑ لیا،اگر ہم سب شور مچاتے ہوئے ریچھ کی طرف نہ جاتے تو وہ بیرا کو مار ہی ڈالتا۔اب بھی اس نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔بیرا کے جسم سے لہو بہت نکل گیا ہے۔‘‘

وید جی نے اپنی پوٹلی کھولی۔چند بڑی بوٹیاں نکال کر ایک پتھرپر گھسیں اور اس سفوف کو پانی میں حل کر کے بیرا کے حلق میں ٹپکانے کی کوشش کرنے لگے۔میں نے سمجھا تھا کہ اس شخص کا انجام ایک نہ ایک دن یہی ہونا چاہیے تھا۔اب اس کا بچنا محال ہے۔وید جی کی کوششیں بے کار ہیں۔بیرا جیسے کمزور آدمی کے جسم سے خون کی اتنی مقدار کا نکل جانا اور پھر اس کا زندہ رہنا کرشمہ ہی ہو گا۔

مجھے بیرا پجاری کو یوں دیکھ کر نہ جانے کیوں رنج ہو رہا تھا۔تھوڑی دیر بعد اس کے بے حس و حرکت جسم میں جنبش ہوئی، وید نے جلدی سے اپنی عجیب و غریب دوا کے چند قطرے پھر اس کے حلق میں ٹپکائے اب بیرا نے بری طرح پیر پٹخنے شروع کر دیئے اور دیکھنے والوں نے خوف سے لرز کر آنکھیں بند کرلیں۔صاف نظر آرہا تھا کہ بد نصیب آدمی پر جانکنی کی سی حالت طاری ہے مگر بوڑھے وید کی آنکھوں میں چمک دیکھ کر مجھے کچھ شبہ ساہوا کہ وہ اپنے علاج میں کامیاب رہا ہے۔یکایک بیرا نے مدہم آواز میں پانی مانگا۔وید کے اشارے پر فوراً ہی اسے پانی پلایا گیا۔چند لمحے چپ چاپ پڑے رہنے کے بعد آنکھیں کھول دیں اور وید نے ایک شخص کو گرم گرم دودھ لانے کا حکم دیا۔

سہ پہر تک بیرا کی حالت خاصی درست ہو گئی،اگرچہ نقاہت باقی تھی۔وید جی کی اس مسیحائی پر میں شسدر رہ گیا مگر بعد میں پتا چلا کہ جنگل کی ان جڑی بوٹیوں میں ایسے اثرات پوشیدہ ہیں کہ مردہ زندہ ہو جائے۔شام کو میرا اردلی وجے سنگھ ،جو پنجاب کا رہنے والا سکھ نوجوان تھا،پنگرام کے پوسٹ ماسٹر کو ساتھ لیے آگیا۔پوسٹ ماسٹر کا نام بدری رام تھا۔ اس نے آتے ہی شکایت بھرے لہجے میں کہا:

’’صاحب،اتنے دن ہوئے آپ کو خط بھیج رہا ہوں اور آنا تو درکنار آپ نے جواب تک نہ دیا۔اگر آپ کا اردلی آج میرے پاس نہ پہنچتا تو کل پرسوں میں خودآنے والا تھا۔ چیتے کی خون آشام سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں۔پرسوں اس نے بستی کی ایک عورت پر حملہ کیا اور اسے اٹھا کر لے گیا۔ گاؤں والوں نے اگلے روز صبح اس کی ہڈیاں مندر کے باہر پڑی پائیں۔اب مندر میں رہنے والے سادھوؤں اور پجاری کی جان خطرے میں ہے۔چیتے کے منہ کو انسانی خون لگ گیا ہے۔۔۔اگر۔۔۔‘‘

یکایک اس کی نظر کمبل میں لپٹے ہوئے بیرا پر پڑی۔ ٹمٹماتے ہوئے دیے کی مدھم روشنی میں وہ اسے بغور دیکھتا رہا۔ شاید پہچاننے کی کوشش کررہا تھا۔ بیرا ضعف کی شدت سے آنکھیں بند کیے پڑا تھا۔

’’تم اسے جانتے ہو بدری رام؟‘‘میں نے پوچھا۔
’’اس کا چہرہ تو دیکھا بھالا ہے۔اس نے رک رک کہا:’’مگر یاد نہیں آتا کہ اسے کہاں دیکھا تھا۔‘‘
یہ کہہ کر وہ اٹھا اور بیرا کے سرہانے جاکھڑا ہوا جھک کر دیکھنے لگا۔ پھر یک لخت اس طرح ڈر کے پیچھے ہٹا جیسے سانپ نے ڈس لیا ہو۔
’’ارے،یہ تو بیرا پجاری ہے۔اسے کیا ہوا؟یہاں کیسے آیا؟‘‘اس نے میری طرف مڑ کر انتہائی حیرت خیز لہجے میں پوچھا۔

’’اگر یہ بچ گیا،تو خود ہی اس سے پوچھ لینا۔‘‘میں نے جواب دیا’’مجھے حیرت تو اس بات پر ہے کہ اتنا خون بہہ جانے کے باوجود یہ دھان پان آدمی اب تک زندہ کیسے ہے۔خیر اسے یہیں پڑا رہنے دو اردلی اس کی دیکھ بھال کرے گا۔میں اس کے بیوی بچوں کو بلانے کا انتظام کرتا ہوں۔‘‘

’’آپ کو فوراً میرے ساتھ چلنا چاہئے،چیتا اتنی دیر میں ایک دو آدمیوں کوہڑپ کر لے گا۔‘‘بدری رام کہنے لگا۔
’’ضرور چلوں گا،لیکن اس ریچھ سے تو نمٹ لوں جس نے بیرا کو زخمی کر دیا۔‘‘
’’تو یہ ریچھ کا کام ہے۔‘‘بدری رام خوف زدہ ہو کر بولا:’’ریچھ بڑا موذی اور کمینہ جانور ہے۔میں خود ایک مرتبہ ریچھ کے ہتھے چڑھ گیا تھا۔اگر۔۔۔‘‘

’’یار، یہ قصہ بعد میں سنانا‘‘میں نے اکتا کر کہا ’’مجھے ذرا آرام کرنے دو۔سورج چھپنے سے ذرا پہلے میں ریچھ کی تلاش میں نکلوں گا۔ چاہو تو میرے ساتھ چلنا۔‘‘

’’نا صاحب‘میں باز آیا میں اس میدان کا آدمی نہیں۔‘‘بدری رام نے کانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے جواب دیااور اٹھ کر باہر چلا گیا۔میں نے اردلی کو ہدایت کی کہ بیرا کو اندرون دالان پہنچا دیا جائے۔اس کی دیکھ بھال پر خصوصی توجہ دے اور پتہ لگا کر اس کی بیوی بچوں کو بھی یہیں بلالے تاکہ وہ اپنے خاوند کی تیمارداری کر سکے۔ یہ ہدایات دے کر میں نے اپنے بکس میں سے ڈسپرین کی ٹکیاں نکال کر کھائیں اور بستر پر لیٹتے ہی آنکھیں بند کرلیں۔اس وقت مجھے خیال آیا کہ میں بھی اس وید کی جڑی بوٹی کیوں نہ کھا کر بھلا چنگا ہوجاؤں لیکن میں بوجوہ یہ تجربہ نہ کرسکا ۔ اس نازک وقت میں میری طبیعت کا یوں خراب ہونا خود مجھ پر شاق گزر رہا تھا۔ عرصہ دراز تک جنگلوں میں پھرنے اور خونخوار،چالاک ،آدم خور اور کینہ پرور درندوں سے مقابلہ کرنے کے بعد میرا مزاج کچھ اس قسم کا بن چکا تھا کہ جونہی ایسے جانور کے بارے میں کچھ سنتا جو اچھا حریف بن سکتا تھا تو میرے اضطراب کی حد نہ رہتی۔ دن رات اسی کے تعاقب میں رہتا۔درندہ جتنا چالاک اور مکار ہوتا، مقابلے میں اتنا ہی لطف آتا۔تلوادی کے اس غیر معمولی ریچھ کو میں نے اب تک نہ دیکھا تھا۔ لیکن اس کی حرکتوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد یقین ہوتا جارہا تھا کہ مقابلہ خاصا کٹھن اور جاندار ہو گا اور اسی لیے میں جلد از جلد اس کے سامنے ڈٹ جانا چاہتا تھا۔مگر بخار اترنے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔

میں جس مکان میں لیٹا ہواتھا،اگرچہ اس کے اندر حبس اور کسی قدر گرمی تھی، مگر میں نے اپنے گرد کمبل اچھی طرح لپیٹ لیا تاکہ پسینہ خوب آئے۔نیند تو نہ آئی، البتہ ایک گھنٹے بعد میرا جسم پسینے سے تر تھا اور بخار غائب ۔میں نے اٹھ کرگرم پانی سے ہاتھ منہ دھویا، دودھ کے دو گلاس پیئے، اپنی رائفل سنبھالی، شکاری چاقو پیٹی میں اڑسا اور اردلی کو بیل گاڑی لانے کا حکم دے کر بدری رام کی تلاش میں نکلا۔ میں نے انہیں گاؤں کی چوپال میں پایا جہاں وہ سادہ لوح کسان اور مزدوروں کے درمیان نہایت وقارا ور دبدبے سے بیٹھا اپنے سرکاری افسر، ہونے کا ثبوت دے رہے تھے۔ کسان اور مزور بدری رام کی باتیں بڑے غور سے اس طرح سن رہے تھے جیسے ان کا ہر لفظ کسی دیوتا کی زبان سے نکل رہا ہے۔

مجھے دیکھ کر مسکراتے ہوئے اٹھے اور بولے’’آہا، آپ کا بخار اتر گیا، کہیں اب کیسی طبیعت ہے۔ارے آپ تو کیل کانٹے سے لیس ہو کر آئے ہیں۔کیا میں بھی آپ کے ساتھ چلوں؟‘‘

آخری جملہ انہوں نے دیہاتیوں پر اپنی بہادری کا رعب گانٹھنے کے لیے کہا تھا، حالاں کہ انہیں اور مجھے اچھی طرح احساس تھا کہ وہ کتنے پانی میں ہیں۔میں نے ان کے اس جملے سے فائدہ اٹھایا اور دل میں سوچا کہ آج موقع اچھا ہے،ذرا لالہ جی کا مزاج بھی درست ہو جائے۔میں نے آگے بڑھ کر بدری رام کا ہاتھ پکڑ لیا اورلوگوں سے مخاطب ہو کر بولا:

’’بدری رام جی مانے ہوئے شکاری ہیں۔اب تک سینکڑوں شیروں اور ریچھوں کو مار چکے ہیں۔اب میرے ساتھ جنگل میں اس ریچھ کو مارنے جائیں گے جس نے بیرا کو زخمی کیام ہے۔‘‘یہ سنتے ہی لالہ بدری رام کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ ایک لمحے کے لیے گم سم کھڑے رہے۔پھر چہرے پر مصنوعی بشاشت پیدا کرکے بولے:

’’میں ہر طرح آپ کا ساتھ دینے کو تیارہوں۔چلئے کدھر چلنا ہے،لیکن میں اپنے ساتھ بندوق نہیں لایا۔‘‘

’’کوئی بات نہیں۔ایک فالتو رائفل میرے پاس ہے۔آپ وہ استعمال کیجیے۔‘‘میں نے مسکرا کر کہا اور بدری رام کو گھسیٹتا ہوا اپنے ساتھ لے گیا۔ تھوڑی دور جانے کے بعد وہ گڑ گڑا کر کہنے لگا:

’’جناب عالی،میں نے کون سی خطا کی ہے جو آپ مجھے ساتھ لے جانے پر تلے ہوئے ہیں۔میرے باپ دادا نے کبھی رائفل نہ چلائی نہ شکار کا شوق کیا۔ خود کشی کی یہ کوششیں آپ ہی کو مبارک ہوں۔بندہ رخصت ہوتا ہے۔‘‘

’’میں پہلے ہی سمجھ گیا تھا کہ آپ ان بے وقوف کسانوں پر رعب جما رہے ہیں۔‘‘میں نے ہنس کر کہا:’’لالہ جی، اب تو خواہ کچھ ہو، آپ کو میرے ساتھ جانا پڑے گا ورنہ گاؤں والے کیا کہیں گے۔‘‘

’’گاؤں والے جائیں جہنم میں۔‘‘انہوں نے بگڑ کر کہا:’’میں تو آپ کو چیتے کی سرگرمیوں سے مطلع کرنے حاضر ہوا تھا، لیکن آپ ریچھ کو زیادہ اہم سمجھتے ہیں،میں کل واپس چلا جاؤں گا۔‘‘

’’آپ تو ناراض ہو گئے لالہ جی۔۔۔‘‘میں نے کہا:’’اچھا آپ میرے ساتھ تو چلیے، کسی درخت پر یبٹھ کر تماشا دیکھیے گا۔ میں ذمہ لیتا ہوں کہ آپ کو کوئی نقصان نہ ہو گا۔ میری بات پر اعتبار کیجیے۔ریچھ اگر نہ ملا، تو سیدھا پنگرام آپ کے ساتھ چلوں گا۔‘‘

غرض اس قسم کی باتیں کرتا اور لالہ جی کو ورغلاتا ہوا بیل گاڑی تک لے آیا اور انہیں بٹھا کر تلوادی کی جانب روانہ ہوا۔ سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے ہی میں وادی کے اندر پہنچ گیا۔ یہاں سے ایک پگ ڈنڈی پنگرام اور دوسری انچتی کو جاتی تھی۔ لالہ جی تمام راستے خاموش رہے۔۔۔غالباً ریچھ کے تصور سے دل ہی دل میں ڈر رہے تھے۔ مجھے ریچھ کے ٹھکانے کا کسی حد تک اندازہ ہو گیا تھا۔ وہ یقیناً اس حصے میں رہتاتھا جہاں شہتوت کے درخت کثرت سے تھے۔

آدم خور درندوں کا شکاری (قسط نمبر 6)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں


Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں