میں اور میری ملازمہ

urdu stories
 

گھر میں کام کے لیے مستقل بنیادوں پر ملازمہ میں نے کبھی نہیں رکھی۔۔ جب بھی رکھی۔۔تھوڑے عرصے کے لیے کسی بیماری یا مجبوری میں رکھی۔۔وجہ ایک تو یہ ہے کہ میں ان کی موجودگی میں کمفرٹیبل نہیں رہ پاتی دوسری یہ کہ ایک ہاوس وائف گھر کے کام بھی نہ کرے تو کیا کرے؟ ۔۔ بد قسمتی سے ہر کام والی ایسی دبنگ ملتی کہ ناک میں دم کر دیتی ہیں ۔۔ مجھے اپنے ہی گھر میں نوکروں والی فیلنگ محسوس ہوتی ہے۔۔لہذا جیسے ہی صحت یاب ہوتی ہوں۔۔کام والی کو چھٹی دے دیتی ہوں۔۔

پچھلے سال جون جولائی کے دنوں کی بات ہے۔۔جب میرا گلے کا آپریشن ہوا ۔بیڈ ریسٹ تو ہفتہ ڈیڑھ ہفتے کا تھا۔۔لیکن دو مہینے وزن اٹھانے ۔۔گردن کی تیز موومنٹ یا جھک کر کام کرنے سے منع کردیا گیا۔اب مجھے نہ چاہتے ہوے اس آپشن کی طرف جانا تھا۔۔ہمسائی عیادت کے لیے آئی تو اس سے کہا مجھے کوئی کام والی ڈھونڈ دو۔۔۔ریکوائرمنٹ بس ایک چاہیے کہ زیادہ مت بولے ۔اپنے کام سے کام رکھے۔۔ہمسائی کا حلقہ احباب خاصہ وسیع تھا اگلے ہی دن ایک خاتون کو لے کر آگئی۔

۔۔مریل سی سوکھی سڑی ۔۔مجھے تشویش ہوی کہ اسے تو خود آرام کی ضرورت۔۔۔۔۔چہرے پر بلا کی سنجیدگی۔ گویا ابھی کسی تھنک ٹینک کی میٹنگ سے اٹھ کر آئی ہو۔۔بے نیازی سے صوفے پر بیٹھ گئی چاروں طرف نظریں دوڑا کر گھر کا جائزہ لینے لگی۔۔۔ ہمسائی نے اس کی خوبیاں بیان کرنا شروع کیں۔۔۔قصہ مختصر اسکے مطابق میری مطلوبہ بندی یہی تھی ۔۔نام حاجراں بتایا۔۔۔
اس سارے عرصے میں حاجراں ایک لفظ نہ بولی۔۔۔ہمسائی نے ہی ساری ڈیلنگ کی۔۔۔۔تنخواہ وغیرہ ڈن ہوی۔۔حاجراں جیسے خاموشی سے آئی تھی ویسے ہی چلی گئی۔۔میں نے دل میں شکر ادا کیا چلو میرا دماغ نہیں کھاے گی ۔

اگلے دن حاجراں آگئی۔میں نے اسے کچھ ہدایات دیں۔۔میکانکی انداز میں سر ہلایا اور گھر کے پچھلے حصے میں پوچے وغیرہ اٹھانے چلی گئی۔۔۔ادھر میں نے مطمئن ہو کر ایل سی ڈی پر اپنی پسندیدہ ہارر مووی لگا لی۔۔اور چاے کا کپ اٹھا لیا ۔۔خوب مگن تھی کہ ہلکی سی آہٹ کا احساس ہوا۔۔۔چونک کر پیچھے دیکھا تو حاجراں پتھریلے تاثرات کے ساتھ کھڑی تھی ۔۔میری روح فنا ہوگئ۔۔
" جج جی کچھ چاہیے آپ کو؟؟" بمشکل پوچھ پائی
مجھے یہ پوچا نہیں پسند ۔۔کوئی پرانی جرسی چاہیے بیٹھ کر لگاونگی"لہجہ بھی پتھر ہی تھا۔۔۔

اوہ۔۔۔وہ میرے پاس نہیں ہے۔۔دیکھو وہ طریقے تو پرانے ہوچکے۔۔یہ پوچا تمہیں زیادہ تھکاے گا بھی نہیں۔۔۔۔میں نے وضاحت دی۔۔
" لیکن مجھے جرسی والا ہی چاہیے" دو ٹوک کہہ کر کمرے سے چلی گئی۔۔گیراج دھونے گئی دس منٹ بعد پھر سے روبوٹس کی طرح چلتی ہوئ میرے سامنے آکھڑی۔۔۔
جی خیریت؟

"مجھے سرخ وائپر سے چکر آتے ہیں۔۔نیلے رنگ کا چاہیے ۔۔"
۔چکر؟ وہ کیوں؟ وائپر دیکھ کر کون چکراتا ہے؟ میں نے کنفیوزن سے اسے دیکھا۔۔۔
" میں تو چکراتی نا۔۔۔مجھے کل سے نیلا وائپر منگا دیں بس"
اچھا۔۔منگا دونگی۔۔۔
کچن میں بھی دس انسٹرکشنز دیں۔۔یہ چاہیے وہ چاہیے وغیرہ۔۔۔
میں نے اسکو یقین دہانی کرائی کل یہ سب موجود ہوگا۔۔۔
ڈسٹر دیا تو بولی فلاں شاپنگ سنٹر سے آٹھ سو کا جو ڈسٹر ملتا مجھے وہ چاہیے۔۔
میں کراہ کر رہ گئی۔۔۔" فرنیچر ہی صاف کرنا ہے آپ کو۔۔اس سے بھی ہوجاے گا۔۔۔۔"
"لیکن مجھے وہی چاہیے۔۔۔" جواب محترمہ کا دو ٹوک ہی رہا۔۔

اس نے جتنی چیزیں بتائی تھیں ان کا اچھا خاصا بل بن رہا تھا۔۔مرتا کیا نہ کرتا نوٹ کرتی گئی۔۔ نخرہ دیکھ کر لگا یقینا وزیر اعظم کے گھر کام کرتی رہی ہوگی۔۔ دو ٹوک سخت انداز دیکھ کر شک پڑا کسی کرنل کے گھر بھی کام کا تجربہ ہوگا اسے۔۔
پہلے دن ہی اندازہ ہوگیا۔۔کہ یہ دو مہینے مجھ پر بھاری پڑنے والے ہیں ۔۔ اور وہ ثابت کرکے دکھانے والی تھی۔۔۔

اس کے انداز میں اتنا رعب تھا کہ میں خوامخواہ گلٹی ہوجاتی۔۔۔کبھی برتن زیادہ ہوتے تو منہ سے کچھ نہ کہتی۔۔لیکن ایسی سخت نظر مجھ پر ڈالتی کہ میں شرمندہ ہو کر وضاحت دینا شروع کردیتی۔۔۔۔گھر میں مہمان آگیے اور کام کچھ بڑھ گیا تب تو باقاعدہ ناراضگی شکل سے جھلک رہی ہوتی۔۔میں کھانا باندھ دیتی۔۔الگ سے پیسے دے دیتی تب بھی اسکی خفگی کم نہ ہوتی۔۔۔

کسی بچے نے غلطی سے اس کے پوچے والی جگہ پر قدم رکھ دیا۔۔ اسکے ماتھے پر بل اور چہرے کی سختی میں اضافہ ہوجاتا۔۔میرے بس میں نہ ہوتا کہ جب تک پوچا نہ سوکھے ہم دیواروں پر چلنا شروع کردیں۔۔یا گھر کے سارے مکین گلی میں کھڑے ہو کر انتظار ہی کرلیں۔۔۔برتن دھو رہی ہے اور کسی نے کوئی برتن اٹھا لیا۔۔منہ سے کچھ نہ بولتی۔۔لیکن برتن اٹھانے والے کو ایسے گھورتی کہ اگلا گڑبڑا کر واپس رکھ دیتا ۔یا کم از کم اسکی موجودگی میں نہ اٹھاتا۔۔۔

ایک کام کر رہی ہے اور غلطی سے کسی دوسرے کام کا کہہ دیا تو ایسے تاثرات چہرے پر سجا لیتی دل چاہتا اسکے پاوں پکڑ کر معافی مانگ لی جاے۔ کئی بار اپنی صفائی بھی دیتی کہ میری سرجری کی وجہ سے اس کام سے منع کیا گیا ہے۔۔ورنہ تمہیں ساتھ ہیلپ دیتی لیکن ہمیشہ ماتھے پر بل ڈال کر اشارہ دے دیتی کہ اسے گھر والوں کی یہ عادتیں ناپسند ہیں۔۔

کسی بچے نے اسکی مرضی کے خلاف کام کردیا۔۔یعنی برتن اٹھا لیا پوچے والے فرش پر پاوں رکھ دیا ۔۔اسے اتنی دیر گھورتی رہتی کہ بچہ زچ ہوجاتا۔۔
مما یہ گھور رہی ہیں۔۔۔
نہیں بیٹا انکی آنکھیں ایسی ہی ہیں۔۔ آپ سوری کرلیا کرلیں۔۔
کس بات پر؟ بیٹے نے ابرو اچکاے
جب فرش پر چلو یا کوی گلاس یا کپ اٹھاو۔۔
" فرش پر کون اڑتا ہے؟ سب ہی چلتے؟ اس بات پر سوری کروں؟
میرا مطلب کام میں اسے ڈسٹرب مت کرو"

بچے نے حیرت سے دیکھا۔۔ ڈسٹرب؟؟؟
ان دو مہینوں میں پوری کوشش کرتی رہی کہ حاجراں کو ناراض نہ کروں۔۔کبھی تو مسکراتی ہوی گھر سے جاے۔۔لیکن اسکا چہرہ کسی بھی ایکسپریشن سے خالی رہتا۔۔ مزاج ہی شاید ایسا سخت تھا۔۔۔ دو چار مرتبہ اس سے بات کرنا چاہی۔۔تو بھی اس نے ٹو دا پوائنٹ مختصر جواب دیا ۔۔میں چڑنے لگی۔۔
ہمسائی سے کہا یہ کس روبوٹ کو لے آئی ہو۔۔یہ تو نہ بولتی ہے نہ ہنستی ہے ۔چپ چاپ کام کرتی رہتی بس ۔

لو خود تو کہا تھا زیادہ نہ بولتی ہو۔۔اب ایسی ڈھونڈ دی تب بھی اعتراض ؟ ہمسائی نے بھی کندھے اچکاے۔۔
ایک دن اپنی بیٹی کو ساتھ لائی۔۔۔بولی آج جلدی جانا ہے اسلیے بیٹی کو لائی ہوں تاکہ کام جلدی ہوجاے۔۔۔اسکی بیٹی پر غور کیا وہ بھی ماں جیسا روبوٹ ہی تھی۔۔دونوں ماں بیٹی بے تاثر چہروں کے ساتھ کام کرتی رہیں اور پھر چلی گئیں۔۔۔ پھر روز ہی ساتھ آنے لگیں۔۔حیرت کی بات یہ کہ ایک دوسرے سے بھی مخاطب نہ ہوتیں۔۔میں پریشانی سے دیکھتی ۔۔یا اللہ یہ بولتے کیوں نہیں کچھ؟؟؟

مہینہ ہونے کو آگیا۔۔اس عورت کے چہرے پر سواے غصے کے کوئی تاثر نہ دیکھا ۔۔۔سوچا پتہ نہیں کیسے حالات۔۔بیچاری کی خوشیاں ختم ہوگئیں شاید۔۔
ایک مرتبہ کہا کپڑے دھو دو۔۔الگ سے پیسے لے لیا کرو۔۔اس نے کچھ نہ کہا بس اثبات میں سر ہلا دیا۔۔۔اگلے دن کپڑے دیے ۔۔ناگواری سے کپڑے دیکھے اور بولی۔۔۔
اتنے کپڑے کیوں لیتے ہیں آپ لوگ؟

میں گڑبڑا گئی۔۔۔نہیں۔۔زیادہ نہیں ہیں۔۔چار پانچ افراد کے اتنے تو ہوتے نا۔۔۔۔
کپڑے دھونے کے دوران بھی اعتراض چلتے رہے۔۔۔یہ دوپٹہ اتنا بڑا کیوں ہے؟ چادریں میلی کیوں کرتے۔۔پردے لائٹ کلر کے کیوں لیے؟ وغیرہ وغیرہ۔۔۔میں ناخلف اولاد کی طرح سر جھکاے کھڑی

رہی ۔۔۔کپڑے دھو چکی تو چاے بسکٹ لا کر دیے۔۔ نخوت سے لے لی۔۔چپ چاپ پینے لگی۔۔۔کھانا بنایا تو اسکے بچوں کے لیے بھی ڈبے میں ڈال دیا۔۔چپ چاپ لے کر چلئ گئی۔۔۔۔نا چاہتے ہوے بھی مجھے مزید چڑ ہوی۔۔۔یہ خوش کیوں نہیں ہوتی؟
دو مہینے ہونے کو آے۔۔۔ میرا امتحان بھی ختم ہونے جا رہا تھا۔۔ رخصت کرنے سے قبل حاجراں اور اسکی بیٹی کے کپڑے لے آئی۔۔تحفے کے طور پر دینے کے لیے۔۔سوچا ضرور ناراض ہوگی کہ مجھے مستقل رکھ لو۔۔نوکری ختم نہ کرو۔۔لیکن اسکے ںرعکس وہی ازلی سنجیدگی۔۔۔چہرے پرکوئی بھی تاثر تلاش کرنا ناممکن تھا۔۔میں نے اسے کپڑے تحفے میں دیے اس نے چپ چاپ شاپر تھام لیا۔۔۔
دیکھ تو لو کیسے ہیں پسند آتے ہیں کہ نہیں؟ مسکرا کر پوچھا ۔۔
" جی ٹھیک ہیں اچھے ہیں" اس کا انداز وہی لٹھ مار تھا۔۔

تھینک یو حاجراں۔۔تم نے دو مہینے میرے گھر میں اچھے سے کام کیا۔۔۔
اس نے پیشہ وارانہ انداز میں سر کو خم دیا ۔۔جی میرا کام تھا۔۔۔
مجھے تھینک یو نہیں کہوگی ۔۔یعنی سوٹ پسند نہیں آے؟
پتہ نہیں کیوں کہا لیکن میرے منہ سے یہ الفاظ نکل چکے تھے۔۔جوابا اس نے ازلی غصیلے پن سے دیکھا دل چاہا اپنی زبان کھینچ لوں ۔۔خدا جانے کپڑے پھینک کر نہ چلی جاے۔۔۔گڑبڑا کر وضاحت دی۔۔۔۔چھوڑو۔۔رہنے دو۔۔۔
شکریہ باجی۔۔۔ اب اجازت۔۔۔
قوی اندازہ تھا کہ اسکے چہرے پر مسکراہٹ کی رمق نظر آئی۔۔لیکن میں نے اسے وہم ہی سمجھا.

حضور علیہ الصلوٰة والسلام کے معجزات


Urdu Stories Keywords

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories for adults only, Urdu stories
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں