آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر3)

Adamkhore urdu story
 

آدم خوردرندوں کا شکاری (قسط نمبر3)

وروز بعد بیرا پجاری نہایت تشویشناک تاثرات چہرے پر سجائے میرے پاس آیااور تلوادی جنگل کے درندوں کا ذکر اس انداز میں چھیڑا کہ میرے دل میں وہاں جانے کا اشتیاق پیدا ہو۔میں فوراً اس کا منصوبہ بھانپ گیا، تاہم میں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا:

’’بیرا،تم نے مجھے پہلے اس جنگل کے بارے میں کیوں نہ بتایا، میں وہاں ضرور جاؤں گا‘‘۔

’’سرکار،ایسا غضب بھی نہ کیجیے گا۔ وہاں بلائیں رہتی ہیں،بلائیں۔۔۔نہ جانے کتنے آدمی ان بلاؤں نے ہڑپ کر لیے ہیں۔میں تو وہاں جانے کا مشورہ نہ دوں گا۔ مجھ سے غلطی ہوئی کہ اس جنگل کا نام لے بیٹھا۔‘‘

اپنی دانست میں وہ میرے جذبے اور ولولے کو ہوا دینے کی کوشش کررہا تھا ۔مجھے اس کی چالاکی پر ہنسی آئی اور یہ سوچ کر غصہ بھی آیا کہ وہ مجھے نرا گاؤدی سمجھتا ہے۔اب میں نے اسے دہشت گردہ کرنے کے لیے کہا:

’’بیرا، اگر اس جنگل میں مجھے کسی شیر نے کھا لیا یا ریچھ نے مار ڈالا تو تمہیں سولی پر لٹکا دیا جائے گا۔‘‘

اس کا چہرہ پہلے سیاہ پھر یک دم زرد ہو گیا اور ہونٹ کانپنے لگے۔ایسا معلوم ہوتا تھا اس کی حرکت قلب بند ہو جائے گی۔ دفعۃً وہ بری طرح روتا ہوا زمین پر گرا اور میرے پیر پکڑ کر فریاد کرنے لگا:

’’سرکار،میری خطا معاف کر دیجیے۔ میں آپ کے ساتھ اس جنگل میں نہ جاؤں گا۔اگر میں سولی پر چڑھ گیا تو میرے بال بچے بھوکے مر جائیں گے۔‘‘

’’ایک نہ ایک دن تمہیں مرنا ہی ہو گا۔‘‘میں نے جواب دیا:’’اس لیے ڈرنا فضول ہے۔رہے بال بچے، سو ان کی فکر تمہارے بعد’’بھگوان‘‘ کریں گے۔‘‘

’’جیسی سرکار کی مرضی‘‘۔بیرا نے ہاتھ جوڑ کر رحم طلب نظروں سے میری طرف دیکھا اور میری بے اختیار ہنسی چھوٹ گئی۔

میں دوسرے روز بنگلے میں بیٹھا تلوادی کی سیاحت کا پروگرام بنا رہا تھا کہ گاؤں کا ایک شخص ہاتھ میں کارڈ لیے میرے پاس آیا۔پنگرام کے پوسٹ ماسٹر نے مجھے خط لکھا تھا جس کا مضمون درج ذیل ہے:

’’عالی جناب،مجھے پتا چلا ہے کہ آپ اس علاقے میں موجود ہیں،اس لیے یہ خط سب سے پہلے آپ کی خدمت میں بھیج رہا ہوں۔گزشتہ دو ہفتوں سے ماتھرکی اونچی سڑک کے قریب ایک چیتے نے اپنی خونریز سرگرمیوں سے بستی کے لوگوں کا جینا حرام کررکھا ہے۔وہ اب تک پندرہ بیس مویشی ہلاک کر چکا ہے اور عنقریب آدمیوں کی باری آنے والی ہے۔جن لوگوں نے یہ چیتا دیکھا ہے،وہ نہایت ہراساں ہیں اور کہتے ہیں ایسی مہیب بلا سے پہلے کبھی سابقہ نہیں پڑا۔ یہ چیتا نہ صرف جنگل کے عام چیتوں کی نسبت قوی ہیکل اور خونخوار ہے بلکہ قدو قامت میں شیر سے بھی بڑا ہے۔اگر آپ اپنی سابقہ شاندار روایات اور انسان دوستی کے تحت مظلوم باشندوں کو اس درندے سے نجات دلا سکیں تو یہ لوگ زندگی بھر آپ کا احسان نہیں بھولیں گے۔‘‘

خط پڑھنے کے بعد میں نے فوراً بیرا کو بلایا اور حکم دیا کہ دس منٹ کے اندر اندر چلنے کی تیاری کرے۔ میں نے اسے شکار کے تمام’’سازو سامان‘‘کا انچارج بنا دیا۔ اس نے استفہامیہ انداز میں میری طرف دیکھا اور کہنے لگا:

’’کہاں جانا ہے سرکار؟‘‘

’’تلوادی کے جنگل میں۔‘‘میں نے کرخت لہجے میں کہا:’’اب میں کوئی بہانہ نہ سنوں گا۔جلدی سے رائفلیں اور ٹارچ، تمباکو کے پیکٹ، کارتوسوں کے ڈبے اور تمام ضروری سامان بیل گاڑی میں رکھو۔پنگرام کے پوسٹ ماسٹر کا خط آیا ہے۔اس نے ہمیں چیتے سے دو دو ہاتھ کرنے کی دعوت دی ہے‘‘۔

شام کے ساڑھے پانچ بجے ہم گاؤں ماتھر کے نزدیک پہنچے۔یہ گاؤں جنگل کے شمالی سرے پر آباد ہے اور دریائے کا دیری کی ایک شاخ اس کے نزدیک سے گزرتی ہے۔راستے میں تین چار مقامات پر سرخ اورپیلی مکڑیاں تیزی سے ایک طرف جاتی نظر آئیں۔انہیں دیکھتے ہی بیرا کی حالت غیر ہو گئی اور اس نے فوراً ٹارچ روشن کرکے ہاتھ میں پکڑ لی۔میں نے ٹارچ اس کے ہاتھ سے چھین لی اور کہا:

’’آؤ بیرا، دیکھیں یہ مکڑیاں کہاں جارہی ہیں،ضرور کوئی خاص بات ہے۔‘‘

بیل گاڑی روک لی گئی۔میں نے بیرا کو دھکا دے کر نیچے اتارا اور دونوں مکڑیوں کے پیچھے پیچھے چلے۔لمبی گھاس کے ایک وسیع قطعے کے کنارے پر یہ مکڑیاں ٹیڑھی ترچھی قطار کی صورت میں تیزی سے رینگ رہی تھیں۔ ہمارے قدموں کی آہٹ پاکر وہ فوراً گھاس میں چھپ گئیں۔ہم بھی رک گئے۔چند لمحے انتظار کرنے کے بعد مکڑیاں گھاس سے نکلیں اور اپنے راستے پر چل پڑیں۔

’سرکار سورج چھپنے والا ہے،گاؤں تک پہنچتے پہنچتے اندھیرا چھا جائے گا۔‘‘بیرا نے آہستہ سے کہا۔

کوئی جواب دیئے بغیر میں نے جیب سے ربڑ کے موٹے دستانے نکال کرہاتھوں میں پہنے اور اس سے پیشتر کہ بیرا کچھ سمجھ سکتا، لپک کر ایک سرخ پکڑلی۔بیرا کے حلق سے گھٹی گھٹی چیخ نکل گئی اور وہ الٹے پاؤں بیل گاڑی کی طرف دوڑا۔مجھے خدشہ تھا کہ تنگ آکر وہ فرار نہ ہو جائے،چنانچہ مکڑی پھینک کر میں بھی اس کے پیچھے بھاگا اور اسے راستے میں جالیا۔

’’مجھے جانے دیجیے سرکار،میں مر جاؤں گا۔ میں آپ سے آئندہ اپنی بندوق بھی نہ مانگوں گا۔‘‘

’’تم بڑے بزدل ہو بیرا۔‘‘میں نے ہنس کر کہا:’’مکڑی تو میں نے اسی وقت پھینک دی تھی۔ چلو، ہانکو گاڑی۔‘‘

پون گھنٹے بعد ہم گاؤں کے اندر پہنچ چکے تھے۔ہر طرف ہیبت ناک سناٹا طاری تھا۔ چند آوارہ کتوں نے ہمیں دیکھ کر یک لخت بھونکنا شروع کر دیا۔ پھر کسی طرف سے ایک آدمی کے بولنے کی آواز سنائی دی۔تھوڑی دیر بعد جھونپڑوں اور پتھر کے بنے ہوئے چھوٹے چھوٹے مکانوں میں سے مرد،عورتوں اور بچے نکل کر آگئے اور انہوں نے ہماری بیل گاڑی گھیر لی۔میں نے دیکھا وہ سب کے سب بیرا کی طرف عقیدت بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں،شاید اس لیے کہ وہ پجاری تھا۔

’’سرکارتمہارے گاؤں میں آئے ہیں۔‘‘بیرا نے میری طرف اشارہ کیا اور ہاتھ جوڑ دیے۔اس کی تقلید میں سبھی مرد اور عورتوں نے ہاتھ جوڑے اور گردنیں جھکا جھکا کر عجیب عجیب سی حرکتیں کرنے لگے۔کچھ لوگ دوڑے ہوئے گئے اور بانس کا بنا ہوا ایک بڑا سا تخت اٹھا لائے۔اس پر پتوں کی بنی ہوئی چٹائی بچھائی اور مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ چند لمحے بعد میں نے تاملی زبان میں پوچھا:

’’تم میں س کسی شخص نے اس چیتے کو تو نہیں دیکھا جو شیر سے بھی بڑا ہے؟‘‘

جواب دینے کی بجائے سب لوگ حیرت سے میری طرف دیکھنے لگے۔ان کا خیال تھا کہ میں تاملی زبان نہیں جانتا۔ آخر ایک شخص نے زبان کھولی اور بتایا:

’’صاحب،میں نے وہ چیتا دیکھا ہے۔وہ یہاں سے تین میل دور ندی کے کنارے پانی پی رہا تھا اور اسی نے اگلے روز شام کے وقت میرے بھائی کی گائے پکڑ کر مار ڈالی تھی۔‘‘

’’گائے کی لاش تم میں سے کس نے دیکھی؟‘‘

’’میں نے صاحب۔‘‘ اسی شخص نے جواب دیا:’’چیتے نے کچھ باقی ہی نہیں چھوڑا، بس ہڈیاں باقی رہ گئی تھیں۔‘‘

’’ہاں صاحب۔‘‘

’’چلو بیرا، ذرا وہ جگہ دیکھ آئیں۔‘‘میں رائفل لے کر اٹھ کھڑا ہوا۔

’’سرکار، کچھ بھوجن تو کر لیجئے۔‘‘بیرا نے کہا۔

’’بھوجن آکر کریں گے۔‘‘میں نے جواب دیا۔ لوگوں کو حیران اور کسی قدر خوفزدہ چھوڑ کر ہم تینوں گاؤں سے نکل کر جنوبی رخ کی طرف چلنے لگے۔ہمارے راہبر کا نام سانا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ٹین کی بنی ہوئی لالٹین تھی۔ راستہ اتنا دشوار گزار اور خراب تھا کہ ایک میل چلنے کے بعد میرے اعصاب جواب دے گئے لیکن سانا بہت اطمینان سے چلا جارہاتھا۔ایسا معلوم ہوتا تھا وہ جنگل کے چپے چپے سے بخوبی آگاہ ہے۔

لالٹین کی مدھم روشنی میں ٹھوکریں کھاتے،گھاس روندتے اور کانٹوں سے بچتے بچاتے آخر کار ہم ندی کے قریب پہنچ گئے۔ میں نے گھڑی پر نگاہ ڈالی۔ رات کے ساڑھے آٹھ بج رہے تھے۔گائے کی ہڈیاں ندی سے تیس گز دور ایک درخت کے نیچے بکھری ہوئی تھیں، کھوپڑی الگ پڑی تھی۔ میں نے دیکھا جنگلی چیونٹوں اور بے شمار کیڑے مکوڑوں کے علاوہ سرخ رنگ کی پانچ مکڑیاں بھی اس پر چمٹی ہوئی ہیں۔

کنارہ افق سے چاند جھانکنے لگا اور تھوڑی دیر بعد پہاڑی کے عین اوپر آگیا۔ اس کی روشنی اتنی تھی کہ ہم اپنے اردگرد کا منظر بخوبی دیکھ سکتے تھے، تاہم میں نے ٹارچ کی مدد سے ندی کے دائیں کنارے کا معائنہ کیا اور یہ دیکھ کر سخت حیرت ہوئی کہ چیتے کے پنجوں کے تازہ نشان وہاں موجود ہیں۔ میرے ہاتھ میں اعشاریہ بارہ کی شاٹ گن اور بیرا کے پاس ونچسٹر رائفل تھی لیکن وہ اسے چلانا نہ جانتا تھا۔ یہ رائفل احتیاطاً ساتھ لے لی تھی۔

میں نے سانا اور بیرا کو ایک قریبی درخت پر چڑھ جانے کا اشارہ کیا۔ میں سمجھ گیا کہ ا گر چیتا تھوڑی دیر پہلے ادھر سے گزرا ہے تو اس نے ہمیں ضرور دیکھ لیا ہو گا اور اپنی فطرت کے مطابق قریب ہی چھپ کر ہماری حرکتوں کا جائزہ لے رہا ہو گا۔ سچ پوچھیے، میں شیر سے اتنا ہراساں نہیں ہوتا جتنا چیتے سے۔۔۔مجھے معلوم ہے یہ درندہ کتنا مکار اور دھوکے باز ہے۔ ایک ثانیے کے لیے شکاری بے خبر ہوا اور چیتے نے ٹینٹوا دبایا۔ دفعتاً ایک اور خیال میرے ذہن میں آیا۔۔۔چیتا اگر اس طرف گھوم رہا ہے تو اس کی کوئی خاص وجہ ہو گی۔ ممکن ہے اس نے ایک اور جانور مار ڈالا ہو۔میں نے سانا کو آواز دی اور پوچھا:

’’گاؤں کا کوئی آدمی مویشی لے کر آج ندی کی طرف تو نہیں آیا تھا؟‘‘

’’نہیں صاحب، آج کوئی نہیں آیا۔‘‘

’’کوئی جانور تو گم نہیں ہوا؟‘‘

’’مجھے معلوم نہیں ،جناب۔۔۔اگر ایسا واقعہ ہوتا تو مجھے ضرور پتا چل جاتا۔‘‘

یں جس مقام پر کھڑا تھا، اس کے سامنے پچیس تیس فٹ کے فاصلے پر آلو چے کے دس بارہ درخت کھڑے تھے۔ مجھے محسوس ہوا، ان درختوں کے پیچھے کوئی جانور چھپا ہوا ہے۔شاید چیتا ہی ہے کیونکہ ایک سکینڈ سے بھی بہت کم وقفے میں میں نے اس کی چمکتی ہوئی آنکھیں دیکھ لی تھیں۔ میں زمین پر لیٹ گیا اور آہستہ آہستہ درختوں کی طرف رینگنے لگا۔ ابھی میں نے بمشکل پانچ سات فٹ ہی فاصلے طے کیا تھا کہ میری نگاہ سیاہ چیونٹیوں کی ایک لمبی قطار پر پڑی جو ان درختوں کی جانب جارہی تھیں۔ میں نے غور سے دیکھا۔ درختوں کے پاس ایک بیل کی لاش پڑی تھی اور چیتا لاش کے عین پیچھے چپ چاپ کھڑا میری طرف گھور رہا تھا۔ چیتا دیکھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور مجھے اپنی بصارت پر شبہ ہونے لگا کہ واقعی یہ چیتا ہے یا کوئی بڑا شیر، لیکن نہیں،وہ چیتا ہی تھا کیونکہ چاند کی مدھم زرد روشنی میں اس کی چمکتی کھال پر سیاہ دھبے مجھے صاف دکھائی دے رہے تھے۔

میں دم سادھے پڑا رہا۔ چیتے نے دبے پاؤں بیل کی لاش کے گرد چکر لگایا اور اس کا پچھلا حصہ کھانا شروع کر دیا۔ گوشت چبانے اور ہڈیاں کڑکڑانے کی آواز میرے کانوں تک پہنچنے لگی۔میں نے فائر کرنے کے لیے بندوق اٹھائی ہی تھی کہ دائیں جانب سے ایک چرخ اچھلتا ہوا نمودار ہوا۔ چیتے نے چرخ کو دیکھا اور چند قدم آگے بڑھ کر غرایا۔ چیتے کی آواز سن کر چرخ زور سے چلایا اور بدحواسی میں بھاگتا ہوا سیدھا میری طرف دوڑا۔ اب میری حماقت، بلکہ گھبراہٹ ملاحظہ ہو کر چیتے پر گولی چلانے کے بجائے دھائیں سے چرغ پر فائر جھونک دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ چرخ تو وہیں ڈھیر ہو گیا اور چیتا گرجتا غر اتا جنگل میں غائب ہو گیا۔ دیر تک اس کی آواز مجھے سنائی دیتی رہی۔ چیتے کے یوں صحیح سلامت فرار ہو جانے سے مجھ پر جنون کی سی کیفیت طاری ہو گئی۔ بیل کی لاش دیکھنے سے معلوم ہوا کہ چیتا تھوڑا سا گوشت ہی کھانے پایا تھا کہ اسے بھاگنا پڑا اور ممکن ہے رات کے پچھلے پہر بھوک سے بے تاب ہو کر دوبارہ ادھر آئے۔سانا اور بیرا درخت سے اتر کر میرے پاس پہنچ گئے اور بیل کو دیکھنے لگے۔سانا نے میرے استفسار پر نفی میں گردن ہلائی اور کہا:

’’نہیں سرکار، یہ بیل ہماری بستی کا نہیں ہے۔‘‘

ٹارچ کی تیز روشنی میں لاش کا ایک بار جائزہ لیا گیا اور یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ شیر کے دانتوں کے نشان اس کی گردن پر موجود ہیں۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ شیر نے بیل مارا اور گھسیٹ کر یہاں تک لے آیا لیکن اس کے بعد نہ معلوم کیا واقعہ پیش آیا کہ وہ اپنے شکارکے گوشت سے پیٹ بھرے بغیر چلا گیا اور چیتے کو آنے کا موقع مل گیا۔

بیل کی لاش کے گرد پنجوں کے نشان دکھائی نہ دیئے کیونکہ یہاں گھاس کثرت سے اگی ہوئی تھی۔ ابھی میں سوچ رہا تھا کہ کیا کارروائی کرنی چاہئے کہ کچھ فاصلے پر قد آدم گھاس سے چند گیدڑ شور مچاتے ہوئے نکلے اور ندی کی طرف بھاگ گئے۔ میں نے فوراً ٹارچ بجھا دی اور سانا کو بھی لالٹین کی بتی گل کردینے کا اشارہ کیا۔ گھاس برابر ہل رہی تھی، جس سے اندازہ ہوتاتھا کہ کوئی بڑا جانور گھاس کے اندر آہستہ آہستہ چل رہا ہے۔ دفعتہً بیرا پجاری بھیانک آواز میں چلایا:

’’شیر۔۔۔شیر۔۔۔بھاگو۔۔۔‘‘

پھر وہ پاگلوں کی طرف ایک درخت کی طرف دوڑا لیکن ٹھوکر کھا کر گرا اور وہیں پڑے پڑے چیخنے لگا۔ میں آج تک حیران ہوں کہ اس کم بخت کو سوجھا کیا تھا۔بیرا کو یوں چیختے دیکھ کر سانا بھی لالٹین پھینک کر بھاگا اور اس سے بیشتر کہ میں کچھ سمجھ سکوں، گھاس میں ایک قوی ہیکل شیر برآمد ہوا۔ سانا کی طرف لپکا اور ایک ہی جست میں اسے جالیا۔ اب بیرا کے ساتھ سانا بھی چلا رہا تھا:

’’صاحب بچاؤ۔۔۔شیر نے مجھے پکڑ لیا ہے۔۔۔۔ ہائے ۔۔۔ مارڈالا۔۔۔‘‘

یہ حادثہ اتنی سرعت سے پیش آیا کہ میرا ذہن قطعاً ماؤف ہو گیا۔بیرا کے بھاگنے اور گھاس میں سے شیر کے نکل کر سانا پر جھپٹنے میں مشکل سے چند سکینڈ لگے ہوں گے۔میں نے اندھا دھند شیر پرگولی چلا دی۔ شیر جھلا کر میری طرف پلٹا لیکن فوراً ہی رخ بدل کر ندی کی طرف بھاگا اور کنارے کنارے دوڑتا ہوا نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ بیرا مسلسل چیخ رہاتھا لیکن سانا کی جانب سے کوئی آواز نہ آتی تھی۔ میں سمجھا کہ بے چارہ ختم ہو گیا ا ور اس کی حالت واقعی ایسی ہی تھی۔ شیر کا پنجہ اس کے چہرے پر اس انداز میں پڑا تھا کہ دائیں آنکھ باہر نکل آئی تھی اور رخسار بالکل ادھڑ چکا تھا۔ دوسرا زخم سینے پر تھا۔ چہرہ اور سینہ خون میں لت پت ہو چکا تھا۔ میں نے پہلے اس کی نبض ٹٹولی، پھر سینے پر اپنا کان لگایا۔ دل کی حرکت ابھی جاری تھی لیکن بہت آہستہ۔۔۔پھر اس کی ٹانگیں کانپنے لگیں اور وہ بری طرح تڑپنے لگا۔ میں نے اپنی پیٹی سے بندھی ہوئی پانی کی بوتل کھولی اور چند قطرے اس کے حلق میں ٹپکانے کی کوشش کی مگر دانت سختی سے بھنچے ہوئے تھے۔پانی حلق کے اندر نہ جا سکا۔ سانا بہت صحت مند اور طاقتور آدمی تھا اور جس طرح اس کی جان نکلی ہے،وہ منظر میں مرتے دم تک فراموش نہ کر سکوں گا۔

اگر میں گاؤں والوں کوبتا دیتا کہ سانا کی موت کا باعث بیرا پجاری ہے تووہ لوگ یقیناً اس منحوس شخص کی ہڈی پسلی ایک کر دیتے لیکن ایسا کرنے سے سانا تو اس دنیا میں دوبارہ نہ آتا۔ گاؤں والے اس کی حسرت ناک موت سے بے حد غمگین اور طیش میں تھے۔بعض لوگ مجھے مجرم سمجھتے تھے۔ بیرا تین روز تک بخار کی حالت میں پڑا پھنکتا رہا۔ اس کی پیشانی اور ایک گھٹنے پر چوٹ آئی تھی۔ گاؤں کے ایک بڈھے لکڑ ہارے نے کچھ جڑی بوٹیاں پیس کر بیرا کے زخموں پرتھوپیں اورچند دن کے اندر اندر نہ صرف اس کے زخم بھر گئے بلکہ بخار بھی ٹوٹ گیا۔

آدم خور درندوں کا شکاری (قسط نمبر 4)


تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں


Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں