آرزو عشق - سیزن 1 (گیارواں حصہ)

Urdu Stories
 

آرزو عشق - سیزن 1 (گیارواں حصہ)

جن اور انسانی لڑکی کی محبت

آنکھوں پر ہاتھ رکھے وہ کمرے میں چت لیٹا تھا۔ قریب ہی زوجیل بیٹھی اس کے منع کرنے کے باوجود بھی وقفے وقفے سے کچھ پڑھ کر پھونک رہی تھیں کہ تنگ آ کر اس نے آنکھوں پر سے ہاتھ ہٹا کر انہیں گھورا۔
" ماما زوجیل !! آپ کے یہ منتر مجھ پر اثر نہیں کریں گے۔"
" تو تمہیں کیا ضرورت تھی اس غازان کے پاس جانے کی دیکھا کیا حال کر دیا۔" زوجیل غصّے سے بولیں۔

" فکر نہ کریں ایسی جگہ لے جاکر ماروں گا کہ پچھتائے گا اس دن کو۔" نفرت سے کہتا وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔
" کہاں جا رہے ہو؟ تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں۔"
" میں بالکل ٹھیک ہوں بس زرا خاطره بی بی کو اپنا دیدار کروا آؤں۔"
چہرے پر مسکراہٹ سجائے وہ کہتا ہوا ایک دم غائب ہو گیا۔ جبکہ خاطره کے نام پر ماضی کی ایک یاد نے زوجیل کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
" آخر مل ہی گئی یہ جڑی بوٹی۔"
لال چوگا پہنے، جنگل میں زہریلی جڑی بوٹیاں اکھٹی کرتی زوجیل کی سیاہ آنکھیں اس جڑی بوٹی کو دیکھتے ہی چمکنے لگیں۔
وہ آگے بڑھی مگر جڑی بوٹی کی مہک نتھنوں سے ٹکراتے ہی وہ چکراتے ہوئے سر کے ساتھ زمین پر گرنے لگی تھی کہ تبھی کسی نے اسے بازوؤں سے تھام کر گرنے سے بچایا۔
" آپ ٹھیک ہیں؟ "

اپنے عقب سے ابھرنے والی آواز پر زوجیل سنبھل کر پیچھے مڑی تو جیسے ساحر کے سحر میں جکڑ سی گئی۔
" مادام آپ ٹھیک ہیں؟ "
آگ رنگ آنکھوں میں الجھن لیے وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ زوجیل ایک دم ہوش میں آئی۔
" جی !! جی میں ٹھیک ہوں، ویسے آپ کو۔۔۔"
" قائم کس سے باتیں کر رہے ہو؟ "
سامنے کھڑے جن کے عقب سے آتی آواز پر جہاں زوجیل چونکی وہیں قائم ذوالفقار کے ہونٹوں کو خوبصورت مسکراہٹ نے چھو لیا۔
" عشقم !! "
وہ کہتے ہوئے مڑا اور سیاہ لباس میں ملبوس اس دوشیزہ کو دیکھا جو سمندر جیسی نیلی آنکھوں میں خفگی لیے اسے گھور رہی تھی۔ یقیناً اسے قائم ذوالفقار کا اُس لڑکی کو ہاتھ لگانا ناگوار گزرا تھا۔
" کسی سے نہیں جانِ دلم !! " مسکراہٹ چھپاتا وہ اس کی جانب بڑھا۔
" پھر کیا کر رہے تھے؟ "
" بس مدد کر رہا تھا۔ تم کیوں پریشان ہوتی ہو۔"
قائم ذوالفقار کی بات پر ایک ادا سے اس کے بازو میں بازو ڈالتی رباب، زوجیل کو پوری طرح سے نظر انداز کیے آگے بڑھی۔
" میرے علاوه کسی کو ہاتھ مت لگایا کریں۔"
" بابا میں صرف تمہارا ہوں۔"
" ہاں ہاں مجھے پتہ ہے۔ اس لیے کہہ رہی ہوں میرے علاوہ کسی کو ہاتھ مت لگایا کریں۔"
ایک دوسرے سے باتیں کرتے وہ آگے بڑھتے چلے گئے جبکہ زوجیل وہیں کھڑی، اپنے یوں نظر انداز کیے جانے پر زخمی نظروں سے قائم ذوالفقار کو جاتے دیکھ رہی تھی۔
" تو یہ طے ہوا، ماضی ایک بار پھر دھرایا جائے گا قائم ذوالفقار۔"
ماضی سے حال میں آتی وہ زیرِ لب بڑبڑائی تھیں۔

درخت پر بیٹھا، ہاتھ میں زرد مائع کی شیشی لبوں سے لگائے زوالقرنین بالکنی کے دروازے سے اندر کمرے میں جائے نماز بچھائے بیٹھی خاطره کو دیکھ رہا تھا جو عشاء کی نماز پڑھنے میں مصروف تھی۔
" ہم کیا ہو اگر تمہیں غازان کی اصلیت معلوم ہو جائے۔"
سوچتے ہوئے اس نے ایک بار پھر زوجیل کے جادوئی زرد مائع کو لبوں سے لگایا تاکہ غازان کو خاطره کے گرد اس کی موجودگی کا احساس نہ ہو۔
" یہ سب کرنے پر مجھے تم نے ہی مجبور کیا ہے غازان اور۔۔۔"
وہ کہتے کہتے رکا آس پاس جن کی موجودگی کا احساس ہونے لگا تھا کہ تبھی چھلانگ لگا کر درخت سے اُترتا وہ تیزی سے اس جن کی گردن دبوچ چکا تھا۔

سیاہ چوگے میں ملبوس وہ ایک چھلاوے کی طرح جنگل سے گزرتی، اس گھر کے سامنے آ کھڑی ہوئی تھی۔ جہاں رات کے اندھیرے میں بالکنی میں جلتی بلب کی روشنی سیدھا اس کے چہرے پر پڑ رہی تھی۔ وہ سر سے چوگا پیچھے گراتی اس گھر کی جانب بڑھنے لگی تھی کہ دفعتاً کسی نے تیزی سے اسے اپنی جانب کھینچتے ہوئے گرن سے دبوچ لیا۔
" تم !! " بیک وقت دونوں کے منہ سے نکلا۔
" یہاں کیا کر رہی ہو؟ "
قانتا کو گھورتا ہوا وہ پیچھے ہٹا۔
" یہ تو مجھے تم سے پوچھنا چاہیئے یہاں کیا کر رہے ہو؟ " پلٹ کر سوال کیا۔
" میں یہاں جو بھی کروں تمہیں اس سے غرض نہیں ہونا چاہیئے البتہ تمہاری یہاں موجودگی کو محسوس کرتے ہی غازان بس آتا ہوگا۔"
جلانے والی مسکراہٹ سے قانتا کو دیکھتا وہ اسے پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ قانتا گڑبڑائی، اس نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ غازان اس کی موجودگی کو محسوس کر لے گا۔
" غازان کی اصلیت بتانے آئی ہو؟ "
" نہیں دیکھنے آئی تھی اسے۔"
" بہت خوبصورت ہے نا۔" زوالقرنین اس کی حالت سے جیسے لطف اُٹھا رہا تھا۔
" میں یہاں اس کی تعریف کے قصیدے سننے نہیں آئی۔"
غصّے سے گھورتی وہ جیسے آئی تھی ویسے ہی واپس چلی گئی۔ فی الوقت وہ بغیر کسی حفاظتی انتظام کہ خاطره کے پاس نہیں جاسکتی تھی۔
" اب آئے گا مزہ !! "
اسے جاتے دیکھتا زوالقرنین دھیرے سے بڑبڑایا۔

وہ اپنے کمرے میں بیٹھا جنوں پر مبنی کسی کتاب کا مطالعہ کرنے میں مشغول تھا۔ جب تیزی سے دروازہ کھول کر غازان اندر آیا۔
" اب کیا ہوا؟ "
میکال نے ایک اچٹتی نگاہ اس پر ڈال کر واپس کتاب پر نظریں جما لیں۔
" تمہیں میرا ایک کام کرنا ہوگا۔" خجالت سے سر کھجاتا ہوا بولا۔ میکال نے بھنویں اچکا کر اسے دیکھا۔
" ایسا کیا کام ہے؟ "
" تمہیں دادا ذوالفقار کے روپ میں خاطره کے گھر جانا ہے۔" وہ رکا، میکال ہنوز بھنویں اچکائے اسے دیکھ کم گھور زیادہ رہا تھا۔
" میرا رشتہ لے کر۔"
" کیا !! تمہارا دماغ درست ہے؟ " میکال ایک جھٹکے سے کھڑا ہوا۔
" اگر دادا ذوالفقار کو پتا چل گیا نا تو ہمیں زندہ نہیں چھوڑیں گے۔" وہ اب بےیقینی سے غازان کو دیکھ رہا تھا۔
" میں انہیں خود بتا دوں گا پر فی الحال وہ اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ اُن سے ایسی بات کی جائے یا وہ میرا رشتہ لے کر مشہد آنٹی کے پاس جائیں۔"
غازان کی بات پر میکال خاموش سا ہوگیا۔ واقعی اُن کی حالت ایسی نہیں تھی کہ خاطره کے بارے میں انہیں کچھ بتایا بھی جاتا۔
" تمہاری خاموشی کو میں ہاں سمجھوں؟ "
" جو سمجھنا ہے سمجھو لیکن فی الحال دفع ہو جاؤ۔"
اس کی ڈھٹائی پر میکال نے دانت پیستے ہوئے کہا۔ جس پر غازان مسکراتا ہوا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔

برف باری کے باعث مشہد آج بھی گھر پر تھیں اس لیے فجر کے بعد خاطره واپس سونے کیلئے لیٹی تو دوپہر کے بارہ بجے اُٹھی تھی۔ مشہد اکثر اسے ایسی چھوٹ دے دیا کرتی تھیں اور آج بھی یہ ہی ہوا تھا۔
نیند سے بیدار ہونے کے بعد اپنا حلیہ درست کر کے وہ ناشتے کیلئے کمرے سے باہر نکلنے لگی کہ لیونگ روم سے باتوں کی آوازیں سنائی دیں۔ زرا آگے کو ہو کر نیچے جھانکا جہاں غازان صوفے پر کسی بزرگ کے ساتھ بیٹھا نظر آیا۔ ان کے سامنے ہی مشہد بیٹھی کسی بات پر مسکرا رہی تھیں۔
" کیا یہ رشتے کی بات کرنے آئے ہیں مگر غازان نے تو مجھے نہیں بتایا۔ اُف !! میرا موبائل بھی تو ٹوٹ گیا۔"
وہ سر پر ہاتھ مارتی واپس کمرے کے اندر چلی گئی۔ اس وقت نیچے جانا مناسب جو نہیں لگ رہا تھا۔
" اللّٰه جی بس ماما مان جائیں۔"
خوشی سے بے قابو ہوتی وہ واپس بیڈ پر ڈھیر ہوگئی۔ اس بات سے بے خبر کہ آنے والا وقت اس کیلئے کیا طوفان لانے والا ہے۔

" دادا ذوالفقار کو پتا چلا تو سیدھا جہنم رسید کر دینگے۔" مشہد سے ملاقات کے بعد وہ دونوں سڑک پر پیدل ہی چل رہے تھے جب دادا ذوالفقار کے بھیس میں موجود میکال نے اپنی سفید لمبی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
دونوں ہاتھ کمر پر باندھے، سر جھکائے چلتا غازان اس کی بات پر مسکرایا۔ زرا کا زرا چہرہ موڑ کر میکال کی طرف دیکھا جو اسے گھور رہا تھا۔
" ویسے تمہیں کیا لگتا ہے۔ مشہد آنٹی کیا جواب دینگی؟ " غازان کے سوال پر اب کے پر سوچ انداز میں اس نے داڑھی پر ہاتھ پھیرا۔
" اگر تمہاری اصلیت نہیں پتا چلی تو "ہاں" ورنہ " نہ"۔۔۔"
" جب منہ کھولنا بکواس ہی کرنا۔"
غازان نے اس کے سر پر ہاتھ مارا۔ جس پر قہقہہ لگاتا میکال فوراً وہاں سے غائب ہو گیا۔
" یہ نہیں سدھرے گا۔"
غازان نے سر جھٹکا اور خود بھی چوٹکی بجاتا وہاں سے غائب ہو گیا۔ جبکہ وہیں ایک درخت پر سیاہ چوگے میں ملبوس قانتا ایک چھلانگ لگا کر درخت سے اُترتی سیدھا " گردیزی ہاؤس" کے دروازے پر جا کھڑی ہوئی تھی۔

غازان اور میکال عرف دادا ذوالفقار کے جاتے ہی خاطره سیڑھیاں اُترتی نیچے آئی۔ مشہد کچن میں کھڑی برتن دھو رہی تھیں۔
" ہوگئی صبح تمہاری۔"
مشہد کے طنز پر مسکراہٹ دباتی وہ فریج کی طرف بڑھی اور پانی کی بوتل نکال کر منہ کو لگانے ہی لگی تھی کہ مشہد نے اس کے ہاتھ سے بوتل چھینی۔
" بہت ٹھنڈ ہے، ٹھنڈا پانی پینے کی ضرورت نہیں۔"
" ماما۔۔۔"
اس نے احتجاج کرنا چاہا مگر مشہد نے بیچ میں ہی اس کی بات کاٹ دی۔
" بحث نہیں، ویسے آج غازان اور اس کے دادا آئے تھے۔"
بوتل واپس فریج میں رکھ کر وہ چولہے کی طرف بڑھیں اور خاطره کے لیے ناشتہ تیار کرنے لگیں۔
" اچھا کیوں؟ " اس نے سرسری انداز اپنایا۔
" کیا واقعی تم نہیں جانتی ہو؟ "
آخر وہ بھی ماں تھیں۔ خاطره گڑبڑا کر سلیب پر رکھی سادے پانی کی بوتل سے گلاس میں پانی نکالنے لگی۔
" نہیں مجھے کیا پتا کیوں آئے تھے۔"
" تمہارے رشتے کیلئے آئے تھے۔ لیکن میں نے فی الحال سوچنے کا وقت لیا ہے۔ اب تم بتاؤ منع کر دوں۔" خاطره کی پشت کو گھورتے ہوئے انہوں نے پوچھا۔
" نہیں !! میرا مطلب ہے جیسا آپ کو بہتر لگے۔" انکار کی بات سن کر وہ تیزی سے بولی پر مشہد کی گھوری پر آخر میں منمنا کر رہ گئی۔
" اگر تم غازان کو پسند کرتی تھیں تو پہلے مجھے بتا سکتی تھیں۔"
" نہیں ماما وہ غازان نے ہی کہا تھا کہ وہ رشتہ بھیجیں گے اور پھر کل آپ نے اچانک رہبان کے رشتے کا بتایا تو۔۔۔" مشہد کی مسلسل گھوری پر وہ خاموش سی ہوگئی کہ دفعتاً دروازے کی بیل بجی۔
"جاؤ دروازہ کھولو۔"
وہ واپس ناشتہ بنانے کی طرف متوجہ ہو گئیں۔ خاطره نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا۔
" جی آپ کون؟ "
اس نے سوالیہ نظروں سے سامنے کھڑی قانتا کو دیکھا جو روپ بدل کر خوبصورت دوشیزہ کا روپ دھار چکی تھی۔
" میں "مہرماہ ذوالفقار" غازان ذوالفقار کی بیوی !! "

" کیسے یاد آگئی اپنے دادا کی؟ "
اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے وہ بغور اس کا چہرہ دیکھنے لگے۔ جو سنجیدگی سے ان کے سامنے بیٹھا تھا۔
" دادا مجھے آپ سے اجازت چاہیئے تھی۔ "
" کس چیز کی اجازت؟ "
دادا ذوالفقار کے سوال پر چند پل وہ ان کے چہرے کو دیکھتا رہا پھر سر جھکا لیا۔ جیسے کسی جرم کا اعتراف کرنے جا رہا ہو۔
" مجھے شادی کرنی ہے۔"
" کس سے؟ " سنجیدگی ہنوز قائم تھی۔ غازان چپ سا ہوگیا۔
" چپ کیوں ہو؟ کہیں تم نے کسی انسان کو تو پسند نہیں کر لیا؟ "
خاموشی۔۔۔
" غازان !! " دادا ذوالفقار کی دھاڑ پر اب کے اس نے چہرہ اُٹھا کر دیکھا اور اثبات میں سر ہلا دیا۔
" جی انسان ہے۔"
" تم۔۔۔"
انہیں سمجھ نہ آیا، آخر اسے کیا کہیں۔ آج تک ان کے خاندان میں کسی نے انسان سے شادی تو دور کسی قسم کا تعلق قائم نہیں کیا تھا۔ وہ تو انسانوں کی دنیا میں رہتے ہوئے بھی انسانوں سے دور رہتے آئے تھے۔
" دادا میں اُس سے محبت کرتا ہوں۔" اس نے جیسے التجا کی کہ انکار کرنے سے پہلے وہ اچھے سے سوچ لیں۔
" اب جب تم نے فیصلہ کر لیا تو میں کیا کہہ سکتا ہوں۔"
" ایسی بات نہیں ہے دادا آپ کی رضامندی کے بغیر میں کچھ نہیں کروں گا۔"
غازان نے ان کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لیے۔ دادا ذوالفقار خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتے رہے پھر گہرا سانس بھرتے ہوئے گویا ہوئے۔
" ٹھیک ہے مجھے کوئی اعتراض نہیں۔"
" تھنکیو دادا !! "
خوشی سے ان کے ہاتھ پر بوسہ دیتا، وہ چند اور باتوں کے بعد اُٹھ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔

لیونگ روم میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔ صوفے پر قانتا عرف مہرماہ ذوالفقار سر جھکائے بیٹھی تھی۔ اس کے سامنے صوفے پر بیٹھی مشہد سنجیدگی سے اسے دیکھ رہی تھیں۔ جبکہ ان کے پیچھے کھڑی خاطره بار بار پلکیں جھپکاتی اپنے آنسوؤں کو بہنے سے روک رہی تھی۔
" وہ مجھے طلاق دے کر آپ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔" اپنی موٹی موٹی آنکھوں میں آنسو لیے قانتا نے چہرہ اُٹھا کر خاطره کی طرف دیکھا۔
" آپ جھوٹ بول رہی ہیں۔ مجھے تو رباب آنٹی نے بھی اس کی شادی کے متعلق کچھ نہیں بتایا تھا۔"
خاطره جو کافی دیر سے اس کا رونا اور دکھ بھری کہانی برداشت کر رہی تھی جس میں غازان کے ظلم وستم کی داستان رقم تھی۔ آخر تنگ آکر بول پڑی۔
" انہوں نے تو آپ کو اور بھی بہت کچھ نہیں بتایا۔" قانتا نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے پہلے خاطره پھر مشہد کی طرف دیکھا۔
" کیا نہیں بتایا؟ " سوال مشہد کی طرف سے آیا۔
" یہی کہ وہ انسان نہیں۔۔۔" وہ رکی، نظریں سیدھا خاطره کی آنکھوں میں گاڑھی۔
" بلکہ جن ہیں۔"
" کیا۔۔۔ یہ کیا بکواس ہے۔"
خاطره کا لہجہ سخت تھا جبکہ مشہد بھنویں اُٹھائے اس یوں دیکھ رہی تھیں جیسے اس کی دماغی حالت پر شبہ ہو۔ بھلا غازان اور جن۔۔۔
" ہنہہ !! اچھا مذاق کر لیتی ہو۔"
" اگر یہ مذاق ہے تو پھر۔۔۔ یہ بھی مذاق ہوگا۔"
اپنی بات کا کوئی اثر نہ ہوتے دیکھ قانتا نے دیوار پر ٹنگی تصویر کی طرف اشارہ کیا۔ خاطره اور مشہد کی نظر فوراً اس جانب اُٹھی جب ایک زور دار آواز کے ساتھ تصور کا شیشہ ٹوٹ کر فرش پر بکھرتا چلا گیا۔
" آااااه !! "
خاطره چیخی جبکہ مشہد ہونٹوں پر ہاتھ رکھے بے یقینی سے کبھی قانتا تو کبھی اس تصویر کو دیکھ رہی تھیں۔
" ابھی بھی یقین نہیں آیا ہوگا نا۔"
مکرو مسکراہٹ چہرے پر سجائے قانتا نے پوچھا پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہاں سے غائب ہو گئی۔
" ماما !! "

خاطره نے تیزی سے آگے بڑھ کر مشہد کا ہاتھ تھاما۔
" یہ کہاں گئی؟ "
کہنے کی دیر تھی جب پورے گھر میں خوفناک چیخیں سنائی دینے لگیں ساتھ ہی قانتا ڈائن کا روپ دھار کر ایک دم ان کے سامنے نمودار ہوئی۔
" غازان صرف میرا ہے۔"
نسوانی چیخوں میں اس کی بھیانک گرجدار آواز بھی شامل ہوئی تھی۔ خاطره اور مشہد کانوں پر ہاتھ رکھے فرش پر بیٹھتی چلی گئی۔ سر درد سے پھٹا جا رہا تھا۔ خوف کے باعث آنکھیں سختی سے میچ رکھی تھیں۔ جب اچانک مشہد بیہوش ہوتی فرش پر جا گری۔
" ماما۔۔۔"
خاطره کانوں سے ہاتھ ہٹاتی مشہد کی طرف بڑھی۔ چیخوں کی آوازیں بھی دھیمی ہوتی اپنے آپ بند ہوگئی۔ اس نے آنسوں سے تر چہرہ اُٹھا کر قانتا کی طرف دیکھا۔
" غازان اور میرے بیچ آنے کی کوشش مت کرنا ورنہ انجام کی ذمہ دار تم خود ہوگی۔"
اپنے انسانی روپ میں آتی قانتا پھنکاری اور فوراً وہاں سے غائب ہوگئی۔
" ماما۔۔۔ ماما اُٹھیں۔"
اس نے مشہد کو جھنجوڑا پھر خود بھی بےبسی سے سر مشہد کے سر سے ٹکائے پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔

" واہ ڈارلنگ !! دل خوش کر دیا مگر میری جان کو اتنا ڈرانے کی کیا ضرورت تھی؟ "
ہاتھ میں سرخ مشروب لیے صوفے پر بیٹھا وہ قانتا سے بولا۔ نظریں دیوار پر جمی تھیں جہاں خاطره مشہد کے سر سے سر ٹکائے رونے میں مشغول تھی۔ اس نے مسکراتے ہوئے چٹکی بجائی جس کے ساتھ دیوار سے دونوں کا نظر آتا عکس یکدم غائب ہوگیا۔
" یہ تو زرا سی جھلک تھی۔ اگر اسے نہ ڈراتی تو وہ غازان کا پیچھا کیسے چھوڑے گی۔"
صوفے پر نیم دراز قانتا ایک ادا سے بولی۔ لمبے بال صوفے سے لٹکتے فرش پر بچھے تھے۔
" آہ !! اب تو وہ غازان کے سائے سے بھی دور بھاگے گی۔"
آنکھیں بند کیے، مسکراتا ہوا وہ جیسے متوقع نتائج کے بارے میں سوچ رہا تھا۔
" ہوا میں مت اُڑو زی۔ غازان اتنی آسانی سے خاطره کو اپنی زندگی سے نہیں جانے دے گا۔" قانتا صوفے سے اُٹھتے ہوئے بولی۔
" ہاں !! پر مشہد ہیں نا میری مشکل آسان کرنے کیلئے۔"
کہتے ہوئے اس کی آگ رنگ آنکھوں میں چمک در آئی۔ جس کے ساتھ ماضی کی باتوں نے بھی اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

اٹھائیس سال قبل۔۔۔
اس بڑے سے محل میں جہاں ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا وہیں سانپ کے پھنکارنے کی آوازیں چاروں طرف پھیلی ہوئی تھیں۔ ایسے میں سولہ فٹ لمبا وہ سیاہ سانپ تیزی سے رینگتا ہوا راہداری سے گزر کر اس بڑے سے کمرے میں آ رکا۔ جہاں شاہی کرسی پر بیٹھا شخص اپنے سامنے پڑی لاش کو دیکھ رہا تھا۔
" بابا تھامس !! "
انسانی روپ میں آتا وہ اپنے باپ سے گویا ہوا جو نڈھال نظر آ رہے تھے۔
" زوالی میرے بیٹے !! تمہارا بھائی اب نہیں رہا۔" کمرے میں ایک گرجدار آواز گونجی۔
" کس نے کیا ہے یہ؟ "
آنکھوں کو سختی سے میچتے ہوئے اس نے خود کو قابو میں رکھنا چاہا۔ ورنہ سامنے سیاہ لباس میں پڑی بھائی کی لاش کو دیکھ کر اس کا دل کر رہا تھا پوری دنیا کو آگ لگا دے۔
" قائم ذوالفقار !! "
اس نام کو ادا کرتے ہوئے تھامس کے لہجے میں نفرت در آئی تھی۔ جبکہ سامنے کھڑے زوالی کی آگ رنگ آنکھوں میں شعلے بھڑک اُٹھے تھے۔
" آپ فکر نہیں کریں بابا تھامس۔ میرے بھائی کی موت کا حساب اُس قائم ذوالفقار کو دینا ہی ہوگا۔"
نفرت بھرے لہجے میں کہتا ہوا وہ واپس سانپ کے روپ میں آتا کمرے سے باہر نکل گیا۔ جبکہ تھامس کی سبز اداس آنکھیں ایک بار پھر بیٹے کی لاش کو دیکھ رہی تھیں۔ جس کا جسم ریت کی مانند اب غائب ہو رہا تھا۔

آرزؤ عشق سیزن 1 (بارواں حصہ)


تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں



Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں