آرزو عشق - سیزن 1 (بارواں حصہ)

Urdu Stories
 

آرزو عشق - سیزن 1 (بارواں حصہ)

جن اور انسانی لڑکی کی محبت

آپ ٹھیک ہیں؟ "
اپنے حواسوں پہ بمشکل قابو پانے کے بعد وہ اُٹھ کر کچن سے پانی کا گلاس لے آئی تھی تاکہ پانی کی چھینٹے مار کر مشہد کو ہوش میں لاسکے۔ چند پل کی کوشش کے بعد مشہد کو ہوش میں آتا دیکھ، اس نے پیچھے ہٹتے ہوئے پوچھا۔
" یہ لیں پانی پی لیں۔"
سہارا دیتے ہوئے اس نے بمشکل اُٹھایا اور گلاس اُن کے لبوں سے لگا دیا۔ چند گھونٹ پینے کے بعد مشہد نے ہاتھ کے اشارے سے گلاس پیچھے کیا۔
" آپ ٹھیک ہیں؟ "
" ہاں ٹھیک ہوں میں۔"

قریب رکھے صوفے کا سہارا لیتی وہ اُٹھ کھڑی ہوئیں۔ خاطره نے آگے بڑھ کر انہیں کمر سے تھاما۔
" مجھے کمرے میں جانا ہے۔"
" چلیں۔"
مشہد کو سہارا دیتی وہ کمرے میں چلی آئی تھی۔ انہیں بیڈ پر لیٹا کر ابھی واپسی کیلئے مڑی ہی تھی جب مشہد کی آواز کانوں سے ٹکرائی۔
" میں بختاور کو تمہارے رشتے کیلئے ہاں کر رہی ہوں۔ اب جتنی جلدی ہو سکے تمہارا نکاح رہبان کے ساتھ پڑھوانا ہے۔"
وہ سختی سے بولیں۔ جبکہ خاطره بےتاثر چہرے سے انہیں دیکھ رہی تھی۔ اسے اب تک یقین نہیں آ رہا تھا۔ سب کچھ ایک بھیانک خواب کی طرح لگ رہا تھا کہ ابھی آنکھ کھلے گی اور سب پہلے جیسا ہو جائے گا۔
" جو آپ کو بہتر لگے۔"
اسی بےتاثر چہرے سے کہتی، وہ کمرے سے باہر نکل گئی۔ جبکہ مشہد آیت الکرسی پڑھ کر خود پر دم کرتی، آنکھیں بند کرکے اب سونے کی کوشش کر رہی تھیں۔

تیزی سے جنگل میں رینگتا ہوا وہ آگے بڑھ رہا تھا جب اسے سامنے کھڑا قائم ذوالفقار نظر آیا۔ تین سال پہلے دیکھا اپنے بھائی کا مردہ چہرہ ایک بار پھر اس کی نظروں میں گھوم گیا تھا۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ تین سال بعد کوہ قاف سے لوٹتے ہی اس کا سامنا قائم ذوالفقار سے ہوجائے گا۔ جو اپنے سامنے کھڑی لال چوگے میں ملبوس زوجیل سے باتیں کر رہا تھا۔ وہ وہیں رک کر انہیں دیکھنے لگا کہ تبھی رباب کے پکارنے پر قائم ذوالفقار زوجیل کو وہیں کھڑا چھوڑ کر رباب کے ساتھ چل دیا۔ جبکہ زوجیل ساکت کھڑی زخمی نظروں سے قائم ذوالفقار کو خود سے دور جاتا دیکھ رہی تھی۔ یہ سب اس کی نظروں سے اوجھل نہیں رہا تھا وہ تیزی سے زوجیل کی جانب بڑھا۔
" تم چاہو تو وہ تمہارا ہو سکتا ہے۔"

اپنے عقب سے آتی آواز پر زوجیل نے پیچھے مڑ کر اس جن کو دیکھا جو سانپ کے روپ سے نکل کر انسان بن گیا تھا۔
" کیا مطلب؟ " اس نے نظروں میں الجھن لیے پوچھا۔
" مطلب یہ کہ میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں قائم ذوالفقار کو قابو میں کرنے کیلئے بس تمہیں بھی میرا ساتھ دینا ہوگا۔" اپنی آگ رنگ آنکھوں میں چمک لیے اس نے زوجیل کو قابو کرنا چاہا۔
" تم ہو کون اور یہ مہربانی کس لیے؟ " آخر وہ بھی زوجیل تھی کچی کھلاڑی تھوڑی تھی۔
" میں زوالی ہوں بادشاہ تھامس کا بیٹا۔ اس قائم ذوالفقار نے تین سال پہلے میرے بھائی کو مار ڈالا تھا۔ اس لیے مجھے اب اس سے بدلہ لینا ہے۔ یوں تو میں اکیلے بھی یہ کام کر سکتا ہوں مگر جب دو شیطانی طاقتیں مل جائیں تو انہیں کوئی ہرا نہیں سکتا۔"
کہتے ہوئے اس نے زوجیل کی طرف ہاتھ بڑھایا جسے تھامنے میں زوجیل نے لمحے کی تاخیر نہیں کی تھی۔
" تو تم نے تب اپنا بدلہ کیوں نہیں لیا؟ "
" کیونکہ وار کرنے کا مزہ بھی تب ہے جب دشمن آپ سے غافل ہو۔ تین سال بعد قائم ذوالفقار کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوگا کہ جس ایڈم تھامس کو اس نے موت کی نیند سلایا تھا اُس کا بھائی قائم ذوالفقار سے بدلہ لینے بھی آسکتا ہے۔" کہتے ہوئے آخر میں اس کا لہجہ سخت ہوگیا۔
" یعنی پیٹھ پیچھے وار۔" زوجیل کے چہرے پر استہزائیہ مسکراہٹ ابھری۔
" لیکن تم کرو گے کیا؟ "

" قائم ذوالفقار کو اس کے خاندان سے دور جیسے اس نے میرے بھائی ایڈم کو ہم سے دور کر دیا۔ وہ مرے گا نہیں بلکہ اپنوں کی جدائی میں تڑپتا رہے گا۔" زوالی نفرت بھرے لہجے میں بولا۔
" اس سے میرا کیا فائدہ ہوگا۔" اس کے ماتھے پر بل نمایاں تھے۔
" تم !! تمہارا ہی تو فائدہ ہے۔"
" کیا مطلب؟ "
زوجیل کے چہرے پر اُلجھن ابھری جبکہ زوالی کا قہقہہ پورے جنگل میں گونج اُٹھا تھا۔

وہ سن ہوتے دماغ کے ساتھ اپنے کمرے میں چلی آئی تھی۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا آخر کرے تو کیا کرے۔ ایک لمحہ بس ایک لمحہ لگا تھا سب کچھ برباد ہونے میں۔ ابھی تو اس نے غازان کے ساتھ پر اپنے حسین خوابوں کو سجایا بھی نہیں تھا کہ پہلے ہی ان پر جالے پڑ گئے۔
" تو تم ایک دھوکہ ہو، ایک فریب۔۔۔"
دروازے کو بند کرتی، اس کے ساتھ پشت لگائے نیچے بیٹھتی چلی گئی۔ آنسو نئے سرے سے رخسار پر بہنے لگے تھے کہ دفعتاً بالکنی کے دروازے پر دستک ہوئی اور اگلے ہی لمحے وہ دروازہ کھول کر اندر آ گیا تھا۔
" خاطرہ !! "
غازان نے اسے یوں بیٹھے دیکھ پکارا۔ کیا کچھ نہیں تھا اس پکار میں، خاطره نے ایک جھٹکے سے سر اُٹھا کر اسے دیکھا۔
" کیوں آئے ہو یہاں؟ " دروازے کا سہارا لیتی وہ اُٹھ کھڑی ہوئی۔
" کیا مطلب؟ اور یہ تم رو کیوں رہی ہو؟ "
وہ تڑپ کر کہتا خاطره کی جانب بڑھنے لگا تھا مگر اس نے ہاتھ کے اشارے سے غازان کو وہیں رکنے پر مجبور کر دیا۔
" پاس مت آنا میرے۔ "
" یہ کیا کہہ رہی ہو۔ آخر ہوا کیا ہے؟ " وہ ایک بار پھر آگے بڑھنے لگا۔
" میں نے کہا نا پاس مت آنا۔ دور رہو مجھ سے۔"
" خاطره ہوش میں ہو؟ "
" ہوش تو اب آیا ہے۔ اب معلوم ہوا ہے کہ تم کون ہو۔"
اور اس ایک جملے نے غازان کو سارا معاملہ سمجھا دیا۔ تنے عصاب ڈھیلے پڑے، وہ نڈھال سا ہو کر خاطره کو دیکھے گیا۔
" تم مجھ سے ڈر رہی ہو؟ "
" چلے جاؤ یہاں سے بلکہ ہماری زندگی سے دور چلے جاؤ۔"
" خاطره اگر میں " ایسا " ہوں تو اس میں میرا کیا قصور؟ " غازان نے بےبسی سے پوچھا اور ایک بار پھر اپنے قدم اس جانب بڑھانے چاہے کہ وہ چیخ اُٹھی۔
" نہیں !! "
چہرے پر خوف لیے اس نے دروازے کو مضبوطی سے پکڑا۔ آج تک وہ جن جنات کے بارے میں قصّے کہانیاں سنتی آئی تھی۔ قرآن میں ان کے بارے میں پڑھا تھا۔ پر تب اسے اس مخلوق سے خوف نہیں آتا تھا۔ وہ یہ ہی سوچتی تھی کہ جن جنات بھی اللّٰه کی مخلوق ہیں ان سے کیا ڈرنا۔۔۔ مگر آج وہ ڈر رہی تھی۔ اپنے سامنے کھڑے اس جن کو دیکھ کر۔۔۔ وہ ڈر رہی تھی، جس سے اسے محبت تھی۔ اس نے دھیمی آواز میں قرآنی آیات کو پڑھنا شروع کر دیا۔
" خاطره پلیز !! ایک بار میری بات سن لو۔"
خاطره کو قرآنی آیات کا ورد کرتے دیکھ وہ بےبسی سے بولا کہ اس کے اپنے جسم میں تپش سی محسوس ہو رہی تھی اپنی ہی آگ اسے جھلسانے لگی تھی۔ وہ دھیرے دھیرے اس سے دور ہونے لگا۔
" رکو میری بات سن لو خاطره !! " اس نے آگے بڑھنا چاہا مگر ہر اُٹھتا قدم اسے مزید پیچھے دھکیل رہا تھا۔
" خاطره !! "
وہ چلایا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہاں سے غائب ہوگیا۔ کمرے میں سناٹا چھا چکا تھا۔ خاطره جو مسلسل ورد کر رہی تھی اب رک کر آنکھوں میں خوف لیے چاروں طرف دیکھنے لگی۔
" کیا وہ چلا گیا۔۔۔؟ "
اس نے خوف سے سوچا۔ بھلا کب اس نے سوچا تھا کہ ایک دن ایسا بھی زندگی میں آئے گا۔
" اللّٰه !! "
بےاختیار اس نے چہرہ اُٹھا کر اوپر کی طرف دیکھا اور پھر پھوٹ پھوٹ کر روتی وہ فرش پر بیٹھتی چلی گئی۔

کسی فورس کے تحت وہ ذوالفقار پیلس کے لان میں آ گرا تھا۔ اوپر ٹیرس پر کھڑے میکال نے حیرت سے اسے دیکھا اور اگلے ہی پل وہ غازان کے قریب بیٹھا تھا۔
" غازی !! "
اس نے ہاتھ بڑھا کر غازان کو اُٹھانا چاہا مگر اس کے تپتے وجود نے اس کی کوشش کو ناکام بنا دیا۔ ایک کرنٹ سا لگا تھا میکال تیزی سے پیچھے ہوا۔ حیرت سے ایک نظر اپنے ہاتھ پر ڈالی دوسری غازان پر اور پھر لمحہ نہیں لگا تھا اسے معاملے کی تہہ تک جانے میں۔ کسی انسان نے اسے دور کرنے کیلئے قرآنی آیات کا ورد کیا تھا کہ تبھی اپنی ہی آگ میں وہ جھلس رہا تھا۔
" غازی کیسے ہوا یہ؟ "
اس نے پریشانی سے غازان کو دیکھتے ہوئے پوچھا جو بمشکل اُٹھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ چہرہ جلن کے باعث سرخ انگارہ ہو رہا تھا۔ سمندر جیسی نیلی آنکھوں میں اس وقت شعلے بھڑک رہے تھے۔ کچھ بھی کہے بغیر وہ ایک دم وہاں سے غائب ہوگیا۔
" غازان !! "
میکال نے بےبسی سے اس جگہ کو دیکھا جہاں ایک سیکنڈ پہلے وہ کھڑا تھا۔
۔*********۔
آئینے کے سامنے کھڑی وہ سیاہ لباس میں ملبوس اپنی سیاہ زلفوں کو انگلی پہ لپیٹتے ہوئے اُس کے عکس کو آئینے میں دیکھ رہی تھی جو اس کے گرد حصار باندھے محبت کا اظہار کر رہا تھا کہ تبھی اپنے کوٹ کی جیب سے سیاہ گلاب نکال کر اُس نے اس صنف نازک کی سیاہ زلفوں کی زینت بنایا جن کا وہ تین سال سے دیوانہ تھا۔
" دیوونتم !! "
کان میں سرگوشی کرتا وہ اس کی گردن پر جھکا۔ جبکہ آئینے میں اپنے اور قائم ذوالفقار کے عکس کو دیکھتے ہوئے رباب مسکرائی کہ اچانک اس کی نظر بیڈ پر لیٹے دو سالہ غازان پر پڑی۔ جو اُٹھ کر بیٹھتا اپنی نیلی گول گول آنکھوں سے ماں کو تلاش رہا تھا۔ رباب نے فوراً قائم ذوالفقار کو خود سے دور دھکیلا۔
" اُٹھ گیا میرا شہزادہ !! "
رباب کہتی ہوئی غازان کی طرف بڑھی اور اسے گود میں اُٹھا لیا۔ قائم ذوالفقار ماں بیٹے کو گھور کر رہ گیا۔
" شرارتی بچے !! "
اس نے آگے بڑھ کر غازان کو رباب سے لیا۔
" بابا میں شرارتی نہیں۔"
غازان فوراً بولا۔ بھلا وہ انسان کا بچہ تھوڑی تھا جن کا بچہ تھا خاموش کیسے رہتا۔
" اچھا بھئی تمہارا باپ شرارتی ہے۔"
" اس میں کچھ غلط بھی نہیں۔" قائم ذوالفقار کی بات پر رباب نے مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا۔
" بیگم غلط وقت پر چھیڑ رہی ہو۔" اس کی پیار بھری دھمکی پر وہ فوراً سیدھی ہوئی تھی۔
" اچھا اب اسے مجھے دیں اور جائیں جا کر بابا کو ایران جانے کا بتا دیں۔"
" رباب !! تم اداس تو نہیں ہونا؟ "
قائم ذوالفقار نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے اب کے سنجیدگی سے اس کے چہرے کو دیکھا۔ جو اس کی محبت تھی۔ ان تین سالوں میں وہ اسے کتنی عزیز ہوگئی تھی۔
" اداس کیوں ہوں گی؟ " رباب نے پلٹ کر سوال کیا۔
" میری وجہ سے اپنے ماں باپ کو، اس جگہ کو چھوڑ کر تم ہمارے ساتھ ہمیشہ کیلئے ایران جا رہی ہو۔"
" تو کیا ہوا آپ کیلئے اتنا تو کر سکتی ہوں۔ ویسے بھی میں امی اور بابا سے ملنے آتی رہا کروں گی۔" وہ مسکرا کر بولی۔
اس کا سارا خاندان پاکستان میں ہی تھا جبکہ ذوالفقار علی کا تعلق ایران سے تھا۔ مگر انسانوں کی طرح زندگی بسر کرنے اور ان کی طرح اپنے کاروبار کو پھیلانے کی خواہش انہیں ایران سے پاکستان لے آئی تھی اور اب چھ سال بعد پھر وہ ذوالفقار علی کی خواہش پر واپس ایران اپنے ملک جانے کی تیاری کر رہے تھے مگر اب اس سفر میں قائم ذوالفقار اکیلا نہیں تھا بلکہ اس کی محبوب بیوی اور پیارا سا بیٹا بھی موجود تھا۔
" چلیں اب جلدی جائیں۔"
رباب نے واپس غازان کو لے کر اسے چلتا کرنا چاہا تاکہ ذوالفقار علی کو واپسی کی خبر دی جائے۔ اس بات سے بےخبر کہ آنے والا وقت ان پر کیا عذاب لانے والا ہے۔

اپنے کمرے میں جائے نماز بچھائے، وہ سجدے میں گرا ہچکیوں سے رو رہا تھا۔ اب کیا بچا تھا اس کے پاس، سب کچھ تو ختم ہو چکا تھا پھر وہ زندہ کیوں تھا۔۔۔ اسے بھی مر جانا چاہیئے اور وہ مر جانا چاہتا تھا۔
" غازی !! "
کمرے کے دروازے پر کھڑے میکال نے بےبسی سے اس کے جھٹکے کھاتے وجود کو دیکھا۔ رونے کی وجہ اسے سمجھ آ چکی تھی۔ دھیرے دھیرے قدم اُٹھاتا وہ غازان کی طرف بڑھا۔
" بس ایک وہ ہی تو نہیں ہے اس دنیا میں تمہاری اپنی۔ ہم بھی تو ہیں ہمارا ہی سوچ لو۔"
شانوں سے اسے تھام کر سجدے سے اُٹھایا مگر۔۔۔ سیاہ آنکھیں، سرخ چہرہ دیکھ کر اس نے لب بھینچ لیے۔
" کیا ہم مسلمان نہیں میکال؟ "
" یہ کیا کہہ رہے ہو؟ "
" پھر کیوں ہمارے ساتھ ایسا ہوتا ہے؟ میں اس کے سامنے تھا، اُس کے پاس جانا چاہتا تھا مگر مجھے دور دھکیل دیا گیا۔ مجھے اس کے پاس جانے نہیں دیا گیا۔ کیوں آخر کیوں؟ " سیاہ سیال کو اس نے صاف نہیں کیا مزید آنکھوں سے بہنے دیا۔
" ہم "جن" ہیں غازی !! مسلمان ہیں پر جن ہیں اور اس حقیقت کو بدل نہیں سکتے۔ جب کوئی انسان ہم سے خوف کھائے گا تو اللّٰه کا کلام ایسے ہی ہمیں دور دھکیل دے گا۔ بالکل ویسے ہی جیسے آگ کسی کو نقصان نہ پہنچائے مگر ہوا، پانی، مٹی اسے بجھا ہی دیتے ہیں۔
تمہیں یاد نہیں بڑی ماں کہتی تھیں انسان اور جنات کے درمیان اللّٰه نے ایک حد قائم کی ہے اسے پار کرو گے تو نقصان اُٹھاؤ گے۔" میکال نے اسے سمجھانا چاہا۔
" میں اس سے محبت کرتا ہوں۔" وہ جیسے سمجھنے کیلئے تیار ہی نہیں تھا۔
" وہ انسان ہے غازی۔ "
" دفع ہوجاؤ یہاں سے۔"
اسے اچانک ہی غصّہ آ گیا۔ بھلا زخموں پر مرہم نہ رکھو مگر نمک بھی نہ چھڑکو۔
" غازان پلیز کوئی اُلٹی سیدھی حرکت مت کرنا اس سے تمہیں ہی تکلیف ہوگی۔"
میکال سمجھ گیا سمجھانے کا کوئی فائدہ نہیں وہ بار بار خاطره کے پاس جائے گا ایک نیا زخم اپنی روح کو لگانے۔ اس لیے سمجھانے کے بجائے منت سماجت پر اُتر آیا۔
" میں اپنا خیال رکھ سکتا ہوں اکیلا چھوڑ دو مجھے۔"
وہ غصّے سے دھاڑا۔ میکال خاموشی سے اسے دیکھتا وہاں سے غائب ہو گیا اور غازان۔۔۔ ایک بار پھر سجدے میں جا گرا۔

رات کے اس پہر وہ اپنے ہوٹل کے مینجر کو ساری ہدایت دینے کے بعد اب کار میں بیٹھا گھر کی طرف روانہ ہو رہا تھا۔ جہاں اس کے گھر والے ایک نئے سفر کے آغاز کیلئے اس کا انتظار کر رہے تھے۔ وہ سرشار سا ابھی آدھے راستے تک پہنچا ہی تھا کہ بائیں جانب جنگل سے آتی انسانی آواز نے اس کی توجہ سڑک سے اس جانب مبذول کروائی۔
" اتنی رات کو کون ہوسکتا ہے۔"
وہ کار سے اُتر کر اس جانب بڑھا جہاں سے انسانی چیخوں کی آواز تیز سے تیز ہوتی جا رہی تھی۔
" کون ہے؟ کون چیخ رہا ہے۔"
سیاہ جنگل میں چاروں طرف دھواں پھیلا ہوا تھا۔ جس میں انسان یا انسان ذات تو کیا جن بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ آگے بڑھتے ہوئے اسے حیرت ہوئی آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ کسی کی موجودگی کو وہ فوراً بھانپ جاتا تھا مگر آج سوائے چیخوں کے اسے کچھ محسوس کیوں نہیں ہو رہا تھا۔ وہ جھنجھلا سا گیا ساتھ ہی پورے جنگل میں اس کی دھاڑ گونج اُٹھی۔
" میں پوچھ رہا ہوں کون ہے یہاں؟ "
" اتنی جلدی بھی کیا ہے جاننے کی قائم ذوالفقار؟ " سرسراہتی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔
" کون ہے سامنے آؤ۔"
وہ کہتا ہوا چوکنے انداز میں آگے بڑھنے لگا کہ یکدم سامنے نمدار ہوتی زوجیل نے ہاتھ میں پکڑا سیاہ مائع اس کی طرف اچھالا جس کے ساتھ ہی ایک دلخراش چیخ فضاء میں گونج اُٹھی کہ بھیڑوں کی آوازیں اس کی آواز میں شامل ہو کر آنے والے وقت پر ماتم کرنے لگیں۔

" مجھے یقین نہیں آ رہا اتنی جلدی اُن کی جانب سے جواب آگیا۔"
صبح سویرے مشہد کی طرف سے ملنے والی "ہاں" پر خوشی سے اس کی بھوری آنکھیں چمک رہی تھیں۔ اس کے سامنے صوفے پر بیٹھی صباح نے بڑی غور سے اس چمک دمک کو دیکھا۔
" اتنا خوش نہیں ہو "ہاں" ہوئی ہے تو "نہ" بھی ہو سکتی ہے بھلا وقت بدلتے کب دیر لگتی ہے۔" کہتے ہوئے اس نے ایک ادا سے اپنے بالوں کو پیچھے جھٹکا دیا۔
تھوڑی دیر پہلے ہی بختاور مشہد کے گھر سے واپس آئی تھیں اور اب مشہد کی طرف سے ملنے والے جواب پر وہ سب جشن منا رہے تھے مگر صباح کی اس بات نے اسے آگ ہی لگا دی۔
" بکواس کر کے کونسی دلی تسکین ملتی ہے؟ "
" تم نہیں سمجھو گے۔" طنزیہ مسکراہٹ اس نے رہبان کی طرف اچھالی۔
" تم دونوں ہی اپنی بکواس اپنے پاس رکھو۔ وہ اس جمعے کو نکاح کرنا چاہتی ہے۔ پر مجھے لگتا ہے ہمیں کل ہی یہ کام کر لینا چاہیئے۔" کب سے خاموش بیٹھی بختاور نے اپنا حصّہ ڈالا۔
" نہیں مجھے نہیں لگتا اتنی جلدی کرنا ٹھیک ہوگا۔ وہ کہیں بلاوجہ شک میں نہ پڑ جائیں۔" صباح نے انکار کیا ساتھ ہی ہاتھ میں پکڑا گلاس لبوں سے لگا لیا۔
" ہاں ٹھیک کہہ رہی ہو۔ ویسے بھی جہاں اتنا انتظار کیا ہے وہاں تھوڑا اور سہی۔"
کہتے ہوئے رہبان کی آنکھوں کی چمک کچھ اور بڑھی تھی۔

بختاور کے جانے کے بعد وہ گم صم سی اپنے خوابوں کی کرچیاں لیے کمرے میں چلی آئی تھی۔ ایک جھٹکے میں سب بکھر کر رہے گیا تھا کل تک وہ غازان کے ساتھ پر خواب سجا رہی تھی اور آج رہبان سے جڑنے والے رشتے کو سوچنے پر مجبور تھی۔ وہ چاہ کر بھی مشہد کو انکار نہیں کر پائی تھی۔ وہ تب بھی انکار نہیں کر پائی تھی جب بختاور نے اس کے ہاتھوں پر نیک کے نام پر چند نیلے نوٹ رکھے تھے۔
" تو ایک نیا سفر کا آغاز ایک ان چاہے شخص کے ساتھ ہوگا۔"
آنسو بہاتی آنکھوں سے اس نے بند مٹھی کو دیکھا جس میں نیلے نوٹ اب بھی موجود تھے۔
" یہ سب کیا ہوگیا میرے ساتھ۔۔۔ کس سراب کے پیچھے بھاگ رہی تھی میں۔" سوچتے ہوئے اس نے نوٹوں پر گرفت مزید سخت کی۔
" پر میں کیا کروں؟ کیوں یہ دل اب بھی تمہیں پکار رہا ہے۔ اپنی آنکھوں سے تمہاری اصلیت کو دیکھا ہے مگر یہ اب بھی تمہاری محبت کا راگ الاپ رہا ہے۔"
اس کا دل چاہا وہ واپس ایک دن پہلے چلی جائے جب وہ غازان کی اصلیت سے انجان اس کے ساتھ کے خواب سجا رہی تھی۔
" مجھ سے شادی کرو گی؟ "
" آپ پھر مذاق۔۔۔"
" میں سیرئیس ہوں خاطره !! "
" بولو مجھ سے نکاح کرو گی؟ "
اس نے اپنا سر جھٹکا۔ ایسے لفظوں کی بازگشت ہر بار سنائی دے رہی تھی۔ وہ غازان کو سوچنا نہیں چاہ رہی تھی۔ مگر بار بار اسے ہی سوچے جا رہی تھی۔
" نہیں کرنی مجھے تم سے شادی۔۔۔ نہیں ہے محبت مجھے تم سے۔۔۔ سن لیا تم نے۔"
بےبسی سے چیختی وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

" رباب کیا قائم نہیں آیا؟ "
کمرے میں ٹہلتے ذوالفقار علی نے انداز میں فکر مندی لیے رباب سے پوچھا۔ جو ان کے کمرے میں داخل ہو رہی تھی۔
" نہیں بابا ابھی نہیں آئے۔ حالانکہ کافی دیر پہلے ہی مجھے فون کیا تھا کہ ہوٹل سے نکل گئے ہیں۔" وہ خود بھی پریشان دکھ رہی تھی۔
" اچھا فکر نہیں کرو تم وہ آجائے گا۔ جاؤ جا کر غازان کو دیکھو۔"
" جی۔"
رباب اثبات میں سر ہلاتی واپس کمرے سے باہر نکل گئی۔ ذوالفقار علی چہرے پر پُر سوچ تاثرات لیے کھڑکی کے سامنے جا کھڑے ہوئے۔ جہاں رات کے سائے پھیلے ہوئے تھے۔ ایسے ہی سائے ان کے اندر پھیل رہے تھے۔ بہت سے وسوسوں اور اندیشوں نے انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ جس سے چاہ کر بھی وہ چھٹکارا حاصل نہیں کر پا رہے تھے۔
" اللّٰه تمہیں اپنی امان میں رکھے۔"

ہر سوچ کو جھٹکتے ہوئے انہوں نے دعا دی۔ اس بات سے بےخبر کہ یہ وقت قبولیت کا نہیں تھا۔۔۔ ان کی دعا کو قبول ہونا ہی نہیں تھا۔


آرزؤ عشق سیزن 1 (تیرواں حصہ)


تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں



Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں