آرزو عشق - سیزن 1 (تیرواں حصہ)

Urdu Stories
 

آرزو عشق - سیزن 1 (تیرواں حصہ)

جن اور انسانی لڑکی کی محبت

" میں نے کہا نا زوالقرنین یہاں نہیں ہے۔ پھر تم کیوں اس کے پیچھے پڑے ہو؟ "
میکال نے غازان کو گھور کر دیکھا جو اب سنبھل گیا تھا۔ دو دن کمرے میں بند رہنے کے بعد وہ آج اپنے کمرے سے باہر آیا تھا۔ مگر آتے ہی زوالقرنین کا ذکر لے کر بیٹھ گیا تھا۔
" تم شاید بھول رہے ہو وہ کیا کہہ کر یہاں سے گیا تھا۔ وہ مجھ سے بدلہ لے گا اور یقیناً اُس نے ہی میری خاطره کو مجھ سے بدگمان کیا ہے ناجانے کتنا ڈرا دیا کہ وہ مجھ سے بھی خوف کھا رہی ہے۔" کہتے ہوئے آخر میں اس نے سختی سے جبڑے بھینچ لیے۔
" وہ پاکستان میں نہیں ہے۔ اس نے مجھے بتایا تھا کہ وہ لندن جا رہا ہے۔" میکال جھنجھلا گیا۔ ناجانے اس ایک بات کو وہ کتنی دفعہ دہرا چکا تھا۔
" جھوٹ بول رہا تھا۔ میں اسے چھوڑوں گا نہیں، جہاں بھی چھپا بیٹھا ہے ڈھونڈ نکالوں گا۔"
" جو کرنا ہے کرو میں تنگ آ چکا ہوں تم دونوں کے جھگڑو سے۔"
میکال منہ بسور کر کہتا اُٹھ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔ وہ اس بار بار کی الزام تراشی اور لڑائی جھگڑے سے واقعی تنگ آ چکا تھا ایسا نہیں تھا صرف غازان ہی اُسے اپنے ہر نقصان کا ذمہ دار ٹھہراتا تھا بلکہ زوالقرنین بھی کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا۔

صوفے پر نیم دراز وہ بغور زوجیل کے چہرے کو دیکھ رہا تھا جیسے کچھ کھوجنا چاہ رہا ہو جبکہ اس کی مسلسل خود پر جمی نظروں سے الجھتی زوجیل بار بار سر جھٹک کر اپنے کام میں یوں مصروف تھیں جیسے اس کی موجودگی کا احساس ہی نہ ہو۔
" ماما زوجیل !! پریشان لگ رہی ہیں آپ۔"
" میں کیوں پریشان ہونے لگی۔"
انہوں نے الجھن بھری نظریں اس کی جانب اُٹھائیں کہ اچانک زور دار دھماکے کی آواز کمرے میں گونج اٹھی۔ کیمیکلز کے غلط ملاپ نے زوجیل کا نقشہ بگاڑ دیا تھا۔ زوالقرنین ہنستا ہوا ان پاس جا پہنچا۔
" اب تو آپ واقعی پریشان لگ رہی ہیں۔"
قہقہہ لگاتے ہوئے اس نے انگلی سے زوجیل کے چہرے پر لگی کالک ہٹا کر ان کی نظروں کے سامنے کی۔
" تم نا میری زندگی میں عذاب کی طرح نازل ہوئے ہو۔" انہوں نے دانت پیستے ہوئے اسے گھورا۔
" یہ آپ کا خود کا پیدا کردہ عذاب ہے۔ اس میں تو بابا کا بھی کوئی قصور نہیں۔"
جلانے والی مسکراہٹ چہرے پر سجائے وہ انہیں آگ لگا چکا تھا۔ ماضی کے کئی لمحات ان کی نظروں میں گھومنے لگے۔ حسد، جلن ایک بار پھر سر اُٹھانے لگی۔
" تم اپنا حق کب تک لو گے اس ذوالفقار خاندان سے؟ تمہارا بھی غازان کی طرح برابر کا حق ہے۔" وہ جو ہمیشہ اسے ذوالفقار خاندان سے دور رہنے کا کہتی تھیں آج حق کا پوچھ رہی تھیں۔
" جلد سب کو سب کا حق مل جائے گا بس دیکھتے جائیں۔"
اپنی آگ رنگ آنکھوں میں چمک لیے کہتا وہ انہیں الجھنے پر مجبور کر گیا۔
" کیا مطلب؟ "
" مطلب کہ بہت جلد میں ذوالفقار پیلس میں پوتے کی حیثیت سے پورے استحقاق سے رہوں گا۔۔۔ اور غازان کے بھائی کی حیثیت سے بھی۔"
آخر میں زیرِ لب کہتا وہ کمرے سے نکلتا چلا گیا۔ زوجیل نے ایک نظر ٹیبل پر تباہ شدہ کیمیکلز پر ڈالی اور اگلے ہی لمحے وہ سب زمین بوس ہو چکے تھے۔

جہاں کمرے میں ہر طرف لال روشنی پھیلی ہوئی تھی وہیں وہ کمرے کے وسط میں لیٹے اس بے دم وجود کو دیکھتے ہوئے گھونٹ گھونٹ سرخ مائع اپنے اندر اُتار رہا تھا۔ اس کے برابر میں کھڑی زوجیل چمکتی آنکھوں سے قائم ذولفقار کو دیکھ رہی تھی۔ اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا وہ اتنی جلدی اس کے پاس آ جائے گا مگر۔۔۔ ایسا ہو گیا تھا۔ حقیقت کا روپ لیے وہ اس کے سامنے لیٹا تھا۔
" جادو کا اثر کب ختم ہوگا۔" زوالی نے قائم ذوالفقار پر نظریں جمائے سوال کیا۔
" صبح تک ٹھیک ہو جائے گا۔"
" ہمم !! اسے سلاخوں کے پیچھے ڈلوا دو۔ ورنہ یہ ہمارے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔"
" فکر نہیں کرو میں نے سارا انتظام کر لیا ہے اس کے جاگتے ہی میں ایسا جادو کروں گی کہ یہ ساری زندگی ادھر سے بھاگ نہیں پائے گا۔" آنے والے لمحات کو سوچتے ہوئے زوجیل کی آنکھوں میں چمک در آئی۔
" ایسا نہ ہو تمہیں ہی جان سے مار دے احتیاط سے اس کے پاس جانا۔" زوالی طنزیہ مسکراہٹ چہرے پر سجائے بولا۔
" ویسے تم اسے صرف جادو کے زریعے ہی حاصل کر سکتی ہو۔ ورنہ میں نے دیکھا ہے اپنی بیوی کا عکس اپنی آنکھوں میں قید کیے گھومتا ہے۔"
" کوئی اچھی بات نہیں کر سکتے تو بکواس بھی نہ کرو۔" زوجیل نے دانت کچکچائے۔
" تم حقیقت سے آنکھیں نہیں چرا سکتیں۔" جتا کر کہتا وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔
" تم کہاں جا رہے ہو؟ "
" بابا تھامس کو خوشخبری دینے۔ آخر کو اُن کا دشمن ہمارے قبضے میں ہے۔" قہقہہ لگاتا وہ وہاں سے غائب ہوگیا۔
زوجیل دھیرے دھیرے قدم اُٹھاتی قائم ذوالفقار کی طرف بڑھی اور نرمی سے اس کے چہرے پر انگلیاں پھیرتی منتر پڑھنے لگی۔

" خاطره میں بختاور کی طرف جا رہی ہوں تم اندر سے دروازہ لاک کر لو۔"
مشہد نے صوفے پر گم صم بیٹھی خاطره سے کہا۔ وہ اثبات میں سر ہلاتی اُٹھ کھڑی ہوئی۔ دو دن سے وہ خاموش خاموش سی تھی۔ مشہد نے بھی اس کی خاموشی کو خوب محسوس کیا تھا مگر چاہ کر بھی اس کیلئے کچھ کر نہیں سکتی تھیں۔ وہ چپ چاپ گھر سے باہر نکل گئیں۔ ہاتھوں کو آپس میں مسلتے ہوئے وہ بختاور کے گھر کی جانب بڑھ رہی تھیں۔ کل خاطره کا نکاح تھا اس لیے بختاور سے مل کر وہ چند ضروری باتیں کرنا چاہتی تھیں۔
" پتا نہیں گھر پر ہے بھی یا نہیں؟ "
سوچتے ہوئے وہ دروازے کے سامنے جا کھڑی ہوئیں۔ بیل بجانے کیلئے ہاتھ اُٹھایا ہی تھا کہ دروازہ خودبخود کھلتا چلا گیا وہ حیرت سے اندر کی جانب بڑھیں۔ ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا دھیرے دھیرے قدم اُٹھاتی، راہداری سے گزرتے وہ ابھی آگے بڑھی ہی تھیں کہ بائیں جانب بنے کمرے سے آتی آواز پر ٹھٹھک کر رکیں۔
" غازان ہمارے لیے مسئلہ بن سکتا ہے اُسے جیسے ہی اس نکاح کی خبر ملے گی وہ ہم سب کو بھی بےنقاب کر دے گا۔"
" یہ کیا۔۔۔ اور یہ آواز تو جانی پہچانی ہے۔"
مشہد الجھی ہوئی آگے بڑھیں اور دروازے کی جھری سے اندر کا منظر دیکھتے ہی ساکت رہ گئیں۔
مہرماہ عرف قانتا رہبان کے گلے میں بانہیں ڈالے، اس سے کل ہونے والے نکاح اور غازان کے متعلق بات کر رہی تھی۔ مشہد پیچھے ہٹتی تیزی سے مڑیں اور قدم واپسی کی جانب بڑھا دیئے۔
" تو یہ سب ملے ہوئے ہیں۔"
منہ پر ہاتھ رکھے وہ جیسے خود پر قابو پانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ خوف سے ٹانگیں الگ کانپنے لگی تھیں۔ واپسی کا راستہ انہیں طے کرنا انتہائی مشکل لگا۔
" میں اب یہاں ایک پل نہیں رکوں گی۔ اپنی بیٹی کو لے کر واپس کراچی چلے جاؤ گی۔"
بڑبڑاتے ہوئے وہ دروازہ کھول کر گھر میں داخل ہوئی ہی تھیں کہ سامنے کھڑے رہبان کو دیکھ کر ان کے جسم کا سارا خون نچڑ گیا۔ فق چہرہ لیے وہ اپنی جگہ منجمد سی ہو گئیں۔
" تم۔۔۔"
" جی ساسوں ماں !! ویسے آپ کو کسی نے سکھایا نہیں یوں چھپ کر کسی کی باتیں نہیں سنتے۔" وہ کہتا ہوا ان کی جانب بڑھا۔
" پاس مت آنا وہیں رک جاؤ ورنہ۔۔۔"
" ورنہ کیا ساسوں ماں؟ "
مشہد کو منہ کھولتا دیکھ وہ تیزی سے آگے بڑھا اور ایک جھٹکے سے گردن دبوچ لی۔
" چچ !! میرا بالکل ایسا ارادہ نہیں تھا پر شاید آپ کی زندگی ہی اتنی تھی۔"
چہرے پر افسوس لیے رہبان نے نفی میں سر ہلایا۔ مشہد آنکھوں میں خوف لیے بھرپور مزاحمت کر رہی تھیں۔ مگر رہبان کی گرفت مزید سخت سے سخت ہوتی جا رہی تھی۔
" بائے بائے ساسوں ماں !! بیٹی کی فکر مت کرنا میں اس کا اچھے سے خیال رکھوں گا۔"
کہنے کے ساتھ ہی اس نے ایک جھٹکے سے مشہد کی گردن مروڑ دی۔ بے جان ہوتے وجود کے ساتھ وہ سیدھا فرش پر آ گریں۔
" مشہد آنٹی !! "
عقب سے آتی آواز پر رہبان نے چہرہ موڑ کر اسے دیکھا اور فوراً وہاں سے غائب ہوگیا۔

ادھر غازان بے یقینی سے مشہد کے مردہ وجود کو دیکھ رہا تھا۔ وہ خاطره سے ملاقات کی غرض سے یہاں آیا تھا پر جن کی موجودگی کو محسوس کر کے بالکنی کے بجائے سیدھا دروازے سے اندر داخل ہوا مگر سامنے کے منظر نے اسے ایک پل کیلئے اپنی جگہ سن سا کر دیا۔
" ماما۔۔۔"
اس نے چونک کر سیڑھیوں کی جانب دیکھا جہاں سے آنکھوں میں خوف لیے خاطره تیزی سے نیچے آ رہی تھی۔
" ماما اُٹھیں۔۔۔ ماما۔۔۔"
خاطره نے مشہد کو سیدھا کرتے ہوئے جھنجھوڑا۔
" ماما اُٹھیں۔۔۔ آپ اُٹھ کیوں نہیں رہیں؟ " اس نے روتے ہوئے ایک بار پھر مشہد کو جھنجھوڑا۔
" وہ جا چکی خاطره۔" غازان خود پر قابو پاتے ہوئے بولا۔ خاطره کے آنسو اور سامنے پڑی مشہد کی لاش اسے تکلیف پہنچا رہے تھے۔ خاطره نے اپنی آنسوؤں سے لبریز آنکھیں اُٹھا کر اسے دیکھا۔
" تم نے۔۔۔ تم نے مار دیا نہ انہیں۔۔۔" وہ چلائی۔
" نہیں خاطره میں ایسا۔۔۔"
" دفع ہوجاؤ یہاں سے اس سے پہلے میں۔۔۔ میں۔۔۔" اسے سمجھ نہیں آیا، آخر کہے تو کیا کہے۔
" خاطره میری بات۔۔۔"
" جاؤ یہاں سے۔۔۔ جاؤ۔۔۔"

اس کی بات کاٹ کر وہ حلق کے بل چلائی۔ غازان خاموشی سے اسے دیکھتا وہاں سے غائب ہوگیا۔
" ماما۔۔۔"
اُس کے جاتے ہی خاطره نے ایک نظر ماں کو دیکھا اور روتی ہوئی فرش پر بیٹھتی چلی گئی۔ پورا گردیزی ہاؤس اس کی سسکیوں سے گونجنے لگا تھا۔

آنکھوں سے سیاہ سیال تیزی سے بہہ رہے تھے۔ ہر اُٹھتے قدم کے ساتھ اس کا جی چاہ رہا تھا واپس جائے اور خاطره کی لاکھ مزاحمت کے باوجود اسے خود میں بھینچ لے۔ اس کے آنسوؤں کو اپنے سینے میں جذب ہونے دے۔
" سب بکھرتا جا رہا ہے۔ میری خاطرہ مجھے سے دور ہو رہی ہے۔۔۔ اب میں کیا کروں گا؟ "
اس کا ذہن ابھی بھی صرف خاطره کو سوچ رہا تھا۔ ایک پل کیلئے بھی رہبان کا خیال اس کے دماغ میں نہیں آیا تھا۔

" اگر وہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔۔۔ میں مر جاؤں گا اُس کے بغیر۔"
ایک تڑپا دینے والی سوچ نے اسے اپنی قید میں لیا۔ ارد گرد سے غافل وہ آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتا آگے بڑھ رہا تھا کہ ایک تیز ہوا کا جھونکا اسے چھو کر گزرا۔ غازان چونکا اور رک کر چاروں جانب دیکھنے لگا۔
" کون ہے سامنے آؤ مجھے تمہاری خوشبو محسوس ہو رہی ہے۔"
" ارے واہ !! میں تو سمجھتی تھی خاطره سے سوا تمہیں نہ کچھ دکھائی دیتا ہے نہ محسوس ہوتا ہے۔" ایک سرسراتی ہوئی آواز فضاء میں گونجی۔
غازان چوکنا انداز میں ارد گرد دیکھنے لگا۔ شام کے سائے پھیل رہے تھے۔ اس وقت سڑک پر اس کے سوا کوئی اور دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
" مجھے ڈھونڈ رہے ہو؟ "
مہرماہ کا روپ دھارے قانتا ایک دم اس کے سامنے نمدار ہوئی اور تیزی سے ہاتھ میں موجود سیاہ مائع غازان کے اوپر اچھال دیا جس کے ساتھ ایک دلخراش چیخ فضاء میں گونج اُٹھی۔
وہ کمرے میں لیٹا خالی ذہن اور خالی نظروں سے کمرے کی چھت کو گھور رہا تھا۔ یوں تو پورے کمرے میں اندھیرا چھایا ہوا تھا مگر اوپری کھڑکی سے آتی چاند کی روشنی نے کمرے میں پھیلے اندھیرے کو زرا کم کر دیا تھا۔ وہ صبح سے اس سوتی جاگتی کیفیت میں مبتلا تھا مگر اب ہوش میں آ چکا تھا۔
" قائم !! "
کانوں میں پڑتی نسوانی آواز پر اس نے چہرہ موڑ کر دروازے کی طرف دیکھا ہی تھا کہ تیزی سے اُٹھ بیٹھا۔
" رباب میری جان !! "
آنکھوں میں چمک، لہجے میں تڑپ اور بےقراری لیے قائم ذوالفقار نے اسے اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا۔ جبکہ رباب کا روپ دھارے زوجیل اس کی اس دیوانگی پر خود پر ضبط کرتی آگے بڑھی اور زرا فاصلے پر جا کھڑی ہوئی۔
" یہ کیسی جگہ ہے اور یہ مجھے کچھ یاد کیوں نہیں آ رہا ذہن بالکل خالی خالی لگ رہا ہے۔"

کھڑکی سے آتی چاند کی روشنی سیدھا ان دونوں کے چہروں پر پڑ رہی تھی۔ قائم ذوالفقار نے ارد گرد دیکھتے ہوئے پوچھا۔
" آپ کی طبیعت خراب ہو گئی تھی قائم اس لیے ایسا محسوس کر رہے ہیں۔ زیادہ سوچیں نہیں آرام کریں۔"
زوجیل مصنوعی مسکراہٹ سجائے بولی۔ جانتی تھی وہ اب بھی جادو کے زیرِ اثر ہے۔ ورنہ زوجیل کو پہچاننے میں ایک سیکنڈ نہ لگاتا۔
" بس آج رات کا ہی وقت ہے زوجیل انتھونی۔ ایک بار یہ جادو کے اثر سے نکلا تو پھر قابو کرنا انتہائی مشکل ہو جائے گا۔" قائم ذوالفقار کو بغور دیکھتے ہوئے اس نے سوچا۔
" کیا ہوا تم خاموش کیوں ہوگئیں؟ اور اتنی دور کیوں کھڑی ہو میرے پاس آؤ۔" اس نے کہتے ہوئے ہاتھ آگے کیے یوں جیسے کسی بچے کو پاس بلا رہا ہو۔
زوجیل جو اپنے اندر چھپے ڈر کی وجہ سے اس سے تھوڑا فاصلے پر کھڑی تھی گہرا سانس لے کر اپنے ڈر کو ڈپٹتی دھیرے دھیرے آگے بڑھی۔ پاس پہنچتے ہی قائم ذوالفقار نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں بھر لیا۔
" میری طبیعت تو تمہیں دیکھتے ہی ٹھیک ہو جاتی ہے رباب۔" کہا تو اس نے محبت بھرے لہجے میں تھا مگر زوجیل کا حلق تک کڑوا ہو گیا۔
" پھر رباب۔۔۔"
" میں آپ کے سامنے ہی ہوں۔"
" سامنے تو ہو پر پاس نہیں ہو۔"
چاند کی روشنی میں اس کے دمکتے چہرے کو تکتے ہوئے، بے خودی کے عالم میں کہتا وہ اسے اپنے حصار میں یوں لے چکا تھا کہ افق پہ موجود چاند ان کے ملن پر ماتم کناں تھا۔

صبح صبح کا وقت تھا جب وہ قبرستان میں داخل ہو کر چاروں طرف نظر ڈوڑاتا آگے بڑھا اور سیدھا اس قبر کے سامنے جا کھڑا ہوا جہاں وہ قبر کے دائیں جانب بیٹھی آنسو بہا رہی تھی۔
" خاطره !! "
اس نے جھک کر اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ خاطره نے اپنی آنسوؤں سے لبریز سیاہ آنکھیں اس کی جانب اُٹھائیں۔ رونے کے باعث ان میں سرخی در آئی تھی۔
" رہبان !! دیکھو آج پورا ایک ہفتہ ہو گیا ماما کو مجھے سے دور ہوئے۔" وہ روتے ہوئے بولی۔
" خاطره اُٹھو یہاں سے روز تم صبح قبرستان آجاتی ہو۔ تمہیں نہیں معلوم لڑکیوں کا قبرستان میں آنا منع ہے۔" اس نے لہجے میں سختی لیے کہا۔
" تو میں کیا کروں؟ پھر کیسے ان سے ملوں۔"
" فی الحال تو تم ان سے نہیں مل سکتیں۔ یہ کام تو شاید مرنے کے بعد ہی ہو اس لیے ابھی یہاں سے چلو۔"
رہبان نے زبردستی اس کا ہاتھ پکڑ کر کھڑا کیا اور اپنے ساتھ گھسیٹتے ہوئے قبرستان سے باہر اپنی گاڑی تک لے آیا۔
" چلو بیٹھو۔"
اس نے گاڑی کا دروازہ کھولا۔ خاطره چپ چاپ اندھر بیٹھ گئی۔ گاڑی کا دروازہ بند کر کے وہ ڈرائیونگ سیٹ کی طرف آیا اور گاڑی کو اسٹارٹ کر کے گھر کے راستے پر ڈال دیا۔
خاطره خاموشی سے شیشے کے پار دیکھ رہی تھی۔ کتنا وقت گزر چکا تھا اسے کچھ ہوش نہ تھا۔ وہ یونہی غائب دماغی سے بیٹھی تھی کہ گاڑی ایک جھٹکے سے اس کے گھر کے سامنے رکی۔
" اترو۔" وہ کہتا ہوا خود بھی گاڑی سے اُتر گیا۔
خاطره گاڑی سے نکل کر چلتی ہوئی دروازے کے پاس آئی اور لاک کھول کر گھر کے اندر داخل ہو گئی۔ رہبان بھی اس کے پیچھے آیا۔
" خاطره میری بات سنو۔" اسے شانوں سے تھام کر اب کے وہ بےحد نرم لہجے میں بولا۔
" ایک ہفتہ ہو گیا ہے آنٹی کو گئے پر تم ایک بات بھول رہی ہو۔" رہبان کی بات پر خاطره نے سوالیہ نظریں اس کی جانب اُٹھائیں۔
" وہ چاہتی تھیں ہمارا نکاح جلد سے جلد ہو جائے۔"
" لیکن۔۔۔"
" تمہیں نہیں لگتا ان کی آخری خواہش پوری ہونی چاہیئے۔" وہ بڑے طریقے سے اسے باتوں میں پھنسا رہا تھا۔ خاطره سوچ میں پڑ گئی۔
" اتنا سوچ کیا رہی ہو؟ اگر آنٹی زندہ ہوتیں تو تم آج میرے نکاح میں ہوتی۔" رہبان اس کی آنکھوں میں جھانکتا بولا۔
" آپ شاید ٹھیک کہہ رہے ہیں۔۔۔"
" تو بس پھر ہم کل ہی نکاح کرتے ہیں۔" وہ اس کی بات کاٹتا ہوا بولا۔
" چلو ابھی تم آرام کرو کل آؤں گا میں تمہیں لینے۔"
وہ کہتا ہوا گھر سے باہر نکل گیا جبکہ خاطره گم صم سی صوفے پر جا کر بیٹھ گئی۔ ایک دم اس کے دل میں اداسی اُتر آئی تھی ساتھ ہی غازان کا خیال بھی۔ ایک ہفتہ ہو گیا تھا اُس دن کے بعد سے وہ اسے نظر نہیں آیا تھا اور خاطره اُسے دیکھنا چاہتی بھی نہیں تھی مگر اس دل کا کیا کرے۔۔۔ جو اُسے دیکھنے کی خواہش کر رہا تھا۔
" کیا واقعی تم نے ماما کو مارا ہے۔" یہ ایک خیال سوالیہ نشان بن گیا تھا۔

" تم مجھے اب بتا رہے ہو غازان ایک ہفتے سے غائب ہے؟ "
زوالقرنین میکال کو دیکھتے ہوئے بولا۔ وہ جو ہر وقت دوسروں کو پریشان کیے رکھتا تھا ابھی خود پریشان دکھ رہا تھا۔
" تو تمہیں کیسے بتاتا تم بھی تو پاکستان میں نہیں تھے۔" میکال کمرے میں چکر کاٹتا ہوا بولا۔ غازان کا سوچ سوچ کر اس کا دماغ پھٹنے کے قریب تھا۔ جبکہ اس کی بات پر زوالقرنین نے گڑبڑا کر اسے دیکھا۔ ایک گلٹی سی گلے میں ابھری۔
" میں پاکستان میں ہی تھا۔"
وہ جو کمرے میں چکر کاٹ رہا تھا چونک کر زوالقرنین کی طرف دیکھنے لگا۔ جیسے اس کی بات کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہو۔
" تم پاکستان میں تھے؟ مطلب تم لندن نہیں گئے۔" زوالقرنین نے اثبات میں سر ہلایا۔
" میں نے کہا نا زوالقرنین یہاں نہیں ہے۔ پھر تم کیوں اس کے پیچھے پڑے ہو؟ "
" تم شاید بھول رہے ہو وہ کیا کہہ کر یہاں سے گیا تھا۔ وہ مجھ سے بدلہ لے گا اور یقیناً اُس نے ہی میری خاطره کو مجھ سے بدگمان کیا ہے ناجانے کتنا ڈرا دیا کہ وہ مجھ سے بھی خوف کھا رہی ہے۔"
" وہ پاکستان میں نہیں ہے۔ اس نے مجھے بتایا تھا کہ وہ لندن جا رہا ہے۔"
" جھوٹ بول رہا تھا۔ میں اسے چھوڑوں گا نہیں، جہاں بھی چھپا بیٹھا ہے ڈھونڈ نکالوں گا۔" میکال کے ذہن میں اپنی اور غازان کی آخری ملاقات گھوم گئی۔
" یعنی۔۔۔ یعنی تم نے مجھ سے جھوٹ بولا۔" میکال کو ایک دم طیش آیا۔ اچانک ہی غازان کی ساری باتیں اسے سچ لگنے لگیں۔
" تم جیسا سمجھ رہے ہو ویسا کچھ نہیں ہے۔" زوالقرنین فوراً اس کی سوچ تک پہنچا۔
" غازان بالکل ٹھیک کہتا تھا۔ دفع ہو جاؤ یہاں سے اس سے پہلے میں کچھ کر دوں۔" میکال نے اسے گریبان سے پکڑ کر پیچھے دھکیلا۔
" حد میں رہو۔" زوالقرنین دھاڑا۔
" میں اپنی حد میں ہی ہوں۔ اس لیے تم زندہ سلامت کھڑے ہو۔ اب تو مجھے یہ بھی لگ رہا ہے غازان کے غائب ہونے کے پیچھے تمہارا ہاتھ ہے۔"
میکال کی بات پر اسے غصّہ تو بہت آیا مگر ضبط کر گیا۔ ایک کڑی نظر اس پر ڈال کر زوالقرنین فوراً وہاں سے غائب ہو گیا۔ جبکہ میکال نے طیش میں آ کر سامنے رکھا گلدان فرش پر دے مارا۔

ایک ہاتھ میں سرخ مائع پکڑے وہ صوفے پر ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے بیٹھا تھا۔ کمرے سے اُٹھتی چیخوں کی آواز اسے کوفت میں مبتلا کر رہی تھیں۔ زوالی نے تنگ آ کر زوجیل کی طرف دیکھا جو کمرے کے وسط میں بیٹھی موم بتیاں جلائے منتر پڑھ رہی تھی۔ سامنے ہی سلاخوں کے پیچھے کھڑا قائم ذوالفقار غصّے سے پاگل ہو رہا تھا۔
" ناپاک عورت گندہ کر دیا تم نے مجھے۔" وہ غصّے سے دھاڑا۔ بس نہیں چل رہا تھا کہ سلاخوں کو تھوڑ کر اس جننی کی گردن اُڑا دے۔
" اب میں اپنی رباب کو کیا جواب دوں گا۔ کیا بگاڑا تھا میں نے تم لوگوں کا کیوں کیا میرے ساتھ ایسا؟ "
آہستہ سے کہتا وہ آخر میں پھر دھاڑ اُٹھا۔ درو دیوار اس کی دھاڑ پر لرز اٹھے تھے۔ زوجیل نے ایک جھٹکے سے آنکھیں کھولیں۔
" اس کے سر سے اب بھی رباب کا بھوت نہیں اُترا۔"
" میں نے تمہیں پہلے ہی کہا تھا یہ قابو آنے والی چیز نہیں۔ خیر اچھا ہے اسے تڑپتا دیکھنے میں بہت مزہ آئے گا۔"
زوالی کہتا ہوا اُٹھ کر سلاخوں کے پیچھے کھڑے قائم ذوالفقار کی طرف بڑھا جو خونخوار نظروں سے اسے گھور رہا تھا۔
" جاننا چاہتے ہو کیا بگاڑا ہے؟ " چہرے پر مکروہ مسکراہٹ اور آگ رنگ آنکھوں میں چمک لیے اس نے سوال کیا۔ جس کا جواب بالکل نہیں دیا گیا۔
" یاد ہے تین سال پہلے تم نے ایک انسان کو بچانے کیلئے ایک سانپ کو مار ڈالا تھا۔ " زوالی کی بات پر قائم ذوالفقار کی آگ رنگ آنکھوں میں الجھن ابھری۔
" تو۔۔۔"
" تو یہ کے وہ میرا بھائی تھا ایڈم تھامس۔ بادشاہ تھامس کا بیٹا۔" وہ لہجے میں غراہٹ لیے بولا۔
قائم ذوالفقار کے ذہن میں ماضی کا سارا واقع گھوم گیا۔ جب جنگل کے راستے سے گزرتے ہوئے اسے آدمی کے چلانے کی آواز سنائی دی تھی۔ وہ مدد کیلئے پکار رہا تھا۔ قائم ذوالفقار اپنی گاڑی سے نکل کر اس جانب بڑھا جہاں وہ سیاہ سانپ ایک انسان کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھا۔
" چھوڑ دو اسے۔"
وہ کہتا ہوا آگے بڑھا جبکہ سانپ نے اپنی گرفت مزید تنگ کر دی۔ سنہری آنکھوں میں شکار کو پا لینے کی چمک مزید بڑھ گئی تھی۔
" میں نے کہا چھوڑ دو اسے۔"
اپنے اصل روپ میں آتا وہ اس کی طرف بڑھا اور ایک جھٹکے سے اس آدمی کو چھڑوا کر زمین پر لٹا دیا۔ خوف کے باعث وہ بیہوش ہو چکا تھا۔
" میرے اور میرے شکار کے بیچ مت آؤ۔ تم جانتے نہیں میں کون ہوں۔" ایڈم پھنکارا۔
قائم ذوالفقار نے بغور اس سانپ کو دیکھا سر پر بنا شاہی نشان بتا چکا تھا وہ کس قبیلے سے تعلق رکھتا ہے۔
" تو تم ارواح قبیلے کے بادشاہ تھامس کے بیٹے ہو۔"
" صحیح پہچانا۔"
وہ کہتا ہوا تیزی سے رنگتا ہوا قائم ذوالفقار کے پاس آیا مگر اس سے پہلے وہ کوئی نقصان پہنچاتا، قائم ذوالفقار نے اپنا بھاری ہاتھ اس کے سر پر دے مارا جو سیدھا اس کے شاہی نشان پر جا لگا تھا۔ ایڈم تڑپتا ہوا انسانی روپ میں آتا فوراً وہاں سے غائب گیا۔ اس کے ساتھ ہی قائم ذوالفقار ماضی سے نکلتا واپس حال میں آیا۔
" وہ مرا نہیں تھا وہ زندہ تھا۔" اس نے احتجاج کیا۔

" نہیں قائم ذوالفقار تم نے اس کے شاہی نشان پر وار کیا تھا۔ جس کے بعد وہ چند سیکنڈز بھی زندہ نہیں رہ سکا۔ کیونکہ شاہی جنوں کا یہ حصّہ۔۔۔" اس نے اپنے بال ماتھے پر سے ہٹائے جہاں شاہی نشان موجود تھا۔
" ہمارا یہ حصّہ انتہائی نازک ہوتا ہے۔ یہاں چوٹ لگنے سے پل بھر میں موت واقع ہو جاتی ہے اور تم نے یہیں وار کر کے میرے بھائی کو موت کی نیند سلا دیا تھا۔"
" میرا ارادہ اُس کی جان لینے کا نہیں تھا۔" سلاخوں کو پکڑ کر وہ زور سے چلایا۔
" بہرحال تم میرے بھائی کے قاتل ہو اور تمہیں اس کی سزا مل کر رہے گی۔"
آنکھوں میں جیت کی چمک لیے زوالی واپس زوجیل کی جانب بڑھ گیا۔ جہاں وہ موم بتیاں جلائے بیٹھی ابھی بھی منتر پڑھنے میں مشغول تھی۔

" اس سب کے پیچھے قانتا ہے۔ مگر وہ اکیلی نہیں ہے ضرور اس کے ساتھ کوئی اور بھی شامل ہے۔ مگر کون؟ "
اپنے کمرے میں چکر کاٹتا زوالقرنین لاکھ غازان سے نفرت ہونے کے باوجود اس وقت اُس کیلئے پریشان ہو رہا تھا۔ حالانکہ خاطره کے گھر کے باہر جب اس نے قانتا کو دیکھا تھا تب ہی اُس کی سوچ کو پڑھ چکا تھا مگر محض غازان کو تکلیف پہنچانے کیلئے وہ خاموش رہا تھا۔ حتیٰ کہ جھوٹ بول کر ماما زوجیل کے پاس آ گیا تھا۔ لیکن آج جب غازان کے لاپتہ ہونے کی خبر ملی تو اسے تکلیف ہو رہی تھی۔۔۔ پر کیوں؟

" بھاڑ میں جائے میں کیوں سوچ رہا ہوں یہ سب۔" اس نے جھنجھلا کر سر جھٹکا لیکن اس دل کا کیا کرتا جو بےچین ہو رہا تھا۔
" میں جانتا ہوں تم غازان سے نفرت کرتے ہو مگر وہ تمہارا بھائی ہے۔ اُسے نقصان مت پہنچانا۔"
اسے قائم ذوالفقار کے لفظوں کی بازگشت اپنے ارد گرد سنائی دینے لگی۔
" مجھے معاف کر دے گا بابا۔ آج میں ہی اُس کی تکلیف کی وجہ بن گیا۔ میں جانتا ہوں وہ تکلیف میں ہے۔ وہ جہاں بھی ہے ٹھیک نہیں ہے۔ مجھے محسوس ہو رہا ہے پر میں چاہ کر بھی غازان کیلئے کچھ نہیں کرسکتا۔"
سوچتے ہوئے اس نے بےبسی سے آنکھیں موند لیں۔


آرزؤ عشق سیزن 1 (چوھدواں حصہ)


تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں



Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں