آرزو عشق - سیزن 1 (چوھدواں حصہ)

Urdu Stories
 

آرزو عشق - سیزن 1 (چوھدواں حصہ)

جن اور انسانی لڑکی کی محبت

پاؤں زمین سے اوپر اُٹھائے وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھتی تنگ و تاریک راہداری سے گزرتے ہوئے اس بند دروازے کے سامنے جا کھڑی ہوئی تھی۔ جس کے پار وہ زنجیروں میں جکڑا کالے جادو کے زیرِ اثر تھا۔
" اتنا ڈر کیوں رہی ہو اندر جاؤ۔"
عقب سے آتی نسوانی آواز پر قانتا چونک کر پیچھے مڑی جہاں لال چوگے میں ملبوس زوجیل کھڑی تھی۔
" چچ !! ایک ہفتے سے تم اس کے پاس جانے کی ہمت نہیں کر پا رہیں۔" وہ کہتی ہوئی قانتا کے پاس آئیں۔
" یہ قائم ذوالفقار نہیں غازان ذوالفقار ہے۔ اتنی آسانی سے قابو آنے والا نہیں۔" قانتا ناگواری سے بولی۔
" تو باپ کون سا قابو میں آ گیا تھا۔" زوجیل سوچ کر رہ گئی۔
" میں زی کا انتظار کر رہی ہوں۔ ایک بار وہ خاطره کو حاصل کر لے پھر غازان پر قابو پانا آسان ہو جائے گا میرے لیے۔ آخر کو اس کے ٹوٹے دل کو میں نے ہی جوڑنا ہے۔"
اس نے معنی خیز مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے زوجیل کو دیکھا۔ جو خود بھی مسکراتے ہوئے منتر پڑھنے لگی تھیں۔
اُدھر دروازے کے پار، اندھیرے کمرے میں زنجیروں سے جکڑے کھڑا غازان ان کی آوازوں کو بمشکل سننے کی کوشش کر رہا تھا کہ اچانک سر میں اُٹھتے شدید درد کے باعث چلانے لگا۔ ماتھے کی رگیں تن سی گئی تھیں۔ سر جیسے پھٹنے کے قریب تھا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ وہ اگلا سانس نہیں لے پائے گا۔ سمندر جیسی نیلی آنکھیں اپنا رنگ بدلتی سرخ انگارا ہونے لگی تھیں کہ تبھی زوجیل کے منتر پڑھتے لب رکے اور غازان نڈھال سا ہو کر سر جھکا گیا۔ عالمِ ہوش سے عالمِ بےہوشی میں جاتے ہوئے وہ دھیرے سے بڑبڑایا تھا۔
" خاطرہ !! "

" کچھ پتہ چلا؟ "
ذوالفقار علی نے اپنے سامنے بیٹھے ظہیر ذوالفقار سے پوچھا۔ جو دو دن سے مسلسل بھائی کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
" کچھ پتہ نہیں چلا بابا۔ ناجانے قائم بھائی اچانک کہاں چلے گئے ہیں۔" ظہیر ذوالفقار کی بات پر وہ مزید پریشان ہوگئے۔ ایک طرف بڑے بیٹے کا کچھ پتہ نہیں تھا تو دوسری طرف رباب کا رو رو کے بُرا حال تھا۔
" لیکن آپ پریشان نہ ہوں میں پتہ لگا لوں گا یا وہ خود جلد آ جائیں گے۔ ہو سکتا ہے کہیں پھنس گئے ہوں۔" کہتے ہوئے اس نے ہاتھ بڑھا کر ذوالفقار علی کے ہاتھ پر رکھا۔ یہ ایک چھوٹی سی کوشش تھی امید کا دامن تھامے رکھنے کی۔
ذوالفقار علی نے بھی اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اپنا دوسرا ہاتھ اس کے ہاتھ پہ رکھ دیا۔ انہیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ سب ہو کیا رہا ہے۔ دو دن پہلے وہ ایران جانے والے تھے اور اب سب کچھ چھوڑ کر قائم ذوالفقار کو ڈھونڈنے میں لگے تھے۔ جو بنا بتائے ناجانے کہاں چلا گیا تھا۔
" میں رباب کی طرف سے زیادہ فکرمند ہوں۔ اس نے رو رو کر بُرا حال کیا ہوا ہے۔"
" آپ بھابھی کو سمجھائیں۔ بھائی جلد واپس آ جائیں گے۔"
" ہاں کوشش کر رہا ہوں۔ لیکن میں خود بھی بہت پریشان ہوں۔ وہ پہلے کبھی یوں بغیر بتائے کہیں نہیں گیا اور اب تو وہ گھر والا ہے کم از کم رباب کو تو بتایا ہوتا۔" اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ دھیرے سے بولے۔
" مجھے ڈر ہے بابا وہ کسی مصیبت۔۔۔"
ابھی ظہیر ذوالفقار کی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ تیزی سے دروازہ کھولتی رباب اندر آئی۔ اسے ابھی ظہیر کے آنے کی خبر ہوئی تھی۔
" کچھ پتہ چلا قائم کا؟ "
اس نے بے صبری سے پوچھتے ہوئے پہلے ظہیر اور پھر ذوالفقار علی کو دیکھا۔ ان دونوں نے بھی اس سمے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر نفی میں سر ہلا دیا۔
" پر آپ پریشان نہ ہوں میں پوری کوشش کر رہا ہوں۔ بھائی جلد مل جائیں گے۔" وہ کہہ کر اُٹھ کھڑا ہوا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔ رباب ذوالفقار علی کی طرف بڑھی۔
" بابا وہ کہاں چلے گئے۔"
" رباب بچے پریشان نہ ہو۔ دعا کرو وہ جلد لوٹ آئے گا۔"
وہ لہجے میں بشاشت لاتے ہوئے بولے۔ اسے مزید پریشان نہیں کرنا چاہتے تھے۔ پر وہ خود بھی نہیں جانتے تھے۔ یہ " جلد " کتنا طویل ہونے والا ہے۔

رہبان لونگ روم میں داخل ہوا جہاں صباح اور بختاور بیٹھی آپس میں باتیں کر رہی تھیں۔ وہ مسکراتا ہوا ان کی جانب بڑھا بھوری آنکھوں میں آج ایک الگ ہی چمک تھی۔
" بڑا مسکرا رہے ہو؟ " صباح نے اسے دیکھتے ہی سوال کیا۔
" ہاں بھئی بات ہی کچھ ایسی ہے؟ "
" کیوں کیا کوئی خزانہ ہاتھ لگ گیا؟ " اب کے بختاور نے پوچھا۔
" جو ہاتھ لگا ہے وہ بھی کسی خزانے سے کم نہیں۔" وہ یوں ہی مسرور سا بولا۔
" پہیلیاں بجھانا بند کرو اور سیدھے سے بتاؤ۔"
" خاطرہ نکاح کیلئے تیار ہے اب آپ لوگ تیاری کریں کل نکاح کے بعد میں اُسے اپنے ساتھ کوہ قاف لے جاؤں گا۔"
کہتے ہوئے اس کی بھوری آنکھیں بدلتی ہوئی آگ رنگ آنکھوں میں تبدیل ہوئی تھیں۔ صباح اور بختاور کے چہروں پر بھی مسکراہٹ در آئی۔
" یہ تو اچھی خبر ہے۔" صباح کی خوشی کا بھی ٹھکانہ نہیں رہا۔
" ویسے مجھے ایک بات سمجھ نہیں آئی۔ تمہیں اسے ساتھ لے جانے کیلئے نکاح کی کیا ضرورت ہے؟ " بختاور اب بھی کچھ الجھی ہوئی تھی۔
" بغیر نکاح کے خاطره میرے ساتھ جائے گی نہیں اور اس کی مرضی کے بغیر کوہ قاف لے جا نہیں سکتا۔ اس لیے یہ ناٹک بھی کرنا پڑے گا۔"
رہبان افسردہ سی شکل بنائے بولا۔ جس پر صباح اور بختاور کا قہقہہ گونج اٹھا۔

وقت پر لگائے اپنے ساتھ گیارہ سال لے اُڑا تھا۔ جہاں ان سالوں میں رباب کی امیدوں نے دم توڑا تھا وہیں قائم ذوالفقار کی سانسیں بھی اس کا ساتھ چھوڑتی جا رہی تھیں۔ قید سے رہائی کی ساری امیدیں تو پہلے ہی دم توڑ چکی تھیں۔ لیکن رباب سے بے وفائی کا خیال اسے اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا اوپر سے ستم ظریفی یہ تھی کہ زوجیل اس کے بچے کی ماں بن چکی تھی اور اس حقیقت کو وہ چاہ کر بھی جھٹلا نہیں سکتا تھا۔
" اس جادو کے زریعے تم میرے وجود کو تو حاصل کر سکتی ہو مگر میرا دل، میری روح ہمیشہ اُس سے محبت کرتا رہے گا۔" سلاخوں کو سختی سے پکڑے وہ دھاڑا پورا کمرہ اس کی دھاڑ سے لرز اُٹھا تھا۔
" اتنے سال ان سلاخوں میں رکھ کر دیکھو کیا ملا تمہیں وہ بیٹا جو کسی محبت کی نشانی نہیں بلکہ تمہارے گناہوں کی نشانی ہے۔"

آج جب وہ جادو کے اثر سے باہر نکلا تو ایک دم بے قابو ہوگیا۔ جبکہ کمرے کی اوپری کھڑکی سے جھانکتا دس سالہ زوالقرنین اپنے باپ کے اس روپ کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔
" بکواس بند کرو۔ ابھی تک تمہارے سر سے اُس کی محبت کا بھوت نہیں اُترا۔"
سامنے زمین پر بیٹھی، لال چوگا پہنے، زیرِ لب منتر پڑھتی زوجیل ایک دم چلا اُٹھی تھی۔ قائم ذوالفقار کی رباب سے محبت اور اس سے نفرت بھلا وہ کیسے برداشت کر سکتی تھی۔ اپنی سرخ آنکھوں سے قائم ذوالفقار کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے سامنے رکھا سیاہ مائع اُٹھا کر ان سلاخوں کی طرف اچھال دیا۔ جس کے ساتھ ہی کمرے میں گونجتی قائم ذوالفقار کی چیخیں، ذوالقرنین کو بے چین کر گئیں۔ ان گزرے سالوں میں وہ کئی بار اپنے باپ کے منہ سے ایسی باتیں سنتا رہا تھا مگر یہ جلال آج سے پہلے نہیں دیکھا تھا۔
" اور کس گناہ کی بات کر رہے ہو؟ فریڈی (زوالقرنین) صرف میرا نہیں تمہارا بھی بیٹا ہے۔ جسے تم گناہ کہہ رہے ہو۔"
وہ کہتی ہوئی اُٹھ کھڑی ہوئی اور ایک آخری نظر سلاخوں کے پیچھے نڈھال بیٹھے قائم ذوالفقار پر ڈال کر کمرے سے باہر نکل گئی۔
ابھی زوجیل کو گئے چند لمحے گزرے ہی تھے کہ قائم ذوالفقار کو ایک بار پھر کسی کی موجودگی کا احساس ہوا۔ سر اُٹھا کر دیکھا تو زوالقرنین عرف فریڈی کھڑا تھا۔
" زوالقرنین !! کیوں آئے ہو یہاں؟ میرا تماشا دیکھنے؟ "
قائم ذوالفقار نفرت بھرے لہجے میں بولا۔ زوجیل کے باعث اسے زوالقرنین سے بھی نفرت ہوگئی تھی جس کا ذوالقرنین کو بخوبی اندازہ تھا۔
" زوالقرنین نہیں فریڈی ہے میرا نام۔" اس نے ٹوکا، باقی بات تو جیسے سنی ہی نہیں تھی۔

قائم ذوالفقار کے چہرے پر استہزائیہ مسکراہٹ در آئی۔ یہ جھگڑا تو دو سالوں سے چلتا آ رہا تھا۔ قائم ذوالفقار نے یوں تو اسے اپنا بیٹا نہیں مانا تھا مگر ان دو سالوں میں بیٹا سمجھ کر بس اتنا حق ضرور جتانے لگا تھا کہ " فریڈی" کی جگہ " زوالقرنین " کہہ کر مخاطب ہوتا تھا اور ایسا کیوں تھا۔ یہ زوالقرنین اچھی طرح جانتا تھا۔ وہ ایک مسلمان کی اولاد تھا مگر زوجیل نے قائم ذوالفقار سے بدلہ لینے کیلئے اسے بھی عیسائی بنا دیا تھا۔
" تم ایک مسلمان جن کی اولاد ہو۔" قائم ذوالفقار نے لہجے میں سختی لیے کہا۔
" میں زوجیل انتھونی کی اولاد ہوں۔" زوالقرنین بےتاثر چہرے سے بولا۔
" بھاڑ میں جاؤ۔"
اس نے چہرہ دوسری جانب پھیر لیا۔ زوالقرنین وہیں کھڑا خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔ جیسے مزید اسے سننا چاہتا ہو۔
" اچھا سنو میرا ایک کام کرو گے؟ "
قائم ذوالفقار اپنی جگہ سے اُٹھا اور زرا نزدیک آ کر سلاخوں کو تھام کر بیٹھ گیا۔ اب کی بار اس کے لہجے میں بےحد نرمی تھی۔ زوالقرنین خاموش رہا۔
" میں نہیں جانتا کل تک میں یہ سانسیں لیتا بھی ہوں یا نہیں لیکن اگر مجھے کچھ ہوجائے تو تم مجھ پر ایک احسان کر دینا۔" وہ رکا، تھوڑا اور سلاخوں کو تھامے نزدیک ہوا۔
" تم۔۔۔ تم میری رباب کے پاس جانا اور اُسے بتانا میں اُسے چھوڑ کر نہیں گیا۔ میں نے اُس سے بے وفائی بھی نہیں کی۔ اگر میں نے زندگی میں کسی سے محبت کی ہے تو وہ صرف رباب اور غازان سے کی ہے اور ہاں۔۔۔ ہاں غازان کو کہنا اُس کے بابا اُسے بہت یاد کرتے تھے۔ اپنے بابا سے ناراض نہیں ہونا۔ تم کہو گے نا؟ " لہجے میں ایک آس لیے پوچھا۔

زوالقرنین چند لمحے خاموشی سے اسے دیکھتا رہا پھر بغیر کچھ کہے پلٹ کر دروازے کی جانب بڑھا کہ قائم ذوالفقار کی آواز نے اس کے قدم روک لیے۔
" زوالقرنین !! میں جانتا ہوں تم مجھ سے نفرت کرتے ہو مجھ سے ہی نہیں غازان سے بھی کیونکہ میں نے غازان کو تو بیٹا مانا پر تمہیں نہیں۔"
زوالقرنین پلٹا نہ کچھ بولا، اب بھی خاموش رہا۔ وہ جانتا تھا اس کے باپ کو اس سے نہیں اس کی ماں سے نفرت تھی جس کے باعث وہ اپنی اولاد کو بھی قبول نہیں کر پایا تھا۔ کیونکہ زوالقرنین کو قبول کرنا ایسا ہی تھا جیسے زوجیل کو قبول کر رہا ہو اور وہ یہ مر کر بھی نہیں کرسکتا تھا۔ ہاں۔۔۔ اگر وہ زوجیل کی جگہ رباب کا بیٹا ہوتا تو نہ صرف قائم ذوالفقار اسے اپنا بیٹا مانتا بلکہ وہ محبت بھی دیتا جو غازان سے کرتا آیا تھا۔

" میں جانتا ہوں۔ تم غازان سے نفرت کرتے ہو مگر وہ تمہارا بھائی ہے۔ اُسے نقصان مت پہنچانا۔"
قائم ذوالفقار کی بات پر اب کے اس نے مڑ کر ایک کڑی نظر باپ پر ڈالی۔ یعنی اب بھی وہ غازان کا سوچ رہا تھا۔۔۔ زوالقرنین فوراً وہاں سے غائب ہوگیا۔
قائم ذوالفقار وہیں تنہا بیٹھا سلاخوں کو مضبوطی پکڑے اس جگہ کو دیکھتا رہا کہ اچانک آگ رنگ آنکھوں کی جگہ سیاہی نے لے لی۔ جسم اکڑنے لگا اور ایک جھٹکے سے سلاخوں کو چھوڑتا وہ زمین پر جا گرا۔ سیاہ ہوتی آنکھوں میں ویرانی اُتر آئی تھی۔ چند لمحوں کا کھیل تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے اس کا وجود ریت کی طرح بکھرتا، ہوا میں غائب ہو گیا۔ بالآخر اس کی آزمائش ختم ہوئی تھی "موت" کی صورت۔۔۔

مشہد کے بیڈ پر بیٹھی وہ گھٹنوں میں سر دیئے مسلسل روئے جا رہی تھی۔ آج اس کا نکاح تھا اور اس موقع پر ماں باپ کا سایہ سر پر نہ ہو تو کیسا محسوس ہوتا ہے یہ کوئی خاطره سے پوچھتا۔ اسے سوچ سوچ کر رونا آ رہا تھا۔ اپنے نکاح کے دن بھی کوئی خوشی محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ سب کچھ کھونے کے بعد بھی یوں لگ رہا تھا جیسے بہت کچھ کھونے جا رہی ہو۔ بار بار غازان کا بھی خیال آ رہا تھا جس پر دل و دماغ میں جنگ سی چھڑ جاتی۔ دماغ اُس کے خلاف دلیلیں پیش کرتا تو دل اُس کا وکیل اور جج بن جاتا۔ یہی سب سوچتے ہوئے اس کا سر درد سے پھٹنے لگا۔ وہ اُٹھ کر بے دردی سے گالوں پر بہتے آنسو صاف کرتی کمرے سے باہر نکل آئی۔ اسے نکاح کیلئے تیار بھی ہونا تھا۔

" کاش ماما آپ میرے ساتھ ہوتیں تو مجھے یقین تو ہوتا کہ کوئی ہے میرے پیچھے۔۔۔ میرے اچھے نصیب کی دعا کرنے والا۔"
خاطرہ سوچتے ہوئے سیڑھیاں چڑھتی اپنے کمرے میں آئی اور الماری سے نکاح میں پہنے کیلئے کپڑے نکالنے لگی۔
مشہد نے تھوڑی بہت اس کے نکاح کی تیاری کر لی تھی۔ موسم کی خرابی کی وجہ سے وہ زیادہ کچھ تو نہیں خرید پائی تھیں۔ لیکن اس کیلئے نکاح میں پہنے کیلئے کپڑوں اور جیولری کا انتظام ضرور کر دیا تھا۔
وہ میرون فراک کے ساتھ گولڈن چوڑی دار پاجامہ نکال کر بیڈ پر رکھتی باتھ روم میں چلی گئی۔ اب جو بھی تھا اسے اپنی ماں کی آخری خواہش کو تو پورا کرنا ہی تھا۔

قائم ذوالفقار کی موت کے بعد زوالقرنین میں کافی تبدیلیاں رونما ہوئی تھیں۔ زوجیل اور اپنے باپ کے رویے پر اس نے کئی بار سوچا تھا ہر بار اسے اپنی ماں کی غلطی نظر آتی تھی۔ یہ نہیں تھا قائم ذوالفقار کے جانے کے بعد زوالقرنین کو اس سے محبت ہوگئی تھی بلکہ باپ سے شکوے شکایت تمام تر اعتراضات اب بھی وہی تھے لیکن اب وہ سمجھ گیا تھا کہ۔۔۔ کوئی چاہ کر بھی کسی دوسرے سے زبردستی محبت نہیں کرسکتا۔
قائم ذوالفقار بھی اس سے محبت نہیں کر پایا تھا نہ زوالقرنین کو تھی اور زوجیل۔۔۔ وہ بھی تمام تر کوششوں کے باوجود اس کے دل میں وہ مقام نہیں بنا پائی تھی جو ایک ماں کا حق ہوتا ہے۔ وہ جب بھی زوالقرنین کے قریب ہونے کی کوشش کرتیں تو اسے اپنے باپ کی تڑپ، تنہائی، چیخوں پکار سب یاد آجاتا تھا جس کے باعث وہ ان سالوں میں زوجیل سے مزید دور ہوگیا تھا اور اس کا منہ بولتا ثبوت یہ تھا کہ اس نے اپنا نام "فریڈی" سے بدل کر "زوالقرنین" رکھ لیا تھا۔ لیکن اس نے مذہب بھی بدلا تھا یا نہیں زوجیل کو اس بات کا علم نہیں تھا۔۔۔
" تم کہاں جانے کی تیاری کر رہے ہو فریڈی؟ "
زوجیل نے کمرے میں داخل ہو کر اپنے انیس سالہ بیٹے کو دیکھا جو بالکل اپنے باپ سے مشابہت رکھتا تھا۔ وہی آگ رنگ آنکھیں، وہی نین نقوش۔۔۔
" کتنی بار کہا ہے میں نے میرا نام زوالقرنین ہے۔" آئینے میں زوجیل کے عکس کو دیکھتے ہوئے اس نے سختی سے ٹوکا۔
" تم میرے بیٹے ہو۔" وہ غصّہ ضبط کرتے ہوئے بولیں۔
" میں آپ کا بیٹا ضرور ہوں مگر سمجھ بوجھ رکھتا ہوں۔ میرے لیے کیا بہتر ہے، مجھے اچھے سے پتا ہے۔" جتا کر کہتا وہ کمرے سے باہر نکلنے لگا جب زوجیل اس کے راستے میں حائل ہوئی۔
" اچھا کیا بہتر ہے تمہارے لیے، وضاحت کرو گے؟ "
زوالقرنین نے آنکھوں میں تپش لیے انہیں دیکھا اور ایک جھٹکے سے گردن سے دبوچ کر دیوار سے لگا دیا۔ زوجیل حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔ جس کا شمار نہ اچھوں میں ہوتا تھا نہ بروں میں۔ وہ من موجی تھا جو دل و دماغ میں آتا تھا کر گزرتا تھا۔ پھر چاہے کسی کو خوشی ملے یا غم۔۔۔
" میرے معاملات سے دور رہیں سمجھی۔"
ایک جھٹکے سے گردن چھوڑتا وہ وہاں سے غائب ہوگیا۔

تیار ہو کر وہ آئینے میں نظر آتے اپنے عکس کو دیکھنے لگی۔ میرون فراک اور گولڈن چوڑی دار پاجامہ کے ساتھ ہم رنگ سر پر دوپٹہ اوڑھے، کانوں اور گلے میں نازک سا سیٹ پہنے وہ تیار تھی۔ میک اپ کے نام پر صرف لپ اسٹک لگائی گئی تھی۔ اس سے زیادہ وہ اور کیا تیاری کر سکتی تھی۔ ایک نظر خود پر ڈال کر وہ رہبان کا انتظار کرنے لگی جو تھوڑی دیر پہلے قاضی اور گواہوں کو لینے گیا تھا۔
" خاطره بیٹا آجاؤ رہبان آگیا ہے۔"
بختاور کمرے میں داخل ہو کر اسے دیکھتے ہوئے بولیں۔ جس پر خاطره اثبات میں سر ہلاتی ان کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گئی۔ سیڑھیاں اُترتے ہوئے اسے عجیب سے وسوسوں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ عجیب وحشت طاری ہو رہی تھی۔ وہ خود پر ضبط کرتی بختاور کے ساتھ لیونگ روم میں آگئی۔ جہاں رہبان قاضی سمیت گواہوں کے ساتھ بیٹھا تھا البتہ صباح ان میں موجود نہیں تھی۔ بختاور نے اسے سنگل صوفے پر بٹھا دیا۔ جس کے بعد رہبان کے کہنے پر قاضی صاحب نے نکاح پڑھانا شروع کر دیا۔
" خاطره گردیزی بنت عامر گردیزی آپ کو رہبان مرزا بن احمد مرزا کے نکاح میں حق مہر پچاس ہزار سکہ رائج الوقت دیا جاتا ہے۔ کیا آپ کو قبول ہے؟ "
ادا ہوتے نکاح کے کلمات کے ساتھ اسے سانس لینا مشکل لگنے لگا تھا۔

دروازے کے باہر کھڑا زوالقرنین اس گھر کو دیکھ رہا تھا۔ جہاں اس کے بابا رہا کرتے تھے۔ آج اتنے سال بعد وہ ادھر آیا بھی تھا تو اس لیے نہیں کہ وہ اپنے باپ کی آخری خواہش پوری کرنا چاہتا تھا بلکہ اس کا تجسس اسے کھینچ لایا تھا۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا آخر کون ہیں وہ لوگ جن کا ذکر مرتے وقت بھی اس کے باپ کی زبان پر تھا۔ ایسا کیا تھا اُس رباب میں کہ مرتے وقت بھی اس کی محبت کا دعوے دار تھا اور ایسا کیا تھا غازان میں کہ جس کے بعد اُسے دوسری اولاد کبھی نظر نہیں آئی۔۔ آخر کیا؟
اس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ حالانکہ اس کی ضرورت نہیں تھی وہ ویسے بھی اندر جا سکتا تھا مگر اخلاقی طور پر یوں بغیر پوچھے کسی کے گھر میں گھسنا ٹھیک نہیں تھا۔ اب اتنا "جینٹل جن" تو تھا وہ۔۔۔
" کون۔۔۔؟ "
دروازہ کھول کر رباب نے جیسے ہی اسے دیکھا تو اپنی جگہ دنگ رہ گئی۔ بیس سال بعد اس چہرے کو دیکھنا۔۔۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے قائم ذوالفقار اس کے سامنے آ کھڑا ہوا ہو لیکن نہیں یہ جن اُس سے مشابہت رکھتا تھا۔ قائم ذوالفقار نہیں تھا۔ اُس کی خوشبو کو وہ لاکھوں میں پہچان سکتی تھی۔
" کون ہو تم۔۔۔؟ "
اس نے پھر پوچھا۔ زوالقرنین جو خاموشی سے اسے کھڑا دیکھ رہا تھا، دھیرے سے بولا۔
" قائم ذوالفقار کا بیٹا۔"

کہنے کی دیر تھی کہ بیس سال بعد ایک اور قیامت رباب پر ٹوٹ پڑی۔ ان بیس سالوں میں وہ قائم ذوالفقار کی جدائی پر روتی آئی تھی مگر اب جیسے اُس کی بےوفائی پر رونا مقدر میں لکھ دیا گیا تھا۔
وہ خود پر ضبط کرتی اسے اپنے ساتھ لیے ذوالفقار علی کے پاس پہنچ گئی۔ جس کے بعد اس کا ذوالفقار خاندان سے رابطہ بحال ہوگیا تھا۔ غازان کے انکار اور رباب کی خاموشی کے باوجود ذوالفقار علی نے اس پر اپنے گھر کے دروازے کھول دیئے تھے۔ وہ ان کے بڑے بیٹے کی دوسری اولاد تھا۔ بے شک ماں الگ تھیں لیکن وہ اس کی حق تلفی نہیں کرسکتے تھے۔
انہیں یقین تھا وقت گزرنے کے ساتھ ہر کوئی زوالقرنین کو قبول کر لے گا مگر ان پانچ سالوں میں غازان کی نفرت کم ہونے کے بجائے مزید بڑھی تھی۔ رباب بھی زیادہ تر خاموش رہنے لگی تھی۔ اکثر زوالقرنین کی آمد پر کمرے میں بند ہو جاتی تھی مگر اس دوران اگر کچھ اچھا ہوا تھا تو وہ یہ تھا کہ زوالقرنین ذوالفقار کو زندگی میں پہلی بار کسی سے "محبت" ہوگئی تھی سچی محبت اور وہ عورت کوئی اور نہیں "رباب ذوالفقار" تھی۔ وہی عورت جس کا قائم ذوالفقار دیوانہ تھا۔۔۔
جو ماں کا روپ اسے زوجیل میں نہیں دکھا تھا وہ رباب میں دکھ گیا تھا۔ جو پیار و ممتا بھری چھاؤں رباب کے پاس تھی وہ زوجیل کے پاس نہیں تھی۔ اپنی محرومیوں اور تنہائیوں کو دیکھ کر اس کی غازان سے حسد و نفرت میں مزید اضافہ ہوا تھا مگر دوسری طرف رباب سے محبت اور اس کے دکھ کو دیکھتے ہوئے زوالقرنین نے آخر کار اپنی ماں زوجیل کا وہ فریب اور قائم ذوالفقار کی تڑپ جو یہاں آنے کے پانچ سال بعد بھی اس نے کسی کو نہیں بتایا تھا۔ وہ رباب کو بتا دیا تھا اور یہ بھی کہ قائم ذوالفقار بے وفا نہیں تھا۔ وہ رباب کا تھا اور رباب کا ہی رہا۔۔۔

بند کمرے میں وہ خاموش کھڑی بغور اس کے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔ جو زنجیروں میں جکڑا سر جھکائے کھڑا تھا۔ آج بالآخر وہ ہمت کر کے اس کمرے میں آہی گئی تھی۔ اب جب غازان اس کا تھا تو کوئی خوف باقی نہیں رہا تھا۔ اس نے آگے بڑھتے ہوئے دھیرے سے اس کے شانے پر ہاتھ رکھا۔
" غازی !! "
محبت بھرے لہجے میں پکارتی وہ اپنا دوسرا ہاتھ اس کے گال پر رکھنے لگی جب ایک جھٹکے سے غازان نے اپنی سرخ انگارہ ہوتی نظریں اُٹھا کر اسے دیکھا۔ قانتا یکدم پیچھے ہوئی۔ اسے لگا تھا وہ اب بھی زوجیل کے کیے گئے جادو کے زیرِ اثر ہے مگر یہ اس کی خام خیالی ہی ثابت ہوئی۔
" تو تم تھیں اس سب کے پیچھے ہاں۔ تم نے خاطره کو مجھ سے بدگمان کیا بلکہ مشہد آنٹی اور ماما کو بھی تم نے ہی مارا تھا نا۔"
غازان کے تاثرات دیکھ کر اسے ڈر تو لگ رہا تھا مگر وہ جادوئی زنجیروں میں قید تھا۔ جن سے آزادی انتہائی مشکل تھی یہی سوچ کر وہ اپنے ڈر کو دباتے ہوئے بولی۔
" ہاں !! میں نے مارا تھا خالہ کو۔ مجھ سے جھوٹے وعدے کر کے وہ تمہاری شادی اُس دو ٹکے کی لڑکی سے کرنا چاہ رہی تھیں جو آج کسی اور کی دلہن بننے جا رہی ہے۔" وہ پھنکاری۔ غازان نفرت بھری نظروں سے دیکھتا اس کی باتیں سن رہا تھا۔
" دیکھنا چاہو گے کیسے تمہاری خاطره تمہیں چھوڑ کر کسی اور کی ہونے جا رہی ہے۔ ہاں !! دیکھو گے؟ "
کہتے ہوئے قانتا نے سامنے دیوار کی طرف اشارہ کیا جہاں گردیزی ہاؤس کے لیونگ روم کا منظر نظر آنے لگا۔ خاطره دلہن بنی رہبان کے سامنے بیٹھی تھی اور قاضی صاحب نکاح پڑھا رہے تھے۔
" خاطره !! نہیں۔۔۔ یہ نہیں ہوسکتا۔"
غصّے سے بے قابو ہوتا وہ دھاڑا اور اپنے آپ کو زنجیروں سے آزاد کرانے کی کوشش کرنے لگا۔ نظریں اب بھی خاطره کے عکس پر جمی تھیں۔
" میں تم سب کو جان سے مار دوں گا۔ وہ میری ہے صرف میری۔"
زنجیروں کو جھٹکا دیتا وہ اب انسانی روپ سے نکل کر اپنے حیوانی روپ میں آ رہا تھا۔ قانتا نے بھکلا کر دیوار کی طرف دیکھا جہاں خاطره کے ساتھ بختاور یعنی زوجیل کھڑی تھی۔ اس نے فوراً اسے خطرے کا سگنل دیا جس کے ملتے ہی زوجیل اس کے سامنے نمدار ہوئی۔
" کیا ہوا۔۔۔"
ابھی الفاظ ادا بھی نہ ہوئے کہ ایک زور دار آواز کمرے گونجی۔ غازان زنجیروں کو توڑ کر آزاد ہوتا اب خونخوار نظروں سے انہیں گھور رہا تھا۔
" میں نے کہا تھا نا یہ قائم ذوالفقار نہیں غازان ذوالفقار ہے۔" قانتا زوجیل کو دیکھ کر منمنائی۔ موت بہت قریب آتی محسوس ہو رہی تھی۔
" میں بھی زوجیل ہوں۔ اتنی جلدی ہار نہیں مانوں گی۔ اس کا بھی وہی حال کر دوں گی جو اس کے باپ کا کیا تھا۔"
اس نے آنکھیں بند کرکے زیرِ لب منتر پڑھنے شروع کیے کہ منہ پر پڑنے والے گھونسے نے اسے دور اچھال دیا۔ قانتا نے خوف زدہ نظروں سے پہلے غازان پھر فرش پر اوندھے منہ پڑی زوجیل کو دیکھا۔
" دیکھو غازان میں۔۔۔"

غازان کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ سارے الفاظ زبان پر آتے ہی دم توڑ گئے۔ اس نے یہاں سے غائب ہونا چاہا مگر اس کا ارادہ بھانپ کر غازان نے فوراً اس کی گردن دبوچ کر اسے ہاتھ سے اوپر اُٹھا دیا۔
" میری ماں کو مارا تھا نا اب دیکھو تمہارا کیا حشر کرتا ہوں۔"
اپنے تیز ناخنوں کو اس کی گردن کے آر پار کرکے اس کا سر دھڑ سے الگ کرنے ہی لگا تھا جب زوجیل بھی روپ بدلتی تیزی سے اس کی جانب بڑھی کہ اچانک زوالقرنین ان کے درمیان حائل ہوتا غازان کی ڈھال بن گیا۔
" غازی تم خاطره کے پاس جاؤ۔ ان دونوں کو میں سنبھالتا ہوں۔"
زوالقرنین کہتا ہوا زوجیل کی طرف بڑھا جبکہ غازان نے ایک نظر زوالقرنین کی پشت پر ڈالی اور قانتا کو ہوا میں اچھالتا فوراً وہاں سے غائب ہوگیا۔


آرزؤ عشق سیزن 1 (پندرواں  اور آخری حصہ)


تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں



Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں