آرزو عشق - سیزن 1 (پندرواں اور آخری حصہ)

Urdu Stories Online
 

آرزو عشق - سیزن 1 (پندرواں حصہ)

جن اور انسانی لڑکی کی محبت

" کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟ "
خاطره کو خاموش دیکھ کر قاضی صاحب نے پھر پوچھا۔ رہبان خاموشی سے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بنائے اپنے غصّے کو ضبط کر رہا تھا۔ ایک تو عین موقع پر زوجیل غائب ہوگئی تھی۔ اوپر سے صباح عرف قانتا بھی آئی نہیں تھی۔ ایسے میں کون تھا جو خاطره کو قابو کر پاتا۔۔۔
" خاطره !! "
رہبان نے دھیرے سے اسے پکارا۔ وہ دونوں ہاتھوں کو اضطرابی انداز میں آپس میں مسل رہی تھی۔ جب رہبان کی پکار پر سر اُٹھا کر اسے دیکھا۔ ابھی وہ اسے کچھ کہتا کہ ایک زور دار آواز کے ساتھ دروازے کو دھکیلتا غازان اندر آیا۔ اسے دیکھتے ہی خاطره فوراً اپنی جگہ سے اُٹھی۔
" How could you do this to me? "
اس نے ساکت کھڑی خاطره کو وحشت زدہ نظروں سے دیکھا۔ اب کی بار سب اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑے ہوئے تھے۔

" تم میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتی ہو؟ "
وہ دھاڑا ساتھ ہی ہاتھ کا مکا بنا کر فرش پر دے مارا۔ خاطره لڑکھڑا کر پیچھے ہٹی۔
" واہ !! تم تو میری سوچ سے زیادہ طاقتور نکلے۔ قانتا صحیح کہتی تھی ذوالفقار خاندان کے سب سے طاقتور جن ہو۔" کانوں میں پڑتی انجانی آواز پر خاطره نے چہرہ موڑ کر پیچھے دیکھا جہاں قاضی، گواہان سب غائب تھے اور جو کھڑا تھا وہ رہبان تو نہیں تھا۔
" تم۔۔۔"
" اوہ !! ڈارلنگ ڈرو نہیں اب تو کھیل شروع ہوا ہے۔"

خاطره کے خوف زدہ چہرے پر نظریں جمائے زوالی مکرو مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔
" کھیل تو اب میں ختم کروں گا۔"
غازان کہتا ہوا روپ بدل کر تیزی سے اس کی جانب بڑھا اور ایک فورس سے اسے دھکیلتا گھر سے باہر لے آیا۔ جہاں سرمئی آسمان سے روئی کے گالے گرنے لگے تھے۔
" غازان !! "
خاطره کا سکتہ ٹوٹا وہ تیزی سے باہر آئی۔ جہاں وہ دونوں ایک دوسرے کے مقابل کھڑے تھے۔
" کون ہو تم اور کیوں کر رہے ہو یہ سب؟ "
" آں !! تم مجھے نہیں جانتے؟ " زوالی نے افسوس سے اسے دیکھا۔
" میں وہ ہوں جس نے زوجیل کے ساتھ مل کر تمہارے باپ کو تم سے نہ صرف چھینا بلکہ موت کی نیند سلا دیا۔ کیونکہ تمہارے باپ نے میرے بھائی کو مار ڈالا تھا۔"
" تم۔۔۔"

غازان نے مٹھیاں بھینچی اور تیزی سے اس کی جانب بڑھا مگر اس سے پہلے ہی زوالی وہاں سے غائب ہوتا اس کے پیچھے آیا اور ایک زور دار گھونسا اس کی کمر میں مارا۔ غازان سیدھا سامنے درخت سے جا لگا۔
" غازان۔۔۔"
خاطره کے لب ہلے۔ وہ اب بھی ساکت خوف کے زیرِ اثر کھڑی انہیں دیکھ رہی تھی۔ کیا ہو رہا تھا اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔
" لیکن تمہیں جان کر خوشی ہوگی کہ تم سے دشمنی کی وجہ تمہارا باپ نہیں بلکہ تم خود ہو۔"

زوالی کہتا ہوا تیزی سے غازان کے قریب آیا جب ایک جھٹکے سے غازان نے اُٹھ کر اس کے دونوں ہاتھوں کو مضبوطی سے تھام لیا۔ ایک لمحہ لگا تھا، ماضی سے آگاہی حاصل کرنے میں کہ باپ کا دکھ، تنہائی، اذیت، تڑپ سب اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم گیا اور اس لمحے وہ حقیقت سے واقف ہوگیا۔
" تو تم نے میرے باپ کو اتنے سال قیدی بنائے رکھا۔ انہیں اذیت سے دوچار کیا۔ میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔"

ایک دم اس کے جسم میں شعلے بھڑک اٹھے۔ وہ زوالی کی طرف بڑھا اور اسے گردن سے دبوچ کر ہوا میں اچھال دیا۔ ہوا میں معلق زوالی فوراً اپنا روپ بدلتا سانپ کے روپ میں آیا۔
" ہاں میں ہی تھا وہ۔ تمہارے باپ نے میرے بھائی کو چھینا تھا اور تم۔۔۔ تم نے خاطره کو مجھ سے چھینے کی کوشش کی۔ اب تمہارا بھی وہی حال ہوگا جو قائم ذوالفقار کا کیا تھا۔" وہ پھنکارا۔
خاطره ساکت کھڑی ان دونوں کے بدلے روپ کو دیکھ رہی تھی۔ اس کا دل یہاں سے بھاگ جانے کا ہو رہا تھا۔ مگر شاک اتنا تھا کہ وہ ہل بھی نہیں پا رہی تھی۔ جبکہ ہوا میں معلق وہ دونوں آپس میں گتھم گتھا ہوچکے تھے۔

" تم اپنی ماں کو مارو گے؟ "
وہ قانتا کو موت کی نیند سلا کر زوجیل کی طرف مڑا تو وہ لرزتی ہوئی آواز میں پوچھنے لگی۔ اس کی حالت بدتر ہو چکی تھی۔ لیکن اسے اب بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ اس کے اپنے بیٹے نے اسے موت کے اتنا قریب پہنچا دیا ہے۔
" کیوں جب آپ میرے باپ کو مار سکتی ہیں تو میں آپ کو نہیں مار سکتا؟ " اپنا حیوانی روپ دھارے وہ زوجیل کے سامنے کھڑا پوچھ رہا تھا۔
" میں تمہاری ماں ہوں۔"

زوجیل نے اسے جذباتی کرنا چاہا مگر وہ بھول چکی تھی۔ وہ زوالقرنین ذوالفقار تھا۔ جو دل کے بجائے دماغ سے کام لیا کرتا تھا۔
" میں مسلمان ہوں ماما زوجیل !! اور یہ فرق رشتوں کو بھی ختم کر دیتا ہے۔"
آنکھوں میں آنکھیں ڈالے وہ جتاتا ہوا ان پر واضح کر گیا کہ نہ صرف نام، اس نے مذہب بھی بدل دیا تھا۔
" ویسے آپ کو حیرت تو ہوئی ہوگی مجھے یہاں دیکھ کر۔۔۔" وہ رکا اور ہاتھ بڑھا کر زوجیل کی گردن کو پکڑنا چاہا کہ وہ ایک جھٹکے سے پیچھے ہٹی۔ زوالقرنین مسکرا دیا۔
" ہمیشہ آپ مجھ پر نظر رکھتی آئی تھیں۔ آج میں نے کالے جادو کا استعمال کر کے آپ کے علم میں لائے بغیر آپ کا پیچھا کیا اور دیکھیں اب آپ کے سامنے کھڑا ہوں۔"
مسکرا کر کہتا اب کی بار وہ تیزی سے آگے بڑھا اور کوئی بھی موقع دے بغیر ایک جھٹکے سے اس کی گردن دھڑ سے الگ کر دی۔ اب وہ نیچے گرے زوجیل کے بےجان وجود کو دیکھ رہا تھا جو ریت کی مانند بکھرتا اس کی نظروں سے اوجھل ہونے لگا تھا۔ ایک قطرہ اس کی آنکھ سے نکلتا گال پر بہہ گیا۔
" یہ ضروری تھا۔" اس نے خود کو باور کرایا۔
" مجھے میکال کو خبر کرنی چاہیئے۔ غازان اُس زوالی کو اکیلے نہیں سنبھال سکتا۔"
سوچتا ہوا ایک آخری نظر اس کمرے پر ڈال کر وہ وہاں سے غائب ہوگیا۔

وہ بھپرا ہوا اپنے سامنے اس سیاہ سانپ کو دیکھ رہا تھا۔ لڑتے لڑتے دونوں کافی زخمی ہو چکے تھے۔ جبکہ دور کھڑی خاطره اب خوف کے بجائے فکر مندی سے غازان کو دیکھ رہی تھی۔ عجیب گھبراہٹ طاری تھی۔ یوں لگ رہا تھا کچھ بہت غلط ہو رہا ہے۔ وہ بار بار غازان کو پکار رہی تھی۔ مگر وہ دونوں ارد گرد کو فراموش کیے ایک دوسرے سے لڑنے میں لگے تھے۔
" غازان !! " اس نے پھر پکارا۔

" اوہ !! ڈارلنگ غازان نہیں زوالی کہو۔۔۔ کیونکہ چند سیکنڈ بعد تم میری بانہوں میں ہوگی۔"
غازان کو اپنی لپیٹ میں لیے زوالی اسے دیکھتے ہوئے بولا جب غصّے سے بھڑکتا ہوا غازان تیزی سے اس کی گرفت سے باہر نکلا اور اپنا بھاری ہاتھ سیدھا اس کے سر پر موجود شاہی نشان پر دے مارا۔
" آاااہ !! "
فضاء میں زوالی تھامس کی وحشت بھری دھاڑ گونجی۔ خاطرہ کانوں پر ہاتھ رکھے خوف زدہ نظروں سے اس سانپ کو مچلتے دیکھ رہی تھی کہ تبھی میکال اور زوالقرنین بھی وہاں آن پہنچے۔
" غازان تم ٹھیک ہو؟ "
میکال کی آواز پر غازان نے چونک کر ان تینوں کو دیکھا اور پھر نظر اس دشمنِ جاں پر ٹھہر گئی جو آسمان سے گرتی برف میں سجی سنوری کھڑی، اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
" غازان اپنے پیچھے دیکھو۔" زوالقرنین چلایا۔
اس نے چہرہ موڑ کر پیچھے دیکھا جہاں اچانک ایک بلیک ہال نمدار ہوا جو دیکھتے ہی دیکھتے غازان اور زوالی کو اپنے اندر کھینچتا غائب ہوگیا۔
" غازان !! "
کھلی فضاء میں ان تینوں کے چلانے کی آواز گونجی اور پھر۔۔۔ سناٹا چھا گیا۔ ایک لمحہ۔۔۔ بس ایک لمحہ لگا تھا اور اس اندھیری برفانی رات میں "وہ" ان سے بہت دور جا چکا تھا۔

ایک ہفتے بعد۔۔۔
آج کا موسم کافی خوشگوار تھا۔ نیلے آسمان پر چھائی سورج کی کرنوں نے ماحول میں پھیلی خنکی کو کچھ کم کر دیا تھا۔ ایسے میں بلیک کوٹ اور ریڈ اسکارف پہنے وہ سڑک پر موجود برف پر اپنے قدموں کے نشان چھوڑتی دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہی تھی۔ سیاہ آنکھوں میں اس وقت ویرانی چھائی ہوئی تھی۔ ہاتھوں میں دو تین شاپر بیگز پکڑے وہ یونہی سڑک پر نظریں جمائے آگے بڑھ رہی تھی۔ جب برف پر اپنے قدموں کے نشان کے ساتھ کسی اور قدموں کے نشان بھی بنتے نظر آئے۔ اس نے چہرہ موڑ کر دائیں جانب دیکھا۔ جہاں سامنے سڑک پر نظریں جمائے زوالقرنین اس کے ساتھ چل رہا تھا۔
" کیسی ہو؟ "
" کیسی ہو سکتی ہوں؟ "
واپس سامنے کی طرف دیکھتے ہوئے خاطره نے پلٹ کر سوال کیا۔ جو ایک پل کیلئے زوالقرنین کو خاموش کر گیا۔
" میکال بتا رہا تھا تم کراچی جا رہی ہو۔ کیوں؟ " اس نے بات بدلنی چاہی۔
" یہاں رہنے کیلئے اب بچا ہی کیا ہے اور کیا بھروسہ پھر کچھ۔۔۔"
" ہم ہیں یہاں پر اور جب ہم ہیں تو تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔" زوالقرنین اس کی بات کاٹتا ہوا بولا۔
خاطره نے ایک بار پھر چہرہ موڑ کر اسے دیکھا۔ اپنی آگ رنگ آنکھوں میں اپنائیت لیے وہ بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ اس ایک ہفتے میں میکال اور زوالقرنین نے اسے تنہا نہیں چھوڑا تھا۔ خاطره کی لاتعلقی اور بے رخی کے باوجود بھی وہ دونوں کسی سائے کی طرح اس کے ساتھ ساتھ تھے۔ کبھی کبھی اسے حیرت ہوتی تھی۔ انہیں دیکھ کر لگتا ہی نہیں تھا جیسے وہ کسی دوسری مخلوق کے ساتھ ہو۔ بلکہ وہ اسے اپنے جیسے ہی انسان لگتے تھے۔ بس کبھی زوالقرنین کی غیر متوقع طبیعت کے باعث وہ اکثر ڈر جایا کرتی تھی۔ جب وہ اچانک اس کے سامنے نمدار ہوجاتا تھا یا بیٹھے بیٹھے غائب۔۔۔
" آپ جانتے ہیں میں جب یہاں شفٹ ہوئی تھی تب سے مجھے رات میں عجیب وغریب خواب دکھائی دیتے تھے اور ان سب میں ایک بات کامن تھی۔"
" کیا؟ " زوالقرنین نے پوچھا۔

خاطره نے بغور اسے دیکھتے ہوئے گہرا سانس لیا اور پھر دھیرے سے بولی۔
" آگ رنگ آنکھیں !! جب میں نے پہلی بار آپ کو دیکھا تو۔۔۔"
" تو تمہیں لگا تم میری آنکھوں کو خواب میں دیکھتی ہو۔ رائٹ؟ " زوالقرنین نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ خاطره نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
" وہ زوالی تھا۔ جو تمہیں خواب میں آ کر ڈراتا تھا۔ تاکہ تمہارے اندر خوف بیٹھ جائے۔ کیونکہ جب تم یہاں شفٹ ہوئی تھیں اس کی نظر تم پر پڑ گئی تھی۔ شاید تم اُسے اچھی لگی تھیں۔ مگر جیسے ہی اسے پتہ چلا غازان تم پر اپنی مہر لگا چکا ہے تو بس بدلے کی آگ پھر بھڑک اُٹھی۔"
وہ کہہ کر خاموش ہوگیا۔ غازان کا ذکر آتے ہی ان کے درمیان خاموشی حائل ہو جاتی تھی۔
" ویسے ہم جنوں کی آنکھیں زیادہ تر آگ رنگ کی ہوتی ہیں۔" اس نے پھر بات بدلنے کی کوشش کی۔
" مگر غازان کی تو نیلی تھیں۔" کوشش ناکام۔
" اس کی آنکھیں رباب ماما پر تھیں۔ سمندر جیسی نیلی۔ پانی کی طرح شفاف۔ جنہیں دیکھ کر سکون ملے۔"
زوالقرنین کسی ٹرانس کی کیفیت میں بول رہا تھا۔ رباب کے ذکر میں ایسی عقیدت تھی کہ خاطره اسے دیکھتے رہنے پر مجبور ہوگئی۔
" چلو تمہارا گھر آگیا۔ اب میں چلتا ہوں۔"
کہنے کے ساتھ ہی وہ فوراً وہاں سے غائب ہوگیا۔ خاطره نے سر جھٹکا اور گھر کے اندر داخل ہوگئی۔
سامان کو ڈائننگ ٹیبل پر رکھ کر اس نے ایک نظر خالی گھر پر ڈالی۔ جہاں وہ اب تنہا رہ گئی تھی۔ تھکے ہوئے انداز میں گہرا سانس اپنے اندر کھنچتی وہ سیڑھیاں چڑھ کر اپنے کمرے میں چلی آئی۔ مگر بالکنی کا کھلا دروازہ دیکھ کر ٹھٹھک کر رکی۔

" یہ کیسے کھلا میں تو بند کر کے گئی تھی۔"
سوچتے ہوئے وہ آگے بڑھی۔ ہاتھ بڑھا کر بالکنی کا دروازہ بند کرنا چاہا کہ ایک تیز ہوا کا جھونکا اس کے چہرے کو چھو کر گزرتا بہت سی پرانی یادوں کو تازہ کر گیا۔ وہ ٹھہر سی گئی۔
" مجھے یہاں سے چلے جانا چاہیئے ورنہ یہ یادیں مجھے جینے نہیں دینگی۔"
اسنے افسردگی سے بڑبڑاتے ہوئے دروازہ بند کیا۔ ایک مسئلہ یہ بھی تھا وہ جائے تو جائے کہاں؟ اس کا تو کوئی دوسرا ٹھکانہ بھی نہیں تھا۔ وہ سوچتی ہوئی پیچھے مڑی کہ ایک فلک شگاف چیخ اس کے حلق سے نکلی۔
" مس خطرہ تم واقعی "خطرہ" ہو کان پھاڑنے ہیں کیا؟ " وہ مسکراتا ہوا بولا۔
خاطره پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنے سامنے کھڑے اس جن کو دیکھ رہی تھی۔ جب وہ چلتا ہوا اس کے پاس آیا۔
" غازان !! "
بےاختیار اس کے منہ سے نکلا۔
" ہاں میں۔۔۔ کیوں تمہیں خوشی نہیں ہوئی؟ مجھے تو لگا تھا میرے جانے کے بعد تم مجھے یاد کرو گی۔" خاطره کے چہرے پر چھائے تاثرات سے محظوظ ہوتا وہ مزے سے بولا۔ کتنے دنوں بعد اس چہرے کو دیکھ رہا تھا۔
" آپ تو۔۔۔"
" مرا نہیں تھا یار !! اس زوالی نے خود مرنے سے پہلے مجھے اپنے ساتھ کوہ قاف پہنچا دیا تھا۔ جس کے بعد وہ تو مر گیا مگر مجھے سزا کے طور پر قید کر دیا گیا۔"
غازان اس کی بات کاٹتا ہوا بولا۔ خاطره اب بھی بےیقینی سے اسے دیکھ رہی تھی۔
" سزا؟ "
" ہاں !! بادشاہ تھامس کے سپاہیوں نے مجھے قید کرلیا تھا پر وہ بھول گئے، میں غازان ذوالفقار ہوں۔ میری طاقت کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔"
وہ مسکراتا ہوا بتا رہا تھا۔ جبکہ خاطره ناسمجھی سے اسے دیکھے جا رہی تھی ساری باتیں سر کے اوپر سے گزر رہی تھیں۔
" مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔"

" اچھا چھوڑو اسے، اپنی بات کرتے ہیں۔"
غازان نے کہتے ہوئے اس کے دونوں ہاتھ تھامے اور سیاہ آنکھوں میں جھانکتا ہوا وہ اس سے پہلے کچھ بولتا۔۔۔ خاطره ایک دم آگے بڑھتی اس کے سینے سے جا لگی۔
" مجھے لگا میں نے آپ کو کھو دیا میں۔۔۔ میں کبھی اپنے آپ کو معاف نہیں کر پاتی۔ اس ایک ہفتے میں مجھے اندازہ ہو گیا ہے کہ میں آپ سے کتنی محبت کرتی ہوں۔ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا آپ کیا ہیں۔ انسان یا جن میں بس اتنا جانتی ہوں کہ آپ صرف میرے ہیں۔"
اس کے سینے سے لگی، آج وہ سب کچھ کہہ دینا چاہتی تھی جو پہلے کبھی نہیں کہا تھا۔
" تمہیں کہنے کی ضرورت نہیں میں سب جانتا ہوں۔ میرے لیے اتنا ہی بہت ہے کہ تمہاری ساری غلط فہمی دور ہوگئی۔" وہ اس کے آنسو صاف کرتا ہوا بولا کہ تبھی پیچھے سے آتی آواز پر ایک جھٹکے سے اس سے دور ہوا۔
" واپس آگئے ہو تو ہمیں بھی اپنا دیدار کروا دینا تھا۔ آخر ہم بھی تمہارے کچھ لگتے ہیں۔" میکال چہرے پر معصومیت سجائے بولا۔
" ویسے شادی میں ہم بھی انوائٹڈ ہیں یا وہ بھی تم دونوں نے چھپ کر کرنی ہے۔" زوالقرنین اب بھی طنز کرنے سے باز نہ آیا۔
" رکو۔۔۔ ابھی بتاتا ہوں۔"
غازان دانت پیستے ہوئے ان دونوں کی جانب بڑھا جس پر وہ قہقہہ لگاتے فوراً وہاں سے غائب ہوگئے۔

" اپنے احساس سے چھو کر مجھے صندل کر دو
میں کہ صدیوں سے ادھورا ہوں مکمل کر دو
نہ تمہیں ہوش رہے اور نہ مجھے ہوش رہے
اس قدر ٹوٹ کے چاہو مجھے پاگل کر دو
تم چھپا لو مرا دل اوٹ میں اپنے دل کی
اور مجھے میری نگاہوں سے بھی اوجھل کر دو
مسئلہ ہوں تو نگاہیں نہ چراؤ مجھ سے
اپنی چاہت سے توجہ سے مجھے حل کر دو
اپنے غم سے کہو ہر وقت مرے ساتھ رہے
ایک احسان کرو اس کو مسلسل کر دو
مجھ پہ چھا جاؤ کسی آگ کی صورت جاناں
اور مری ذات کو سوکھا ہوا جنگل کر دو۔۔۔"
وہ اس کا ہاتھ تھامے اس وقت اس خوبصورت سے باغ میں موجود تھی۔ ہر رنگ و نسل کے پھول اطراف میں پھیلے ہوئے تھے۔ آسمان سے اُترا قوس قزاح کے رنگوں کا نظارہ دیکھنے والی آنکھ کو اپنے سحر میں جکڑ رہا تھا۔ چاروں طرف پھیلی پرندوں کی آوازیں کانوں میں رس گھول رہی تھی ۔ وہ اس کے ساتھ نرم ہری گیلی گھاس پہ ہم قدم تھی۔ جب سامنے موجود خوبصورت سرخ گلاب کو دیکھ کر آنکھیں جھلملا اُٹھیں۔ غازان نے اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا اور مسکراتے ہوئے اس پھول کی جانب اشارہ کیا جو اگلے ہی لمحے اس کے ہاتھ میں موجود تھا۔ وہ مسکراتا ہوا سرخ گلاب کو اس کے بالوں کی زینت بنانے لگا۔
" بہت خوبصورت !! "

سمندر جیسی نیلی آنکھوں سے وہ اسے بغور دیکھتا ہوا بولا۔ جو اس وقت سیاہ فراک میں ملبوس، کانوں میں سرخ نگینوں کے ٹاپس پہنے، اپنے لمبے کھلے سیاہ بالوں میں سرخ گلاب لگائے اس کا دل دھڑکا رہی تھی۔ وہ خود بھی اس وقت سیاہ شلوار قمیض میں ملبوس تھا جو اس نے خاطرہ کی خواہش پر پہنا تھا۔
وہ دھیرے سے مسکرائی اور اپنی نظریں پھیر لیں غازان کی لو دیتی آنکھوں میں دیکھنا اس کے بس کی بات نہیں تھی۔
" نظریں نہیں ملاؤ گی؟ "
" نہیں۔۔۔"
مسکراہٹ دباتے ہوئے اس نے نفی میں سر ہلایا۔ سرخ و سفید چہرے پہ اُٹھتی گردتی پلکوں کی جھالر، اس کے آگے سب کچھ بے معنی لگنے لگا۔ وہ جھکا اور اس کے کان میں سرگوشی کرتا ہوا بولا۔
" دیوونتم !! "
ختم شد


تمام قسط وار کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں


تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں



Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں