خونی شیطان (قسط نمبر2)

Urdu Stories
 

خونی شیطان (قسط نمبر2)

سراج کی عمر 34 برس تھی مگر وہ دیکھنے سے بلکل 24 25 برس کا لگتا تھا وہ ایک بڑا بزنس مین تھا اس کا نام ملک کے نامور بزنس من کی فہرست میں آتا تھا۔

اس کا تعلق بنیادی طور پر ایران سے تھا اس کے والد فارسی جب کہ والدہ پاکستانی تھیں ۔ان دونوں کی محبت کی شادی تھی شادی کے شروع کے 3 سال تو وہ دونوں ایران میں رہے مگر سراج کی والدہ کی اچانک موت کے بعد اس کے والد نے اپنی مرحومہ بیوی کی ایک کزن سے ہی شادی کرلی تھی جس سے انکی زندگی ایک بار پھر رنگین ہو گئی تھی اور انکا بیٹا سراج بھی سنمبھل گیا تھا ۔۔اب وہ مستقل پاکستان میں ہی رہنے لگے ۔سراج جب 10سال کا ہوا تو اس کے والد وفات پا گۓ اور 21 سال میں دوسری والدہ بھی اس دنیا سے کوچ کر گئیں۔پھر وہ پاکستان چھوڑ کر امریکہ جا بسا تھا وہاں پر اس نے اپنی خوبصورتی کا فائدہ اٹھاتے ہوۓ ماڈلنگ شروع کردی اور کافی نام کمایا ۔ماڈلنگ کو خیرباد که 28 برس کی عمر میں وہ واپس پاکستان لوٹ آیا اور اپنا کاروبار کرنے لگا.
 
"شکریہ "
سدرہ نے اس کا شکریہ ادا کیا۔۔جس کے جواب میں سراج نے ایک گہری نگاہ اس پر ڈالی
"شکل سے ایسی لگتی نہیں ہو کیا مجبوری تھی جو ایسا کام کیا ؟"
سراج کی بات پر سدرہ کا چہرہ شرمندگی سے لال ہو گیا
"جی وہ میری امی کی طبیعت بہت خراب ہے دوائی کے لیے پیسے نہیں تھے میرے پاس "
وہ صاف گوئی سے بولی
"گھر کہاں ہے تمہارا ؟"
"یہاں نہیں ہے "

سدرہ اس کو اپنا اڈریس سمجھانے لگی اور وہ خاموشی سے کھڑا سنتا رہا ۔
"چلو میرے ساتھ تمہیں گھر چھوڑ دیتا ہوں "
سدرہ کے پاس تو واپسی کے کرائے کے پیسے بھی نہ تھے تو وہ چاروناچار سراج کے ساتھ ہو لی ۔۔
دونوں پارک سے باہر نکل کر پارکنگ میں آچکے تھے سراج تیز قدم اٹھاتا ایک کالی لینڈ كروزر کی جانب بڑھا تھا سدرہ کو اس کے ساتھ چلنے کی خاطر لگ بھگ بھاگنا ہی پڑ رہا تھا کیوں کہ اس کے چلنے کی رفتار کافی تیز تھی مگر سراج کا دھیان سدرہ کی طرف بلکل نہ تھا وہ خاصہ سنجیدہ قسم کا انسان تھا ۔
"بیٹھو "
سراج گاڑی میں بیٹھتا ہوا سدرہ سے گویا ہوا تھا ۔۔
سدرہ نے گاڑی کا دروازہ دوسری جانب سے کھولا اور اس کے برابر والی سیٹ پر بیٹھ گئی تو سراج نے گاڑی سٹارٹ کردی ۔۔کافی دیر دونوں کے بیچ خاموشی رہی پھر سراج نے اس خاموشی کو توڑا
"ہوا کیا ہے آپ کی والدہ کو ؟"

سراج نے سڑک پر سے نظر ہٹاے بنا ہی سدرہ سے سوال کیا
سدرہ کو اس کی آواز بیحد اچھی لگی سراج کی آواز واقعی بہت خوب صورت تھی اسکو اپنی زندگی میں اکثر اپنی آواز کی تعریف سننے کو ملتی تھی مگر سدرہ نے اس سے ایسی کوئی بات نہ کی۔
" ہارٹ پیشنٹ ہیں امی "
"اہ اللّه صحت عطاء کرے "
"امین "
سراج کو وہ بھولی بھالی لڑکی پہلی نظر میں ہی بھائی تھی جس کی وجہ تھی سدرہ کا مکمل لباس اور اس کی حیا ۔سراج نے اپنی زندگی میں ایک سے ایک خوبصورت عورت دیکھ رکھی تھی مگر وہ جس ماحول سے تعلق رکھتا تھا وہاں حیا دار عورت کا ملنا بہت مشکل تھا ۔یہی وجہ تھی کہ سراج کوسدرہ کے حسن نے نہیں بلکہ حیا نے اپنی طرف متوجہ کیا تھا ۔

وہ لوگ سدرہ کے گھر پہنچ چکے تھے راستے سے ہی سراج نے سدرہ کو دوا وغیرہ لے دی تھی اور کچھ رقم دینے کی بھی کوشش کی مگر سدرہ نے وہ لینے سے انکار کردیا تھا ۔۔۔
"آئیے نہ آپ پلیز اندر آئیے "
سدرہ کے کہنے پر سراج اس کے ساتھ اس کے گھر ہو لیا سدرہ نہایت احترام سے اسکو اندر لے آئ ۔اس کا چھوٹا سا گھر تھا جس میں ایک صحن اور ایک ہی کمرہ تھا ۔سدرہ سراج کو اسی کمرے میں لےآئ جدهر سدرہ کی امی پہلے سے موجود تھیں۔
اسلام و علیکم آنٹی"
"وعلیکم اسلام بیٹا سدرہ یہ لڑکا کون ہے ؟"
سدرہ کی امی نے فکرمندی سے پوچھا تو سدرہ نے سارا ماجرہ اپنی امی کے گوش گزار کر دیا ۔۔
"اہ اچھا اچھا شکریہ بیٹا "

ناصرہ شمیم سراج سے بولی ۔۔جس کے جواب میں سراج نے کوئی جواب نہ دیا بس چپ چاپ بیٹھا رہا ۔۔۔
سدرہ اس کے لیے چاے بنانے چلی گئی۔ اور کچھ دیر بعد ہاتھ میں چاے کا کپ لیے کمر ے میں داخل ہوئی ۔"آنٹی آپ کو ہارٹ پرابلم ہے تو ڈاکٹرز نے کیا مشورہ دیا ہے آپ کو اس حوالے سے ؟"
"بس بیٹا کیا بتاؤں ۔۔۔۔آپریشن کا مشورہ دے رکھا ہے ڈاکٹر نے تو مگر ۔۔۔۔۔۔"
اتنا بول کر ناصرہ خاموش ہو گئی تھی مگر اس کی آنکھوں میں آنسو تیر گۓ۔۔
"میں کل ہی آپ کے آپریشن کا انتظام کرتا ہوں پیسوں کی فکر آپ نہ کریں "
سراج کی بات پر ناصرہ نے حیرت سے اس کو دیکھا اور سوچنے لگی کہ ایک میرا بیٹا ہے جس کو سگی ماں کی کوئی پروا نہیں اور ایک یہ ہے جو اجنبی ہو کر بھی میرے لیے اتنا کر رہا اتنے مہنگے آپریشن کا خرچہ اپنی جیب سے دینے کو تیار ہے 

سراج چاے پی چکا تو جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا ۔۔اور اپنے والیٹ میں سے ایک کارڈ نکال کر سدرہ کو تھماتے ہوے بولا "یہ میرا کارڈ ہے جب بھی کسی بھی چیز کی ضرورت ہو فون كرسكتی ہو ۔۔ٹھیک ہے اور پریشان مت ہونا کسی بھی چیز کے لیے "
"جی "
سدرہ جواب میں بس اتنا ہی بولی ۔۔سراج کو ایسا محسوس ہوا جیسے اس کے اندر کوئی بات ہے جو وہ کہنا تو چاہ رہی ہے مگر که نہیں پا رہی۔
"ویسے تم کرتی کیا ہو ؟
سدرہ کی پریشانی کو بھانپتے ہوے سراج نے خود سوال کر ڈالا
"فی الحال تو ایف ایس سی کیا ہے"
"اچھا گڈ "
"ارے بیٹا تم تو ہمارے لیے فرشتہ بن کر آے ہو سچ کہوں تو یہ ڈاکٹر بننا چاہتی ہے مگر ہمارے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے "
سدرہ کی والدہ بیچ میں بول پڑیں جس پر سدرہ کا چہرہ شرمندگی سے سرخ ہونے لگا اس کو ایک اجنبی سے یوں مالی امداد لینا بلکل اچھا نہ لگ رہا تھا ۔۔
"سراج نے ایک گہری نگاہ سدرہ کے چہرے پر ڈالی پھر کچھ دیر بعد گویا ہوا
"کل میرے آفس آجانا تم کارڈ پر ہی اڈریس بھی موجود ہے "
"جی ٹھیک ہے "

سدرہ بولی اور سراج اس کو باے کہتا دروازے کی جانب بڑھ گیا
***
سراج تو جا چکا تھا مگر سدرہ ٹکٹکی باندھے ابھی تک اس دروازے کو گھور رہی تھی جہاں سے کچھ دیر پہلے سراج گیا تھا ۔۔
"سدرہ ہ ہ ۔۔۔۔۔"
ناصرہ شمیم کی آواز سے وہ ہوش میں آی تھی
"جی امی آرہی ہوں "
سدرہ نے دروازے کی کنڈی لگائی اور اندر چل دی ۔۔۔
"امی آپ تھوڑی دیر سو جایں میں آپ کا سر دبا دیتی ہوں "
نہ میری بچی تو تھوڑی دیر آرام کر لے اور ہاں ہما سے که دینا کہ آج کا کھانا بهجوا دے وہ ہمارے پاس ایک پائی نہیں کہ کچھ بنا لیں "
"جی که آتی ہوں بھابھی سے "

رات کے 11 بج رہے تھے سدرہ کی امی گہری نیند سو چکی تھیں ویسے تو اس وقت تک سدرہ بھی سو جایا کرتی تھی مگر آج نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔۔اس کو رہ رہ کر سراج ہی کا خیال آرہا تھا ۔۔
بچپن میں اسکی امی اس کو ایک کہانی سنایا کرتی تھیں جس میں ایک غریب لڑکی کی زندگی میں بہت سے دکھ ہوتے ہیں مگر پھر ایک دن ایک شہزادہ آ تا ہے اور اس لڑکی کے سارے دکھوں کو خوشیوں میں بدل ڈالتا ہے۔تب سدرہ نے اس کہانی کو بہت دل سے لگا رکھا تھا مگر جیسے جیسے وہ بڑی ہوتی گئی تو یہ کہانی بھی اس کے ذہن سے مندمل ہوتی گئی مگر آج نہ جانے کیوں اس کو اپنے بچپن کی وہ کہانی یاد آگئی تھی نہ صرف یاد بلکہ حقیقت میں بدلتی دکھائی دینے لگی تھی ۔۔

اسی خیال سے ہی سدرہ کے حسین چہرے پر ایک دلکش مسکراہٹ آگئی تھی مگر اگلے ہی پل اس کو اپبے منگیتر نعمان کا خیال آیا تو وہ اپنے اندر عجیب سی بے چینی محسوس کرنے لگی وہ سراج کا خیال جھٹکتے ہوے اپنے بستر پر آلیٹی اور آنکھیں بند کرلی اور آنکھیں بند کرتے ہی اس کی نظر کے سامنے سراج کا ہی چہرہ گھومنے لگا اس نے جھٹ سے اپنی آنکھیں کھول دیں ۔۔
"یہ کیا ہو رہا ہے مجھے ؟ نہیں میں نعمان کی امانت ہوں مجھے ایسا بلکل نہیں سوچنا "
وہ دل ہی دل میں خود سے مخاطب تھی یہی سوچتے سوچتے اس کی آنکھ لگ گئی

آج سدرہ کو سراج سے ملے پورا ہفتہ گزر چکا تھا مگر چوبیسوں گھنٹے اس کی یاد سدرہ کے ساتھ رہنے لگی تھی جس کی وجہ سے اس کے چہرے پر ایک خاص چمک نے لے لی تھی مگر وہی چمک نعمان کو یاد کرتے ہی ماند پڑ جاتی ۔سدرہ کے لیے بہت مشکل ہوتا جارہا تھا یہ سب کچھ وہ بار بار سراج کا خیال جھٹکتی تھی مگر سب کوشش بیکار ۔۔یہی وجہ تھی کہ وہ سراج کے آفس بھی نہ جا پارہی تھی ۔۔اس کو ڈر لگنے لگا تھا خود سے خود کے بے قابو ہوتے جذبات سے اس کو ایسے لگتا تھا کہ اگر وہ بس ایک بار اور سراج سے مل لے گی اس کو دیکھ لے گی تو بلکل ہی لٹ جائے گی اس کی ہوکر رہ جائے گی تب ہی حقیقت کو سمجھتے ہوۓ اس نے سراج کے آفس جانے کا فیصلہ ترک کر دیا تھا ۔۔مگر دوسری ہی طرف اس کو اپنی امی کی بھی اتنی ہی فکر تھی ان سب کے بیچ سدرہ بری طرح الجھ کر رہ گئی تھی

سدرہ باورچی خانے میں کھڑی آٹا گوندھنے میں مصروف تھی کہ اس کے حواسوں پر پھر سے سراج سوار ہونے لگا ۔۔اور وہ نہ چاہتے ہوۓ بھی اس کے خیالوں میں کھو گئی ۔۔۔سدرہ کو اس کی مال و دولت سے ہر گز کوئی غرض نہ تھی وہ ان لڑکیوں میں سے نہ تھی جو گھر، گاڑی اور پیسے کے پیچھے بھاگتی ہیں وہ تو ان لڑکیوں میں سے تھی جن کے لیے سب سے زیادہ اہمیت صرف اچھا جیون ساتھی رکھتا ہے ۔ اور اس کو سراج کی اچھائی نے ہی متا ثر کیا تھا جہاں سب نے برے وقت میں اس سے منہ پھیر لیا تھا وہاں سراج کا ایک اجنبی ہوتے ہوۓ بھی اس کے لیے اتنا کچھ کرنا ۔۔"بہت کم ہوتے ہیں آپ جیسے لوگ نایاب ہیں آپ "
سدرہ خیالوں میں گم خود ہی سے باتیں کیے جارہی تھی ۔اور بے خیالی میں اس نے اپنے سامنے پڑے آٹے پر سراج لکھ ڈالا ۔۔۔
"اوو ہو ! یہ سراج کون ہیں "
ندا کی آواز پر سدرہ یک دم گھبرا کر ہوش میں آی تھی
"کون سراج نہیں تو کوئی بھی نہیں "

سدرہ جی جھوٹ تو نہ بولیں یہ کیا ہے پھر ؟"
ندا نے شوخی سے آٹے پر لکھے نام کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا تھا ۔۔۔
ندا سدرہ کی اچھی دوست تھی وہ اس کے پڑوس میں ہی رہتی تھی وہ اکثر سدرہ سے ملنے اس کے گھر آجایا کرتی یا کبھی سدرہ اس کے گھر چلی جاتی تھی آج بھی ندا اچانک ہی سدرہ کے گھر آگئی تھی ۔۔
"یہ یہ تو ۔۔۔۔۔"
سدرہ کی نظر جب سراج کے لکھے نام پر پڑی تو اس کو اپنی نادانی پر بہت غصہ آنے لگا تھا

"همم همممم ۔۔بولو بولو مجھ سے بھی چھپا رہی جیجو کو ہاں ؟"
ندا کی ایسی بات پر سدرہ کے چہرے پر ایک درد بھری مسكراہٹ آگئی ۔
"اب تمہیں کیا بتاؤں تم سے تو کیا میں تو خود سے ہی چھپا رہی اپنے جذبات "
"نہیں یار ایسی کوئی بات نہیں ۔۔ در اصل کچھ دن پہلے امی کی دوائی کے لیے پیسے نہیں تھے تو راستے میں یہ مل گۓ تھے انہوں نے میری مدد کی تھی اور که رہے تھے کہ امی کے آپریشن کا خرچ بھی اٹھالینگے "
"واہ یار زبردست پھر تو مگر اس کو اندازہ بھی تھا کہ دل کے آپریشن کا خرچہ ہے کتنا ،؟"
ندا بولی
"اللّه نے بہت دے رکھا ہے ان کو "

سدرہ خلا میں گھورتے ہوے بولی ۔۔۔اس کو سراج کا ذکر کرنے سے بھی ایک عجیب سے مسرت حاصل ہورہی تھی
"اپنا کارڈ بھی دیا ہے بول رہے تھے میرے آفس آجانا "
"تو چلی جا نا یار پھر تو موٹی پارٹی ہاتھ لگی ہے "
ندا شوخی سے ہنسی
"نہیں ندا "
سدرہ بس اتنا ہی بولی ۔۔۔
"همم سمجھ گئی میری خود دار دوست کو کسی سے مدد لینا اچھا نہیں لگ رہا ہے نہ ؟ اچھے سے جانتی ہوں میں تمہیں پر یار میں تو کہتی ہوں کہ تو اس کو اللّه کی طرف سے مدد سمجھ کر کھلے دل سے قبول کر ہی لے" ۔۔۔۔مگر سدرہ ۔۔۔۔ایک بات ہے "
ندا کچھ سوچتے ہوۓ بولی
" کیا بات ہے ؟"
"اتنی مہربانی وہ کیوں کر رہا اس کے پیچھے اس کا کوئی مقصد بھی ہو سکتا ہے ورنہ آج کل کون کسی کے لیے اتنا کرتا ہے "
"نہیں ۔۔۔سراج ایسے نہیں ہیں "

ندا کی بات پر سدرہ کے مزاج بگڑنے لگے تھے مگر کیوں یہ بات وہ خود بھی سمجھ نہ سکی ۔۔
"اوووو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہو و ۔۔۔۔۔۔۔۔ سراج صاحب کے بارے میں ذرا سا کیا که دیا اتنااا ۔۔۔۔۔برا لگ گیا "
ندا ہنستے ہوۓ بولی
"آخر ارادہ کیا ہے میڈم آپ کا ؟"
"اوفو ندا ۔۔۔چپ ہو جا میں ویسے ہی بہت پریشان ہوں "
"کیوں کیا ہوا پریشان کیوں ہے ؟"
ندا سنجیده ہوئی تھی
"یار سچ کہوں تو ۔۔۔۔۔۔۔۔"
اتنا که کر سدرہ نظریں جھکاے کھڑی ہو گئی جب کہ ندا سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگی ۔سدرہ کے چہرے پر ایک رنگ آیا اور چلا گیاوہ ایک بار پھر گویا ہوئی

"کچھ سمجھ نہیں آتی جس دن سے ان سے ملی ہوں انکا خیال جاتا ہی نہیں لاکھ کوشش کر چکی ہوں دل کو سمجھانے کی کہ میں کسی اور کی ہوں مگر یہ جو دل ہے نہ ایک نہیں سن رہا میری یہ تو بس ۔۔۔۔۔سراج کا ہی ہو کر رہ گیا ہے ندا میں نے بہت کوشش کی اس حقیقت سے بھاگنے کی مگر اب لگتا ہے کہ ہار گئی ہوں میں اپنے دل کے اگے ۔۔۔"
"همم میں تو تیری حالت دیکھ کر پہلے ہی سمجھ گئی تھی کہ کچھ گڑبڑ ضرور ہے "
"ندا بتا نہ میں کیا کروں ؟"

"وہ سب بعد میں سوچتے ہیں فلحال اس وقت سب سے امپورٹنٹ ہے تیری امی کاعلاج کچھ مت سوچ بس اللّه پر بھروسہ رکھ اور چلی جا اس کے آفس ۔۔"
"مگر ندا ۔۔۔"
"مگر وگر کچھ بھی نہیں تو جاۓ گی بس "
ندا بہت ضدی تھی اور سدرہ یہ جانتی تھی کہ ندا اس سے اپنی بات منواکر ہی دم لےگی ۔۔تب ہی اس نے ندا کے آگے ہتھیار ڈال دیے
"اچھا بابا ٹھیک ہے کل ہی چلی جاؤنگی پر تو بھی ساتھ چلنا "
"بلکل یار بلکل "
"اچھا تو بیٹھ میں تجھے اپنے ہاتھوں کے گرم گرم پکوڑے کھلاتی ہوں "
"واو ۔۔جلدی آنا ہاں "
یہ کہتی ندا وہاں سے چل دی
اور سدرہ پکوڑے بنانے لگی


 خونی شیطان ( قسط نمبر 3)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں



Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں