خونی شیطان (قسط نمبر3)

Urdu Stories
 

خونی شیطان (قسط نمبر3)

ایکسکیوز می ! مجھے سر سراج علی ذولفقار سے ملنا ہے "
سدرہ اور ندا سراج کے آفس میں موجود تھیں جو ایک جدید طرز کی شاندار بلڈنگ پر مشتمل تھا ۔۔
"سر اس وقت کسی سےامپورٹینٹ میٹنگ میں بزی ہیں آپ ویٹ کریں پلیز ۔۔۔"
"دیکھیں مجھے ضروری کام ہے کاینڈلی ہمیں اندر جانے دیں "
سدرہ کی بات پر ریسپشنسٹ نے سدرہ اور ندا کو بغور دیکھا اور منہ بناتی ہوئی سراج سے رابطہ کرنے لگی
"ہیلو سر یہاں دو لڑکیاں آی ہیں آپ سے ملنے کا که رہی ہیں میں نے منع کیا مگر فورس کرنے لگی ؟
نام ۔۔۔۔۔
نام کیا بتایا آپ نے اپنا ؟"
وہ فون پر اپنا ایک ہاتھ رکھتی سدرہ سے مخاطب ہوئی
" سدرہ "
"سر سدرہ نیم ہے ۔۔۔۔۔
اہ اوکے "
میم آپ اندر جاسکتی ہیں "
ریسپشنسٹ نے سدرہ اور ندا کو سراج کے کمرے میں جانے کی اجازت دے دی تو وہ دونوں سراج کے کمرے کی طرف چل دیں ۔
ایک اتنے بڑے آدمی سے ملنے جانے کے خیال سے ندا یہاں جینز پہن کر آی تھی جب کہ سدرہ مکمل عبایہ میں تھی پیر میں ایک معمولی مگر پیاری سی سینڈل تھی جس میں اس کے گورے گورے پیر بہت خوب صورت لگ رہے تھے ۔۔ایک ہاتھ میں نازک سا بریسلیٹ تھا۔۔تھا تو وہ بھی معمولی سا ہی مگر سدرہ کے خوب صورت ہاتھ میں آکر انمول لگ رہا تھا ۔۔
"ہیلو ! کیا ہم اندر آسکتے ہیں ؟"
سدرہ کمرے کا دروازہ کھولتے ہوۓ بولی ۔
"یس اوفکورس !"
سراج نے خوش دلی سے اس کو اندر آنے کی اجازت دی ۔۔
"مسٹر ملک میں آپ سے شام میں بات کرتا ہوں"
سراج کچھ دیر پہلے جس سے بات کرنے میں مصروف تھا اس سے گویا ہوا
"اوکے "
وہ شخص کرسی پر سے اٹھا اور سراج سے ہاتھ ملاتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا
"پلیز ہیو آسیٹ"
سدرہ اور ندا سراج کے میز کے سامنے پڑی کرسیوں پر بیٹھ چکی تھی ۔۔۔سراج کالے رنگ کے تھری پیس سوٹ میں ملبوس ایک عالیشان قسم کی موونگ چیئر پر براجمان تھا مگر اپنا کوٹ اتار کر اس نے پیچھے چیئر پر ڈال رکھا تھا ۔ اس کی شرٹ کے اوپر کے دو بٹن کھلے تھے اس نے پیرس کے ایک بڑے برینڈ کا پرفیوم لگا رکھا تھا اور کلائ پر امریکہ کے مشہور برینڈ کی سلور رنگ کی گھڑی بندهی تھی ۔اس کو پہننے اوڑھنے کا کمال ڈهنگ تھا ۔سراج پہلی ہی نظر میں ندا کے بھی دل تک گیا تھا وہ یک ٹک اسے ہی دیکھے جارہی تھی ۔۔
"اب کیسی طبیعت ہے آپ کی والدہ کی ؟آپ آئیں ہی نہیں میں نے انتظار کیا تھا آپ کا ۔۔"
"امی کی طبیعت بس ٹھیک نہیں رہتی اب "
"همم ۔۔۔۔ ویسے میں ڈاکٹر سے بات کر چکا ہوں کل ہی آپ اپنی والدہ کو لے کر ہوسپٹل چلی جایں آپریشن کی معلومات وغیرہ لینے ۔۔میں دوبارہ بھی کال کر دونگا ڈاکٹر کو وہ کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوۓ بولا
سدرہ بار بار سراج سے نظر چرا رہی تھی اور اس بات کو سراج نے بخو بی محسوس کیا تھا۔
"تھنکس آ لوٹ"
سدرہ بولی جس کے جواب میں سراج نے بس گردن ہلا کر جواب دیا تھا ۔۔۔
"میں سدرہ کی بیسٹ فرینڈ "
ندا موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوۓ اپنا تعارف کرانے لگی ۔۔جس کو سراج سامنے سامنے نظر انداز کر گیا وہ اس کی بات کا بنا کوئی جواب دیئیے سنجیدہ بیٹھا رہا اور ندا بیچاری اپنا سا منہ لے کر رہ گئی ۔۔ وہ بندے کی پہچان رکھتا تھا سدرہ اور ندا کے بیچ کے فرق کو اچھے سے سمجھ گیا تھا ویسے بھی وہ کسی سے بے وجہ بات نہ کرتا تھا
"اوکے ہم چلتے ہیں تھنکس اگین "
سدرہ یہ بولتی کرسی سے اٹھی
اور تیزی سے دروازے کی جانب بڑھی ندا بھی اس کے ہمراہ ہو لی ۔۔
"مس سدرہ "
سراج نے اس کو پکارا جس پر سدرہ پلٹ کر اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔۔
"کل آپ اس اڈریس پر بھی چلی جائیے گا ۔۔سراج نے ایک پرچی میز پر رکھی ۔۔
"مگر یہ کس جگہ کا ایڈریس ہے "
"شہر کی سب سے بڑی میڈیكل یونیورسٹی کا آپ کی امی نے بتایا تھا کہ آپ پڑھائی میں بہت اچھی ہیں تو پھر اسٹڈیز کونٹینیو کرنا تو بنتا ہے نہ ۔۔۔اور ہاں فیس کی فکر تم مت کرنا تم بس پڑھائی پر دھیان دو اوکے "
سدرہ کے دل کی دھڑکن بہت تیز ہونے لگی تھی سراج کی شخصیت اس کو اپنے سحر میں جکڑ رہی تھی وہ اسی لیے جلد سے جلد یہاں سے نكلنا چاہتی تھی اس نے جلدی سے وہ پرچی اٹھائ وہ سراج کا شکریہ بھی ادا نہ کر پائی اور ندا کا ہاتھ پکڑے تیزی سے کمرے سے نکل گئی ۔۔۔
***
سدرہ کی والدہ کا آپریشن ہو چکا تھا ان کو اسپتال سے گھر آے دو دن ہوگۓ تھے ۔۔سدرہ کے بھائی کاشف کو ان سب باتوں سے کوئی خاص لینا دینا نہ تھا وہ تو چاہتا ہی تھا کہ اس کے سر سے یہ زمہ داری کسی طرح سے ہٹ جائے۔ شام کے 7 بجے تھے سدرہ اپنی امی کو دوا کھلا کر تھوڑی دیر آرام کرنے کی غرض سے صوفے پر دراز ہو گئی تھی کہ اچانک ہی اس کو خیال آیا "سراج نے میری کتنی مدد کی ہے اور میں آفس میں ان کا ٹھیک سے شکریہ بھی ادا نہ کر سکی تھی پتہ نہیں کیا سوچ رہے ہوں گے وہ میرے بارے میں "
یہ خیال آتے ہی سدرہ اٹھی اور اپنے پرس سے سراج کا دیا وہ کارڈ نکال لائی اور اس پر درج فون نمبر ملانے لگی ۔۔۔دوسری طرف سے کال اٹھا لی گئی تھی ۔۔
"ہیلو !"
"ہیلو ! ہو از سپیكنگ ؟"
دوسری طرف سے ایک نسوانی آواز آی تھی ۔۔
" ائ ایم سدرہ عظیم ۔۔ سراج سر سے بات ہو سکتی ہے ؟"
"سوری مس یہ ٹایم سر کا پرسنل ہوتا ہے اور اس وقت وہ کوئی آفس کا کام نہیں کرتے اور نہ ہی کوئی کالز ریسیو کرتے ہیں "
دوسری طرف سے کسی لڑکی کی آواز سن کر سدرہ کو ایک جلن سی محسوس ہوئی تھی
"ویسے آپ کون ؟"
"میں باس کی پرسنل سیکرٹری
ویل میں ان کو آپ کے کال کے بارے میں انفارم کر دونگی۔"
"اوکے تھنکس بائے "
سدرہ نے یہ بول کر فون رکھ دیا تھا مگر اس کا موڈ خراب ہو چکا تھا نہ جانے کیوں اس کا دل ایسے چاہنے لگا تھا جیسے سراج پر صرف اس کا ہی حق ہو ۔وہ جب چاہے سراج سے کھل کر بات کر سکے وہ اس کی زندگی کا ایک خاص حصہ ہو نہ کے دوسرے عام لوگوں کی ہی طرح سراج تک پہنچنے کے لیے اس کو سراج کی سیکرٹریز سے ہوکر گزرنا پڑے ۔۔۔
سدرہ کے جذبات میں دن بدن شدت آتی جا رہی تھی اور دل بے قابو ہوتا جارہا تھا وہ انہیں خیالوں میں گم تھی کے باہر دروازے پر دستک سنائی دی تو سدرہ جیسے ہوش میں آئی اور اٹھ کر دروازاه کھولنے چل دی جب اس نے دروازہ کھولا تو سامنے اس کا منگیتر نعمان کھڑا تھا ۔۔
"اسلام و علیکم ۔۔"
"وعلیکم اسلام "
"سدرہ یہ لے لو امی نے بهجوایا ہے "
"کیا ہے یہ ؟"
"حلوہ ہے ۔۔۔تمہیں پسند ہے نہ اسی لیے"
"اہ خالہ کو میری طرف سے شکریہ کہنا "
نعمان کےچہرے پر ایک مسكراہٹ آ گئی تھی ۔۔۔سدرہ حیران ہو کر اس کو دیکھنے لگی وہ سمجھ نہ پائی تھی کہ وہ کیوں مسکرا رہا ہے
"کیا ہوا مسکرا کیوں رہے ہو ؟"
"سچ بتاؤں تو یہ حلوہ امی کے کہنے پر نہیں بلکہ میں خود تمہارے لیے لایا ہوں "
نعمان کی بات سن کر ایمان کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا تھا اس کو احساس ہو رہا تھا کہ جیسے وہ اپنے ہونے والے شوہر سے اس کے پیٹھ پیچھے بےوفائی کر رہی ہے اور نعمان کے جذبات کے ساتھ کھیل رہی ہے ۔۔وہ گردن جھکاے کھڑی ہو گئی اور کچھ دیر بعد اس نے سب کچھ نعمان کو بتادینے کا فیصلہ کر لیا ۔۔۔
"اندر آجاو۔۔۔"
وہ بولی وہ چاہ رہی تھی کہ اندر تسلی سے بیٹھ کر وہ نعمان کو اپنی كیفيت سے آگاہ کرے ۔۔۔
"ارے نہیں یار میں جلدی میں ہوں میری جاب کا وقت ہو گیا ہے تمہیں تو پتہ ہی ہے نایٹ شفٹ ہے اور ابھی ابھی تو نوکری لگی ہے تو وقت کا دھیان رکھنا پڑتا ہے "
نعمان کی عمر 24 برس تھی ۔۔وہ سدرہ کو پسند کرتا تھا اور اسی کے زور دینے پر سدرہ اور اس کا رشتہ ہوا تھا ۔۔دیکھنے میں بھی ٹھیک ٹھاک تھا مگر ذرا کام چور تھا اس نے ابھی تک کوئی کام نہ کیا تھا مگر سدرہ سے شادی کروا دینے کی شرط پر وہ نوکری کرنے لگا تھا ۔۔
"اوکے میں چلتا ہوں اللّه حافظ "
وہ یہ کہتا اپنی موٹر سائیکل کی طرف بڑھا اور سدرہ چاہ کر بھی اس سے بات نہ کرپائی ۔۔
سدرہ ہاتھ میں حلوے کی پلیٹ لیے باورچی خانے میں داخل ہوئی اور پلیٹ رکھ کر کھانا بنانے میں مصروف ہو گئی تھی مگر اس کے ذہن پر مسلسل سراج اور نعمان ہی سوار تھے ۔۔
***
رات کا ایک بجا تھا سدرہ بے چینی سے كروٹیں بدل رہی تھی اس کا سر درد سے پھٹا جا رہا تھا۔۔اسی اثنا میں اس کے موبائل فون کی گھنٹی بجننے لگی۔۔سدرہ نے موبائل اٹھا کر دیکھا تو سامنے سراج کا نمبر تھا خوشی کے مارے اس کا دل اچھل کر حلق میں آگیا تھا اس کو خود بھی اندازہ نہ تھا کے سراج کی کال پر وہ ایسا ردعمل کرے گی ۔۔۔۔اس کی امی سو رہی تھیں اسی لیے وہ کمرے سے باہر نکل آئ۔۔۔اور جلدی سے فون اٹھا لیا
"ہائے"
دوسری طرف سے سراج کی دلکش آواز سنائی دی ۔۔
سراج کی آواز سنتے ہی سدرہ کا دل سکون و مسرت سے بھر گیا تھا ۔۔
"آپ نے کال کی تھی شام کو ؟
ہیلو ؟"
سدرہ بنا کوئی جواب دیئے بس آنکھیں میچے اس کی آواز سنے جارہی تھی ۔۔
"مس سدرہ ؟"
ار یو لسننگ ؟
ہیلو ۔۔۔۔۔۔۔؟؟
سدرہ کی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر سراج پریشان ہوا تھا
" آئ لو یو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
سدرہ گلوگیر آواز میں بولی
"وٹ !؟؟؟؟؟
یہ کیا بول رہی ہیں آپ ؟"
"سچ بول رہی ہوں ۔۔۔۔
یہ بولتے سدرہ رو پڑی اس کے جذبات کی شدت اتنی تھی کہ وہ اب برداشت نہ کر پا رہی تھی
کچھ دیر روتی رہنے کے بعد گویا ہوئی ۔۔
" جب سے آپ سے ملی ہوں تب سے ایسا لگتا ہے جیسے آپ کوئی غیر نہیں بلکہ میرے اپنےہیں ۔۔۔۔۔میرے بہت اپنے ۔۔۔۔
میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ کبھی کسی لڑکے کو میں یہ الفاظ بولوں گی مگر میرا خود پر بس ہی نہیں چل رہا کچھ ہو گیا ہے مجھے اور جو بھی ہوا ہے وہ بہت طاقتور جذبہ ہے اس میں سمندر جیسی طاقت ہے جو اپنی پر زور لہروں کے ساتھ مجھے بہاتے ہوۓ لے جا رہا ہے اور میں بلکل بے بس ہوں۔۔ ان چند ہی دنوں میں خود سے زیادہ آپ کو اپنے اندر محسوس کرنے لگی ہوں ۔۔دل کو بس آپ کی ہی ضرورت ہے ہر وقت آپ کا ساتھ مانگتا ہے ۔۔۔
مجھے اٹھتے بیٹھتے آپ کی یاد آتی ہے دل چاہتا ہے بس آپ کے پاس بیٹھی رہوں آپ سے باتیں کرتی رہوں اور یونہی ساری زندگی بیت جائے ۔۔۔۔ایسا لگتا ہے جیسے آپ میرے ہیں صرف اور صرف میرے ۔۔۔۔۔"
سدرہ جو بول گئی تھی اس کو خود اندازہ تک نہ تھا کہ وہ یوں اتنی جلدی سراج سے اپنی محبت کا اظہار کر بیٹھے گی اس کا ایسا دور دور تک کوئی ارادہ نہ تھا ۔۔۔اس کی آنکھوں سے جذبات آنسو بن کر بہ رہے تھے
سراج چپ چاپ سب سنتا رہا ۔۔۔
کچھ پل کو دونوں طرف جان لیوا خاموشی چھائ رہی ۔۔۔مگر پھر سراج نے اس خاموشی کو توڑا
"باۓ ۔۔۔۔۔"
وہ بولا اور کال کاٹ دی ۔۔۔
"ہ ہیلو ؟؟؟؟؟"
سدرہ بے چینی سے بولی مگر کال کٹ چکی تھی ۔۔۔
سراج کی سرد مہری سدرہ کا دل بری طرح دکھا گئی تھی ۔۔۔
موبائل ایک طرف رکھتے ہوۓ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی ۔۔۔
***
"سدرہ ۔۔۔۔۔۔بیٹا بات سن ۔۔۔"
"جی امی ؟"
سدرہ جو بستر پر دراز تھی اس کی امی اس کے برابر میں بیٹھتی ہوئی بولیں
"بیٹا وہ لڑکا کیا نام ہے اس کا جس نے تیرا داخلہ بھی کروایا ہے اور میرا علاج بھی اللّه بھلا کرے اس کا ۔۔کیا نام کیا تھا اسکا۔۔ سلیم ؟؟؟"
"سراج "
سدرہ سوجی ہوئی سرخ نظریں نیچے جھکاتی ہوئی بولی ۔۔
سراج کا نام لیتے ہوۓ اس کی آواز میں بیحد درد شامل تھا ۔اس کال کو آج ایک ماہ کا عرصہ گزر چکا تھا ۔۔سراج نے دوبارہ سدرہ سے کوئی رابطہ نہ کیا تھا ۔۔سدرہ کی زندگی اس دن کے بعد سے جہنم بن کر رہ گئی تھی یہاں تک کہ اس کو میڈیکل میں داخلے کا خواب پورا ہونے کی بھی کوئی خوشی محسوس نہ ہو رہی تھی ۔۔اس کی ہر رات اب جاگ کر گزرنے لگی وہ بری طرح بیمار پڑ گئی تھی اور بستر سے لگ گئی تھی اور اتنے دنوں سے کالج بھی نہ گئی تھی رو رو کر اس کی آنکھوں کا برا حال تھا ۔۔اس بھولی بھالی سی لڑکی کو عشق کی بے رحم اگ نے تڑپا چھوڑا تھا ۔۔۔
مگر اپنی حالت اس نے اپنی ماں سے مخفی رکھی تھی ۔۔۔
بیٹا اس کو کال تو ملا کر دے کچھ بات کرنی ہے
" کیا بات کرنی ہے امی ؟"
سدرہ چونک کر بولی
تو کر تو فون سوال بعد میں کر لینا چل ملا ۔۔۔۔
سدرہ چارو ناچار اپنا موبائل اٹھاۓ سراج کو کال ملانے لگی ۔۔
کچھ دیر بعد سراج کی سیکرٹری نے فون اٹھایا تھا ۔۔
ہیلو !
جی بولیں ؟
میں سدرہ ۔۔۔سراج سے بات کرنی تھی ۔۔۔
سدرہ کی بات پر تھوڑی دیر تک دوسری طرف خاموشی رہی اور پھر تھوڑی دیر بعد سیکرٹری بولی
سوری بٹ سر منع کر رہے وہ آپ سے بات نہیں کرنا چاہ رہے ۔۔
"ان سے کہیے میری امی کو کچھ بات کرنی ہے ۔۔۔"
سدرہ اعتماد سے بولی ۔۔
"ہائے ۔۔۔۔۔آنٹی کیسی ہیں آپ ؟"
کچھ دیر کے بعد دوسری طرف سے اب سراج خود بولا تھا ۔۔سدرہ فون اپنی والدہ کے ہاتھ میں تھماتی خود اٹھ کر تیزی سے کمرے سے باہر نکل آئی ۔سراج کی آواز اتنے دنوں بعد سن کر اس کا دل بھر آیا تھا اور وہ اپنی امی کے سامنے رونا نہ چاہتی تھی باہر آ کر دیوار کے سہارے نیچے بیٹھ گئی اور اپنے منہ پر ہاتھ رکھے رونے لگی ۔۔۔۔۔اس کو یوں روتے ہوۓ 5 ہی منٹ ہوۓ تھے کہ ناصرہ شمیم نے اس کو آواز دی
"سدرہ ہ ہ ۔۔۔۔۔۔۔!"
"ج جی امی "
سدرہ جلدی سے اپنے آنسو صاف کرتی کمرے میں چل دی ۔۔۔
"بیٹا کل سراج کو میں نے کھانے پر بلایا ہے ۔۔۔اس کا کتنا احسان ہے ہم پر تو سوچا کھانے پر بلا کر شکریہ ادا کر دوں ۔۔۔۔"
ناصرہ شمیم کی بات سن کر سدرہ کے دل میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی ۔۔۔۔
"تیری تو طبیعت ٹھیک نہیں مجھے خود ہی ساری دعوت تیار کرنی پڑے گی ۔۔۔
"نہیں امی ۔۔۔اب میں بلکل ٹھیک ہوں بلکل ٹھیک ۔۔۔سب کچھ میں خود اپنے ہاتھوں سے بناؤں گی کل "
سدرہ خوشی سے بولی تھی
***
دوپہر کے تین بج رہے تھے سراج دروازے سے قدم باہر رکھنے ہی والا تھا کہ اس کو سدرہ کی آواز سنائی دی
"رکیے "
سراج ناصرہ شمیم کی دعوت پر ان کے گھر آیا تھا اور ان کے ساتھ بہت خوش اسلوبی سے پیش آیا مگر سدرہ کی طرف اس نے ایک بار نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھا تھا ۔
سدرہ کی آواز پر سراج نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا تھا ۔۔
"کیوں کر رہے ہیں آپ ایسا میرے ساتھ آخر کس غلطی کی اتنی بڑی سزا دے رہے ہیں مجھے ؟"
سدرہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گۓ تھے ۔۔۔
"اب خاموش کیوں ہیں جواب کیوں نہیں دیتے آپ ؟ جانتے ہیں آپ کی یہ خاموشی کتنی تکلیف دیتی ہے کتنا درد ہوتا ہے مجھے "
"کیا سننا چاہتی ہو ؟"
آپ کے دل کی بات "
"دیکھو میرے دل کی بات تو یہی ہے کہ تم ابھی بہت چھوٹی ہو ابھی بہت کچھ دیکھنا باقی ہے تمہارا زندگی میں اور جہاں تک بات ہے تمہاری فیلنگز کی جو مجھے لے کر ہیں تو یہ محض کچھ وقت کا دھوکہ ہے اور کچھ نہیں تم ایک اچھی لڑکی ہو اور تمہارے لیے بہتر یہی ہے کہ تم پڑھائی پر دھیان دو ۔۔۔۔"
"اگر آپ نہ ملے تو پڑھائی تو کیا میں تو جینا ہی چھوڑ دونگی
پلیز اتنے سنگدل نہ بنیں میری حالت کو سمجھنے کی کو شش کریں پلیز ز ز ۔۔۔۔۔۔"
سدرہ اب باقاعدہ اپنے دونوں ہاتھ اس کے اگے جوڑے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی اور سسکیوں کے ساتھ رونے لگی ۔۔۔
سراج کچھ دیر کھڑا اسے دیکھتا رہا پھر ایک طرف سے ہوتا باہر جانے لگا ۔۔۔
"ٹھیک ہے جایں آپ ۔۔۔۔لیکن میرا بھی وعدہ ہے کہ آج کی رات میری آخری رات ہوگی "
وہ پختہ ارادے سے بولی
جس پر کچھ پل کو تو سراج خاموشی سے کھڑا رہا اور پھر پلٹ کر سدرہ کے قریب آیا ۔۔۔
"کیا چاہتی ہو ؟"
"آپ کا عمر بھر کا ساتھ "
سدرہ اس کی کالی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بولی ۔۔۔
" برداشت نہیں کر سکو گی مجھے تم "
"میرا پیار وقتی کھیل نہیں یا تو آپ کا ساتھ یا پھر موت "
" کتنا سمجھانا چاہا میں نے تمہیں مگر آی نو کہ اب تم کچھ نہیں سمجھنے والی۔۔جانتی تک نہیں مجھے اور شادی کا فیصلہ بھی کر لیا "
"میں بس اتنا جانتی ہوں کہ آپ بہت اچھے ہیں اور اتنا جاننا کافی ہے میرے لئے "
"ہاہا اچھا ۔۔۔اچھا نہیں ہوں میں بہت برا ہوں "
"نہیں آپ اچھے ہیں "
"شادی کرنا چاہتی ہو نہ مجھ سے ؟"
اس نے سوال کیا جس کے جواب میں سدرہ نے اثبات میں گردن ہلائی ۔۔
"تو یہی تمہارا آخری فیصلہ ہے؟ سوچ لو۔۔"
وہ اپنی خمدار بھنویں اچکا کر بولا
"سوچنے کی گنجائش باقی نہیں اب "
"ٹھیک ہے "
یہ بول کر سراج نے اس کی نازک سی کلائی کو سختی سے پکڑا ۔سدرہ کو کبھی کسی غیر مرد نے نہ چھوا تھا اس کو سراج کی اس بے تكلفی پر حیرت سے اس کا چہرہ دیکھنے لگی جب کہ وہ سدرہ کو لگ بھگ گھسیٹتے ہوۓ گھر سے باہر لے آیا ۔۔اور باہر کھڑی اپنی کالی مرسڈیز کا دروازہ کھول کر اس کو دھکیلتے ہوۓ کار میں بٹھایا اور خود ڈرائیونگ سیٹ سنمبهال لی ۔۔۔
کچھ ہی دیر میں وہ دونوں کسی وكیل کے دفتر میں موجود تھے ۔۔۔اور وكیل کچھ دستاویزات تیار کر لایا تھا جو اس نے سراج کے حوالےکئے ۔سراج نے ان پر دستخط کئے اور سدرہ کو بھی ان پر دستخط کرنے کو کہا ۔۔
" م مگر یہ ہے کیا ؟"
وہ حیرانگی سے بولی
"میرج پیپر "
سراج نہایت اطمینان سے بولا
"مگر اتنی جلدی یوں اچانک ۔۔! اور امی ۔۔۔؟"
"شادی کرنا چاہتی تھی نہ مجھ سے تم ؟ تو کرو سگنیچر "
سدرہ کو اپنی امی اور بھائی کی عزت کا خیال آیا تھا مگر اس وقت وہ جنون کی سی كیفيت میں تھی تب ہی اس لمہے کو اپنی محبت کا امتحان سمجھتے ہوۓ اس نے سراج کے ہاتھ سے پن لیا اور دستاویزات پر دستخط کر ڈالے ۔۔۔۔
"کونگریچو لیشن ۔۔۔مسٹر این مسز سراج علی "
وكیل گرم جوشی کے ساتھ سراج سے ہاتھ ملاتے ہوۓ بولا تھا ۔۔
"میں کل ہی کورٹ میں آپ کی میرج رجسٹر کروا دوں گا ۔۔۔"
"تھینک یو "
سراج نے جواب دیا اور جانے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا اور باہر کو چل دیا سدرہ بھی اس کے پیچھے پیچھے چل دی ۔۔۔
اس کی تو حالت ہی عجیب ہو رہی تھی وہ دن وہ پل جس کا ہر لڑکی ہمیشہ سے خواب دیکھتی آتی ہے شادی کو لے کر کتنے ارمان سجاتی ہے سدرہ نے بھی سجاے تھے مگر یہ دن اس کی زندگی میں اس طرح سے آے گا اس کا تو سدرہ نے کبھی گمان بھی نہ کیا تھا ۔۔بس کچھ ہی پلوں میں اس کی زندگی بدل کر رہ گئی تھی مگر اس کے لئے یہی کافی تھا کہ اس کا ہمسفر اس کا جیون ساتھی سراج بن گیا تھا ۔۔۔۔
***
سراج سدرہ کو لئے اپنے گھر آگیا تھا ۔۔گھر کیا تھا وہ تو ایک عالیشان محل تھا ۔۔ سراج گاڑی گیراج میں کھڑی کرتا ہوا اندر کی طرف چل دیا سدرہ بھی گاڑی سے اتری تو سراج اس کو وہیں چھوڑے اندر جا چکا تھا ۔۔
آس پاس 18، 20 بیش قیمت گاڑياں کھڑی تھیں ۔۔
سدرہ تیز تیز قدم اٹھاتی سراج کے پیچھے ہو لی ۔
"سلام صاحب "
اندر آتے ہی سراج کے ایک ملازم نے اس کو سلام کیا تھا ۔۔
"سلام میڈم "
اب اس نے سدرہ کو سلام کیا ۔۔
"کھانا لگا دوں صاحب ؟"
"نہیں اس کی ضرورت نہیں "
یہ بولتا سراج اپنی خواب گاہ کی جانب بڑھ گیا جب کہ سدرہ وہیں کھڑی رہ گئی سراج مسلسل اس کے وجود کو اس طرح سے نظر انداز کرہا تھا جیسے وہ یہاں موجود ہی نہ ہو ۔۔
سراج جاچکا تو وہ ملازم بھی وہاں سے چلا گیا سدرہ وہاں پڑے ایک آرام ده صوفے پر بیٹھ گئی۔۔
اور ادھر ادھر نظر دوڑا کر گھر کا جائزہ لینے لگی کچھ ہی دیر میں ایک ملازمہ ہاتھ میں چاۓ وغیرہ لئے سدرہ کے قریب آئی اور سدرہ کو چاۓ پیش کر کے جانے کے لئے پلٹی ۔۔
"سنیں !"
سدرہ اس سے مخاطب ہوئی ۔۔
"جی "
ملازمہ نہایت ادب سے بولی ۔۔
"کیا آپ مجھے گھر دکھایں گی ؟؟"
"جی ٹھیک ہے آجایں آپ "
ملازمہ سدرہ کو اپنے ساتھ لئے چل دی ۔۔۔
سب سے پہلے تو اس نے سدرہ کو سارے کمرے دکھاۓ پھر اس کو لئے سویمنگ پول والے حصہ میں آگئی ۔۔۔
سویمنگ پول دکھا چکی تو لان دکھایا جو کافی بڑی زمین پر مشتمل تھا ۔۔۔
پھر وہ سدرہ کو لئے گھر کی پچھلی جانب آ گئی ۔۔۔
یہ دیکھیں یہ سراج صاحب کے پالتو شیر ہیں وہاں 3 4 شیر ایک وسیع پنجرے میں ادھر ادھر گھوم رہے تھے ۔۔شیر کا نام سنتے ہی سدرہ کا خون خشک ہو چکا تھا ۔۔۔
"اوہ اچھا !
یہ پینجرا ٹھیک سے بند تو ہے نہ؟"
جی جی بند ہے اس کو تو بس صاحب ہی کھولتے ہیں "
"کھولتے ہیں !!!!!؟؟
مطلب ان شیروں کو پنجرے سے باہر نکال دیتے ہیں ؟؟؟؟؟؟ "
سدرہ نے حیرت سے آنکھیں پھیلائیں
جس پر ملازمہ کو اس کی معصو میت پر بے ساختہ ہنسی آگئی ۔۔۔
"ہاں جی باہر نکال دیتے ہیں اور کبھی کبھی باہر گھمانے بھی لے جاتے۔۔۔۔صاحب کو بہت پیار ہے ان سے اور یہ شیر بھی ان سے بہت پیار کرتے "
"اہ سو سویٹ"
سدرہ بولی
"اس کے علاوہ سراج صاحب کے پاس ایک باز بھی ہے ۔۔۔جانوروں سے بہت پیار رکھتے ہیں "
جی تو دیکھ لیا آپ نے گھر؟۔۔ اور ہاں اس طرف صاحب کا جم ہے "
ملازمہ ذرا دور اشارہ کرتے ہوۓ بولی
"همم آپ کا نام کیا ہے ؟"
"جی میرا نام رضیہ ہے "
"اچھا رضیہ باجی ان کے گھر میں اور کون کون ہے ؟"
اور کوئی بھی نہیں ہے سراج صاحب اکیلے رہتے ہیں "
اہ اوکے "
سدرہ نے مسکرا کر جواب دیا اور وہ دونوں واپس اندر چل دیۓ ۔۔
سدرہ چاۓ پینے لگی اور ملازمہ باورچی خانے کی طرف بڑھ گئی
سدرہ چاۓ پی چکی تھی وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبی تھی
"یہ کیسی رخصتی تھی میری "
سدرہ تکلیف کی شدت سے مسکرا اٹھی ۔۔
"سوری امی ۔۔۔۔۔مجھے معاف کردینا اور نعمان تم بھی ۔۔۔۔ "
یہ بولتے وہ رو پڑی اور یوں ہی نہ جانے کتنی ہی دیر روتی رہی
روتے روتے سدرہ کی آنکھ لگ گئی اور وہ وہیں صوفے پر ہی لیٹی سو گئی ۔۔۔
***
"سدرہ ۔۔۔۔
اٹھو ۔۔۔۔۔
سدرہ ہ ہ "
سراج کی آواز پر سدرہ نیند سے بیدار ہوئی تھی وہ آنکھیں ملتی اٹھ بیٹھی ۔سراج سامنے پڑے دوسرے صوفے پر پیر پھیلاۓ بیٹھا تھا اس وقت اس نے صرف جینز پہن رکھی تھی وہ ابھی ابھی جم کر کے آیا تھا ۔۔۔
سدرہ سراج کو اس حالت میں دیکھ بے چینی سی محسوس کرنے لگی تھی
سدرہ کی نظر اس کے سکس پیک سے ہوتی ہوئی اس کے بازو پر بنے ٹیٹو پر پڑی تو وہ بغور اس کو دیکھنے لگی ۔۔۔
اس کی نظر اب سراج کی نظر سے ٹکرائی جو اسی کی طرف ہی دیکھ رہا تھا تو سدرہ نے شرم سے اپنی نظریں جھکا لیں اس کی اس ادا نے سیدھا سراج کے دل پر وار کیا تھا
"میں سو گئی تھی کیا ؟"
سراج نے اس کے سوال کا کوئی جواب نہ دیا اور یک ٹک اسے دیکھتا رہا تو وہ کنفیوز سی ہونے لگی۔۔اور سراج صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے آرام سے بیٹھ گیا ۔۔۔
"جاؤ میرے لئے جوس لے کر اؤ "
جی ؟؟؟؟
جی کیا اٹھو جوس لے کر آؤ ۔۔بیوی ہو نہ میری تو اپنے شوہر کی خدمت نہیں کرو گی "
وہ اب اپنے دونوں پیر سامنے پڑی کانچ کی میز پر رکھتے ہوۓ بولا ۔۔
اور سدرہ اٹھ کر باورچی خانے کی طرف بڑھ گئی اور کچھ ہی دیر میں وہ جوس ہاتھ میں لئے سراج کے پاس آئی اور جوس کا گلاس اس کے سامنے پیش کیا ۔سراج نے اس کی طرف دیکھا پھر بجاۓ جوس پکڑ نے کے اپنا موبائل فون اٹھاے اس میں مگن ہو گیا سدرہ جوس میز پر رکھ سکتی تھی مگر اس نے ایسا نہ کیا وہ جوس ہاتھ میں لئے کھڑی رہی ۔۔۔کافی دیر گزر گئی تھی
"سراج جوس لے لیں "
سراج اس کی آواز ان سنی کرتا موبائل ایک طرف رکھتا اب اپنی آنکھیں بند کئے اپنی گردن صوفے پر ٹکاۓ بیٹھ گیا ۔۔۔
اور پھر پورے 20 منٹ گزر جانے کے بعد سراج نے سدرہ کے ہاتھ سے جوس کا گلاس لیا اور جوس پینے لگا ۔
"سراج ؟"
سدرہ بولی ۔۔۔
"همم "
سراج نے اس کی طرف دیکھے بنا ہی کہا تھا ۔۔
"میں سوچ رہی ایک دفعہ اپنے گھر سے ہو آؤں ۔۔امی کو بھی تسلی ہو جاۓ گی اور میں اپنی بکس وغیرہ بھی لے آؤں گی ۔۔۔"
وہ اپنی بات مکمل کرنے کی بعد سراج کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی ۔۔۔
"پہلی بات ۔۔۔تمہارا گھر مطلب ؟؟؟
تمہارا گھر تو یہ ہے ۔۔اور دوسری بات کہ بکس کو کیا کرنا ہے تم نے ؟"
"کیا کرنا ہے مطلب ! پڑھنا ہے "
سدرہ کی بات پر سراج نے ایک زور دار قہقہہ لگا یا تھا ۔۔
پڑھائی ہو گئی ختم تمہاری اب تم کالج نہیں جاؤ گی اور اس گھر سے بھی اب تمہارا تعلق ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم سمجھو ۔۔۔ میری بیوی بنی ہو تو میرے مطابق ہی رہنا ہو گا اب تمہیں "
وہ سنجیدگی سے بولا جب کہ سدرہ اس کا بدلتا رویہ دیکھ ششدر رہ گئی اس کو یقین ہی نہ ہو رہا تھا کہ یہ وہی مہربان سا سراج ہے ۔
"سراج باقی آپ جو کہیں گے میں مان لوں گی مگر امی کو انفارم کرنے دیں پلیز وہ بہت پریشان ہوں گی پلیز ۔۔۔"
"تو ہوتی رہیں وہ میرا میٹر نہیں ہے یہ سب تو تمہیں مجھ سے شادی کر نے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا "
وہ لا پر واہی سے بولا اور اٹھ کر کمرے کی طرف چل دیا ۔
جب کہ سدرہ کی آنکھیں نم ہو گئیں تھیں
***
"امی حوصلہ رکھیں مل جاۓ گی سدرہ آخر گئی کہاں ہو گی آپ ایسے رویں گی تو پھر آپ کی طبیعت بگڑ جاۓ گی نہ "
کاشف اپنی روتی ہوئی ماں کو دلاسہ دیتے بولا تھا جن کا سدرہ کی گمشدگی کو لے کر رو رو کر برا حال تھا
"ارے ایسے کیسے نہ رؤں میں پتہ نہیں کہاں ہو گی میری بچی اس وقت کس حال میں ہو گی رات کے 10بج گۓ ہیں "۔۔
ناصرہ شمیم روتے ہوئے بولیں ۔۔۔
"ہنہہ۔۔۔۔مجھے تو پہلے ہی شک تھا کہ کسی سے چکر چل رہا اس کا بھاگ گئی ہو گی اپنے یار کے ساتھ "
سدرہ کی بھابھی ہما نے اتراتے ہوۓ منہ سے زہر اگلا ۔۔
"ہما ؟؟؟؟؟کچھ تو لحاظ کرو یہاں ہم کتنے پریشان ہیں اور تم ۔۔۔۔۔۔۔"
کاشف غصے سے بولا ۔۔۔
"ہاں ہاں میں ہی بری ہوں بس وہ تو مہارانی ہے نہ "
"خدا کے لئے چپ ہو جاؤ ہما "
"بسس کرو تم دونوں یہاں میری بچی لا پتہ ہے اور تم دونوں کو ان بیکار باتوں کی پڑی ہے ۔۔۔بیٹا کاشف تو جا نہ اس کی دوستوں سے پتہ کر کچھ کر میری بچی کو لے آ۔۔۔۔"
"جی امی آپ یہ پانی پیئں اور ریلیکس ہو جائیں پلیز ۔۔
کاشف پانی کا گلاس آگے بڑھا تے ہوۓ بولا جس کو ناصرہ شمیم نے اس کے ہاتھ سے لیا اور غٹا غٹ پی گئیں ۔۔۔ کاشف نے کسی طرح سجا بجھا کر اپنی امی کو لٹا دیا تھا اور ان کو لحاف اوڑھاتا ہوا بتی بجھاکر خود کمرے سے نکل گیا
***
سدرہ سراج کی خواب گاہ میں آئی تھی سراج ابھی ابھی کہیں باہر گیا تھا ۔کمرہ کافی بڑا تھا سدرہ کی نظر سب سے پہلے پلنگ کی پچھلی دیوار پر چسپاں سراج کی ایک بڑی سی تصویر پر گئی تھی جس میں وہ سائیڈ سمائل دے رہا تھا سدرہ اس کی حسین مسکراہٹ میں کہیں کھو سی گئی اور اس کے قریب جا کر بے ساختہ تصویر میں موجود سراج کے گال کو چوم لیا ۔۔۔اس کے چہرے پر ایک شوخ مسکراہٹ بکھر گئی تھی
اس کو کمرہ کچھ عجیب سا لگا تھا کمرے کی ایک دیوار پر بلکل کالے رنگ کا پینٹ تھا صوفے بھی کالے ہی رنگ کے تھے اور باقی کا سارا فرنیچر بھی۔ کمرے میں ایک بہت ہی بڑی شیشے کی كهڑکی تھی جو باہر لان میں كهلتی تھی میز پر پڑی ایش ٹرے سگریٹوں کی راکھ سے بھری تھی الماری کا دروازہ بھی تھوڑا سا کھلا تھا پلنگ کی چادر بكهری ہوئی تھی اور ساتھ پڑی میز کی دراز بھی کھلی ہوئی تھی۔ سدرہ وہ چادر ٹھیک کرنے لگی جب ٹھیک کر چکی تو دراز بند کرنے لگی مگر سامان زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ بند نہ ہورہا تھا سدرہ سارا سامان نکالے اسے ترتیب سے رکھنے لگی اس دوران اس کو سراج کی ایک تصویر ملی جو سراج نے کوئی ڈگری حاصل کرتے ہوۓ لی تھی ۔۔۔
سدرہ نے وہ تصویر باہر ہی رہنے دی اور باقی کی ساری چیزیں سلیقے سے رکھ کر دراز بند کر دیا اور اب وہ الماری کی طرف بڑھی الماری کا درواذہ کھولتے ہی کچھ کپڑے سدرہ کے قدموں میں آگرے تھے جب وہ الماری ٹھیک کرنے لگی تو اس کو الماری میں موجود ایک دراز سے کچھ گنز ملیں تھیں جن کو سدرہ نے بلکل نہ چھیڑا اور باقی کی ساری الماری درست کرتی اب وہ بیڈ پر جا بیٹھی اس کو بھوک لگنے لگی تھی مگر وہ سراج کا انتظار کرنے لگی ۔۔آرام ده بستر پا کر اس کی آنکھ لگ گئی تھی ۔۔۔
***
اس کی آنکھ کسی کھڑ پڑ کی آواز سے کھلی تھی جب اس نے دیکھا تو سامنے سراج کھڑا الماری سے اپنے کپڑے نکال رہا تھا اور کپڑے لئے وہ باتھ روم کی طرف بڑھ گیا ۔۔
جب وہ نہا کر لوٹا تو سدرہ بولی
"کھانا کھا لیں ؟ مجھے بہت بھوک لگی ہے "
جس کے جواب میں سراج نے ایک غصے بھری نظر اس پر ڈالی اور سنگھار میز پر پڑا ہیئر برش اٹھاۓ اپنے بال ٹھیک کرنے لگا ۔۔۔
"میں کھا کر آیا ہوں "
وہ کچھ دیر بعد بولا
"همم اچھا "
سدرہ افسرده ہوئی تھی۔۔
"ہیلو میڈم ! یہ بیڈ میرا ہے اٹھو یہاں سے ۔۔"
سراج بال ٹھیک کر چکا تو پلنگ کے پاس آکر تلخ انداز سے بولا تھا ۔۔۔
اس کے سخت لہجے سے سدرہ کا دل دکھا مگر وہ چپ چاپ وہاں سے اٹھ گئی اور صوفے پر جانے لگی تھی کہ اچانک پلٹ کر خوش دلی سے بولی
"سراج ۔۔۔۔"
"کیا ہے "
وہ بنا اس کی طرف دیکھے اپنا كمبل کھولتے ہوۓ بولا ۔۔۔
سدرہ اس کی وہی تصویر اٹھا لائی ۔۔۔
"سراج یہ دیکھیں مجھے کیا ملا ۔۔۔ کونسی ڈگری مل رہی تھی آپ کو یہاں ؟"
"ارے یہ 13,14 سال پرانی پکچر تمہیں کہاں سے مل گئی"
وہ لاپرواہی سے بولا ۔۔۔
"کیا ؟؟؟ 13 14 سال پرانی ؟؟؟؟ یہ کیا که رہے آپ ؟"
سدرہ حیرت سے آنکھیں کھولے بولی ۔۔
مگر سراج نے کوئی جواب نہ دیا اور وہ سونے کی غرض سے آنکھیں بند کئے لیٹ گیا ۔۔۔
"سراج ۔۔۔۔بتایں نہ ؟؟؟؟"
"کیا ہے سونے کیوں نہیں دے رہی کیا بتاؤں ؟"
یہی کہ یہ تصویر 13 14 سال پرانی کیسے ہو سکتی ہے کیوں کہ یہ ڈگری ؟"
"کیوں فضول باتیں کر کے دماغ خراب کرہی ہو میرا مجھے صبح 7 بجے اٹھنا ہے ؟ کیا ہے اس تصویر میں ایسا ؟؟؟؟ ایم بی اے کی ڈگری ملی تھی مجھے یہاں یہی کوئی 13 سال پہلے بس ؟"
"کیا ؟؟؟؟ سراج آپ کی ایج کیا ہے اس وقت !"
"34 سال "
وہ اکتا کر بولا
"آپ 34 کے ہیں ؟؟؟؟؟ سچی ؟؟!!!"
سدرہ جی بھر کر حیران ہوئی تھی ۔
"کیوں تم کیوں اتنی حیران ہو ؟"
"میں تو آپ کو 25 کا سمجھتی تھی سچی ۔۔۔۔۔"
سدرہ معصو میت سے بولی ۔۔
سدرہ کی بات پر سراج ہنس پڑا ۔
"اس کا مطلب انکل سے شادی ہو گئی تمہاری تو ہیں نہ ؟ "
"نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں سراج مجھے تو آپ ہر حال میں قبول ہیں "
سدرہ بولی
اور سراج مسکراتے ہوۓ كمبل منہ تک اوڑھے سونے کے لئے لیٹ گیا جب کہ سدرہ بنا کھانا کھاۓ ہی صوفے پر آ لیٹی اور اپنی امی کو یاد کرتے کرتے ہی اس کی آنکھ لگ گئی ..

 خونی شیطان ( قسط نمبر 4)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں



Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں