جنات کا بھیانک انتقام (قسط نمبر 4 آخری)


جنات کا بھیانک انتقام (قسط نمبر 4 آخری)

حامد کو تو اس میں خد کا چہرہ نظر آرہا تھا۔۔ مگر عامل صاحب کو اس میں ایک چیل نظر۔ آرہی تھی۔۔۔۔۔ انہوں نے نہایت عجلت سے وہ کٹورہ حامد کے سامنے سے کھینچ لیا اور پوری قوت سے اسکا پانی حامد کے منہ پر پھینک دیا۔۔حامد اسکے،لیےء تیار نہیں تھا۔۔ ہڑبڑا کر پیچھے کی طرف گر گیا تھا ۔ حالانکہ پانی ایک کٹورہ ہی تھا مگر حامد کے اوپر کم سےکم دو بالٹی پانی گرا تھا۔۔۔۔۔عامل صاحب نے فوراً اٹھ کر اسے سیدھا بٹھا یا اور ایک کالا غلاف اس کے سر پر ڈال دیا تھا۔۔ حامد پہلے،ہی گھبرایا ہوا تھا۔۔۔اسنے فوراً غلاف کھینچ کر نکال دیا۔۔ کیا دیکھتا ہے کہ وہ بالکل سوکھا تھا ۔۔۔‌اسپر نہ اسکے آس پاس پانی کا نام۔و نشان تک نہیں تھا۔۔۔‌

حامد عامل صاحب کو دیکھنے لگا تھا۔۔۔ وہ کہنے لگے تھے تم سے دو غلطیاں ہویں ہیں۔۔۔ ایک تو تمنے ایسے ویرانے میں پرندوں کا شکار نہیں کرنا تھا۔۔ دوسری غلطی یہ کہ اگر کر لیا تھا ۔۔ تو جنگل میں جانا کیوں تھا۔۔۔ تم وہیں۔ سے جناتوں کے نرغے میں آ گےء تھے۔۔۔ہم لوگ بلاوءں اور آفتوں کا علاج اللہ کے اذن سے کر تو لیتے ہیں
مگر جناتوں کی معاملات میں ہاتھ نہیں ڈالتے ۔۔ ان سے ہماری موءکلوں کو لیکر چلتی رہتی ہےء۔۔۔۔پھر یہ پتہ نہیں چلتا کی جن جلالی ہےء یا رحمانی ہےء ۔۔۔‌کیء ماہر عامل ذرا سی چوک سے جلالی جنوں کے ہاتھوں تباہ ہو گےء۔۔ حامد نے ڈرتے ڈرتے پوچھا تو کیا میرا چھٹکارہ ۔۔ نہیں ہو سکے گا۔۔۔۔ انہوں نے کہا ۔۔ اب ایسا بھی نہیں ہےء۔۔۔مجھے کچھ موءکلوں کی مدد لینی ہوگی۔۔ 

فی الحال۔ میں تمہیں ایک بھسم دیتا ہوں۔۔۔یہ ایک طریقہ ہوتا ہے ۔۔۔۔ اسکے استعمال میں بڑی ہمت اور خوداعتمادی کی ضرورت ہوتی ہےء ۔ اسمیں ناکامی خطرناک ہو سکتی ہےء۔۔ مجھے کیا کرنا ہوگا عامل صاحب۔۔حامد نے پوچھا۔۔ وہ بولے یہ بھسم لے جاکر تمہیں موقع دیکھ کر وہیں جلا دینا ہوگا ۔اسکے،جلتے ہی وہ جادو نگری فنا ہو جایگی۔۔۔ اور تم ہمیشہ کےلیے اپنی اصلی شکل می آزاد ہو جاوء گے۔۔۔مگر یہ کسی پر کسی بھی حالت میں ظاہر نہ ہوکہ ءہ تمہارے پاس ایسی کویء چیز ہےء۔۔حامد نے پوچھا اسے کیسے جلانا ہوگا۔۔۔ ٹہرو ۔۔‌ عامل صاحب نے،کہا۔۔ اور الماری میں سے ایک ڈبیہ نکالی جسکا سایز جوتا پالش کی ڈبی جتنا تھا۔۔اسمیں کوی خاکی رنگ کا سفوف تھا۔۔۔عامل صاحب نے اس میں سے چنے کے وزن جتنا نکال کر زمیں پر رکھ دیا۔۔۔۔ اور ایک ماچس حامد کو دیکر بولے۔۔‌اسے،آگ لگاؤ۔۔۔۔

حامد نے ذرتے درتے ماچس کی تیلی سلگا کر سفوف کو لگا دی۔۔۔ کچھ دیر تو سفوف بارود کی طرح جلا پھر اتنے زور کا بھزکا ہوا کہ اللہ کی پناہ۔۔‌حامد ڈر کر عامل صاحب س لپٹ گیا۔۔ سارے کمرے میں کثیف سرمیء دھواں ڈٹنے لگا تھا۔۔ کمرہ بھرتے ہی دھواں ایک دم سے کم ہونے لگا تھا۔۔تھوڑی دیر میں دھند چھٹ گیء تھی اور کمرہ پہلے جیسا صاف ہو گیا تھا۔عامل صاحب کہہ رہےتھے ۔۔اس قسم کے معاملات میں ہمت بہت ضروری ہوتی ہےء۔۔۔ تم ہی ڈر گےء تو پھر کیا رہ جاتا ہے۔۔۔پھر کچھ دیر رسمی گفتگو کرنے کے بعد حامد وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔اسنے طےء کیآ تھا کہ کچھ ہو جاےء وہ یہ خطرہ مول لیگا ۔۔ گھر آکر اس نے دادی سے کہا کہ اسے پھر کام سے جا نا ہےء۔ دو تین دن لگ جاینگے۔۔ 

لہذا وہ چچا کےگھر چلی جایں۔ دادی‌ماں تیار ہوگیء۔۔۔چلتے،وقت حامد کےسر پر ہاتھ رکھ کر خوب دعایں دیں ۔۔‌حامد انہیں چچا کےگھر چھوڑ آیا تھا۔۔جنگل جانے کے لیےء اسنے کار اسٹارٹ کی تو کار اسٹارٹ نہیں ہویء۔ کچھ دیر کوشش کرنےکے بعد اس نے کار گھر ہی پر رہنے دی اور ٹیکسی سے جنگل کی طرف نکل گیا تھا۔۔ جنگل سےکچھ پہلے،ہی اس نے ٹیکسی چھوڑ دی تھی۔۔۔اب وہ ایک بار پھر بس جنگل سے گزر رہا تھا۔۔ درخت سے گزر کر وہ ٹھیک اس جگہ تھا جہاں چیل زخمی ہوکر گری تھی۔۔۔ اس سے لگ کر ہی اس منحوس نگری کا آحطہ شروع ہوتا تھا۔۔ جیسے،ہی حامد نے احاطے میں قدم رکھا ۔۔ وہ پھر اسی محل میں تھا۔ سامنے مسند پر تہمینیہ بیٹھی تھی اسکے چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ۔ کھیل رہی تھی تھی ۔۔

 آخر تم آہی گےء وہ کہنےلگی تھی۔۔ حامد نےکہ ۔۔۔ ہاں میں نے کہا تھا نہ ۔۔ کہ آوں گا۔۔ سو آگیا۔۔ وہ ہنسی اور کہنے لگی کیا سمجھتے ہو تم ۔۔ کہ تم آےء ہو۔۔۔ نہیں نہیں۔۔ تمہارے تو ارادے یہاں سے،نکلتے ہی بدل گےء تھے۔۔۔ حامد حیران رہ گیا۔۔۔اسکی بس بات پر۔۔وہ کہہ رہی تھی ۔۔ حامد تم یہاں لاےء گےء ہو۔۔ حامد چڑ کر بولا ۔جو بھی ہو اب میں تمہارے سامنے ہوں۔۔‌تہمینیہ اچانک اٹھی اور حامد سے کہ کر کہ وہ ابھی آتی ہےء وہاں سے چلی گیء۔۔ حامد کے،لیے وہ موقع اچھا تھا ۔اسنے فورا بھسم کی ڈبی کھو لکر زمیں پر رکھ دی اور ماچس سے آگ لگا دی۔۔۔۔ایک دو سیکنڈ وہ بارود کی طرح جلی پھر اسمیں بھڑکا تو نہیں ہوا۔۔۔‌بلکہ‌ پھس پھس کرتی کالےرنگ کی ایک فٹ موٹی کوی ءشےء نکلی تھی وہ بہت تیزی۔ سے نکل تھی اور اوپر کیطرف بل کھاتی بڑھتی ہیء جارھی تھی۔ حامد کو یہ ویسی لگی جیسے ،بچپنں میں دیوالی میں سانپ گولی ملتی تھی۔۔

یہ گول سانپ نما چیز سارے کمرے میں بیل کی طرح بل کھاتی جمع ہو تی جا رہی تھی اب تک کوی میل بھر لڑی کمرے میں بھر گیء تھی کسی طرح حامد محفوظ تھا ۔۔‌اسی کےساتھ بدبودار دھویں سے کمرہ بھرنے لگا تھا۔۔۔اسی میں حامد ںے تہمینیہ کے قہقہہ سنے ۔۔ گھنٹہ بھر یہ تماشہ چلا پھر وہ کالی راکھ سے بنی لڑی ایکدم سے ٹوٹ کر راکھ کی طرح زمین پر بیٹھ گیء تھی۔ اب زمین پر کالی راکھ کا ڈھیر پڑا تھا۔۔دیکھتے دیکھتے۔ وہ راکھ زمین میں جذب ہو گیء تھی۔۔۔کچھ دیر بعد وہاں کچھ نہیں تھا۔۔۔تہمینیہ اپنا قہقہہ روک کر بولی ۔۔ حامد پیارے۔۔۔ تمہاری دنیا کے حربے ۔۔ ہماری دنیا میں نہیں چلتے۔۔۔۔ دیکھ لیا تم‌نے ۔ کیا سمجھے تھے تم۔۔ تم کو یوں ہی جانے دیا گیا تھا۔۔ کیا تم‌نے غور نہیں کیا کہ ایک چیل تمہاری ٹوہ میں تھی۔۔۔۔حامد شرمندگی محسوس کرنےلگا تھا ۔۔ ساتھ ہی اسے افسوس بھی ہو رہا تھا ناکامی پر اور اب اسے خوف لگنے لگا تھا۔۔ پھر وہ یوں بھی سوچنے لگا تھا۔۔ اس بار اگر وہ یہاں سے نکل جاےء تو۔ پھر ان ہی عامل صاحب سے توڑ کرایگا۔۔۔۔۔ کیا سوچ رہےہو۔۔۔

 تہمینیہ کی آواز آئی چلو معاف کیا۔۔ آو رات ہو رہی ہے۔۔ سیر کو چلو ۔۔ اور جو گزری اسے بھول جاوء۔۔۔‌آو۔۔اس بری ہار پر اسکا دل بجھ گیا تھا۔۔ پھر بھی وہ اگلے وقت پھر سے کویء قدم اٹھا نے کا سوچ کر اسکے ساتھ چلنے کو تیار ہو گیا۔۔۔‌ویسے بھی وہ کہہ کر آیا تھا کہ دو تین دن کام رہیگا۔۔۔اچانک اس نے دیکھا کہ تہمینیہ کا لباس بدل گیا ہے ۔۔ اب وہ بنفشی رنگ کے لباس میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔۔ غالباً وہ حامد پر کویء سحر کرتی تھی کہ حامد سب کچھ بھولںے لگتا تھا۔ اسے نہ دادی کی یاد آتی تھی نہ اپنا شہر۔۔‌بس وہ اس رنگینی میں کھو جانا چاہتا تھا دیکھتے ہی دیکھتے۔۔ایک بار پھر وہ اسی خوبصورت رنگین باغ میں تھے جہاں آسمان کی بلندیوں میں وہ عشرت کدہ جھول رہا تھا ۔

۔تہمینیہ اسکا ہاتھ تھآمے رنگین‌بادلوں بر سوار حامد کو اس جھولی پر لے جارہی تھی۔کچھ دیر بعد وہ پھر اسی جھولے میں تھے۔۔۔۔۔پھر ۔ اسی طرح دو تین راتیں گزر گیںء ۔۔ اور ایک رات بڑا تماشہ ہوگیا۔۔۔۔تہمینیہ اور حامد کو جھولے میں آےء کچھ دیر گزری تھی کہ ۔۔ اچانک۔ تیز ہوایں چلنے لگی تھی مسہری زدہ پلنگ یا جھولا۔۔ بہت ہچکولے کھانے لگا۔۔ ادھر بادلوں میں زبردست گڑگڑاہٹ ہو نے لگی تھی۔۔ اور بجلیاں اللہ کی پناہ۔۔۔‌اتنی تیز کہ آنکھیں چندھیا نے لگی تھیں ۔‌ بجلی کے لہریہ ایسے لگتے تھے کہ وہ مسہری میں آکر ہی دم لینگے۔۔

اچانک حامد نے محسوس کیا کہ تہمینیہ کے جسم پر کثرت سے بال نکل آےء تھے۔۔ وہ ڈرنے،لگا تھا۔۔ کہ دوسرا اچنبھا ہوا۔۔ تہمینیہ کے ہاتھ پیچھے کیطرف مڑ گےء تھے اور بجلی کی روشنی میں حامد نےدیکھا کہ اسکے ہاتھوں کی جگہ بڑےبڑے،پر تھے۔۔ اتنے،شور میں تہمینیہ کی چینخیں اللہ کی پناہ۔۔ اچانک اسکا منہ گول ہو نے لگا تھا آنکھیں باریک ہونے لگیں تھیں۔ ناک اور ہونٹ۔۔ آگے آکر چونچ بنے،لگے تھے حامد پر لرزہ تاری ہو ںے لگا تھا۔۔۔تہمینیہ چیل بن رہی تھی۔ اسکے جسم سے پرندوں کی بدبو آنے لگی تھی ۔ اسکی زور دار چیخیں چیل کی مکروہ کلاریوں میں تبدیل ہو گیں تھیں۔ جن سے حامد کے کان پھٹتے لگ رہے تھے۔ وہ ایسے چینخ رہی تھی جیسےکوی چیل کو ذبح کر رہا ہو حامد کی گھگی ۔بند گیءتھی۔ ۔باہر ہوا کا طوفانی شور ۔۔‌پھر ایک زبردست بجلی کڑکی ۔۔اور کسی انجانی قوت نے چیل تہمینیہ کی گردن پکڑ کر اسے مسہری سے باہر کھینچ لیا تھا۔۔۔ اسی وقت ۔حامد کو یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے مسہری الٹ دی ہو ۔ وہ اتاہ گہرایوں میں گرنے لگا تھا ۔ اس پر بیہوشی چھانے لگی تھی۔۔۔۔

حامد کو ہوش آیا تو اسنے خد کو تہمینیہ کے محل میں زمیں پر پڑا پایا تھا حیرت کن بات تھی کہ اسکا جسم کرنےکی چوٹوں سے پاک تھا۔۔۔ اسنے دیکھا کہ اسکے پاس ایک لڑکی بیٹھی ہے جو اسے ہوش میں لانے کی کوشش کرہی تھی جو اسکے ہوش میں آتے ہی دور سرک کر بیٹھ گیء تھی۔۔حامد نے تہمینیہ کو آواز لگایء۔۔۔تب ہی وہ لزکی بولی۔۔۔چلو تمہیں ملکہ کےپاس جانا ہےء۔ اسکے لہجہ کی تلخی حامد محسوس کےء بغیر رہ نہ سکا تھا۔۔حا مد نے کوی جواب نہیں دیا تھا۔۔۔کچھ دیر بعد وہ تیز آواز میں بولی چلو۔۔۔۔ اٹھو فورآ۔۔۔‌اس بار اسکے تحکمانہ لہجے میں غراہٹ شامل تھی ۔۔حامد کے اٹھ کھڑے ہوتے ہی اس نےکہا میرا ہاتھ پکڑ لو۔۔‌حامد خاموش کھڑا رہا ۔۔ تب اس نے اپنے مر مریں و گداز ہاتھ سے،حامد کی کلایء تھام لی حامد کی چینخ نکل گیء اسے لگا جیسے کسی چیل نے اپنا نکیلا پنجہ اسکی کلایء میں گاڑ دیا ہو۔۔۔اچانک وہ ایک عجیب آواز میں کوی نغمہ گانے لگی تھی ۔۔‌

حامد کو وہ آوازیں متعدد چیلوں کیکلاریاں لگیں تھیں۔۔‌چونکہ ان میں ایک لےء تھی اس لیے حامد کو وہ کوی نغمہ ہی لگا تھا ۔ نغمہ اتنا مکروہ تھا کہ حامد کو اختلاج محسوس ہونے لگا تھا۔۔‌ابھی اسکا نغمہ شروع ہی ہوا تھا کہ کمرہ میں بھورے رنگ کا دھواں بھرنے لگا تھا۔۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے کسی ٹرک سے ۔ نکلتا ہو جو مٹی کا تیل ڈیزل میں مکس کر کے چلا یا جا رہا ہو۔۔ حامد کو ہلکا ٹھسکا لگنے لگا ۔۔ اس نے دیکھا کے لڑکی کی آنکھیں بند ہےء اور وہ اپنا دوسرا ہاتھ چھت کی طرف اٹھا کر مسلسل گیت گانے میں محو تھی۔۔۔۔۔دھویں کی کثافت سے حامد کو آنکھوں میں جلن محسوس ہوی تو اسنے آنکھیں بند کر کے آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا تھا۔۔۔کچھ ہی دیر میں جلن کم ہوی تو اس نے،آنکھیں کھول دیں۔۔۔وہ بھونچکا رہ گیا تھا ۔۔

 اس وقت وہ ملکہ نورینہ کے محل میں تھا۔۔۔‌اسکے کچھ دور پر تہمینیہ کھڑی تھی.. وہ تعجب میں پڑ گیا کل رات ہی اس نے تہمینیہ کو آسمانی جھولے میں چیل بنتے دیکھا تھا۔۔‌تو کیا وہ وہم تھا ۔‌۔ یا اسے تماشہ دکھا یا گیا تھآ۔۔‌پھر وہ سوچنےلگا تھا یہان کچھ بھیہو سکتا ہےء۔۔‌ تہمینیہ کی آنکھوں میں بے انتہا خوف تھا۔۔۔۔سامنے ہی بڑے عالیشان بلوری مسند پر جس سے مختلف رنگوں کی روشنی پھوٹ رہی تھی ۔۔ ایسے رنگ جو حامد کے وہم و گمان میں بھی نہ تھے۔ملکہ نورینہ۔ اسپر بہتریں سفید لباس میں ایک شاہانہ انداز نیں براجمان تھی۔۔۔چہرہ تہمینیہ سے لاکھ درجہ خوبصورت اور متناسب تھا۔۔‌ خوبصورتی گو یا ختم تھی اس پر ۔۔‌اسکے چہرے سے،گویا نور ٹپکتا تھا ۔‌حامد سوچنے لگا تھا کہ اسکا نام‌ بالکل مناسب ہے۔۔ حامد کی نظر اسکے چہرہ پر جم سی گیء تھی۔۔۔وہ سوچ رہا تھا کہ اسنے پہلے ہی ملکہ کےپاس چلے جانا چاہیے تھا۔۔اچانک اسکے کانوں نے سنا جیسے ہزاروں موتیاں چاندی کے۔ طباق می گر رہی ہوں۔۔‌دراصل یہ نورینہ کی آواز تھی جو حامد سے مخاطب تھی۔۔‌وہ کہ رہی تھی ۔۔۔ دیکھ لیا ملکہ ۔۔ کو۔۔۔حامد جو اسکے حسن کی تاب نہ لا سکا تھا۔۔ گھگھیانے لگا تھا۔۔‌خاموش۔۔ نورینہ کی آواز گونجی۔۔۔۔۔

 تم دونوں ہی گناہ کے مرتکب ہو۔۔ مگر۔۔ مگر پہلی سزا ۔۔ اس۔۔ کو ملیگی کہ اسکا جرم سنگینی کی حدیں پار کر چکا ہےء۔۔۔ اور۔۔ تو۔۔۔۔۔سزا ۔۔۔تو تجھے۔ بھی یادگار ہی ملیگی۔۔۔۔۔ رحم ۔‌رحم ملکہ رحم ۔۔ تہمینیہ گڑ گڑانے لگی تھی۔۔۔خاموش گستاخ۔۔۔ رحم کےلیے تونے گنجایش ہی کہاں چھوڑی ہےء۔۔۔ تو حقیر رحم کے قابل ہی کہاں رہی ۔۔ حالانکہ میرا اعتماد تجھ پر ہی زیادہ تھا۔۔۔۔ہمت جٹا کر تہمینیہ بولی۔۔ مگر ملکہ میرا قصور کیا ہوا۔۔میں تو اسے آپ ہی کے روبرو لا رہی تھی۔۔۔۔خآموش۔۔۔ ایک زبردست چنگھاڑ کےساتھ کےساتھ ملکہ غرایء۔۔۔اپنے استمعال میں لانے کے بعد۔۔۔۔ کمبخت۔۔۔۔تونے ہمارے معاشرہ کو خراب کرنے کی مثال قایم کی ہےء۔۔کیا تجھےعلم‌نہیں تھا کہ ہمارا انسانوں سے کوی واسطہ نہیں ہوتا ھے۔۔ جی ملکہ تہمینیہ بولی۔۔۔ پھر تجھ سے یہ ناپاک غلطی کیسے ہوی۔۔ ۔۔ کون سی غلطی ملکہ۔۔ تہمینیہ نے انجان بن کر کہا۔۔۔‌خاموش بد چلن۔۔ نورینہ کی چنگھاڑ گونجی۔۔۔‌تیری شکم میں اس انسان کا منحوس اور ناپاک بچہ وجود‌ لے چکا ہے۔۔۔کیا یہ تیری سزا کے لیے کافی نہیں ہے ۔۔ کیا تو ہمارے معاشرہ کے اصول بھول گیء تھی ۔۔رحم ملکہ رحم ۔۔

 تہمینیہ کمزور آواز میں گڑگڑا رہی تھی۔۔۔ ۔ نورینہ نے اسکو نظر انداز کیا اور آنکھیں بند کر کے کویء گیت گانا شروع کیا۔۔‌گاتے،وقت اسکی آواز بےحد ناگوار اور مکروہ ہو گیء تھے۔۔۔حامد کو اختلاج ہونے لگا تھا۔۔‌جوں جوں اسکی آواز بلند ہوتی ۔۔‌تہمینیہ بری طرح سے بل کھانے لگی تھی۔۔اسکے منہ سے خوفناک چیخیں نکلنے لگیں تھیں۔۔ادھر مکروہ گیت کےساتھ طوفانی ہوایں بھی چلنے لگیں تھیں۔۔‌تہمینیہ بل کھاتے کھاتے قریب تھا کہ گر جاتی۔۔ حامد نےسوچا کہ اسکو تھا ملے۔۔ تب ہی وہ سن رہ گیا ۔ اسکو محسوس ہوا کہ وہ جامد ہو چکا تھا اسکا تمام جسم حرکت نہیں کر سکتا تھا وہ ایک جیتے مجسمہ کی طرح ہو گیا تھا۔۔۔

مجبوری سے اسنے نورینہ کی طرف دیکھا تو وہ اوپر ہاتھ اٹھاےء اپنی آنکھیں بند کیےء بےخبر منحوس گیت میں محو تھی۔۔۔۔ بھر حامد کی آنکھوں نے جو منظر دیکھا۔۔۔‌اگر کوی دوسرا ہوتا تو اسکی حرکت قلب رک جاتی۔۔۔۔۔اسنے دیکھا کہ تہمینیہ کےجسم پر بھورے رنگ کے بہت زیادہ بال نکل آئے تھے ۔۔‌

اسکی چینخیں۔ اللہ کی پناہ۔۔‌اب وہ اول فول بکنے لگی تھی۔۔۔۔ادھر حامد ہل بھی نہیں پا رہا تھا۔۔۔تہمینیہ کے ہاتھ پیٹھ کی طرف مڑنے لگے تھے اور ۔۔۔‌اب وہ بڑے بڑے،پروں میں تبدیل ہو گےء تھے۔۔ اسکے پاوں بڑی چیل کے ہو گےءتھے تھے۔۔ماحول میں بے ہنگم شور مچا ہوا تھا ۔۔ کان پڑی آواز سنایء نہیں دیتی تھی۔۔تہمینیہ دیکھتے دیکھتے اب مکمل چیل بن چکی تھی۔۔ حامد‌ کی ہچکیاں بند گیں تھیں وہ اسکے لیے کچھ بھی نہیں کر پا رہا تھا۔۔۔حامد نے آنکھیں بند کر لیں تھیں۔ اسنے سنا کہ اب تہمینیہ کی چیخیں اب چیل کی کلاریوں میں تبدیل ہو گیء تھیں۔۔۔

اسنے آنکھیں کھولی تو پھر ایک حولناک منظر سامنے تھا۔۔‌نورینہ اب بھی گیت میں محو تھی۔۔۔ ۔‌مگر تہمینیہ۔۔۔‌اسکا قد چھوٹا ہوتا جا رہا تھا۔۔‌دیکھتے دیکھتے وہ بکری کے قد کے برابر ہویء تھی اور اب۔۔۔وہ اصلی چیل کے قد کی برابر ہو رہی تھی اسکی آواز یا کلاریاں بھی گھٹ گیں تھیں ۔۔۔‌حامد نے محسوس کیا کہ اب تہمینیہ چیل بنا دی گیء ۔۔‌مگر وہ تہمینیہ کے اس انجام‌ سے واقف نہ تھا جو انجام نورینہ کرنے جا رہی تھی۔۔‌اس نے دیکھا کہ اب تہمینیہ چھوٹی سی چڑیا بن گیء تھی حامد کی چینخ نکل گیء۔۔ پھر اسکی آنکھوں نے ایک حولناک منظر دیکھا۔۔ وہ چڑیا زمین پر ایک طرف لڑھک گیء تھی ۔۔‌اسکے جسم سے پر غایب ہو تے جارہے تھے وہ ایسے تڑپ رہی تھی اور چینخ رہی تھی جیسے کوءی اسکے پر نوچ رہا ہو ۔۔۔سفاک نورینہ گیت میں ڈوب چکی تھی۔۔ ماحول میں بے ہنگم موسیقی کا شور بڑھ نےلگا تھا۔ جیسے،کیء ناقوص ایک ساتھ بج رہے ہون۔۔‌ساتھ نیں گھنٹیوں کی بھی آوازیں شامل تھیں۔۔ہوا کے جھکڑ بھی چلنے لگے تھے ۔۔

۔‌ حامد کا دل چاہا کہ چھلانگ مار کر نورینہ کی گردن دبوچ لے۔۔۔ مگر وہ بے دست و پاءی کا شکار ہو چکا تھا۔۔۔۔۔۔ سسکتے ہوےء حامد نے اس چڑیا کی طرف دیکھا تو اسکے خد کے جسم پر کانٹے آنے لگے تھے۔۔۔ اب وہ چڑیا کے اس بچے کی طرح ہو گیء تھی جسکے جسم پر صرف گلابی کھال رہتی ھے اور وہ ایسے تھر تھرا رہی تھی جسے وہ ابھی گھونسلے،سے زمیں پر گری ہو۔۔وہ پوری چونچ پھاڑ کر چلانے کی ناکام کوشش کرہی تھی اس کے پیروں میں تناو پیدا ہورہا تھا ۔ اور۔۔۔ اور اسکےتمام‌جسم‌ پر لال چیوںٹیاں گردش کر رہیں تھیں۔۔۔ حامد دھاڑیں مار کر رونے لگا تھا۔۔۔‌کچھ بھی تھی ۔۔ اس ںے حامد راتیں رنگیں کی تھیں۔اور‌ اسے زندہ رکھنے کی امید بندھای تھی‌‌۔۔‌وہ تہمینیہ سے معافی مانگ رہا تھا ۔۔۔۔‌پھر اچانک سارا شور یکلخت تھم گیا تھا۔۔۔۔۔ زمیں پر سے سب کچھ غایب تھا ۔نہ اب وہاں چڑیا کا نوزایدہ بچہ تھا نہ لا ل چیونٹیاں۔

سارا ماحول پر سکون ہو گیا تھا۔۔۔‌حامد ہچکیاں لے رہا تھا۔اسنے ہچکیوں کےدرمیان سر اٹھا کر دیکھا تو اس پر لرزہ تاری ہوگیا تھا۔۔ نورینہ اسکی طرف گھور رہی تھی۔۔وہ کہنے لگی تھی۔۔۔‌دیکھ لیا انجام۔۔ غداری کا۔۔۔ مگر تجھے اسکی سزا نہیں ملیگی ۔۔ اسمیں تیرا قصور نہیں تھا۔۔تجھے سزا ملیگی شمعونہ کے قتل کی۔۔۔ ہاں شمعونہ میری بہن۔۔ میرے کلیجے کا ٹکڑا۔۔‌میرے چاندنی۔۔‌تجھے کیا پتہ۔۔ میں نے چار سو سال اسکی آمد کا انتظار کیا تھا۔۔ ہاں ںہ مجھ سے چار سو برس چھوٹی تھی ۔۔ اور تو نے ایک جھٹکے میں اسے فنا کر دیا۔۔۔ تجھے اسکی سزا ملیگی۔۔۔

 حامد نے کچھ عذر پیش کرنا چاہا تو وہ بول نہ سکا تھا ۔ اس کی قوت گویای سلب ہو چکی تھی۔ اس کے منہ سے گونگے کی طرح۔۔ آوازیں نکل رہی تھیں۔۔۔اچانک اس کےسر میں درد محسوس ہوا۔۔ پھر اسکا سارا بدن اینٹھنے لگا تھا۔۔ اسے گال ایک دوسرے سے چپکنے لگے تھے آنکھیں کنپٹیوں کی طرف آ گیںء تھیں۔وہ چیل بن رہا ۔ اسکے ہاتھ پیچھے کی طرف مڑ کر پنکھ بن گےء تھے اور پیر چیل کے۔۔ وہ چینخ بھی نہیں پارہا تھا۔۔ کچھ ہی دیر میں وہاں ایک عام سایز کی چیل نظر آرہی تھی۔۔۔۔۔ادھر نورینہ کہہ رہی تھی ۔۔ اب تیری یہی شکل رہیگی۔۔ آٹھ ماہ بعد شمعونہ کو گزرے ایک برس ہو جایگا۔۔۔ تب تک تو ہمارے لوگوں کے ساتھ گشت خوری کے،لیے آزاد رہیگا۔۔ انہی کے ساتھ تجھے یہاں واپس آجانا ہوگا۔۔۔۔

نہیں آیگا تو انجام تجھے سمجھا نے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔۔البتہ ایک سال بعد تو آزاد رہیگا جہاں جی چاہے چلے جانا۔۔۔‌تیرے ساتھ ہم نے رحم کا معاملہ کیا کہ تیری جان بخشی کی ہےء۔۔ حامد سوچنے لگا اس جان‌بخشی سے تو موت ہی اچھی تھی۔۔۔دوسرے لمحہ اسنے خد کو بہت ساری چیلوں کےساتھ آسمان میں گشت کرتا پایا تھا۔۔۔۔۔اب وہ روز اسی طرح گشت خوری کرنےلگا تھا یہ اسکا معمول بن گیا تھا ۔۔ جو آٹھ ماہ چلتا رہا تھا۔۔۔‌

اس درمیان اس کا دورہ اسکے مکان پر سے بھی ہوا کرتا تھا تھا۔۔۔‌پھر ایک دن اسنے یہ بھی دیکھا کہ اسکے گھر کے باہر ایک شامیانہ لگا تھا۔۔۔‌اور بہت سے لوگ سروں پر دستیاں باندھے کھڑے تھے ۔۔اسنے ذرا نیچی ا ڑان بھری اور گھر کے اندر کے پرانے نیم کے درخت کی شاخ پر بیٹھ گیا۔۔‌۔۔ اس نے دیکھا اسکی دادی جنازے میں پڑی تھیں اور عورتیں قطار میں دیدار کر رہی تھی۔۔ تب ہی اسکے منہ سے سسکاری نکلی تھی جو چیل کی کلاری کی طرح گونجی تھی ۔۔ جسے سن کر کوی چلایا۔۔ ارے دیکھو وہ منحوس چیل۔ پھر بہت سے پتھر اسکی طرف اچھلے تھے۔ وہ اڑان بھر کر وہاں سے اڑ گیا تھا ۔

آج آٹھ ماہ ہو گےء تھے۔۔ اب اس جنگل میں نہ نورینہ تھی نہ اسکا محل نہ چیلیں۔۔ ایک بری ویرانی تھی۔۔ وہ گھومتا گھومتا اپنے گھر آگیا تھا۔۔ اور وہیں رہنے کا ارداہ کر لیا تھا۔۔اسنے گھر کی چھت کی اولتین می بسیرہ بنا لیا تھا۔۔ اسنے دیکھا کہ سارا گھر ویران ہو چکا ہےء۔۔ گھر کا سامان ندارد تھا۔۔۔۔ پانی کے برتن سوکھ گےء تھے ۔۔پودے مرجھا گےء تھے۔۔۔‌دیواروں کا پلاسٹر اکھڑنے لکا تھا۔۔۔دیواروں اور صحن میں گھانس اگ گیء تھی۔۔۔حشریات کی آوازوں سے،گھر گونجتا رہتا تھا۔ حامد کو اب کسے چیز کی ضرورت بھی نہیں رھی تھی۔۔ وہ چیل بنا ہوا تھا۔ اب یہی اسکی زندگی تھی۔۔۔۔ ایک دن اس نے دیکھا کہ کچھ لوگ مکان خریدنے کی بات کر رہے تھے وہ اندر سے مکان دیکھنآ چاہتے تھےتب ہی کسی نےکہا۔۔ ارے بھای اسے مت خریدو ۔۔۔پچھتاوء گے ۔۔ یہاں برس ں سے انسان نہیں رہتے۔۔ ۔۔۔۔یہاں چیلوں کا بسیرہ ہےء۔۔۔ یہ اب چیل گھر ہے۔
ختم شد

مزید اردو کہانیاں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں



Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں