آرزو عشق - سیزن 1 (آٹھواں حصہ)

Urdu Stories
 

آرزو عشق - سیزن 1 (آٹھواں حصہ)

جن اور انسانی لڑکی کی محبت


" وہ آپ کا بھائی تھا؟ "
غازان کے ساتھ چلتے ہوئے اس نے آہستگی سے پوچھا تاکہ رباب تک آواز نہ پہنچ سکے۔
" ہاں !! "
ایک لفظی جواب دے کر وہ خاموش ہوگیا۔ اسے زوالقرنین کے متعلق بات کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ مگر نہ جانے کیوں خاطره دلچسپی لے رہی تھی۔
" لیکن وہ تو آپ میں نہیں ملتے نہ آنٹی میں۔ ان کی آنکھوں کا رنگ بھی مختلف ہے۔"
" وہ بابا پر ہے۔"
" اوہ اچھا۔"
اس نے سمجھتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا کہ تبھی وہ تینوں ایک کمرے کے سامنے جا رکے۔
" غازان تم خاطره کو بٹھاؤ میں ابھی آئی۔"
" جی ماما۔"

رباب مسکرا کر خاطره کی طرف دیکھتی وہاں سے چلی گئی۔ جبکہ غازان اسے لیے اپنے کمرے کے اندر داخل ہوا۔
" یہ کس کا کمرہ ہے؟ "
سیاہ اور سفید رنگ میں ڈوبے مگر خوبصورتی سے سجے کمرے کو دیکھتے ہی اس نے پوچھا۔
" میرا ہے، تمہیں پسند آیا؟ "
خاطره کے چہرے کے تاثرات کو بغور دیکھتے ہوئے اس نے مسکرا کر پوچھا۔
" ہاں !! اچھا ہے۔"
" ویسے مجھے یاد آیا کل آپ ہمارے گھر کیسے آئے تھے؟ "
اس اچانک پوچھے جانے والے سوال پر غازان نے گڑبڑا کر اسے دیکھا جو اب سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ کم گھور زیادہ رہی تھی۔
" دروازے سے آیا تھا اور کیسے آؤں گا۔"
" نہیں دروازہ لاک تھا۔ پھر آپ کیسے آئے؟ " اب کے خاطره کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔
" جی نہیں آپ نے لاک نہیں کیا تھا مجھے لگتا ہے آپ کو بھولنے کی بیماری ہوگئی ہے۔"
غازان کے کہنے پر وہ غصّے سے بھری اسے کچھ سنانے کیلئے منہ کھول ہی رہی تھی کہ رباب ہاتھ میں ٹرے تھامے کمرے میں داخل ہوئیں۔
" یہ کیا غازی، تم نے اسے بٹھایا نہیں۔ " چائے کی ٹرے ٹیبل پر رکھتے ہوئے وہ غازان سے بولیں پھر خاطره کی جانب مڑیں۔
" بیٹھو بیٹا۔ "
" جی !! "

" غازان نے تمہارے بارے میں بتایا تھا اور آج دیکھ بھی لیا۔ تم واقعی بہت پیاری ہو۔" رباب اس کے ساتھ صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولیں۔
خاطره کی نظر یکدم غازان کی طرف اُٹھیں مگر اُس کی آنکھوں میں نظر آتا اپنا عکس اسے واپس نظریں جھکانے پر مجبور کر گیا۔
رباب کے ساتھ چائے پینے اور چند ادھر اُدھر کی باتوں کے بعد وہ واپس غازان کے ساتھ گھر چلی آئی جب گھر کے دروازے پر رکتے ہوئے غازان نے پوچھا۔
" کل ایوبیہ چلو گی میرے ساتھ؟ "
" ایوبیہ کیوں؟ " دل میں اُٹھتی خواہش کو ڈپٹ کر اس نے سوال کیا۔
" ویسے ہی گھوم پھر لینگے تمہیں بھی اچھا لگے گا۔" وہ سر کھجاتا ہوا بولا۔
" ہمم !! ماما سے پوچھوں گی۔" خاطره نے سوچتے ہوئے جواب دیا۔
" اوکے تو میں رات کو کال کر کے پوچھوں گا بائے۔"
وہ کہہ کر واپس گھر کے راستے چل پڑا۔ خاطره اس کی پشت کو دیکھتی مسکرانے لگی کہ ایک دم چونکی۔
" ان کے پاس نمبر کہاں سے آیا؟ "

" آخر تم بتاؤ گے یہ کب سے چل رہا ہے اور آج تو اسے گھر بھی لے آئے۔" غازان کے گھر پہنچتے ہی میکال اس کے سر پر جا کھڑا ہوا۔ جو اپنے کمرے میں ایزی چیئر پر آنکھیں موندے بیٹھا تھا۔
" کب سے۔۔۔" اس نے زیرِ لب دھرایا۔
" ہاں کب سے بتاؤ۔"
" کراچی سے !! "
آنکھیں بند کیے وہ پُر سکون سا بولا۔
" کراچی !! کراچی تو تم تقریباً پانچ ماہ پہلے گئے تھے۔ کسی کیس کے سلسلے میں۔"
میکال بےیقینی سے اسے دیکھے گیا۔ کیا وہ جھوٹ بول کر گیا تھا؟
" ہاں !! پانچ ماہ ہوگئے اس بات کو جب اس دن مری واپس آنے کیلئے میں ہوٹل سے نکلا تھا تب میرے سامنے ہی سڑک پر ایک تیز رفتار سے آتی کار کا بُری طرح ایکسیڈنٹ ہوا۔ اس وقت وہاں کوئی موجود نہیں تھا کہ کار میں زخمی پڑے شخص کو ہسپتال لے کر جائے۔ اس لیے ناچار مجھے ہی اسے ہسپتال لے جانا پڑا مگر۔۔۔" وہ رکا، جیسے مزید کہنے کیلئے الفاظ ڈھونڈ رہا ہو۔
" مگر وہاں پہنچ کر میری دنیا ہی بدل گئی۔ جب وہ دونوں ماں بیٹی باپ کی حالت کا سنتے ہی ہسپتال پہنچی تھیں۔ لیکن جب تک پہنچی باپ اس دنیا سے جا چکا تھا۔ یہ خبر ملتے ہی ان دونوں نے رونا شروع کر دیا تھا۔ اس وقت وہ ہر چیز سے بیگانہ ہو کر بس اپنے پیارے کیلئے آنسو بہا رہی تھیں اور میں وہیں بےبس کھڑا اسے روتے دیکھ رہا تھا۔ ناجانے کیوں اس کی آنکھ سے گرتا ہر ایک آنسو مجھے میرے دل میں جذب ہوتا محسوس ہو رہا تھا۔" کہتے ہوئے اس کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری اس نے آنکھیں کھول کر سامنے کھڑے میکال کو دیکھا۔
" انسان اپنی محبوبہ کی خوبصورتی پر مر مٹتے ہیں اور مجھے دیکھو، میں اس کے آنسوں پر مر مٹا تھا۔" اپنی ہی کیفیت پر ہنستے ہوئے اس نے سر جھٹکا۔
" خیر !! باقی کا سارا وقت بھی خاطره کی نظروں میں آئے بغیر میں اس کے ساتھ رہا تھا۔ لیکن پھر ماما کے بلانے پر میں واپس مری آگیا تھا۔ مگر وقتاً فوقتاً بس اس کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے کراچی ضرور جاتا تھا۔" اس نے بات ختم کرتے ہوئے میکال کو دیکھا جو اب بھی بےیقینی کی کیفیت میں گھیرا ہوا تھا۔
" تو مطلب یہ سب اب سے نہیں بلکہ پانچ ماہ سے چل رہا ہے اور تم نے کسی کو خبر بھی نہیں ہونے دی۔"
" جس سے محبت کرتا ہوں اُسے خبر نہیں ہونے دی تو تمہیں کیسے پتا چلتا۔" غازان کہتا ہوا چیئر سے اُٹھا اور کھڑکی کے سامنے جا کھڑا ہوا۔
" اب کیا کروگے؟ مطلب تم جانتے ہو تم کیا ہو غازان۔" وہ اس کی پشت کو دیکھتے ہوئے کیا جتا رہا تھا غازان اچھے سے جانتا تھا۔
" میں سب جانتا ہوں۔" وہ سپاٹ چہرے سے بولا۔
" تو۔۔۔ تو پھر تم یہ بھی جانتے ہوگے کہ وہ تمہاری حقیقت جاننے کے بعد تمہیں قبول نہیں کرے گی۔"
اب کی بار غازان خاموش رہا، کہنے کو کچھ تھا ہی نہیں۔ خاطره اور اس کے درمیان موجود یہ تلخ حقیقت وہ چاہ کر بھی جھٹلا نہیں سکتا تھا۔

مسلسل بجتی بیل پر مشہد نے تیزی سے جا کر دروازہ کھولا تو سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر آنکھوں میں اجنبیت اُتر آئی۔
" اسلام علیکم !! "
" وعليكم السلام !! آپ کون؟ "
" جی میں رہبان مرزا !! آپ کا پڑوسی۔" اُس نے اپنا تعارف کرایا۔
" اوہ !! آپ وہی ہیں نا جو خاطره کو مال روڈ لے کر گئے تھے۔" مشہد یاد کرتے ہوئے بولیں۔
آج صبح ہی خاطره نے انہیں بتایا تھا۔ جس پر مشہد کو کچھ اچھا تو نہیں لگا تھا پر کوئی خاص ردِعمل بھی نہیں دیا تھا کیونکہ وہ جس ماحول سے آئی تھیں وہاں لڑکا لڑکی کی دوستی کو معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ مگر اس کے بعد بھی وہ لڑکا لڑکی کی دوستی میں ایک حد کی قائل تھیں۔
" آؤ اندر آ جاؤ۔" مشہد نے سائڈ پر ہو کر اسے اندر آنے کا راستہ دیا۔
" آپ بیٹھو بس میں ابھی آئی۔" مشہد کہتی ہوئی کچن کی جانب بڑھیں اور اس کیلئے کافی بنانے لگیں۔
رہبان وہیں صوفے پر بیٹھا چاروں طرف نظریں دوڑا رہا تھا کہ شاید کسی کمرے سے وہ باہر نکل آئے۔
" یہ لو کافی پیو۔"
چند لمحوں بعد ٹرے ہاتھ میں لیے مشہد اس کے سامنے صوفے پر آ بیٹھیں۔ رہبان نے شکریہ ادا کرتے ہوئے بھاپ اُڑاتی کافی کا کپ اُٹھا کر لبوں سے لگایا۔
" کل میری بہن کی سالگرہ ہے۔ اس لیے میں آپ لوگوں کو انوائیٹ کرنے آیا ہوں۔" کافی کا کپ نیچے کرتے ہوئے وہ گویا ہوا۔
" یہ تو اچھی بات ہے، ہم ضرور آئیں گے۔" مشہد نے مسکراتے ہوئے کہا۔
" ویسے تو ماما بھی آنا چاہ رہی تھیں مگر ان کے گھٹنوں میں درد تھا اس لیے میں نے سوچا یہ کام بھی میں ہی انجام دے دوں۔" رہبان نے کہتے ہوئے انوٹیشن کارڈ مشہد کی طرف بڑھایا جسے انہوں نے فوراً تھام لیا۔
چند مزید باتوں کے بعد وہ گھر سے چلا گیا تو مشہد اُٹھ کر کچن کی جانب بڑھ گئیں۔ جبکہ اپنی بالکنی میں کھڑی خاطره حیرت سے رہبان مرزا کو گھر سے باہر نکلتے اور اب اپنے گھر کی طرف جاتے دیکھ رہی تھی۔
" یہ کیوں آیا تھا؟ "

میکال رباب کے کمرے میں داخل ہوا جو ہاتھ میں تسبیح لیے کچھ پڑھنے میں مصروف تھیں۔ وہ وہیں رک کر ان کے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگا۔
" کیا ہوا میکال؟ "
اس کے چہرے پر چھائی سنجیدگی دیکھتے ہوئے انہوں نے پوچھا۔
" بڑی ماں !! آپ کو سب پتا تو ہے۔" وہ کہتا ہوا ان کے پاس ہی بیڈ پر بیٹھ گیا۔ میکال کس بات کی طرف اشارہ کر رہا تھا رباب اچھے سے جانتی تھیں۔
" میں نے سمجھانے کی بہت کوشش کی پر تم جانتے تو ہو۔ ایک بار کوئی جن کسی کے عشق میں مبتلا ہو جائے تو اس سے دستبردار نہیں ہوتا۔" وہ دھیمی آواز میں بولیں۔
" مگر دادا ذوالفقار ان تک بات پہنچ گئی تو۔۔۔"
" غازان کے آگے وہ بھی سر جھکا دینگے، تمہیں پتہ تو ہے۔" رباب کے کہنے پر میکال نے اثبات میں سر ہلایا مگر اب بھی وہ مطمئن نظر نہیں آ رہا تھا۔
" کوئی اور پریشانی ہے؟ " رباب پوچھے بغیر نہ رہ سکیں۔
" ہاں خاطره !! بڑی ماں وہ لڑکی، کیا وہ قبول کر لے گی غازان کی حقیقت جاننے کے بعد؟ "
اس کے سوال پر رباب نے نظریں چرا لیں۔ ایک یہی سوال تھا جس کا جواب فی الحال کسی کے پاس نہیں تھا۔
" اللّٰه بہتر جانتا ہے بیٹا۔"
وہ بولیں تو میکال کو ناجانے کیوں ان کے لہجے میں بھگا پن محسوس ہوا۔
۔*********۔
" رہبان یہاں کیوں آئے تھے؟ "
مشہد کے کمرے میں داخل ہوتے ہی ذہن میں مچلتا سوال زبان تک آیا۔
" کل اس کی بہن کی سالگرہ ہے تو ہمیں انوائیٹ کیا ہے۔" بیڈ شیٹ کو درست کرتے ہوئے وہ سرسری انداز میں بولیں۔
" اوہ !! "
" کیا ہوا۔۔۔ کوئی پریشانی ہے؟ "
خاطره کے چہرے کے تاثرات کو بغور دیکھتے ہوئے مشہد نے سیدھے کھڑے ہوتے ہوئے پوچھا۔
" ہاں وہ کل غازان کے ساتھ ایوبیہ جانے کا سوچ رہی تھی۔ پر ابھی آپ سے پوچھا نہیں تھا تو غازان کو جواب نہیں دیا۔" وہ کہتی ہوئی ان کے پاس بیڈ پر آکر بیٹھ گئی۔ اس کے انداز سے صاف ظاہر تھا کہ وہ ایوبیہ جانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
" پر کل رہبان کی بہن کی سالگرہ کے وہاں بھی تو جانا پڑے گا کچھ ہمسایوں کے حقوق بھی ادا کرنے ہوتے ہیں۔" مشہد الماری کی طرف بڑھتی ہوئی بولیں ساتھ ہی الماری سے اپنے کپڑے نکالنے لگیں۔ خاطره نے منہ بسور کر ان کی پشت کو دیکھا۔
" تو آپ چلے جائے گا نا۔"
" تم غازان کے ساتھ جانا چاہتی ہو؟ " اب کے مشہد سنجیدگی سے اس کی جانب متوجہ ہوئی تھیں۔
" میں ایوبیہ جانا چاہتی ہوں۔" خاطره نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔
" ٹھیک ہے پھر چلی جاؤ پر شام سے پہلے واپس آنا۔" سنجیدگی سے اجازت دیتی، وہ اسے پابند بھی کر چکی تھیں۔ خاطرہ اثبات میں سر ہلاتی اُٹھ کر کمرے سے باہر نکل گئی اس کیلئے اتنا بہت تھا کہ مشہد راضی ہوگئی تھیں۔

" اس جادو کے زریعے تم میرے وجود کو تو حاصل کر سکتی ہو مگر میرا دل، میری روح ہمیشہ اُس سے محبت کرتا رہے گا۔" سلاخوں کو سختی سے پکڑے وہ دھاڑا پورا کمرہ اس کی دھاڑ سے لرز اُٹھا تھا۔
" اتنے سال ان سلاخوں میں رکھ کر دیکھو کیا ملا تمہیں وہ بیٹا جو کسی محبت کی نشانی نہیں بلکہ تمہارے گناہوں کی نشانی ہے۔"
آج جب وہ جادو کے اثر سے باہر نکلا تو ایک دم بے قابو ہوگیا۔ جبکہ کمرے کی اوپری کھڑکی سے جھانکتا دس سالہ زوالقرنین اپنے باپ کے اس روپ کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔
" بکواس بند کرو۔ ابھی تک تمہارے سر سے اُس کی محبت کا بھوت نہیں اُترا۔"
سامنے زمین پر بیٹھی، لال چوگا پہنے، زیرِ لب منتر پڑھتی زوجیل ایک دم چلا اُٹھی تھی۔ قائم ذوالفقار کی رباب سے محبت اور اس سے نفرت بھلا وہ کیسے برداشت کر سکتی تھی۔ اپنی سرخ آنکھوں سے قائم ذوالفقار کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے سامنے رکھا سیاہ مائع اُٹھا کر ان سلاخوں کی طرف اچھال دیا۔ جس کے ساتھ ہی کمرے میں گونجتی قائم ذوالفقار کی چیخیں، ذوالقرنین کو ماضی سے نکال کر حال میں لے آئیں۔
" بابا !! "
آئینے میں نظر آتے اپنے عکس کو دیکھتے ہوئے وہ بڑبڑایا۔
" ایک وہ عورت ہے جس نے مجھے پیدا کیا مگر آپ جانتے ہیں آپ کی طرح میں بھی ان سے نفرت کرتا ہوں اور دوسری وہ عورت ہے۔ جو آپ کی محبت ہے۔۔۔" تصور میں باپ سے مخاطب ہوئے، وہ اپنے دل کا حال سنا رہا تھا۔
" وہ مجھے پسند نہیں کرتیں مگر پھر بھی ان کے غم کا سوچ کر میرا دل بھی غمگین ہو جاتا ہے۔"

عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد دعا مانگ کر وہ جائے نماز اُٹھا کر کھڑی ہوئی اور الماری کی طرف بڑھ کر کل ایوبیہ جانے کیلئے اپنے کپڑے نکالنے لگی۔ غازان کے ساتھ وقت گزارنے کا سوچ کر ہی اس کے اندر خوشی پھیلتی جا رہی تھی۔ اچانک ہی وہ دل کے بہت قریب محسوس ہونے لگا اور یہ سب کب ہوا۔۔۔ یہ وہ خود بھی نہیں جانتی تھی۔
" کیا پہنوں؟ "
کپڑوں پر نظر ڈالتے ہوئے اس نے سوچا کہ تبھی سائڈ ٹیبل پر رکھا اس کا موبائل بج اُٹھا۔
" اف !! اب یہ کس کو یاد آگئی میری۔" بڑبڑاتے ہوئے اس نے موبائل اُٹھا کر دیکھا تو انجان نمبر تھا۔
" ہیلو !! "
" کیسی ہیں مس خطرہ؟ "
اس کے ہیلو کے جواب میں ابھرنے والی آواز نے اس کے جسم میں سنسنی سی دوڑا دی۔ دھڑکتے دل کے ساتھ اس نے موبائل پر گرفت مضبوط کی۔
" میں ٹھیک ہوں مسٹر لائر صاحب !! لیکن یہ نمبر آپ کے پاس کیسے آیا؟ " ذہن میں مچلتا سوال فوراً زبان پر آیا۔
" بس آگیا۔" فون کان سے لگائے، بالکنی میں موجود غازان مسکراتے ہوئے بولا۔ نظریں خاطره پر جمی تھیں۔
" تو لائر کے ساتھ ساتھ چور بھی ہیں آپ۔" اس نے مسکراہٹ دبا کر لہجے میں سنجیدگی لیے کہا۔
" اب یہ تو الزام ہے مجھ پر۔" خاطره کی باتوں سے وہ محظوظ ہو رہا تھا۔
" اچھا یہ بتائیں کل چل رہی ہیں نا؟ " غازان نے بات بدل دی۔
" ہاں چلوں گی۔ کب تک آئیں گے آپ؟ "
موبائل کان سے لگائے وہ واپس الماری کی طرف بڑھی تاکہ کل کیلئے کپڑے نکال سکے۔
" آٹھ بجے تیار ہو جائے گا۔ میں لینے آؤ گا۔"
" ٹھیک ہے بائے۔"
خاطره کہہ کر فون بند کرنے ہی لگی تھی کہ غازان تیزی سے بولا۔
" بلیک !! بلیک پہن نا، تم پر سوٹ کرے گا جانِ دلم !! "
غازان کے لفظوں پر خاطرہ کا تیزی سے چلتا ہاتھ ایک دم ساکت ہوا۔ آج اسے ان لفظوں کے معنی تلاش کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ غازان کے لہجے نے ہی لفظوں میں چھپا ہر مطلب اس پر واضح کر دیا تھا۔
" بائے صبح ملاقات ہوگی۔"
خاطره کو ساکت کھڑا دیکھ کر غازان نے کہا اور فون جیب میں رکھتا دلکش انداز میں مسکراتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔ جبکہ خاطره اس کے لفظوں کے زیرِ اثر اب بھی وہیں کھڑی تھی۔

" تم کب آئیں؟ "
صبح سویرے قانتا کو اپنے سامنے دیکھ کر رباب ٹھٹھک سی گئیں۔ ابھی پرسوں تو وہ ناراض ہو کر یہاں سے گئی تھی اور آج اچانک پھر وہ ان کے گھر پر موجود تھی۔
" ابھی آئی ہوں کیوں آپ کو میرا آنا پسند نہیں آیا؟ "
" نہیں ایسی بات نہیں ہے۔ آؤ اندر آؤ۔"
انہوں نے سائڈ پر ہو کر اسے کمرے میں آنے کی جگہ دی۔ مگر اندر ہی اندر وہ الجھ سی گئی تھیں۔ یہ نہیں تھا کہ قانتا کا آنا انہیں پسند نہیں آیا تھا۔ لیکن قانتا کا نارمل انداز انہیں حیران کر رہا تھا۔ یوں جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
" غازان کہاں ہے؟ اس کی موجودگی گھر میں تو محسوس نہیں ہو رہی۔" اس نے کمرے میں چاروں طرف نظریں دوڑاتے ہوئے پوچھا۔
" وہ گھر پر نہیں ہے۔"
" کہاں گیا ہے؟ "
اس کے سوال پر رباب کچھ پریشان ہوئی مگر چہرے کے تاثرات نارمل تھے۔
" پتہ نہیں۔"
" پتہ نہیں یا بتانا نہیں چاہتیں۔" قانتا کا لہجہ یکدم بدلا۔ رباب کے ماتھے پر بل پڑگئے۔
" دماغ درست ہے تمہارا کس لہجے میں بات کر رہی ہو۔"
" دماغ تو اب درست ہوا ہے میرا۔ مجھ کو راستے سے ہٹا کر اس دو ٹکے کی لڑکی سے غازان کی شادی کرنا چاہتی ہونا۔"
قانتا کہتی ہوئی دھیرے دھیرے ان کی طرف بڑھنے لگی۔ اس کی بات سنتے ہی رباب کو اچانک ہی خطرے کا احساس ہوا۔ قانتا کے ارادے انہیں کچھ ٹھیک نہیں لگ رہے تھے۔
" کتنے سالوں سے اکیلے زندگی گزار رہی ہو چلو آؤ آج تمہیں بھی تمہارے شوہر کے پاس بھیج دوں۔"
کہتے ہوئے یکدم اس کا چہرہ اور آواز بدلنے لگی۔ رباب آنکھوں میں حیرت لیے ساکت سی کھڑی اس کے بدلتے روپ کو دیکھ رہی تھیں کہ اچانک کوئی نوکیلی چیز انہیں اپنے وجود کے آر پار ہوتی محسوس ہوئی۔
" تم یہ سب کیوں۔۔۔"
بمشکل بولتی وہ فرش پر گرتی چلی گئیں۔ اپنے ساکت ہوتے وجود کے ساتھ وہ اس شخص کی آگ رنگ آنکھوں کو دیکھ رہی تھیں جو قانتا کے روپ سے نکل کر اب اپنے اصل روپ میں آچکا تھا۔
" بائے بائے رباب قائم ذوالفقار !! "
قہقہہ لگا کر ہنستا وہ ایک دم وہاں سے غائب ہو گیا کہ تبھی دروازہ کھول کر اندر آتا غازان اپنی جگہ سے ایک پل کیلئے ہل نہ سکا۔ ماں کے مردہ وجود کو دیکھتے ہی اسے اپنے پیروں تلے زمین نکلتی محسوس ہوئی۔ ہاتھ میں موجود ماں کیلئے لائے گجرے سیدھا فرش پر جا گرے تھے۔
" ماما !! "
وہ دھاڑتا ہوا آگے بڑھا۔ اس کی دھاڑ پر میکال کے ساتھ ساتھ دادا ذوالفقار بھی فوراً کمرے میں حاضر ہوئے مگر سامنے مردہ وجود کو دیکھ کر اپنی اپنی جگہ ساکت رہ گئے۔
" ماما اُٹھیں آنکھیں کھولیں یہ کیا ہوا ہے آپ کو؟ "
وہ بچوں کی طرح روتے ہوئے رباب کو جھنجھوڑنے لگا کہ تبھی رباب کا وجود ریت کی مانند بکھر کر غائب ہوتا چلا گیا۔ جس کے ساتھ ہی غازان ذوالفقار کی دھاڑ پورے ذوالفقار پیلس میں گونج اٹھی تھی۔
" ماما !! "
۔*********۔
آئینے میں نظر آتے اپنے عکس پر ایک مطمئن سی نظر ڈال کر وہ اپنا موبائل اُٹھا کر چیک کرنے لگی۔ آٹھ بجے سے اوپر ٹائم ہوگیا تھا مگر غازان کی کوئی خبر نہیں تھی۔ نہ جانے کہاں مصروف تھا کہ اسے وقت پر تیار ہونے کا کہہ کر اب خود غائب تھا۔
" رات کو تو کہا تھا آٹھ بجے آؤں گا اور اب جناب کا خود پتا نہیں ہے۔" اس نے بڑبڑاتے ہوئے غازان کا نمبر نکالا جو وہ کل رات ہی سیو کر چکی تھی۔
" کیا کروں؟ خود کال کروں، نہیں اچھا نہیں لگتا۔"
نفی میں سر ہلاتے ہوئے وہ کمرے میں ادھر سے اُدھر چکر لگانے لگی پر جب نہ رہا گیا تو انا کو سائڈ پر رکھ کر بالآخر اس نے غازان کو کال ملائی۔ جو دوسری بیل پر ہی اُٹھا لی گئی۔
" ہیلو !! "
غازان کی گھمبیر آواز ابھری۔ جسے سنتے ہی خاطره لب کاٹتی سوچ میں پڑگئی کہ کیا کہے؟ مگر اس سے پہلے وہ کچھ کہتی، غازان نے خود ہی اس کی مشکل دور کر دی۔
" امی کا انتقال ہو گیا خاطره۔ میں اس وقت اسلام آباد، ہسپتال آیا ہوں۔ تم سے پھر بات ہوگی۔"
اتنا کہہ کر وہ فون بند کر چکا تھا جبکہ خاطره شاکڈ کھڑی بےیقینی سے فون کو دیکھنے لگی۔ کیا اس نے وہی سنا تھا جو غازان نے کہا تھا۔
" کیا رباب آنٹی۔۔۔"

" تم گئی نہیں؟ "
خاطره کو سیڑھیاں اترتے دیکھ کر مشہد نے ایک نظر گھڑی پر ڈالی جو اس وقت نو بجا رہی تھی۔ وہ کچھ حیران ہوئی۔ کہاں تو وہ فجر کے بعد سے تیاری میں لگی تھی اور اب وقت گزرنے کے بعد بھی گھر پر موجود تھی۔
" غازان کی امی کا انتقال ہو گیا ماما۔"
ان کے سامنے صوفے پر بیٹھتے ہوئے وہ دھیمے لہجے میں بولی۔
" إِنَّالِلَّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ !! " بے ساختہ ان کے منہ سے نکلا۔
" کیسے ہوا یہ سب؟ "
" پتا نہیں کچھ بتایا نہیں۔ ابھی ویسے بھی وہ شہر میں ہیں گھر پر موجود نہیں۔" خاطره افسردگی سے بولی۔
اسے اب بھی یقین نہیں آرہا تھا۔ کل ہی تو وہ رباب سے ملی تھی اور آج۔۔۔
" اللّٰه صبر دے ان کے گھر والوں کو۔"
مشہد کو بھی غازان کا سوچ کر دکھ ہوا۔ وہ تو ویسے بھی انہیں اپنا اپنا سا لگنے لگا تھا۔ ہر وقت ان کی مدد کیلئے حاضر ہوتا تھا۔ لیکن آج ناجانے کس حال میں تھا۔ کوئی اس کے ساتھ تھا بھی یا نہیں۔۔۔
" چلو میں زرا کپڑے استری کر لوں۔ شام کو رہبان کے گھر سالگرہ میں جانا ہے۔ تم چلو گی؟ " انہوں نے صوفے سے اُٹھتے ہوئے پوچھا۔
" نہیں میرا دل نہیں کر رہا۔ آپ چلی جائیں۔" خاطرہ نے فوراً نفی میں سر ہلایا۔ غازان اس وقت دکھ میں تھا تو وہ کیسے خوشیاں منا سکتی تھی۔
" دل تو اب میرا بھی نہیں کر رہا پر جانا تو پڑے گا۔"
مشہد کہہ کر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔ جبکہ خاطره اُٹھ کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ اس بات سے بےخبر کہ کوئی سیڑھیوں پر کھڑا اس کے ایوبیہ بلکہ غازان کے ساتھ نہ جانے پر بے انتہا خوش تھا۔
" آخر کار میں کامیاب ہوگیا۔"
آگ رنگ آنکھوں میں چمک لیے، قہقہہ لگا کر ہنستا وہ وہاں سے فوراً غائب ہو گیا۔

اندھیرے کمرے میں آنکھیں بند کیے بیٹھا وہ جیسے اپنے آنسو چھپانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ خاطرہ سے بات کرنے کے بعد سے اس نے خود کو کمرے میں بند کر لیا تھا۔ وہ اس وقت تنہا رہنا چاہتا تھا۔ کوئی تسلی، کوئی دلاسہ، اس کے دکھ کا مداوا نہیں کر سکتا تھا۔
" ماما کیوں چھوڑ گئی مجھے، اب میں کیا کروں؟ پہلے بابا اور اب آپ۔"
کمرے کی طرح اس کی آنکھیں بھی اس وقت پوری سیاہ ہوچکی تھیں۔ اپنے پیارے کو کھونے کا دکھ ہر احساس پر حاوی ہو رہا تھا۔
" جس نے بھی یہ کیا ہے میں اسے چھوڑوں گا نہیں بلکہ۔۔۔"
وہ کہتے کہتے رکا ایک دم اسے زوالقرنین کی موجودگی کا احساس ہوا تھا۔ وہ ذوالفقار پیلس میں داخل ہو رہا تھا۔ یہ محسوس کرتے ہی اس کے جبڑے سختی سے بھینچ گئے۔ شعلے کی طرح بھڑکتی آنکھوں کے گرد سیاہ دراڑیں پڑنے لگی تھیں۔ وہ بجلی کی تیزی سے کمرے سے باہر نکلا اور باہر کے دروازے کی طرف بڑھا۔
زوالقرنین جو رباب کی خبر ملتے ہی ذوالفقار پیلس پہنچا تھا۔ سامنے سے آتے غازان کو دیکھ کر وہیں رک گیا۔ اس کے چہرے پر اس وقت غازان کیلئے ہمدردی تھی یہ جانے بغیر کہ غازان اس کے متعلق کیا سوچے بیٹھا ہے۔
" غازی تم ٹھیک۔۔۔"
ابھی اس کے الفاظ ادا بھی نہ ہوئے کہ غازان کے پڑنے والے مکے نے اس دور اچھال دیا۔ زوالقرنین سیدھا دیوار سے جا کر لگا۔
" مجھے پورا یقین ہے ماما کی موت کے پیچھے تیرا ہاتھ ہے پہلے تیری ماں میرے باپ کو کھا گئی اور اب تو نے میری ماں کو چھن لیا۔ اس لیے یہاں آتا تھا نا تاکہ ان کو مجھ سے دور کر سکے، میں تجھے چھوڑوں گا نہیں۔"
اپنے جناتی روپ میں آتے ہی وہ زوالقرنین کو لیے وہاں سے ایک دم غائب ہوا اور سیدھا جنگل میں چلا آیا۔
" دماغ خراب ہو گیا ہے تمہارا یہ کیا کر رہے ہو؟ "
زوالقرنین نے خود کو اس کی گرفت سے آزاد کرواتے ہوئے اسے ایک جھٹکے سے پیچھے دھکیلا جس کے باعث غازان سیدھا درخت سے جا ٹکرایا تھا۔
" آج تو میرے ہاتھوں نہیں بچے گا۔"
غازان کہتا ہوا پھر اس پر جھپٹنے لگا کہ اچانک ان کے درمیان میکال نمدار ہوا اور ایک فورس سے دونوں کو دور دھکیلا۔
" تم دونوں کا دماغ ٹھیک ہے؟ بڑی ماں اس دنیا سے چلی گئیں۔ دادا ذوالفقار بستر پر پڑے ہیں اور تم دونوں یہاں ایک دوسرے کی جان کے دشمن بنے ہو۔" ان دونوں کو سخت نظروں سے گھورتے ہوئے وہ دھاڑا۔
" میرا دماغ بالکل ٹھیک ہے مگر یہ اپنے آپے میں نہیں۔" زوالقرنین نے نفرت بھری نگاہ غازان پر ڈالی۔
" اپنی بکواس بند کرو جان سے مار دوں گا تمہیں۔" غازان کہتا ہوا ایک بار پھر آگے بڑھنے لگا کہ میکال اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔
" غازی کبھی آنکھوں سے نفرت کی پٹی اُتار کر دیکھو ہوسکتا ہے جو دکھ رہا ہے ویسا نہ ہو۔" میکال نے اسے سمجھانا چاہا۔ غازان کی کیفیت سے وہ بخوبی واقف تھا۔ اس لیے اپنا لہجہ اس نے نرم کر لیا تھا۔

" کیا دیکھوں ہاں؟ اب بچا کیا ہے میرے پاس۔" اس نے چلاتے ہوئے پاس موجود درخت پر ہاتھ مارا جو زمین سے اُکھڑ کر دور جا گرا تھا۔
میکال نے چہرہ موڑ کر زوالقرنین کی طرف دیکھا جو تیکھی نظروں سے غازان کا جنونی انداز دیکھ رہا تھا۔ اس نے فوراً اسے یہاں سے جانے کا اشارہ کیا جس پر زوالقرنین بھی خاموشی سے وہاں سے غائب ہوگیا۔ اس کے جانے پر میکال نے سکھ کا سانس لیا پھر چہرہ موڑ کر غازان کی طرف متوجہ ہوا۔
" غازی سنبھالو خود کو، دادا ذوالفقار کو تمہاری ضرورت ہے۔"
" کیسے سنبھالو خود کو، کس کے لیے سنبھالوں؟ "
غازان نے اپنے بالوں کو مٹھی میں جکڑ لیا۔ دکھ، درد، بےبسی کے باعث وہ جنونی سا ہو رہا تھا۔

" میرے لیے، دادا ذوالفقار کیلئے اور۔۔۔ اور خاطره ہم سب ہیں تمہارے پاس۔ ہمارے لیے خود کو سنبھالو غازی۔"
میکال کی بات پر اس نے اپنا جھکا سر اُٹھا کر اسے دیکھا مگر کہا کچھ نہیں۔ اس کی خاموشی سے میکال کی ہمت مزید بڑھی۔
" چلو گھر چلو دادا ذوالفقار انتظار کر رہے ہیں۔ انہیں تکلیف مت دو۔" کہتے ہوئے اس نے آگے بڑھ کر غازان کا ہاتھ تھاما اور اسے لیے واپس ذوالفقار پیلس کی طرف بڑھ گیا۔

آرزؤ عشق سیزن 1 (نواں حصہ)


تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں



Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں