آرزو عشق - سیزن 1 (نواں حصہ)

Urdu Stories
 

آرزو عشق - سیزن 1 (نواں حصہ)

جن اور انسانی لڑکی کی محبت

ٹوٹ جاتا ہے واسطہ کچھ یوں بھی خود سے
تجھ سے جب رابطہ ہمارا نہیں ہوتا۔۔۔ !!

گھر کا سارا کام نمٹا کر سنک کے سامنے کھڑی وہ غائب دماغی سے اپنے ہاتھ دھو رہی تھی۔ آج پورا ایک ہفتہ گزر چکا تھا مگر غازان کی طرف سے کوئی خبر نہیں ملی تھی۔ کئی مرتبہ اس نے کال کر کے غازان کی خیریت معلوم کرنے کی کوشش بھی کی تھی لیکن آگے سے فون ہی بند ملتا۔ دل الگ اداس ہو رہا تھا۔ ایک ہفتے سے اس نے خود کو بھی گھر میں قید کر لیا تھا۔ مگر آج اسکول جاتے وقت مشہد اسے گھر کے سامان کی لسٹ تھاما کر چلی گئی تھیں۔ جس کے باعث قریب ہی دکان سے گھر کا سامنا لانے کیلئے وہ اب تیار ہو رہی تھی۔
" پتا نہیں کہاں مصروف ہیں؟ نہ ملنے آتے ہیں، نہ کوئی کال۔"
اس نے سوچتے ہوئے نل بند کیا اور آگے بڑھ کر لونگ روم کے صوفے پر رکھا اپنا کوٹ اُٹھا کر پہننے لگی۔
" سامان کی لسٹ کہاں گئی اب؟ "

بڑبڑاتے ہوئے اس نے لسٹ کی تلاش میں نظریں دوڑائیں جو اسے ڈائننگ ٹیبل پر ہی رکھی نظر آگئی۔ سر پر اسکارف پہننے کے بعد جلدی سے لسٹ اُٹھاتے ہوئے اس نے باہر کی جانب قدم بڑھائے اور دروازے کو تالا لگا کر قریب ہی دکان کی سمت چلنے لگی۔
" مس خاطره !! "
عقب سے آتی آواز پر وہ چونک کر رکی۔ مڑ کر دیکھا تو سامنے رہبان مرزا کو کھڑا پایا۔
" آپ !! "
" جی میں۔۔۔ آپ آئی نہیں سالگرہ پر بلکہ ایک ہفتے سے نظر ہی نہیں آئیں۔" وہ کہتا ہوا اس کے قریب آیا۔
" وہ میری طبیعت خراب تھی پر ماما تو آئی تھیں نا۔" نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے جھوٹ بولا۔
" ہاں وہ تو آئی تھیں پر دعوت تو میں نے آپ دونوں کو ہی دی تھی۔" رہبان نے شکوہ کیا۔
" سوری !! "

" ارے کوئی بات نہیں۔ ویسے کہاں جا رہی ہیں؟ "
" وہ قریب ہی دکان ہے نا وہاں۔" خاطرہ نے ہاتھ سے اس سمت اشارہ کیا۔
" چلیں پھر ساتھ چلتے ہیں مجھے بھی کچھ سامان لینا تھا۔"
رہبان کی بات پر اثبات میں سر ہلاتی، اس سے باتیں کرتی سڑک پر چلنے لگی جب ذوالفقار پیلس کے سامنے سے گزرتے ہوئے اسے عجیب سا احساس ہوا، جیسے کوئی دیکھ رہا ہو۔
" کیا ہوا رک کیوں گئیں؟ " رہبان نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
" کچھ نہیں ایسا لگ رہا ہے کوئی دیکھ رہا ہے۔"

کہتے ہوئے اس نے اطراف میں نظر دوڑائی مگر کسی کو نہ پا کر وہ سر جھٹکتی آگے بڑھ گئی۔ جبکہ اس سے ایک قدم کے فاصلے پر چلتے رہبان مرزا کی نظر اچانک ہی اوپر کی جانب اٹھی تھیں۔ جہاں ٹیرس پر کھڑا زوالقرنین خاطره کی نظروں میں آئے بغیر انہیں ہی دیکھ رہا تھا۔
۔*********۔
پیالے میں ہڈیوں کا بنا سوپ نکال کر میکال نے زوالقرنین کے سامنے رکھا جسے دیکھتے ہی وہ منہ بناتا اپنا من پسند سرخ مشروب گلاس میں نکال کر پینے لگا۔ اُس کی اس حرکت پر میکال کے ماتھے پر بل پڑے مگر کچھ بھی کہنے کے بجائے وہ اپنا پیالا اُٹھا کر اس کے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ گیا۔
" تو کچھ پتہ چلا ماما رباب کے ساتھ یہ سب کس نے کیا؟ " گلاس ہونٹوں سے ہٹاتے ہوئے اس نے میکال سے پوچھا جو فوراً نفی میں سر ہلانے لگا تھا۔
" نہیں غازی نے بہت کوشش کی پر کوئی سرا ہاتھ نہیں آیا۔ ویسے تم ایک ہفتے سے کہاں غائب تھے؟ "
میکال نے کہتے ہوئے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا جس نے ایک ہفتے کی غیر حاضری کے بعد آج صبح ہی ذوالفقار پیلس میں حاضری دی تھی۔
" گھر پر تھا اپنے، غازان کی وجہ سے ہی ادھر کا رخ نہیں کیا ورنہ مجھے دیکھتے ہی اُسے دورہ پڑنے لگ جاتا۔"
زوالقرنین کے کہنے کی دیر تھی کہ زور دار آواز کے ساتھ دروازہ کھولتا غازان کمرے کے اندر آیا۔
" مجھے خاطره نہیں مل رہی۔"

زوالقرنین کو نظر انداز کرتا وہ میکال سے بولا۔ چہرے پر عجیب وحشت چاہی ہوئی تھی رباب کے بعد اب وہ خاطره کو کھونے کا حوصلہ نہیں رکھتا تھا۔
" کیا مطلب نہیں مل رہی، یہیں ہوگی۔"
میکال نے کہتے ہوئے ہاتھ میں موجود پیالا ٹیبل پر رکھا۔ ورنہ غازان سے کوئی بعید نہیں تھا کب کس بات پر غصّہ آ جائے اور یہی پیالا اُٹھا کر اس کے سر پر مار دے۔
" میں نے کہا نا نہیں مل رہی، وہ یہاں نہیں ہے۔ اُس کا گھر بھی دیکھ کر آ رہا ہوں تالا لگا ہے۔" وہ ایک دم دھاڑا جس پر زوالقرنین کے چہرے پہ طنزیہ مسکراہٹ ابھر آئی۔
" ایک ہفتہ محبوبہ سے غافل رہنے کے بعد خیال آ رہا ہے وہ نہیں مل رہی۔"
میکال کی زبانی اسے غازان کی اس ایک ہفتے کی مصروفیات کا پہلے ہی پتہ چل گیا تھا اس لیے طنز کرنے سے باز نہ آیا۔
" تم۔۔۔"

" تھوڑی دیر پہلے کسی لڑکے کے ساتھ جاتے ہوئے دیکھا ہے۔" غازان کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ وہ فوراً بولا۔ غازان ایک دم الرٹ ہوا۔
" کس کے ساتھ؟ "
" مجھے کیا پتا کون تھا۔ ویسے بڑا ہینڈسم تھا۔ دونوں میں بڑی بے تکلفی تھی اور۔۔۔"
ابھی زوالقرنین کی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ غازان فوراً وہاں سے غائب ہو گیا۔ اُس کے جاتے ہی میکال نے گھور کر زوالقرنین کی طرف دیکھا جو ڈھیٹ بنا واپس اپنے مشروب کی طرف متوجہ ہو گیا تھا۔ جیسے اس نے کچھ کہا ہی نہ ہو۔
۔*********۔
ذوالفقار پیلس سے وہ سیدھا خاطره کے گھر آ گیا تھا جہاں ابھی بھی تالا لگا تھا غصّے سے کھولتے دماغ کے ساتھ وہ ادھر سے اُدھر ٹہلتا اُن کی واپسی کا انتظار کرنے لگا کہ تبھی سامنے سڑک سے وہ دونوں گھر کی طرف آتے دکھائی دیئے۔ ہنستے مسکراتے چہروں کے ساتھ باتیں کرتے وہ غازان کا آگ لگا چکے تھے۔
" مجھ سے تو کبھی ایسے کھلکھلا کر بات نہیں کی، جب دیکھو مرچیں چباتی رہتی ہے۔"
اس نے بڑبڑاتے ہوئے چبھتی نظروں سے رہبان کو دیکھا۔ جو خاطره کے ساتھ چلتا اس کے قریب آ رہا تھا۔
" ارے آپ !! "
غازان کو اپنے سامنے دیکھ کر سیاہ آنکھیں چمک اُٹھیں۔ دل الگ ہی لے میں دھڑکنے لگا تھا۔
" جی میں !! کہاں گئی تھیں؟ "
رہبان پر ایک سرد نظر ڈال کر اس نے خاطرہ سے پوچھا اور آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے سارا سامان لے لیا۔
" گھر کا کچھ سامان لینا تھا تو قریب ہی دکان پر گئی تھی۔ راستے میں رہبان بھی مل گئے۔ ویسے آپ دونوں تو پہلے سے یہاں رہتے ہیں ایک دوسرے کو تو جانتے ہونگے۔"
" نہیں۔"
غازان سپاٹ انداز میں کہتا دروازے کی جانب بڑھ گیا۔ خاطره نے ایک شرمندہ سی نظر رہبان پر ڈالی اور اسے بائے کہتی غازان کے پیچھے چل پڑی۔ جبکہ رہبان مرزا وہیں کھڑا چہرے پر مسکراہٹ سجائے انہیں گھر کے اندر جاتے دیکھ رہا تھا۔
" تو ہمارے رقیب بھی ہیں۔"

" یہ کیا طریقہ ہے بات کرنے کا؟ "
گھر کے اندر داخل ہوتے ہی خاطره نے غصّے سے غازان کو گھورا جو ڈائننگ ٹیبل پر سارا سامان رکھ رہا تھا۔
" کونسی بات؟ میں نے تو کوئی بات ہی نہیں کی اُس سے۔" دوسری طرف سے بڑی معصومیت سے جواب دیا گیا۔
" زیادہ بھولے بننے کی ضرورت نہیں۔ کیا تھا جو ٹھیک سے سلام دعا کر لیتے تو؟ "
" میں یہاں اس کے بارے میں بات کرنے نہیں آیا۔"
اب کے غازان نے بھی غصّے سے دانت پیستے ہوئے کہا۔ بھلا خاطره کے منہ سے کسی اور مرد کا ذکر کہاں برداشت ہوتا۔ جبکہ اس کی بات پر خاطرہ کے تاثرات یکدم بدلے غصّے کی جگہ نرمی نے لے لی۔
" ویسے کہاں تھے ایک ہفتے سے کوئی خبر ہی نہیں دی اور آنٹی کا انتقال کیسے۔۔۔؟ " دانستہ طور پر بات ادھوری چھوڑی۔
" بتایا تو تھا اسلام آباد میں تھا اور امی کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔"
دھیرے سے کہتے ہوئے اس نے نظریں چرائیں۔ خاطره سے جھوٹ بولنا اسے اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ مگر اس کے علاوہ اور کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا۔
" اوہ !! ویسے آپ باہر کھڑے کیا میرا انتظار کر رہے تھے؟ " غازان کے چہرے پر چھائی اداسی دیکھ کر اس نے بات بدلی۔
" ہاں !! اس کے ساتھ کیوں گئی تھیں میں نے کہا تھا نا جہاں جانا ہوگا میں لے جاؤ گا۔"
کچن میں جاتی خاطره کی پشت کو گھورتے ہوئے وہ دبے دبے لہجے میں بولا۔ رہبان کے ذکر پر ایک بار پھر نئے سرے سے غصّہ چڑھا تھا۔
" ایک ہفتے سے تو خود غائب تھے۔ پھر آپ کے ساتھ کیسے جاتی؟ "
فریج سے پانی کی بوتل نکالتے ہوئے خاطره نے سوال کیا۔ غازان کا یوں اپنے لیے فکر مند ہونا، پرواہ کرنا اسے اچھا لگ رہا تھا۔
" آج صبح آ گیا تھا میں، تم فون کرتیں تو آ ہی جاتا تمہارے پاس۔"
" آپ کا فون بھی بند جا رہا تھا مسٹر لائر صاحب !! "
غازان جو صوفے سے ٹیک لگائے کھڑا تھا خاطره کے کہنے پر فوراً سیدھا ہوا۔
" فون بند تھا؟ "
" ہاں میں نے بہت بار کال کی مگر اُس دن کے بعد سے آپ کا فون ہی بند ملتا۔"
خاطرہ کہتی ہوئی کچن سے نکل کر ڈائننگ ٹیبل کی طرف آئی اور سارا سامان اُٹھا کر واپس کچن کی طرف بڑھ گئی۔ جبکہ غازان الجھن بھری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
" فون بند تھا یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ " وہ بڑبڑایا۔
" خاطره میں چلتا ہوں پھر آؤں گا۔"
" آں !! پر کچھ۔۔۔"
اس کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی غازان تیزی سے گھر سے باہر نکل گیا۔ خاطره نے حیرت سے اسے جاتے دیکھا پھر سر جھٹکتے ہوئے کچن سے نکلی اور دروازہ بند کرکے واپس اپنے کام کی جانب متوجہ ہوگئی۔

" کیا ہوا ایسے طوفان بنے کیا گھر میں داخل ہو رہے ہو؟ "
اپنے کمرے سے نکلتے میکال نے حیرت سے غازان کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔ جو عجلت میں دکھائی دے رہا تھا۔
" زوالقرنین کہاں ہے؟ "
غازان کے سرد لہجے میں پوچھے جانے والے سوال پر میکال ٹھٹھک سا گیا۔
" تھوڑی دیر پہلے ہی واپس گیا ہے۔ کیوں؟ "
" میں اسے چھوڑوں گا نہیں۔ مجھے اب پورا یقین ہو گیا ہے کہ ذوالفقار پیلس پر آنے والی ہر مصیبت کے پیچھے زوالقرنین اور اس کی ماں ہیں۔"
وہ کہتا ہوا اپنے کمرے کی طرف بڑھا تو میکال بھی اس کے پیچھے چل دیا۔ غازان کے ارادے اسے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہے تھے۔ کمرے میں داخل ہو کر اس نے موبائل کی تلاش میں نظریں دوڑائیں تاکہ خاطره کی کالز چیک کر سکے۔
" آخر بتاؤ گے ہوا کیا ہے؟ "
میکال نے زچ ہوتے ہوئے پوچھا۔ جبکہ غازان نے اسے نظر انداز کرتے ہوئے سائڈ ٹیبل سے اپنا موبائل اُٹھایا اور خاطره کی کالز چیک کرنے لگا۔ گزشتہ ہفتے میں ایک بار بھی خاطره کی کال اسے موصول نہیں ہوئی تھی۔ کال لاگ میں کہیں اس کا نمبر موجود نہیں تھا۔
" خاطره مجھ سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی اور میرا نمبر بند جا رہا تھا۔" غازان دانت پیستے ہوئے بولا۔
" تو اس میں زوالقرنین کا کیا قصور؟ " میکال نے آنکھیں گھمائیں۔
" میرا نمبر بند نہیں تھا اور کال لاگ میں بھی خاطره کی کال موجود نہیں۔ یقیناً وہ چاہتا تھا خاطره مجھ سے رابطہ نہ کر سکے۔"
" اف غازی !! بس کردو۔" غازان کی بات پر میکال کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔
" میں بس کر دوں؟ ہاں تم نے کچھ نہیں کھویا نا اس لیے کہہ سکتے ہو بس کردوں، لیکن میں ثابت کر کے رہوں گا کہ اس سب کے پیچھے زوالقرنین کا ہاتھ ہے۔" غازان کہتا ہوا فوراً وہاں سے نکلتا چلا گیا۔ میکال نے بےبسی سے اپنے سر پر ہاتھ پھیرا۔
" کچھ تو ہے جو ہماری نظروں سے اوجھل ہے پر کیا۔ کہیں غازان ٹھیک تو نہیں کہہ رہا۔" سوچتے ہوئے وہ ایک دم کمرے سے غائب ہو گیا۔

کمرے میں ہر طرف موم بتیاں جل رہی تھیں۔ وہیں ایک کونے میں کتاب ہاتھ میں لیے وہ منتر پڑتی اپنے سامنے موجود بکری کے بچے کو دیکھنے لگیں۔ جو رسیوں سے جکڑا ہوا تھا۔
" وقت آگیا ہے، اپنے مالک کیلئے قربان ہوجاؤ۔"
کتاب ایک طرف رکھتے ہوئے زوجیل نے خنجر ہاتھ میں تھاما اور اس کی گردن پر پھیرنے کیلئے ہاتھ اوپر اُٹھائے ہی تھے کہ اچانک انہیں اپنے عقب میں کسی کی موجودگی کا احساس ہوا۔
" یہاں کیا کر رہے ہو تم؟ "
ہاتھ نیچے کرتے ہوئے وہ پیچھے مڑیں۔ جہاں وہ چہرے پر پُراسرار مسکراہٹ سجائے انہیں دیکھ رہا تھا۔
" مادام زوجیل !! آج پھر آپ کو اپنی خوشی میں شامل کرنے آیا ہوں۔" کہتا ہوا وہ ان کے قریب آیا اور بکری کے بچے کے سر پر نرمی سے ہاتھ پھیرنے لگا۔
" جیت کے نشے میں مدہوش مت ہو۔ رباب کو مار کر تم نے سوئے ہوئے شیر کو جگا دیا ہے۔ آج نہیں تو کل غازان تم تک پہنچ جائے گا۔" وہ اس کی آگ رنگ آنکھوں میں جھانکتے ہوئے، جتا کر بولیں۔
" جب تک وہ مجھ تک پہنچے گا رباب ذوالفقار کی طرح خاطره گردیزی کو بھی کھو چکا ہوگا اور تب اس کی حالت سوئے ہوئے شیر کی طرح نہیں ہارے ہوئے جواری کی طرح ہوگی۔"
نرمی سے بکری کے بچے کو سہلاتے ہوئے اس کا ہاتھ اُس کی گردن تک آ گیا تھا۔ آگ رنگ آنکھوں میں اپنی جیت کی چمک تھی۔
" بندہ خوش ہو پر خوشی فہمی میں نہ ہو۔" زوجیل نے استہزائیہ انداز میں کہا کہ تبھی ایک دلخراش چیخ کمرے میں گونج اُٹھی۔
زوجیل نے اس کے ہاتھ کی طرف دیکھا جو بے دردی سے بکری کے بچے کی گردن مروڑ چکا تھا۔
" یہ کیا کِیا تم نے؟ " وہ غصّے سے چلا اُٹھیں۔
" ایسے ہی۔۔۔ بالکل ایسے ہی غازان کی گردن میرے ہاتھوں میں ہوگی زوجیل انتھونی۔"
اپنی سرخ ہوتی آنکھوں سے اسے دیکھتا وہ ہوا کے جھونکے کی طرح وہاں سے غائب ہو گیا تھا۔ زوجیل نے غم وغصے سے بکری کے بچے کو دیکھا جو اب ان کے کسی کام کا نہیں رہا تھا۔
" بیڑا غرق ہو تمہارا !! "
۔*********۔
" آج غازان ادھر آئے تھے۔"
ڈائننگ ٹیبل پر کھانا لگاتے ہوئے وہ مشہد سے بولی جو نماز پڑھنے کے بعد اب اپنے کمرے سے باہر نکل رہی تھیں۔
" اچھا کچھ بتایا امی کا انتقال کیسے ہوا؟ "
کہتے ہوئے وہ ڈائننگ ٹیبل کی طرف آئیں اور کرسی کھسکا کر بیٹھ گئیں۔
" ہاں اٹیک پڑا تھا۔"
" اوہ !! اللّٰه اب ان کے گھر والوں کو صبر دے۔"
" آمین !! "
خاطره ان کے سامنے بیٹھتے ہوئے بولی اور چاولوں کی پلیٹ اُٹھا کر مشہد کے آگے رکھی۔
" سامان لے آئی تم؟ "
" جی لے آئی راستے میں رہبان بھی مل گئے تھے۔" خاطره سرسری سے انداز میں بولی جبکہ مشہد مسکرا کر اسے دیکھنے لگیں۔
" ویسے رہبان کافی اچھا لڑکا ہے۔ جاب بھی کافی اچھی ہے۔"
" ہاں !! "
پلیٹ سے نظریں اُٹھائے بغیر اس نے بنا سوچے سمجھے مشہد کی بات کی تائید کی۔ مشہد کی مسکراہٹ کچھ اور گہر ہوئی۔
" ویسے پچھلے ایک ہفتے میں آپ تین بار ان کے گھر کے چکر لگا چکی ہیں اور کل بھی آپ ان کے گھر گئی تھیں۔" اب کی بار چہرہ اُٹھا کر خاطره نے سوالیہ نظروں سے مشہد کو دیکھا۔
" ویسے ہی اب یہاں رہنا ہے تو پڑوسیوں سے ملنا ملانا بھی تو رکھنا پڑے گا۔" مشہد ٹالنے والے انداز میں کہتی پلیٹ پر جھک گئیں۔
خاطره نے بھنویں سکیڑ کر ان کے اس انداز کو دیکھا پھر سر جھٹکتی واپس کھانے کی طرف متوجہ ہوگئی۔ فی الوقت وہ کسی قسم کی الجھنوں میں نہیں پڑنا چاہتی تھی۔
۔*********۔
سرخ مشروب ہاتھ میں لیے وہ صوفے پر بیٹھی غصّے سے اپنے سامنے کھڑے شخص کو گھور رہی تھی جو چہرے پر مسکراہٹ سجائے اس کے غصّے کو مزید ہوا دے رہا تھا۔
" تم نے خالہ کو مار دیا جبکہ ہماری ایسی کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔"
" اوہ ڈارلنگ !! اس بات کو گزرے ایک ہفتہ ہو گیا۔ تم بلاوجہ جذباتی ہو رہی ہو۔ ویسے بھی میں کچھ بھی کروں تمہیں صرف غازان سے مطلب ہونا چاہیئے۔" اس نے کہتے ہوئے قانتا کے چہرے پر آتی زلفوں کو چھوا جس پر قانتا نے ناگواری سے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔
" تم بھی بس خاطره سے ہی مطلب رکھو اور اسے میرے اور غازان کے بیچ سے کہیں دور لے جاؤ۔"
" تم فکر نہیں کرو۔ میں جلد ہی اپنی محبوبہ کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اپنے ساتھ، اپنی دنیا میں لے جاؤں گا۔ تاکہ اس بار ماضی جیسی غلطیاں نہ ہوں۔ مگر اس سے پہلے۔۔۔"
بات ادھوری چھوڑتا، وہ قانتا کے قریب ہوا۔ آگ رنگ آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی۔
" دماغ ٹھیک ہے تمہارا؟ "
قانتا کو اپنے ارد گرد خطرے کا احساس ہونے لگا۔ سامنے موجود جن کے ارادے اسے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہے تھے۔
" دماغ تو ٹھیک ہے بس نیت خراب ہو رہی ہے۔" وہ کہتا ہوا اسے اپنے حصار میں لے چکا تھا۔
" زی !! "

اندھیرے کمرے میں آنکھوں پر دائیں بازو رکھے خاطره پُرسکون انداز میں سو رہی تھی۔ آج اسے کافی تھکن محسوس ہو رہی تھی جس کے باعث وہ جلد اپنے کمرے میں چلی آئی تھی اور اب وہ کافی گہری نیند میں تھی کہ اچانک اس کے ماتھے پر بل پڑنے لگے۔ کانوں میں پڑنے والے شور نے اس کی نیند میں خلل ڈال دیا تھا۔
" اف !! اتنی رات کو کون ہے؟ "
آنکھوں پر سے بازو ہٹا کر اس نے سر تھوڑا اونچا کر کے سائڈ ٹیبل پر رکھا موبائل دیکھا جو مسلسل بجے جا رہا تھا۔
" یقیناً غازی ہوں گے ان کے سوا اور ہو بھی کون سکتا ہے۔" نیند سے بوجھل آواز میں کہتی وہ اُٹھ بیٹھی۔ ہاتھ بڑھا کر سائڈ ٹیبل پر رکھا موبائل اُٹھا کر اپنے سامنے کیا ہی تھا کہ اسکرین پر جگمگاتے بھیانک چہرے کو دیکھ کر ایک فلک شگاف چیخ اس کے حلق سے نکلی۔ موبائل ہاتھ سے چھوٹ کر فرش پر جا گرا۔ وہ فوراً بیڈ سے اُتر کر کمرے سے باہر نکلی۔
" ماما۔۔۔ ماما !! "
چلاتے ہوئے وہ سیڑھیاں اُتر رہی تھی کہ تبھی مشہد بالوں کو جوڑے کی شکل میں لپیٹتے ہوئے کمرے سے باہر آئیں۔
" کیا ہوا؟ چلا کیوں رہی ہو؟ "
" ماما۔۔۔ ماما وہ میرا موبائل۔۔۔ اس پر کال۔۔۔ کال آ رہی تھی۔" مشہد کے ہاتھ تھام کر آنسو بہاتی وہ ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں بولی۔
" خاطره تم مجھے پریشان کر رہی ہو۔ آخر ہوا کیا ہے ٹھیک سے بتاؤ۔"
مشہد کے ماتھے پر بل پڑے۔ اُس دن کے بعد سے آج پھر خاطره کی یہ حالت انہیں تشویش میں مبتلا کر رہی تھی۔ اوپر سے وہ ڈاکٹر کے پاس جانے کیلئے بھی تیار نہیں تھی۔
" ماما میں۔۔۔ میں سو رہی تھی کہ میرا موبائل بجنے لگا۔ میں نے ٹیبل پر سے اُٹھا کر دیکھا تو اسکرین پر بہت خوفناک عورت کی تصویر تھی۔" اس نے ہچکیاں لیتے ہوئے بتایا۔ مشہد اسے دیکھ کر رہ گئیں۔
" خاطره تمہارا دماغ خراب ہو چکا ہے۔"
" میں سچ کہہ رہی ہوں ماما۔"
" بس بہت ہوگیا۔ اب میں کچھ نہیں سنوں گی اور کل ہم سائیکالوجسٹ کے پاس جائیں گے اب یہ میرا آخری فیصلہ ہے۔"
دوٹوک انداز میں کہتی وہ کچن کی طرف بڑھیں اور خاطره کیلئے گلاس میں پانی نکالنے لگیں۔ جبکہ لونگ روم میں کھڑی خاطره کے آنسو کے ساتھ ساتھ ہچکیاں بھی تھم چکی تھیں۔ وہ بےیقینی سے ماں کو دیکھ رہی تھی۔ جنہوں نے ایک بار بھی اس کی بات کا یقین نہیں کیا تھا۔

صبح سے ہوتی برف باری نے مری کو اپنے گھیرے میں لے لیا تھا۔ فضاء میں موجود خنکی نے ایک عجیب سی سوگوار خاموشی کا سما بنا دیا تھا۔ مری کی فضاؤں میں آسمان سے گرتی برف باری کے ساتھ خاطره کے اشک بھی بہہ رہے تھے۔کالی آنکھیں جو اس وقت بالکل ساکت تھیں لیکن نمکین پانیوں نے اس کی آنکھوں کی چمک کو اور بڑھا دیا تھا۔ اپنے کمرے میں لیٹی وہ مسلسل رونے میں مصروف تھی کہ تبھی بالکنی کے دروازے پر دستک ہوئی۔ اس نے کروٹ بدل کر بالکنی کی طرف دیکھا کہ ایک جھٹکے سے اُٹھ بیٹھی اور تیزی سے بیڈ سے اُتر کر دروازے کی جانب بڑھی۔
" غازان !! "
دروازہ کھول کر وہ بے اختیار اس کے سینے سے لگ کر آنسو بہانے لگی تھی۔ غازان بوکھلا اٹھا۔ وہ تو اسے ہاتھ تک پکڑنے نہیں دیتی تھی اور آج یوں روتے ہوئے سینے سے آ لگی تھی۔
" خاطره رو کیوں رہی ہو؟ کیا ہوا بتاؤ؟ "
غازان نے بازوؤں سے تھام کر اسے اپنے سامنے کیا۔ جبکہ یوں اپنی بے اختیاری پر خاطره نے شرم سے سر جھکا لیا۔
" کیا ہوا ہے بتاؤ؟ "
" کچھ نہیں۔" آنکھوں سے نمی کو صاف کرتے ہوئے اس نے نفی میں سر ہلایا۔
" ادھر دیکھو میری طرف اور بتاؤ کیا ہوا ہے۔"
غازان نے تین انگلیاں ٹھوڑی کے نیچے رکھ کر اس کا چہرہ اُوپر کیا تو اسے نئے سرے سے رونا آیا۔
" وہ میرا یقین نہیں کر رہیں؟ "
" یقین نہیں کر رہیں۔۔۔ کون؟ کیا ہوا مجھے بتاؤ۔"
" وہ۔۔۔ وہ کل رات نا میرے موبائل پر کال آ رہی تھی۔ میں نے جب موبائل اُٹھا کر دیکھا تو اسکرین پر خوفناک عورت کی تصویر موجود تھی۔ میں نے ماما کو بھی بتایا لیکن انہیں لگتا ہے میں من گھڑت کہانیاں سنا رہی ہوں۔"
وہ روتے ہوئے بچوں کی طرح سب بتاتی جا رہی تھی۔ غازان لب بھینچے، ماتھے پر بل ڈالے اسے سنتا گیا۔
" آنٹی کہاں ہیں؟ اسکول تو نہیں گئی ہوں گی اتنی برف باری میں۔"
" اپنے کمرے میں ہیں۔ آج مجھے سائیکالوجسٹ کے پاس لے کر جاتیں مگر برف باری شروع ہوگئی۔ ویسے آپ کیسے آئے؟ " مشہد کا بتاتے ہوئے اسے اچانک خیال آیا تو پوچھ بیٹھی۔
" بالکنی سے آیا۔" وہ بات بدلتے ہوئے بولا۔
" مذاق مت کریں۔"
" اچھا نہیں کرتا، تم پریشان نہیں ہو۔ میں آنٹی سے بات کروں گا وہ تمہیں کہیں نہیں لے کر جائینگی۔"
کندھوں سے تھام کر غازان اس کی آنکھوں میں جھانکا کہ خاطره سب کچھ بھول کر اس کی سمندر جیسی نیلی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔ اسے اپنے اندر سکون سا اُترتا محسوس ہو رہا تھا۔ جب چند پل کی خاموشی کے بعد غازان دھیرے مگر گھمبیر لہجے میں بولا۔
" خاطره !! "
" ہمم۔۔۔"
" مجھ سے شادی کرو گی؟ "
نیلی آنکھوں میں محبت کا جہاں آباد کیے وہ خاطره کی ایک "ہاں" کا منتظر تھا۔ جبکہ خاطره حیران نظروں سے اسے دیکھتی یہ سوچ رہی تھی۔۔۔ آیا کہ اب بھی وہ مذاق کر رہا ہے یا پرپوز کر رہا ہے۔
" آپ پھر مذاق۔۔۔"
" میں سیرئیس ہوں خاطره !! "
غازان نے فوراً اس کی بات کاٹی۔ وہ اب ایک پل کیلئے بھی اسے خود سے دور نہیں رکھنا چاہتا تھا۔
" بولو مجھ سے نکاح کرو گی؟ "
" میں کیسے۔۔۔ مطلب میں اور آپ۔۔۔" اسے سمجھ نہیں آیا، کیا جواب دے۔ نظریں نیچے جھکائے وہ فرش کو گھورنے لگی۔
" تم اور میں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ کہنے کی ضرورت نہیں ہے، یہ ہم دونوں جانتے ہیں۔" کندھوں پر گرفت مضبوط کرتے ہوئے وہ گھمبیر لہجے میں کہتا خاطره کے دل کی دھڑکن کو بے ترتیب کر رہا تھا۔
" مم۔۔۔ مجھے کچھ وقت چاہیئے۔" وہ بمشکل بولی۔
" کتنا وقت؟ ایک دن، دو دن۔۔۔ اس سے زیادہ نہیں ہم نکاح کر لینگے، رخصتی جب تم چاہو۔"
" غازان پر ماما۔۔۔"
" آنٹی سے میں بات کر لوں گا۔ تم اپنی بات کرو۔" عجیب سی ضد تھی اس کے لہجے میں۔ خاطره اپنے شانوں پر سے اس کے ہاتھ ہٹاتی پیچھے ہوئی۔
" میں نے کہا نا وقت چاہیئے۔"
" ٹھیک ہے کل تک کا وقت ہے سوچ کر جواب دے دو مگر۔۔۔" وہ رکا ساتھ ہی قدم بڑھاتا اس کے قریب آیا۔
" مگر جواب ہاں میں ہونا چاہیئے عزیزِ دلم !! "

اس کے چہرے پر آتی لٹ کو کان کے پیچھے کرتا وہ سرگوشی میں بولا۔
" چلتا ہوں کل آؤں گا جواب لینے۔" وہ کہہ کر جیسے آیا تھا ویسے ہی واپس چلا گیا۔
خاطره ہکا بکا سی غازان کو جاتے دیکھ رہی تھی۔ اسے اب بھی اپنی سماعتوں پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ کیا واقعی غازان ذوالفقار نے اسے پرپوز کیا تھا۔
" انه لا یصدق !! (یہ ناقابلِ یقین ہے) "

" کہاں سے آ رہے ہو تم؟ "
زوالقرنین کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھ زوجیل نے گھورا۔ کل رات کا نکلا وہ اب واپس لوٹا تھا۔
" آج موسم کافی بگڑا ہوا ہے۔ "
" تمہاری وجہ سے۔۔۔"
" میں آپ کے نہیں باہر کے موسم کی بات کر رہا ہوں۔" زوجیل کی بات کاٹتا، وہ جلانے والی مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔
کیمیکل بناتی زوجیل نے لب بھینچے اسے دیکھا پھر کیمیکل کو وہیں ٹیبل پر چھوڑ کر اس کے سامنے جا کھڑی ہوئیں۔ جو انہیں نظر انداز کیے کیبنٹ میں نہ جانے کیا ڈھونڈ رہا تھا۔
" ذوالفقار پیلس سے آ رہے ہو؟ "

" نہیں !! ویسے آپ کی جادوئی بال نے دکھایا نہیں کہاں گیا تھا؟ " سیاہ مائع کیبنٹ سے نکال کر وہ ان کی جانب مڑا۔
" یہ کیا کر رہے ہو مجھے دو؟ "
زوجیل نے اس کے ہاتھ سے چھیننا چاہا۔ مگر اس سے پہلے ہی زوالقرنین نے تیزی سے ہاتھ اوپر کر لیا۔
" اس کے زریعے بابا کو تکلیف پہنچاتی تھیں نا ماما زوجیل؟ " بوتل ہاتھ سے اوپر کیے وہ بغور اسے دیکھتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔
" ویسے آج بتا ہی دیں، کیا ملا آپ کو یہ سب کر کے؟ بابا کو کبھی آپ سے محبت ہوئی نہ انہوں نے مجھے اپنا بیٹا مانا۔ ان کیلئے بس رباب اور غازان ذوالفقار ہی اپنے تھے اور یہی بات میرے دل میں غازان کیلئے نفرت کو ہوا دیتی رہی۔"
اس کی بات پہ زوجیل کے چہرے کے تاثرات بگڑنے لگے تھے۔ ایک بار پھر انہوں نے ہاتھ بڑھا کر بوتل اس سے لینی چاہی۔ مگر اس بار زوالقرنین نے پوری طاقت سے وہ بوتل فرش پر دے ماری۔ تیز دھواں سا فرش سے اُٹھنے لگا تھا۔
" یہ تم نے کیا کِیا۔"
زوجیل نے طیش کے عالم میں اپنا ہاتھ اُٹھا کر زوالقرنین کو مارنا چاہا مگر وہ ایک دم غائب ہوتا ان کے پیچھے آ کھڑا ہوا۔

" نہ نہ زوجیل انتھونی !! غصّہ نہیں کرتے۔ ایسی باتیں کرنے پر مجھے آپ ہی مجبور کرتی ہیں۔ اس لیے آئندہ مجھ پر نظر رکھنے یا میرے معاملے میں دخل اندازی کرنے جیسی سنگین غلطی مت کرے گا۔ ورنہ انجام کی ذمہ دار خود ہوں گی۔" خطرناک لہجے میں کہتا وہ زوجیل کو ساکت کر گیا تھا۔
وہ اچھے سے جانتی تھیں۔ اپنی زندگی میں اس نے کسی سے کوئی ہمدردی یا محبت نہیں کی تھی حتیٰ کہ اپنے ماں باپ سے بھی نہیں۔ اس لیے زوجیل کو نقصان پہنچانا زوالقرنین کیلئے مشکل نہ تھا۔

" بہت ساتھ دے لیا تمہارا۔ اب تمہارا بھی کوئی بندوبست کرنا پڑے گا۔"
نفرت سے سوچتی وہ واپس ٹیبل کی جانب بڑھ کر کیمیکلز کی طرف متوجہ ہو چکی تھیں۔


آرزؤ عشق سیزن 1 (دسواں حصہ)


تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں



Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں