آرزو عشق - سیزن 1 (دسواں حصہ)

اردو کہانیاں
 

آرزو عشق - سیزن 1 (دسواں حصہ)

جن اور انسانی لڑکی کی محبت

سیڑھیاں اُترتی نیچے آئی تو سامنے ہی مشہد اسے لیونگ روم میں تیار کھڑی نظر آئیں۔ جیسے کہیں جا رہی ہوں۔ اس نے اپنی ناراضگی کو سائڈ پر رکھتے ہوئے حیرت سے پوچھا۔
" کہاں جا رہی ہیں؟ "
" کہیں نہیں بلکہ بختاور (رہبان کی ماں) آ رہی ہیں۔" خاطره پر ایک نظر ڈال کر وہ کہتی ہوئی کچن کی طرف بڑھیں۔
" کیوں؟ وہ کیوں آ رہی ہیں؟ " اس کی حیرت میں کچھ اور اضافہ ہوا تھا۔
" تمہارے رشتے کیلئے؟ "

پُرسکون انداز میں کہتی وہ خاطره کا سکون غارت کر گئیں۔ وہ تیزی سے اپنے اور مشہد کے درمیان فاصلے کو ختم کرتی ان کے پاس پہنچی۔
" یہ کیا بول رہی ہیں، مجھے نہیں کرنی رہبان سے شادی۔"
" کیوں کیا برائی ہے اس میں ویسے بھی ابھی صرف نکاح ہوگا رخصتی تمہارا ماسٹر مکمل ہونے کے بعد اور پھر اس طرح تمہارا ذہن بھی بٹے گا نہ جانے کیا کیا سوچنے لگی ہو۔" مشہد بولیں تو لہجے میں خودبخود سختی در آئی۔
" آپ کیسی ٹیپکل اماؤں والی باتیں کر رہی ہیں۔"
مشہد کی بات پر خاطره کے ماتھے پر بل پڑے۔ پریشانی سے انگلیاں چٹخاتے ہوئے اس نے مشہد کو بےبسی سے دیکھا۔
" بیٹی کی ماں کو ٹیپکل بنا پڑتا ہے ویسے بھی میری زندگی کتنی ہے کسے پتہ۔۔۔ اس لیے جلد از جلد اس فرض سے سبکدوش ہونا چاہتی ہوں۔" ایک بار پھر وہ پُرسکون انداز میں بولیں۔
خاطره نچلا لب کاٹتے ہوئے مشہد کو دیکھ رہی تھی۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا غازان کے بارے میں کس طرح انہیں بتائے۔
" کیا کروں؟ کیا کروں۔۔۔ سوچ خاطره سوچ۔"
" کیا ہوا؟ "

اس کی خاموشی پر سلاد بناتیں مشہد نے ہاتھ روک کر سوالیہ نظریں اس کی جانب اُٹھاتے ہوئے پوچھا۔
" نہیں۔۔۔ کچھ نہیں میں اپنے کمرے میں جا رہی ہوں۔"
" ٹھیک ہے اوپر جا کر ٹھیک سے تیار ہو جاؤ، وہ بس آتے ہونگے۔"
ایک نظر اس کے حلیے پر ڈال کر وہ کہتی ہوئی واپس سلاد کی طرف متوجہ ہوگئیں۔ خاطره لب بھینچے، خاموش نظروں سے انہیں دیکھتی رہی پھر کچھ بھی کہے بغیر سیڑھیاں چڑھتی واپس اپنے کمرے میں چلی گئی۔

جلے پیر کی بلی کی طرح قانتا کمرے میں ادھر سے ادھر چکر کاٹ رہی تھی۔ کام پورا ہو جانے تک وہ اس قید سے باہر نہیں نکل سکتی تھی۔ اوپر سے اُس نے اسے برت بھی لیا تھا۔ جس کے بعد سے اس کا دل چاہ رہا تھا اس جن کی گردن مروڑ دے ساتھ ساتھ خاطره کی بھی تاکہ یہ قصّہ ہی ختم ہو جائے۔
" میں تمہیں چھوڑوں گی نہیں زوال۔۔۔"
" بس بس مجھے مارنے کے منصوبے بعد میں بنانا۔ پر اس سے پہلے تمہیں میرا ایک کام کرنا ہے۔"

ایک دم سے اس کے سامنے نمدار ہوتا، وہ سفید گھیرے دار سلیوز لیس فراک میں ملبوس قانتا کو بغور دیکھتے ہوئے بولا۔
" کیسا کام؟ " قانتا کے ماتھے پر بل پڑے۔
" تمہیں خاطره کو غازان کی حقیقت بتانی ہے۔"
" دماغ درست ہے تمہارا؟ اول تو یہ خاطره مجھے جانتی نہیں میری بات کا یقین کیوں کرے گی اور دوسری بات غازان کو پتا چل گیا تو اُس کے ہاتھ اور میری گردن ہوگی۔"
اس نے کہتے ہوئے اپنے گلے پر ہاتھ رکھے۔ یوں کہ ابھی غازان آئے گا اور اس کی گردن دبوچ لے گا۔
" غازان، غازان۔۔۔ غازان۔۔۔ آخر تم لوگ اس سے اتنا ڈرتے کیوں ہو؟ دیکھنا چیونٹی کی طرح مسل کر رکھ دوں گا۔" وہ چوٹکی بجاتا ہوا حقارت آمیز لہجے میں بولا۔
" خام خیالی ہے، تم ابھی غازان کی طاقتوں سے واقف نہیں ہو۔ ذوالفقار خاندان کا سب سے طاقتور جن ہے وہ، اس جیسی طاقت والا نہ پہلے کوئی آیا تھا نہ آیا ہے۔" چہرے پر استہزائیہ مسکراہٹ سجائے اس نے جتاتے ہوئے کہا۔
" تم بھی دیکھ لو گی میری طاقت کے آگے وہ کچھ بھی نہیں پر فی الحال جو تمہیں کہا ہے وہ کرو۔" دوٹوک انداز میں کہہ کر وہ وہاں رکا نہیں تھا۔
اس کے جاتے ہی قانتا نے بےچینی سے ایک بار پھر کمرے میں چکر کاٹنا شروع کر دیا۔ ایک نئی مصیبت جو گلے آن پڑی تھی۔

کمرے میں آکر اس نے الماری سے کپڑے نکالے اور سیدھا باتھ روم میں گھس گئی۔ فریش ہو کر کپڑے بدلنے کے بعد وہ باہر آئی اور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہو کر تیار ہونے لگی۔ اب جب مشہد نے مہمانوں کو بلا ہی لیا تھا تو واویلا کرنے سے اپنا ہی تماشا بننا تھا۔ یہی سوچ کر وہ خاموشی سے تیاری میں لگ گئی تھی۔
" کیا غازان کو بتا دوں پر کیسے؟ میرا تو موبائل بھی ٹوٹ گیا۔"
سوچتے ہوئے اس نے بےبسی سے ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا اپنا موبائل دیکھا جو رات گرنے کے باعث ٹوٹ چکا تھا۔
" خاطره رہبان کی امی اور بہن آ چکے ہیں جلدی نیچے آؤ۔"
پیچھے سے آتی مشہد کی آواز پر خاطره چونکی۔ مڑ کر دیکھا تو مشہد دروازے پر کھڑی سنجیدہ نظروں سے اسے ہی دیکھ رہی تھیں۔
" بس آرہی ہوں۔" وہ دھیرے سے بولی۔ مشہد اثبات میں سر ہلاتے ہوئے واپس نیچے چلی گئیں۔
اُن کے جاتے ہی اس نے ایک نظر آئینے میں نظر آتے اپنے عکس کو دیکھا۔ میرون رنگ کے شنیل کے شلوار قمیض میں اس کی گلابی رنگت اور بھی دمک رہی تھی۔
" ابھی تو خواب دیکھنا شروع کیے تھے میں نے، کیا اتنی جلدی سب بکھر جائیں گے؟ "
اپنے ہی عکس سے مخاطب ہوتی، وہ اس وقت شدت سے غازان کے اپنے پاس آنے کی خواہش کر رہی تھی۔
۔*********۔
" کیوں بلایا ہے مجھے یہاں؟ "
سامنے کھڑے جن پر ایک نظر ڈال کر زوالقرنین نے اس گھنے جنگل کو دیکھا۔ جہاں پھیلی سفید برف اسے مزید خوبصورت اور پُراسرار بنا رہی تھی۔
" تم اچھے سے جانتے ہو تمہیں یہاں کیوں بلایا گیا ہے۔"
اس بات پر زوالقرنین نے واپس نظریں اس کی طرف اُٹھائیں، جو سُرخ ہوتی آنکھوں سے اسے گھور رہا تھا۔
" غازی پہیلیاں مت بجھاؤ، سیدھا مدعے پر آؤ۔"
وہ اکتائے ہوئے لہجے میں بولا۔ غازان سے کسی اچھی بات کی توقع اسے پہلے ہی نہیں تھی، تو اب کیا رکھتا۔
" چلو مدعے پر آتا ہوں۔ میری ماں کو مار کر چین نہیں ملا جو خاطره کو نقصان پہنچا رہے ہو۔" وہ غرایا۔
" بکواس بند کرو۔ کیا ثبوت ہے تمہارے پاس اس سب کے پیچھے میرا ہاتھ ہے۔ ثابت کرو۔"
غازان کے الزام پر زوالقرنین کی آگ رنگ آنکھوں میں خون اُتر آیا تھا۔ مگر اس کے باوجود وہ ضبط کرتے ہوئے بولا۔
" ثبوت !! ابھی دیتا ہوں۔"
خطرناک لہجے میں کہتا وہ انسانی روپ سے نکل کر اپنے حیوانی روپ میں آچکا تھا۔ سیاہ جسم جس سے آگ کے شعلے بھڑک اٹھے تھے۔ غازان آگے بڑھا اور ایک چھلاوے کی طرح وہ زوالقرنین کو درختوں کے بیچ سے دھکیلتا ہوا آگے لے گیا۔
" اب تم پچھتاؤ گے غازان ذوالفقار !! "
ایک جھٹکے سے غازان کو خود سے دور دھکیل کر وہ دھاڑتے ہوئے خود بھی اپنے اصل روپ میں آچکا تھا۔

دادا ذوالفقار کو سوپ دینے کے بعد وہ کمرے میں موجود کھڑکی کی طرف آیا۔ جہاں آسمان پر سیاہ بادل تیزی سے پھیلتے جا رہے تھے۔ وہیں جنگل میں اسے ہل چل سی ہوتی محسوس ہو رہی تھی اور یہ کیوں ہو رہی تھی، اس سے میکال بخوبی واقف تھا۔
" وہ پھر لڑ رہے ہیں نا۔"
اس کے کانوں سے دادا ذوالفقار کی آواز ٹکرائی۔ مڑ کر اُن کی جانب دیکھا۔ جو چہرے پر برسوں کی تھکن لیے اپنی بوڑھی آنکھوں سے اسے ہی دیکھ رہے تھے۔ رباب کا غم اتنا شدید تھا کہ طبیعت سنبھلنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔
" آج انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں تو بہتر ہے دادا ذوالفقار۔ ورنہ ہم غازان کو ہمیشہ کیلئے کھو دینگے۔" وہ دھیرے سے بولا۔
دادا ذوالفقار کی آنکھوں میں نمی سی اُترنے لگی تھی۔ جسے چھپانے کیلئے انہوں نے آنکھیں بند کرتے ہوئے میکال کو باہر جانے کا اشارہ کیا۔ میکال نے مڑ کر ایک نظر کھڑکی سے باہر جنگل پر ڈالی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہاں سے غائب ہو گیا۔

" اب میں نہیں تم پچھتاؤ گے زوالقرنین ذوالفقار !! "
زوالقرنین کو گردن سے دبوچ کر وہ وہاں سے غائب ہوتا، برسوں پرانے اس ہوٹل میں آ گیا تھا جو کبھی قائم ذوالفقار کی ملکیت ہوا کرتا تھا مگر اب آسیب زدہ ہوٹل کے علاوہ کچھ نہ تھا۔
" کیوں مارا تم نے میری ماں کو؟ میرے باپ کو چھین کر سکون نہیں ملا تھا؟ " وہ دھاڑا۔
" نہ تو میں نے تمہارے باپ کو چھینا ہے نہ تمہاری ماں کو مارا ہے۔ تمہاری آنکھوں پر نفرت کی پٹی بندھی ہے کہ تمہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا، حتیٰ کہ رباب ماما بھی سارے سچ سے واقف تھیں۔"
زوالقرنین بھی اسی کے انداز میں بولا۔ رباب کے نام پر غازان ایک پل کیلئے ٹھہر سا گیا۔ رباب کسی سچ سے واقف تھی؟ اور پھر اسے کیوں بےخبر رکھا؟
" کیا بکواس کر رہے ہو۔ کونسا سچ؟ اگر کچھ ہوتا تو ماما مجھے ضرور بتاتیں۔"
" میں نے انہیں منع کیا تھا کہ تمہیں کچھ نہ بتائیں۔۔۔"
ابھی ذوالقرنین کی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ تبھی اسے اپنی گردن پر کچھ چبھتا ہوا محسوس ہوا۔ اس نے گردن پر ہاتھ رکھا تو سیاہ نمی اپنے ہاتھ پر محسوس ہوئی۔ اس نے چاروں طرف نظریں دوڑائیں۔ مکڑی کے جالوں اور اندھیرے کے سوا کسی تیسرے کا وجود اسے محسوس نہیں ہوا تھا۔
" کیا ہوا تمہیں؟ "
اپنے انسانی روپ میں آتے ہوئے غازان نے پریشانی سے پوچھا۔ زوالقرنین کی حالت اسے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی تھی۔ وہ اس وقت اپنے اصل روپ میں تھا پر بار بار انسانی روپ کی جھلک دکھائی دے رہی تھی ساتھ ہی اس کے قدموں کی لڑکھڑاہٹ اسے کسی گڑبڑ کا احساس دلا رہی تھی۔
" میں۔۔۔ میں !! "
اس سے پہلے وہ کچھ کہتا، انسانی روپ میں آ کر بیہوش ہوتا فرش پر گرتا چلا گیا۔

بختاور اور صباح کے سامنے وہ سر جھکائے نروس سی بیٹھی تھی ساتھ ساتھ ماں بیٹی کے وقفے وقفے سے نہ ختم ہونے والے سوالوں کے جواب بھی دے رہی تھی۔ جنہیں دیکھ کر ہی لگ رہا تھا وہ آج یہاں سے رشتہ پکا کیے بغیر جانے کا ارادہ نہیں رکھتیں۔
" مشہد مجھے تمہاری بیٹی بہت پسند آئی۔" خاطره کی طرف مسکرا کر دیکھتے ہوئے وہ مشہد سے بولیں۔
مشہد نے محبت بھری نظر اپنے بائیں جانب بیٹھی اپنی اکلوتی اولاد پر ڈالی جو ان کا سب کچھ اب یہی تھی۔
" مجھے خوشی ہے کہ آپ کو میری خاطره پسند آئی۔ مگر بختاور میں نے آپ سے کہا تھا ابھی میں اس کی شادی کا ارادہ نہیں رکھتی۔"
مشہد سنجیدگی سے بولیں۔ جبکہ خاطره نے چونک کر انہیں دیکھا۔ کچھ دیر پہلے تو وہ اس سے نکاح کی بات کر رہی تھیں اور اب بختاور آنٹی کو ڈھکے چھپے لفظوں میں انکار کر رہی تھیں۔ کیوں؟
" ہاں پر نکاح کرنے میں کیا ہرج ہے مشہد؟ " بختاور نے سوال اُٹھایا۔ البتہ ان کے برابر میں بیٹھی صباح خاموشی سے کبھی انہیں تو کبھی خاطره اور مشہد کو دیکھ رہی تھی۔
" ابھی اس کی پڑھائی مکمل نہیں بختاور اور پھر میں بچوں کو باندھ کر نہیں رکھنا چاہتی ایک بار اس کا ماسٹر ہو جائے پھر دیکھیں گے کیا کرنا ہے۔"
ان کی سنجیدگی ہنوز قائم تھی۔ جبکہ پاس بیٹھی خاطره کا دل کر رہا تھا۔ اُٹھ کر ماں کو گلے لگا لے۔ سارے شکوے گلے اس وقت کہیں دور ہوگئے تھے۔
" ٹھیک ہے مشہد مگر میں پھر بھی تمہاری طرف سے کسی مناسب جواب کی انتظار کروں گی۔ تم ایک بار اچھے سے سوچ لو۔"
وہ کہتی ہوئی اُٹھیں۔ ان کی تقلید کرتی صباح بھی اُٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ الوداع کلمات کے بعد دونوں ماں بیٹی چلی گئیں تو خاطره خوشی سے بے قابو ہوتی مشہد کی طرف مڑی۔ وہ آنکھیں سکیڑے بغور اس کے خوشی سے دمکتے چہرے کو دیکھ رہی تھیں جو کچھ دیر پہلے اداسی سے مرجھایا ہوا تھا۔
" تھنکیو ماما !! " کہتے ہوئے مشہد کو زور سے خود میں بھینچا۔
" بس بس !! مکھن لگانے کی ضرورت نہیں۔"
" ویسے آپ تو کہہ رہی تھیں نکاح کریں گے اور اب انکار کیسے؟ " خاطره نے گال پر بوسہ دیتے ہوئے پوچھا۔
" بیٹی کو خوش دیکھنا چاہتی ہوں اداس نہیں، جس طرح منہ لٹکا کر بیٹھی تھیں مجھے انکار کرنا پڑا۔"
اس کے ہاتھ اپنے گرد سے ہٹاتے ہوئے وہ بولیں اور جھک کر ٹیبل پر رکھے کپ اُٹھاتی کچن کی جانب بڑھ گئیں۔ جبکہ خاطره اپنی خوشی کو سنبھالتے ہوئے سیڑھیاں چڑھتی اپنے کمرے میں چلی گئی۔

" اسے کیا ہوا ہے؟ "
کمرے میں داخل ہوتے غازان نے ایک نظر بیڈ پر لیٹے زوالقرنین پر ڈالی اور پھر میکال پر جو بیڈ سائڈ پر کھڑا اسے انجیکشن لگا رہا تھا۔
" یہ تو مجھے تم سے پوچھنا چاہیئے تھا؟ " میکال طنزیہ انداز میں بولا۔
" ہوش کب تک آئے گا اسے؟ " میکال کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے اس نے اگلا سوال کیا۔
" تھوڑی دیر میں ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن اسے وہ زہریلی پن چبھی کیسے؟ "
" میرے اور اس کے علاوہ ہوٹل میں کوئی نہیں تھا یقیناً اس نے یہ خود کیا ہے۔"
کہتے ہوئے غازان نے ایک بار پھر نفرت بھری نظر زوالقرنین پر ڈالی جو آنکھیں بند کیے ان دونوں کی آمد اور گفتگو دونوں سے بےخبر تھا۔
" تم ہوش میں ہو غازان؟ وہ مر سکتا تھا اور تم کہہ رہے ہو یہ اس نے خود کیا ہے۔"
اس کی بات پر میکال کا دل کیا ہاتھ میں موجود انجیکشن غازان کے لگا دے تاکہ اس کا دماغ درست ہو جائے۔
" رہنے دو بس تم پر اور دادا ذوالفقار پر اس نے جانے کیا جادو کیا ہے۔ اس کی ہی زبان بولتے ہو۔"
وہ کہہ کر وہاں رکا نہیں تھا۔ میکال نے تاسف سے اسے جاتے دیکھا ساتھ ہی دھیرے سے بڑبڑایا۔
" تمہارا کچھ نہیں ہوسکتا غازان۔"

بلیک کوٹ کے ساتھ سر پر ریڈ اسکارف لیے وہ تیزی سے سیڑھیاں اُترتی نیچے آئی۔ مشہد سامنے ہی آتش دان میں لکڑیاں ڈال کر جلا رہی تھیں۔
" ماما میں زرا باہر جا رہی ہوں۔"
" کہاں؟ "
مشہد نے چہرہ موڑ کر اسے دیکھا جو عجلت میں دکھائی دے رہی تھی۔
" بس ویسے ہی برف باری ہو رہی ہے نا تو میں زرا باہر کا جائزہ لے کر آئی۔" وہ کہتے ہوئے فوراً دروازے کھول کر باہر نکل گئی۔
دونوں ہاتھوں کو آپس میں مسلتے ہوئے وہ تیزی سے چلتی ذوالفقار پیلس کی طرف جا رہی تھی تاکہ غازان سے مل کر رہبان کے رشتے کی بابت بتا سکے۔
" پتہ نہیں گھر پر ہونگے بھی یا نہیں۔"
دروازے کے سامنے رکتے ہوئے اس نے سوچا۔ جھجک الگ محسوس ہو رہی تھی پر ہمت کرتی دروازے کو کھول کر وہ اندر کی جانب بڑھی۔ پورا لان برف سے ڈھکا ہوا تھا۔
وہ سفید برف پر اپنے قدموں کے نشان چھوڑتی اندرونی دروازے کی طرف بڑھی ہی تھی کہ دفعتاً دروازہ کھلا، بلیک پینٹ شرٹ پر لیدر کی بلیک جیکٹ پہنے فریش سا غازان ذوالفقار باہر آیا۔
" تم یہاں؟ "
غازان نے آنکھوں میں حیرت لیے اسے دیکھا حالانکہ خاطره کی آمد محسوس کر کے ہی وہ گھر سے باہر آیا تھا تاکہ وہ کسی اور جن کی نظر میں نہ آجائے۔
" وہ مجھے آپ سے بات کرنی تھی۔ آپ کہیں جا رہے ہیں؟ " خاطره نے جھجھکتے ہوئے پوچھا۔
" نہیں !! تم آؤ اندر آجاؤ۔"
اس نے سائڈ پر ہو کر خاطره کو اندر جانے کا راستہ دیا۔ وہ اندر کی جانب بڑھی تو خود بھی اس کے پیچھے چل پڑا۔ خاطره چاروں طرف نظریں دوڑاتے ہوئے چل رہی تھی۔ جب وہ یہاں پہلے آئی تھی تب بھی صرف رباب سے ملی تھی مگر گھر پھر بھی بھرا بھرا آباد لگ رہا تھا۔ لیکن آج ایک ماں کے نہ ہونے سے کتنا ویران لگ رہا تھا۔
" صحیح کہا ہے کسی نے جس گھر میں ماں نہ ہو وہ یوں ہی ویران ہو جاتے ہیں۔"
اس نے سوچتے ہوئے چہرہ موڑ کر غازان کو دیکھا جو اس کے دیکھنے پر مسکرایا تھا۔
" کیا ہوا پریشان لگ رہی ہو۔"
" نہیں تو۔" خاطره واپس چہرہ موڑ کر سامنے دیکھنے لگی۔
ساتھ ساتھ چلتے ہوئے وہ ڈرائنگ روم میں آچکے تھے۔ غازان نے اسے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود آگے بڑھ کر کھڑکی پر ڈلے پردے ہٹانے لگا۔
" پریشان ہو، کیا بات ہے؟ جو کہنا ہے کہو۔"
پردے ہٹا کر اس کے سامنے صوفے پر بیٹھتا غازان اس کی آنکھوں میں جھانک کر بولا۔ وہ اسے پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا مگر نہ جانے کیوں خاطره کی سوچ تک پہنچ نہیں پا رہا تھا۔
" وہ آج رہبان کی امی اور بہن آئی تھیں۔" انگلیاں مروڑتی وہ دھیرے سے بولی۔
" کیوں؟ "
" میرے رشتے کے لیے۔"
اب غازان ایک دم کھڑا ہوا۔ اسے دیکھتی خاطره بھی گھبرا کر اُٹھی۔
" ایسے کیسے وہ رشتے کیلئے آسکتی ہیں۔"
رشتے کا سنتے ہی اس کا دماغ گھوم گیا تھا پھر بھی وہ اپنا غصّہ سامنے کھڑی لڑکی پر نہیں اُتار سکتا تھا۔ اس لیے ضبط کرتے ہوئے بولا۔
" وہ۔۔۔"
" تم نے آنٹی کو منع نہیں کیا تھا؟ "
" وہ میں نے کیا تھا۔"
غازان کا غصّے سے سرخ ہوتا چہرہ اور ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچے دیکھ اب اسے خوف آنے لگا تھا۔ اس لیے جلدی سے بولی۔
" تو پھر کیسے آئے؟ "
" آپ۔۔۔ آپ غصّہ کیوں کر رہے ہیں مجھ پر اور ماما نے منع کر دیا ہے مگر بختاور آنٹی ابھی بھی ماما کے مناسب جواب کے انتظار میں ہیں، اس لیے میں آپ سے کہنے آئی تھی اگر آپ کو ماما سے بات کرنی ہے تو جلدی کریں۔"
اب کے سارا ڈر ایک طرف رکھ کر وہ بھی غصّے سے بولی۔ اس کی بات پر غازان کا غصّہ ایک دم ٹھنڈا ہوا تھا۔
" میں تم پر غصّہ نہیں کر رہا۔ بھلا تم پر غصّہ کر سکتا ہوں اور اچھا ہوا تم نے مجھے بتا دیا۔ میں خود آنٹی سے بات کر لوں گا۔"
کہتے ہوئے اب کے وہ دھیرے سے مسکرایا۔ خاطره نے خفگی بھری نظر اس پر ڈال کر چہرہ دوسری طرف پھیر لیا۔
" اے !! ناراض نہیں ہو۔ آؤ تمہیں اپنے ہاتھوں سے کافی بنا کر پلاؤں۔"
اس کا ہاتھ تھامے، وہ مسکراتا ہوا ڈرائنگ روم سے نکل کر کچن کی جانب بڑھ گیا۔

" تم ٹھیک ہو؟ "
زوالقرنین آنکھیں بند کیے بیڈ سے اُٹھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ جب اسے ہلتے دیکھ میکال تیزی سے کرسی سے اُٹھ کر اس کے پاس آیا۔
" ہاں !! "
زوالقرنین نے آنکھیں کھولتے ہوئے میکال کی طرف دیکھا۔ آگ رنگ آنکھوں کی جگہ سیاہ آنکھیں، ایک پل کیلئے میکال خاموش سا ہوگیا۔
" تم اب بھی ٹھیک نہیں ہو، آرام کرو۔"
" ڈاکٹر میکال میں ٹھیک ہوں۔ ہٹو راستے سے مجھے جانا ہے۔" وہ کہتا ہوا بیڈ سے نیچے اترا کہ میکال تیزی سے اس کے سامنے آیا۔
" کہاں جانا ہے؟ ایسی حالت میں تمہیں کہیں جانے نہیں دوں گا سوری۔"
" میں نے کہا نا سامنے سے ہٹو؟ " وہ دھاڑا۔
پورے ذوالفقار پیلس میں اس کی آواز گونج اُٹھی تھی۔ کچن میں سلیب پر بیٹھی خاطره چونک کر غازان کو دیکھنے لگی جو اس کے پاس کھڑا کافی بنا رہا تھا۔
" یہ کس کی آواز ہے؟ "
" آں !! وہ زوالقرنین میرا بھائی ہے تم ملی تو ہو۔ اس کی طبیعت خراب ہے تو بس چڑچڑا ہو رہا ہے۔ اس لیے صبح سے ایسے شور مچا رہا ہے۔"
زبردستی کی مسکراہٹ چہرے پر سجائے وہ جھوٹ بولتا دل ہی دل میں زوالقرنین کو گالیاں دے رہا تھا۔
ادھر زوالقرنین کا دل کر رہا تھا اپنے سامنے دیوار بنے کھڑے میکال کو اُٹھا کر کہیں دور پھینک دے جو اسے جانے نہیں دے رہا تھا۔
" لیٹ جاؤ آرام سے۔"
" سامنے سے ہٹ جاؤ ورنہ ہمیشہ کیلئے تمہیں لیٹا دوں گا اور اُس غازان ذوالفقار کو بتا دینا میں یہ بھولوں گا نہیں۔"
سیاہ آنکھوں میں بھڑکتے شعلے لیے خطرناک لہجے میں کہتا وہ میکال کو ساکت کر گیا تھا۔

کمرے میں خاموش بیٹھی صباح کب سے بختاور کو ادھر سے اُدھر چکر کاٹتے دیکھ رہی تھی مگر بولی کچھ نہیں تھی اسے خود بھی ڈر لگ رہا تھا رہبان کے غصّے کا سوچ کر کہ جب اسے پتا چلے گا مشہد نے خاطره کے رشتے سے انکار کر دیا ہے تب وہ کیا کرے گا۔
" کیا ہوا بات بنی؟ "
وہ یوں ہی سوچوں میں گم بیٹھی تھی جب رہبان کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی سر اُٹھا کر دیکھا تو وہ کمرے میں داخل ہوتا بختاور کے سامنے آ کھڑا ہوا تھا۔ سوالیہ نظریں بختاور سے ہوتی اس پر آ رکی تھیں۔
" نہیں !! " بختاور روکھے لہجے میں بولیں۔
" کیا مطلب نہیں ایک کام نہیں کرسکے دونوں۔" وہ غرایا۔
" ہم نے پوری کوشش کی پر وہ نہیں مانیں۔" ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے صباح ایک ادا سے بولی۔
" تم تو منہ بند ہی رکھو۔ اب لگتا ہے مجھے ہی کچھ کرنا پڑے گا۔" غصّے سے کہتا وہ دروازے پر لات مارتا فوراً کمرے سے باہر نکل گیا۔
" اب یہ کیا کرے گا؟ "
بختاور نے صباح کی طرف دیکھا جو کندھے اچکا کر اپنے ناخن سیٹ کرنے میں مصروف ہو چکی تھی۔

" یہ لو گرم گرم کافی۔"
سیلب پر بیٹھی خاطره کو کپ پکڑا کر اس نے دونوں ہاتھ خاطره کے دائیں بائیں سلیب پر جماتے ہوئے اسے اپنے حصار میں لیا۔
" آپ نہیں لینگے؟ "
" نہیں تم پیو مجھے اتنی سردی نہیں لگتی۔"
وہ مسکراتے ہوئے بولا۔ خاطره نے کندھے اچکا کر کپ ہونٹوں سے لگا لیا۔ مگر غازان کی خود پر جمی نظریں اسے کنفیوز کر رہی تھیں۔
" تم نے جواب نہیں دیا۔" خاطره پر نظریں جمائے اس نے پوچھا۔
" کس بات کا جواب؟ " آنکھیں مٹکاتے ہوئے کمال معصومیت سے پلٹ کر سوال کیا۔
" سنو وائٹ !! ذہن پر زور ڈالو صبح کچھ پوچھا تھا۔"
خاطره نے کپ سلیپ پر رکھا اور دونوں ہاتھ اس کے سینے پر رکھ کر اسے پیچھے ہٹانے کی کوشش کرنے لگی مگر غازان ایک انچ بھی ہلے بغیر اس کی حرکت پر محظوظ ہوتا مسکراتا رہا۔
" اپنے ننے منے ہاتھوں کو کیوں تھکا رہی ہو۔ لو ہٹ گیا پیچھے۔" وہ دو قدم پیچھے ہوا۔
خاطره تیزی سے سلیب سے اُتری۔ اس کا ارادہ بھانپ کر غازان نے فوراً اس کی کلائی کو اپنی گرفت میں لیتے ہوئے اپنی طرف کھینچا۔ خاطره اس کے سینے سے ٹکراتے ٹکراتے بچی۔
" تھنکس !! "
" کس بات کیلئے؟ " اس نے نظریں چرائیں۔
" یوں آکر مجھے رہبان کے رشتے کی بابت بتانا۔ اس بات کی دلیل ہے کہ تم صرف میری ہو۔" اس کے چہرے پر آتی لٹ کو اسکارف کے اندر کرتے ہوئے غازان نے گھمبیر لہجے میں کہا۔
" مجھ۔۔۔ مجھے چلنا چاہیئے ماما انتظار کر رہی ہوں گی۔" خاطره نے جھجھکتے ہوئے اپنی کلائی چھڑوائی۔
" آؤ تمہیں چھوڑ آتا ہوں۔"
اس کی جھجھک کو محسوس کرتے ہوئے وہ فوراً مان گیا۔ ساتھ ہی اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے وہ ذوالفقار پیلس سے باہر نکلا اور اپنے قدم خاطره کے گھر کی جانب بڑھا دیئے۔

آرزؤ عشق سیزن 1 (گیارواں حصہ)


تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں



Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں