اک لڑکی کا خوفناک سفر (تیسرا حصہ)

Urdu Font Stories

ایک لڑکی کی دل دہلا دینے والی کہانی

سیرت نے امّاں سے پوچھا کے امّاں پھر آپ یہاں کیسے آئی امّاں نے کہا بیٹا اس گھر میں میرے لئے کچھ نہیں بچا تھا وحشت ہوتی تھی مجھے اس گھر سے

 پھر بھی میں اس گھر میں رہتی رہی کیوں کے وہاں میرے بچوں کی یادیں بسی تھی پھر پورا گاؤں آہستہ آہستہ خالی ہونے لگا کچھ لوگ تو وہاں سے چلے گئے کہیں اور اور کچھ ہی گھر رہ گئے تھے جس میں میرا بھی گھر شامل تھا پھر ایسا وقت آیا کے فاقے گزر نے لگے مجھ پہ میرا تو کوئی آسرا نہیں تھا سواۓ اللّه کے سب لوگوں نے گاؤں چھوڑنے کا فیصلہ کیا میں کہاں جاتی میرا کون تھا کوئی بھی نہیں اس دن سب لوگ گاؤں چھوڑ کے چلے گئے بلکے بھاگ گئے گاؤں سے صرف میں ہی رہ گئی جس کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا میں نے اللّه کا نام لیا اور چل پڑی چلتے چلتے مجھے یہ گھر نظر آیا تو میں یہاں چلی آئ اور اس دن سے ہی میں یہاں رہنے لگی ہوں پتہ نہیں یہ گھر کس کا تھا مجھے یہاں ضرورت کی ہر چیز ملی تھی اور اب میں یہاں بلکل اکیلی رہتی ہوں کوئی نہیں ہے میرے ساتھ،

پھر امّاں کو یاد آیا کے سیرت کو تو بھوک لگی ہوگی میں نے تو کھانے کا بھی نہیں پوچھا تو وہ جلدی سے اٹھی اور سیرت کے لئے کھانا لیکے آئی۔ سیرت نے کھانا کھایا تو امّا سے کہنے لگی کے امّا میں یہاں سے کیسے واپس جاؤں گی تو امّا نے کہا کے بیٹا تم زندہ سلامت یہاں تک آ تو گئی ہو پر یہاں سے زندہ آج تک کوئی نہیں نکلا اب تو سیرت کو پریشانی ہونے لگی کے وہ کب تک یہاں رہے گی اسے اپنے گھر جانا تھا یہاں اسے وحشت ہو رہی تھی پر نکلنے کا کوئی راستہ بھی تو نظر نہیں آرہا تھا باہر بارش اب بھی برس رہی تھی اور سردی اور بھی بڑھ گئی تھی سیرت نے بچے کو دودھ بنا کے دیا اور اسے اپنی گود میں ہی سلا دیا کیوں کے کمرے میں اب سردی بڑھ گئی تھی 

امّاں نے سیرت کو سونے کی جگہ بنا کے دی اور کہا کے بیٹا تم اب سو جاؤ صبح کوئی نا کوئی حل نکالتے ہیں سیرت لیٹ گئی امّا نے چولہے میں لکڑیاں جلائی جس سے کمرہ تھوڑا گرم ہوا سکون ملتے ہی سیرت سو گئی رات کوئی 2بجے کا ٹیم ہوگا کے باہر سے آوازیں آنے لگی جیسے کوئی باہر دروازے کے پاس کھڑے ہو کے آہستہ آواز میں بات کر رہا ہو سیرت جلدی سے اٹھی بیٹھی اور کمرے میں دیکھنے لگی تھوڑے فاصلے پر امّا بے خبر سو رہی تھی اور باہر سے اب بھی بات کرنے کی آوازیں آرہی تھی جیسے بہت سارے بچے آپس میں بات کر رہے ہوں بارش شاید رک چکی تھی اور صحن میں دوڑنے کی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھی سیرت نے سوچا کے امّا تو کہ رہی تھی کے یہاں امّا کے سوا کوئی انسان دور دور تک بھی نہیں ہے تو پھر یہ بچے کون ہیں

 سیرت اٹھی اور آہستہ سے امّا کو اٹھایا امّا اٹھو باہر کوئی ہے جیسے بہت سارے بچے ہوں امّا ایک دم اٹھی اور خوف سے کانپنے لگی اور کہنے لگی وہ آگئے ہیں وہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے مار ڈالیں گے ہم سب کو سیرت نے کہا کون امّا کون ہیں یہ لوگ تو امّا نے کہا یہ وہی بچے ہیں یہ تمہارے پیچھے آئے ہیں اتنے میں کمرے کا دروازہ بجنے لگا سیرت بھی اب خوف سے کانپ رہی تھی اس نے بچہ اٹھایا اور اسے اپنی گود میں چھپا لیا امّا نے سیرت سے کہا کے وہاں کونے میں ایک چھوٹا دروازہ ہے جو کھیتوں میں کھلتا ہے تم ھوں نکل جاؤ اس دروازے سے جلدی کرو سیرت نے کہا امّا آپ بھی چلو امّا نے کہا تم میری فکر مت کرو تم جاؤ میں بوڑھی عورت نہیں بھاگ سکتی تم جلدی جاؤ اور سیرت روتے ہوئے وہاں سے پیچھے کی طرف نکل گئی اس کے نکلتے ہی دروازہ ایک زور دار آواز سے کھل گیا تھا اور کچھ ہی دیر میں امّا ں کی چیخیں چارو طرف سے گونجنے لگی.

 ⁦⁩ ایسی درد ناک چیخیں تھی کے سیرت کا دل منہ کو آنے لگا وہ جہاں دوڑ رہی تھی یہ ایک کچا چھوٹا سا راستہ تھا جس کے چارو طرف کھیت ہی کھیت تھے اور دور دور تک نا کوئی آبادی تھی اور نا ہی کوئی انسان تھا اور وہ خوف سے بےتحاشہ
دوڑ رہی تھی کھچڑ سے اس کے کپڑے سارے بھر گئے تھے پر اسے اس کی پرواہ نہیں تھی اسے اپنی اور اس ننھے کی جان بچانی تھی دوڑتے دوڑتے جب سر اٹھا کے دیکھا تو یہ ایک بہت بڑا پہاڑ تھا اور اب وہ پہاڑ پہ چڑھ رہی تھی تھوڑا سا چڑھنے کے بعد اسے پہاڑ میں ایک غار دکھائی دیا وہ اس کے اندر جا کے بیٹھ گئی اور لمبے لمبے سانس لینے لگی اسے بیٹھے ہوئے کچھ ہی دیر ہوئی ہوگی کے اس کے بلکل پاس کسی کی سانس لینے کی وازیں آنے لگی سانس اتنی تیز تھی کے اس کے ساتھ ہی اس کے سر کے بال ہوا میں اڑنے لگتے اور ایک دم اسنے پیچھے مڑ کے دیکھا اور اسے اپنی سانس بند ہوتی محسوس ہونے لگی،

سیرت نے جیسے ہی پیچھے مڑ کے دیکھا تو خوف سے اس کی سانس ہی اٹک گئی اس کے پیچھے ایک عجیب مخلوق کھڑی تھی اس کا جسم بھینس کی طرح تھا اور بلکل کالا آنکھیں اتنی بڑی بڑی تھی کے پورے چہرے پہ آنکھیں ہی تھی زبان زمین پہ لٹک رہی تھی اور اس نے ایک انسانی سر منہ میں لیا ہوا تھا اور وہ اسے چبا رہا تھا جس سے ہڈیاں ٹوٹنے کی کھڑ کھڑ کی آوازیں آرہی تھی سیرت نے خوف سے اپنی سانس روکی ہوئی تھی 

اچانک اس بلا نے وہ سر دور پھینک دیا اور ایک چیخ ماری اس کی آواز اتنی خوفناک اور بھاری تھی کے پورا غار ہلنے لگا وہ سیرت پہ جھپٹنے کے لئے جیسے ہی خود کو تیار کرنے لگا سیرت نے دوڑ لگا دی اور پیچھے دیکھے بنا دوڑتی رہی اور وہ بلا بھی خوفناک آوازیں نکالتے ہوئے اس کے پیچھے دوڑ رہی تھی پھر اچانک خاموشی چھا گئی،سیرت نے تھوڑا رک کے پیچھے دیکھا پر کوئی نہیں تھا اس نے سکون کا سانس لیا وہ ایسی جگہ آچکی تھی جس کے چارو طرف ویرانی ہی ویرانی تھی بدل چاند سے تھوڑے ہٹ گئے تو چاند کی روشنی میں ہر چیز صاف نظر آنے لگی اب نہ تو یہاں جنگل تھا اور نا پہاڑ اسی اچانک بچے کا خیال آیا جو اس نے اپنی کمر پہ باندھا ہوا تھا اس نے جلدی سے چادر کھولی اور بچے کو دیکھنے لگی بچے کا سر ایک طرف ڈھلکا ہوا تھا اس نے بچے کو ہلایا آواز دی پر بچہ ویسے کا ویسا ہی تھا سیرت کو تشویش ہونے لگی اس نے بچے کے سینے پہ سر رکھ کے اس کی دھڑکن محسوس کرنے کی کوشش کی پر بچے کا دل بھی نہیں دھڑک رہا تھا اس نے بچے کو گود میں لٹایا اور بیٹھ گئی 

اسے روتے روتے بہت ٹائیم ہو گیا تھا اب ہلکی ہلکی روشنی پھیلنے والی تھی اس نے پھر بچے کو ہلا جلا کے چیک کیا پر اب بچہ ٹھنڈا پڑ چکا تھا اب اسے یقین ہونے لگا کے بچہ مر گیا ہے۔ پھر اس نے ایک چادر میں بچے کو لپیٹا اور اسے زمین پہ لٹا کے خود ایک گڑھا کھودنے لگی ساتھ میں روتی بھی جا رہی تھی جب اس نے ایک بڑا سا گڑھا کھودا تو بچے کو اٹھایا اس کا منہ چوم کے کہنے لگی مجھے معاف کر دینا میں تمہارا خیال نہیں رکھ پائی پھر بچے کو اس قبر نما گڑھے میں رکھ کے اس کے اپر مٹی ڈال دی اب وہ مردہ قدموں سے ایک جانب چلنے لگی کچھ دیر ہی چلی ہوگی کے اسے بہت سارے لوگوں کی آوازیں آنے لگی وہ لوگ کوئی عجیب جنگلی زبان میں بات کر رہے تھے 

سیرت رک گئی سوچنے لگی کاش کوئی ہو جو مجھے بھی مار دے اس زندگی سے اب موت ہی بہتر ہے اتنے میں بہت سارے لوگ سیرت کے گرد دائرہ ڈال کےکھڑے ہو گئے اور ایک آدمی جس کا جسم بہت بڑا اور موٹا تھا وہ اگے بڑھ کے سیرت کو اٹھا کے کندھے پہ ڈال کے چلنے لگا اور باقی لوگ پیچھے اپنی زبان میں کچھ گاتے ہوئے آنے لگے سیرت اسی ٹیم بیہوش ہو چکی تھی جب اسے ہوش آیا تو وہ ایک جھونپڑے میں پڑی ہوئی تھی جھونپڑے سے لگ رہا تھا کے یہ کسی شکاری کا ہے دیواروں پہ جانوروں کی تصویریں لگی ہوئی تھی باہر سے ڈھول بجنے کی آوازیں آرہی تھی جیسے بہت سارے لوگ ڈھول بجا رہے ہوں اور ساتھ میں گانے بھی گا رہے تھے سیرت اپنی جگہ سے اٹھی اور باہر دیکھنے لگی باہر شاید کسی کی شادی تھی کوئی سب لوگ ناچ رہے تھے اور کچھ لوگ بہت بڑے بڑے دیگچوں میں کھانا بنا رہے تھے اتنے میں آہٹ ہوئی تو سیرت جلدی سے اپنی جگہ پہ واپس آگئی ایک موٹی اور کالی عورت اندر آئ اس کے ہاتھ میں کھانے کی چیزیں تھی جو اس نے پتوں کے پلیٹ بنا کے اس پہ رکھی ہوئی تھی وہ اس نے سیرت کے آگے رکھ دی اور اپنی زبان میں کچھ باتیں کی جو کے سیرت کی سمجھ میں تو بلکل بھی نہیں آئ اور وہ واپس باہر چلی گئی

 سیرت کو بہت بھوک لگ رہی تھی کھانا بلکل گرم تھا اور اس سے بہت ہی مزے کی خوشبو آرہی تھی اس نے کھانا خوب پیٹ بھر کے کھایا کے اگے دیکھیں گے کیا ہوتا ہے پہلے جسم میں توانائی تو آئ جب اس نے کھانا کھایا تو ایک عورت ای اور برتن اٹھا کے لے گئی تھوڑی دیر بعد ایک لڑکی آئ یہ بھی بلکل کالی تھی بلکل پتلی سی جس نے لباس بھی عجیب پہنا تھا اس کے ہاتھ میں ایک گلاس تھا اور یہ شاید کوئی مشروب تھا اس نے گلاس سیرت کو دیا سیرت نے اس سے لے لیا وہ مشروب کوئی گرم چیز تھی جس سے بہت ہی اچھی خوشبو آرہی تھی یہ شاید ان کی چاۓ تھی سیرت نے وہ چاۓ پہ تو اسے ایک سکون آنے لگا ایسا لگا کے جیسے جسم کی ساری تھکاوٹ ختم ہو گئی ہو اور وہ خود کو ریلیکس محسوس کرنے لگی اتنے میں ایک لڑکی آئ اس کے ہاتھ میں ایک تھال تھی جس پہ کپڑا پڑا ہوا تھا اس نے وہ تھال سیرت کو دی اور کچھ کہ کے باہر چلی گئی 

سیرت نے تھال سے کپڑا ہٹایا تو اس میں ایک قیمتی پرانے زمانے کا سوٹ پڑا تھا اور کچھ زیورات تھے سیرت حیران ہوئی میں اس کا کیا کروں تھوڑی دیر بعد پھر وہ لڑکی آئ اب ساتھ میں کچھ اور عورتیں بھی تھی وہ سیرت کو اشاروں میں کہنے لگی کے یہ سب پہن لو سیرت نے کہا کے کیوں میں کیوں آخر یہ سب پہنو تو عورتیں اب خود اگے آئی اور سیرت کے کپڑے بدلنے لگی سیرت نے کہا مجھے ہاتھ مت لگاؤ میں خود پہن رہی ہوں وہ دل میں سوچ رہی تھی کے اب یہ کونسی نئی مصیبت ہے اللّه پھر وہ عورتیں واپس باہر گئی سیرت نے وہ عجیب کپڑے پہنے پر زیورات کو ہاتھ بھی نا لگایا وہ عورتیں آئ تو وہ زبردستی اسے سب پہنانے لگی پھر سب پہنا کے اسے باہر لے جانے لگی باہر لیجا کے اسے ایک کرسی پہ بٹھایا اور ساتھ والی کرسی پہ ایک بہت ہی کالا اور لمبا سا آدمی بیٹھا تھا باقی لوگ اس کے قدمو میں بیٹھے تھے اس آدمی کے سر پہ سونے کا تاج پڑا تھا اور پھر کچھ ایسا ہونے لگا کے جس نے سیرت کے ہوش اڑا دیے اس آدمی کے ساتھ سیرت کی شادی کروائی جا رہی تھی جو کے اس قبیلے کا سردار تھا،

سیرت کو بٹھانے کے بعد اب ان کے سامنے لڑکیوں کا رقص شروع ہوا وہ گول دائرے میں تھرکتے ہوئے رقص کر رہی تھی چارو طرف ڈھول کی آواز گونج رہی تھی اور سیرت سردار شامبو کے ساتھ مور کے پنکھ سے بنی کرسی پہ حیران اور پریشان بیٹھی ہوئی تھی اتنے میں سردار نے ہاتھ اٹھا کے خاموش رہنے کو کہا اور جہاں اب تک ایک شور برپا تھا اب ایسی خاموشی چھا گئی کے جیسے لوگ مجسمے بن گئے ہوں سردار نے گرجدار آواز میں کچھ کہا جو کے سیرت کی سمجھ سے باہر تھا پھر اس نے لوگوں کو کچھ باتیں کی اور وہاں سے چلا گیا سیرت سوچنے لگی کے نجانے اس نے ایسا کیا کہا ہوگا پھر کچھ عورتیں آئ اور سیرت کو ایک خوبصورت جھونپڑے میں لیکے گئی یہ جگہ بہت خوبصورتی سے سجای گئی تھی بستر کسی پرندے کے نازک پروں سے بنایا گیا تھا جو کے بہت ہی نرم اور خوبصورت تھا اب وہ سوچے جا رہی تھی کے اس بلا سے اب جان کیسے چھوٹے گی باہر اب مکمل خاموشی چھائ ہوئی تھی 

شاید سب لوگ اپنے اپنے جھونپڑوں میں چلے گئے تھے سیرت دھیرے سے اٹھی اور پردہ ہٹا کے باہر دیکھنے لگی یہاں چارو طرف جھونپڑیاں بنی ہوئی تھی، وہ واپس آئ اور جو زیور پہنا تھا سب اتار دیا اب وہ خود کو ہلکا محسوس کرنے لگی تھی پھر وہ دھیرے سے باہر نکل گئی اور سر پٹ دوڑنے لگی دوڑتے دوڑتے ایک دم کسی نے اس کا ہاتھ پکڑا وہ چلّا نے لگی چھوڑ دو مجھے وہ جو بھی تھا اس نے سیرت کے منہ پہ ہاتھ رکھ دیا اور کہا پلیز شور مت کریں آپ ورنہ اگر کسی کو پتہ چلا کے آپ بھاگ رہی تھی تو یہ لوگ آپ کو زندہ نہیں چھوڑیں گے یہ ہی قانون ہے اس بستی کا یہاں کے سردار کا اور آپ کی شادی ہوئی ہے سردار سے تو یہ لوگ آپ کو ہرگز بھی یہاں سے جانے نہیں دیں گے سیرت نے اس آدمی کو اپنی طرح بات کرتے ہوئے دیکھا تو اسے حیرت ہوئی کے یہ کون ہے کیا یہ بھی میری طرح یہاں پھنس گیا ہے پھر سیرت نے دھیرے سے اس کا ہاتھ اپنے منہ سے ہٹایا اور کہا آپ کون ہیں آپ تو میری طرح بات کرتے ہیں کیا آپ بھی میری طرح یہاں زبردستی لاۓ گئے ہیں تو اس آدمی نے کہا آؤ وہاں بیٹھ کے بات کرتے ہیں،وہ لوگ تھوڑی روشنی میں آیے تو سیرت نے اس کی طرف دیکھا وہ ایک خوبصورت لڑکا تھا پھر اس لڑکے نے کہا کے میرا نام احمد ہے مجھے جنگل میں شکار کا بہت شوق تھا میں اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ یہاں آیا تھا شکار کرتے کرتے ہم یہاں آنکلے پھر کچھ لوگ ہمیں پکڑ کر سردار کے پاس لیکے آے آپ کو پتہ ہے سردار کی ایک بہن بھی ہے جب اس نے مجھے دیکھا تو سردار سے کچھ کہا اور پھر آپ کی طرح میری بھی شادی زبردستی شامبو سردار کی بہن سے کر دی گئی میں بھی بہت بار بھاگا اور مجھے پھر سے پکڑ کر یہاں لایا گیا یہاں سے بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں ہے

 سیرت سر پکڑ کر بیٹھ گئی کے اب کیا ہوگا احمد نے پھر کہنا شروع رک کیا کہا کے آپ ڈرو نہیں یہ لوگ آپ کا بہت خیال رکھیں گے سیرت نے جلدی سے کہا اور وہ سردار احمد نے کہا آپ فکر مت کرو وہ آپ کے کمرے میں نہیں آیے گا وہ رہے گا اپنی یہاں والی بیوی کے ساتھ بس آپ اس کے نام پہ یہاں حفاظت سے رہو گی اور ایک خطرناک بات اگر سردار کو کچھ ہوا وہ مر گیا تو اس کی بیویاں زندہ دفنائ جاۓ گی اس کے ساتھ یہ یہاں کا قانون ہے بیوی مرتی ہے تو شوہر کو زندہ دفنایا جاتا ہے اس کے ساتھ اور اگر شوہر مرتا ہے تو بیوی کو ساتھ دفناتے ہیں 

 ۔سیرت نے خوف سے جھر جھری لی یہ کیسا انصاف ہے ان کو روکنے والا کوئی نہیں ہے کیا احمد نے کہا نہیں یہ قانون شروع سے ہی چلا آرہا ہے ان میں پھر اس نے سیرت سے کہا کے تم اب جاؤ کسی کو پتہ نا چلے کے تم بھاگی تھی پھر ہم دونوں مل کے یہاں سے بھاگنے کا کوئی نا کوئی راستہ نکال لیں گے

 سیرت واپس اپنی جگہ پہ آگئی اور احمد بھی چلا گیا سیرت لیٹ گئی اور تھوڑی دیر میں سو گئی صبح اس کی آنکھ شور سے کھلی وہ جلدی سے باہر آئ ایک جھونپڑے میں لوگ جمع تھے سیرت بھی گئی دیکھا تو ایک لڑکی لیٹی ہوئی تھی جو کے بیمار لگ رہی تھی اور اس کے سر کے پاس سردار بیٹھا ہوا تھا اور دوسری سائیڈ پہ احمد کھڑا تھا سیرت کو سمجھنے میں دیر نہیں لگی کے یہ سردار کی بہن ہے اور شاید بیمار ہے اور کوئی اسے لیپ کر رہا تھا جڑی بوٹیوں سے لوگ اداس کھڑے تھے احمد بھی اداس تھا پھر سیرت اپنے جھونپڑے میں واپس آئ اور سوچنے لگی کے اگر سردار کی بہن کو کچھ ہوا تو کیا احمد بھی اور اتنا سوچتے ہی وہ اگے نہیں سوچ سکی خوف سے سیرت کا رنگ پیلا پڑ گیا شام ہوئی سب لوگ اپنے اپنے گھر گئے تو احمد آیا وہ بہت اداس تھا سیرت نے کہا کے کیا ہوا ہے آپ کی بیوی کو تو احمد نے کہا کے وہ شروع سے ہی بیمار ہے شاید کوئی بیماری ہے اسے پر اب اس کے بچنے کے چانسسز بہت کم ہیں بہت بیمار ہے وہ سیرت کو بہت دکھ ہوا پھر دونوں نے تھوڑی دیر بات کی اور احمد اداس اداس چلا گیا وہ رات کا پتہ نہیں کونسا پہر تھا کے چیخنے کی آوازیں آنے لگی 

سیرت ایک دم بستر سے اٹھی اور باہر آئ کیا دیکھتی ہے کے لوگ اسی جھونپڑی کے پاس جمع ہو کے رو رہے ہیں جس میں اس نے سردار کی بہن کو دیکھا تھا وہ دوڑ کے اندر گئی اور اندر کے منظر نے سیرت کے ہوش اڑا دیے،


ایک لڑکی کا خوفناک سفر (چوتھا حصہ)


تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں


Urdu Stories Keywords

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories for adults only, Urdu stories
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں