اک لڑکی کا خوفناک سفر (چوتھا حصہ)

Urdu Stories

ایک لڑکی کی دل دہلا دینے والی کہانی

سیرت نے اندر جا کے دیکھا تو سردار کی بہن کی لاش پڑی تھی اور سب لوگ اس کے گرد بیٹھ کے بین کر رہے تھے سردار بھی افسردا بیٹھا ہوا تھا اور احمد کی تو حالت ایسی تھی کے کاٹو تو خون نہیں 

وہ بہت اجڑی حالت میں تھا کیوں کے اس لڑکی کے ساتھ اس کا بھی جنازہ نکلنے والا تھا سیرت کو اس پہ بہت ترس آیا اور اب تو سیرت کو اپنی بھی فکر ہونے لگی تھی کے میرا کیا ہوگا احمد ہی تو تھا جس سے سیرت بات کر سکتی تھی اب تو وہ بھی نہیں رہے گا اس کا یار سہارا بھی ختم ہونے والا تھا سیرت کے آنکھوں میں آنسو آگئے پھر اس نے دھیرے سے احمد کو اشارہ کیا اور خود باہر نکل گئی تھوڑی دیر میں احمد باہر آیا تو سیرت نے جلدی سے کہا چلو احمد بھاگ جاتے ہیں ایسی خوفناک موت سے تو اچھا ہے کے یہ لوگ ہمیں پکڑ کر وہی پہ مار ڈالے،

احمد نے اداس نظروں سے سیرت کو دیکھا اور کہا یہاں سے باہر کوئی پرندہ بھی نہیں نکل سکتا سردار کی اجازت کے بغیر چارو طرف لوگ پہرا دے رہے ہیں اور مجھ پہ تو سب کی نظریں ہیں پھر اس نے کہا سیرت شاید اللّه نے میری اتنی ہی زندگی لکھی تھی بس اب جو ہوگا اللّه کی طرف سے ہوگا اور پھر وہ وہاں سے چلا گیا اور سیرت اسے جاتا ہوا دیکھتی رہ گئی کے اتنی ہمّت تھی اس لڑکے میں جو موت کو بھی گلے لگا رہا تھا کے اس میں اللّه کی مرضی ہوگی سیرت واپس اپنے جھونپڑے میں آگئی اب تو اسے بہت خوف محسوس ہونے لگا تھا کے نجانے یہ لوگ اب احمد کے ساتھ کیا کریں گے اتنے میں صبح کی روشنی پھیلنے لگی باہر سے اب بھی رونے کی آوازیں آرہی تھی 

سیرت بھی اٹھی اور باہر دیکھنے لگی کے نا جانے کیا ہونے والا ہے اب،،
باہر کچھ لوگ احمد کو کسی دولہے کی طرح سجا رہے تھے اور احمد کسی زندہ لاش کی طرح خاموش بیٹھا ہوا تھا،،

سیرت نے سوچا کے کاش احمد بھاگ جاتا تو اس کی زندگی شاید بچ جاتی،
وہ بس افسوس ہی کر سکتی تھی اور کچھ نہیں کیوں کے ان لوگوں میں اور جانوروں میں کوئی فرق نہیں تھا سیرت کو ان لوگوں سے بہت ڈر لگ رہا تھا
پھر اس نے دیکھا کے لوگ بہت بڑے بڑے ٹوکرے اٹھا کے لیکے جا رہے ہیں جس میں خشک میواجات بھی ہیں پھل اور نجانے کیا کیا تھا جو وہ لوگ لیکے جا رہے تھے  پھر لاش لائی گئی اس کے گلے میں بہت سارا سونا اور دیگر زیورات ڈالے گئے اور پھر احمد کو بھی لایا گیا اور سب لوگ انھیں کہیں لیجانے لگے بستی کے سب چھوٹے بڑے ساتھ تھے سیرت بھی ساتھ چلنے لگی کے دیکھوں میں بھی آخر یہ ہو کیا رہا ہے چلتے چلتے ایک پہاڑی راستہ آیا اور اس پہ سب لوگ موڑ گئے آگے ایک بہت بڑا میدان تھا جس میں عجیب طرح کی قبریں بنی ہوئی تھی ایک جگا سب رک گئے سیرت نے دیکھا کے ایک بہت ہی خوفناک گڑھا کھودا ہوا ہے جس کی گہرائی بہت زیادہ تھی اندر صرف اندھیرا ہی نظر آرہا تھا

 سیرت کو خوف سے جھر جھری انے لگی پھر اس گڑھے میں وہ لاش پھینکی گئی اور اس کے بعد رسیوں سے وہ سارا سامان نیچے اتارا گیا جس میں پھل اور میواجات شامل تھے پھر احمد کو لایا گیا جو کے اب شاید بیہوش ہو چکا تھا خوف سے،
پھر ان جنگلیوں نے احمد کو رسیوں سے بندھا اور نیچے اس خوفناک گڑھے میں اتارا پھر اپر سے ان لوگوں نے بہت ساری لکڑیاں رکھ دی اور اپر سے مٹی ڈالنے لگے اتنی دیر میں شاید احمد کو ہوش آگیا تھا اور اس کی خوفناک چیخیں اس گڑھے سے آنے لگی یہ سب دیکھ کے سیرت خوف سے بیہوش ہو گئی آگے کیا ہوا اس سب سے سیرت بیگانہ ہو چکی تھی،

ہوش آیا تو اس نے خود کو اسی جھونپڑی میں پایا جہاں پہلے وہ تھی اور پھر وہ سب یاد آیا تو سیرت خوف سے چیخنے لگی اور بھاگنے لگی وہاں جنگلی عورتوں نے اسے پکڑا اور پھر سے اسے اندر لیکے گئی رو رو کے جب اس کا دل ہلکا ہوا تو اسے احمد کی خوفناک موت پھر سے یاد انے لگی اور پھر بخار سے وہ پھر بیہوش ہو گئی اب جب ہوش آیا تو اس کی جھونپڑی میں بہت سارے لوگ کھڑے تھے سردار بھی تھا اور وہ لوگوں کو کچھ کہ رہا تھا کچھ عورتیں اس کے ہاتھ پاؤں پہ کوئی جڑی بوٹیاں لگا رہی تھی اسے ہوش میں آتا دیکھ کے سردار نے ایک عورت سے کچھ کہا اور وہ باہر نکل گئی تھوڑی دیر بعد آیی تو اس کے ہاتھ میں ایک مٹی کا پیالہ تھا جس میں شاید کوئی کاڑا تھا جو وہ سیرت کے پاس لائی اور اسے پینے کو کہا سیرت نے وہ لیا اور آہستہ آہستہ پینے لگی پھر کچھ ہی دیر میں اس کی طبیعت ٹھیک ہونے لگی ایک عورت بار بار اس کا بخار چیک کرتی رہی اب بخار کچھ کم تھا تو ایک لڑکی اس کے پاس رک گئی اور باقی سب باہر نکل گئے وہ لڑکی اب اس سے پوچھ رہی تھی کیا میں کچھ کھانے کو لاؤں تمہارے لئے سیرت نے نفی میں سر ہلایا اور وہ لڑکی وہی پہ بیٹھ گئی سیرت کے ساتھ اب رات ہو گئی تھی اور اس کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں تھی تو وہ دوبارہ ہی سو گئی پھر وہ پوری رات سوتی گئی اور پھر صبح وہ فریش ہوکے اٹھی لڑکی اب بھی اس کے ساتھ تھی

 سیرت جیسے ہی اٹھی وہ لڑکی باہر نکل گئی اور تھوڑی دیر بعد آئ تو کچھ عورتیں ساتھ ای اس کے جس نے ہاتھوں میں کھانے کی چیزیں پکڑی ہوئی تھی وہ سیرت کے آگے رکھی سیرت نے کھانے کی طرف دیکھا جس میں ہر طرح کے پرندوں کا گوشت بھونا ہوا پڑا تھا اور کچھ مشروب بھی تھے سیرت نے 2 دن سے کچھ نہیں کھایا تھا پھر وہ کھانا کھانے لگی جو کے بہت ہی مزے کا تھا اور اسی طرح کچھ دن اور گزر گئے وہ لوگ اس کا ہر طرح سے خیال رکھ رہے تھے ،

پھر ایک رات وہ سوئی ہوئی تھی کے باہر سے بہت زیادہ شور کی آوازیں آنے لگی اور لوگ ہر طرف دوڑ رہے تھے سیرت جلدی سے باہر آئ اور لوگوں کو دیکھنے لگی جو کے ایک دوسرے سے کچھ بول رہے تھے اور سب کے چہروں پہ ایک خوف تھا اور سارے سردار کی جھونپڑی کے اگے جمع ہوئے تھے سیرت بھی دیکھنے گئی کے آخر ہوا کیا ہے اندر کا منظر اس کے لئے موت کا پیغام تھا،

سیرت سردار کی جھونپڑی میں گئی تو دیکھا کے سردار کو سانپ نے کاٹا ہے اور وہاں پہ کافی بھیڑ لگی ہوئی تھی ہر کوئی سردار پہ اپنے ٹوٹکے آزما رہا تھا اور ان میں سانپ پکڑنے والے جوگی بھی تھے جو زہر نکالنے کی کوشش کر رہے تھے پر شاید دیر ہو چکی تھی کیوں کے سردار کا سارا جسم نیلا پڑنے لگا تھا اور اس پہ بیہوشی طاری ہو رہی تھی سب لوگ اداس تھے کے اچانک یہ کیا آفت آگئی ان کے قبیلے پہ پہلے سردار کی بہن مر گئی اور اب سردار موت کے منہ میں جا رہا تھا اور کوئی کچھ نہیں کرپا رہا تھا اب شاید سردار کے پاس وقت کم تھا اس لئے اس نے اپنے سر سے تاج اتارا اور پاس کھڑے اپنے بھائی کے سر پہ رکھ دیا تاج رکھتے ہی سارے لوگ سردار کے بھائی کے پیروں میں گر کر اسے سجدہ کرنے لگے سیرت نے کہا اچھا ہو جو یہ سردا مر جائے پھر شاید یہ لوگ مجھے بھی آزاد کریں پر سیرت کو اپنے آنے والے خوفناک وقت کا نہیں تھا پتہ،
پتہ ہوتا تو وہ ہرگز سردار کے موت کی دعا نہیں کرتی،

کچھ ہی دیر بعد سردار کے جسم نے کچھ جھٹکے کھایے اور پھر منہ سے جھاگ بہنے لگی اور پھر سردار بھی مر گیا اب پھر وہی ماحول تھا جو کچھ دنوں پہلے تھا ویسی ہی تیاریاں ہو رہی تھی پھر سردار کی بیوی کو لوگ سجانے لگی سیرت یہ سب دیکھ رہی تھی اسے ذرا بھی دکھ نہیں تھا کے سردار مر گیا جو ان لوگوں نے احمد کے ساتھ کیا تھا ان کے ساتھ اس سے بھی برا ہوتا تو سیرت خوش ہوتی وہ یہ سب سوچ ہی رہی تھی کے کچھ عورتیں آئ اور سیرت کو اپنے ساتھ لیجانے لگی سیرت نے خود کو چھڑانے کے لئے بہت ہاتھ پاؤں میرے لیکن وہ عورتیں تو ایسا لگتا تھا کے پتھر سے بنی ہو اتنی سخت اور مظبوط جسم کی مالک تھی پھر وہ لوگ سیرت کو سجانے لگی سیرت نے کہا مجھے چھوڑ دو مجھے کیوں سجا رہی ہو پر اس کی باتوں پر کسی نے بھی کان نہیں دھرے اور پھر سیرت کو دلہن کی طرح سجایا گیا اب تو خوف سے سیرت کا پورا وجود کانپ رہا تھا اور وہ چیخ چیخ کے بھی تھک گئی تھی پر کسی نے بھی اس پہ رحم نہیں کیا اور پھر اسی راستے پہ لوگ جانے لگے جہاں پہلے سیرت گئی تھی

 ان کے ساتھ اور پھر ایک جگہ یہ لوگ رک گئے اگے وہی میدان تھا اور اسی پہلے والے گڑھے کے ساتھ دوسرا گڑھا تیار تھا اس سے بھی گہرا اور اس سے بھی زیادہ خوفناک پھر جیسے ہی سردار کو اس میں پھینکا گیا اور ساتھ میں اس کی بیوی کو بھی اسی وقت سیرت بہت زیادہ خوف سے بیہوش ہوگئی اور پھر ہوش میں آئ تو پورا جسم درد کر رہا تھا ایسا لگ رہا تھا کے جیسے کسی نے اسے انچائ سے پھینکا ہواس سے ہلا بھی نہیں جا رہا تھا پھر ایسے ہی کافی دیر پڑی رہی۔ پھر آہستہ آہستہ اس نے آنکھیں کھولی لیکن یہاں تو ایسا اندھیرا تھا کے سیرت کو اندازہ لگانا مشکل ہو رہا تھا کے وہ کہاں ہے پھر اس سے اپنا جسم ہلانے کی کوشش کی تو پورے جسم میں درد کی لہرے اٹھنے لگی ہاتھ پاؤں ہلایے ہاتھ پاؤں ہل تو رہے تھے لیکن درد تھا بہت پھر اسے احساس ہوا کے وہ کچی اور ٹھنڈی زمین پہ پڑی ہے اور پھر اچانک اسے سب یاد آنے لگا کے کیسے سب مل کے اسے سجا رہے تھے اور پھر گڑھے کے پاس لایے تھے اسے،

پھر وہ بیہوش ہو گئی تھی ایک دم سیرت خوف سے کانپ گئی تو کیا وہ قبر میں تھی اس وقت اور پھر یہ سوچ آتے ہی وہ درد کی پرواہ نا کرتے ہویے بیٹھ گئی اور چارو طرف ہاتھ مار کے چیخنے لگی پر اس کی آواز کوئی نہیں سننے والا تھا یہاں
سیرت کی طرح بہت لوگ ایسے ہی چیخے ہوں گے پر یہ آواز تو زمین کے اپر پوھنچ ہی نہیں سکتی تھی کیوں کے وہ اتنی گہرائی میں پڑی تھی پھر اس نے کھڑے ہونے کی کوشش کی اور کھڑی ہو گئی

پر یہاں تو صرف دیواریں ہی دیواریں تھی پھر وہ نیچے بیٹھ گئی اور زمین پہ ہاتھ مارنے لگی پھر اس کے ہاتھ کچھ لگا اور یہ شاید ٹارچ تھی اس سے ٹارچ روشن کی تو اس کی چیخیں نکل گئی اس کے پاس ہی سردار کی لاش پڑی تھی اور اس کے اپر اس کی بیوی پڑی تھی جس کے منہ اور کانوں سے خون بہ رہا تھا سیرت نے اس کی نبض چیک کی پر کوئی حرکت نہیں تھی وہ شاید خوف سے مرچکی تھی سیرت نے سوچا کاش میں بھی مر گئی ہوتی تڑپ تڑپ کے مرنا تو ہے ہی پہلے ہی مرتی تو اچھا تھا اب اسے ان دو لاشوں سے بہت خوف آرہا تھا جو منہ اور آنکھیں کھولے پڑی تھی وہ اتنی ہی دیر ایسے بیٹھی رہی کے اسے اندر سے کھر کھر کی آوازیں آنے لگی جیسے دوسری طرف کوئی ہل چل ہو رہی ہو سیرت کو لگا کے شاید اس کا وہم ہے پر وہ وہم نہیں تھا آوازیں مسلسل آرہی تھی کسی دوسری قبر سے،

ایک لڑکی کا خوفناک سفر (پانچواں اور آخری حصہ)


تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں


Urdu Stories Keywords

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories for adults only, Urdu stories
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں