خونی شیطان (قسط نمبر5)

urdu stories
 

خونی شیطان (قسط نمبر5)

شام کے 8 بج رہے تھے سراج ابھی ابھی آفس سے گھر آیا تھا جیسے ہی وہ اندر آیا تو لاؤنج میں کسی اجنبی کو بیٹھا پایا ۔۔وہ ایک 31 32 برس کا خوش شکل نو جوان تھا انچا لمبا قد اچھے نین نقش اور گهنی مونچھیں ۔۔۔ساتھ ہی سدرہ بھی بیٹھی تھی۔
سراج کو دیکھ کر سدرہ خوشی سے بولی ۔۔۔

"لو یہ بھی آگۓ ۔۔یہ دیکھیں سراج آپ سے ملنے کون آیا ہے آپ کے دوست "
جب کہ سراج نے زندگی میں پہلی بار اس شخص کا چہرہ دیکھا تھا ۔سراج نے ایک گہری نظر اس کے چہرے پر ڈالی ۔۔اس نے بھی زو معنی نظروں سے سراج کو دیکھا تھا ۔

"اچھا میں چاۓ وغیرہ بهجواتی ہوں آپ لوگ بیٹھیں "
یہ بولتی سدرہ باورچی خانے کی طرف چل دی ۔۔
"ہیلو ! مسٹر سراج علی ذولفقار ۔۔"
سدرہ کے جانے کے بعد وہ شخص طنز بھرے انداز سے بولا ۔۔جب کہ سراج بنا کوئی جواب دیے اس کے سامنے موجود دوسرے صو فے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھ گیا

"کون ہو تم ؟"
سراج سامنے پڑے پھلوں میں سے ایک سیب اٹھا کر کھاتے ہوۓ اطمینان سے بولا ۔۔
"میں جو بھی ہوں اس بات کی فکر چھوڑو تم اپنی فکر کرو کیوں کہ اب تم زیادہ دیر تک قانون کے شکنجہ سے بچ نہیں پاؤ گے بائی دی وے مائی سیلف اے ۔سی ۔پی جواد ملک "۔۔۔
جواد ایک ہونہار اور بہادر پولیس افسر تھا تب ہی پولیس محکمہ نے یہ ذمہ داری اس کے ذمہ لگائی تھی ۔۔۔
وہ شادی شدہ اور دو بیٹیوں کا باپ تھا ۔۔
وہ سخت لہجے میں بولا ۔۔۔
"اوہ ہ ہ ۔۔۔۔۔میں ڈر گیا "
سراج مکاری سے بولا ۔۔۔

"ایک بار تمہارے خلاف ثبوت مل جانے دو پھر دیکھنا پھانسی کے پھنده ہو گا اور تمہاری گردن ۔۔۔۔جواد اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بولا ۔۔
"کیوں اپنے فالتو سے دماغ پر اتنا بوجھ ڈال رہے ہو تمہارے تو اچھے اچھے میرا کچھ نہ بگاڑ پاے تو تم کیا کر لو گے ۔۔"
سراج طنز یہ انداز سے بولا ۔۔۔جواد سراج کی بات اور انداز دیکھ کر غصے میں آچکا تھا
"کیوں تم سمجھتے کیا ہو خود کو آخر ہو کیا تم ہاں ؟"
جواد بولا ۔۔
"ایک خاموش حرامی ہوں میں "
یہ بول کر سراج نے ایک زور دار قہقہہ لگایا ۔۔۔جواد کو اس پل وہ کوئی انسان نہیں بلکہ بلکل درنده لگا ۔۔ وہ سراج کو نفرت سے دیکھتا رہا ۔۔۔
" تمہاری بھلائی کے لئے بتا دوں کہ مجھ سے دور ہی رہنا کیوں کہ میرا دماغی توازن درست نہیں ۔۔۔"

ہنستے ہنستے ہی سراج یک دم بلکل سنجیدہ ہوا اس کی آنکھیں سرخ ہونے لگی تھیں ۔۔
"تو تیار رہنا مسٹر ۔۔۔بہت جلد تمہارا دماغی توازن درست کرنے والا ہوں میں "
جواد نے اپنا جملہ مکمل کیا ہی تھا کہ سدرہ ملازمہ کے ساتھ وہاں آگئی اور کھانے پینے کی چیزیں میز پر سجانے لگی ۔۔۔
"یہ صاحب بڑی جلدی میں ہیں ۔۔۔۔چاۓ نہیں پئیں گے ۔۔"
سراج جواد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے طنز سے بولا تو جواد غصے سے اٹھ کھڑا ہوا اور باہر کو چل دیا ۔۔۔
"ارے چاۓ تو پی لیتے یہ اتنی بھی کیا جلدی تھی ۔۔۔"
جواد کے جانے کے بعد سدرہ بولی ۔۔
"کیا پتہ ۔۔۔۔۔"
یہ بولے سراج معنی خیز انداز سے مسکرا تا ہوا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔۔
 
رات کے دو بجے کا وقت ہو گا سردیوں کی راتیں تھیں. آج کی رات بھی کافی گہری اور تاریک تھی ۔ جیسے جیسے رات ہو رہی تھی ٹھنڈ میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا تھا ۔۔سدرہ صو فے پر گہری نیند سوئی ہوئی تھی جب کہ سراج بیڈ پر لیٹا تھا مگر وہ سویا نہیں تھا وہ جاگ رہا تھا ۔۔کمرے کی وہ بڑی کھڑکی جو لان میں کھلتی تھی ویسے تو وہ بند تھی مگر اس کے سامنے سے پردے ہٹے ہوۓ تھے جس میں سے باہر لان میں لگے درخت دکھائی دے رہے تھے اور ان کے ہلنے سے پتہ چلتا تھا کہ باہر ہوا کافی تیز چل رہی تھی اور باہر سے نیلی نیلی سی چاندنی اندر آرہی تھی ۔سراج و آنکھیں بند کئے لیٹا تھا ایک جھٹکے سے اس نے اپنی آنکھیں کھولیں تو اس کے چہرے پر ایک عجیب ہی مکروہ مسکراہٹ آ گئی ۔وہ اپنے بستر پر سے اٹھا اور سیدھا الماری کی طرف بڑھا الماری سے اس نے ایک کالی جیکٹ نکالی اور پہن لی اب واشروم کی طرف بڑھ گیا اور واش روم میں موجود وارڈ ڈروب کی ایک دراز کھولی اس میں سے سرخ لینس نکال کر اپنی آنکھوں میں لگائے اب چہرے پر ہوڈی ڈالتا وہ کمرے سے نکل گیا ۔۔۔

سدرہ کی آنکھ رات کے تیسرے پہر میں کھلی تھی جب اس نے بیڈ پر دیکھا تو سراج وہاں نہ تھا سراج کو نہ پا کر وہ بیحد فکر مند ہوگئی کیوں کہ لگ بھگ ہر رات ہی سراج نیند میں کچھ بڑبڑاتا تھا اس کے الفاظ تو سدرہ کو سمجھ نہ آتے مگر وہ امی ۔۔۔کا لفظ واضح بولتا تھا اور اس کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے وہ نیند میں ہی کافی تکلیف میں ہے ۔۔۔تب سدرہ اس کے بال پیار سے سہلاتی تو وہ پر سکون ہو جاتا ۔۔یہی وجہ تھی کہ آج سدرہ سراج کو بیڈ پر نہ پا کر بہت پریشان ہو گئی تھی.
وہ اٹھی اپنا دوپٹہ اوڑھا اور پیروں میں جوتی اڑساتی جلدی سے کمرے سے باہر آکر سراج کو تلاش کرنے لگی مگر اس کو سراج کہیں دکھائی نہ دیا ۔گھر میں ان دونوں کے علاوہ اور کوئی نہ تھا کچھ ملازمین کام ختم کر کہ اپنے اپنے گھر جا چکے تھے اور کچھ سرونٹ کوارٹر میں تھے جو گھر کے اس حصے سے کافی دور کر کہ تھا ۔۔
سدرہ سراج کو آوازیں دینے لگی ۔۔

مگر کوئی فائدہ نہ ہوا ۔۔اسی اثنا میں اس کو ایک درد ناک نسوانی چیخ سنائی دی ۔ چیخ کی آواز سنتے ہی سدرہ کے جسم میں سنسنی سی دوڑ گئی۔۔۔
"یہ کیا یہ کون چیخ رہا رات کے اس وقت ۔۔۔اور یہ آواز ۔۔۔یہ آواز تو نزدیک سے ہی آرہی ہے ۔۔۔"
وہ دل ہی دل میں سوچنے لگی ۔۔وہ یہ سوچ ہی رہی تھی کہ اس کو پھر سے کسی کے چیخنے کی آواز سنائی دی ۔۔۔اور اب تو چیخوں کی آواز مسلسل ہو گئی ۔۔۔سدرہ کو لگا جیسے یہ آواز گھر کے ہی کسی کونے سے آرہی ہے وہ ہمت کرتی آواز کے تعاقب میں چل پڑی اور چلتے چلتے ایک جگہ آرکی ۔۔۔اب وہ گھر کے تہہ خانے کے سامنے کھڑی تھی مگر اس نے آج سے پہلے گھر کا یہ حصہ نہ دیکھا تھا تہہ خانے کا دروازہ تھوڑا سا کھلا تھا ایک اور چیخ کی آواز اس گہرے سناٹے میں گونجی سدرہ کو خوف تو محسوس ہوا مگر کسی مصیبت زدہ کی مدد کر نے کا جذبہ اس کے خوف کو مات دے گیا وہ ایک بہت اچھی انسان تھی کسی کو تکلیف میں نہ دیکھ سکتی تھی اور ہمیشہ خود سے پہلے دوسروں کا سوچتی اس کے اسی جذبے کی طاقت اس کو تہہ خانے کے اندر قدم رکھنے پر مجبور کر رہی تھی ۔سدرہ نے دھیرے سے دروازہ کھولا تو اندر بہت اندھیرا تھا مگر پہلی دو سیڑھیوں پر باہر سے تھوڑی تھوڑی سی روشنی پڑ رہی تھی ۔سدرہ ہمت کرتی سیڑھیاں اترنے لگی اور اب وہ تہہ خانے کے بیچ و بیچ موجود تھی ۔۔اس سے پہلے سدرہ پوچھتی کہ کون ہے ؟ اس کو کچھ آوازیں سنائی دیں ۔۔تہہ خانہ کافی وسیع تھا چاروں طرف گهپ اندھیرا چھایا تھا ۔اس گھپ اندھیرے میں سدرہ کو ذرا دور سرخ روشنی دکھائی دی غور کرنے پر اس کو پتہ چلا کہ تہہ خانے کے اندر ہی ایک کمرہ اور موجود تھا جس کا دروازہ ذرا سا کھلا تھا اور یہ سرخ روشنی وہیں سے پھوٹ رہی تھی سدرہ کو عجیب سی وحشت کا احساس ہونے لگا تھا ۔
مگر وہ ہمت کرتی اگے بڑھی اور کمرے کے اندر جھانکا تو سامنے کا منظر دیکھ کر اس کے پیروں تلے سے زمین ہی کھسک گئی ۔۔کمرہ کافی بڑا تھا وہ باقاعدہ ایک خواب گاہ تھی ۔وہاں ایک گول بیڈ موجود تھا جو سرخ رنگ کاتھا اور اس پر کالی چادر بچھی تھی ۔باقی کا تمام فرنیچر بھی سرخ رنگ کا ہی تھا کمرے کی ساری دیواروں پر کالا رنگ کیا گیا تھا اور ان پر کچھ منہوس قسم کی پینٹنگز آویزاں تھیں ۔۔عجیب و غریب قسم کے شو پیسز سے آراستہ وہ کمرہ بہت ہی وحشت ناک تھا ۔مگر اس پل سدرہ کو کمرے کی سجاوٹ نے نہیں بلکہ کمرے کے اندر ہونے والے منظر نے حیران کر دیا تھا ۔نیچے زمین پر ایک لڑکی لیٹی تھی جس کے ہاتھ پیر اور منہ بندھے ہوۓ تھے..اس کے سامنے سراج بیٹھا تھا مگر سدرہ کی طرف اس کی پشت تھی اس وجہ سے سدرہ سراج کا چہرہ دیکھ نہ سکی۔ اس کو صرف وہ لڑکی دکھائی دے رہی تھی جو نیچے لیٹی دهاڑیں مار مار کر تکلیف سے روے جا رہی تھی ۔۔اس کا جسم جگہ جگہ سے بری طرح زخمی تھا اس کو دیکھ کر یوں لگتا جیسے کسی بھوکے شیر نے اس پر حملہ کیا ہو ۔۔سدرہ نے بغور اس لڑکی کا چہرہ دیکھا تو اس پر یہ انکشاف ہوا کہ وہ لڑکی تارہ تھی ۔۔سدرہ کا ذہن ماؤف ہو رہا تھا ۔۔
"مجھ مجھے ج جانے د دو ۔۔۔غ غلطی ہو گئی ت تھی مجھ سے ۔۔"
تارہ روتے ہوۓ گڑگڑائی ۔۔اس کی آنکھوں میں بلا کا خوف جهلک رہا تھا ۔۔۔
اس کی بات کے جواب میں سراج نے ایک زور دار قہقہہ لگایا ۔۔سدرہ نے اس کی دلکش آواز پہچان لی مگر اس کے لئے یقین کرنا بہت مشکل ہو رہا تھا ۔۔
" نہیں یہ سراج نہیں ہو سکتے "
وہ یہ سوچ ہی رہی تھی کہ سراج اپنی جگہ سے اٹھا اور تارہ کے گرد ایک چکر کاٹتے ہوۓ بولا ۔۔۔
"بیچاری ۔۔۔سراج علی ذولفقار سے پنگا لے بیٹھی ہاو سیڈ نہ ؟؟؟
تارہ پتہ ہے کیا تمہیاری قسمت میں بس زندگی کی 24 بہاریں ہی دیکھنا لکھا تھا۔۔
اوہ !
درد زیادہ ہو رہا ہے کیا میری جان "
وہ مکاری سے بولا ۔۔اب وہ گھوم کر دوسری طرف آچکا تھا اور اس نے اپنے چہرے پر سے ہوڈی ہٹا دی تھی تو سدرہ کو اس کا چہرہ صاف دکھائی دینے لگا ۔۔سراج کو دیکھ سدرہ نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی چیخ کو بڑی مشکل سے قابو کیا ۔۔وہ جس جگہ کھڑی تھی وہاں روشنی نہ تھی اس لئے اس جگہ سے سدرہ کو دیکھنا نہ ممکن تھا ۔۔مگر وہ وہاں کھڑی سب کچھ باآسانی دیکھ سکتی تھی..
اب سراج گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا ۔۔اور تارہ کا بازو پکڑتے ہوۓ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے غصے سے بولا ۔۔
"یہی ہاتھ اٹھایا تھا نہ تم نے مجھ پر ۔۔۔۔۔۔"
یہ بولتے سراج نے ایک جھٹکے سے تارہ کا بازو توڑ ڈالا ۔۔۔
تو تارہ کی ایک درد ناک چیخ سناٹے میں گونجی تھی ۔۔۔
"ششش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
شور مت کرو ۔۔۔۔مجھے شور پسند نہیں ۔۔۔"
سراج اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھتے سر گوشی سے بولا ۔۔۔
سدرہ درد کی شدت سے بری طرح تڑپ رہی تھی ۔۔۔۔
"ہا ہا ہا ہا ۔۔۔۔۔مجھ پر ہاتھ اٹھاۓ گی ۔۔۔۔تیرے باپ کا نوکر سمجھا ہے کیا جو تیرا تھپڑ برداشت کروں گا ۔۔۔۔"
تارہ سے کچھ بولا تک نہ جا رہا تھا..
"جان من۔۔
ہاتھ سوچ سمجھ کر اٹھانا چاہیے تھا نہ تمہیں۔۔ دیکھو نہ اب تو مجھے یہ ہاتھ توڑنا پڑا ۔۔۔"
سراج اس کو بالوں سے جکڑتے اس کا چہرہ بلکل اپنے چہرے کے نزدیک کرتے ہوۓ ڈرا مائی انداز سے بولا ۔۔
"نہیں ں ں ۔۔۔۔۔۔۔مجھ مجھ ے م ما ف ف ۔۔۔"
"نہ۔۔۔۔۔"
تارہ بڑی مشکل سے کچھ بولنے ہی لگی تھی کہ سراج نے اس کی بات کاٹی تھی ۔۔۔
" سراج کسی کو معافی کا موقع نہیں دیتا ۔۔
نووو ۔۔۔۔۔۔۔"
یہ بولتے سراج نے اس کی گردن پر اپنے دانت گاڑھ دیے اور کسی جنگلی جانور کی طرح اس کا خون چوسنے لگا ۔۔۔۔
یہ دیکھ سدرہ کی جان ہی نکل گئی سراج کو انسانی خون پیتا دیکھ سدرہ کا سر چکرا گیا اور اس نے ایک بار پھر اپنی چیخ کو بڑی مشکل سے روکا اور وہیں دیوار کا سہارا لیتی ہوئی بیٹھ گئی اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے تھے ۔۔اور سراج بڑے مزے سے تارہ کا خون پینے میں مگن تھا ۔۔پھر سراج نے زور سے اس کا سر پیچھے دھکیل دیا اتنی زور سے زمین سے ٹکرانے کی وجہ سے تارہ کا سر پھٹ گیا مگر اس میں اب چیخنے کی بھی سکت نہ رہی تھی۔۔سدرہ کو اس پل سراج بہت خوف ناک لگ رہا تھا ۔سرخ آنکھیں خون سے لت پت منہ اور آنکھوں میں عجیب بے رحمی واقعی کوئی بھی اس کو اس وقت دیکھ لیتا تو اس کا خوف زدہ ہونا واجب تھا ۔۔
تارہ شدید نقاہت سے بے جان ہو رہی تھی اب سراج چیختے دھاڑتے ہوۓ زور زور سے اس کی آنکھوں میں خنجر مارنے لگا ۔۔آنکھوں کے بعد پورے چہرے اور پھر پورے جسم پر ایسے ہی وار کرتا گیا۔طیش سے سراج کی ساری نسیں ابھر گئی تھیں ۔۔
اور اب حسب عادت وہ تارہ کے جسم کے زخمی حصوں میں اپنی انگلیاں گھسا تا اس کا گوشت نوچ نوچ کر کھانے لگا تارہ مر چکی تھی
"اہ مر گئی۔کیوں مری اتنی جلدی تم ۔۔۔میں مردار نہیں کھاتا جانتی نہیں کیا وہ بے جان تارہ سے مخاطب تھا پھر سراج ایک ادا سے اٹھا اور کمرے میں پڑی بڑی سی مگر عجیب و غریب قسم کی کرسی پر شاہی انداز سے بیٹھ گیا اور پاس پڑی چھوٹی سی میز پر سے اپنا کالا ہیٹ اٹھا کر ترچھے انداز سے سر پر رکھ لیا جو پہلے سے وہاں موجود تھا اور زور زور سے قہقہے لگانے لگا پھر اچانک ہی بلکل سنجیدہ ہوتا وہ اٹھا اور تارہ کا سر اپنے پیروں تلے کچلنے لگا ۔۔۔سدرہ مزید برداشت نہ کر سکی وہ منہ پر ہاتھ رکھے آہستہ آہستہ بنا کوئی آواز پیدا کئے وہاں سے نکل گئی ۔۔تہہ خانے سے نکلتے ہی اس نے اپنے کمرے کی طرف دوڑ لگا دی ۔۔اور کمرے میں آتے ہی اپنے منہ پر سے ہاتھ ہٹاتی وہ زور زور سے رونے لگی ۔۔جب کہ سراج وہیں موجود تارہ کی لاش کے سامنے کھڑا انگریزی گانے گنگنانے میں مصروف تھا ۔۔
سدرہ کافی دیر روتی رہی تھی ۔ اب اس نے میز پر پڑے جگ سے پانی گلاس میں انڈیلا اور ایک ہی سانس میں سارا پی گئی ۔
کچھ دیر بعد وہ اپنے حواس بحال کرنے میں کامیاب ہو گئی تو بیڈ پر اپنا سر پکڑے بیٹھ گئی ۔۔
"کیا تھا یہ سب ۔۔۔سراج ۔۔۔میں نے سراج کو کیا سمجھا اور وہ کیا نکلے ۔۔سراج کیسے کسی کی جان لے سکتے ہیں وہ بھی اس تارہ کی ! اس کا مطلب سراج اس سے محبت نہیں کرتے تھے ۔۔"
اس کے ذہن پر بہت سے سوالوں کا سمندر ٹوٹ پڑا تھا جن کے جواب اس کے پاس نہ تھے اس کا سر درد سے پھٹنے لگا تھا ۔وہ اٹھی اور منہ دھونے کی غرض سے واش روم کی طرف بڑھ گئی ۔۔وہ واش بیسن کے سامنے کھڑی منہ پر پانی کے چھیںٹے ڈال رہی تھی کہ اس کو کمرے کا دروازہ کھلنے کی آواز سنائی دی ۔
"سراج "
اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا خوف کی ایک لہر اس کے جسم میں دوڑ گئی تھی ۔۔۔واش روم سے نکلنے کی اس میں ہمت نہ ہو رہی تھی ۔۔مگر مرتی کیا نہ کرتی کہ تحت اس کو باہر آنا ہی پڑا ۔۔سراج سامنے بیڈ پر دراز تھا ۔
"کیا ہوا تم سوئی نہیں اب تک ؟"
سراج نے سوال کیا ۔۔
"و ۔۔وہ آنکھ کھل گئی تھی پھر نیند ہی نہیں آئی۔۔
آپ ک کدھر تھے ؟"
سدرہ نے رسمن پوچھا ۔۔۔
جب کہ سراج اس کی بات پر خاموشی سے چلتا اس کے نزدیک آنے لگا اور سدرہ خوف سے تھر تھر کانپنے لگی سراج اس کے بلکل نزدیک آچکا تھا ۔۔
"تمہیں پتہ تو ہے ہی کہ میں کدھر تھا تو پھر یہ سوال کیوں ؟"
وہ اپنی مخصوص سائیڈ سمائل دیتا سدرہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بولا ۔۔
سدرہ کا دل تو اچھل کر حلق میں ہی آ گیا تھا وہ اپنے اندر کے خوف پر قابو پاتے بولی ۔۔
"ارے ۔۔۔۔تم کیوں ڈر رہی ہو ؟
ٹینشن مت لو ۔۔تمہیں کچھ نہیں کہتا میں ۔۔"
سراج نہایت اطمینان سے بولا اور پلٹ کر الماری کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔اور الماری کھولے اس میں سے کپڑے نکال کر واش روم کی طرف بڑھ گیا ۔۔
"ان کو کیسے پتہ چلا "
اس کے جانے کی بعد سدرہ حیرت سے سوچنے لگی اور صوفے پر جا بیٹھی ایک بار پھر وہ پسینے سے بهیگ چکی تھی ۔۔
اس کو سراج کے ساتھ ایک ہی چھت کے نیچے رہنے سے بیحد خوف محسوس ہو رہا تھا مگر وہ اس وقت کچھ نہ کر سکتی تھی ۔۔۔
وہ انہیں سوچوں میں غلطاں تھی کے سراج واش روم سے باہر آیا ۔۔اس نے سفید رنگ کی شلوار قمیض زیب تن کر رکھی تھی ۔۔سدرہ کی نظر جب اس پر پڑی تو ایک پل کو تو وہ سارا خوف بھلا بیٹھی ۔۔سراج کو اس نے پہلی مرتبہ شلوار قمیض میں دیکھا تھا جو اس پر بہت سج رہی تھی اوپر سے اس کی کالی چمکتی آنکھیں اور پیشانی پر بکھرے گیلے گیلے سیاہ گھنے کالے بال اس کی خوبصورتی میں چار چاند لگا رہے تھے ۔۔مگر اگلے ہی پل سدرہ کو اس کا وہ بھیانک چہرہ یاد آگیا تو وہ جلدی سے كمبل منہ تک اوڑھے لیٹ گئی سراج بھی اپنے بیڈ پر جا لیٹا تھا ۔۔
سدرہ کو تو یقین ہی نہ ہو رہا تھا کہ جس انسان کے ساتھ وہ اتنے دنوں سے ایک ہی چھت تلے رہ رہی تھی وہ ایک آدم خور ہے ۔۔۔ وہ ساری رات اس نے خوف میں گزاری اور سو نہ سکی جب کہ سراج سکون سے سو چکا تھا ۔۔
اگلے دن سدرہ کی آنکھ دوپہر دس بجے کھلی اس کی فجر کی نماز بھی قضا ہو چکی تھی سراج آفس چلا گیا تھا۔۔۔ جب سدرہ اٹھی تو اس کو اپنا جسم بھاری بھاری سا محسوس ہو رہا تھا مگر وہ سب کچھ نظر انداز کرتی وضو کرنے چلی گئی اور پھر اپنی قضا نماز ادا کرنے لگی وہ نماز پڑھ چکی تو جائے نماز ایک طرف رکھتی وہ کمرے سے باہر نکل آئی ۔۔اس کو تیز بخار تھا اور یہ سب رات کے ہوۓ واقع کی وجہ سے تھا ۔۔سدرہ لاؤنج میں آکر بیٹھی تھی کہ رضیہ اس کے پاس آگئی ۔۔۔
"میڈم آپ کا ناشتہ لے آؤں ؟"
"نہیں مجھے بھوک نہیں اور جب چاہیے ہوگا تو میں خود لے لوں گی "۔۔
سدرہ بولی۔۔۔اتنے میں دروازے کی گھنٹی بجنے لگی۔۔۔اور کچھ ہی دیر میں جواد اندر آتا دکھائی دیا
"اسلام و علیکم ۔۔۔۔"
جواد نے سدرہ کو سلام کیا ۔۔
"جی وعلیکم اسلام آئیں بیٹھیں آپ "
سدرہ مشکل سے اٹھی اور جواد کو بیٹھنے کے لئے بولا ۔۔۔
"کیسی ہیں آپ ؟ کیا بات ہے چہرے سے آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی ؟"
جواد اس کے سامنے بیٹھتے ہوۓ بولا ۔۔۔
"وہ بس ذرا بخار ہے "
"همم اچھا ۔۔
آپ کے ہزبینڈ دکھائی نہیں دے رہے ؟"
"جی وہ آفس چلے گۓ ہیں کوئی کام تھا آپ کو ان سے ۔۔۔؟"
سدرہ بولی ۔۔۔۔
"کام تو بہت امپورٹنٹ پڑ چکا ہے مجھے ان سے ۔۔۔ویل ۔۔۔پھر آپ آرام کریں میں چلتا ہوں "
یہ بولتا وہ جانے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔سدرہ کا دل رات سے ہی بیحد بے چین تھا سراج کے بارے میں اس پر جو انکشاف ہوا تھا وہ برداشت کرنا اب اس کے لئے مشکل ہوتا جا رہا تھا ۔۔وہ کسی سے اپنے دل کا حال کہنا چاہتی تھی مگر کہتی بھی تو کس سے ۔۔! لیکن جواد کو دیکھ کر سدرہ کے ذہن میں ایک خیال آیا تھا کہ یہ تو سراج کے دوست ہیں تو شاید یہ بھی سب جانتے ہوں سراج کے بارے میں ۔۔یہ خیال آتے ہی سدرہ نے جواد کو پکارا ۔۔
"سنیں ؟؟"
جس پر جواد نے اس کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا ۔۔۔
جب وہ کچھ نہ بولی تو جواد خود ہی بول پڑا ۔۔
"جی ؟؟؟"
"ن نہیں کچھ نہیں "
سدرہ نے اپنا ارادہ بدلہ مگر جواد کا ماتھا ٹھنک چکا تھا وہ سدرہ کا چہرہ دیکھ کر اس کے اندر چلتی کیفیت کو کافی حد تک سمجھ گیا تھا آخر تو پولیس والا تھا ۔۔۔۔
"جو بھی بات ہے بول دیں "
وہ بیحد نرمی سے بولا تھا ۔اس کا لہجہ ایسا تھا کہ سدرہ کو اس سے بہت اپنایت سی محسوس ہوئی اور سدرہ نے ایک پل بھی سوچے سمجھے بنا رات جو کچھ بھی اس نے دیکھا سب کچھ جواد کے گوش گزار دیا ۔۔۔
جواد ساری بات خاموشی سے سنتا رہا جب وہ کہہ چکی تو وہ گویا ہوا ۔۔۔
"دیکھیں سب سے پہلے تو آپ ریلكس ہو جایں یہ لیں پانی پیئیں ۔۔۔۔"
جواد نے پاس پڑی میز سے پانی کا گلاس اٹھا کر سدرہ کی طرف بڑھایا ۔۔۔جس کو سدرہ نے اس کے ہاتھ سے تھام لیا ۔۔۔
"آپ کا نام کیا ہے ؟"
"سدرہ "
"همم تو سدرہ میری بات سنیں یہ جو کچھ بھی آپ نے مجھے بتایا میں یہ سب کچھ پہلے سے ہی جانتا ہوں ۔۔
میں سراج کا دوست ہونے کے ساتھ ساتھ ایک پولیس افسر بھی ہوں ۔۔۔اور ایک گنہگار کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالنا میرا سب سے اولین فرض ہے ۔۔۔مگر سراج بہت شا طر کھلاڑی ہے وہ بڑی ہی ہوشیاری سے سارے ثبوت مٹا ڈالتا ہے۔۔۔۔اس کو پکڑنے کے لئے مجھے آپ کی ضرورت پڑے گی ۔۔۔ آپ میری مدد کریں گی نہ ؟؟؟ ایک قاتل کو اس کے کئے کی سزا دلانے میں ۔۔۔؟اور یقین کریں اسی میں سراج کی بھی بھلائی ہے "
جواد کی بات پر سدرہ نے چونک کر اس کی طرف دیکھا تھا
"دیکھیں میں جانتا ہوں وہ آپ کے ہزبینڈ ہیں بٹ یو ار اے بریو گرل ۔۔۔۔آپ کو سلفش ہو کر نہیں سوچنا ہے ۔۔۔
اپنی بھوک مٹانے کو نہ جانے کتنے بے گناہوں کی جان لے چکا ہے وہ درندہ ۔۔۔"
جواد خلا میں گھورتے بولا اس کے آخری الفاظ میں سراج کے لئے بے انتہا نفرت تھی۔۔
بتائیں دیں گی نہ آپ میرا ساتھ ان معصوم لوگوں کو انصاف دلانے میں ۔۔۔۔؟؟؟
بولیں ؟؟؟؟ سدرہ یہ وقت سوچنے کا نہیں ہے یہ وقت صحیح اور غلط کے بیچ فیصلہ کرنے کا ہے ۔۔یہ حق کی لڑائی لڑنے کا ذمہ خدا نے آپ پر ڈالا ہے آپ کو برائی کے خلاف لڑنا ہی ہوگا ۔۔۔۔
تو بولیں کریں گی نہ آپ ؟؟؟"
وہ جوش سے بولا ۔۔
"ج جی ۔۔۔"
سدرہ نے اپنے دل پر پتھر رکھتے ہوۓ حامی بھر لی تھی ۔۔۔
"ویری گڈ ۔۔۔۔۔آپ سچ میں ایک بہت بہادر لڑکی ہیں "
وہ سدرہ کو سراہتے ہوۓ بولا ۔۔۔ آپ کو زیادہ کچھ نہیں کرنا بس جب بھی آپ اس کو دوبارہ یوں کسی کا قتل کرتے دیکھیں تو چھپ کے سے اس کی ویڈیو بنا نی ہے اور کچھ تصاویر اتارنی ہیں ۔۔۔اور یاد رہے یہ کام بہت احتیاط سے کرنا ہوگا کیوں کہ وہ بہت چالاک ہے بہت زیادہ ۔۔۔۔
اگر اس نے غلطی سے بھی آپ کو دیکھ لیا تو آپ کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے ۔۔۔سمجھ رہی ہیں نہ آپ میں کیا کہہ رہا ہوں ؟"
وہ سدرہ کو منصوبہ سمجھاتے ہوۓ پر امید لہجہ میں بولا ۔۔
"همم "
جب کہ سدرہ سر جھکاے بولی ۔۔۔اس کی آنکھیں نم ہو چکی تھیں ۔۔آخر کار اس نے سراج سے محبت کی تھی ۔۔۔
اور یہ سب کچھ کرنا اس کے لئے آسان نہ تھا مگر وہ ایسا نہ کرتی تو کئی بے گناہ مارے جانے تھے ۔۔۔تب ہی سدرہ کو یہ کرنا ہی تھا ۔۔۔
ٹھیک ہے میں چلتا ہوں ۔۔۔بیسٹ آف لک ۔۔"
یہ بولتا جواد وہاں سے چل دیا مگر سدرہ کی طبیعت مزید بگڑ چکی تھی ۔۔
***
جواد اور سدرہ کے منصوبہ کو بنائے آج پورے بارہ دن گزر چکے تھے سدرہ روز سراج پر نظر رکھتی مگر اس نے اس دن کے بعد سے ایسی کوئی حرکت دوبارہ نہ کی تھی وہ اپنے بستر پر سوتا اور وہیں سے صبح رات کا سویا اٹھتا ۔مگر آج پورے بارہ دن گزر جانے کے بعد آخر وہ دن آہی گیا جس کا سدرہ کو انتظار تھا ۔
سراج رات کے آخری پہر میں اپنے بستر سے اٹھا اور الماری سے کالی جیکٹ نکال کر پہنی پھر سرخ لینس لگاتا وہ کمرے سے نکل گیا ۔۔سدرہ جاگ ہی رہی تھی مگر سونے کی ادا کاری کر رہی تھی سراج کے جاتے ہی وہ بھی دھیرے سے اٹھ گئی اور پھر اپنا موبائل فون اٹھاتی (جو اس کو جواد نے اسی کام کے لئے دیا تھا اور اس میں اپنا نمبر بھی سیف کر دیا تھا) باہر کو چل دی ۔۔۔ سراج تہہ خانے کی طرف بڑھ گیا اور اسی دن والا تماشہ آج بھی دوہرا یا گیا تھا سدرہ نے بڑی ہمت کے ساتھ سارے مناظر کو اپنے موبائل فون کی مدد سے قید کر لیا۔ اس وقت وہ سراج کو اپنے محبوب شوہر کی نہیں بلکہ صرف ایک قاتل اور وحشی آدم خور کی نظر سے دیکھ رہی تھی۔۔۔اب سراج اس بندے کی لاش کے ٹکڑوں کو ایک بوری میں بند کرتا تہہ خانے سے باہر آنے لگا تو سدرہ چھپ گئی اس کے دل کی دھڑ کن بہت تیز تھی کسی بھی وقت سراج کی نظر اس پر پڑ سکتی تھی اور سراج کی اس پر نظر پڑنا مطلب اس کی موت ۔۔ اب وہ گیراج کی طرف بڑھا تھا اور پھر کچھ دیر میں اپنی بگاٹی (دنیا کی سب سے زیادہ تیز رفتار سپورٹس کار) میں بیٹھتا گھر سے نکل گیا ۔۔۔لازمی سی بات تھی وہ لاش کو ٹھکانے لگانے گیا تھا ۔۔۔سدرہ کے ہاتھ کانپ رہے تھے وہ جلدی سے کمرے میں آئی اور جواد کو کال کر کہ اس کو ساری بات سے آگاہ کر دیا جواد یہ خبر سن کر خوشی سے جھوم اٹھا تھا ۔۔آخر کار وہ ایک اتنے بڑے مجرم کو پکڑنے میں کامیاب ہونے والا تھا ۔۔۔
جواد نے سدرہ سے کہا کہ وہ ثبوت لینے کل خود اس کے گھر آۓ گا ۔۔فون پر ایسی ویڈیوز اور تصاویر لینا اس نے مناسب نہ سمجھا ۔۔
***
جواد آج پورے چار دن بعد آیا تھا در اصل اس کا چھوٹا سا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا جس وجہ سے وہ نہ آسکا تھا مگر آج وہ آگیا تھا سدرہ نے اس کو ڈرائینگ روم میں بٹھایا تھا ۔۔
"اسلام و علیکم ۔۔۔۔کیسی ہیں آپ ۔۔۔؟"
وہ بولا
"بس ٹھیک ہوں ۔۔۔"
سدرہ نے بد دلی سے جواب دیا ۔۔۔کیوں کہ سراج کے ساتھ جو وہ کرنے جا رہی تھی اس بات کو لے کر وہ بہت بےچین تھی پچھلی چار راتوں سے وہ ٹھیک سے سو نہیں سکی تھی۔
"ثبوت آپ نے اچھے سے محفوظ کیا ہے نہ ؟؟"
"جی ۔۔۔"
دکھائیں مجھے ۔۔۔"
وہ بولا مگر سدرہ خاموش بیٹھی رہی ۔۔۔۔اس کا دل سراج کو لے کر بہت اداس ہو رہا تھا ۔۔
"آخر کار اس کتے کے خلاف ثبوت ہاتھ لگ ہی گیا ۔۔ اب اس کو پھانسی کے پھندے سے کوئی نہیں بچا سکتا "
جواد فاتحانہ انداز سے بولا
جب کہ سدرہ کے لئے یہ سب کچھ سننا محال ہو گیا ۔۔۔ایک تو سراج کی موت دوسرا جواد کے منہ سے سراج کے لئے گالی سدرہ کو بہت برا لگا تھا ۔۔سدرہ غصے سے اٹھ کھڑی ہوئی
"کوئی ثبوت نہیں ہے میرے پاس اور نہ ہی میں آپ کی کوئی مدد کر سکتی ہوں آپ جا سکتے ہیں"
وہ سخت لہجہ اختیار کرتے ہوۓ بولی اور وہاں سے چل دی جب کہ جواد اس کے اس اچانک ردعمل پر ہکا بكاہ رہ گیا اس کا تو بنا بنایا پلین چوپٹ ہو گیا ۔۔۔
***
رات ہو چکی تھی ۔۔سدرہ اپنے بیڈ روم کی دیوار پر لگی سراج کی بڑی سی تصویر کے سامنے کھڑی تھی اور آنسو اس کی خوبصورت آنکھوں سے رواں تھے ۔۔۔
"نہیں سراج میں ایسا نہیں کر سکتی ۔۔۔میں ایسا کبھی بھی نہیں کروں گی ۔۔۔۔آپ بھلے دنیا کی نظر میں کتنے ہی غلط کیوں نہ ہوں مگر نہ جانے کیوں میرے دل نے ہمیشہ یہی گواہی دی ہے کہ اپ غلط نہیں اور دل کبھی بھی جھوٹ نہیں کہتا ۔۔۔جانتی ہوں میں نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے آپ کو انسانی گوشت کھاتے انسانی خون پیتے میں نہیں جانتی آپ یہ کیسے کر لیتے ہیں اور کیوں ۔۔۔۔ مگر ۔۔۔مگر میں نے آپ سے محبت کی ہے بہت محبت کی ہے سراج ۔۔۔!!!
میں کیسے اپنے ہاتھوں سے آپ کو پھانسی کے پھندے پر چڑھوا دیتی ۔۔۔۔یہ مجھ سے نہیں ہوگا ۔۔۔"
وہ سراج کی تصویر سے روتے ہوۓ مخاطب تھی۔اسی وقت اس کو باہر سراج کی گاڑی کا ہارن سنائ دیا تو اس کے اداس دل کو تسکین سی پہنچی تھی ۔۔۔کچھ دیر میں سراج اندر آیا تھا اور سدرہ تیزی سے کمرے سے باہر آگئی اور بھاگ کر سراج کے گلے لگ گئی ۔۔۔اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور یہ منظر وہاں موجود ملازم بھی دیکھ رہے تھے ۔۔۔سراج چپ چاپ کھڑا رہا مگر سراج کے چہرے پر ایک مسکراہٹ پھیل گئی مگر اس مسکراہٹ میں نہ کوئی تمسخر تھا اور نہ ہی کوئی راز ۔۔وہ ایک سادہ سی مسکراہٹ تھی جس میں صرف اور صرف خوشی کی آمیزش تھی ۔۔۔پھر سراج نے اپنی اس مسکراہٹ کو چھپا تے ہوئے سدرہ کو خود سے الگ کیا اور کرخت لہجے میں بولا ۔۔۔
"کیا ہے ہٹو بھی ۔۔۔۔
میں آفس سے تھکا آیا ہوں اور ادھر تمہارا رومینس شروع ہو گیا ہے "۔۔
سدرہ کو پیچھے ہٹاتا اب وہ وہاں سے جانے لگا اس کی بے رخی سدرہ کا دل چیر ڈالتی تھی مگر سدرہ نے ہمیشہ صبر کیا تھا اور آج بھی وہ ہمیشہ کی طرح صبر کرتی سراج کے لئے پانی لینے چل دی ۔۔۔۔
***
رات کا وقت تھا سراج اور سدرہ دونوں اپنے اپنے بستر میں دبکے خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے تھے ۔بار بار سراج کے موبائل فون کی گھنٹی بجتی جا رہی تھی ۔۔جس کی وجہ سے سراج کی نیند میں خلل پڑ رہا تھا اور وہ بے چینی سے کبھی اس طرف کروٹ لیتا تو کبھی اس طرف ۔۔
بل آخر اس کی آنکھ کھل ہی گئی ۔۔اور اس نے بے زاریت سے کال اٹھا لی ۔۔۔
"کون ہے نیند خراب کر دی میری "
وہ آنکھیں کھولے بنا ہی غصے سے بولا تھا ۔۔۔
"سو لو بیٹا ۔۔۔
سو لووو ۔۔۔۔۔
جتنا سونا ہے تمہیں کیوں کہ بہت جلد میں تمہاری نیند خراب تو کیا بلکہ تمہیں ہمیشہ کی نیند سلا دوں گا "۔۔۔
دوسری طرف سے جواد کی آواز ابھری تھی ۔۔۔جواد کی آواز سن کر اب سراج مکمل طور پر اٹھ کر بیٹھ گیا تھا ۔۔۔
"کیوں بار بار مجھ سے بھڑ رہے ہو تم؟؟"
سراج بولا ۔۔۔
"بھڑ نہیں رہا وارن کرہا ہوں تجھے ۔۔۔سمجھا ؟
ویسے بھی تیری کوئی دهمكی مجھ پر نہیں چلے گی پتہ ہے کیوں ؟
کیوں کہ میں مرد ہوں موت سے نہیں ڈرتا میں ۔۔۔ اور جس کو موت کا ہی خوف نہ ہو تو اس کا دنیا کی کوئی طاقت بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔۔۔ اب تو بس اپنے دن گننا شروع کردے ۔۔"
جواد ہمت سے بولا ۔۔۔
"اتنا اچھل اچھل کر پلیننگ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں میرے کیوں کہ پاس تمہیں مارنے کے لئے فالتو وقت نہیں ہے اور ویسے بھی تمہیں یہ کیوں لگتا ہے کہ میں تمہیں مار ڈالوں گا ؟؟ تم نے میرا کیا بگاڑا ہے جو میں تمہیں ماروں ۔۔ یہ سب کرنا تو تمہاری ڈیوٹی ہے اور اپنا کام زمہ داری سے کرنے والے لوگ تو مجھے بہت پسند ہیں ۔"
سراج نے جواد کی امید کے برعکس بیحد ٹھنڈے لہجے میں جواب دیا ۔۔۔
"اور رہی بات مردانگی کی تو تمہیں بتادوں کہ مرد عورت کو ہتھیار بنا کر نہیں لڑتا جیسے تم نے کیا۔۔سدرہ کو میرے خلاف استعمال کر کہ
مگر افسوس پھر بھی نا کام رہے ۔۔۔
ویسے داد دیتا ہوں تمہاری سوچ کو تمہیں کیا لگا ؟
اس کم عمر نادان لڑکی کو بھڑکا کر تم سراج علی ذولفقار کو جیل بھجوا دو گے ؟؟؟؟
ہا ہا ہا۔۔۔
تو یہ بھول ہے تمہاری ۔۔مجھ تک رسائی حاصل کرنے کے لئے ابھی بہت محنت در کار ہے تمہیں ۔۔۔چلو شاباش اب مجھے سونے دو۔۔۔"
جواد طیش میں آ چکا تھا اس سے پہلے وہ سراج کو اس کی بات کا کوئی جواب دیتا سراج نے فون کاٹ دیا ۔۔
"دماغ کھا گیا میرا ۔۔۔"
سراج بڑبڑا تا ہوا اپنا فون پاور آف کرتا دوبارہ سونے لگا ۔۔۔
***
در اصل سراج نے اس پہلی ہی رات سدرہ کو دیکھ لیا تھا جب وہ تہہ خانے میں موجود تارہ کا بے رحمی سے قتل کر نے میں مصروف تھا ۔۔اور پھر دوبارہ بھی اس نے سدرہ کو محسوس کر لیا تھا جس دن سدرہ نے اس کی ویڈیو وغیرہ بنائی تھی اس کو سدرہ پر شک ہو گیا تھا تب ہی سدرہ کے سونے کے بعد سراج نے اس کا موبائل فون چیک کیا تھا تو اس کا شک ٹھیک نکلا تھا ۔۔تب ہی اس نے وہ سارے ثبوت سدرہ کے فون سے ڈیلیٹ کر دیے تھے حالانکہ سدرہ نے جواد کا دیا وہ فون سراج کی نظر سے مخفی رکھا تھا ۔۔دراصل وہ ایک تیز ترین دماغ کا مالک تھا اور دوسری ہی طرف سدرہ بیحد سادہ تھی تو سدرہ کی کسی بھی مشکوک حرکت کا سراج جیسے شاطر کی نظر سے بچ جانا مشکل تھا۔۔ قتل کے دوران سراج کی اپنے آس پاس ہونے والی تمام حرکات و سكنات پر بھی پوری نظر ہوتی تھی ۔۔۔بے شک وہ بہت چالاک تھا اور اس کی چھٹی حس بھی خاصی تیز تھی یہی وجہ تھی کہ وہ قتل جیسا سنگین جرم اتنی آسانی سے کر لیتا ۔۔
مگر اس نے سدرہ کو اس بات کا احساس نہ ہونے دیا تھا کہ وہ سب کچھ جانتا ہے ۔۔وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ سدرہ کس حد تک جاتی ہے تب ہی سدرہ کی اس سے سچی محبت کا ثبوت پا کر اس کو مسرت کا احساس ہوا تھا جب آج شام سدرہ اس کے گلے لگ کر روئی تھی ۔۔۔
***
"اف سراج کب سے جگا رہی ہوں آپ کو اب تو 8 بجنے والے ہیں ۔۔"
سدرہ جهنجھلا کر بولی جو کافی دیر سے سراج کو جگانے کی کو شش کرہی تھی اور وہ 5 منٹ 5 منٹ کرتا دوبارہ سو جاتا
"کیا ؟؟؟8 بج گۓ؟؟؟"
اب سراج جلدی سے اٹھا اور كمبل ایک طرف پھینکتا گھڑی پر نظر ڈالتے فکر مندی سے بولا ۔۔۔
بھلے ہی اس کے اوپر کوئی نہ تھا جو اس کو کسی بھی بات پر ٹوکتا مگر سراج اپنے کام کو لے کر بہت ہی ذمہ دار تھا اور ذرا سی بھی لا پرواہی اس کو پسند نہ تھی ۔۔
"پہلے نہیں جگا سکتی تھی ؟"
سراج سدرہ کو گھورتے ہوۓ بولا ۔۔
"کیا۔۔۔۔۔ ؟؟؟
میں نہیں جگا سکتی تھی ۔۔۔۔۔"
سراج کی بات پر سدرہ نے اپنے سینے پر اپنی انگلی رکھتے ہوئے کہا ۔۔
"میں تو 7 بجے سے جگا رہی ہوں آپ کو ۔۔۔۔آپ خود ہی نہیں اٹھ رہے تھے ۔۔۔"
اور سراج کوئی جواب دیے بنا واش روم کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔کیوں کہ اس کو اپنی غلطی معلوم تھی ۔۔سراج جلدی جلدی سے تیار ہوا اور اب وہ اپنا كف بند کرتے سدرہ کی طرف دیکھے بنا ہی اس سے مخاطب ہوا ۔۔۔
"سدرہ ۔۔کچھ دن تک مجھے کام کے سلسلے میں امریکہ جانا ہے ۔۔۔ تم بھی میرے ساتھ چل رہی ہو ۔۔۔"
سراج کی بات پر سدرہ چونک گئی ۔۔۔
"مگر میں تو آج سے پہلے کبھی ابروڈ نہیں گئی ۔۔۔میرا پاسپورٹ نہیں بنا ۔۔۔"
وہ بولی ۔۔
"ان سب چیزوں کی فکر تم مت کرو وہ سب میں دیکھ لوں گا تم بس ذہنی طور پر تیاررہو۔۔۔۔۔۔
ایک سرپرائز کے لئے۔۔ ۔۔"
سراج نے اپنے آخری الفاظ زیر لب بولے تھے جن میں بلا کا طنز شا مل تھا مگر سدرہ اس کے آخری الفاظ سن نہ سکی۔۔۔
"وہ سب تو ٹھیک ہے مگر سراج ۔۔۔۔۔۔"
اس سے پہلے سدرہ اپنا جملہ مکمل کرتی سراج نے اس کو بیچ میں ہی ٹوک دیا ۔۔۔
"مگر وگر کچھ نہیں ۔۔۔۔جو کہہ دیا بس مان لو مجھے بیکار کی بحث بلکل پسند نہیں ۔۔۔"
وہ رعب سے بولا اور کمرے سے باہر جانے لگا ۔۔۔
تو سدرہ کھلکھلا کر ہنس پڑی جس پر سراج نے حیرت سے اس کو مڑ کر دیکھا ۔۔۔
"کیا ہے ؟
میں نے کوئی جوک سنایا کیا ؟؟
وہ بولا مگر سدرہ کوئی جواب دیے بنا اس کے نزدیک آگئی اور اس کی شرٹ کے بٹن بند کرنے لگی جو سارے کے سارے کھلے تھے ۔۔۔
سدرہ در اصل اس کو یہی بتانا چاہ رہی تھی ۔
سراج آج بہت جلدی میں تیار ہوا تھا تب ہی وہ یہ کام کرنا بھول ہی گیا ۔۔۔اس نے ہلكی نیلی جینز کے ساتھ گرے رنگ کا کوٹ پہن رکھا تھا جس کے نیچے سفید رنگ کی شرٹ تھی جس کے سارے بٹن کھلے تھے ۔۔۔
سدرہ اس کی شرٹ کے بٹن بند کرنے میں مصروف تھی اور سراج بغور اس کا چہرہ دیکھے جارہا تھا اسی دوران ایک لٹ سدرہ کے حسین چہرے پر آگئی ۔۔۔جس کو سراج نے اپنے ہاتھ کی مدد سے پیچھے کیا تو سدرہ نے چونک کر سراج کی طرف دیکھا اس کی نظروں سے سدرہ کو شرم آنے لگی تھی ۔وہ اپنی نظر جھکا گئی ۔۔۔
"تھنک یو "
یہ بولتا سراج اب نیلے رنگ کے گلاسس لگاتا کمرے سے نکل گیا ۔۔۔اور سدرہ وہیں کھڑی کچھ سوچنے لگی اپنے چہرے پر وہ ابھی تک سراج کے ہاتھ کا لمس محسوس کرہی تھی۔
سراج نے اتنے پیار سے آج پہلی بار اس کو چھوا تھا اسی بات سے ہی سدرہ کا انگ انگ مہک اٹھا ۔۔
اب سدرہ اپنے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ سجاۓ بیڈ پر آبیٹھی ۔۔۔پھر ٹیوی کا رموٹ پکڑے ٹیوی آن کردیا اور دیکھنے لگی ۔۔وہ چینل اگے کرتی جا رہی تھی کہیں بھی اس کے مطلب کا پروگرام نہ آ رہا تھا اچانک ایک چینل پر ڈریکولا فلم چلنے لگی اور اس وقت فلم کا جو منظر چل رہا تھا اس میں ڈریکولا کسی کا خون پیتا ہوا دکھایا جا رہا تھا ۔۔۔
یہ منظر دیکھتے ہی سدرہ کے رونگٹے کھڑے ہو گئے اس کو فورن سے سراج یاد آیا تھا اس کے چہرے کا رنگ ہی بدل گیا اس نے جلدی سے ٹیوی بند کردیا ۔۔۔
پھر اس کی نظروں کے سامنے اپنے بچپن کے کچھ پل گھومنے لگے تھے جب وہ اس فلم سے حد سے زیادہ ڈرا کرتی تھی اور اس کے کزن ڈریکولا کا ہی نام لے لے کر اس کو ڈرایا کرتے تھے ۔۔۔
"کتنا ڈرتی تھی میں بچپن سے ہی اس ڈریکولا سے اور دیکھو آج میری شادی ہی اس ڈریکولا سے ہو گئی "۔۔۔
سدرہ بیحد فکر مندی مگرمعصومیت سے سوچنے لگی تھی ۔۔۔۔
***
سراج بس آفس پہنچنے ہی والا تھا وہ راستے میں تھا کہ اچانک غلطی سے اس کی گاڑی سامنے سے آتی كرولا سے ٹکر ا گئی ۔۔۔
"اوہ ۔۔مائی گاڈ ۔۔۔۔"
بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا اس نے ایک دم ہی بریک لگا دی ۔۔۔
اور گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوۓ گاڑ ی سے باہر آ گیا ۔۔۔دوسری طرف سے کرولا سے بھی بندہ نکل آیا تھا۔۔۔وہ 26 سے 27 سال کا کوئی نوجوان تھا ۔۔۔
"آئی ایم رئیلی سوری ۔۔۔"
سراج نے اس بندے سے اپنی غلطی کی معذرت کی ۔۔۔
"تیری ماں کا ۔۔۔۔۔سوری کا بچا اندھا ہے کیا ؟؟؟؟؟ دیکھ کر نہیں چلا سکتا۔۔۔
وہ بد اخلاقی سے بولا جس پر سراج کا دماغ گھومنے لگا تھا ۔۔
آپ کا جو بھی لوس ہوا میں بھر دوں گا ۔۔۔"
سراج خود کو قابو کرتے بولا ۔۔۔
"لوس کے بچے ۔۔۔
روڈ تیرے باپ کی ہے یا تیری ماں جہیز میں لائی تھی جو آنکھ بند کر کے گاڑی چلا رہا ؟؟"
وہ سراج کا گریبان پکڑے بولا ۔۔۔
آس پاس لوگوں کا ہجوم لگنا شرو ع ہو گیا تھا ۔
وہ اب سراج کو ماں بہن کی گندی گندی گالیاں نکالنے لگا ۔۔۔
غصے کی شدت سے اب سراج کی آنکھیں بلکل بدل گئیں اور سرخ ہونے لگی جیسے ان میں خون اتر آیا ہو ۔۔
وہ زور سے اس بندے کا ہاتھ پیچھے جھٹکتا اپنی گاڑی کا دروازہ کھولے گاڑی کی سیٹ پر آ بیٹھا ۔۔۔۔
"ابے اووو ۔۔۔۔۔بھاگ کدھر رہا ہے اب !!!! یہ نقصان تیرا باپ بھرے گا ۔۔۔؟؟؟ او ا و ہیلو ۔۔۔یا تیری ماں کو بیچ کے میں یہ پیسے وصول کروں گا اندھے ؟؟"
اس کے خیال سے سراج واپس جانے کو گاڑی میں بیٹھا تھا مگر اس کا خیال غلط تھا سراج اپنی گاڑی میں رکھی پستول لینے کی غرض سے دوبارہ گاڑی میں بیٹھا تھا ۔۔۔۔اور اب اس نے باہر نکل کر وہ پستول اس بندے کے سر پر تان دی اور ایک لمہے کی دیر کئے بنا ٹریگر دبا دیا ۔۔۔
تین گولیاں چلی تھیں ۔۔۔جو اس بندے کے سر کے پار ہو گئی تھیں۔۔
ایک ساتھ تین فائر اس کے سر میں لگنے سے وہ موقع پر ہی جان بحق ہو گیا ۔۔۔اور آس پاس کھڑے لوگوں میں افرا تفری مچ گئی ۔۔۔۔
جب کہ سراج اطمینان سے گاڑی میں آبیٹھا اور سامنے لگے آئینہ میں دیکھ اپنے بال ٹھیک کرنے لگا اور پھر گاڑی سٹارٹ کرتا وہ اس بندے کی لاش پر سے چلاتا وہاں سے نکل گیا ۔۔۔۔
سراج نے اپنی گاڑی پولیس اسٹیشن کے سامنے روکی اور پولیس ا سٹیشن کے اندر چل دیا ۔۔
اب وہ تھانےدار کے سامنے والی کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھ گیا ۔۔۔۔
"جی بولیں ؟"
تھانے دار نے تیلی کی مدد سے اپنے دانت میں پھنسا کھانا نکالتے ہوۓ سراج سے سوال کیا ۔۔
"ایکچولی ابھی کچھ دیر پہلے میں اپنے آفس جا رہا تھا کہ راستے میں میری گاڑی سے ایک بندے کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ۔۔۔بیچارے کا سر بری طرح سے کچلا گیا اور وہ اوپر پہنچ گیا ۔۔۔"
سراج پانچ لاکھ کا چیک تھانے دار کے سامنے موجود میز پر رکھتے ہوۓ بولا تھا ۔۔۔جس کو جلدی سے اس پولیس والے نے اٹھا کر دیکھا اور پھر اس کے چہرے پر ایک زو معنی مسکراہٹ آگئی ۔۔۔
"ارے سر ۔۔۔۔۔آپ فکر نہ کریں شہر میں آے دن ایسے حادثات ہوتے ہی رہتے ہیں ۔۔۔"
"همم بہت بہت شکریہ آپ کا ۔۔۔"
یہ بولتے سراج کرسی پر سے اٹھ کھڑا ہوا اور چشمہ لگاتا تھانے سے باہر نکل کر اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا اور گاڑی اپنے آفس کے رستہ پر ڈال دی ۔۔۔۔

 خونی شیطان ( قسط نمبر 6)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں


Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں