خونی شیطان (قسط نمبر7)

 

خونی شیطان (قسط نمبر7)

سدرہ اپنے ہاتھ صاف کرتی کمرے میں داخل ہوئی جدهر سراج اور رہبر پہلے سے موجود تھے ۔ان کو پارک سے لوٹے کافی دیر ہو چکی تھی سدرہ رات کا کھانا خود بنا رہی تھی ۔۔اور اب کھانا لگا کر ان لوگوں کو یہ کہنے کمرے میں آئی تھی کہ وہ کھانا کھا لیں ۔۔۔
جب سدرہ کمرے میں داخل ہوئی تو پورا کمرہ تہس نہس ہوا پڑا تھا بیڈ کی چادر بھی الٹی پھلٹی ہو رہی تھی اور ان دونوں کے قہقہوں سے پورا کمرا گونج رہا تھا ۔
در اصل سراج رہبر کے ساتھ کھیل رہا تھا ۔۔۔
پورا کمرہ تباہ کرنے کے بعد اب وہ دونوں بیڈ پر آ گئے تھے اس کی تباہی مچا نے وہ دونوں ہر چیز سے بے نیاز ایک دوسرے کے ساتھ ہی مگن تھے ۔۔۔
سدرہ نے جب کمرے کی حالت دیکھی تو اپنا سر پکڑ کر رہ گئی۔۔
مگر ان دونوں باپ بیٹے کا پیار دیکھ کر اس کو بہت اچھا لگا تھا ۔۔۔سراج لیٹا تھا اور رہبر اس کے اوپر چڑھا ہوا تھا
"میں نے سوچا نہیں تھا ویسے میرے اکڑو سے سراج آپ اتنے سویٹ بھی ہو سکتے ہیں ! "
وہ سوچ میں ڈوبی ان دونوں کو دیکھ کر محظوظ ہو رہی تھی ۔۔۔
اب وہ دونوں پنجہ لڑارہے تھے ۔۔رہبر اپنی پوری کوشش کر رہا تھا سراج کو ہرانے کی مگر وہ کب ایسا کر سکتا تھا اور سراج بھی کچھ دیر تفریح کی خاطر اس کو جیتنے نہیں دے رہا تھا ۔۔۔
رہبر کبھی اپنے دونوں ہاتھوں کا استعمال کرتا کبھی کھڑا ہو کر زور لگانے لگتا تو کبھی لیٹ کر اور سراج اس کی ان معصوم حرکتوں پر مسلسل ہنسے جا رہا تھا ۔۔۔
سدرہ اب وہیں پڑی ایک کرسی پر بیٹھ گئی ۔۔۔
اور ان دونوں کو دیکھ کر مسکرارہی تھی۔۔
One minute Dad(ایک منٹ ڈیڈ )
رہبر یہ بول کر بیڈ سے اترا اور سدرہ کے پاس آیا ۔۔۔۔
I'm losing the game help me please ...
(دیکھیں میں کھیل میں ہار رہا ہوں آپ میری مدد کریں )
سدرہ رہبر کی بات پر پریشان سی ہو گئی ۔۔۔اس سے پہلے وہ رہبر کو انکار کرتی رہبر اس کا ہاتھ پکڑ کر باقاعدہ کھینچنے لگا تھا ۔۔۔سدرہ کو بچے کی دل آزاری کرنا ٹھیک نہ لگا تو وہ اس کے ساتھ ہو لی ۔۔۔۔
اب رہبر نے سدرہ کا ہاتھ سراج کے ہاتھ میں تھما دیا اور خود ان کے ہاتھوں پر زور ڈالنے لگا ۔۔۔۔
Oh! Cheating ??This is a very wrong thing to do Cheater ...
(اوہ ! بے ایمانی ؟؟؟ یہ تو غلط ہے بے ایمان کہیں کے۔۔۔)
سراج شرارت سے بولا ۔۔۔جس پر رہبر کھلکھلا کر ہنسنے لگا ۔۔۔اب وہ اور سدرہ دونوں مل کر اپنی پوری زور آزمائی کرنے میں لگے تھے اور رہبر کے ساتھ ساتھ سدرہ بھی بلکل چھوٹے بچوں کی طرح کھیل میں مگن ہو گئی تھی ۔۔۔اس بات سے بے خبر کہ کوئی محبت بھری نظروں سے اس کو دیکھ رہا ہے ۔۔۔
سراج کا پورا دھیان کھیل پر سے ہٹ کر اب سدرہ کی طرف ہو گیا تھا وہ اس کو گہری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا اور اس کو دیکھتے دیکھتے کہیں کھو سا گیا ۔۔۔
اس نے اب اپنا ہاتھ ڈھیلا چھوڑ دیا ۔۔۔
Yessssssssssss.....
We won...
(ہم جیت گئے )
رہبر کی پرجوش آواز کمرے میں گونجی اور وہ بیڈ پر اچھلنے لگا پھر اس نے خوشی سے سدرہ کا گال چوم لیا ۔۔۔
Thank you ....
وہ چہک کر بولا تھا جس پر سدرہ نے بھی پیار سے اس کا گال چوم لیا تھا ۔۔۔
سراج ابھی تک سدرہ کو دیکھنے میں محو تھا ۔۔۔
"آپ ہار گئے۔۔۔۔۔"
سدرہ بھی چھوٹے بچوں کی طرح خوش ہوتے ہوۓ بولی ۔۔
"ٹھیک کہا۔۔۔۔
میں واقعی ہار گیا"
سراج بولا
اس کے کہے گئے اس جملے میں جذبات کی انتہا تھی ۔۔۔
جو سدرہ کو صاف محسوس ہوئی اور سدرہ نے جب اس کے چہرے کی طرف دیکھا تو سراج کی آنکھوں میں نمی تھی جس نے سدرہ کو چونکا کر رکھ دیا اس نے پہلی بار سراج کی آنکھوں میں جذبات دیکھے تھے ۔۔۔آج سے پہلے سراج کا یہ روپ اس نے کبھی نہ دیکھا تھا
پھر کچھ دیر بعد سراج خود پر قابو پاتا وہاں سے اٹھ کر ٹیرس کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔
وہ یک دم ہی بلکل سنجیده ہوا تھا ۔۔۔
سدرہ کو کچھ بھی سمجھ نہ آیا مگر اس کو سراج کے انداز سے یہ تو اندازه ہو ہی گیا تھا کہ وہ کھیل میں ہارنے کی بات نہیں کر کے گیا ۔۔۔
سدرہ کے لئے سراج ایک معمہ ہی بن کر رہ گیا تھا ۔۔اس کو سمجھ ہی نہ آتی تھی سراج کی سوچ ۔۔۔وہ اس سے کھل کر بات کرنا چاہتی تھی مگر سراج کبھی موقع ہی نہ دیتا تھا ۔۔وہ سراج کے دل کی بات سننا چاہتی تھی اس کو سمجھنا ،محسوس کرنا چاہتی تھی مگر سراج یہ ہونے نہ دیتا تھا۔۔۔وہ انہیں سوچوں میں گم کمرے سے باہر چلی گئی ۔۔۔
جب سراج کمرے سے نکل کر ٹیرس پر چلا گیا تو رہبر بھی اس کے پیچھے چل دیا ۔۔۔
سراج رخ پھیرے خاموشی سے کھڑا تھا ۔۔۔
Dad
رہبر نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے محبت سے پکارا ۔۔۔
رہبر کی آواز سے سراج جیسے ہوش کی دنیا میں آیا ۔۔اور اپنے بائیں ہاتھ کی مدد سے اپنے آنسو صاف کرتا اب رہبر ہی کے برابر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا ۔۔۔
Yes my prince...
(جی میرے شہزادے )
سراج بڑی مشکل سے مسکرا یا تھا وہ رہبر کے چھوٹے چھوٹے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوۓ ان کو چوم کر بولا ۔۔۔
Are you crying ??
(آپ رو رہے ہیں )
رہبر روہانسا ہوتے ہوۓ بولا ۔۔۔
Not at all...
(نہیں تو ۔۔۔)
سراج پیار سے اس کے بالوں کو بکھیر کر بولا ۔۔
I know you are crying..
Please Don't cry ....
(آپ رو رہے ہیں مجھے پتہ ہے پلیز مت روئیں )
یہ بولتا رہبر اس کے گلے لگ کر خود بھی رونے لگا ۔۔۔
وہ نہ تو سراج کے رونے کی وجہ جانتا تھا اور نہ ہی کوئی بات سمجھنے کی اس کی عمر تھی ۔۔۔وہ تو بس سراج سے بیحد محبت کرتا تھا تب ہی اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ خود بھی رو پڑا تھا ۔۔۔۔
سراج نے اس کو اپنی بانہوں میں بھر لیا کچھ دیر وہ دونوں یوں ہی لپٹے رہے۔۔
Tell me one thing Rehbar one day everyone will call your Dad bad ! Everyone will hate me ۔۔what will you do that day? Will you hate me too ???
(ایک بات تو بتاؤ رہبر ؟ ایک دن سب تمہارے ڈیڈ کو برا کہیں گے مجھ سے نفرت کریں گے ۔۔اس دن تم کیا کرو گے ؟ کیا تم بھی مجھے برا کہو گے ؟؟مجھ سے نفرت کرو گے ؟؟)
سراج جانتا تھا کہ وہ ایک نہ سمجھ بچے سے زندگی کی حقیقت سے جڑا ایک تلخ سوال کر رہا ہے ۔۔۔مگر پھر بھی نہ جانے اس کا دل چاہا تھا اس پل رہبر سے یہ سوال کرنے کا تو اس نے کر دیا ۔۔۔۔
Noo....My Dad is so good..I'll never call you bad I love you so much I'll always do
(نہیں ۔۔۔میرے ڈیڈ بہت اچھے ہیں سب سے اچھے ۔۔۔میں کبھی بھی آپ کو برا نہیں کہوں گا ۔۔۔میں آپ سے بہت پیار کرتا ہوں اور ہمیشہ کروں گا ۔۔۔)
وہ روتے ہوۓ معصومیت سے بولا ۔۔۔
تو سراج نے اس کو ایک بار پھر اپنے سینے سے لگا لیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے ۔۔۔
Your Dad also loves you very much!
(ڈیڈ بھی آپ سے بہت پیار کرتے )
" میری زندگی کا کل سر مایہ ۔۔۔" سراج نے یہ بولتے رہبر کی پیشانی کو چوم لیا ۔۔۔
***
آج ان کی پاکستان واپسی تھی سراج رہبر کو چھوڑنے گیا ہوا تھا ۔۔اور سدرہ پیکنگ کرنے میں مصروف تھی ۔۔اور اس کے ذہن میں مسلسل ایک ہی بات چل رہی تھی کہ
"پتہ نہیں سراج کیوں انسانی گوشت کھاتے ہیں اور کیسے کر لیتے ہیں یہ سب ۔۔۔۔یہ سوچ کر ہی سدرہ کو کراہت محسوس ہونے لگی تھی ۔۔۔ کیا میں نے جواد کا ساتھ نہ دے کر ٹھیک کیا؟؟؟
کیا مجھے سراج کو پھانسی کے پھندے پر چڑھوا دینے چاہیے ؟؟؟؟ ۔۔۔۔
وہ بری طرح الجھ کر رہ گئی تھی اب تو اس کا سر درد سے پھٹنے لگا تھا ۔۔۔۔
وہ کچھ دیر یوں ہی اپنا سر پکڑے بیٹھی رہی ۔۔۔
"نہیں ۔۔۔۔میں غلط نہیں ہوں کیوں کہ میں برائی کو نفرت سے نہیں بلکہ محبت سے ختم کرنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔مجھے سراج سے نفرت نہیں کرنی بلکہ ان کے اندر موجود برائیوں سے نفرت کرنی ہے ۔۔۔
میں گھر جاتے ہی سراج سے اس بارے میں صاف طور پر بات کروں گی اور ان کو ان حرام کاموں سے دور کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کروں گی ۔۔۔اور انشاء اللّه بہت جلد اپنے سراج کو اس برائی کی دلدل سے باہر نکال لاؤں گی جس میں وہ بری طرح پھنس چکے ہیں شاید ہم دونوں کو ملانے کے پیچھے اللّه کا یہی مقصد پوشیده ہو ۔۔۔"
سدرہ نے پرعزم ہو کر سوچا ۔۔
اب اس کا دماغ سکون میں آچکا تھا ۔۔۔
***
ان کو پاکستان آئے دو دن ہو گئے تھے ۔۔۔آج سراج گھر پر ہی تھا مگر وہ سو رہا تھا دو پہر کے دو بج گئے تھے۔۔۔سدرہ نے تو دوپہر کا کھانا بھی بنا لیا تھا ۔۔۔
کھانا بنانے کے بعد وہ نہانے چلی گئی اور اب نہا کر سراج کو جگانے کی غرض سے بیڈ پر آکر اس کے سرہانے بیٹھ گئی ۔۔۔
سدرہ نے لان کا ہلکے آسمانی رنگ کا سوٹ پہن رکھا تھا ۔۔۔نازک سی گردن میں باریک سی چین اور ہاتھوں میں بھی نازک انگوٹھياں پہن رکھی تھیں ۔۔۔۔
گیلے ہونے کی وجہ سے اس کے لمبے بال کھلے ہی تھے ۔۔۔
اپنے گیلے بالوں کا چھینٹا اس نے شوخی سے سراج کے منہ پر مارا ۔۔۔جس سے سراج کی آنکھ کھل گئی تھی ۔۔۔
"کیا ہے ۔۔۔۔؟؟؟"
وہ غصے سے بولا ۔۔۔۔
"دو پہر ہے ۔۔
اور آپ ابھی تک سو رہے "
سدرہ نے شوخی سے اس کی بات کا الٹا جواب دیا ۔۔
جس پر سراج کوئی جواب دیے بنا کروٹ بدلے پاس پڑے تکیہ کو پکڑ کر پھر سے سونے لگا ۔۔۔
سدرہ نے جھٹ سے اس کے ہاتھوں سے وہ تکیہ چھین لیا ۔۔۔۔
اب سراج اٹھ کر بیٹھ گیا ۔۔۔
"کیا کر رہی ہو یار جاؤ یہاں سے "
وہ جھنجھلا کر بولا ۔۔۔
"میں کہیں نہیں جا رہی آپ اٹھ جائیں بس بہت سو لیا ۔۔۔دو بج رہےہیں ۔۔۔۔
اور پتہ ہے آج میں نے سارا کھانا آپ کا من پسند بنایا ہے ۔۔۔۔۔
آپ فریش ہو کر آجائیں میں کھانا لگاتی ہوں ۔۔۔۔"
"اچھا ٹھیک ہے جاؤ تم کھانا لگاؤ میں آتا ہوں "
"نہیں نہیں نہیں ۔۔۔۔۔
مجھے پتہ ہے مجھے بھیج کر آپ فریش ہونے نہیں جائیں گے بلکہ دوبارہ سے سو جائیں گے ۔۔۔"
اپنی چوری پکڑے جانے پر سراج کو ہنسی سی آگئی تھی ۔۔۔۔
"بہت چالاک ہو تم ؟؟"
"آپ سے کم ۔۔۔
چلیں اب اٹھیں "
یہ کہہ کر سدرہ سراج کو بازو سے پکڑ کر اٹھا نے لگی اور یوں ہی اس کو واش روم کے در وازے تک لے آئی ۔۔۔
"اچھا بابا جا رہا ہوں فریش ہونے "
سراج مسکرا کر بولا اور پھر دوبارہ پلٹا ۔۔۔


تو سدرہ اس کی کمر پر اپنے دونوں ہاتھ رکھے اس کو نرمی سے واش روم کی طرف دھکیلنے لگی ۔۔۔
جس پر سراج زور سے ہنسا ۔۔۔
"ارے کیا ہو گیا ہے ٹاول لینے جا رہا ہوں ۔۔۔۔"
وہ سچ میں تولیہ لینے ہی جا رہا تھا ۔۔۔
"وہ میں دے دوں گی آپ جائیں "
سدرہ بولی اور سراج فریش ہونے چل دیا
وہ فریش ہو کر آیا تب تک سدرہ نے میز پر کھانا چن دیا تھا ۔۔۔
کھانا دیکھنے میں ہی بہت عمده لگ رہا تھا اور ایک ایک چیز سراج کی پسنددیده تھی سراج کا دل خوش ہو گیا تھا ۔۔۔
اب وہ دونوں کھانا کھانے لگے ۔۔
کھانا لذیز بھی بہت تھا ۔۔۔
"واہ واقعی میں نے بہت عرصہ بعد اتنے شوق سے کھانا کھایا ہے۔۔۔
مزہ ہی آگیا ! ۔۔۔۔
میں نے اچھے سے اچھے ریسٹورانٹ میں کھانا کھایا ہے مگر کسی میں بھی ایسی بات نہیں تم نے تو میرا دل خوش کر دیا اس پر گفٹ تو بنتا ہے بتاؤ کیا چاہیے تمہیں ؟؟"
جب وہ کھانا کھا چکے تو سراج خوش دلی سے بولا ۔۔۔
مگر اس کے سوال پر سدرہ سنجیدہ سی ہو گئی ۔۔۔۔۔کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد پھر وہ گویا ہوئی
"جو مانگوں گی دے دیں گے ؟؟؟؟؟
اس نے سراج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا ۔۔۔
"کیوں نہیں دوں گا ؟"
"پکا ؟؟؟۔۔۔۔۔"
"ہاں ہاں پکا ۔۔۔۔۔سراج اپنی بات سے نہیں مکرتا "
"ٹھیک ہے ۔۔۔
آپ نماز پڑھا کریں سراج ۔۔۔
یہی میرا گفٹ ہو گا "
سدرہ بولی اس کی بات پر سراج نے چونک کر اس کی طرف دیکھا تھا ۔۔۔۔
اس کو سدرہ سے ہرگز ایسی کسی مانگ کی امید نہ تھی اس کو تو لگا تھاوہ اس سے تحفہ میں کوئی زیور یا پھر کوئی اور اپنی پسند کی چیز مانگے گی ۔۔۔
مگر سدرہ کی بات سننے کے بعد وہ خاموشی سے بیٹھ گیا ۔۔
"کیا ہوا آپ چپ کیوں ہیں ؟؟؟؟"
سدرہ بولی ۔۔۔
"ہمت نہیں ہے "
سراج بولا ۔۔
"کس چیز کی ہمت نہیں ہے ؟؟"
سدرہ کو تجسس ہوا
"نماز پڑھنے کی ۔۔۔
بہت شرم آتی ہے سوچتا ہوں کس منہ سے اس اللّه کے سامنے جاؤں ۔۔۔
سراج خلا میں گھورتے ہوۓ کہنے لگا ۔۔۔
"خیر چھوڑو یہ سب تمہیں کوئی چیز چاہیے تو مجھے بتادینا وہ میں تمہیں دے دوں گا "
یہ بول کر سراج جانے کے لئے کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا تو سدرہ نے بھی اپنی کرسی سے اٹھتے ہوۓ اس کا ہاتھ پکڑ لیا ۔۔۔
"آپ کو پتہ ہے وہ جو اللّه ہے نہ وہ بہت رحمان و رحیم ہے ۔۔۔۔وہ ہمیں انسانی تقاضوں کے معیار پر نہیں پرکھتا ۔۔۔۔وہ تو ہم سے بے پناہ محبت رکھتا ہے ۔۔۔۔اس کے ہاں توبہ کے دروازے ہر وقت کھلے رہتے ہیں ۔۔۔وہ ہمیں معاف کرنے کے لئے ہر دم تیار رہتا ہے بس ہم ہی معافی نہیں مانگتے ۔۔۔۔
اور آپ جانتے ہیں ؟
کبھی کبھی سچی توبہ انسان کو وہ مقام عطاء کر دیتی ہے جو ہزاروں سال کی عبادت سے بھی حاصل نہیں ہوتا ۔۔۔۔"
سدرہ جو کچھ بھی بول رہی تھی وہ سراج کے ذہن پر اثر چھوڑنے لگا تھا ۔۔۔مگر وہ سدرہ کی گرفت سے اپنا ہاتھ آزاد كراتا بنا کچھ بولے وہاں سے چل دیا ۔۔۔۔
***
آج موسم ابر آلود تھا سہ پہر کا وقت تھا اور بارش ہو رہی تھی سدرہ ابھی ابھی پورے ڈرائینگ کی سیٹنگ تبدیل کر کہ تھک ہار کر لاؤنج میں آ کر بیٹھی تھی ۔۔
ڈرائینگ روم کو اس نے بہت عمدگی سے سجایا تھا ۔۔
سدرہ کو پیاس محسوس ہونے لگی اس کی نظر سامنے میز پر پڑی جہاں گلاس میں پہلے سے ہی کوئی مشروب پڑا تھا ۔۔۔
"ارے واہ ۔۔۔اچھا ہوا مجھے جوس یہیں مل گیا ورنہ مجھ میں تو کچن تک جانے کی بھی ہمت نہ ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔"
یہ بول کر سدرہ نے وہ گلاس اٹھایا اور ایک ہی سانس میں سارا مشروب پی گئی ۔۔۔
"ایی ی ی ی ۔۔۔۔۔۔۔
یہ کتنا گندا جوس ہے "
سدرہ کو وہ پینے کے بعد ابکا ئی آنے لگی تھی در اصل جو اس نے پی لیا تھا وہ کوئی جوس نہیں بلکہ شراب تھی ۔۔۔۔جو سراج نے دو گھونٹ لینے کے بعد وہیں رکھ دی تھی ۔۔۔
سدرہ کا سر بری طرح چکرانے لگا اس کو ہر چیز گول گھومتی دکھائی دینے لگی ۔۔۔
وہ اپنا سر پکڑے بڑی مشکل سے لڑ کھڑاتے قدموں کے ساتھ اپنے کمرے کی طرف چل دی ۔۔۔۔
وہ بیڈ روم میں داخل ہوئی جہاں سراج صوفے پر بیٹھا اپنے کام کے سلسلے میں کانفرنس کال پر مصروف تھا ۔۔۔سدرہ اس کے قریب آگئی
"آئ لو یو سو و و و و و مچ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
اچانک ہی سدرہ نے اس کے گلے میں اپنی بانہیں ڈالتے ہوۓ بولا ۔۔۔اور اس کے گالوں کوچومنے لگی ۔۔۔۔
سراج سدرہ کی اس اچانک حرکت پر اتنے لوگوں کے سامنے شرمنده سا ہو کر رہ گیا ۔۔۔
"کیا کر رہی ہو یہ ؟"
میں ویڈیو کال پر ہوں ۔۔"
سراج اس کو پیچھے ہٹاتے ہوۓ نہایت غصے سے اپنے خمدار ابرو اچکا کر بولا مگر سدرہ پر کوئی اثر نہ ہوا وہ پیچھے ہونے کا نام ہی نہ لے رہی تھی ۔۔۔۔
مجبور ہو کر سراج کو کال کاٹنی پڑی ۔۔۔
"کیا تماشہ ہے یہ سب ہاں ؟؟؟
کتنی ضروری میٹنگ میں تھا میں ۔۔۔۔۔
اور یہ اچانک ہوا کیا ہے تمہیں پاگلوں والی حرکتیں کیوں کر رہی ہو ؟"
سراج نے سدرہ کو ڈانٹا ۔۔۔۔
مگر سدرہ پر اس کی ڈانٹ کا بھی کوئی اثر نہ ہوا ۔۔۔
"شش۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چپ ہو جائیں ہر وقت بس غصہ غصہ غصہ ۔۔۔۔ آپ بہت بولتے ہو ۔۔۔
مگر ابھی بلکل چپ ہو جاؤ "
سدرہ نے اپنی انگلی سراج کے ہونٹوں پر رکھتے ہوۓ بولا
"ایکچولی یو ار سوو بورنگ ۔۔۔۔۔ہر وقت بوریت پھیلاتے رہتے ہیں اور سب کو ڈانٹ ڈانٹ کر سب کا موڈ خراب کر دیتے ہیں ۔۔۔۔
مگر ہیں بڑے کمال ل ل ۔۔۔
مائی ہبی "
یہ بول کر سدرہ نے ایک بار پھر سراج کی گردن میں اپنے بازو ڈال کر اس کا گال چوما ۔۔۔
چلیں نہ آج انجوئے کرتے ہیں دیکھیں کتناا ا ا ا ا ا ا ا ۔۔۔۔۔۔
پیارا موسم ہے ۔۔۔"
سدرہ اول فول بکے جا رہی تھی ۔۔۔
سراج اس کی حالت دیکھ کر سمجھ گیا کہ آخر معاملہ کیا ہے ۔۔۔۔
سدرہ اب سراج کا ہاتھ پکڑے اس کو زبر دستی لان میں لے آئی۔۔۔۔
بارش کافی تیز تھی وہ دونوں بارش میں پوری طرح بھیگ چکے تھے ۔۔۔
سدرہ اب گانے گنگناتے ہوۓ باقاعدہ ناچنے لگی تھی ۔۔
اور سراج سر پکڑ کر کھڑا تھا ۔۔۔
اب سدرہ سراج کے نزدیک آئی اور اس کے دونوں ہاتھ پکڑے زبردستی ہی اس کے ساتھ بھی ناچنے لگی ۔۔۔
"ڈانس کرو نہ ڈریکولا ۔۔۔۔۔۔
میں اکیلے کیسے كپل ڈانس کروں ؟
ہاں ؟؟؟؟؟"
سدرہ بولی
"چی است این آشغال ۔۔۔"
(یہ کیا بکواس ہے )
وہ فارسی زبان میں بولا
پھر وہ سدرہ کا ہاتھ پکڑے اس کو اندر لے جانے لگا ۔۔۔
سدرہ مسلسل کچھ نہ کچھ الٹا سیدھا بولتی جارہی تھی ۔۔۔۔
سراج نے اس کو بیڈ پر لا کر لٹا دیا تھا اور سدرہ یوں ہی بڑبڑاتے ہوۓ تھوڑی دیر بعد سو گئی ۔۔۔
***
سدرہ اگلے دن کی صبح کو اٹھی تھی اٹھنے کے بعد اس کو ٹھیک سے کچھ بھی یاد نہ رہا اور سراج نے بھی اس موضوع پر اس سے کوئی بات نہ کی تھی ۔۔۔
سارا دن سدرہ کے سر میں درد رہا تھا ۔۔
***
شام کا وقت تھا ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا روح کو تسکین بخش رہی تھی ۔۔سدرہ حسب عادت لان میں موجود تھی ۔۔۔جہاں خوبصورت پھول پودے لہلہا رہے تھے اور ہوا میں خوبصورت پرندے اڑتے دکھائی دے رہے تھے ۔۔۔سدرہ ہاتھ میں چاۓ کا کپ پکڑے ننگے پیر گھاس پر چہل قدمی کر رہی تھی ۔۔۔
آج وہ بزرگ ملازم اتنے دن بعد پھر پودوں کو پانی دینے باہر آئے تھے ۔۔۔سدرہ ان کے پاس چل دی ۔۔۔
"اسلام و علیکم با با جی "
"وعلیکم اسلام بیٹا "
وہ خوش دلی سے بولے ۔۔۔
"بابا جی مجھے آپ سے ایک بات پوچھنی تھی ؟"
"پوچھو بیٹا ؟"
"وہ یہ کہ اس دن جب میں نے آپ کو بتایا تھا کہ میں سراج کی بیوی ہوں تو آپ پریشان کیوں ہو گئے تھے ؟"
سدرہ کی اس بات پر بزرگ نے چپ سادھ لی ۔۔۔
"بتائیں نہ بابا ؟؟؟؟"
سدرہ نے زور دیا
"وہ اس لئے بیٹا کہ سراج صاحب جیسے انسان کے ساتھ رہنا بہت مشکل ہےبہت ہی زیادہ۔۔۔۔میں تمہارے لئے فکر مند ہوا تھا
خیر جس دن تمہیں ان کی سچائی پتہ لگے گی تم خود ہی ان کو چھوڑ جاؤ گی ۔۔"
"میں ان کی سچائی جانتی ہوں "
سدرہ گردن جھکا کر بولی ۔۔۔
اور سدرہ کی بات نے بزرگ کو چونکا کر رکھ دیا ۔۔۔
"بہت برے ہیں نہ سراج جانتی ہوں ؟؟؟ ؟"
سدرہ کی آنکھوں میں نمی چھلک گئی تھی ۔۔۔
"مگر ایک بات بتاؤں بابا ۔۔۔
میں نے اس برے شخص کے اندر ایک اچھے انسان کی جهلک بھی دیکھی ہے ۔۔۔۔جس کو شاید کوئی اور نہ دیکھ پاۓ گا ۔۔۔مگر میں دیکھ سکتی ہوں جانتے ہیں کیوں ؟؟؟
کیوں کہ میں نے سراج کے اندر کے اس اچھے انسان سے ہی تو محبت کی تھی۔ ان کی باقی کی تمام برائیاں تو میرے سامنے بعد میں آئیں ۔۔۔۔
مگر میں نے ان سے محبت کر لی تھی نہ تو کیا کرتی ۔۔۔
محبت کا تقاضہ تھا کہ سراج کو میں ان کی تمام تر برائیوں سمیت قبول کرتی اور میں نے وہی کیا ۔۔۔۔"
"کون برا کون اچھا بیٹی !
یہ دنیا بہت ظالم ہے یہاں کوئی بھی پیدائشی طور پر برا پیدا نہیں ہوتا زندگی اور حالت انسان کو برا بننے پر مجبور کر ڈالتے ہیں ۔۔۔۔جن کا ایمان پختہ ہوتا ہے وہ تو ہمیشہ صحیح راستہ ہی چنتے ہیں مگر کچھ لوگ برائی کے رستے پر چل پڑتے ہیں ۔۔۔
اور سراج صاحب بھی انھیں میں سے ایک ہیں ۔۔۔"
وہ بزرگ نہایت سنجیدگی سے بولے تھے ۔۔۔
اور سدرہ بڑے غور سے ان کی بات سن رہی تھی ۔
" کیا وہ پہلے ایسے نہ تھے ؟ "
سدرہ نے سوال کیا جس پر بزرگ نے اپنی گردن نفی میں ہلائی ۔۔
"پھر کیسے تھے ؟؟؟"
سدرہ کو تجسس ہوا
"چلو آج میں تمہیں سراج صاحب کے ماضی کے بارے میں بتاتا ہوں"۔۔۔


سراج صاحب بہت ہی چھوٹے تھے جب ان کی سگی ماں انتقال کر گئیں ۔۔۔مگر ان کی والدہ کی ایک کزن شاہینہ بھی ذولفقار صاحب سے محبت کرتی تھیں ۔۔۔ ذولفقار ہمارے بڑے صاحب یعنی کہ سراج صاحب کے والد تھے ۔۔۔۔وہ ایک بہت ہی شریف انسان تھے ۔۔۔۔
شاہینہ میڈم نے ان کو پہلی بار ان کی ہی پہلی شادی پر دیکھا تھا اور دل دے بیٹھیں ۔۔۔مگر تب کچھ نہ ہو سکتا تھا کیوں کہ صاحب پہلے ہی کسی اور کے ہو چکے تھے ۔۔۔۔
مگر پھر تین سال بعد خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ ذولفقار صاحب کی بیوی وفات پا گئیں ۔۔۔ان دنوں وہ بہت دکھی رہا کرتے تھے تب ان کو سہارا دینے والی شاہینہ میڈم ہی تھیں ۔۔۔انہوں نے صاحب کا بہت خیال رکھا اور ساتھ ساتھ چھوٹے صاحب کو بھی سگی ماں کی طرح سنبهال لیا
کچھ عرصہ بعد ذولفقار صاحب نے ان کی اسی محبت کو دیکھتے ہوۓ ان سے شادی کر لی ۔۔۔۔
شادی کہ بعد تو شاہینہ میڈم کی محبت اور توجہ میں مزید اضافہ ہوتا گیا ۔۔۔وقت کے ساتھ ساتھ ذولفقار صاحب ٹھیک ہوتے گئے اور زندگی کی طرف لوٹ آئے ۔۔
اب وہ شاہینہ میڈم سے بیحد محبت کرنے لگے اور ان کو بہت مانتے تھے ایک ہی سال بعد ان کے ہاں ایک بیٹا ہو گیا ۔۔۔جس کا نام انہوں نے فواد رکھا ۔۔۔۔فواد صاحب سراج صاحب سے تین سال چھوٹے تھے ۔۔۔
خود ماں بن جانے کے بعد بھی شاہینہ میڈم کا پیار سراج صاحب کے لئے ذرا کم نہ ہوا ۔۔۔سراج صاحب بھی ان سے بہت محبت کرتے انہوں نے اپنی ماں کو تو دیکھا نہ تھا وہ شاہینہ میڈم کو اپنی سگی ماں سے بھی بڑھ کر مانتے ۔۔۔۔۔یوں ہی ہنسی خوشی زندگی کے پندره سال بیت گئے ۔۔۔اب سراج صاحب 18جب کہ فواد صاحب 15سال کے تھے سراج صاحب بہت ہی ذہین اور زمہ دار تھے مگر فواد صاحب نہ تو پڑھائی میں اچھے تھے اور ویسے بھی فضول خرچ قسم کے اور نہایت ہی غیر ذمہ دار تھے سراج صاحب ان کو اکثر سمجھایا کرتے تھے مگر ان پر کسی کی بھی بات کا کوئی اثر نہ ہوتا ۔۔۔۔
ذولفقار صاحب ایک کامیاب بزنس مین تھے ۔۔۔۔ان کو اپنے بڑے بیٹے سراج پر بہت مان تھا کہ وہی ان کے بعد ان کے کاروبار کو سنبهال لے گا مگر فواد صاحب کے لئے وہ ہمیشہ فکر مند رہتے تھے ۔۔۔۔
(16 سال پہلے )
سراج بیٹا تمہارا آج کا پیپر کیسا رہا ؟؟
سب لوگ میز پر بیٹھے مل کر کھانا کھا رہے تھے تو ذولفقار حیدر نے اپنے بیٹے سراج سے پوچھا ۔۔۔۔
آج سراج کا پیپر تھا ۔۔
"بہت اچھا بابا ۔۔۔"
سراج نے مسکراتے ہوۓ نوالہ منہ میں ڈالتے بولا
"امی مجھے بریانی دیں "
فواد بولا تو شاہینہ نے بریانی کی ڈش اس کی طرف بڑھا دی ۔۔۔
"ہاں کھا کھا تو ۔۔۔۔
اورمزید موٹا ہو جا کوئی لڑکی بھی نہیں دے گا تجھے پھر اپنی "
سراج نے فواد کو چھیڑا ۔۔۔
فواد ذرا صحتمند تھا تب ہی اکثر سراج اس کو پیار پیار میں تنگ کرتا رہتا تھا ۔۔۔۔
اور فواد بہت چڑتا تھا ۔۔۔
"امی دیکھ لیں بھائی کو ۔۔۔۔۔۔۔"
فواد تپ کر بولا تھا جس پر سب ہنسنے لگے تو فواد غصے سے اٹھ کھڑا ہوا اور کھانا بیچ میں ہی چھوڑے اپنے کمرے میں چل دیا۔۔
"کیا سراج تم بھی نہ کیوں تنگ کرتے رہتے ہو اس کو ۔۔۔۔؟دیکھا نہ اب کھانا چھوڑ کر چلا گیا "
ذولفقار صاحب بولے ۔۔۔۔
"آپ فکر نہ کریں بابا میں منالوں گا اس کو ۔۔"
یہ کہتا سراج اپنا اور فواد کا کھانا اٹھاۓ اس کے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔
سراج اندر داخل ہوا تو فواد منہ پھلائے بیٹھا تھا ۔۔۔سراج بھی اس کے ساتھ بیڈ پر بیٹھ گیا ۔۔۔
"کھانے پر کیسا غصہ ہاں ؟"
مگر فواد نے کوئی جواب نہ دیا ۔۔۔
"اچھا بابا سوری ۔۔۔!
مگر اب کھانا کھا لے اگر تو نہیں کھاۓ گا تو میرے گلے سے بھی نوالہ نہیں اترے گا جانتا ہے نہ ؟؟۔۔۔۔
دیکھ فواد میں تجھ سے بہت پیار کرتا ہوں تب ہی تو تجھے پیار سے چھیڑتا ہوں لیکن تجھے پسند نہیں تو آج کے بعد میں ایسا نہیں کروں گا ۔۔۔۔"
سراج کے منانے پر فواد کا دل پگھل گیا ۔۔۔
"سوری مت کریں بھائی آپ بڑے ہیں ۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے میں کھانا کھا لیتا مگر آپ بھی میرے ساتھ کھائیں ۔۔۔"
"ضرور کیوں نہیں ۔۔۔
موٹے ۔۔۔۔"
سراج نے ایک بار پھر اس کو ہنستے ہوۓ چھیڑا مگر اس بار فواد خود بھی ہنس دیا اور دونوں مل کر کھانا کھانے لگے۔۔
کھانا کھانے کے بعد سراج اپنے کمرے میں آگیا تھا وہ اپنے اگلے پرچہ کی تیاری کرنے میں مگن تھا کہ دروازے کی گھنٹی بجی تھی ۔۔۔۔
ذولفقار صاحب دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد واپس آفس چلے گئے تھے اور شاہینہ اپنے کمرے میں سو رہی تھی ۔۔۔فواد حسب عادت کانوں میں ہیڈ فون لگائے میوزک سننے میں لگا تھا
کافی دیر ہو گئی مگر کسی نے دروازہ نہ کھولا تو سراج خود اٹھ کر در وازه کھولنے چل دیا ۔۔۔
جب سراج نے دروازه کھولا تو سامنے ایک دوشیزہ کھڑی تھی جو لگ بھگ سراج ہی کی ہم عمر تھی ۔۔۔سراج کو وہ پہلی نظر میں ہی بہت بھائی ۔۔۔۔
وہ یک ٹک اسے دیکھے جا رہا تھا ۔۔۔
"ہیلو !"
اس لڑکی کی آواز پر سراج ہوش میں آیا تھا ۔۔
"ج جی ۔۔۔آپ کون "
"میں آپ کی نیو نیبر ہوں ۔۔۔ہم لوگ کل ہی شفٹ ہوۓ ہیں ۔۔۔میں نے آج کھیر بنائی تھی تو سوچا ہمسائیگی کا حق ادا کر دوں تو بس ۔۔۔۔
لے آئی آپ لوگوں کے لئے بھی سوچا اسی بہانے اپنے پڑوسیوں سے ملاقات بھی ہو جاۓ گی ۔۔۔"
"اہ اچھا کیا آپ نے ۔۔۔۔"
سراج خوش دلی سے بولا ۔۔۔
"اندر نہیں بلائیں گے ؟؟"
"جی ضرور ۔۔۔۔آئیں نہ آپ ۔۔۔"
سراج نے اس کو راستہ دیا تو وہ اندر آگئی اب سراج اس کو ڈرائینگ روم میں لے آیا ۔۔۔۔
در اصل اس نے کل ہی سراج کو اس کے کمرے کے ٹیرس پر دیکھ لیا تھا سراج کا کمرہ بالائی منزل پر تھا ۔۔۔
اور اس کو بھی سراج پہلی ہی نظر میں بھایا تھا ۔۔۔
آج اس کے یہاں آنے کا اصل مقصد بھی یہی تھا ۔۔
"آپ بیٹھیں میں امی کو جگاتا ہوں "
سراج اس کو ڈرائیںنگ روم میں بٹھا نے کے بعد بولا ۔۔۔
"ارے نہیں اگر آنٹی جی سو رہی ہیں تو ان کو سونے دیں ۔۔
ویسے آپ کا نام کیا ہے ؟؟اور کون کون ہے آپ کے گھر میں "
وہ جو چاہتی تھی اس کو مل گیا ۔۔سراج سے بات کرنے کا موقع ۔۔۔چاہ تو سراج بھی یہی رہا تھا تب ہی اس کے ایک بار منع کرنے پر ہی بیٹھ گیا ۔۔۔
"میرا نام سراج ہے
اور ہمارے گھر میں
میں ، امی بابا اور میرا چھوٹا بھائی رہتے ہیں بس ۔۔۔"
"گڈ "
"آپ کا نام کیا ہے ؟؟"
سراج بولا
"حرا ۔۔۔۔"
"بہت پیارا نام ہے۔۔
بلکل آپ کی طرح "
آخری الفاظ بے ساختہ ہی سراج کے منہ سے نکل گئے تھے ۔۔۔
"جی ؟؟؟؟؟"
جس پر حرا نے حیران ہونے کی ادا کاری کی مگر اس کے دل میں لڈو پھوٹ گئے تھے ۔۔
"اہ۔۔ وہ
۔۔۔ یہ ۔۔۔۔
کچھ نہیں
سوری "
سراج سٹپٹا گیا ۔۔۔جس پر حرا زور سے ہنسی اس کو ہنستا دیکھ سراج کو بھی ہمت ملی تھی تو وہ بھی ہنس دیا
باتوں کا سلسلہ پورے دو گھنٹے تک چلتا رہا حالانکہ یہ ان کی پہلی ملاقات تھی مگر اس پہلی ملاقات میں ہی دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ایسے گھل مل گئے جیسے صدیوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں اور ایک دوسرے ہی کے لئے بنے ہوں ۔۔۔
"اچھا ٹھیک ہے سراج میں چلتی ہوں مغرب ہو رہی ہے ورنہ امی مجھے ڈانٹیں گی ۔۔۔۔"
حرا جانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی سراج کا دل بلکل نہ چاہ رہا تھا کہ وہ جاۓ مگر وہ کیا کر سکتا تھا ۔۔۔
"ٹھیک ہے ۔۔۔خیال رکھنا اپنا ۔۔۔"
وہ مسكراکر بولا ۔۔۔
حرا کے چلے جانے کے بعد بھی سراج اسی کے خیال میں کھو سا گیا ۔۔۔۔
وہ رات اس نے ساری جاگ کر گزاری تھی ۔۔۔
پرچہ کی تیاری بھی ٹھیک سے نہ كرسكا تھا مگر پھر بھی اس کا پرچہ اچھا ہی گیا تھا ۔۔۔
سراج اب بیچین رہنے لگا تھا بس ہر وقت حرا کو ہی سوچتا ۔۔اور اس کی ایک جهلک دیکھنے کو بے تاب رہتا تھا ۔۔۔
دوسری طرف حرا کا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا ۔۔
دونوں کا پہلا پیار تھا ۔۔۔جو سر چڑھ کر بول رہا تھا ۔۔
اور کچھ دن بعد دونوں فریقین میں اظہار محبت ہوہی گیا ۔۔
اب تو ہر گزرتا لمحہ دونوں کی چاہت کو طول دینے لگا تھا ۔۔۔سراج خود سے زیادہ حرا کو چاہنے لگا وہ اس کی کچھ پل کی دوری بھی برداشت نہ کر پاتا تھا اور حرا کی ذرا سی تکلیف پر تڑپ اٹھتا ۔۔حرا بھی اس کو بیحد چاہتی ۔۔غرض دونوں کا عشق اپنے جوبن پر تھا ۔۔
***
سراج اپنی امی کی گود میں سر رکھے لیٹا تھا اور وہ پیار سے اس کے بال سہلا رہی تھیں ۔۔
اتنی دیر میں فواد بھی وہاں آگیا ۔۔
"امی ۔۔۔مجھے پانچ ہزار چاہیے ہیں آج مجھے اپنے دوستوں کو ٹریٹ دینی ہے ۔۔۔"
"ایک روپیہ بھی نہیں ملے گا تمہیں بہت فضول خرچ ہوتے جا رہے "
شاہینہ بولی ۔۔
"امی ؟؟؟ کیوں ہمارے پاس پیسے کی کوئی کمی ہے کیا جو مجھے اتنی منت کرنی پڑتی آپ کی ۔۔۔۔"
فواد کے بات کرنے کا انداز بہت برا تھا جس پر شاہینہ دکھی ہونے لگی تھیں ۔۔۔اب سراج اٹھ کر بیٹھ گیا تھا ۔۔۔
"یہ کیسے بات کر رہے ہو تم امی سے ۔۔۔ماں کا کوئی احترام نہیں رہا تمہیں ؟"
سراج غصے سے بولا ۔۔۔
وہ اپنی ماں یعنی شاہینہ سے بے انتہا محبت کرتا تھا ۔۔اور ان کو ذرا سا بھی دکھی نہ دیکھ سکتا تھا ۔۔۔
"تو اور کیا کروں بھائی ؟؟
پیسہ میرے باپ کا ہے جس پر ناگن بن کر یہ بیٹھ گئی ہیں "
فواد منہ بناتے بولا ۔۔
سراج نے اس کے منہ پر ایک زور دار تھپڑ رسید کر دیا ۔۔۔
جس پر فواد غصے سے لال پیلا ہونے لگا ۔۔
"معافی مانگ امی سے ۔۔۔۔
مانگ ۔۔۔۔"
سراج دهاڑا ۔۔۔
فواد کی آنکھوں میں اب آنسو آ چکے تھے اور وہ بنا کچھ بولے وہاں سے چل دیا ۔۔۔تو سراج اپنی والدہ کے پاس آیا
"امی آپ ایسے دکھی نہ ہوں چھوٹا ہے ابھی اس لئے ایسا کہہ گیا آیندہ نہیں کرے گا وہ ایسا یہ میرا وعدہ ہے آپ سے "
سراج شاہینہ کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوۓ نرمی سے بولا جو فواد کے لہجہ کی وجہ سے دکھی ہوئی بیٹھی تھیں ۔۔۔۔
***
سراج رات 11 بجے کہیں باہر سے اپنے گھر لوٹا تھا۔۔وہ اندر جانے لگا تو اس کو سرونٹ کوارٹر سے کسی کے کرا ہنے کی آواز سنائی دی ۔۔۔
اب اس نے اپنے قدم اندر جانے کی بجاۓ سرونٹ کوارٹر کی طرف بڑھا دیے ۔۔۔
وہاں وہی بزرگ مالی تیز بخار میں تپ رہے تھے ۔۔۔اس وقت ان کی عمر 60 برس ہوگی
سراج تیزی سے ان کے قریب گیا ۔۔
"کیا ہوا انکل آپ کو طبیعت ٹھیک نہیں ؟"
سراج فکرمندی سے بولا ۔۔
"جسم بہت دکھ رہا ہے بیٹے "
وہ بزرگ بمشکل ہی بول پاۓ ۔۔۔
جس پر سراج نے ان کے ماتھے کو چھوا
"آپ کو تو کافی تیز بخار ہے "
یہ کہہ کر سراج ڈاکٹر کو کال ملانے لگا اور کچھ ہی دیر میں ڈاکٹر وہاں موجود تھا ۔۔۔
ڈاکٹر نے بابا جی کو ڈرپ لگا دی تھی جس سے ان کا بخار کچھ کم ہوا اور کچھ دوائیاں لکھ دیں جن کو سراج اسی وقت بازار جا کر لے آیا تھا اور بابا جی کو کھلا بھی دیں تھی ۔۔
ان کو دوا کھلانے کے بعد سراج اب ان کا جسم دبانے لگا جیسے ہی سراج نے دبانے کی خاطر ان کی ٹانگ کو چھوا تو وہ بزرگ اٹھ بیٹھے ۔۔
"یہ کیا کر رہے ہیں صاحب آپ ۔۔مالک ہو کر نوکر کی اتنی خدمت مجھے شرمنده نہ کریں آپ نے جو کیا وہ پہلے ہی کافی ہے "
"کیسی بات کر رہے ہیں انکل ؟
میں مالک نہیں ہوں مالک تو اللّه ہے ہم سب کا ۔۔۔اور ویسے بھی آپ مجھ سے بڑے ہیں اگر میں آپ کی خدمت کر بھی لوں گا تو میری عزت میں کمی نہیں آجاے گی ۔۔"
سراج نہایت عاجزی سے بولا
"مگر بیٹا ۔۔۔۔"
"مگر کچھ بھی نہیں آپ لیٹ جائیں آپ کو بہت کمزوری ہے "
اور چارو ناچار ان کو لیٹنا پڑا ۔۔۔
سراج نے ساری رات ان کی خدمت میں گزاری صبح جب ان کی طبیعت کچھ بہتر ہوئی تو سراج اپنے کمرے میں آگیا تھا وہ بس ایک نظر ہی کتاب پر ڈال پایا پھر سو گیا
***
"جانتی ہو مجھے آج کے پیپر کے لئے ریویژن کا موقع ہی نہیں ملا تھا مگر پھر بھی بہت اچھا ہو گیا پیپر شکر اللّه کا "
سراج حرا سے بولا ۔۔۔
وہ دونوں شام کے وقت کسی پارک میں ملنے کی غرض سے بیٹھے تھے ۔۔۔
"واو ۔۔یہ تو بہت اچھی بات ہے ۔۔۔
سراج ۔۔۔میرا کل میتھس کا ٹیسٹ ہے اور تم تو جانتے ہو کہ مجھے میتھ بلکل سمجھ نہیں آتی پلیز میری تھوڑی ہیلپ کر دینا "
"بلکل کر دیں گے اور کوئی حکم میری جان کا ؟؟"
سراج محبت سے بولا
"نہیں "
حرا نے جواب دیا تھا
"میں ہیلپ کر دوں گا مگر تمہیں میری ایک بات ماننی ہو گی وہ یہ کہ تم رات بھر جاگ کر نہیں پڑھو گی اور کھانا ٹھیک سے کھاؤ گی ایسی کوئی حرکت مت کرنا جیسی تم نے پچھلی بار کی تھی ۔۔
رات کی نیند پوری کرو گی سمجھی ؟"
سراج اس پر پیار سے حق جتاتے بولا ۔۔
"اچھا اچھا اچھا ۔۔۔۔
نہیں جاگوں گی اور کھانا بھی کھاؤں گی بس "
"همم حرا "
سراج نے کھوئی کھوئی سی آواز سے اس کو پكارا ۔۔
"ہاں "
حرا بولی ۔۔
"کتنا حسین ہو گا نہ وہ دن جس دن تم ہمیشہ ہمیشہ کے لئے میری ہو کر میرے گھر آجاؤ گی ۔۔۔
بہت پیار دوں گا میں تمہیں دیکھنا ۔۔۔
پھر ہمارے بچے ہونگے چھوٹے چھوٹے سات آٹھ ۔۔"
"سات آٹھ ۔۔۔۔!!!جی نہیں !!!"
حرا نے حیرت سے آنکھیں پھیلا کر بولا ۔۔۔
جس پر سراج نے ایک زور دار قہقہہ لگا یا تھا
وہ دونوں کافی دیر یوں ہی باتیں کرتے رہے تھے
***
یوں ہی ہنسی خوشی زندگی کے تین سال اور بیت گئے اور وقت کا پتہ ہی نہ چلا ۔۔۔
سراج کی زندگی میں دکھ نام کی کوئی شئے نہ تھی اس کے لئے تو زندگی جنت تھی ۔۔۔مگر وہ یہ نہ جانتا تھا کہ خوشیوں کی ان خاموش لہروں تلے دکھ کا ایک طوفان چھپا بیٹھا ہے ۔۔۔جو بہت جلد ظاہر ہو کر اس کی خوشیوں بھری زندگی کو تہس نہس کرنے والا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سراج کی آنکھ گھر میں ہونے والے شور شرابے سے کھلی تھی ۔۔۔
وہ رات گھر دیر سے آیا تھا تب ہی دوپہر تک سو رہا تھا
شور کی آواز سن کر وہ بھاگتے ہوۓ اپنے کمرے سے باہر آیا ۔۔۔
تو کیا دیکھتا ہے گھر میں کسی کا جنازہ موجود تھا ۔۔یہ دیکھتے ہی سراج کی جان نکل گئی ۔۔۔
سامنے شاہینہ بیٹھی ماتم کر رہی تھیں اور فواد بھی زور زور سے رو رہا تھا ۔۔۔
آس پڑوس کے کچھ لوگ بھی آگئے تھے ۔۔سراج بے جان قدموں سے چلتا میت کے قریب آیا اور میت کے چہرے پر سے چادر ہٹائی تو معلوم ہوا وہ جنازہ اس کے والد کا تھا جو ایک سڑک حادثے میں انتقال کر گئے تھے ۔۔۔
سراج کو ایک دھچکا لگا اور وہ گھٹنوں کے بل وہیں بیٹھ گیا اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے ۔۔۔مگر پھر کچھ دیر تک وہ خود کو بڑی مشکل سے سنبهالتا ہوا اپنی ماں اور بھائی کو حوصلہ دینے لگا ۔۔۔
اور پھر کفن دفن میں لگ گیا ۔۔۔۔
سراج کے بابا کی تدفین ہو چکی تھی رات کا وقت تھا وہ آج خود کو بے سہارا اور بہت تنہا محسوس کر رہا تھا مگر اس کو مضبوط رہنا تھا اپنی ماں اور بھائی کی خاطر اور اس نے ایسا ہی کیا
***
آج اس کے والد کی وفات کو پورا ایک ماہ ہو چکا تھا ۔۔
اب آفس میں اپنے بابا کی جگہ سراج نے سنبهال لی تھی حالانکہ ابھی وہ صرف 21برس کا ہی تھا مگر اپنی زہانت کے بلبوتے وہ بہت جلد ہر چیز سیكهتا جا رہا تھا ۔۔۔
وہ اپنے کمرے میں بیٹھا اپنے بابا کو یاد کر رہا تھا کہ شاہینہ کمرے میں داخل ہوئی ۔۔۔
"کیسا ہے میرا بیٹا کیا سوچ رہا ہے ؟"
اپنی امی کو دیکھ کر سراج نے جلدی سے اپنے آنسو صاف کئے وہ یہ سمجھتا تھا کہ اگر وہ ہی کمزور پڑ جاۓ گا تو امی اور فواد بلکل ہمت ہار جائیں گے تب ہی اپنے آنسو چھپا گیا ۔۔۔
"ٹھیک ہوں امی آپ کیسی ہیں ؟"
"میں بس کیسی ہوں رہنے ہی دو بیٹا اس سوال کو تو ۔۔
در اصل میں یہاں ایک کام سے آئی تھی "
"کیا کام امی؟"
"وہ یہ کہ بیٹا تمہارے بابا کی جو بھی جتنی بھی جائیداد ہے میں چاہتی ہوں سب میرے نام ہو جاۓ وہ اس لئے کہ ان کے چلے جانے کے بعد اب تم دونوں ہی میری دنیا ہو اور میں یہ بلکل نہیں چاہتی کہ کل کو اس پیسہ جائیداد کو لے کر تم دونوں بھائی کبھی الگ ہو جاؤ۔۔۔
میں ہمیشہ تم دونوں کو ساتھ دیکھنا چاہتی ہوں بس اب یہی ایک خواہش رہ گئی ہے میری "
شاہینہ نم آنکھوں سے بولی
"امی ہم کبھی الگ نہیں ہوں گے آپ بلکل فکر نہ کریں اور کیا فرق پڑتا ہے کہ یہ سب کچھ کس کے نام ہے ہے تو ہم سب کا ہی نہ "
"ہاں بیٹا مگر تو اپنی ماں کی تسلی کے لئے اتنا بھی نہیں کر سکتا ؟"
"امی آپ حکم کریں بس سراج تو اپنی جان بھی قربان کرنے کو تیار ہے آپ پر ٹھیک ہے آپ جیسا چاہتی ویسا ہی ہو گا "
سراج ادب سے بولا اور شاہینہ نے محبت سے اس کا ماتھا چوم لیا ۔۔
***
آج سراج دفتر کے کام کے سلسلے میں شہر سے باہر گیا ہوا تھا جب وہ لوٹا تو اس کے گھر پر بڑا سا تالا لگا تھا ۔۔۔یہ دیکھ سراج بہت پریشان ہوا اس نے جلدی سے شاہینہ کو کال ملائی مگر دوسری طرف سے کسی نے نہ اٹھائی ۔۔۔
سراج کو سمجھ ہی نہ آ رہی تھی کہ یہ سب ہوا کیا ہے اور ایسے میں وہ کرے تو کیا کرے ۔۔۔۔
پورا هفتہ وہ اپنی ماں اور بھائی کی تلاش میں سڑکوں پر بھٹکتا رہا ۔۔۔۔اس کا روز کا یہی معمول تھا سارا دن ان دونوں کو تلاش کرتا اور رات کو اپنے گھر کے سامنے موجود پارک کے بینچ پر سو جاتا وہ اپنی ماں کے بغیر کچھ پل نہ رہ سکتا تھا وہ تو خود سے ہی بیگانہ ہو کر رہ گیا تھا اتنے دن سے آفس بھی نہ گیا تھا ۔۔۔وہ رو رو کر اپنے ماں اور بھائی کے مل جانے کی دعائیں مانگتا ۔۔پھر ایک دن اس کی دعا قبول ہو ہی گئی
آج اس کے ایک پڑوسی نے اس کو بتایا کہ شاہینہ تو یہ گھر بیچ کر جا چکی ہے اور جہاں گئی ہے وہاں کا پتہ بھی دیا ۔۔
در اصل وہ پڑوسی کچھ عرصہ کے لئے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ گھومنے گیا تھا اور آج جب وہ لوٹا تو اس کی ملاقات سراج سے ہوگئی تب اس نے سراج کو اس حقیقت سے آگاہ کیا۔۔۔وہ یہ سب اس لئے جانتا تھا کیوں کہ یہ گھر شاہینہ سے خریدنے والا اس کا ہی کوئی رشتہ دار تھا
سراج کو پڑوسی کی بات پر بلکل یقین نہ ہوا ۔۔وہ یہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اس کی ماں یا بھائی اس کو بنا بتاۓ کوئی اتنا بڑا فیصلہ لے سکتے ہیں ۔۔۔
اور اگر یہ فیصلہ کر بھی لیا تھا تو اس کو اکیلا چھوڑ کر نہیں جا سکتے ۔۔۔ سراج کے ذہن میں ہزاروں سوال گر دش کرنے لگے تھے جن کا جواب حاصل کرنے کے لئے وہ ایک لمحہ کی بھی دیر کئے بنا پڑوسی کے بتاۓ پتے پر پہنچ گیا جو یہاں سے کافی دور تھا ۔۔۔
سراج اب ایک بنگلے کے سامنے کھڑا تھا اس نے وہاں پہنچتے ہی پاگلوں کی طرح دروازہ پیٹ دیا ۔۔۔جس پر چوکیدار نے اس کے ساتھ بد کلامی بھی کی ۔۔۔مگر اس کو کسی کی کوئی بات کا اثر نہ ہورہا تھا وہ تو بس بہت جلد اپنی ماں سے ملنے کے لئے پاگل ہو رہا تھا ۔۔۔۔
"ارے کون ہے ؟؟"
شاہینہ بنی ٹھنی وہاں آئی اور چوکی دار سے سوال کیا ۔۔۔
شاہینہ کو واقعی وہاں پا کر سراج کا دماغ شل ہونے لگا
"پتہ نہیں کون جاہل ہے میڈم پاگل لگ رہا مجھے تو کوئی
آپ سے ملنے کا کہہ رہا ہے ۔۔۔"
چوکی دار بولا ۔۔
"اہ آنے دو اس کو اندر "
شاہینہ نے جب سراج کو دیکھا تو اترا کر بولی ۔۔۔جس پر چوکی دار نے سراج کا راستہ چھوڑ دیا تو ووہ بھاگ کر شاہینہ کے پاس آیا ۔۔۔
"امی ۔۔۔
کیا ہے یہ سب ؟؟
آپ لوگ یہاں اور وہ بھی مجھے بنا بتائے میں نے کہاں کہاں نہ ڈھونڈا آپ دونوں کو نہ سو پایا ٹھیک سے نہ کھا پایا ۔۔۔"
سراج ایک ہی سانس میں سب کچھ بولتا گیا ۔۔
"ایک منٹ ۔۔۔"
شاہینہ نے اس کو طنزیہ انداز سے ٹوکا
"سب سے پہلی بات کہ میں تمہاری ماں نہیں ہوں ۔۔۔مجھے امی مت بلانا دو بارہ ۔۔۔تمہاری ماں تو وہ ناگن شبانہ تھی جس نے مجھ سے میری محبت کو چھینا تھا ۔۔۔۔
مگر پھر میں نے بھی اس کو زہر دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا تب بھی میرا بدلہ پورا نہ ہوا تھا تو میں نے وہ بدلہ تم سے لینے کا سوچا اور ساری زندگی ذولفقار کے سامنے تمہیں پیار دینے کا ناٹک کرتی رہی مگر آج جب وہ نہیں رہے تو دکھاوا کس بات کا میرا صرف ایک ہی بیٹا ہے وہ ہے فواد اور جہاں تک میرا خیال ہے ایک ناگن کا بیٹا بھی ناگ ہی ہوتا ہے ۔۔۔
اور ہاں اب ذولفقار کی ساری جائیداد کا وارث میرا فواد ہے ۔۔۔شبانہ نے مجھ سے میری محبت کو چھینا تھا نہ اور آج میں نے اس کے بیٹے کو بھی تکلیف کے ایسے مقا م پر ہی لا کھڑا کیا ہے اس دن میں بھی ایسا ہی محسوس کر رہی تھی جیسا کہ آج تم کر رہے ۔۔۔۔تمہارے چہرے پر یہ ازيت کے آثار دیکھ کر میں آج بہت خوش ہوں میری سالوں کی محنت کے بعد آج مجھے وہ دن دیکھنا نصیب ہو ہی گیا جس کا میں نے اتنے سالوں سے انتظار کیا تھا ۔۔۔
ہنہہ ! آج اس شبانہ کی روح بہت تڑپی ہو گی اپنے لال کی یہ حالت دیکھ کر ۔۔۔
ہا ہا ہا ۔۔۔۔
آج میرے اندر کی اس آگ کو ٹھنڈ پہنچی ہے "
شاہینہ کا ایک ایک لفظ سراج کے اوپر تیزاب کا کام کرہا تھا اس کو اس پل یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے اس کے بدن سے لہو کا ایک ایک قطرہ نکال لیا ہو ۔۔اب تو اس کا دماغ کام کرنا چھوڑ گیا تھا اس کو شاہینہ کے ہونٹ تو ہلتے دکھائی دے رہے تھے مگر اس کی آواز سراج کے ذہن تک نہ پہنچ رہی تھی یہ ایک شدید دھچکا تھا ۔۔۔
"بہتر ہو گا نکل جاؤ یہاں سے تم ۔۔"
سراج اب اپنا سر پکڑے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور اس نے اپنے دونوں کان ہاتھوں کی مدد سے بند کر دیے وہ ایسا محسوس کر رہا تھا جیسے اگر وہ شاہینہ کے منہ سے نکلے زہریلے الفاظ کچھ دیر اور سن لے گا تو اس کی دماغ کی نسیں پھٹ جائیں گی ۔۔۔
اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی تھی
سراج کو اپنے کانوں پر یقین نہ ہو رہا تھا ۔۔۔ایک بار وہ ہمت جمع کر کے اٹھا اور کپکپاتی آواز سے گویا ہوا
"نہیں امی آپ جھوٹ بول رہی ہیں نہ ؟
آپ ایسا نہیں کر سکتی میرے ساتھ جھوٹ بول رہی ہیں آپ ۔۔اور فواد ۔۔۔
فواد کہاں ہے ۔۔۔۔"
یہ کہتا سراج پاگلوں کی طرح پورے گھر میں فواد کو آوازیں دینے لگا تھوڑی ہی دیر میں فواد بھی وہاں آ گیا ۔۔۔۔
مگر اس کے تیور بھی بدلے ہوۓ تھے ۔۔
فواد کو دیکھتے ہی سراج اس کی طرف لپكا اور اس کو بازؤں سے پکڑ کر بولا
"فواد دیکھ ۔۔
دیکھ نہ امی کو کیا ہو گیا ہے کیسی باتیں کر رہی جیسے میں کوئی پرایا ہوں
دیکھ نہ ۔۔
دیکھ فواد امی کو سمجھا بول امی سے کہ میں یہ سب برداشت نہیں کر پا رہا میرے ساتھ یہ گندہ مذاق کرنا بند کریں بول فواد "
سراج روتے ہوۓ بولا ۔۔۔
"میں کیا کر سکتا ہوں ۔۔۔۔ویسے آپ جیسے لوگوں کے ساتھ ہونا یہی چاہیے ہمیشہ میرا حق مارا ہے آپ نے اسکول میں کالج میں گھر میں ہر جگہ بس
سراج۔۔۔۔۔
سراج ۔۔۔۔
سراج ۔۔۔
آپ ہی کے گن گاۓ جاتے تھے اور میں ؟؟؟؟
میں کچھ نہ تھا کسی کے لئے بھی ؟؟؟
جب میرے ساتھ یہ نہ انصافی ہو رہی تھی تو تب آپ کو یاد نہیں آیا تھا کہ میں بھائی ہوں آپ کا اور آج جب آپ کے ہاتھ میں ایک روپیہ بھی نہ رہا تو چلے آے بھائی سے محبت جتانے "
یہ کہتا فواد وہاں سے چل دیا ۔۔
"تم سیدھی طرح جاتے ہو کہ گارڈز کو بلاؤں ؟؟"
شاہینہ تلخ لہجہ میں بولی ۔۔۔
جب کہ سراج اتنا بری طرح ٹو ٹا کہ اس سے ایک لفظ بھی بولا نہ جا رہا تھا ۔۔
وہ بس شاہینہ کی طرف دیکھے باقاعدہ چھوٹے بچوں کی طرح دهاڑیں مار مار کر رونے لگا ۔۔۔
اور اس بے رحم حاسد عورت کو اس کی آہوں اور سسکیوں سے تسکین ملنے لگی ۔۔۔
کچھ دیر اس نے وہیں کھڑے سراج کی حالت سے لطف اٹھایا اور پھر گارڈز کو بلوا کر سراج کو دھکے مار مار کر گھر سے نکال باہر کیا ۔۔

 خونی شیطان ( قسط نمبر 8)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں



Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں