آرزو عشق - سیزن 1 (چھٹا حصہ)

Urdu Stories

آرزو عشق - سیزن 1 (چھٹا حصہ)

جن اور انسانی لڑکی کی محبت


کانوں میں پڑتی پیانو کی آواز پر اس نے ایک جھٹکے سے آنکھیں کھولیں ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا بس اوپری کھڑکی سے آتی چاند کی مدہم سی روشنی تھی۔ جس سے آنکھیں مانوس ہونے کی کوشش کر رہی تھیں۔ اس نے ارد گرد دیکھا کمرہ ہر شے سے خالی تھا۔ جبکہ وہ خود فرش پر دیوار سے ٹیک لگائے نیم دراز تھی۔ وہ کہاں تھی؟ یہ اس کا کمرہ تو نہیں تھا؟ وہ ایک جھٹکے سے سیدھی ہوئی۔ کانوں میں مسلسل پیانو بجانے کی آواز آ رہی تھی۔
" کون ہے؟ "
وہ کہتے ہوئے دیوار کا سہارا لے کر اُٹھی اور کمرے سے باہر نکل کر راہداری میں چلنے لگی۔
" یہ پیانو کون بجا رہا ہے؟ کون ہے؟ "

وہ جیسے جیسے آگے بڑھتی جا رہی تھی پیانو بجنے کی آواز بھی اونچی ہوتی جا رہی تھی۔ کانوں کو پھاڑ دینے والی آواز۔ اوپر سے اندھیرے کے باعث کچھ نظر بھی نہیں آ رہا تھا کہ اچانک وہ رکی۔۔۔

ارد گرد ہلکی ہلکی سی روشنی پھیلنے لگی تھی۔ تبھی اس نے نظریں اُٹھا کر سامنے دیکھا بڑے سے ہال کے بیچوں بیچ کوئی چھوٹے سے سٹول پر بیٹھا پیانو بجا رہا تھا۔ اس کے عین اوپر بڑا سا فانوس لٹک رہا تھا جس سے ہلکی ہلکی سی روشنی نکل کر ہال میں پھیل رہی تھی۔ خاطره نے اس کا چہرہ دیکھنا چاہا جو نیم رخ ہونے کے باعث واضح طور پر دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
" کون ہے؟ "
اس کی آواز پہ پیانو پر چلتی انگلیاں ایک دم ساکت ہوئی تھیں۔ زرا کا زرا چہرہ موڑ کر خاطره کی طرف دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ وہ اُٹھ کر دھیرے دھیرے قدم بڑھاتا اس کے پاس آیا۔
خاطره اس کے چہرے کو دیکھنے لگی۔ جسے آنکھوں پر لگے ماسک نے آدھا چھپا دیا تھا۔
" کون ہو۔۔۔ "

ابھی خاطره کی زبان سے لفظ ٹھیک سے ادا بھی نہ ہوئے تھے کہ سامنے کھڑے شخص نے اس کے سامنے اپنی ہتھیلی پھیلا دی۔ ایک ٹرانس کی کیفیت میں خاطره نے اپنا ہاتھ اس کی پھیلی ہتھیلی پر رکھا۔ جسے تھامتے ہی وہ اسے ہال کے بیچوں بیچ لاکر اب قدم سے قدم ملاتا ڈانس کرنے لگا تھا۔ جبکہ وہ اس کی ماسک کے پیچھے چھپی آگ رنگ آنکھوں کو دیکھ رہی تھی کہ اچانک سامنے کھڑے شخص کے ہونٹوں پر پُراسرار سی مسکراہٹ پھیلی جس کے ساتھ ہی وہ دھیرے دھیرے خاطره کے چہرے پر جھکتا چلا گیا کہ تبھی ایک جھٹکے سے اس کی آنکھ کھلی۔ پورے کمرے میں نائٹ بلب کی نیلگوں سی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ وہ اُٹھ بیٹھی۔
" یہ کیسا بیہودہ خواب تھا۔"
اسے خود سے الجھن محسوس ہوئی یہاں آنے کے بعد سے ایسے عجیب وغریب خواب کا سلسلہ سا بندھ گیا تھا۔
" ٹائم کیا ہو رہا ہے؟ "

خود سے بڑبڑاتی وہ بیڈ سے اُٹھی اور کمرے کی لائٹس جلائی تو پورا کمرہ روشنی سے جگمگا اٹھا۔ اس نے گھڑی کی طرف نظر دوڑائی جہاں صبح کے تین بج رہے تھے۔
" حد ہے نیند کا بیڑا غرق ہی ہوجاتا ہے ان خوابوں کے چکر میں۔" سر جھٹکتی وہ باتھ روم کی طرف بڑھی۔
اندر آ کر اس نے لائٹ جلائی اور ایک نظر سامنے لگے آئینے پر ڈال کر واش بیسن پہ جھکی۔ اب وہ منہ ہاتھ دھو رہی تھی کہ نل بند کر کے جیسے ہی اس نے چہرہ اُٹھا کر سامنے لگے آئینے میں دیکھا تو ایک فلک شگاف چیخ اس کے حلق سے نکلی۔
سامنے آئینے پر سرخ خون سے لکھا "دیوونتم" اسے خوف میں مبتلا کر گیا تھا۔ دیوار سے پشت لگائے، آنکھوں کو پورا کھولے وہ بس آئینے کو گھورے جا رہی تھی جب مشہد کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔ اس نے چہرہ موڑ کر دروازے کی طرف دیکھا۔
" کیا ہوا کیوں چیخ رہی ہو؟ " دروازہ کھلا ہونے کے باعث وہ اندر آ گئیں۔
" وہ۔۔ وہ۔۔۔"
اس نے آئینے کی طرف اشارہ کیا جہاں اب اسکا اور مشہد کا عکس ہی دکھائی دے رہا تھا۔ کوئی خون اور خون سے لکھا لفظ وہاں موجود نہیں تھا۔
" یہ کہاں گیا؟ " اس نے حیرت سے آگے بڑھ کر آئینے کو دیکھا۔
" کیا کہاں گیا؟ آخر چیخی کیوں تھیں؟ "
" ماما ابھی۔۔۔ ابھی یہاں خون سے وہ لکھا تھا۔"
" کیا؟ دماغ خراب ہو گیا ہے تمہارا۔" اس کے کہنے پر مشہد کے ماتھے پر بل پڑے۔ بھلا یہ کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہی تھی وہ۔
" نہیں ماما میں نے خود۔۔۔"

" بس کرو خاطره کچھ نہیں لکھا اس پر اور چلو کمرے میں۔" اس کی بات کاٹ کر وہ غصّے سے کہتی باتھ روم سے باہر نکل گئیں۔ جبکہ خاطره نے بےبسی اور خوف کے ملے جلے تاثرات لیے آئینے کی طرف دیکھا پھر تیزی سے باہر نکل کر مشہد کے ساتھ ان کے کمرے کی طرف چل پڑی۔ فی الوقت وہ تنہا کمرے میں نہیں رہ سکتی تھی۔

صبح سو کر اُٹھی تو کمرے کے باہر سے کھٹ پٹ کی آوازیں آ رہی تھیں۔ مشہد بھی کمرے میں موجود نہیں تھیں۔ یقیناً وہ ناشتہ بنا رہی تھیں۔ وہ جماہی روکتے ہوئے بیڈ سے اُتری اور کمرے سے باہر نکل کر سیدھا لونگ روم میں چلی آئی۔
" اُٹھ گئیں؟ اب ناشتہ کر لو مجھے اسکول بھی جانا ہے۔" مشہد اسے دیکھتے ہوئے بولیں۔
" جی اچھا۔"
وہ دھیرے سے کہتے ہوئے ڈائننگ ٹیبل کی کرسی کھسا کر بیٹھ گئی۔ سب کچھ ایک خواب سا لگ رہا تھا مگر مشہد کے کمرے میں اس کی موجودگی نے یقین دلا دیا تھا کہ وہ سب خواب نہیں بلکہ حقیقت تھا۔
" اگر آیت الکرسی پڑھ کر سو گی تو ایسے خواب نہیں آئیں گے اور نہ ایسے وہم ہوگا۔" خاطره جو گم صم سی بیٹھی تھی مشہد کی آواز پر چونک کر ان کی طرف دیکھنے لگی۔
" ماما وہ وہم نہیں تھا میں نے خود۔۔۔"
" خاطرہ وہاں کچھ نہیں تھا۔ تم ایک کام کرو گھر سے باہر نکلو، تازہ ہوا میں سانس لو تاکہ تمہارا ذہن بٹے۔ ایسے گھر میں رہ کر ہارر موویز اور ناولز پڑھو گی تو ذہن پر یہی سب سوار رہے گا۔" مشہد اس کی بات کاٹتے ہوئے بولیں۔
" پر ماما۔۔۔"
" بس بات ختم۔ ناشتہ کرو تاکہ میں نکلوں پھر۔" دوٹوک انداز میں کہہ کر وہ بات ختم کر گئیں۔ خاطره نے خاموشی سے انہیں دیکھا پھر اُٹھ کر خود بھی ڈائننگ ٹیبل پر ناشتے کے برتن لگانے لگی۔

کورٹ جانے کیلئے ذوالفقار پیلس سے نکل کر اس نے کار کی رفتار زرا تیز کی ہی تھی کہ مشہد اور خاطره کو ان کے گھر کے باہر کھڑا دیکھ، اس نے رفتار واپس دھیمی کی اور اپنی کار ان دونوں کے سامنے لے جا کر روکی۔
" السلام عليكم !! کیسی ہیں آنٹی آپ؟ " گاڑی کا شیشہ نیچے کرتے ہوئے اس نے خوش اخلاقی سے پوچھا۔
" وعلیکم السلام !! میں بالکل ٹھیک بیٹا۔" مشہد نے مسکرا کر جواب دیا جبکہ خاطره خاموش کھڑی حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔
" کہیں جا رہی ہیں آپ میں چھوڑ دوں؟ "
" ارے نہیں میں اپنی گاڑی میں چلی جاؤں گی۔ ورنہ اسکول سے واپس آنے میں مسئلہ ہوجائے گا۔"
مشہد نے سبھاؤ سے انکار کیا ورنہ واپسی پر پبلک ٹرانسپورٹ کی تلاش میں واقعی انہیں مسئلہ ہو جاتا۔
" کوئی بات نہیں میں آپ کو لینے بھی آجاؤں گا جب چھٹی ہو تو مجھے بتا دے گا۔"
غازان کی بات پر خاطره کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ صرف مشہد کی نظروں میں اچھا بننے کیلئے وہ سب کچھ چھوڑ کر اسے پک اینڈ ڈراپ تک دینے کیلئے تیار تھا۔
" ارے نہیں !! بہت بہت شکریہ تمہارا تم نے اتنا سوچا پر میں چلی جاؤں گی۔" مشہد نے ہنستے ہوئے کہا ساتھ ہی خاطره کی جانب مڑیں۔
" ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں کوشش کروں گی جلدی آجاؤ۔"
" اتنی بڑی ہو کر بھی یہ ڈرتی ہیں؟ " غازان نے آنکھوں میں شرارت لیے اسے دیکھا جسے مشہد کا یوں غازان کے سامنے یہ بات کرنا اچھا نہیں لگا تھا۔
" ہاں وہ۔۔۔"
" جی نہیں میں نہیں ڈرتی، اور آپ جائیں آرام سے آئے گا میری طرف سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔" مشہد کے بولنے سے پہلے ہی غازان کو تڑخ کر جواب دیتی وہ آخر میں مشہد سے بولی۔
" ٹھیک ہے جا رہی ہوں، اپنا خیال رکھنا۔"
مشہد کہتی ہوئی اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گئیں۔ جبکہ غازان بڑے غور سے خاطره کے ہاتھوں کو دیکھ رہا تھا جس پہ پڑے نشان اس کے اندر کے سوئے حیوان کو بیدار کر رہے تھے مگر خود پر ضبط کرتے ہوئے اس نے مسکرا کر اسے دیکھا پھر ہاتھ ہلا کر بائے کہتے ہوئے خود بھی روانہ ہوگیا۔ خاطره وہیں کھڑی دونوں گاڑیوں کو جاتے دیکھ رہی تھی جب عقب سے آنے والی آواز پر چونک کر مڑی۔
" آپ !! "

آئینے کے سامنے کھڑی وہ سیاہ لباس میں ملبوس اپنی سیاہ زلفوں کو انگلی پہ لپیٹتے ہوئے اُس کے عکس کو آئینے میں دیکھ رہی تھی جو اس کے گرد حصار باندھے محبت کا اظہار کر رہا تھا کہ تبھی اپنے کوٹ کی جیب سے سیاہ گلاب نکال کر اُس نے اس صنف نازک کی سیاہ زلفوں کی زینت بنایا جن کا وہ تین سال سے دیوانہ تھا۔
" دیوونتم !! "
کان میں سرگوشی کرتا وہ اس کی گردن پر جھکا۔ جبکہ آئینے میں اپنے اور اس کے عکس کو دیکھتے ہوئے وہ مسکرائی کہ اچانک آئینے میں نظر آتا عکس دھندلانے لگا، منظر بدلا تو سامنے قائم ذوالفقار کی تصویر لگی تھی۔ جسے دیکھتے ہوئے رباب اکثر ماضی میں گم ہو جایا کرتی تھیں اور آج بھی ایسا ہی ہوا تھا۔
" تم نے ایسا کیوں کیا قائم؟ انسان کی زندگی سے تم اس قدر متاثر ہوئے کہ ان کی طرح بے وفا ہوگئے۔" ان کی تصویر سے مخاطب ہوئیں تو سیاہ سیال خود بخود آنکھوں سے بہہ نکلے۔
" تین سال کی رفاقت کے بعد بیس سال کی جدائی کو تم نے میرا مقدر بنا دیا اور پھر تمہاری خبر ملی بھی تو کب جب تم اس دنیا میں نہیں رہے نہ صرف یہ بلکہ تمہارا ایک بیٹا اور دوسری بیوی بھی تھے۔"
قائم ذوالفقار کی تصویر پر نظریں جمائے وہ گزے پانچ سالوں کی طرح آج پھر ان سے شکوہ کر رہی تھیں کہ تبھی اپنی پشت سے آتی آواز پر وہ ایک پل کیلئے ہل نہ سکیں۔
" وہ بے وفا نہیں تھے۔"
" زوالقرنین !! "
مڑے بغیر ہی رباب نے جب اس کا نام پکارا تو آواز میں نہ چاہتے ہوئے بھی سختی اُتر آئی۔
" وہ آپ کے پاس نہیں تھے مگر ان کا دل ہمیشہ آپ کیلئے دھڑکتا تھا۔" وہ کہتا ہوا رباب کے برابر آ کھڑا ہوا نظریں باپ کی تصویر پر جمی تھیں۔
" کہنا کیا چاہتے ہو۔" تلخ لہجے میں پوچھا۔
زوالقرنین نے چہرہ موڑ کر انہیں دیکھا پھر ہاتھ بڑھا کر آنسوں سے تر چہرے کو صاف کرنے لگا۔
" بس اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ قائم ذوالفقار ہمیشہ سے رباب کا تھا اور رباب کا ہی رہا انسانوں کی زندگی سے متاثر ہو کر بھی وہ انسانوں کی طرح بےوفا نہیں بنا۔"
نرمی سے آنسو صاف کرتے ہوئے وہ جب بولا تو ہر ایک حقیقت سے پردہ ہٹاتا چلا گیا۔ جبکہ رباب آنکھوں میں بے یقینی لیے اسے سنتی جا رہی تھیں۔

" آپ !! "
" جی میں۔" رہبان چلتے ہوئے اس کے سامنے آیا۔
" آپ کوئی کام وام نہیں کرتے؟ "
" کرتا ہوں نا بتایا تو تھا ایک کمپنی میں سافٹ وئیر انجینئر ہوں۔" خاطره کے سوال پر وہ ہنستے ہوئے بولا۔
" مجھے یاد ہے۔ میرا مطلب تھا جاب پر نہیں گئے یا آپ کی کمپنی نے آپ کو فارغ کر دیا۔" اس کے بلاوجہ ہنسنے پر خاطره اب کے طنزیہ انداز میں بولی۔
" دراصل امی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے تو اس لیے آج کل گھر ہی ہوتا ہوں۔"
" اوہ سوری !! "
" نہیں کوئی بات نہیں۔" اس کی شرمندگی کو محسوس کرتے، رہبان نے مسکراتے ہوئے کہا۔
" ویسے آپ کے گھر میں اور کوئی نہیں؟ "
" بابا کا دو سال پہلے انتقال ہو گیا تھا ایک چھوٹی بہن ہے وہ اسکول جاتی ہے۔"
" اوہ اچھا !! خیر میں چلتی ہوں بہت کام ہیں پھر مجھے مال روڈ بھی جانا ہے۔" خاطره کہہ کر جانے ہی لگی تھی کہ رہبان کی بات پر واپس اس کی طرف مڑی۔
" ویسے آپ میرے ساتھ مال روڈ چلیں گی؟ "
" جی !! "
" وہ دراصل مجھے بھی کچھ شاپنگ کرنی تھی اور پھر آپ بھی جا رہی ہیں تو ایک سے بھلے دو۔" اس کے ماتھے پر پڑتے بل دیکھ کر رہبان نے فوراً وضاحت دی۔
خاطره الجھ کر اسے دیکھنے لگی۔ وہ بھلا ایک اجنبی پر بھروسہ کیسے کر سکتی تھی جس سے آج تیسری بار ہی ملاقات ہوئی تھی۔
" نہیں میں۔۔۔"
" مجھ پر بھروسہ کرسکتی ہیں۔ اتنا بھی بے اعتبار نہیں میں اور پھر اکیلے ٹیکسی ڈرائیور کے ساتھ سفر کرنے سے بہتر نہیں آپ میرے ساتھ سفر کر لیں۔ زیادہ نہ سہی تھوڑا بہت تو جان ہی گئی ہیں مجھے۔"
رہبان اس کی بات کاٹتا ہوا بولا تو ایک منٹ کیلئے وہ بھی سوچ میں پڑ گئی۔ ٹھیک ہی تو کہہ رہا تھا کسی ٹیکسی ڈرائیور کے ساتھ سفر کرنے سے بہتر تھا وہ اس کے ساتھ چلی جائے کم از کم جان پہچان والا تو تھا۔
" ٹھیک ہے میں گھر کے کام نبٹا لوں پھر ایک گھنٹے بعد چلتے ہیں۔"
" جی جیسا آپ کو بہتر لگے۔"
مسکرا کر کہتا وہ اپنے گھر کی جانب بڑھ گیا۔ جبکہ وہ وہیں کھڑی اب بھی اپنے فیصلے پر غور کر رہی تھی کہ کیا اس ٹھیک کیا؟
" اب بول دیا ہے تو چلی جاتی ہوں۔"
خود سے کہتی وہ بھی گھر کے اندر چلی گئی تاکہ جلد سے جلد سارے کام ختم کر سکے۔

کمرے کے وسط میں بیٹھی وہ زمین پر سفیدی سے لکیروں کا جال بچھا رہی تھیں۔ جس کے قریب دائرے کی صورت موم بتیاں جل رہی تھیں۔ جن سے اُٹھتے دھوئیں نے ارد گرد کے منظر کو دھندلا سا کر دیا تھا۔
وہ اپنا کام ختم کرتیں سیدھی ہوئیں اور آنکھیں بند کیے کچھ منتر پڑھنے لگیں۔ جب زور دار آواز کے ساتھ کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے وہ اندر داخل ہوا۔ زوجیل نے ایک جھٹکے سے آنکھیں کھولیں۔
" زوالقرنین !! کتنی بار کہا ہے میری عبادت کے وقت مخل مت ہوا کرو۔" وہ بولیں تو لہجے میں ناگواری اُتر آئی۔
" کیوں شیطان ناراض ہو جاتا ہے؟ " اندر تک جلا دینے والی مسکراہٹ چہرے پر سجائے وہ ماما زوجیل کو دیکھتے ہوئے بولا۔
" اپنی حد میں رہو تم۔"
زوجیل کہتے ہوئے اُٹھ کھڑی ہوئیں۔ زوالقرنین کی موجودگی میں ان کی عبادت یونہی ادھوری رہ جاتی تھی۔
" یہ آج کل تمہارا ذوالفقار پیلس میں آنا جانا کچھ زیادہ نہیں ہو رہا۔" سیاہ مشروب کو گلاس میں نکالتے ہوئے انہوں نے طنزیہ انداز اپنایا۔
" مجھے نہیں لگتا آپ کو اس سے مسئلہ ہونا چاہیئے کیونکہ کل تک تو آپ مجھے یہ بتانے میں لگی تھیں کہ غازان میرا بھائی ہے۔"
وہ چلتا ہوا ان کے سامنے آیا اور ہاتھ سے مشروب لیتے ہوئے ایک سانس میں ہی اپنے اندر اُتار گیا۔
" مجھے مسئلہ ہے۔ میں چاہتی ہوں تم ان سے دور رہو۔ ان سے دشمنی یا محبت جیسے کسی بھی تعلق سے بندھنے کی ضرورت نہیں۔" لہجے میں غراہٹ لیے وہ کھوجتی نظروں سے اسے دیکھنے لگیں۔
" کیوں کہیں آپ مشکل میں نہ پڑ جائیں اس لیں؟ کہ اگر غازان کو پتا چل گیا اتنے سال آپ اس کے باپ کے ساتھ کیا کرتی آئی ہیں تو آپ کی گردن اُڑانے میں ایک سیکنڈ نہیں لگائے گا۔"
مکروہ مسکراہٹ چہرے پر سجائے وہ ان کے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھنے لگا پھر زرا جھک کر بولا تو کئی بھید کو اپنے لہجے میں سمو لیا۔
" میں آپ کی طرح دوسروں کی چیزوں پر نظر نہیں رکھتا۔"

آسمان پر سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے۔ جن سے گرتے پانی کے قطروں نے چاروں سوں مٹی کی خوشبو کو مہکا دیا تھا۔ مری کے مال روڈ پر لوگ ہاتھوں میں چھتریاں لیے اس موسم سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ جب لوگوں کی اس آمدو رفت میں، ہاتھوں میں شاپنگ بیگز تھامے وہ بازار سے نکلتے ہوئے ایک دم رکی اور مڑ کر رہبان کو دیکھا جو فون پر کسی سے بات کر رہا تھا۔
" اف !! یہ بھی فون سے چپک ہی گئے۔"
کوفت سے اس نے اپنے ہاتھوں میں تھامے شاپنگ بیگز کو دیکھا جن کا بوجھ اس کی ہمت سے زیادہ ہوگیا تھا۔
" جلدی چلیں دیر ہو رہی ہے۔"
رہبان کو قریب آتے دیکھ وہ عجلت سے بولی۔ کچھ وقت ایک دوسرے کی ہمراہی میں گزارنے کا ہی اثر تھا کہ دونوں کے بیچ حائل تکلف کی دیوار گر چکی تھی۔
" لنچ کر کے چلتے ہیں۔ ویسے بھی موسم کتنا حسین ہو رہا ہے۔"
وہ خاطره کے انداز سے محظوظ ہوتا اسے تنگ کرنے کی غرض سے بولا جبکہ اچھے سے جانتا تھا وہ انکار کر دے گی اور پھر جواب بھی خاطره نے اس کی امید کے مطابق ہی دیا۔
" نہیں ماما کے آنے کا ٹائم ہو رہا ہے اس لیے گھر جا کر ہی کرے گا، اب چلیں جلدی۔"
" اچھا اچھا ٹھیک ہے چلو۔"
کہتے ہوئے رہبان نے کار کا دروازہ کھول کر سارا سامان پچھلی نشست پر رکھا اور ڈرائیونگ سیٹ سنبھال کر گاڑی اسٹارٹ کر دی۔ خاطره کے بیٹھتے ہی وہ گاڑی کو واپسی کے راستے پر ڈال چکا تھا۔

وہ آنکھوں پر ہاتھ رکھے اپنے کمرے میں بیٹھی تھیں۔ کچھ دیر پہلے ملی آگاہی کسی نئے عذاب سے کم نہیں تھی ہر شکوہ افسوس میں بدلتا چلا گیا تھا۔ غم تھا کہ اشکوں میں آ ٹھہرا تھا۔ وہ تین سال کی رفاقتوں کے مناظر کسی فلم کی طرح ذہن کے پردے پر گھومنے لگے تھے۔
" میں نے کیوں یہ جاننے کی کوشش نہ کی کہ تم کہاں ہو، کس حال میں ہو۔"
خود احتسابی کی کیفیت سے گزرتے ہوئے انہوں نے آنکھوں کو زور سے میچا کہ تبھی ہاتھ میں کتاب لیے میکال کمرے کے اندر داخل ہوا۔ دروازے کو کھولنے جیسی زحمت اس نے گوارا نہیں کی تھی۔
" بڑی ماں یہ دیکھیں۔ غازان کا دل قانتا کی طرف مائل ہو جائے اس لیے میں کیا لایا ہوں۔"
بغیر رباب کی طرف دیکھے وہ جوش سے بتاتا ہوا ان کے سامنے جا بیٹھا نظریں ابھی بھی کتاب پر جمی تھیں۔
" اس میں لکھا ہے محبوب کو قدموں میں لانے کیلئے الو کی ہڈیوں کا۔۔۔" بات ابھی پوری نہیں ہوئی تھی کہ رباب اس کی بات کاٹتے ہوئے ٹھہرے ہوئے لہجے میں گویا ہوئیں۔
" میکال !! سوائے اللّٰه کے دنیا کی کوئی طاقت جن و انس کا دل، اُس کے جذبات و احساسات کو نہیں بدل سکتی۔ ہم کسی کے دماغ کو تو اپنے تابع کر سکتے ہیں مگر دل کو نہیں۔"
آنکھوں سے ہاتھ ہٹاتے ہوئے رباب نے اس کی طرف دیکھا تو ایک پل کیلئے اسے چپ سی لگ گئی۔ اسرار کی دبیز چادر اوڑھے وہ سرخی مائل سمندر جیسی نیلی آنکھیں اس پر جمی تھیں۔ جن کے بھید پانا اس کے بس کی بات نہیں تھی۔
" بڑی ماں !! "
"جاؤ یہاں سے۔"
خاموشی کو توڑتے ہوئے اس نے کچھ بولنا چاہا۔ مگر اس سے پہلے ہی رباب کہتی ہوئی رخ موڑ گئیں۔

حالتِ اسراع میں سڑک پر دوڑتی گاڑی سیدھا اس کے گھر کے سامنے جا رکی تھی۔ جس کے ساتھ ہی خاطره نے مڑ کر پچھلی نشست سے سامان اُٹھایا اور دروازے کو کھولتی گاڑی سے باہر نکل گئی۔ رہبان بھی اس کے ساتھ ہی نکلا تھا۔
" چائے پانی کا نہیں پوچھیں گی؟ "
اسے گھر کی طرف بڑھتا دیکھ رہبان نے پیچھے سے آواز لگائی۔
" جب ماما ہوں تو دس دفعہ آئے گا چائے کیا کھانا بھی کھلائیں گے۔"
مسکراہٹ دبا کر کہتی وہ ایک بار پھر مڑنے لگی تھی کہ رک کر رہبان کو دیکھا جس کی بھوری مسکراتی نظریں اسی پر جمی تھیں۔
" شُكْراً جَزيلاً !! (بہت بہت شکریہ) "
شاپنگ بیگز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خاطرہ نے اپنی ماں کی مصری زبان میں اس کا شکریہ ادا کیا۔
" انٹرسٹنگ !! عربی آتی ہے؟ " وہ دلچسپی سے پوچھ رہا تھا۔
" تھوڑی تھوڑی ماما مصری ہیں نا۔"
" اوہ ہاں !! ویسے میں نے آج دیکھا تھا کافی مشابہت رکھتی ہیں آپ بس بال اور آنکھوں کا فرق ہے۔" رہبان نے یاد کرتے ہوئے کہا۔
" جی دراصل پاپا پر ہیں اس لیے، خیر بائے ماما آنے والی ہوں گی۔" مسکرا کر کہتی وہ دروازے کی جانب بڑھی اور لاک کھول کر گھر کے اندر چلی گئی۔
" پھر ملاقات ہوگی پرنسس !! "
رہبان نے اپنی بھوری چمکتی آنکھوں سے اسے جاتے دیکھا۔ پھر خود بھی گاڑی میں بیٹھ کر اپنے گھر کی جانب روانہ ہو گیا۔ ابھی اور بھی کام تھے جو کرنے باقی تھے۔

گھر کے اندر داخل ہو کے اس نے سارا سامان لیونگ روم میں موجود صوفے پر رکھا اور خود اس سے منسلک چھوٹے سے کچن میں جا کر فریج سے ٹھنڈا پانی نکال کر پینے لگی۔ اس کی ایک یہی عادت تھی جس سے مشہد کو سخت چڑ تھی۔ وہ ٹھنڈ میں بھی ٹھنڈا پانی نہیں چھوڑتی تھی۔
" اف !! مال میں چل چل کر میرے پاؤں دکھ گئے۔"
وہ بڑبڑاتی ہوئی واپس صوفے کی طرف بڑھی کہ تبھی دروازے سے بیل بجنے کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔
" اب یہ کون آگیا؟ "
اس نے کوفت سے سوچا اور آگے بڑھ کر دروازہ کھولا ہی تھا کہ تیزی سے غازان ذوالفقار گھر کے اندر داخل ہوا۔
" یہ کیا بدتمیزی ہے؟ " وہ چلائی۔
" کہاں گئی تھیں تم؟ "
اس کی بات کو نظر انداز کرتا، وہ متفکر سا ہو کر پوچھنے لگا۔ خاطره کا سیاہ کوٹ اور ریڈ اسکارف اس کے باہر جانے کی گواہی دے رہا تھا۔
" مال روڈ گئی تھی۔" اب کے وہ چلائی نہیں تھی پر ماتھے پہ شکنیں ضرور واضح ہوئی تھیں۔
" اکیلے؟ "
غازان کے انداز سے عجیب دیوانگی جھلک رہی تھی۔ وہ کب سے اس کی موجودگی کو محسوس کرنے کی کوشش کر رہا تھا مگر اسے کچھ محسوس ہی نہیں ہو رہا تھا اس لیے سارے کام چھوڑ کر وہ اس کے پاس چلا آیا تھا۔
" نہیں رہبان ساتھ تھا۔"
" کون رہبان؟ "
خاطره کے کہتے ہی وہ ایک دم چوکنا ہوا۔ وہ کسی مرد کے ساتھ گئی تھی اور اسے ادراک تک نہ ہوا۔
" یہ تم کیوں مجھ سے سوال پر سوال کیے جا رہے ہو؟ کیوں بتاؤ میں تمہیں؟ "
اس نے دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر غازان کو گھورا۔ جبکہ خاطره کی بات پر اس کا پارہ مزید چڑ گیا۔
" آج کے بعد تم کسی کے ساتھ باہر نہیں جاؤ گی۔ جہاں جانا ہوگا میں لے کر جاؤں گا۔"
" کیوں کیوں؟ "
خاطره نے حیرت سے اسے دیکھا جو نہ جانے کس حق سے اس پر پابندی لگا رہا تھا۔
" بس کہہ دیا نا۔" وہ دوٹوک انداز میں بولا۔
" جاؤں گی مجھے جس کے ساتھ جانا ہوگا جاؤں گی۔" وہ بھی اپنے نام کی ایک تھی اتنی آسانی سے کہاں مانتی۔
" ٹھیک ہے پھر اُس کی حالت کی ذمہ دار بھی تم ہی ہو گی۔" غصّے کو ضبط کرتا، وہ کہہ کر یہاں رکا نہیں تھا۔ ورنہ ممکن تھا کہ ادھر ہی تباہی مچا دیتا۔
" ہیں !! یہ کیا تھا بھئی؟ عجیب زبردستی ہے۔ "
خاطره نے خود سے کہتے ہوئے بند دروازے کو دیکھا جہاں سے غازان ذوالفقار ابھی ابھی باہر گیا تھا۔ وہ سر جھٹک کر صوفے کی طرف آئی اور شاپنگ بیگز اُٹھاتی اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔ اس کی نماز کا ٹائم بھی نکلتا جارہا تھا۔

آرزؤ عشق سیزن 1 (ساتواں حصہ)


تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں



Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں