آرزو عشق - سیزن 1 (ساتواں حصہ)

Urdu Stories
 

آرزو عشق - سیزن 1 (ساتواں حصہ)

جن اور انسانی لڑکی کی محبت


وہ غصّے سے بھرا گھر واپس لوٹا تھا۔ خاطره کسی مرد کے ساتھ گئی تھی یہ بات ہی اسے پاگل کرنے کیلئے کافی تھی مگر سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ تھی کہ یہ بات اسے معلوم کیوں نہیں ہوئی۔ خاطرہ کی موجودگی کو وہ محسوس کیوں نہیں کر پا رہا تھا کہ وہ کہاں ہے؟
" آخر یہ رہبان کون ہے؟ کیوں مجھے محسوس نہیں ہوا خاطره اُس کے ساتھ ہے؟ " اس نے غصّے سے بالوں کو مٹھی میں جکڑا۔
" مجھے اب ہر وقت اس کے پاس رہنا ہوگا۔ بس بہت رکھ لیے فاصلے ہمارے درمیان، اب میں تمہیں خود سے دور نہیں رکھ سکتا۔" وہ سوچتے ہوئے دروازے کی طرف بڑا۔
آج وہ کھل کر رباب اور دادا ذوالفقار سے بات کر لینا چاہتا تھا ان پر اپنی پسند واضح کر دینا چاہتا مگر ابھی دروازے کی طرف قدم بڑھائے ہی تھے کہ قانتا ایک دم اس کے سامنے آئی۔ غازان بروقت پیچھے ہٹا۔
" یہ کیا بدتمیزی ہے؟ کیوں آئی ہو یہاں؟ " وہ غصّے سے دھاڑا۔
" ڈئیر کزن !! آخر اتنا غصّہ کس بات کا ہے۔ تھوڑی دیر بات کرنے ہی تو آئی ہوں۔ ویسے بھی جلد ہماری شادی ہو جائے گی۔"
وہ ایک ادا سے کہتی اس کی طرف بڑھنے لگی تھی کہ اچانک اپنی جگہ جم سی گئی۔ غازان نے آنکھوں کے اشارے سے ہی اسے اپنی جگہ منجمد ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔

" خوش فہمی ہے تمہاری کہ میں تم سے شادی کروں گا۔ تمہارے دماغ میں جس نے بھی یہ خناس بھری ہے جا کر اُس سے لڑو اور آئندہ میرے قریب مت آنا۔"
انگلی اُٹھا کر کہتا وہ قانتا کی ساری غلط فہمیوں کو دور کر چکا تھا۔ جبکہ اپنی اتنی تذلیل پر وہ غصّے سے کھولتی فوراً وہاں سے غائب ہوئی۔ مگر غازان سے اپنی بے عزتی کا بدلہ لینے کا وہ پکا ارادہ کر چکی تھی۔

" آخر خود کو سمجھتے کیا ہیں یہ۔ مجھ سے سوال جواب کر رہے ہیں، کہاں گئی تھیں تم۔ "
کمرے میں آکر بھی اسے رہ رہ کر غازان پر غصّہ آ رہا تھا اور اس غصّے میں ان دونوں نے ہی اس بات پر دھیان نہیں دیا تھا کہ سارے تکلفات کو ایک طرف رکھ وہ دونوں ہی " آپ " سے " تم" تک آگئے تھے۔
" اذْهَبْ إلى الجَحيمِ !! (جہنم میں جاؤ) میں بھی وہی کروں گی جو میرا دل چاہے گا۔"
بڑبڑاتے ہوئے اس نے سارا سامان بیڈ پر چھوڑا اور وضو کرنے باتھ روم کی طرف بڑھی۔ اندر آ کر اس کی نظر سیدھا آئینے پر پڑی تھی جس کے ساتھ ہی سارا واقع ایک بار پھر اس کی نظروں کے سامنے گھوم گیا۔
" یہ کیا ہو رہا ہے، ہر بار تو میرا وہم نہیں ہوسکتا۔"

اسنے سوچتے ہوئے سر جھٹکا اور نل کھول کر وضو کرنے کیلئے جھکی ہی تھی کہ تیز دھار سے نکلتے خون کو دیکھ کر چیختے ہوئے پیچھے ہٹتی، باتھ روم سے باہر بھاگی۔ پورا گھر اس کی چیخوں سے گونج اُٹھا تھا۔ تیزی سے سیڑھیاں اُترتی وہ نیچے آئی جب دو مظبوط ہاتھوں نے نرمی سے اسے اپنی گرفت میں لیا۔
" خاطره کیا ہوا کیوں چیخ رہی ہو؟ " غازان نے اسے بازوؤں سے تھامتے ہوئے پوچھا جو مسلسل چہرہ پیچھے موڑے اپنے کمرے کی جانب دیکھ رہی تھی۔
" کیا ہوا ہے بتاؤ؟ "

اب کے غازان نے اسے جھنجھوڑا تو وہ خوف زدہ سی اسے دیکھنے لگی۔ خاطره کے چہرے پر پھیلا خوف اور آنکھوں میں آنسوں کو دیکھ کر وہ تڑپ اُٹھا۔
" کیا ہوا ہے بتاؤ مجھے، کوئی تھا کیا اوپر؟ " وہ کہتا ہوا خاطرہ کو چھوڑ کر سیڑھیوں کی جانب بڑھا کہ تبھی خاطره نے اس کا بازو دبوچ لیا اور تیزی سے نفی میں سر ہلانے لگی۔
" نہیں !! نہیں اوپر نہیں جاؤ وہاں کوئی ہے۔ وہ مار دے گا ہمیں، تم مت جاؤ۔" خوف کے باعث اس نے یہ تک نہیں سوچا تھا کہ غازان یہاں کیسے آیا۔
" کچھ نہیں ہوگا، میں دیکھ کر آتا ہوں۔"
" نہیں میں کہہ رہی ہوں نا تو۔۔۔" کہتے ہوئے وہ ایک دم غازان کے بازوؤں میں جھل گئی۔
" خاطره۔۔۔ خاطره اُٹھو۔۔۔"
" خاطرہ !! " مشہد جو ابھی گھر میں داخل ہوئی تھیں، خاطره کو یوں غازان کے بازوؤں میں بیہوش دیکھ ایک پل کیلئے اپنی جگہ ساکت رہ گئیں۔ جو سوچ ان کے ذہن میں آ رہی تھی وہ خوف زدہ کرنے کیلئے کافی تھی۔
" کیا کیا ہوا ہے اسے؟ "
خود پر قابو پاتی وہ تیزی سے ان کی طرف بڑھیں۔
" پتا نہیں میں یہاں سے گزر رہا تھا جب باہر تک ان کے چیخنے چلانے کی آواز آئی۔ اندر آ کر پوچھا تو کہنے لگیں اوپر کوئی ہے۔"
خاطره کو صوفے پر لیٹا کر غازان سیدھا ہوتے ہوئے وضاحت دینے لگا۔ مشہد جو خاطره کی بیہوشی کی وجہ غازان کو سمجھ رہی تھیں یکدم شرمندہ ہوئیں۔
" سوری !! مجھے لگا۔۔۔"
" کوئی بات نہیں آنٹی، آپ بیٹی کی ماں ہیں سمجھ سکتا ہوں۔" غازان نے ان کو شرمندگی سے نکالنا چاہا۔
" ویسے کیا پہلے بھی ایسا ہوا ہے؟ "
" ہاں صبح کے تین بجے اُٹھ کر بھی چلا رہی تھی کہ باتھ روم کے آئینے پر کچھ لکھا ہے۔" مشہد نے یاد کرتے ہوئے کہا۔
" کیا لکھا تھا؟ " وہ ایک دم بے چین ہوا۔
" پتا نہیں، میں نے دھیان ہی نہیں دیا تھا۔ مجھے تو یہی لگا وہم ہوگا۔"
مشہد اب حقیقتاً پریشان ہوچکی تھی۔ مگر اب بھی انہیں یہ کوئی جن بھوت کا معاملہ نہیں لگ رہا تھا۔ بلکہ وہ اسے سائیکالوجیکل پرابلم سمجھ رہی تھیں۔
" آپ کو دھیان سے ان کی بات سننی چاہیئے تھی۔" غازان کو ان کی بات سن کر افسوس ہوا مگر ان کے منہ سے نکلی اگلی بات پر تو حیران ہی رہ گیا۔
" مجھے لگتا ہے کسی سائیکالوجسٹ کو دکھانا ہوگا۔ یہ کوئی ذہنی بیماری ہے۔ شاید اپنے پاپا کے انتقال کو سر پر سوار کر لیا۔" مشہد نے کہتے ہوئے خاطره کو دیکھا جو ہوش میں آ رہی تھی۔
" خاطره ٹھیک ہو بیٹا؟ " وہ جھک کر اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں۔
خاطره خالی خالی نظروں سے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی ذہن ابھی بھی بیدار نہیں ہوا تھا۔
" خاطره کیا ہوا بچے؟ "
" ماما وہ۔۔۔ وہ۔۔۔"
خاطره ایک دم صوفے سے اُٹھی اور چہرہ موڑ کر اپنے کمرے کی طرف دیکھا۔ جبکہ غازان بظاہر تو ان کے ساتھ کھڑا تھا لیکن ذہنی طور پر وہ پورے گھر کو چیک کرنے میں لگا تھا۔ مگر کوئی سراغ ہاتھ ہی نہیں آ رہا تھا۔
" آنٹی آپ انہیں اپنے کمرے میں لے جائیں شاید آرام کریں تو ٹھیک ہو جائیں۔"
خاطره کی حالت کو دیکھتے ہوئے مشہد کو بھی غازان کی بات درست لگی اس لیے اثبات میں سر ہلاتیں وہ اسے لیے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئیں۔ خاطره بھی کوئی چوں چرا کیے بغیر ان کے ساتھ چل دی تھی۔ وہ اس قدر خوف زدہ تھی کہ اب اپنے کمرے میں جانے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔
" کیا ہے یہاں آخر میں پکڑ کیوں نہیں پا رہا؟ مجھے یقین ہے خاطره نہ تو جھوٹ بول رہی ہے نہ یہ کوئی ذہنی بیماری ہے پھر کیا ہے جو اسے تنگ کر رہا ہے۔"
ان کے جاتے ہی غازان چاروں طرف نظرے دوڑاتا سوچنے لگا۔ آخر کیا تھا جو اسے نہ تو دکھائی دے رہا تھا اور نہ ہی محسوس ہو رہا تھا۔
" غازان بیٹا !! " مشہد کی پکار پر غازان اپنی سوچوں سے باہر آتا ان کی طرف مڑا۔
" سو گئیں وہ؟ "

" ہاں نیند کی دوا دی ہے سو جائے گی۔" وہ کہتے ہوئے اس کے قریب آئیں۔
" شکریہ بیٹا تم نے اتنی مدد کی اور میں نے تمہیں۔۔۔" وہ اب بھی اپنی سوچ پر شرمندہ تھیں۔ اس لیے دانستہ طور پر بات ادھوری چھوڑ دی۔
" ارے نہیں آنٹی شکریہ کی ضرورت نہیں اور نہ ہی شرمندہ ہونے کی ضرورت ہے آپ اپنی جگہ بالکل ٹھیک تھیں۔ آپ کی جگہ کوئی اور ہوتا تو ایک غیر مرد کو اپنی بیٹی کے ساتھ دیکھ کر ایسے ہی ردِعمل دیتا۔"
دھیمی مسکراہٹ چہرے پر سجائے وہ بولا تو مشہد کو نہ جانے کیوں اس میں عامر گردیزی کا عکس نظر آیا۔
" اچھا اب میں چلتا ہوں گھر پر سب انتظار کر رہے ہوں گے۔"
" ٹھیک ہے۔"
غازان کے کہنے پر انہوں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ یوں تو وہ چاہتی نہیں تھیں بغیر کچھ کھائے پیے وہ دوسری بار ان کے گھر سے جائے مگر حالات کے پیش نظر مشہد چاہتے ہوئے بھی روک نہ سکیں۔

" کہاں جا رہی ہو تم؟ "
رباب نے اسے دیکھا جو غصّے سے بھری ان سے لڑ جھگڑنے کے بعد دروازے کی جانب بڑھ رہی تھی۔
" ہنہہ !! جا رہی ہوں میں واپس اب مجھے یہاں نہیں رہنا۔"
ہنکار بھر کر کہتی وہ ان کی طرف دیکھے بغیر ہی دروازے سے باہر نکل گئی۔
" مجھے معاف کر دو قانتا جب دل نہ ملیں تو زبردستی کے رشتے بھلے جڑ بھی جائیں مگر دیر پا نہیں رہتے۔"

رباب سوچتے ہوئے افسرده سی اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس جا کھڑی ہوئیں جہاں سے قانتا انہیں بیرونی دروازہ پار کرتی دکھائی دے رہی تھی۔
" مجھے اُمید ہے اس بار ماضی نہیں دھرایا جائے گا۔ تم سمجھ گئی ہوگی، جو تمہارا ہے ہی نہیں تو تم چاہ کے بھی اسے کبھی حاصل نہیں کرسکتی۔"
ذوالفقار پیلس سے دور جاتی قانتا کو دیکھ کر وہ بڑبڑائی پھر وہاں سے ہٹ کر دادا ذوالفقار کے پاس چلی گئیں۔ جبکہ سڑک پر چلتی قانتا انتقام کی آگ لیے آگے بڑھتی جا رہی تھی کہ ایک تیز ہوا کا جھونکا اس کے قریب سے گزرا۔ وہ چونکی پیچھے مڑ کر دیکھا تو آنکھوں میں حیرت اُتر آئی۔
" تم ک۔۔۔"
ابھی لفظ منہ سے ادا بھی نہ ہوئے کہ کسی ان دیکھی قوت نے اس کے قدموں کو جکڑا۔ قانتا بھرپور مزاحمت کرنے کی کوشش کررہی تھی۔ مگر اس کے پاؤں کے ساتھ ساتھ وہ اس کے اوپری حصے کو بھی اپنے شکنجے میں لے رہا تھا۔ قانتا نے چیخنے چلانے کی کوشش کی تھی مگر اس دُھند بھری شام میں اس کا وجود ایک دم غائب ہوگیا۔
۔*********۔
گھر سے جانے کے بجائے وہ بالکنی سے سیدھا خاطره کے کمرے میں آیا تھا۔ تاکہ اس جن کا پتا لگا سکے جو خاطره کو نہ صرف تنگ کر رہا تھا بلکہ اس سے تعلق بنانے کی بھی پوری کوشش کر رہا تھا۔ خاطره کے جسم پر وہ نشان اور آج اس کا یوں ڈر کر بھاگنا اس بات کی دلیل تھا کہ وہ اپنے پاپا کے انتقال کے باعث ذہنی دباؤ کا شکار نہیں بلکہ واقعی کوئی ہے جو اسے خوف زدہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔ مگر کون؟
" یہاں تو کسی کی موجودگی محسوس نہیں ہو رہی۔"
غازان نے چاروں طرف نظر دوڑائی کمرے میں ایسا کچھ موجود نہیں تھا جو مشکوک ہو۔
" آخر کون ہو سکتا ہے؟ "
وہ سوچتے ہوئے باتھ روم کی طرف بڑھا۔ مگر وہاں بھی اس کی توقع کے برعکس کچھ نہیں تھا۔
" کون کون ہوسکتا ہے؟ کہیں وہ۔۔۔" اس نے غصّے سے دیوار پر ہاتھ مارا۔
" زوالقرنین اگر تم ہو تو اپنے انجام کیلئے تیار ہو جاؤ۔ تمہاری ماں نے میرے باپ کو تو چھین لیا پر تمہیں خاطره کو مجھ سے چھیننے نہیں دوں گا۔"
سرخ آنکھوں سے غازان نے خود کو آئینے میں دیکھا اور اس کے ساتھ ہی وہاں سے غائب ہو گیا۔ جبکہ کمرے میں رکھی کرسی اس کے جاتے ہی اپنے آپ ہلنے لگی تھی۔

" اب کیسا محسوس کر رہی ہو؟ "
ڈائننگ ٹیبل پر کھانے کے برتن سجاتے ہوئے مشہد نے خاطره کی طرف دیکھ کر پوچھا جو ان کے بلانے پر اب کمرے سے باہر نکلی تھی۔
" ٹھیک ہوں۔"
دھیرے سے کہتے ہوئے وہ ڈائننگ ٹیبل کی طرف آئی اور کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی۔ مشہد بغور اس کے بجھے ہوئے چہرے کو دیکھ رہی تھیں۔
" میں سوچ رہی تھی تمہارے لیے ڈاکٹر سے اپائنٹمنٹ لے لوں۔"
" کیوں؟ " خاطره نے چونک کر ان کی طرف دیکھا۔
" مجھے لگتا ہے تم ذہنی دباؤ کا شکار ہو رہی ہو اس لیے تم ایسی۔۔۔"
" آپ کو لگتا ہے میں جھوٹ بول رہی ہوں؟ "
مشہد کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی وہ چیخ پڑی۔ حیرت کی انتہا تھی کہ اس کی ماں اس کی بات کا یقین کرنے کے بجائے اسے ذہنی مریضہ سمجھنے لگی تھیں۔
" نہیں میرا مطلب یہ نہیں تم۔۔۔"
" آپ کا مطلب یہی ہے کہ میں من گھڑت کہانیاں بنا رہی ہوں۔ بابا کے انتقال کو سر پر سوار کر لیا اس لیے میں ایسی باتیں کر رہی ہوں ہیں نا؟ "
مشہد اس کے کہنے پر نفی میں سر ہلانے لگیں۔ خاطره ان کی بات پر یوں ردِعمل دے گی۔ یہ تو انہوں نے سوچا ہی نہیں تھا۔
" خاطره تم غلط سمجھ رہی ہو۔۔۔"
" میں غلط نہیں سمجھ رہی اور نہ ہی میں کسی ڈاکٹر کے پاس جاؤں گی۔ آپ کھانا کھا لے گا مجھے بھوک نہیں۔" وہ کہہ کر کرسی سے اُٹھی اور تیزی سے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔
مشہد نے تاسف سے اسے جاتے دیکھا پھر ایک نظر کھانے پر ڈال کر برتن سمیٹنے لگیں۔ ان کی اپنی بھوک بھی خاطره کی باتوں کی وجہ سے مٹ چکی تھی۔

بالکنی میں کھڑی وہ بےتاثر آنکھوں سے آسمان پر کسی غیر مرئی نقطے کو گھور رہی تھی۔ مشہد کی باتوں کا دکھ اتنا تھا کہ وہ اپنے خوف کو بھی فراموش کرتے ہوئے تنہائی کی خاطر اپنے کمرے میں چلی آئی تھی اور اب بالکنی میں کھڑی مشہد کی باتوں کو سوچے جا رہی تھی جب اچانک غازان اس کے سامنے آیا۔
" بھاؤ !! "
" آااااہ !! " وہ چیختے ہوئے پیچھے ہٹی اور دل پر ہاتھ رکھ کر پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی جو گریل کو مضبوطی سے تھامے کھڑا مسکرا رہا تھا۔
" کیا بدتمیزی ہے یہ؟ ابھی میرا ہارٹ فیل ہو جاتا تو؟ "
" ہارٹ فیل ہو آپ کے دشمنوں کا۔" وہ مسکراتا ہوا بولا۔
" ایسے نہ بولیں ورنہ ایسا نہ ہو کہ آپ ہی اللّٰه کو پیارے ہو جائیں۔"
خود پر قابو پاتی اب وہ بھی طنزیہ مسکراہٹ چہرے پر سجائے ہوئے تھی کہ یوں ایک بار پھر وہ " تم " سے " آپ " پر آگئے۔
" ارے ہم تو آپ کے خیر خواہ ہیں پر افسوس آپ ہمیں دشمن سمجھتی ہیں۔" غازان نے تاسف سے نفی میں سر ہلایا۔
" کیوں آئے ہیں؟ " اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے اب خاطره نے سنجیدگی سے پوچھا۔
" کچھ کہنا تھا مس خطرہ !! "
" کیا کہنا تھا؟ " اب کے دانت پیستے ہوئے پوچھا۔
" حالانکہ یہ کہنے میں بڑا "خطرہ" ہے مگر پھر بھی میں یہ کہنا چاہوں گا۔۔۔" وہ رکا، خاطره ایک ابرو اُٹھائے کڑے تیوروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
" مس خطرہ یہ لائر مین (جھوٹا آدمی) آپ کی سچی محبت میں گرفتار ہوگیا ہے۔ کیا اس کی محبت کو قبول کر کے آپ اس کی زندگی کا سب سے بڑا "خطرہ" بننا پسند کریں گی؟ "
بالکنی میں لگی گریل کو مضبوطی سے پکڑے کھڑا وہ اپنے انوکھے انداز میں اس سے اظہارِ محبت کر رہا تھا۔ سمندر جیسی نیلی آنکھوں میں محبت کے ساتھ ساتھ شرارت بھی واضح تھی۔
خاطره کے لبوں کو مسکراہٹ نے چھوا۔ وہ تھوڑا آگے بڑھی اور شہادت کی انگلی سے اس کے چہرے کو چھوتے ہوئے بولی۔
" محبت کا دعوے دار یہاں ہر کوئی ہے مگر۔۔۔ محبت کے مفہوم سے واقف یہاں کوئی کوئی ہے۔ ایڈووکیٹ غازان صاحب !! "
ایک ادا سے کہتی وہ اسے وہیں کھڑا چھوڑ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔ جبکہ غازان صاحب اس بات کو فراموش کرتے ہوئے کہ وہ اس وقت کہاں کھڑے ہیں۔ اس ادا پہ مسکرا کر آنکھیں بند کی ساتھ ہی اپنے دونوں ہاتھ دل کے مقام پر رکھے ہی تھے کہ اگلے ہی لمحے وہ بالکنی سے نیچے پکی سڑک پر جا گرے۔
" اف اللّٰه !! "
کمر پر ہاتھ رکھ کر وہ کراہتے ہوئے کھڑا ہوا، وجہ یہ نہیں تھی کہ گرنے کے باعث کہیں چوٹ آئی تھی بلکہ وجہ یہ تھی کہ گرنے کی آواز سن کر خاطره واپس بالکنی میں آگئی تھی اور اب گریل کو تھامے نیچے جھانک رہی تھی۔ چہرے پر مسکراہٹ بھی واضح تھی، جو یقیناً غازان کے اس طرح گرنے پر نمودار ہوئی تھی۔
" مدد چاہیئے مسٹر عاشق؟ " مسکراہٹ دباتے ہوئے خاطره نے طنزیہ لہجہ اپنایا۔
" نہیں چلتا ہوں بائے۔"
ہاتھ ہلا کر بائے کہتا وہ بھرپور اداکاری کے ساتھ کمر تھامے، لنگڑاتا ہوا آگے بڑھا ہی تھا کہ چند قدموں کے فاصلے پر کھڑے اس جن کو دیکھ کر غازان کی آنکھوں میں شعلے بھڑک اٹھے۔
خاطرہ واپس اپنے کمرے میں چلی آئی تھی اور اب ٹی وی آن کیے بیڈ پر نیم دراز غازان کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ اس نے غازان کے اظہار کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی تھی کیونکہ اس کی آنکھوں اور لہجے میں ناچتی شرارت اس بات کا ثبوت تھی کہ وہ محض مذاق کی غرض سے کہہ رہا تھا تاکہ خاطره کا موڈ بدل سکے کیونکہ آج جو کچھ بھی ہوا وہ سب غازان سے چھپا نہیں رہا تھا۔
" کیا وہ صرف مذاق کر رہے تھے یا پھر واقعی۔۔۔"
سوچتے ہوئے اس کے لبوں کو مسکراہٹ نے چھوا کہ دل کے کسی کونے میں چاہے جانے کی خواہش سر اُٹھانے لگی تھی۔
" ویسے کتنے چھچھورے ہیں بھلا ایسے مذاق بھی کوئی کرتا ہے۔"
بڑبڑاتے ہوئے وہ اب ٹی وی کی جانب متوجہ ہوئی۔ لبوں پہ مسکراہٹ اب بھی قائم تھی اس بات کو بھلائے کہ سب سے زیادہ مذاق، دکھ اور دھوکے، ایک محبت کے نام پر ہی تو دیئے جاتے ہیں۔

" سیرئیسلی غازان !! "
میکال حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا جس کی آنکھوں میں اسے دیکھتے ہی شعلے بھڑک اٹھے تھے۔
" تم ایک انسان سے۔۔۔"
" اپنے کام سے کام رکھو۔" غازان اس کی بات کاٹتا ہوا غرایا۔
" تم نے ایک بار بھی بڑی ماں اور قانتا کے بارے ميں نہیں سوچا۔ بڑے بابا کی طرح تم۔۔۔"
" بکواس بند کرو اپنی۔ میں قائم ذوالفقار کی طرح نہیں سمجھے، مجھے ان سے ملانے کی کوشش مت کرنا۔" وہ ایک دم دھاڑا مگر میکال پر اس کی دھاڑ کا رتی برابر اثر نہ ہوا۔
" میں بس اتنا کہہ رہا ہوں کہ ہمیں لگتا تھا اُن کی طرح تم بھی بس انسانوں کی زندگی سے متاثر ہو مگر ہم نے یہ نہیں سوچا تھا کہ تم انسانوں سے بھی متاثر ہونا شروع کر دوگے۔" اب کے میکال کے لہجے میں بھی سختی اُتر آئی۔
" میں نے کہا بکواس بند کرو اور اس سے دور رہنا سمجھے۔" غازان کہتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ جبکہ میکال نے اس کی پشت کو گھورا پھر پیچھے سے چلایا۔
" مجھے شوق بھی نہیں انسانوں کے پاس جانے کا۔ کیونکہ ان سے بڑا دھوکے باز اور کوئی نہیں ہوتا۔"
میکال کی بات پر ایک پل کیلئے اس کے قدم رکے پھر سر جھٹکتا آگے بڑھ گیا۔ البتہ میکال نے چل کر جانے جیسی زحمت اپنے پیروں کو نہیں دی بلکہ چٹکی بجاتے ہی وہاں سے غائب ہوگیا۔

جہاں اس خالی کمرے میں ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ وہیں بیچوں بیچ ایک لکڑی کا تختہ موجود تھا جس کے ساتھ وہ زنجیروں سے جکڑی مسلسل خود کو چھڑوانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ وہ یہاں کیوں لائی گئی تھی، اس بات سے اب تک انجان تھی۔
" کیوں باندھا ہے مجھے چھوڑو۔"
قانتا نے چلاتے ہوئے زنجیر کو جھٹکا دیا۔ مگر ہر بار کی طرح اس بار بھی ناکام۔ اوپر سے اندھیرا اتنا تھا کہ کچھ دکھائی بھی نہیں دے رہا تھا حالانکہ وہ اندھیرے میں بھی باآسانی سب کچھ دیکھ سکتی تھی پر نہ جانے ایسی کون سی قوت تھی جس نے اس کی صلاحیت کو مفلوج کر دیا تھا۔
" کیا ہے؟ کیوں چلا رہی ہو؟ " کمرے میں کرخت بھری آواز گونجی مگر پوچھنے والا خود دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
" تم کون ہو؟ سامنے آؤ۔"
جواب دینے کے بجائے وہ بھی چلاتے ہوئے بولی۔ تبھی کمرے میں کسی کی آہٹ محسوس ہوئی۔ ایک ہوا کے جھونکے کی طرح قانتا کے قریب سے گزرتا وہ اس کے پیچھے آ کھڑا ہوا تھا۔
" ششش !! "
پیچھے سے اپنا چہرہ اس کے کان کے قریب کرتے ہوئے اس نے سرگوشی کی۔
" آواز نہیں۔ تم جلد یہاں سے آزاد ہو جاؤ گی اگر میری بات مان لو تو۔"
اس کی بات پر قانتا نے چہرہ موڑ کر اسے دیکھنا چاہا مگر وہی بات اندھیرے کے باعث کچھ نظر نہیں آیا۔ حتیٰ کہ وہ یہ تک محسوس نہیں کر پا رہی تھی کہ وہ جن ہے یا انسان۔
" کونسی بات؟ "
اپنی بات پر اُسے راضی ہوتا دیکھ اس کی آگ رنگ آنکھیں چمک اُٹھیں۔ ایک جاندار قہقہہ لگاتا اب وہ قانتا کے مقابل آ کھڑا ہوا۔

رات بھر ہوتی ہلکی ہلکی برف باری کے بعد صبح کا آغاز مسحور کن تھا۔ آسمان پر چھائے سرمئی بادل اور برف سے ڈھکے درخت وہ ان کے سحر میں جکڑی ناشتے کے بعد مشہد سے اجازت لے کر گھر سے باہر نکل آئی تھی اور اب برف پر اپنے قدموں کے نشان چھوڑتی آگے بڑھ رہی تھی جب غازان اچانک اس کے سامنے آیا۔ وہ اس وقت ٹریک سوٹ میں موجود تھا اور خاطره ہمیشہ کی طرح اپنے سیاہ کوٹ اور ریڈ اسکارف میں ملبوس۔
" کہاں جا رہی ہیں مس خطرہ؟ " آنکھوں میں شرارت اب بھی واضح تھی۔
" کہیں نہیں۔"
خاطره اسے گھورتے ہوئے سائڈ سے گزرنے لگی کہ وہ پھر اس کے سامنے آ کر راستہ روک گیا۔
" اچھا طبیعت کیسی ہے اب؟ کل پھر ڈر تو نہیں لگا۔" غازان نے اب سنجیدگی سے پوچھا۔
" ٹھیک ہوں۔ ویسے تھینکس کل اتنی مدد کرنے کیلئے۔ لیکن اس بیہودہ مذاق کی ضرورت نہیں تھی۔"
اس کی آخری بات پر غازان نے اپنی مسکراہٹ دبائی۔ کل واقعی اس نے جو کہا تھا مذاق میں کہا تھا۔ وہ اتنی جلدی ابھی اظہارِ محبت کرنا بھی نہیں چاہتا تھا کہ ابھی اس نے اُس جن کو بھی پکڑنا تھا جو اس کی خاطره کو نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا۔ لیکن اس سے پہلے وہ اظہار کر کے اپنی کوئی کمزوری اس جن کے ہاتھ میں نہیں دینا چاہتا تھا۔
" ویسے اگر آپ کہیں نہیں جا رہی تو آئیں اپنی ماما سے ملاؤں۔" خاطره کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتا وہ ذوالفقار پیلس کی طرف بڑھا۔
" ہاتھ چھوڑیں۔"
" یار اتنا بھی بے اعتبار نہیں۔ اب تو تمہیں اور تمہاری ماں کو مجھ پر یقین ہو جانا چاہیئے۔"
سنجیدگی سے کہتا ایک بار پھر وہ " آپ " سے " تم " پر آ گیا۔ خاطره گڑبڑا کر ادھر اُدھر دیکھنے لگی۔ ساتھ ساتھ ہاتھ چھڑوانے کی کوشش بھی کر رہی تھی۔ مگر غازان کی گرفت مضبوط تھی۔
" اچھا ماما بھی ہیں آپ کی؟ "
ہاتھ چھڑوانے کی کوشش ترک کرتے ہوئے خاطره نے پوچھا۔ شاید غازان کی بات کا اثر تھا کہ وہ اب اس کے ساتھ قدم سے قدم ملا رہی تھی۔
"ہاں !! کیوں صرف تمہاری ہو سکتی ہیں؟ " غازان نے گھورا۔
" نہیں اصل میں آپ کی خود پاپا کہلانے کی عمر ہے تو۔۔۔" مسکراہٹ دباتے ہوئے خاطره نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
" ہاں !! پر تم نے " ہاں " کہا ہی نہیں کہ مجھے پاپا کہنے والے اس دنیا میں آتے۔"
اب تپانے کی باری غازان کی تھی اور وہ کامیاب بھی ہوا تھا خاطره غصّے سے اسے گھورتے ہوئے ایک بار پھر اپنا ہاتھ چھڑانے لگی۔
" چھوڑیں مجھے، آپ کے ساتھ کہیں نہیں جانا۔"
" اچھا یار سوری مذاق کر رہا تھا چلو۔"
زبردستی اپنے ساتھ گھسیٹتے ہوئے وہ ذوالفقار پیلس کے سامنے جا کر رکا ہی تھا کہ عین اسی وقت دروازے کھول کر زوالقرنین ذوالفقار باہر آیا۔
" ہیلو برادر !! "

دادا ذوالفقار کے کمرے سے نکل کر رباب اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہی تھیں جب انہیں آس پاس انسانی جسم کی خوشبو محسوس ہوئی کوئی انسان ان کے بنائے دائرے میں چلا آیا تھا مگر کون؟
" آج تک تو کوئی انسان گھر میں داخل نہیں ہوا پھر یہ کون ہے؟ "
وہ سوچتی ہوئی تیزی سے اپنے کمرے میں آئیں اور کھڑکی پر ڈلے پردوں کو ہٹا کر نیچے جھانکنے لگیں جہاں وہ تینوں کھڑے نظر آ رہے تھے۔
" غازی !! دماغ خراب ہوگیا ہے ان دونوں کا۔"
لب بھینچے رباب کمرے سے نکل کر باہر کی جانب بڑھیں۔ خاطره کی موجودگی میں زوالقرنین اور غازان کا آمنا سامنا عنقریب کسی طوفان کی آمد کی گواہی تھا۔ مگر اس سے پہلے کے معاملات بگڑیں انہیں جا کر دونوں کو ایک دوسرے کی نظروں سے دور کرنا تھا۔

" تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ "
غازان نے مٹھی بھینچے خود پر ضبط کرتے ہوئے پوچھا۔ ورنہ دل تو کر رہا تھا اسے اُٹھا کر کہیں دور پھینک دے تاکہ بھولے بھٹکے سے بھی یہاں واپس نہ آئے۔ مگر خاطره کی موجودگی میں خود پر قابو پانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔
" تعارف نہیں کراؤ گے برادر؟ "
اس کی بات کو نظرانداز کرتے ہوئے وہ خاطره کی جانب مڑا اور مصافحہ کیلئے ہاتھ آگے بڑھایا مگر ہاتھ ملانے کے بجائے وہ اس کی آنکھوں کو دیکھ رہی تھی۔
" یہ تو وہی آنکھیں ہیں جو میں خواب میں اکثر دیکھتی ہوں۔"
خاطره نے الجھن بھری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کچھ بولنا چاہا لیکن اس سے پہلے ہی غازان نے زوالقرنین کا وہی ہاتھ تھام کر زور سے جھٹکا دیا۔
" وہ ہر ایرے غیرے سے ہاتھ نہیں ملاتی۔"
" ہاں پر تم جیسے ایرے غیرے کو منہ لگا لیتی ہے۔"
جلانے والی مسکراہٹ کے ساتھ کہتا وہ غازان کو تیش دلا گیا لیکن اس سے پہلے وہ کچھ کرتا کہ عین اسی وقت دروازہ کھول کر رباب باہر آئیں۔
" کیا ہو رہا ہے یہاں؟ "
" کچھ نہیں ماما رباب میں چلتا ہوں اپنا خیال رکھے گا۔"
رباب کے سوال میں چھپی فکر مندی کو محسوس کرتا وہ فوراً وہاں سے چلا گیا۔ رباب نے بھی سکھ کا سانس لیا اور غازان کی طرف مڑیں۔ جو ابھی بھی جاتے ہوئے زوالقرنین کی پشت کو گھور رہا تھا۔
" یہ کون ہے؟ "
غازان چونکا اور رباب کی طرف دیکھا جو سوالیہ نظروں سے اسے تو کبھی خاطره کو دیکھ رہی تھیں۔ حالانکہ وہ اچھے سے پہچان گئی تھیں کہ سامنے کھڑی لڑکی کوئی اور نہیں بلکہ ان کے بیٹے کی محبت ہے۔
" ماما یہ خاطره ہے آپ کو بتایا تھا نہ اس کے بارے میں۔"
آنکھوں ہی آنکھوں میں وہ کل کا سارا واقع ان تک پہنچانے لگا۔
" آں !! ہاں بتایا تھا۔ اب کیسی طبیعت ہے بیٹا آپ کی؟ " سب جان لینے کے بعد رباب فوراً خاطره کی طرف متوجہ ہوئیں۔
" ٹھیک ہوں آنٹی۔"
" آؤ اندر آؤ نا۔" رباب نے شفقت بھرے لہجے میں کہا۔
خاطره نے غازان کی طرف دیکھا۔ نرم تاثرات چہرے پر سجائے اس نے چلنے کا اشارہ کیا تو وہ ان دونوں کے ساتھ اندر کی جانب بڑھ گئی۔ جبکہ وہیں درخت پر بیٹھا کوّا بھی ان کے جاتے ہی اپنے اصلی روپ میں آ چکا تھا۔
" غازان ذوالفقار اور خاطرہ گردیزی !! کہانی تو اب شروع ہوگی رباب قائم ذوالفقار۔۔۔ ایک بار پھر ماضی دھرایا جائے گا۔" سوچتے ہوئے اس کی آگ رنگ آنکھوں میں چمک سی ابھری تھی۔

آرزؤ عشق سیزن 1 (آٹھواں حصہ)


تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں



Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں