جنات کا بھیانک انتقام (قسط نمبر 2)

اردو کہانیاں
 

جنات کا بھیانک انتقام (قسط نمبر 2)

ایک نوجوان کی کہانی جو اپنے شوق سی خاطر جناتوں کے نرغے میں پھنس گیا تھا ۔۔ جہاں سے اسکی واپسی تو ہوی مگر اسکی اپنی شکل میں نہیں۔

اس نے دیکھا بندوق پر ایک بہت ہی خوبصورت دوشیزہ پیر رکھ کر کھڑی تھی۔۔۔وہ کہہ رہی تھی ۔۔ نہیں نہیں ۔۔ یہ اب تمہیں نہیں ملیگی۔۔۔۔حامد نے ہمت جٹا کر پوچھا۔۔‌ تم کون ہو اور اس وقت میرےگھر کے ٹریس پر کیا کر رہی ہو۔۔۔۔۔مجھے گن دو اور فوراً یہاں سے دفع ہو جاوء ۔۔‌وہ ہنسنے لگی تھی تب ہی حامد غراتے،ہوےء بولا جاتی ہو یا آواز دی کر لوگوں کو اکھٹا کروں۔۔۔وہ نہایت دلکش آواز میں ہنسی تھی۔۔۔ کہ کچھ دیر کے لیے حامد بھی گڑبڑا گیا تھا۔۔ بلا لو بلا لو ۔۔‌مگر اس سے پہلے ایک نظر اوپر تو دیکھلو۔۔۔۔حامد کی نظر اوپر اٹھ تو وہ کانپ اٹھا اسکے سر سے کوی بیس فٹ اوپر ہی کویء پچاس چیلیں گردش کر رہی تھیں۔۔۔

 وہ حامد کو بہت ڈراونی لگی تھیں ادھر وہ لڑکی کہہ رہی تھی ۔۔تمہآرے کچھ کرنے سے پہلے یہاں صرف تمہاری ہڈیوں کا انبار ہوگا۔۔۔۔۔ا ۔ عاجز ہو کر حامد نے پوچھا۔۔۔ آخر تم چاہتی کیا ہو۔۔۔۔ وہ بولی تمہارے ہاتھوں ہماری ملکہ کی چھوٹی بہن شمعونہ شہید ہوی ہےء ۔۔ ملکہ کے غصہ اور افسوس کا کویء ٹھکانہ نہیں ہےء ۔۔‌حامد بولا تو مجھے کیا کرنا ہوگا۔۔۔‌وہ بولی تمہیں ملکہ کے روبرو جانا ہوگا۔۔ حامد بولا اگر ایسا نہ کروں تو۔۔۔‌لڑکی بڑے دلربانہ انداز میں ہنسی۔۔ اور بولی۔۔۔ میرے بھولے۔۔۔تم‌ نہیں جانتے تم نے کہاں قدم رکھ دیا ہےء۔۔۔‌اب اگر پس و پیش کرو گے تو حالات تمہیں وہاں لے جاینگے۔۔۔۔۔۔پھر تمہارے اختیار میں کچھ نہ ہوگا۔۔۔ اتنا کہہ کر وہ ہوا میں معلق ہو گیء تھی اور پھر حامد کے دیکھتے ہی دیکھتے ہوا میں وہ ایک چیل میں تبدیل ہو گیء تھی ۔ پانچ ہی منٹ میں وہ سب وہاں سے غایب تھیں۔۔

 حامد نے دیکھا کہ وہاں بندوق بھی ندارد تھی۔۔۔۔حامد سن رہ گیا تھا۔۔۔‌ایک بار پھر اسکے ذہن‌ میں دادی کے الفاظ گونج رہے تھے ۔۔اسے محکمہ جنگلات اور محکمہ تحفظ حیوانات و پرند کے دعوے کھوکلے لگنے لگے تھے کیوں کہ اسنے اپنی آنکھوں کے سامنے ایک انسانی شکل کو چیل بنتے دیکھا تھا۔۔۔۔‌ایک طویل سانس لیکر وہ نیچے جانےلگا تھا۔۔۔کمرے میں جاتے ہی وہ بستر پر ڈھیر ہوگیا۔۔ اسے جلد ہی نیند نے گھیر لیا۔۔ اس رات اسنے بڑے خوفناک خواب دیکھے۔۔۔اسنے دیکھا کہ وہ آفس آیا ہےء ۔ ابھی وہ اپنی جگہ پر بیٹھا ہی تھا کہ چیلوں کا ایک غول تیزی سے آفس میں داخل ہوا اور چاروں طرف منڈرانے لگا۔‌آفس میں افرا تفری مچ گیءتھی ۔۔‌لوگ ادھر ادھر جان بچانے لگے تھے مگر چیلوں کا نشانہ صرف حامد ہی تھا۔۔۔چیلیں چو طرفہ حملہ کر اسکو زخمی کر رہیں تھیں۔۔۔‌اچانک اسے لگنے لگا تھا کہ وہاں گرمی بہت بڑھ گئی ہےء۔۔‌اسکے سر میں بہت پسینہ آگیا تھا جو اسکی پیشانی سے اتر کر آنکھوں پر آگیآ تھا۔۔ اسنے ہاتھوں سے صاف کیا تو اسنے دیکھا وہ خون ہے۔۔ گرم گرم‌خون جو اسکے سر سے بہ رہا تھا۔۔‌وہ لرز گیا اور چینخنے لگا تھا۔۔‌ا سے لگا کہ وہ جنگل میں اسی جگہ ہی جہاں لڑکی کے مطابق شمعونہ شہید ہوی تھی۔۔‌اسے،لکا کہ شمعونہ کا خون زمیں سے اڑ کر اسکے سر سےہو کر بہہ رہا ہے ۔۔۔‌وہ چینخنے لگا ۔۔۔‌ملکہ میں آگیا ہوں ۔۔۔ میں آگیا ہوں ۔۔۔‌اسی کی چینخ سے اسکی نیند کھل گئی تھی۔۔۔
 اسنےدیکھا کہ وہ پسینے میں نہا گیا ہے۔۔ کمرہ میں گرمی بہت بڑھ گئی تھی ۔

 حلانکہ دن سردی کے چل رہےء تھے،۔ اسکی نظر پنکھے پر گئی تو اسکی چینخ نکل گئی ۔۔۔ اس نےدیکھا کہ پنکھے کے بلیڈوں کو کسی نےبری طرح مروڑ کر اوپر طرف اس طرح کر دیا تھا کہ وہ اب ہوا دے ہی نہیں سکتے تھے۔۔۔ کون ہو سکتا تھا وہ۔۔۔۔‌حامد کا خون خشک ہونے لگا تھا ۔۔ کویء تو شےء تھی جو اس کے سونے کے بعد کمرے میں آیء تھی۔۔۔ اس نے دیکھا کے چالو پنکھے کے رک جانے سے پنکھے کے موٹر کی کوایل بےحد گرم ہوچکی تھی جس سے کمرہ کا درجہ حرارت بڑھ گیا تھا ۔ اور اب پنکھے کی باڈی کے پینٹ جلنے کی بو کمرے میں پھیل‌ رہی تھی۔۔ بجلی کی سرعت سے اٹھ کر حامد نے پنکھے کا سویچ بند کیا۔ وہ واپس پلنگ پر بیٹھ کر آج کے حالات پر غور کرنے لگا تھا۔۔ بڑے عجیب حالات پیش آ رہےتھے۔ اسے کمرے میں ڈر لگنے لگا تھا۔۔ کہ اب حملے گھر پر ہونے لگے تھے ۔

 اسنے سوچا کہ اسکا ذکر افضل سے کریگا۔ اور ۔۔۔ اور جنگل تو ضرور جایگا۔۔دوسرے دن اس نے ساری باتیں اور اب تک کی ساری وارداتیں افضل کےگوش گڑار کر ڈالیں۔۔۔افضل پہلے سے ہی بہت زیادہ توہم پرست تھا۔۔‌اسکی باتیں سن کر کہنے لگا تھا۔۔ یار تیرے شوق نے تجھے یہاں لا کھڑے کیاہےء۔۔۔کیا ضرورت تھی معصوم پرندوں کےشکار کی۔۔۔‌پھر بولا دیکھ حامد یہ جناتوں کا معاملہ بہت برا ہوتا ہےء۔ اس سے بچ نکلنا اپنے بس میں نہیں ہوتا ہےء۔۔۔ پھر وہ جنات کے بارےمیں‌ایسی ایسی باتیں بتانے لگا تھا جیسے وہ ماہرالجنات ہو۔۔۔۔‌حامد کہنے لگا ۔ تو کیا کویء عامل یا بابا اس سے چھٹکارہ دلا سکتا ہےء کیا۔۔۔ افضل نے،کہا دیکھو بھایء پھلے تو کویء عامل جنات کے معاملے میں ہاتھ نہیں ڈالتے۔۔‌کیوں کہ خود انکی جان کو خطرہ لاحق رہتا ہےء۔۔۔کچھ عامل کہتےہیں کہ انکی مانگ پوری کردو تو چھٹکارہ مل جاتا ہےء۔۔ حامد نےکہا۔۔‌افضل تمہیں اس میں میرا ساتھ دینا ہوگا۔۔ ہم وہاں جا کر انکی مانگ پوچھینگے۔۔ اغضل نے فوراً انکار کر دیا۔۔۔ نہ بابا نہ۔۔ میں نہیں پڑتا ایسی فصیحتوں میں۔۔۔‌البتہ تمہارے لیے کسی عامل سے حفاظتی تعویز لا سکتا ہوں۔۔۔۔ حامد خاموش ہ۔ گیا۔۔‌دوسرے دن افضل ندی والے پیر صاحب کےسامنے ادب سے دوذانو بیٹھا تھا۔۔۔پیر صاحب بڑے قد کے سفید باریش۔۔سفید لباس ۔ سر پر بڑی سی پگڑی تھی ۔۔‌

 انہوں نے ساری کیفیت بڑے غور سے سنی ۔۔۔۔ اور مراقبے میں چلے گےء۔۔۔ کافی دیر تک وہ مراقبہ میں رہے ۔ افضل کو بے چینی محسوس ہونے لگی تھی۔۔۔اس دوران پیر صاحب انکھ بند کیے ہوے تھے مگر بیچ بیچ میں وہ اپنے سر پر اس طرح ہاتھ گھما رہے تھے جیسے وہ کسی شے ء کو اپنے سے دور ہٹا رہے ہوں۔۔۔ اچانک وہ سجدے میں گر گیےء ۔ پھر سجدہ بھی طویل ہوگیا۔۔۔‌سجدہ سے جو اٹھے تو انکی آنکھیں دیکھ افضل ڈر گیا تھا۔۔ وہ انگاروں کی طرح لال سرخ ہو رہیں تھیں .. پہر آنکھیں مل کر وہ کہنے لگے تھے ۔۔ کیا تم نے کویء چیز یہاں دیکھی ہےء۔۔۔ نہیں تو یہاں کویء نہیں آیا۔۔۔ افضل نے کہا۔۔۔ وہ کہنے لگے ایک چیل میرے سر بر منڈرا رہی تھی ۔۔ وہ مجھے‌اپنی ٹھونگ سے زخمی کرنا چاہ رہی تھی۔۔۔مےں نےاسے دفع کردیا ۔۔ اللہ نی مجھے بچا لیا اسی لیے فورآ ہمیں نے سجدہ شکر ادا کر دیا۔۔ تم نہیں جانتے کتنا خطرناک معاملہ ہےء۔۔۔ اگر وہ مجھے مار لیتی تو یہاں آگ لگ جاتی سب کچھ تباہ ہو جاتا ۔۔۔ افضل کو یکا یک جھرجھری آ گیء۔ وہ کہنے لگے اب تم جاوء اور خود کو اس معاملے سے الگ ہی رکھو۔۔۔‌افضل نے کہا کہ وہ حامد کا کیا۔۔ ہاں وہ بولے۔۔ اسکے لیے ایک حفاظتی تعویز دی رہا ہوں۔۔ اس سے کہنا اسے ایک بار پہننے کے بعد ہرگز مت اتارنا۔۔۔وہ خطرناک جناتنیوں کے،پھیرے میں آگیا ہےء۔۔۔ تعویز کی وجہ سےوہ اس کے شر سے محفوظ رہیگا۔۔۔‌ا
 
پیر صاحب کہہ رہے تھے کہ اس سے چھٹکارہ تو نا ممکن ہےء مگر وہ ان کے شر سے محفوظ رہیگا۔۔‌البتہ تم اس سے دور ہی رہو تو بہتر ہےء۔۔ابھی ابھی تم میرا حشر دیکھ ہی چکے ہونا۔۔ افضل نے کویء چیل یا کویء شےء نہیں دیکھی تھی مگر وہ پیر صاحب کو نہیں جھٹلا سکتا تھا۔۔۔ بحرحال اس نے طےء کیا کہ وہ اب حامد کو تعویذ ڈیکر اس سے دور ہی رہیگا۔ اسی شام‌ وہ حامد کے سامنے اسی کے گھر میں بیٹھا تھا۔۔۔افضل نے ساری کیفیت بیان کر کے کہا کہ تم یہ تعویذ اپنے گلے میں باندھ لو۔۔ اور کبھی بھی اسے نہ اتار نا چاہے کیسے ہی حالات ہوں۔۔۔اور ہاں مجھے تاکید کی ہےء کہ میں ان معاملات سے دور رہوں۔۔۔لہذا اب میں اسمیں تمہاری مدد سے قاصر ہوں۔۔۔۔۔۔ا۔ حامد کو لگا کہ افضل ڈرپوک ہےء اور وہ اس سے جان چھڑانا چاہتا ہےء
حامد نے اس سے تعویذ لے لیا۔۔۔غسل کرنےکے بعد جوں ہی اس نے تعویذ گلے میں ڈالا۔۔اسے لگا جیسے اسکے چودہ طبق روشن ہوگےء۔۔۔اچانک اسکی ہمت بڑھ گیء تھی ۔۔ اسے،لگنے لگا جیسے یہ چیلین وغیرہ معمولی چیزیں ہوں۔

اب اسکا ڈر ہر چیز سے یکلخت ختم جیسا ہوگیا تھا۔۔ اس نےطےءکیا آج وہ جنگل جایگا۔۔ ناشتہ کےبعد نکل پڑا ۔ اس عرصہ میں وہ کار کی ونڈ اسکرین ہی بدل سکا تھا ۔ ڈینٹنگ اور پینٹنگ وقت طلب تھی اس لیے اسکو آیندہ کے لیے ملطوی کر دیا تھا۔۔۔۔۔ جنگل پہنچتے پہنچتے اسکی نظر یوں ہی آینہ براےء عکس مخالف ( بیک وہیو مرر) پر پڑی تو اسکی روح کانپ گیء عین ممکن تھا کہ اسکا ہاتھ اسٹیرنگ پر بہک جاتا۔اس نے دیکھا۔۔ایک بڑی چیل پچھلی سیٹ کے شولڈر پر بیٹھی اسے گھور رہی تھی۔۔۔۔۔۔وہ انسانی آواز میں بولنے لگی تھی ۔۔۔ چلتے رہو۔۔۔ حامد نے گلے میں تعویذ ٹٹولا ۔۔ وہ صحیح تھا۔وہ خود کو بےخوف محسوس کرنے لگا تھا۔۔۔‌اس نے کار کو ہمیشہ کی جگہ پارک کیا ۔ اور لاک کرکے اترتے وقت پچھلی سیٹ پر نظر ڈالی ۔۔۔۔ وہاں کوی چیل نہیں تھی ۔۔۔ اس نے سوچا وہ کسی واہمہ یا کسی اعصابی بیماری کا شکار ہو گیا ہے۔۔یا زیادہ سوچنے سے ہر جگہ چیلیں نظر لگی ہوں ۔۔۔اس نے سر جھٹکا اور کار سے باہر نکل کر ایک طویل انگڑایء لی اور جنگل کی طرف چلنے لگا ۔۔‌آج وہ اس قصہ کو ختم کر دینا چاہتا تھا۔۔

وہ آہستہ آہستہ چلتا اس درخت سے گزرا جہاں چڑھ کر اسنے وہ منحوس شکار کیا تھا ۔۔ اب وہ عین اس جگہ تھا جہاں بقول چیل لڑکی کے کسی شمعونہ شہید ہوی تھی۔۔۔۔ا۔ اسنے دیکھا کہ وہاں خون اتنی ہی مقدار میں تازہ پڑا تھآ ۔۔۔مگر وہ ڈرا نہیں اس نے مان لیا تھا کہ اسکا سابقہ جننات سے پڑ چکا ہےء۔اچانک اسے کسی لڑکی کی دلفریب آواز آیء ۔۔ اسنے دیکھا تو کچھ نظر نہیں آیا۔۔ کچھ دیر بعد اسنے درختوں کے پیچ ایک سرسراہٹ سنی۔۔جھٹکے سے پلٹ کر اس نے دیکھا ۔۔۔ تو اونچے پودوں کے گھنے پتوں سے ایک نہایت خوبصورت حسین سراپا اسے بلا رہا تھا۔۔ وہ ایک ٹک اسے دیکھتا ہی رہ گیا تھا۔۔ بے انتہا خوبصورت تھی وہ۔۔بیضوی چہرہ ۔ کمانی دار بھویں۔‌کشادہ پیشانی۔ نرگسی بری آنکھیں۔۔سطواں ناک آگے کو نکلی ہوی۔۔اسےکچھ نیچے اوپری ہونٹ ۔ ذرا سا ناک سے پیچھے ۔۔ اور نچلا ہونٹ اوپری ہونٹ سے ذرا سا اور پیچھے ۔۔ اور کچھ خفیف سا دبیز بھی ۔۔ لمبی صراحی دار گردن گویا کسی مجسمہ نیں جان آگئی ہو۔۔ 

اس سے نیچے دیکھنے کی وہ تاب نہ لا سکا تھا۔۔۔اسنے محسوس کیا کہ وہ نا دانستہ طور پر جنگل یا اس زندہ مجسمہ کی طرف بڑھا رہا ہے۔۔ اسکے قدم سحر زدہ انداز آہستہ آہستہ جنگل میں داخل ہو رہے تھے۔۔ وہ چاہ کر بھی واپس نہیں پلٹ پا رہا تھا۔۔ جنگل میں قدم رکھتے ہی وہاں کا منظر بدل گیا تھا۔۔‌اسوقت وہ ایک شاندار محل میں کھڑا تھا۔۔ سمنے نہایت نقشی مسند پر وہ قیامت خیر سراپا اداےء دلبرانہ سے براجمان تھی۔۔۔بسی،کےسامنے خوبصورت بلوریں نقشی کانچ نما چیز کے مختلف سایز کے ظروف رکھے تھے ۔ انہیں کےساتھ کچھ پیلے بھی جنمیں مشروب نظر آرہے تھے ۔۔۔محل،کی دیواریں و دروازے مخملی یا ریشمی نما دبیز بڑے،پردوں سے آراستہ تھے ۔ جنہیں دروازوں کےپاس لہری دار موڑ کر موٹی سنہری ریشمی ڈوریوں سےباندھا گیا تھا۔۔چھت پر بنفشیں رنگ کے کیء فانوس لٹک رہے تھے۔ جن سے پھلنے والی روشنی سے ماحول خوابیدہ ہو گیا تھا۔ایک انجانی محسور کن خوشبو سارے ماحول میں رچی تھی۔۔۔

 حامد خود سحر زدہ محسوس کرنے لکا تھا گویا وہ خوابوں کی دنیا میں ہو۔۔۔۔ اچانک وہ جاگا اسے ہمت محسوس ہوی ۔۔ اس نے پوچھا ۔۔ مجھے یہآں کیوں بلا گیا۔۔۔ بہت ہی مترنم آواز میں وہ گویا بویء ۔۔۔ تم بلاءے نہیں گےء ہو ۔۔۔۔‌تم لاےء گےء ہو۔۔۔ تمہیں ہماری عظیم ملکہ کے روبرو ہونا ہےء۔۔۔ تو تم ملکہ نیہں ہو ۔ حامد نے پوچھا۔۔۔ ہاں وہ بولی ۔۔ اسکی آواز اور لہجہ حامد کے جذبات سے کھیلنے لگے تھے ۔ ہاں میں ملکہ نہیں ہوں میرا نام تہمینیہ ہےء۔۔۔۔ میری ذمہ داری ہےء کہ تمہیں ملکہ کے سپرد کروں۔۔ کیا کہا سپرد۔۔ حامد نےکہا۔۔۔۔ ہاں حامد۔۔‌تمہیں اب یہاں ہی رہنا ہوگا اور ملکہ جو سزا تجویز کریگی ۔۔ وہ پوری کرنی ہوگی۔۔

 حامد اسکے منہ سے اپنا نام سن کر چونکا۔۔ مگر یہ خیال کر کے کہ اس سحر کی نگری میں سب کچھ ممکن ہےء۔ وہ چپ ہو رہا۔۔۔ وہ کہنے لگی تھی ۔۔لیکن تم گھبراوء نہیں ۔۔ اسکی آواز ایسے لگی جیسے ہزاروں موتیاں چاندی کے طشت میں گرایء جا رہی ہوں۔۔۔ میں تمہیں ملکہ کے سپرد نہیں کرونگی۔۔۔ بلکہ ۔۔‌ا ۔۔بلکہ کیا حامد نےکہا۔۔۔‌وہ کہنے لگی۔۔۔ بلکہ تم میری قید میں رہوگے۔۔ یہ قید بھی نہیں ہوگی ۔۔ تم آزاد رہو گے مگر میری اجازت کے بغیر یہاں سے قدم باہر نہیں نکال سکو گے۔۔۔۔یوں سمجھو کہ میں تمہیں اپنے پاس رکھو نگی۔۔۔ حامد کو اسکے ارادوں میں شک لگا ۔۔‌اس نےکہا میں ملکہ سے تمہاری شکایت کردونگا۔۔۔۔ہنس کر وہ بولی۔۔ کیسے ۔۔ کیسے۔۔ تمہیں معلوم‌ہی نہیں وہ کہاں ہوتی ہے ۔۔ ۔ حامد نے عاجز آکر کہا ۔۔تہمینیہ مجھے جانے دو۔۔۔ناممکن ہےکہ میں یہاں رہوں۔۔ تمہاری اس سحر انگیز دنیا میں۔۔۔‌ وہ ہنس کر بولی۔ اب یہ ناممکن ہےء تم حصار میں ہو۔۔۔ 

حامد نے پیر پٹخ کر کہا لعنت ایسے حصار پر اور وہ پلٹ گیا۔۔ پیچھے دروازہ تھا وہ اس سی نکل گیا۔۔ اسے پیچھے تہمینیہ کے قہقہہ سنایء دے رہے تھے۔۔باہر نکلتے ہی اسک خوشی کا کویء ٹھانہ نہ رہا تھا۔۔ اب وہ آزاد تھا ا محول ایکدم بدل سا گیا تھا وہ ایک بار اسی جنگل تھا۔۔‌اسنے خود کو اسی منحوس درخت کے پاس پایا ۔۔سامنے کچھ دور‌پر اسکی کار بھی کھڑی تھی۔۔۔کار کا فاصلہ اتنا تھا کہ وہ پانچ منٹ میں کار تک پہنچ جاتا ۔ وہ خوشی میں تیز چلنے لگا تھا۔۔ اسے متعدد خیالون نے گھر لیا وہ سوچنے لگا تھا اچھا ہی ہوا اس نے ہمت جٹالی۔ اب وہ آزاد تھا ۔۔ ہمت کا خیال آتے ہی اس کا خیال تعویز پر گیا تھا۔۔۔اسنے گلے میں ٹٹولا تو روح فنا ہونے لگی ۔۔‌تعویز غایب تھا۔۔۔ اسے یاد ہی نہیں آیا کہ کب اسکا تعویز نکا لا گیا تھا یا کہیں گر پڑا تھا۔۔۔

پھر وہ سوچنے لگا اب تعویز کی ضرورت بھی کیا ہےء۔۔۔وہ تو اب آزاد ہےء۔۔ وہ اس منحوس دن کو کوسنے لکا تھا ۔ جب اسکے شوق کی وجہ سے ایک چیل شکار ہو گیء تھی۔۔۔ اسیطرح کے مختلف خیا لات سے اسکی ذہنی رو بہکتی رہی تھی اچانک اسکی نظر ہاتھ گھڑی پر پڑی۔۔۔‌وہ لرزگیا۔۔ اسے چلے ایک گھنٹہ سے زاید ہو رہا تھا۔۔۔ وہ اس درخت سےبہت آگے بھی آ گیا ۔‌مگر کار ۔۔۔۔ اسکی جسم پر چیوںٹیاں رینگنے لگی تھیں۔۔۔

جنات کا بھیانک انتقام ( قسط نمبر 3)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں



Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں