جنات کا بھیانک انتقام (قسط نمبر 3)

Hindi Stories
 

جنات کا بھیانک انتقام (قسط نمبر 3)

اسکی کار اب بھی اتنی ہی دور کھڑی نظر آرہی تھی۔۔اسکا دل ڈوبنے لگا تھا گویا وہ اب بھی حصار میں تھا۔۔جتنا وہ آگے جاتا کار سراب کی طرح آگے اگے جاتی نظر آتی تھی۔

وہ سمجھ گیا تھا کہ اسکی نظر بندی کی جارہی ہے۔۔ تب ہی اسے تہمینیہ کا قہقہہ سنایء دیا۔۔میں نےکہا تھا نا ۔۔ کہ تم اپنی مرضی سے کہیں نہیں جا سکتے۔۔۔اسنے مڑ کر دیکھا تو پاس کے درخت پر وہی منحوس چیل بیٹھی اسے دیکھ رہی تھی ۔۔‌اس کی نظر ملتے ہی وہ اڑ کر جنگل میں نکل گیء تھی۔۔ غصہ میں حامد نے پاس ہی سے بڑا سا پتھر اٹھا کر اسکے پیچھے دوڑا۔۔۔۔دوڑتے دوڑتے جیسے ہی وہ جنگل کی حد میں گیا۔۔ ایکدم ماحول بدل گیا تھا۔۔ اب وہ اسی محل میں کھڑا تھا اسے سامنے تہمینیہ مسند پر براجمان تھی۔۔۔وہ قہقہہ لگارہی تھی ۔۔ پھر وہ بو لی۔۔ دیکھا تم ںے۔۔۔ اب بھی کیا تم جانے کا سوچ سکتے ہو۔۔۔۔۔

کچھ سوچ کر اس نےکہا ۔۔۔ چلو ٹھیک ہےء۔۔کم سےکم مجھے آج گھر جانے دو۔ میں وہاں بتا تو دوں کہ میں کام‌سےباہر ہون۔۔۔۔پھر تم مجھے واپس یہاں لانے پر تو قادر ہی ہو۔۔۔۔۔۔ ۔۔ نہیں حامد نہیں۔۔ اسنے کہا۔۔۔ یہاں سے رہائی کا راستہ موت ہے یا زندگی بھر کا پاگل پن۔۔۔ اور پھر ویسے بھی تم کو ملکہ کے پاس جانا ہےء جہاں تمہاری موت یقینی ہےء۔۔۔۔‌مگر میں تمہیں مارنا نہیں چاہتی۔۔۔۔‌پھر کیا جاہتی ہو تم۔۔۔۔حامد نے کہا۔۔‌نہایت رومانی لہجے میں وہ کہنے لگی۔۔۔تم۔۔‌تم کو میں چاہنے لگی ہوں۔۔۔‌پہلے۔ ہی دن سے ۔۔۔‌جب تم‌نےشمعونہ کو شہید کیا تھا ۔۔۔‌میں نے دانستہ طور پر نہیں شہید کیا تھا ۔۔۔ بلکہ وہ محض اتفاق تھا۔۔۔ حامد ڈھٹایء سے بولا۔۔۔۔جو بھی ہو اب ملکہ کا غصہ آسمان کو پہنچا ہوا ہےء ۔۔ اور ہم میں سے کویء بھی اسکے خلاف نہیں جاسکتا ۔۔‌

تم سوچ بھی نہیں سکتے کتنی عبرتناک ہو تی ہےء اسکی سزایں۔۔۔۔‌پھر بھی میں نے ملکہ سے چھپا کر تمہیں یہاں اپنے پاس رکھا ہوا ہےء۔۔۔جانتے ہو ہمارے یہاں انسانوں سے دور رہنے کی تاکید کی جاتی ہےء۔ اسطرح میں نے ہمارے معاشرہ کے خلاف جا کر اپنے اوپر مصیبت لے رکھی ہےء۔۔۔کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہےء۔
‌مگر کیوں ۔۔ حامد بولا۔۔۔ تہمینیہ بولی ادھر آو میرے پاس ۔۔۔حامد نے دوسرے ہی لمحہ خد کو اسکے قریب پایا۔۔۔وہ اسکے گلے میں باہیں ڈال کر کہنے لگی تھی ۔۔‌حامد میں تم کو چاہنے لگی ہوں۔۔۔تم کو حاصل کرنا چاہتی ہوں ۔۔‌تمہیں اپنے پاس رکھوں گی ۔‌۔۔۔مجھے،لگنے لگا ہےء کہ تم‌ میرے ہو۔۔۔ ملکہ سے میں نپٹ لونگی۔۔۔ حامد آخر مرد ہی تھا۔۔ اس حسین گداز کے قرب نے اسکے جذبات کو مغلوب کر لیا۔۔۔ اسے پہلی بار تہمینیہ بہت خوبصورت لگی تھی۔ اسکا لمس اسکے دعوت دیتے انداز۔۔۔حامد کو محسور کرنے لگے تھے۔۔‌اچانک اسنے سوچا ۔۔‌کیا حرج ہےء۔۔‌کچھ دن تہمینیہ کو اعتماد میں لینے کی خاطر یہاں رہ لیتا ہوں ۔۔۔

 پھر نکلنا تو ہےء ہی۔۔‌۔ اسنے سپر ڈال دیےء۔۔ اب وہ بھی تہمینیہ کو جکڑے ہوے تھا۔۔ اچانک جذبات کی رو میں بہ کر اس نےایک حسین جسارت کر ڈالی ۔۔۔ پھر وہاں چٹکیوں کی آوازیں گونجنے لگی تھیں۔۔۔ اسنے سنا کہ تہمینیہ۔۔ گنگناتی مخمور آواز میں کہ رہی تھی۔۔۔ حامد جب تک میری طبیعت سیر نہیں ہو جاتی تم میرے پاس رہو گے۔۔ حامد نے جھٹکے سے اس کو الگ کیا اور کہا۔۔ کیا میں پھر واپس جا سکونگا۔۔۔ دوسری طرف مڑ کر تہمینیہ نیچے چہرہ کر کے افسردہ لہجے میں کہنے لگی تھی۔۔۔ ہاں حامد تم‌ تب آزاد ہوں گے ۔۔۔ مگر ۔۔۔ کہ کر وہ رک گیء۔۔ مگر کیا حامد بولا۔۔۔ سسکی لیکر وہ بولی ۔۔ تب۔۔ تب۔۔۔ تم چیل بنادیے جا وگے۔۔ تمہیں ایک چیل کی شکل میں یہاں سے آزادی ملےگی ۔۔۔۔۔۔ حامد سر سے پاوں تک لرز گیا تھا۔۔ حامد گھبرا کر بولا ۔۔۔ نہیں نہیں۔۔ یہ کیسے ممکن ہےء۔۔ بس نےکہا۔۔ تمہیں پتہ بھی نہیں چلے گا۔۔۔ کہ تم چیلوں میں شامل ہو گئے ہو۔

حامد کو کرہیت آنے لگی تھی یہ سوچ کر۔۔‌۔۔۔۔تب ہی حامد نےدیکھا کہ تہمینیہ۔۔دوسری طرف منہ کر کےکسی کو آواز دی رہی تھی ۔۔ مگر کسی غیر انسانی آواز میں۔۔۔ حامد ہکا بکا رہ گیا۔۔ اسے لگا جیسے بہت ساری چیلیں ایک ساتھ کلاریاں مار رہی ہوں۔۔۔۔‌ا۔

تب ہی اس طرف سے ایک لڑکی ایک بہت بڑا پتہ جو پیپل کے پتہ کی مشابہت رکھتا تھا مگر سایز۔۔۔اف ۔‌پانچ فٹ کے قریب تھا ۔۔ تہمینیہ نے وہ پتہ حامد کےسامنے کر دیا۔۔۔ حامد ںے دیکھا کہ پتہ کی سطح آینہ کی طرح ہو گیء تھی اور اس میں حامد کے پیچھے کا سارا منظر نظر آرہا تھا۔۔ مگر خد حامد۔۔۔ اللہ کی پناہ۔۔۔ اسکی جگہ وہ ایک بڑی چیل کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔‌وہ لرز گیا اسے قےء محسوس ہونے لگی تھی۔۔۔ ۔ خدا جانےکس قسم کا سحر تھا۔۔ حامد نے آنکھوں پر ہاتھ رک لیا تھا یہ دیکھنے کی اسمیں تاب نہ تھی ۔۔۔تب ہی تہمینیہ نے وہ پتہ زمین پر پٹخ دیا تھا۔۔۔‌اسکے گرتے ہی حامد کو ایسی آواز آیء جیسے بہت بڑا آینہ گر کر ٹوٹا ہو۔۔۔۔۔۔

حامد نے آنکھ کھول کر دیکھا تو زمیں پر صرف پتہ کے ٹکڑے بکھرے ہوےء تھے۔۔ جیسے کسی نے غصہ میں پتہ کہ ٹکڑے ٹکڑے کر ذالے ہو۔۔۔حامد نے فوراً اپنے خدوخال پر نظر ڈالی۔۔ وہ ٹھیک ٹھاک ہی تھا۔۔ پتہ نہیں اسے کیا نظر آیا تھا۔۔۔ ادھر تہمینیہ قہقہہ لگا رہی تھی۔۔۔بس ڈر گےء اتنے میں ہی۔۔۔ چلو آج میں تمہیں میری دنیا کی سیر کراتی ہوں۔۔ حامد نے کہا کیا یہاں ہر ایک کی دنیا الگ ہوتی ہےء۔۔۔ہاں وہ بولی۔۔۔‌یہاں ہم کو اختیار ہے کہ ہم‌اپنی دنیاء اپنی مرضی سے سجایں۔۔۔مزین کریں۔۔۔ حامد جو اب اپنے آپ کو حالات کے سپرد گر چکا تھا اس پر تیار ہو گیا تھا۔۔ مگر یوں ہی اس نے پوچھ لیا۔۔ تہمینیہ کیا تم واقعی مجھے چاہتی ہو۔۔۔ ہاں تہمینیہ نے کہا ۔۔۔‌ہمارے یہاں ہم کو انسان کم ہی ملتے ہیں۔۔۔۔ سنا ہےء انسان کی لذت۔۔بہت ہی اعلیٰ ہوتی ہے۔۔۔۔ ورنہ ہم تو دھویں سے بنے ہوتے ہیں۔۔۔۔ ۔۔‌وہ بیباکی سے بول رہی تھی ۔حامد سن رہ گیا۔۔ تو یہ مطلب ہےء۔وہ سوچنے لگا تھا اس کو اپنے جسم‌میں چیونٹیاں رینگتی محسوس ہو رہی تھیں۔۔ اب تک حامد بھی مرعوب ہو چکا ٹھا اس نے سوچا کہ وہ اپنی دنیا میں جاکر کسی ایسی ہی حسین لڑکی کی تلاش کریگا۔۔۔

کچھ ہی دیر میں تہمینیہ اسے،لیکر محل سے باہر نکلی تھی ۔۔۔۔۔۔ باہر کا ماحول دیکھ حامد غش کھانے لگا تھا۔۔وہ اسوقت ایک بہت خوبصورت وادی میں تھے۔۔چاروں طرف سبزہ زار اونچے اونچے ٹیلے تھے انکے درمیان سےایک بل کھاتی نہر کہیں چلی گیء تھی۔۔۔‌اس نہر میں رنگیں مچھلیاں اچھل کود کر رہیں تھیں۔ کوی لال کوی پیلی ۔ہری جامنی ۔ نیلی اور یہ سب ہی روشن تھیں گویا نیوں بلب سے بنی تھیں جنکی روشنی نہر کی لہروں پر محسور کن اثر ڈالر ہی تھی۔ ۔۔۔اوپر سرمیء رات چھایء ہوی تھی۔۔ افق سے اوپر کا آسمان جامنی مایل نیلگوں رنگ کا لگ رہا تھا۔۔ آسمان میں بدر کامل یوں لگ رہا تھا جیسے وہ ساکت نہ ہو کر اپنے محور پر گھوم رہا ہو ۔ جس سے اسکی روشنی جھلملاتی لگ رہی تھی۔۔چاند کے اطراف بےشمار تارے مختلف رنگوں میں جگمگا رہے تھے۔ جیسے وہ نیون کے بلب ہوں۔۔۔ وہ ساکت بھی نہیں تھے بلکہ وہ جگنووں کی طرح ایک دوسرے کے،پیچھے چکر کاٹ رہے تھے۔۔۔۔حامد کی نظر نیچے گئی تو دیکھا کہ لا تعداد جگنوں انکے اطراف منڈرا رہے تھے جو تتلیوں سے بھی بڑے لگ رہے تھے۔ 

ان سب کے رنگ مختلف تھی اور ان سے نکلنے والی روشنی بھی عجیب دلکش رنگ بکھیر رہی تھی۔۔ یہاں پودے بھی بڑے سایز کے تھے جن کے پتہ اور پھول تین چار فٹ گولایء کے تھے ۔ ہر پھول اور پتہ کا ڈیزاین علیحدہ اور دلفریب تھا ہی سب ہی نیون بلبوں کی طرح مختلف رنگوں کی روشنی بکھیر رہے تھے۔ ایسے رنگ جو حامد کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھے۔۔ اسنے دیکھا کہ درختوں کے تنے تو متناسب تھے اور بل کھاتے ہوے اوپر اونچای تک چلے گےء تھے ۔انکی اونچای بہت تھی ہر درخت کویء سو فٹ اونچا تھا۔ سب ہی کی شاخیں اور پتے بڑے اور گھنے تھے۔۔ ۔۔ اور سب ہی مختلف رنگون میں چمک رہے تہے۔۔۔ ماحول میں ایک عجیب طرح کی نشہ آور خوش بو پھیلی تھی ۔۔ اور محول نیں ہلکی موسیقی کی لہریں سنایء دے رہی تھیں۔۔۔۔ تب ہی تہمینیہ نے حامد کو گنگناتی آواز میں پکارا۔۔‌حامد ادھر دیکھو۔۔۔ حامد نے دیکھا جدھر تہمینیہ بتا رہی تھی۔۔ وہاں نہر کی دوسری طرف اونچے ٹیلوں پر کچھ بہت اونچے درخت تھے جنکے پتہ بھی بڑے ، رنگین اور روشن تھے۔۔۔ آو۔۔ اوپر چلیں۔۔ اور اس نے حامد کا ہاتھ تھام لیا حامد کا ہاتھ تھامتے ہی حامد اچمبھے میں پڑ گیا تھا۔۔۔۔۔

اسنے دیکھا کی سامنے کے خوبصورت ٹیلے کے اونچے درختوں میں سے دو درختوں کے درمیان کویء سو فٹ اونچای پر ایک بہت بڑا مسہری لگا خوبصورت رنگین شیشہ کا ( دبیز کانچ کا) مظبوط پلنگ موٹی ریشمی ڈوریوں جھولتا نظر آرہا تھا۔۔۔جسکے چاروں طرف گہرے فیروزی رنگ کی خوبصورت چادریں یا جھالریں کافی نیچے۔ تک لٹک رہیں تھی جنکے سروں پر کوی بالشت بھر چوڑی فیروزہ رنگ کی کروشیہ کےکام‌ کی بارڈر تھی۔ جس سے چادر میں عمودی لہریں بن گیںء تھیں۔ چادر کےجھولنے سے پلنگ کے کانچ کے رنگین پاےء نظر آجاتے تھے ۔پلنگ کےپاے دیکھ حامد کی نظر خود کے پیروں پر پڑی ۔حامد کو اچانک لگا کہ اسے پیر زمین پر نیہں ہیں بلکہ وہ اور تہمینیہ ہوا میں معلق تھے۔۔‌اور انکے نیچے سفید اور سرمیء کثیف بادل مرغولے لے رہے تھے جنکی خو شگوار ٹھنڈک حامد پیروں میں محسوس کر رہا تھا۔۔۔۔

 حامد کو لگنے لگا تھا جیسے وہ خواب کی دنیا۔ میں ہو۔۔۔ کچھ ہی دیر میں تہمینیہ اسے لیکر اس عالیشان پلنگ کےسامنے معلق تھی۔۔‌حامد کی آنکھیں پھیل گیںء۔۔‌اس عالیشان جھولتے آرام کدہ کو دیکھ کر۔۔۔۔کوی دس فٹ چوڑا اور دس فٹ لمبا پلنگ تھا جس کے اوپری حصہ میں فیروزی رنگ کی مھین جالی دار مسہری لگی تھی جس سے چھن کر ہلکی نیلگوں روشنی بستر پر آ رہی تھی ۔ بستر دبیز گدوں سے آراستہ تھا۔۔ جسپر گلابی رنگ کی خوبصورت چادر بچھی تھی اور بہت چوڑے گلابی رنگ کے غلاف چڑھے مو ٹے تکیہ سرہانے کی طرف رکھے تھے دونوں بازو اور پاینتی سے بڑے بڑے گاوء تکیہ گلابی غلاف چڑھے سلیقہ سے رکھے گےء تھے ۔۔حامد کو اس اہتمام کا مقصد کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگا تھا۔ مگر اب اس ںے خود کو حالات پر چھوڑ دیا تھا اور طےء کر رکھا تھا کہ یہاں سے ایک دن باہر نکلنا ہے ہی۔۔تب ہی اسے تہمینیہ کی مخمور آواز سنای دی ۔ آوء حامداندر چلیں۔۔ آج شب اپنی ہےء۔۔۔۔‌حامد کواپنی رگوں میں محسور کن ارتعاش محسوس ہو ںےلگا تھا۔۔‌وہ بھی جذبات کےنشے میں ڈوبنے لگا تھا ۔۔۔‌وہ بھول گیا تھا کہ اسکا ثابقہ غیر انسانی ہستی سے بڑ گیاہے۔۔۔۔۔۔۔

پھر زمین سےکوی سو فٹ اوپر رنگین بادلوں پر سوار حامد کو پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ کب مسہری کے اندر چلا گیا تھا۔۔۔انتہای مدھم لیکن محسور کن نیلگوں روشنی۔ جہاں موجودگی کا احساس صرف ہیولوں سے ہوتا تھا۔۔‌حامد نے محسوس کیا کہ اسکا،جسم بے لباس ہوگیا ہے۔۔۔۔۔ اس نے تہمینیہ کو آواز لگایء یہاں مت آنا۔۔ مگر ۔۔۔دوسرے ہی لمحہ اسنے تہمینیہ کو اپنے پاس اسی حالت می پایا۔۔ وہ پاگل سا ہوگیا تھا اس حسین سراپے کو اس حالت میں محسوس کر کے ۔۔آخر مرد انسان تھا کوی فرشتہ نہیں اور نہ کوی پہنچا ہوا فقیر ۔۔ کہ بندہ وہ بندہ جو دم نہ مارے ۔۔ اور پیاسا کھڑا ہو دریا کنارے۔۔۔۔۔

اسنے محسوس کیا کہ مسہری کے اوپر درختوں کے پتوں سے جو نیلگوں روشنی چھن کر آرہی تھی آہستہ آہستہ معدوم ہوتی جآ رہی تھی یہاں تک کہ مسہری تاریک ہوگیء تھی ۔۔ محسور کن لمحات میں حامد نے محسوس کیا کہ۔۔ وہ عالیشان پلنگ نما جھولا اب ہوا میں معلق ہو کر الف لیلیٰ کے حمام بادگر کی طرح مختلف درختوں کے بیچ ہچکولے کھاتے گھوم رہا تھا ۔۔ حامد مدہشیوں میں ڈوبنے لگا تھا۔۔کچھ ہی دیر میں مسہری میں چٹکیوں کے آوازیں گونجنے لگیں تھیں ۔۔۔ پتہ نہیں حامد کب نیند کی آغوش میں چلا گیا تھا۔۔۔۔۔ا۔

نیند کھلی تو اسنے اپنے آپ کو اسی محل میں پایا تھا۔ غسل سے فارغ ہوا تو وہاں انتہایء لذیز کھانا لگا ہوا تھا۔۔ناشتہ کو بیٹھتے وقت وہ سوچنے لگا تھا کہ آخر تہمینیہ نے اپنا مقصد حاصلِ کر ہی گیا تھا۔۔‌تب ہی کہیں سے تہمینیہ ہلکے نیلے ملمی لباس میں وہاں آیء۔۔۔‌اسے دیکھتے ہی حامد نےکہا۔ تہمینیہ۔۔۔ میں نے تمہارا ساتھ دیا ہےء ۔۔ اب مجھے اپنی دنیا میں جانے دو۔۔۔ کچھ سوچ کر تہمینیہ بولی۔۔۔ ٹھیک ہےء تم جا سکتے ہو ۔۔۔ مگر سورج کے ڈوبنے سے پہلے ۔۔ تمہیں یہاں ہونا ہوگا۔۔ورنہ تم جانتے ہو تمہیں کیسے لایا جا سکتا ہے۔۔ پھر مجھے ملکہ کی بھی جواب دہی کرنی ہےء۔۔حامد نےسوچا چلو کسی بہانے اس جادو نگری سے نکلنا مقصد اولیں ہےء۔۔ناشتہ سے فارغ ہو کر اس نے تہمینیہ سے واپسی کا وعدہ کر کے باہر نکلا ۔۔

 اسے یاد نہیں کہ کس طرح وہ کار تک پہنچا تھا۔۔۔ کچھ ہی دیر میں وہ شہر کی طرف جا رہا تھا وہ جلد از جلد اس منحوس نگری سے دور نکل جانا چاہ رہا تھا ویسے اسے رات کی لذت ورغلا رہی تھی۔۔۔۔۔‌مگر دل سخت کر کے وہ شہر کیطرف چل پڑا تھا۔۔ کچھ دیر بعد وہ اپنےگھر میں تھا۔۔۔بڑا سکون لگا تھا اسے گھر پہنچ کر اپنے ۔۔‌گھر پہنچتے ہی اسے دادی کی آ واز آیء۔۔ کہاں گیا تھا حامد۔۔وہ دادی کے پاس جا بیٹھا تھا ۔۔ ۔ کہیں نہیں ماں وہ کچھ کام سایٹ پر بڑھ گیا تھا تو رات کو وہیں رکنا پڑا تھا۔۔ دادی نےکہا تو تو چھٹی پر تھا نا۔۔۔ ہاں حامد نےکہا۔۔ مگر اچانک آفس سے فون‌آ گیا تھا۔۔دادی نے غور سے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوےء کہا۔۔ تیری آنکھوں کو کیا ہوا۔۔کیا ساری رات جاگا ہےء کیا۔۔۔ کیوں حامد بولا۔۔۔‌دادی کہنے لگی تھی ۔۔

 تیری آنکھیں چیل کی آنکھوں کی طرح سرخ ہو رہی ہیں۔۔۔اور تیرے چہرے پر باریک باریک زخموں کے نشان کیسے کیا بہت مچھر تھے وہاں۔۔۔ حامد کی ریڑھ کی ہڈی میں پسینہ آنے لگا تھا۔۔۔ وہ وہاں سے اٹھ کر کمرے میں آیا اور آینہ کے سامنے کھڑا ہوگیا۔۔ اسنے دیکھا کہ واقعی اسکی آنکھیں سرخ ہو رہیں تھیں۔۔۔ مگر چہرہ۔۔۔ اف۔۔۔‌۔۔ جہاں جہاں تہمینیہ کے ہونٹ لگے تھے وہاں ایسے نشان تھے جیسے کسی پرندہ نے چونچ ماری ہو۔۔۔۔۔۔ا۔‌ حامد سن رہ گیا تھا۔۔‌اسنے طے کر لیا تھا کہ وہ اب واپس نہیں جایگا۔۔چاہے یہاں مرنا پڑے۔ دادی اسے علاج کی صلاح دے کر سونے چلی گیء ۔ حامد کمرے میں بستر پر گیٹ گیا تھا ۔۔ 

اسکی آنکھوں میں کل رات کے منظر گھوم رہے تھے۔کیسی پیاری جگہ تھی۔ اسے تہمینیہ کا قرب بہت یاد آنے لگا تھا۔ متعدد خیالات بسے واپسی کے لیے ورغلانے لگے تھے ۔۔‌اچانک اسنے خیالات کو جھٹک دیا۔۔ وہ سوچنے لگا تھا کہ ءہ خیالات ہی تہمینیہ کا حربہ ہو سکتے ہیں واپس بلانے کے لیےء۔۔۔۔۔وہ سونے کی کوشش کر نےلگا تھا۔۔آہستہ آہستہ وہ نیند کی آغوش میں چلا گیا تھا۔‌رات بھر اسے بے چینی کی نیند لگی تھی۔۔ پرشان خیالات برے خوابوں کی صورت میں اسے اور بےچین کیےء دے رہےتھے۔۔اچانک ایسے ہی ایک خواب میں ایک بڑی چیل اس پر جھپٹی تھی گھبراہٹ سے اس کی آنکھ کھل گیء تھی۔۔۔ ۔اسے کمرے کی چھت پر کسی کے چلنے کی آواز آیء تھی ۔۔ کوں ہو سکتا تھا اتنی رات گے۔۔

 اچانک اسے کمرے میں بھی کسی کی موجودگی کا احساس ہوا تھا۔۔ تب ہی اسکی نگاہ روشندان پر گیء وہاں ایک جیل بیٹھی اسے گھور رہی تھی۔۔تب ہی اسکو تہمینیہ کی آواز سنای دی۔۔حامد تم سے،کیا کہا تھا میں‌ نے۔۔۔۔۔ تم‌اب اس دنیا کے نہیں رہے۔۔ کل تمہیں میری دنیا میں واپس آنا ہوگا دیکھلینا۔ پھر اچانک وہ چیل وہاں سے جا چکی تھی۔۔‌حامد کو خوف محسوس ہونے لگا تھا ۔۔‌اسنے لایٹ آن کی اور سونے کی کوشش کر نےلگا تھا۔۔۔۔پھر دوبارہ اسے نیند آگیء ۔ رات کا تیسرا پہر تھا اس لیے حامد گہری نیند میں سو گیا تھا۔۔‌

صبح جب وہ اٹھا تو کافی بشاش تھا۔۔ کل کی باتیں اسے خواب سی معلوم ہونے لگی تھیں۔ وہ انکا عادی بھی ہو گیا تھا۔۔۔کسی کے ۔مشوورہ پر وہ ایک سایکریٹس کےپاس بھی گیا تھا جس نےکیء سوال پوچھنے کےبعد اس نے کہا کہ تم‌ٹھیک ہو تمہیں کچھ ہوا نہیں ہیےء ۔ بس اس نے ایسی جگہوں پر نہیں جانا چاہیئے جہاں ذہن پر اعصابی اثر پڑتا ہو۔۔۔‌حامد وہاں سے چلا آیا ۔۔‌ویسے سایکریٹس نے اسے آنکھوں کی جانچ اور دماغ کا سی ٹی اسیکن کرانے کو بھی کہا تھا جسے حامد نے انجانے خوف سے ٹال دیا تھا۔۔وہ شکار کے دن کو کوسنے لکا تھا ۔۔ اسے دادی ماں کی باتیں صحیح لگیں تھیں۔ وہاں سے نکل کر وہ ایک اور بڑے عامل صاحب کے،پاس پہنچا جسکا پتہ کسی وقت افضل نے دیا تھا جو بہت پاےء کے تھے ۔۔ اور جننات کے عمل پر قادر مانے جاتے تھے ۔۔ حامد نے سوچا خود جاکر آزمانے میں کیا ہےء۔۔۔عامل صاحب جلالی قسم کے تھے۔ حامد سے صاف کہہ دیا تھا ایک بھی بات جھوٹ ہوگی تو عمل تم پر پلٹ جایگا۔۔ حامد نے ایک ایک بات تفصیل سے بتادی یہاں تک کہ تہمینیہ کے پلنگ بادگر کی بھی تفصیل بیان کر دی تھی۔۔‌تفصیل سن کر عامل صاحب نے مراقبہ نہیں کیا بلکہ اپنے پاس سے ایک بڑا بہت پرانہ مردابادی کٹورا نکالا۔۔ جسکی گولائی دس انچ ( ٢٥٤ ملی میٹر ) کےقریب تھی ۔۔ انہوں نے حامد سےکہا کہ وہ سامنے رکھے مٹکے سے اسے بھر لائے۔۔

اس نے ویسا ہی کیا ۔۔ عامل صاحب نے ایک سفید رومال زمین پر بچھا یا اور حامد سےکہا اس کٹورے کو ۔ اس پر رکھ دے۔۔۔ اب حامد کو قبلہ رخ بیٹھ کر اس میں اپنا عکس دیکھنے کو کہا۔۔‌حامد کٹورے میں جھانکنے لگا تھا۔۔ تب ہی عامل صاحب بھی کٹورے میں اسکا عکس دیکھنے لگے تھے ۔۔ حامد کو اس میں خد کا چہرہ صاف نظر آرہا تھا اسنے دیکھا کہ اسکے چہرے کے زخم کے نشانات بالکل غایب تھے۔۔ مگر۔۔۔۔ جو عامل صاحب کو نظر آرہا تھا اس سے انکی آنکھیں پھیل گئی تھیں


جنات کا بھیانک انتقام ( قسط نمبر 4 آخری)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں



Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں