ایک معصوم بچے کی ماں سے جدائی

ایک معصوم بچے کی ماں سے جدائی

ایک معصوم بچے کی ماں سے جدائی

یقین ایک پیاری سی سلجی ہوئی لڑکی تھی۔ یقین کا رشتہ دیکھنے کے لیے اس کے والد کے ایک قریبی دوست کی فیملی آنے والی تھی۔ جب اس کی پھوپھی کو پتہ چلا تو انہوں نے اسی وقت بھائی کو کال کر کے کہہ دیا کہ میں نے آپ کو کہا تھا یقین ہماری بیٹی ہے، اپنے دوست کو منع کر دیں، وہ رشتہ کے لیے ہرگز نہ آئیں۔ یقین کی پھوپھی اپنے تحکمانہ رویے اور سخت لہجہ کی وجہ سے پورے خاندان میں معروف تھیں۔ یقین کے والد نے بھی آپا کی بات سن کر ہاں کہہ دی اور دوست کو کہہ دیا کہ آپ کا اپنا گھر یے، جب چاہیں آئیں لیکن بیٹی کے رشتہ کے لیے نہ آئیں، ہم آپا کی مرضی خلاف کچھ نہیں کر سکتے۔

اگلے دن جہاں آراء بھائی کے گھر یقین کا رشتہ طے کرنے اگئیں۔ انہوں نے بھائی سے کہا "سکندر! تمہیں اپنے دوست کو پہلے ہی بتا دینا چاہیے تھا کہ یقین کا رشتہ ہم باہر نہیں کریں گے۔" سکندر بولے " آپا! میں نے دبے لفظوں میں اظہار کیا تھا مگر آپ نے بھی تو کبھی اس معاملہ میں کھل کر بات نہیں کی، مجھے تو یہی لگتا تھا کہ بہنوئی صاحب اپنے سٹیٹس کے مطابق کہیں فیصلہ کریں گے جیسے پہلے بھی کر چکے ہیں۔" جہاں آراء بولیں " اس وقت بات مختلف تھی، بیٹے کی اپنی خواہش بھی وہیں تھی، ہم مجبور تھے۔ اب جب اپنی بیٹی ہے تو پرائے گھر کیوں جائیں۔ ہماری سگی بیٹی نہ سہی، یقین بھی تو ہماری بیٹی ہے۔ آپ یہی سمجھیں کہ اپنے ایک گھر سے دوسرے گھر جائے گی۔" سکندر بولے "یہی سوچ کر میں نے بچپن کے دوست سے معزرت کر لی ہے۔ بس اتنا خیال رکھیئے گا کہ ہماری اکلوتی اولاد ہمیں بہت عزیز ہے، ہماری زندگی کی ساری خوشیاں اسی کی ذات سے وابستہ ہیں۔"

دو ماہ بعد دھوم دھام سے یقین کی شادی ہوگئی۔ وہ نئے گھر میں آکر بہت خوش اور مطمئن تھی۔ اس کا شوہر بہت نفیس مزاج کا مالک تھا، اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھتا، اس کو عزت دیتا اور محبت سے پیش آتا۔ ساس سسر نے پہلے دن سے اس کا ہر ممکن خیال رکھا۔ گھر میں پیسے کی ریل پیل تھی لہذا زندگی کی ہر آسائش اسے میسر تھی۔ اس کی پھوپھی اس پر جان وارتیں، اکثر اس بات کا اظہار کرتیں کہ یقین ان کے لیے خوشیوں کا وسیلہ ثابت ہوگی۔ ،سسر بھی نہایت شفیق تھے۔ گھر کے دوسرے پورشن میں اس کے جیٹھ کی فیملی بھی رہتی تھی۔ ان کی شادی کو پانچ سال ہو گئے تھے مگر ابھی تک اولاد نہیں تھی۔

جب یقین کا پہلا بیٹا پیدا ہوا تو کئی دن تک خوب جشن منایا گیا۔ بچہ سارے گھر والوں کی آنکھ کا تارا بن گیا۔ سبھی اس کے ناز نخرے اٹھاتے اور اسے زمین پر ٹکنے نہ دیتے۔ شادی کے تیسرے سال یقین کو اللّٰہ نے بیٹی سے نوازا۔ بیٹی کی پیدائش پر جہاں آراء نے سب سے زیادہ خوشی کا اظہار کیا کہ چھوٹے بیٹے کی فیملی مکمل ہو گئی ہے۔ یقین بھی بہت خوش تھی۔ اس کے ماں باپ بیٹی کی خوشی پر پھولے نہیں سماتے تھے، انہوں نے جیسا چاہا تھا، یقین کی زندگی اس سے بھی کہیں زیادہ خوبصورت تھی۔

شادی کے چھٹے سال جب یقین پھر امید سے ہوئی تو اس کے کانوں میں پھوپھی کی آواز کہیں سے پڑ گئی کہ اللّٰہ کرے اس بار بھی بیٹا ہو تو میرے بڑے بیٹے کے آنگن میں بھی بچے کلکاریاں ماریں۔ یقین اس بات سے چونک گئی اور اپنے شوہر سے اس کا ذکر کیا۔ اس نے اسے کسی غلط فہمی کا نتیجہ کہہ کر رد کر دیا۔ یقین کو تسلی دی کہ اولاد تو ہر کسی کی اپنی ہوتی ہے۔ وہ وقتی طور پر چپ ہوگئی مگر اس کی دل میں وہم گھر کر گیا۔

اللّٰہ نے پھر یقین کو ایک چاند سا بیٹا عطا کیا۔ اس نے آپریشن کے بعد ہوش میں آنے پر بیٹے کو پہلی بار دیکھا تو اللّٰہ کا شکر ادا کیا، ساتھ ہی بے ساختہ اسے پھوپھی کی بات یاد آگئی، یکدم اس کی ساری خوشی غائب ہوگئی۔ اس کے شوہر نے اس کے چہرہ کے تاثرات دیکھ کر اس کی وجہ جاننا چاہی تو اس نے پھوپھی کی بات کا ذکر کر دیا۔ اس کے شوہر نے اسے حوصلہ دیا کہ دل چھوٹا نہ کرو، کچھ غلط نہیں ہوگا، میں تمہارے ساتھ ہوں۔

ان کے گھر جانے تک اس کی پھوپھی اپنے بڑے بیٹے کی فیملی کو بچہ دینے کا فیصلہ صادر کر چکی تھیں۔ یقین اور اس کے شوہر نے لاکھ کوشش کی کہ ایسا نہ ہونے دیں مگر جہاں آراء کے سامنے کس کی چلتی تھی۔ بیٹا بھی لڑ جھگڑ کر ہار مان گیا۔ ماں کے فیصلہ ماننے سے انکار پر اسے بیوی بچوں سمیت والدین کا گھر چھوڑنا پڑتا، کمزور مالی پوزیشن اور سسر کی خراب صحت کے پیش نظر وہ ایسا کرنے کے قابل نہیں تھا۔ اس کے پاس اپنی مظلوم بیوی کے لیے تسلی کے چند حرف بھی نہیں تھے۔ اس کی بے بسی کی کہانی اس کے چہرے پر رقم تھی۔ وہ بیڈ کے پاس دکھ کی تصویر بنا بیٹھا تھا، بچے ماں کے پاس خاموشی سے لیٹے ہوئے تھے، یقین کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔

یقین کے لیے یہ سب ناقابل برداشت تھا۔ ماں بننے کے تیسرے دن اپنی بچے سے محروم کر دی گئی تھی۔ وہ سوچ سوچ ہلکان ہو گئی تھی، مسلسل رونے سے اس کی حالت غیر ہو چکی تھی، مگر اس کی مصیبت کم یا ختم ہونے کی کوئی صورت دور دور دکھائی نہیں دیتی تھی۔ اس کی پھوپھی نے اس کا بچے سے ملنا بھی بند کر دیا تھا تاکہ بچہ اس سے مانوس نہ ہو سکے، وقت گزرنے کے ساتھ وہ بچے سے دستبردار ہو جائے۔

 ماں ہوتی ہوئے وہ ایک ماں کا دکھ سمجھنے سے انکاری تھی، اس کے لیے تو جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ اس کی نظر میں یہ بچے کی خوش قسمتی تھی کہ زیادہ خوشحال فیملی میں رہ رہا تھا۔ یقین کے سسر نے بھی اسے سمجھانے کی کوشش کی، اسے اللّٰہ کے عذاب سے ڈرایا مگر اس عورت کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ الٹا کہتی " میں نے کون سا ظلم کیا ہے، اپنے بیٹے کو ہی تو اپنا بچہ دیا ہے، یقین کون سا میکہ سے لے کر آئی تھی، میرے بیٹے کی اولاد ہے، میں جس بیٹے کو چاہوں، دوں۔" اپنے شوہر کی اتنی بات مان گئی کہ بچے کے والدین کے طور پر اس کے سگے ماں باپ کا نام درج کرایا جائے۔

کوئی لمحہ ایسا نہیں تھا جب یقین نے اپنے بچے کو یاد کر کے آنسو نہ بہائے ہوں۔ وہ جب بھی روتی، اللّٰہ کے حضور فریاد کرتی اور یہی عرض کرتی " میرے مالک، مجھے یقین ہے کہ تو میری پکار سنے گا اور میرا بچہ مجھے واپس دلوانے کی کوئی صورت ضرور پیدا فرمائے گا۔" اس کا دل درد سے پھٹتا مگر سوائے صبر اور اللّٰہ پر یقین کے اس کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔ بچے بھی اپنے بھائی کو اپنے گھر اپنے پاس دیکھنا چاہتے تھے، ان کو دادی نے اتنی اجازت دی تھی کہ دن میں کچھ وقت چچا کے گھر جا کر بھائی کے ساتھ وقت گزار لیتے۔

یقین کی صحت بہتر ہوئی تو والدین کے گھر گئی۔ اپنے والد کی صحت دیکھ کر کبھی اپنا دکھ ظاہر نہ ہونے دیا۔ بچے ساتھ نہ لانے کا کوئی بہانہ کر دیا۔ جب دو تین بار ایسا ہی ہوا تو اس کے والد کو شک ہو گیا، انہوں نے بیٹی کو الگ بلا کر سچ بتانے پر اصرار کیا۔ آخر یقین کو سچ بتانا پڑا، مگر والد کی خاطر کہہ دیا کہ اس نے اپنی مرضی سے جیٹھ کی فیملی کو بچہ دیا ہے، یہ بھی بتایا کہ ریکارڈ میں بچے کے والدین کے طور پر ان کے اپنے نام درج ہیں۔ اس کے والد کسی حد تک مطمئن ہوگئے۔ وہ چونکہ دل کے مریض تھے، انہیں اصل حالات اور حقائق بتانا کسی ناقابل تلافی نقصان کا باعث بن سکتا تھا۔ وہ کبھی نہیں چاہتی تھی کہ اپنے والد کے سامنے ان کی آپا کی اصلیت بے نقاب کرے اور انہیں اس وجہ سے کوئی صدمہ پہنچے۔ وہ اپنے والد کی خاطر صبر کے گھونٹ پی کر چپ رہی۔

یقین کے لیے زندگی یکسر بدل گئی تھی، وہ اپنے بچوں، شوہر اور والدین کے لیے چپ چاپ اپنی زمہ داریاں نبھانے میں لگے تھی، اس کا دھیان ہر پل اپنے دو دن کے بچھڑے جگر کے ٹکڑے کی طرف رہتا تھا۔ اس کا دل، خوشی کا احساس، بیٹے سے جدا ہونے کے لمحہ سے بھلا چکا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے اس کی آنکھوں میں کسی دریا نے رستہ بنا لیا ہو۔ آنسوؤں کی لڑیاں پرونا اس کا وظیفہ بن گیا تھا۔

اسی کیفیت میں دو سال ہونے کو تھے کہ ایک دن اس نے اپنی ساس اور جیٹھانی کو اونچی آواز میں باتوں کا تبادلہ کرتے سنا۔ اس کی ساس کہہ رہی تھی " ایسا ہی کرنا تھا تو دو سال پہلے سوچ لیا ہوتا، اس وقت تو سارا ملبہ میرے اوپر ڈال کر تم دونوں بری الزمہ ہو گئے۔ مجھے ہی پتہ نہیں کیا کیا سننے کو ملا۔ مطلب پرست عورت، تیری اپنی سگی اولاد ہوتی تو تجھے کسی کی تکلیف کا احساس ہوتا۔ تمہیں تو اپنے خواب پورے کرنے ہیں۔ میرا بیٹا تو ہے ہی رن مرید، آیا تھا میرے پاس، اپنی مجبوریوں کی داستان سنانے۔ ایک بات کان کھول کر سن لو، اگر ایسا ہوا تو تم لوگوں کی اس گھر اور ہماری زندگی میں کوئی جگہ نہیں۔ " اس پر اس کی جیٹھانی بولی " آپ نے کون سا ہم پر احسان کیا تھا، اپنی خواہش کے ہاتھوں مجبور ہو کر ہمیں عذاب میں ڈالا تھا۔ ہم تو سکون کی زندگی گزار رہے تھے، اب بھی ہماری ترجیح ہماری اپنی زندگی ہی یے، یہی میرا فیصلہ ہے۔ دو دن ہیں آپ کے پاس، اس کے بعد جو ہمیں بہتر لگا، ہم کر گزریں گے۔" یقین کو معاملہ کی کچھ سمجھ نہ آئی۔ اس نے اپنے شوہر سے بات کرنا چاہی مگر پھر کسی کام میں مصروف ہو گئی۔

جہاں آراء غم و غصہ سے بھپری اپنے شوہر کا انتظار کر رہی تھی، جیسے ہی شوہر شام کو گھر لوٹے وہ قضیہ لے کر بیٹھ گئی۔ شوہر بولے " تجھے اس وقت بھی بہت سمجھایا تھا کہ یہ ظلم نہ کرو، مگر تمہاری آنکھوں پر تو بے حسی اور انا کی پٹی بندھی ہوئی تھی۔ میں بھی نام نہاد سٹیٹس کی فکر میں کھل کر سامنے نہ آیا۔ جو ہوا، بہت برا ہوا، اب مزید کسی قیمت پر کچھ غلط نہیں ہونے دوں گا،خواہ اس کے لیے مجھے تمہارے ساتھ سے بھی ہاتھ دھونا پڑ جائیں۔ میں حیران ہوں کہ ایک عورت ہو کر تم دوسری عورت کا دکھ نہ سمجھ سکی، بہو تو ہے ہی خود غرض اور غیر، تو جسے اپنی بیٹی بنا کر لائی تھی، اس پر ہی ظلم کے پہاڑ توڑ ڈالے۔ کاش، تم نے میرا کہا مان لیا ہوتا تو آج یہ دن دیکھنے کو نہ ملتا۔ بہرحال، میں کچھ کرتا ہوں، اب تم کسی معاملہ میں زبان مت کھولنا۔"

اگلے دن یقین کو عجیب سا لگا جب اس کے شوہر نے بتایا کہ والد صاحب نے ان دونوں کو شام کو ایک ساتھ ان کے پاس آنے کا کہا ہے۔ وہ شش و پنج میں سارا دن اس کی وجہ سوچنے میں لگی رہی مگر بے سود۔ خدا خدا کر کے شام ہوئی اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ سسر کو ملنے جا پہنچی۔ وہ کمرے میں داخل ہوئی تو اس کی آنکھیں حیرت اور خوشی سے کھلی کی کھلی رہ گئیں، اس کا چھوٹا بیٹا اس کے سسر کی گود میں بیٹھا تھا۔ بیٹے کو چومنے کے لیے اس کی طرف بے ساختہ لپکی مگر بچہ اسے قریب آتا دیکھ کر خوف زدہ ہوکر دادا کی گود میں سمٹ گیا۔


 یقین کو سسر نے شفقت سے بیٹھنے کا کہا۔ اس کے لیے بیٹھنا مشکل ہو رہا تھا، اس کے شوہر نے اسے سہارا دے کر اپنے ساتھ صوفے پر بٹھا لیا۔ جیسے ہی وہ بیٹھی، اس کے سسر نے ان دونوں سے مخاطب ہو کر کہا " اللّٰہ نے آپ کی امانت آج آپ کی طرف لوٹا دی ہے۔" یقین اور اس کے شوہر کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ کہیں وہ کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہے۔ وہ بیک زبان بولے " کیا واقعی ہمیں ہمارا بیٹا ملنے والا ہے، کب؟" اس کے سسر بولے " جی ایسا ہی ہے،آج آپ کا بیٹا آپ کے حوالے کرنے کے لیے ہی میں نے آپ دونوں کو بلایا ہے۔ 


مجھے پتہ ہے کہ آپ کے لیے بچے کو اپنے ساتھ مانوس کرنے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا، اللّٰہ آپ کی مشکلات آسان فرمائے۔ آمین" انہوں نے خود ہی وضاحت کی " بڑے شہزادے اور اس کی بیوی نے کینیڈا سیٹل ہونا ہے، بچہ دستاویزات میں ان کے خاندان کا حصہ نہیں ہے، اس لیے وہ اسے لے کر نہیں جا سکتے، تب ہی آپ کو لوٹا دیا ہے، سگی اولاد ہوتی تو اسے چھوڑ کر دوسرے شہر بھی کبھی نہ جاتے۔" یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھیں نمناک ہو گئیں۔ اتنی دیر میں یقین کا بڑا بیٹا اور بیٹی بھی پہنچ گئے۔ جھوٹا بیٹا انہیں دیکھ کر دادا کی گود سے اترا اور ڈرائنگ روم میں ان کے ساتھ کھیلنا شروع کر دیا۔

ایک معصوم قاتل کی کہانی

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں