خونی شیطان (قسط نمبر8)

 

خونی شیطان (قسط نمبر8)

سراج مسلسل سڑک پر چل رہا تھا وہ جا کدھر رہا تھا نہیں جانتا تھا اور نہ ہی اس کو اس بات کا کوئی ہوش تھا اس کا دماغ کام کرنا چھوڑتا جا رہا تھا اس کے قدم خود بخود ہی اس کو لئے جا رہے تھے۔۔۔چلتے چلتے وہ ایک قبرستان کے قریب پہنچ گیا تھا ۔۔اس کو لوگوں کی موجودگی اور ان کا بات چیت کرنا یا کسی بھی قسم کا کوئی شور ازيت میں مبتلا کر رہا تھا اس ویران علاقہ میں آ کر اس کو ذرا سکون محسوس ہوا تو وہ یہیں نیچے زمین پر بیٹھ گیا ایک بار پھر اس کے کانوں میں شاہینہ کے الفاظ گونجنے لگے تھے ۔۔وہ اونچی آواز سے چیخ چیخ کر رونے لگا ۔۔۔رات چاندنی تھی آس پاس گہرا سناٹا چھایا تھا کبھی كبهار کوئی کتا بھونک کر اس گہری خاموشی میں خلل پیدا کر دیتا تھا اور ایسے میں سراج قبرستان کے سامنے بیٹھا اپنی زندگی لٹ جانے کا ماتم کرنے میں مصروف تھا کافی دیر وہ یوں ہی روتا رہا ۔۔اور پھر وہیں لیٹ گیا مٹی سے اس کے بال پورے بھر گئے نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔۔اس کے لئے تو سانس لینا بھی کسی ازيت سے کم نہ تھا ۔۔۔اس کی نظروں کے سامنے بچپن سے لے کر جوانی تک کے وہ تمام پل گھومنے لگے جو اس نے اپنی ماں یعنی کے شاہینہ کے ساتھ گزارے ۔۔۔

انہیں سوچوں میں گم ساری رات بیت گئی ۔فجر کی پہلی اذان ہونے لگی تھی ۔۔۔مگر سراج ایسے ہی لیٹا رہا ۔۔۔اور دل ہی دل میں خدا کے حضور صبر آجانے کو دعا مانگتا رہا ۔۔۔اس کے ذہن میں اچانک ہی حرا کا خیال آیا ۔۔۔اب ایک وہی بچی تھی اس ظالم دنیا میں اس کی اپنی یہ خیال آتے ہی پہلے تو وہ اٹھا قریب کی مسجد میں نماز ادا کی اور پھر حرا کے گھر کی طرف چل دیا اس کے پاس ایک روپیہ تک نہ تھا ۔۔۔اسی لئے وہ پیدل ہی اتنی دور چل پڑا ۔۔۔

اب وہ حرا کے گھر کے سامنے تھا پہلے تو وہ بنا ہی کچھ سوچے سمجھے اس کا گیٹ بجانے کے لئے آگے بڑھا مگر پھر حرا کی عزت کا سوچتے ہوۓ رک گیا حالانکہ اس وقت اس کی اپنی حالت بہت بری تھی وہ شدت سے حرا کی طلب محسوس کر رہا تھا تا کہ اس سے اپنے دل کا حال کہہ کر اپنا بوجھ ذرا ہلکا کر سکے یہ بوجھ اب اس سے مزید برداشت نہ ہو رہا تھا ۔۔۔
پھر بھی وہ پیچھے ہٹ گیا اور ذرا دور بیٹھ کر حرا کے گھر سے نکلنے کا انتظار کرنے لگا۔۔
دو گھنٹے انتظار کرنے کے بعد آخر حرا کالج جانے کے لئے اپنے ڈرائیور کے ساتھ نکلنے لگی تو اس نے ڈرائیور سے آنکھ بچا کر حرا کو اشارہ کیا ۔۔۔
حرا اس کی حالت دیکھ کر حیران تو ہوئی مگر پھر کسی بہانے سے ڈرائیور کو اندر بھیج دیا ۔۔۔ڈرائیور جیسے ہی اندر گیا وہ دوڑ کر سراج کے نزدیک گئی ۔۔"سراج !!!
کیا ہے یہ سب کیسی حالت بنا رکھی ہے ؟؟؟؟"
حرا نے حیرت سے سوال کیا ۔۔

سراج کی آنکھیں بلکل سرخ ہو رہی تھیں اور سوجی ہوئی بھی تھیں ۔۔۔
اس نے ایک پل کی بھی دیر کئے بنا سب کچھ حرا کے گوش گزار کر دیا ۔۔۔
اور سراج کی بات سن کر حرا ہکا بكاہ رہ گئی
"ایسے کیسے کر سکتی ہیں وہ تمہارے ساتھ ۔۔۔!!!
اور ۔۔۔اور فواد تو بھائی ہے تمہارا ؟؟؟"
وہ بولی جب کہ سراج بنا کچھ بولے بس روئے جا رہا تھا ۔۔۔
"اچھا سراج تم رونا بند کرو ۔۔۔
یہ بتاؤ تم نے کچھ کھایا ہے ؟"
حرا کے سوال پر سراج نے نفی میں گردن ہلائی
"اوہ یہیں رکو میں تمہارے لئے کچھ کھانے کو لاتی ہوں "
یہ کہتی حرا پلٹی تو سراج نے اس کا ہاتھ تھام لیا
"نہیں حرا مجھے بلکل بھوک نہیں بسس تم میرے پاس رہو پلیز !"
"مگ ۔۔مگر سراج مجھے کالج کے لئے دیر ہو رہی ہے ۔۔۔اور ایسے کیسے بھوک نہیں ۔۔کچھ کھایا نہیں ہے اور بهوک نہیں مجھے تو زبردستی کھلاتے ہو اب خود کو بھی کھانا پڑے گا "
یہ کہتی حرا گھر کی طرف چل دی ڈرائیور گاڑی میں آکر بیٹھ چکا تھا ۔حرا تھوڑی ہی دیر میں وہ ہاتھ میں کچھ سینڈوچز وغیرہ لے کر وہاں آگئی ۔۔
"تم یہ کھا لو سراج ۔۔۔مجھے دیر ہو رہی میں کالج جا رہی ۔۔"
حرا بولی تو سراج نے ایک بار پھر اس کا ہاتھ پکڑ لیا ۔
"پلیز آج مت جاؤ نہ ۔۔۔۔
پلیز ۔۔۔۔

تمہارے کالج ٹائم میں ہم کسی پارک میں بیٹھ کر باتیں کر لیں گے ۔۔میں بہت اکیلا محسوس کر رہا ہوں حرا میری حالت ٹھیک نہیں ہے میرا ساتھ دیدو "
سراج نے التجا کی ۔۔۔
"ہم ۔۔۔ضرور ركتی پر تم جانتے ہو میں اپنی پڑھائی کو لے کر کتنی سنسئیر ہوں ۔۔۔۔پلیز میں بعد میں ملتی ہوں نہ تم سے شام کو ۔۔۔۔"
یہ کہتی حرا سراج کے ہاتھ کی مضبوط گرفت سے اپنا ہاتھ چھڑانے لگی جس کو سراج کسی صورت چھوڑنے کے لئے تیار نہ تھا مگر پھر بھی بلآخر وہ اپنا ہاتھ آزاد کراتی وہاں سے چلی گئی ۔۔۔جا تو وہ کالج ہی رہی تھی مگر اس کے ہاتھ چھڑانے کا انداز سراج کو عجیب سا لگا جیسے وہ کچھ دیر کے لئے نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئے اس سے ہاتھ چھڑا رہی ہو

سراج اس وقت بہت حساس ہو چکا تھا اور ذرا ذرا سی بات بھی برداشت نہ کر پا رہا تھا ایسے میں اس کو حرا کی یہ حرکت بیحد تکلیف پہنچاگئی حرا جا چکی تھی ۔۔
سراج آنکھوں میں آنسو لئے وہاں سے چل دیا ۔۔۔اور قریب ہی ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر حرا کی واپسی کا انتظار کرنے لگا۔۔
رات ہو گئی مگر وہ سراج سے ملنے نہ آئی ۔۔۔اور پھر یوں ہی اگلے دن کی صبح جب وہ کالج کے لئے نکلی تو سراج دوڑ کر اس کے پاس آیا ۔۔۔اور وہ ایک بار پھر اس کو کچھ بہانہ بتا کر چلی گئی ۔۔۔یہ سلسلہ دو تین دن تک چلا ۔۔۔اب تو سراج کو محسوس ہونے لگا جیسے حرا اس کو جان بوجھ کر نظر انداز کرنے لگی ہے ۔۔
پورا ہفتہ گزر چکا تھا مگر حرا کا رویہ یہی تھا اس کے لئے دو منٹ بھی نہ تھے سراج کو دینے کے لئے ۔۔۔
اور اب تو وہ کچھ دن سے کالج بھی نہ جا رہی تھی سراج بہت بےچین ہو گیا تھا ۔۔۔
اب اس کا ضبط ٹوٹنے لگا تو وہ بنا کچھ سوچے حرا کے گھر ہی آ گیا ۔۔۔
دروازہ کسی ملازم نے کھولا ۔۔
"جی آپ کون ؟"
وہ بولا
"مجھے حرا سے ملنا ہے ابھی اسی وقت "
سراج چیخ کر بولا اس کا ذہنی توازن اب عام انسانوں جیسا نہ رہا تھا ۔۔
"
سراج کی بات سن کر ملازم اندر چلا گیا اور کچھ ہی دیر میں حرا وہاں آگئی ۔۔۔۔
اس سے پہلے سراج کچھ بولتا وہ خود بول پڑی
"سراج ؟؟؟؟؟
یہ کونسا تماشہ ہے جانتے ہو نہ اگر میرے پا پا کو پتہ چل گیا تو وہ کیا کریں گے ۔۔مگر نہیں تمہیں تو اپنی مرضی چلانی ہے "
وہ تپ کر بولی حرا کی سرد مہری سراج کو بہت دکھ دینے لگی اور اس کی آنکھیں نم ہو گئیں ۔۔
"حرا ؟؟ کیا تمہیں میری حالت نظر نہیں آرہی ؟؟ کیا تمہارے دل میں مجھے لے کر جو جذبات تھے سب ختم ہو گئے ؟؟؟ تمہیں میرا درد محسوس نہیں ہو رہا ۔۔"؟
وہ بولا مگر حرا چپ چاپ کھڑی رہی ۔۔۔اتنی دیر میں گھر سے حرا کا بھائی دروازے پر آگیا در اصل اس کو ملازم نے سب کچھ بتا دیا تھا وہ شدید غصے میں تھا ۔۔۔
"کیا ہو رہا ہے یہ سب ہاں ؟"
حرا کا بھائی بولا اپنے بھائی کو دیکھ کر حرا کا تو خون ہی خشک ہو گیا تھا مگر سراج ویسے کا ویسا کھڑا رہا اس کا دماغ اس دنیا میں حاضر ہی نہ تھا ۔۔۔
"ہاں سراج ۔۔۔حرا سے کیوں ملنا تھا تجھے ؟؟؟؟میری بہن سے معاشقے چلا نے آیا ہے ؟؟؟"
حرا کا بھائی اب سراج سے مخاطب ہوا ۔۔
"تیری اتنی ہمت کہ میری بہن کو چھیڑنے گھر آئے گا ہمارے ۔۔۔۔"
اب وہ سراج کا گریبان پکڑے بولا ۔۔۔
"حرا کیوں آیا ہے یہ کیا تمہارا کوئی چکر ہے اس کے ساتھ ؟؟؟؟؟؟"
اس نے سخت انداز میں اب حرا سے پوچھا
م مے میں ۔۔۔ن نہیں ۔۔ج جانتی ب بھائی یہ کیوں آیا ہے ۔۔۔میرا کوئی تعلق نہیں اس سے "
حرا کی بات پر سراج نے چونک کر اس کی طرف دیکھا سراج کو اس سے ایسی امید بلکل نہ تھی وہ ٹوٹ کر رہ گیا اس کے اپنوں نے تو اس کو پرایا کر ہی دیا تھا مگر جس سے اس کو آخری امید تھی آج اس نے بھی سراج کو پرایا کر ڈالا ۔۔۔
اب حرا کے بھائی نے سراج پر ہاتھ اٹھانا شروع کر دیا ۔۔۔مگر سراج نے پلٹ کر وار نہ کیا ۔۔۔کیوں کہ وہ حرا کی محبت کو آزمانا چاہتا تھا ۔۔۔وہ یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ حرا اس کو کب تک مار کھاتا دیکھ برداشت کر سکتی ہے ۔۔۔اس کے اندر ایک امید ضرور تھی کہ حرا اس کو مزید تکلیف میں نہیں دیکھ پائے گی اور اپنے بھائی کو روکتے ہوۓ حقیقت سے آگاہ کر دے گی
مگر ایسا نہ ہوا ۔۔۔سراج خونم خون ہوتا گیا مگر حرا ٹس سے مس نہ ہوئی ۔۔۔سراج شکوہ بھری نظروں سے اس کو دیکھتا رہا مگر وہ سراج سے نظر چرا کر گھر کے اندر چلی گئی ۔۔۔آس پاس لوگ بھی جمع ہو گئے تھے انہوں نے سمجھا بجھا کر حرا کے بھائی کو روکا اور گھر بھیج دیا اور لعنت ملامت کرنے کے بعد سراج کو بھی وہاں سے جانے کو کہا۔۔۔
سراج وہاں سے چلا گیا ۔۔۔مگر کچھ ہی دور موجود اسی درخت کے نیچے بیٹھ گیا اب تو اس کے آنسو بھی خشک ہو چکے تھے حالت ایسی کے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں ۔۔۔۔
زرد رنگت ،سوجی آنکھیں اور درد سے بھرا دل لئے وہ وہیں بیٹھا رہا اور یوں ہی ساری رات بیت گئی ۔۔۔۔
اگلے دن جب حرا پھر کالج کے لئے نکلی تو سراج بھاگ کر اس کے پاس آیا ۔۔۔اتنا کچھ ہو گیا تھا مگر سراج اس کو ماننا نہ چاہتا تھا اس کے اندر امید کا ایک آخری دیا روشن تھا کہ حرا نے وہ سب کچھ شاید اپنے بھائی کے دباو میں آکر کیا ہو گا ۔۔۔
"حرا !!"
حرا کے پاس آکر سراج نے گلوگیر آواز سے اس کو پكارا مگر وہ سراج کو نظر انداز کرتی جانے لگی تو سراج نے سختی سے اس کا ہاتھ پکڑا جس سے حرا کی كلائی پر نشان پڑنے لگا ۔۔۔
"کیوں کر رہی ہو ایسا؟؟
آخر تم مجھ سے پیار کرتی بھی ہو کہ نہیں ۔۔۔
کیوں کہ مجھے نہیں لگتا کہ اب تم مجھ سے پیار کرتی بھی ہو "
سراج تکلیف کی شدت سے مسکرا کر بولا یہ الفاظ اس نے بہت مشکل سے ادا کئے تھے
"کل تمہارا بھائی مجھے مارتا رہا اور تم کچھ بھی نہ بولی الٹا تم نے کہا کہ مجھے جانتی نہیں ۔۔کیوں حرا کیوں؟؟؟"
" ہاں تو تو کیا کہتی کہ یہ بهكاری میرا بوئی فرینڈ ہے ۔۔۔اور رہی پیار کی بات تو ایسا ہی سمجھ لو سراج ۔۔۔
کیوں کہ میرے ماں باپ بھی میری شادی تم جیسے سڑک چھاپ کنگلے سے ہر گز نہیں کروائیں گے پہلے کی بات اور تھی "
حرا کی بات پر سراج کو حیرت کا ایک شدید جھٹکا لگا دکھ سے اس کا دل کٹ کر رہ گیا
"یہ کیا کہہ رہی ہو حرا !!!میں وہی سراج ہوں جس سے تم نے محبت کی تھی ؟؟؟"
"نہیں تم وہ سراج نہیں ہو ۔۔۔تم نفسياتی ہو چکے ہو حالت دیکھی ہے اپنی ۔۔۔بھکاری سے بھی بدتر لگ رہے ہو اور چلے ہو مجھ سے شادی کرنے ۔۔۔۔۔
بس ۔۔۔آج سے پہلے ہمارے بیچ جو کچھ بھی تھا وہ تم بھی بھول جاؤ میں بھی بھول جاؤں گی اور آیندہ میرا راستہ مت روکنا آج سے ہمارے راستے الگ ۔۔کسی نے مجھے تم جیسے پاگل سے بات کرتے دیکھ لیا تو بہت بےعزتی ہو گی میری ۔۔۔۔"
سراج پر یہ بجلی گرا کر حرا اب وہاں سے چل دی۔۔
حرا ان لڑکیوں میں سے تھی جو دنیاوی رکھ رکھاو اور جھوٹی شان کے پیچھے بھاگتے ہیں ویسے بھی وہ زیادہ جذباتی نہ تھی ۔۔۔جب اس نے دیکھ لیا کہ سراج کے پاس مال و دولت اور عزت کچھ بھی نہ بچا تو وہ اس سے رشتہ توڑ گئی ۔۔
سراج کو اپنے دماغ کی نسیں پھٹتی محسوس ہوئی ۔۔۔
اس کو یقین نہ ہوا کہ حرا بھی اس سے منہ پھیر گئی وہ بھی ایسی باتیں سنا کر سراج سے اب درد مزید برداشت نہ ہو پارہا تھا وہ سڑک پر پاگلوں کی طرح چلانے لگا اور لوگ اس کو پاگل سمجھ کر ہی نظر انداز کرتے گزر رہے تھے اس بے رحم دنیا میں اب اس کا کوئی ساتھی نہ تھا سوائے درد کے ۔۔۔
ایک بار پھر وہ مردہ قدموں سے چلتا اسی قبرستان کی طرف چل پڑا۔۔۔۔
وہاں آکر قبروں کے بیچ میں آکر لیٹ گیا ۔۔۔۔
اب نہ تو وہ رو رہا تھا اور نہ تو اور کوئی تاثر اس کے چہرے پر تھا ۔۔۔۔وہ اب ان بے جان قبروں سے باتیں کرنے لگا ۔۔۔اور زور زور سے ہنسنے لگا ۔۔۔
والد کی حادثاتی موت ، اللّه کے بعد دنیا کی سب سے عظیم ہستی کا یوں اچانک بدل جانا ، بھائی کا نفرت کرنے لگنا وہ بھائی جو اگر کھانا نہ کھاتا تھا تو سراج کے گلے سے بھی نوالہ نہ اترتا پھر اس انسان کا بھی بدل جانا جس کے ساتھ اس نے اپنی پوری زندگی گزارنے کے خواب دیکھے تھے ۔۔۔سراج سے اس کے ان سب قریبی رشتوں نے منہ موڑ لیا جن پر اس کو حد سے زیادہ مان ہوا کرتا تھا ۔۔تکلیف اتنی بڑھ گئی تھی کہ اس کے ذہن نے تکلیف کو رد کرنے کے لئے پلٹا کھالیا تھا اور سراج نیم پاگل ہو گیا ۔۔۔
کبھی وہ ہوا میں باتیں کرکے ہنسنے لگتا تو کبھی زور زور سے رونے لگتا ۔۔۔۔رات اسی قرب میں گزر گئی ۔۔۔اور اگلا سارا دن بھی۔۔۔
کچھ لوگ جو اپنے پیاروں کی قبروں پر فاتحہ پڑھنے آتے تو سراج ان سے کہتا تھا
"میں بهكاری ہوں مجھے بھیک دو ۔۔۔دکھ نہیں رہا میری حالت سے کہ میں بهكاری ہوں۔۔۔۔"
ایسا وہ ازيت کی شدت سے کہتا کیوں کہ حرا کے کہے الفاظ اس کے ذہن نشین ہو چکے تھے ۔۔۔اور اگلے بھی اس کو کچھ نہ کچھ کھانے کو دے جاتے۔۔۔
سراج کبھی بلکل چھوٹے بچوں کی طرح برتاؤ کرنے لگتا تو کبھی بلکل سنجیدہ ہو جاتا غرض اس کا دماغی توازن اب ٹھیک نہ رہا ۔۔۔۔
***
پورا مہینہ اس نے ایسے ہی قبرستان میں گزار دیا ۔۔۔
کافی دن سے کوئی بھی قبرستان نہیں آیا تھا جو سراج کو کچھ کھانے کے لئے دے جاتا ۔۔۔وہ دو دن کا بھوکا تھا ۔۔۔
کافی دیر سے وہ خلا میں ایک نکتے کو گھورے جا رہا تھا اور پھر اچانک چلانے لگا ۔۔۔
"امی ۔۔۔۔۔"
سنسان قبرستان روز اس کی درد بھری آہوں سے گونج اٹھتا تھا ۔۔۔
سراج بے خیالی کی سی کیفيت میں وہاں سے اٹھا اور چلتے چلتے قبرستان سے باہر اگیا ۔۔اور اب اس گھر کی طرف چل پڑا جدهر شاہینہ رہائش پزیر تھی ۔۔۔۔
وہاں پہنچ کر دروازہ پیٹ ڈالا ۔۔
"ہاں بھائی ۔۔۔۔۔۔کیا مسلہ ہے تیرا میڈم نے اس دن منع کیا تھا نہ تجھے ۔۔پھر کیوں آیا "
چوکی دار اس کو دھکیلتے ہوۓ بولا ۔۔۔
سراج نے پاس پڑا ایک بڑا سا گملا اٹھایا اور اس کے سر پر دے مارا اتنی دیر میں فواد نے دروازہ کھول دیا
"کون ہے رات کے اس وقت "
وہ جمائی لیتے ہوۓ بولا جب کہ سراج نے اس کو ایک پل کی بھی مہلت نہ دی اور اس کو پکڑ کر گرا دیا اور خود اس کے سینے پر چڑھ کر اس کا گلا دبانے لگا ۔۔۔فواد تڑپنے لگا اپنی جان بچانے کی سعی کرنے لگا مگر سراج کی گرفت مضبوط تھی تب ہی کچھ دیر بعد فواد دم توڑ گیا اب وہ اس کو وہیں چھوڑے شاہینہ کو تلاش کرنے لگا شاہینہ جو شور کی آواز سن کر خود ہی وہاں ڈوری چلی آرہی تھی ۔۔جب وہاں پہنچی تو سامنے کا منظر دیکھ کر اس کے پیروں تلے سے زمین ہی نکل گئی ۔۔
چوکی دار اور فواد مرده حالت میں پڑے تھے اور سراج کسی بھوکے جنگلی شیر کی طرح دھیرے دھیرے سے چلتا ہوا شاہینہ کے قریب آ رہا تھا ۔۔۔
"ی یہ ۔۔۔ک کیا ۔ک ک کرہی کر رہے ہو ۔۔۔۔بے بیٹا ۔۔۔۔"
مگر سراج پر کسی بات کا کوئی اثر نہ ہوا ۔۔
وہ اب بھاگ کر باورچی خانے کی طرف گیا اور وہاں سے ایک تیز دھار چاقو اٹھا لایا ۔۔
اور شاہینہ کی طرف لپکا اور چاقو شاہینہ کے پیٹ میں مار دیا پھر چاقو کے ایک کے بعد ایک کاری وار وہ شاہینہ پر کرتا رہا اور چیختا رہا شاہینہ مر چکی تھی سراج کے چلانے کی آواز سن کر وہ بزرگ مالی اپنے کمرے سے اٹھ کر وہاں آگئے ۔۔۔
در اصل شاہینہ جب گھر بیچ کر آئی تھی تو تمام ملازمین کو بھی اپنے ساتھ لے آئی تھی جن میں سے وہ مالی بابا بھی تھے ۔۔۔وہ ساری حقیقت سے آگاہ تھے اور سراج کے لئے کافی افسرده بھی انہوں نے سراج کو ڈھونڈ نے کے لئے کافی تگ ودو بھی کی تھی مگر سب بے کار ۔۔آج جب وہ شور سن کر یہاں آئے تو سامنے کا منظر دل دهلا دینے والا تھا ۔۔۔
وہاں تین لاشیں پڑی تھیں اور سراج وہاں بیٹھا ان کا گوشت کھا رہا تھا ۔۔۔
یہ دیکھ مالی بابا لرز کر رہ گئے اور پھر ھمت کرتے ہوۓ آگے بڑھے ۔۔۔
"سراج صاحب ؟؟"
انہوں نے کانپتی آواز سے سراج کو پكارا جس پر سراج نے ان کی طرف دیکھا ۔۔۔مگر کچھ بولا نہیں ایک بار پھر وہ اپنے کام میں لگ گیا ۔۔۔
"بیٹا یہ کیا کر دیا آپ نے ؟؟"
وہ روتے ہوۓ بولے ۔۔
مگر سراج کوئی جواب نہ دے رہا تھا
"اب آپ اٹھیں یہاں سے اور چلیں میرے ساتھ کیوں کہ میں نہیں چاہتا پولیس آپ کی لے جاۓ ۔۔۔"
یہ کہتے ہوۓ انہوں نے سراج کو بازو کی مدد سے پکڑا اور کھینچتے ہوۓ اپنے ساتھ لے گئے ۔۔۔
پھر اپنے ایک پرانے دوست کو کال کر کے حالت سے آگاہ کیا جودوسرے شہر میں رہتا تھا اور سراج کو راتوں رات اپنے اس دوست کے گھر یعنی شہر سے باہر بهجوا دیا ۔۔۔
سراج کچھ دن وہاں رہا ۔۔اب اس نے بظاہر پاگلوں والی حرکتیں کرنا چھوڑ دی تھیں ۔۔۔کچھ دن یہاں رہنے کے بعد اس نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امریکہ جانے کا فیصلہ کیا اور کچھ عرصہ بعد پاکستان چھوڑ کر امریکہ جا بسا ۔۔۔
وہاں اس کی ملاقات تھومس سے ہوئی جو دل کا بہت اچھا تھا وہ سراج کا بہت خیال رکھتا تھا وقت کے ساتھ سراج اور تھومس بہت اچھے دوست بن گئے سراج نے اس کو اپنی زندگی کے بارے میں سب کچھ بتایا اور یہ بھی کہ اب اس کو بار بار انسانی گوشت اور خون کی طلب ہوتی ہے وہ کیا کرے ؟؟ جس وجہ سے تھومس نے اس کا نفسياتی علاج بھی شرو ع کر وا دیا تھا اب سراج کے ویکلی سیشن ہوتے اور اس کی ذہنی حالت میں کافی سدھار آ گیا تھا ۔۔۔اور اس حرام کام کی طلب بھی لگ بھگ ختم ہو گئی تھی۔۔۔وہاں سراج کو دیکھتے ہوۓ ایک دو لوگوں نے اس کو ماڈلنگ کا مشورہ دیا ۔۔۔تو اس نے اپنا ایک فوٹو شوٹ کروا کر کچھ ڈاریکٹرز کو بھجوا یا ۔۔۔جس کو کافی پسند کیا گیا اس کے بعد سراج نے ایک دو ایسے اور فوٹو شوٹ کروائے بس پھر کیا تھا ہر طرف سے آفرز کی بھرمار شرو ع ہو گئی ۔۔۔
اڈورٹائیزنگ ، ریمپ واک ،برینڈ پروموشن اور فیشن شوز ۔۔۔۔سراج کی زندگی میں اب ان سب چیزوں نے جگہ لے لی تھی
پانچ سال بیت گئے مگر اپنی زندگی میں ہوۓ وہ تلخ واقعات سراج بھولا نہ تھا مگر سہہ ضرور گیا تھا ۔۔۔
اسی دوران اس کی ملاقات سونیا سے ہوئی وہ بھی پاکستانی ہی تھی وہ سراج کو پسند کرنے لگی تھی ۔۔
پہلے تو ان دونوں کے بیچ دوستی ہوئی پھر سونیا نے سراج کو شادی کی پیشکش کر دی ۔۔
اس کی پیشکش پر سراج کو حرا کی یاد تو بہت آئی تھی مگر وقت نے اس کو بہت مضبوط بنا دیا تھا اسی لئے حقیقت کو قبول کرتے ہوۓ اس نے آگے بڑھنے کا فیصلہ کر ہی لیا اور سونیا سے شادی کر لی ۔۔
اب سراج کی زندگی میں کچھ سکون آگیا تھا ۔۔۔سونیا اس سے بیحد محبت کرتی تھی اس کی محبت کا جواب سراج نے بھی محبت سے ہی دیا ۔۔۔
کچھ ہی وقت بعد ان کو اپنے ہاں ہونے والی پہلی اولاد کی خوش خبری مل گئی تھی ۔۔۔
یہ خبر سن کر سراج اپنے سارے دکھ بھلا بیٹھا اور بے صبری سے اس دن کا انتظار کرنے لگا جس دن وہ اپنی اولاد کو گود میں لے گا ۔۔۔
ان کی شادی کو یوں ہی ہنسی خوشی آٹھ ماہ بیت گئے ۔۔
***
وہ اپنے گھر آیا تو ملازم نے دروازہ کھول دیا سونیا بیڈ روم میں تھی تب ہی اس کو سراج کے آنے کا پتہ نہ چل سکا ۔۔۔بیڈ روم کا دروازہ ذرا سا کھلا تھا سراج اس کو کھولتا اندر چلا گیا ۔۔۔
سامنے جو منظر تھا وہ دیکھ کر سراج کا دماغ پوری طرح گھوم گیا
سامنے سونیا کسی گورے کے ساتھ بدفعلی میں مشغول تھی ۔۔۔اور سراج کو دیکھتے ہی سونیا کے ہوش اڑ گئے ۔۔۔
سراج کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا ۔۔۔اس کا دماغی توازن پھر سے بگڑنے لگا ۔۔۔
"سراج !! سراج میری بات ۔۔۔۔"
سونیا روہانسی ہوتے ہوۓ بولنے لگی مگر اس سے پہلے وہ مزید کچھ بولتی سراج نے ایسا زور دار تهپڑ اس کے منہ پر دیا جس سے اس کا سر دیوار میں جا لگا ۔۔۔
پھر سراج نے اس کو بالوں سے پکڑ لیا
"اہ تو میری غیر موجودگی میں یہ کرتی ہو تم "
اب وہ ادھر ادھر کچھ تلاش کرنے لگا بہت ہی جلد اس کو اپنی مطلوبہ چیز مل ہی گئی اس نے پاس پڑا ایک بھاری کانچ کا شوپیس اٹھایا اور اس کو سونیا کے سر پر مارنے لگا مگر اسی وقت اس کو اپنے بچے کا خیال آیا ۔۔۔تو اس کے ہاتھ رک گئے ۔۔۔اب وہ شوپیس اس نے وہاں کھڑے اس گورے کے منہ پر دے مارا ۔۔۔جس سے وہ بری طرح زخمی ہو گیا اور بد حواس ہو کر وہاں سے بھاگ گیا ۔۔۔
اب سراج دکھ اور غصے کی کیفيت میں وہاں سے جانے کو پلٹا تو سونیا دوڑ کر اس کے پاس آگئی اور سراج کا ہاتھ پکڑ لیا ۔۔
"سراج میری بات سنو ۔۔۔وہ
وہ بندہ میرے آفس کا باس ہے اور اگر میں اس کی بات نہ مانتی تو میرے کیریئر کو خطرہ ہو سکتا تھا مگر مجھ سے غلطی ہو گئی ۔۔مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ۔۔۔بٹ ای لو یو سراج میں پیار تم سے ہی کرتی ہوں
یقین کرو سراج ۔۔۔۔اور آج سے پہلے میں نے کبھی ایسا کچھ نہیں کیا جس سے تمہیں تکلیف ہو ۔۔پتہ نہیں آج کیا ہو گیا مجھے ۔۔۔میں لالچی ہو گئی تھی مجھے معاف کر دو ۔۔۔"
وہ روتے ہوۓ بولی
مگر سراج بنا کچھ بولے وہاں سے جانے لگا اس کی حالت بگڑنے لگی تھی ۔۔۔سونیا اب اس کے سامنے آکھڑی ہوئی تھی ۔۔
"سراج مجھے ایک موقع اور دے دو پلیز ۔۔۔نہ جانے وہ کونسی منہوس گھڑی تھی جب میں نے تم سے بےوفائی کا سوچا ۔۔۔مجھے معاف کر دو ۔۔۔
میں تمہاری قسم کھا تی ہوں میں اپنے ماں باپ اور ہونے والی اولاد کی قسم کھاتی ہوں کہ آج سے پہلے میں نے کبھی کچھ ایسا نہیں کیا یہ پہلی اور آخری بار تھا ۔۔۔۔معاف کردو ۔۔۔"
وہ باقاعدہ رونے لگی ۔۔۔سراج کی آنکھوں سے بھی آنسو جاری تھے اگر وہ پہلے والا سراج ہوتا تو شاید ہو سکتا تھا کہ سونیا کو ایک موقع دے دیتا مگر سراج سے اپنا آپ نہ سنبھالا جا رہا تھا تو ایسے میں وہ کسی کی غلطی کا بوجھ کیسے اٹھاتا ۔۔۔
"سونیا ہٹ جاؤ میرے سامنے سے کیوں کہ میں نہیں چاہتا کہ ایسے میں تم پر ہاتھ اٹھاؤں ۔۔۔
میری حالت میرے بس میں نہیں رہتی تم جانتی ہو پلیز مجھے تمہاری شکل نہیں دیکھنی میں جا رہا ہوں ۔۔۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اور جیسے ہی میرا بیٹا یا بیٹی اس دنیا میں آئے گا اسی دن تمہیں طلاق بھی دے دوں گا "
یہ کہتا سراج اب وہاں سے چلا گیا اور اس کے جانے کے بعد سونیا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی
***
سراج آنکھوں میں نمی لئے اپنی زندگی میں آنے والی اس عارضی خوشی کی یادیں کے ساتھ آج ہمیشہ کے لئے امریکہ کو چھوڑے جا رہا تھا ۔۔۔اس نے تو اپنے کیریئر کا بھی نہ سوچا حالانکہ تھومس نے اس کو سمجھانے اور روکنے کی بہت کوشش بھی کی مگر جس کی دنیا ہی اجڑ چکی ہو اس اور کسی چیز کے تباہ ہو جانے سے بھی کہاں فرق پڑتا ہے ۔۔یہاں تک کہ وہ اپنا علاج بھی بیچ سے چھوڑ کر پاکستان آگیا۔۔۔
***
پاکستان آنے کے بعد سب سے پہلے وہ اپنے بابا کی قبر پر گیا پھر اپنی سگی والدہ کی قبر پر جہاں وہ جی کھول کر رویا کافی دیر رونے کے بعد اس نے ہمیشہ کے لئے نہ رونے کا فیصلہ کر لیا ۔۔اور خود سے یہ عہد بھی کہ
"وہ اب شرافت چھوڑ دے گا کیوں کہ شریف انسان کے حصے بس دکھ تکلیفیں ہی آتی ہیں ۔۔۔۔۔"
پھر وہ اپنے بابا کے آفس آ گیا ۔۔۔
جہاں فلحال اس کے سوتیلے ماموں یعنی کے شاہینہ کے بھائی کا قبضہ تھا ۔۔۔
سراج اس کے کمرے کے دروازے پر ایک زور دار لات مارتے اندر داخل ہوا ۔۔۔۔
"وٹ نانسینس ؟؟؟ یہ کیا بدتمیزی ہو رہی ہے "
افضل چلایا جو شاہینہ کا بھائی تھا اور اس وقت آفس کے چیئر مین کی سیٹ پر بیٹھا تھا ۔۔۔
کمرے میں اس کے علاوہ اور کوئی نہ تھا ۔۔۔
"سالے !!!
بدتمیزی کے بچے ابھی تجھے تمیز سکھاتا ہوں "
یہ کہتا سراج اس کے سامنے موجود میز پر جوتوں سمیت ہی بیٹھ گیا ۔۔
اور افضل کو اس کے گلے میں موجود ٹائی سے پکڑ کر ایک کے بعد ایک زور دار تھپڑاس کے منہ پر رسید کرتا جا رہا تھا جس سے اس کا منہ اور کان لال ہو گئیے
"یہ سب کچھ تیرے باپ کا نہیں بلکہ میرے باپ کا ہے ۔۔"
اب سراج غصے سے اس کے بال جکڑے بولا اس کی آنکھیں بلکل لال تھیں جیسے ان سے خون ٹپک پڑے گا ۔
"اور میں اپنے باپ کی اس سالوں کی محنت کو ایسے برباد نہیں ہونے دوں گا ان سب پر صرف ان کے بیٹے کا حق ہے ۔۔
سراج علی ذولفقار کا حق ہے ۔۔۔"
"چھوڑو یہ سب کیا کر رہے ہو میں ابھی پولیس کو بلاتا ہوں "
افضل اپنے بال چھڑانے کی کوشش کرتے بولا ۔۔۔
"ہا ہا ہا ہا ۔۔
بلا لے بیٹا پولیس کو ۔۔۔جو کرنا ہے کر لے ۔۔"
سراج ہنسا اور پھر یک دم ہی بلکل طیش میں آگیا ۔۔
"یاد رکھنا ۔۔۔۔کل اسی وقت اس جگہ تو نہیں میں موجود ہوں گا یہ میرا چیلنج ہے تجھے "
اب سراج اس کے گال کو نفرت سے تهپتهپا کر اٹھا اور وہاں سے چل دیا ۔۔۔
***
اسی رات جب افضل آفس سے گھر کے لئے نکلا تو کسی ویران جگہ پر سراج نے اس کو روک لیا ۔۔
سراج نے کالی جیکٹ پہنی ہوئی تھی اور ہوڈی سے اپنا چہرہ چھپا رکھا تھا ۔۔۔
وہ سڑک کے بیچ و بیچ آکھڑا ہوا افضل سمجھ نہ پایا کہ یہ کون ہے اور جلد بازی میں اس نے بریک لگا دی ۔۔
بریک لگتے ہی سراج ایک پل کی دیر کئے بنا اس کی طرف لپکا گاڑی کا دروازہ کھولا جو لاک نہ تھا اور افضل کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوۓ گاڑی سے نکالا اور یوں ہے گھسیٹتا سڑک پر سے ہو کر وہاں موجود جھاڑیوں میں لے آیا ۔۔۔
پھر اپنی جیکٹ سے ایک خنجر نکالا جس کو دیکھ کر افضل خوف سے تھر تھر کانپنے لگا ۔۔۔
"ی یہ ک کو کیا کر رہے ہو پاگل تو نہیں ہو گئے ؟؟"
وہ بولا مگر سراج نے بنا کوئی جواب دیے اپنی جیکٹ میں سے کچھ دستاویزات نکالے اور پین سمیت افضل کے سامنے کر دیے ۔۔
"سائن کر ۔۔"
وہ رعب سے بولا ۔۔
"ی ہے کیا ؟"
"میری تمام جائیداد کے پیپرز ۔۔
میں سائن نہیں کروں گا "
"ٹھیک ہے اگر تو سائن نہیں کرے گا تو پھر میں تجھے سائن کر لوں گا جہنم کے لئے "
سراج سائیڈ سمائل دیتا اپنے خنجر کو سہلاتے ہوۓ بولا ۔۔۔
"ویسے تو سائن نہیں بھی کرے گا تو کوئی ایسی بات نہیں تیرے مرنے کے بعد میری جائیداد مجھے خود بخود ہی مل جاۓ گی وہ بھی بڑی آسانی سے میں تو تیری جان بچا رہا تھا ۔۔۔۔
اف مگر کیا کروں بھلائی کا زمانہ ہی نہیں رہ گیا آج کل تو ۔۔"
سراج مکاری سے بولا ۔۔۔
افضل حواس باختہ ہو چکا تھا یا تو اس کو اپنی جان بچانی تھی یا پھر دولت ۔۔۔
آخر کار اس نے وہی فیصلہ کیا جو ایسے میں کوئی بھی انسان کرتا ۔۔۔اس نے دستا ویزات پر دستخط کر ڈالے۔۔
"شاباش!!!!
سمجھدار ہے تو بڈھے ۔۔۔
مگر افسوس مرنا تو تجھے اب بھی ہو گا ۔۔۔"
یہ کہہ کر سراج نے خنجر پیچھے کرتے ہوۓ ایک وار افضل پر کیا ۔۔۔
"نہیںں ں ں ں ں ۔۔۔۔"
افضل چیخ اٹھا ۔۔
سراج نے اس کو چھوا تک نہ تھا ۔۔
"ہا ہا ہا ہا ہا ۔۔۔۔ڈر گئے ۔۔۔ابھی تو میں نے کچھ کیا ہی نہیں "
یہ کہہ کر سراج نے خنجر واپس جیکٹ میں رکھ لیا ۔۔۔اور اس کی جگہ اپنی جیکٹ سے شراب کی ایک بوتل نکالی اور افضل کا منہ پکڑے زبردستی ہی اس کو پلانے لگا ۔۔۔
پھر پاس پڑا ایک بھاری پتھر اٹھا لایا اور افضل کے منہ پر دے مارا ۔۔۔حملہ اتنا شد ید تھا کہ افضل موقع پر ہی جان بحق ہو گیا ۔۔۔
اب سراج نے بڑی ہی چالا کی سے پہلے تو افضل کی گاڑی کو ذرا سا چلا کر دیوار میں دے مارا اور افضل کی لاش کو اب ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھا کر پاس ہی شراب کی بوتل رکھ دی ۔۔۔
اس نے قتل کو ایک شراب پی کر گاڑی چلانے کے بعد ہوئی حادثاتی موت کا رنگ دے دیا اور خود مسکراتا ہوا دستاویزات کو جیکٹ میں رکھتا وہاں سے چل دیا۔۔
***
چھ سات ماہ بعد اس کو تھومس کے ذریعے اپنے بیٹے کی پیدائش کی خوش خبری ملی اس دن سراج کو اپنے بابا کی بہت یاد آئی تھی مگر دوسری ہی طرف وہ بیحد خوش تھا وہ امریکہ گیا تھا اور اپنے بچے سے ملنے کے بعد سونیا کو طلاق بھی دیدی سونیا کو لگا تھا شاید ان کا بیٹا ہو جانے کے بعد سراج اس کو معاف کر دے گا لیکن ایسا نہ ہوا ۔۔۔سراج کا اپنے بیٹے کو چھوڑ کر جانے کا بلکل دل نہ تھا مگر اس کے ساتھ رہنے کا حق بھی تو وہ کھو چکا تھا ۔۔۔اور اس سے یہ حق چھیننے والی سونیا تھی ۔۔۔وہ کھل کر اپنے باپ بننے کی خوشی بھی نہ منا پایا تھا ۔۔۔اپنے بیٹے کا نام خود تجویز کر کے وہ پھر سے پاکستان آگیا مگر اب سال میں ایک دفعہ لازمی اپنے بیٹے سے ملتا ۔۔۔
امریکہ سے آنے کے بعد اس نے حرا کی تلاش شروع کردی تھی کچھ عرصہ کی کو شش کے بعد اس کو حرا کا پتہ چل گیا تھا ۔۔اس نے حرا کے شوہر کو پہلے تو اپنا دوست بنایا ۔۔۔اور اسی بہانے اس کے شوہر کو اپنے اور حرا کے ماضی سے آگاہ کر دیا اور ثبوت کے طور پر خود حرا کے شوہر کے ہمراہ اس کے گھر آگیا ۔۔۔
سراج کو اپنے سامنے اتنے اعلی پوشاک اور اس کی لینڈ کروزر دیکھ حرا بہت حیران اور شرمنده ہوئی تھی ۔۔۔
اور پھر سراج اور حرا کے شوہر کی منصو بہ بندی کے تحت سراج نے اس سے اکیلے میں بات کی وہ تو جانتا تھا کہ حرا کا شوہر یہ سب سن رہا مگر حرا یہ بات نہ جانتی تھی ۔۔۔تب ہی کھل کر اپنے ماضی کے بارے میں سراج سے بات کرنے لگی ۔۔۔
"کیسی ہو ؟"
سراج نے اس سے پوچھا مگر سراج کے لہجہ میں نہ کوئی تکلیف تھی نہ کوئی دکھ اس کا دل اب بہت سخت ہو چکا تھا ۔
"میں ٹھیک ہوں تم کیسے سراج ؟"
وہ شرمندگی سے گردن جھکا کر بولی ۔۔
"میں تو ویسا ہی ہوں ۔۔
بهكاری !!!
پاگل !!!
اور نفسياتی !!!"
سراج ہنس کر بولا ۔۔۔
جب کہ حرا کچھ نہ بول پائی ۔۔۔
"یہی سب کچھ بول کر چھوڑ گئی تھی نہ تم مجھے ۔۔۔کہ میرے پاس اب پیسہ نہیں ۔۔۔۔اسی بات پر تم میرا پیار سے بھرا دل اور ہمارا رشتہ توڑ گئی تھی کیوں کہ میرے ساتھ ناتا رکھنے سے تمہاری بے عزتی ہوتی تھی "
"سراج ۔۔۔
میں غلط تھی "
حرا شرمندگی سے بولی ۔۔
"وہ تو تم تھی ہی ۔۔۔۔
آئی نو ۔۔۔"
یہ بولتا سراج وہاں پڑے صوفے پر ٹانگیں پھیلاے بیٹھ گیا اور سیگریٹ سلگانے لگا ۔۔۔
"جانتی ہو تمہارے ہزبینڈ جیسے کئی لوگ میرے انڈر کام کرتے ہیں ۔۔۔
اس بهكاری کے انڈر ۔۔۔"
وہ طنزیہ مسکرا کر بولا ۔۔
جس پر حرا بہت ندامت محسوس کرنے لگی ۔۔
سراج ایک نفرت بھری نظر اس پر ڈالتا اٹھ کر اس کے گھر سے چل دیا ۔۔حرا کے شوہر کے لئے اتنا سننا کافی تھا ۔۔
کچھ ہی دنوں میں اس نے حرا کو طلاق دے دی ۔۔حرا کے ہاں کوئی اولاد نہ تھی ۔۔۔وہ اب اپنے ماں باپ کے گھر آ بیٹھی تھی مگر اس کی زندگی کے یہ آخری دن تھے سراج نے کچھ ہی دن بعد اس کو بھی بے رحمی سے مار ڈالا اور اس کا گوشت بھی کھا یا ۔۔۔اس کا علاج بیچ سے چھوٹ گیا تھا اسی لئے اب اس کو خود پر قابو رکھ پانا مشکل تھاوہ بظاہر ایک نارمل انسان تھا مگر کہیں بھی کوئی اب اس کے ساتھ ذرا سی بھی زيادتی کرتا تو سراج حد سے زیادہ رد عمل کرتا یا پھر کبھی اگلے کی جان ہی لے لیتا تھا ۔۔۔تب اس کی حالت اس کے خود کے قابو میں نہ رہتی تھی ۔۔
"اور اب بھی سراج صاحب ایسے ہی ہیں ۔۔۔۔ہمت ہے آپ کی جو ایک اتنے خطرناک ذہنی مریض کے ساتھ رہ رہی ہیں ۔۔۔"
مالی بابا نے اپنے آخری الفاظ ادا کئے ۔۔۔
سدرہ کی آنکھوں سے آنسووں کی جھڑی لگی ہوئی تھی ۔۔۔سراج کی زندگی کے بارے میں جان کر ۔۔
"سراج نے اتنا درد دیکھا ہوگا اپنی زندگی میں یہ میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی .."
وہ بولی ۔۔
سدرہ سراج سے بہت پیار کرتی تھی اور اس کی ایک ایک تکلیف کا سوچتے ہوۓ بھی سدرہ اپنےاندر اندر تک تکلیف کی شدت محسوس کر رہی تھی ۔۔
اس کو مالی بابا کے سامنے رونا اچھا نہ لگ رہا تھا تب ہی وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں آگئی ۔۔۔وہ جب جب سراج کے ساتھ ہوۓ ظلم کا سوچتی تب تب اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ۔
سدرہ نے اس پل پر لاکھ بار خدا کا شکر ادا کیا جب اس نے جواد کا ساتھ نہ دینے کا فیصلہ کیا تھا ۔اب وہ حسب عادت سراج کی تصویر کے سامنے جا کھڑی ہوئی
"کتنا دکھ دیا ہے نہ لوگوں نے آپ کو ۔۔مگر میں آپ کو کبھی دکھ نہیں دوں گی کتنا درد چھپا رکھا ہے آپ نے اس مسکراہٹ کے پیچھے ۔۔۔"
وہ تصویر میں موجود مسکراتے سراج سے مخاطب تھی ۔۔۔
اب سدرہ بے صبری سے سراج کے آنے کا انتظار کرنے لگی ۔۔۔
یوں تو وہ 10 بجے تک آ جایا کرتا مگر کبھی 11 بھی بج جاتے تھے ۔۔۔ابھی 10 بجنے میں کچھ وقت باقی تھا سدرہ باہر لاؤنج میں آگئی ۔۔۔
کافی دیر گزر چکی تھی مگر سراج اب تک نہ لوٹا تھا ۔۔۔اب تو گیارہ بھی بج گئے تھے ۔۔
سدرہ وہیں بیٹھے اس کا انتظار کرتے کرتے ہی سو گئی ۔۔۔
اس کی آنکھ رات کے دو بجے کھلی تھی ۔۔۔
آنکھ کھلتے ہی پہلی نظر اس نے گھڑی پر ڈالی اور پھر اٹھ کر تیزی سے اپنے کمرے کی طرف گئی ۔۔۔مگر یہ دیکھ کر اس کو حیرت ہوئی کہ سراج اب تک نہ آیا تھا ۔۔
"یہ کیا ؟؟؟ ایسا پہلے تو کبھی نہیں ہوا سراج آئے کیوں نہیں اب تک "
وہ سوچنے لگی۔
سدرہ کو کچھ سمجھ نہ آیا کہ وہ کیا کرے اس وقت تو سرونٹ کوارٹر میں موجود ملازمین بھی گہری نیند سو چکے تھے ۔۔اس کے لئے تو اب ایک ایک پل کاٹنا کسی عذاب سے کم نہ تھا مگر اس نے حوصلہ رکھا اور وضو کرنے چل دی وضو کر آئی تو تہجد ادا کر کے دعا مانگنے لگی ۔۔دعا کے بعد اس کا دل ذرا ہلکا ہو گیا تھا ۔۔۔مگر فکر ابھی بھی لاحق تھی۔۔
اسی پریشانی میں ہی سدرہ کی رات گزری ۔۔۔فجر ہوۓ تھوڑا ہی وقت ہوا تھا کہ دروازے کی گھنٹی سنائی دی ۔۔۔
سدرہ بھاگ کر دروازے پر گئی اور جھٹ سے دروازہ کھول دیا ۔۔مگر سامنے سراج نہ تھا اس کا کوئی ملازم تھا ۔۔
"اسلام و علیکم !"
وہ بولا
"وعلیکم اسلام آپ کون ؟"
"میں رضوان ہوں مجھے چھوڑیں یہ بتائیں آپ سر سراج کی وائف ہیں نہ ؟؟"
"جی ہاں کیوں ۔۔سراج ہیں کدھر اور رات سے گھر کیوں نہیں آئے ۔۔؟؟؟"
"ان کا رات ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا "
"کیا ؟؟؟؟؟
سراج کا ایکسیڈنٹ ۔۔وہ ٹھیک تو ہیں نہ ؟؟؟ زیادہ لگی تو نہیں ؟؟؟ کہاں کہاں لگی ان کو خون زیادہ تو نہیں بہا ۔؟؟"
سدرہ نے ایک ہی سانس میں اتنے سوال کر ڈالے ۔۔۔
"جی آپ چلیں میرے ساتھ "
وہ بولا اور سدرہ بنا ہی کچھ سوچے سمجھے ایک اجنبی کے ساتھ ہو لی ۔۔۔
کچھ ہی دیر میں سدرہ اور رضوان اسپتال میں تھے ۔۔۔
"اور رضوان اس کو لے کر ڈاکٹر کے روم کی طرف بڑھ گیا ۔۔
رو رو کر سدرہ کا برا حال تھا
"آپ یہاں کیوں لے آئے مجھے سراج سے ملنا ہے ان کو دیکھنا ہے کیسے ہیں وہ ؟؟"
سدرہ بے چینی سے بولی ۔۔
"یہ کون ہیں ؟"
ڈاکٹر رضوان سے بولا تھا
"وائف۔۔سدرہ نام ہے ان کا "
"همم مس سدرہ گھبرایں مت آپ کے ہزبینڈ ٹھیک ہیں اب خطرے سے باہر ہیں ۔۔۔آپ بیٹھیں پلیز "
ڈاکٹر بیحد نرمی سے بولا تھا ۔۔
تو سدرہ میز کے سامنے پڑی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گئی ۔۔
"ہم مسٹر سراج علی کو رات کے یہی کوئی 11 بجے یہاں لایا گیا تھا ۔۔۔ایکسیڈنٹ کافی سیریس تھا ۔۔وہ بری طرح زخمی تھے اور جسم کی آدھے سے زیادہ ہڈیاں ٹوٹ چکی تھیں ۔۔۔"
ڈاکٹر کے منہ سے یہ الفاظ سن کر سدرہ کی ہچکی بندہ گئی جس کو وہ بڑی مشکل سے اپنے منہ پر ہاتھ رکھے روکنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔
"خون بھی کافی بہہ گیا تھا ۔۔۔ہم نے جان تو بچا لی ہے مگر ان کی کار کا حادثہ ٹرک کے ساتھ پیش آیا تھا اور جس کی زد میں سب سے زیادہ ان کی ٹانگیں ہی آئیں ہیں ۔۔۔مجھے نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ وہ اب کبھی چل نہیں سکیں گے"
ڈاکٹر کے کہے ان الفاظ نے سدرہ کی روح تک جھنجھوڑ کر رکھ دی تھی ۔۔۔۔کچھ پل کو تو اس کا دماغ مفلوج ہو کر رہ گیا مگر اس کے اندر صبر بہت تھا ۔۔۔وہ ہمت کر کے وہاں سے اٹھی ۔۔
"وہ ہیں کہاں مجھے ان سے ملنا ہے پلیز "
سدرہ بولی ۔۔
"اس وقت وہ ہوش میں نہیں ہیں ۔۔۔۔کچھ ہی گھنٹوں میں ان کو ہوش آجاۓ گا آپ ویٹ کریں جب تک ۔۔۔
سدرہ اور رضوان کو انتظار گاہ میں بیٹھے کئی گھنٹے ہو چکے تھے ۔۔۔دو پہر ہو گئی تھی سدرہ ظہر کی نماز ادا کرنے چل دی ۔۔اور اس نے اللّه سے سراج کی صحت کے لئے بہت دعائیں مانگیں ۔۔اس نے گہرے نیلے رنگ کا سوٹ پہن رکھا تھا ۔۔دوپٹہ سر پر اور خود کو ایک چادر کی مدد سے ڈھانپ رکھا تھا ۔۔رونے سے اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں ۔۔۔جس سے اس کے معصوم چہرے کی خوبصورتی میں مزید اضافہ ہو گیا تھا ۔۔۔وہ نماز پڑھنے کے بعد دوبارہ بینچ پر آبیٹھی ۔۔رضوان اس کے پاس آیا تھا ۔۔۔
"میم آپ گھر چلی جائیں اور آرام کر لیں تھوڑا میں ہوں یہاں جیسے ہی سر کو ہوش آئے گا میں آپ کو انفارم کر دوں گا "
وہ بولا ۔۔۔وہ ایک اچھا لڑکا تھا اور سراج کے اس پر کئی احسانات تھے یہی وجہ تھی جو آج وہ سراج کے لئے کسی اپنے کی طرح ہی یہاں موجود تھا ۔۔
"نہیں ۔۔۔میں کہیں نہیں جا رہی یہیں رہوں گی اپنے سراج کے ساتھ اگر آپ جانا چاہ رہے ہیں ذرا دیر آرام کرنے تو چلے جائیں کیوں کہ آپ بھی رات بھر جاگے ہیں ۔۔"
سدرہ نرمی سے بولی ۔۔
"نو میم میں بھی ادھر ہی ہوں جب تک سر کو ہوش نہیں آجاتا ۔۔"
وہ دونوں یہ باتیں کر ہی رہے تھے کے نرس وہاں آئی ۔۔۔
"ایکسکیوز می ۔۔۔۔"
اس نے رضوان کو مخاطب کیا ۔۔
"یس "
رضوان بے چینی سے اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔
"مسٹر سراج کو ہوش آگیا ہے فلحال آپ میں سے کوئی ایک ہی ان سے مل سکتا ہے ۔۔۔"
نرس بولی ۔۔جس پر سدرہ بھی اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔
"میں ملوں گی ان سے مجھے ملنا ہے ۔۔۔"
وہ جھٹ سے بولی ۔۔۔
"اوکے ۔۔۔
آئیں میرے ساتھ "
یہ کہتی نرس سدرہ کو اندر وارڈ میں لے آئی ۔۔۔
سامنے بستر پر سراج آنکھیں بند کئے لیٹا تھا ۔۔۔اس کے سر سمیت جسم کے کئی حصوں پر پٹی بندهی تھی ۔۔۔سرخ و سفید رنگت زرد ہو رہی تھی ۔۔۔ہونٹ بھی زخمی تھا ۔۔۔
سدرہ نے جب سراج کو ایسی حالت میں دیکھا تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے مگر پھر وہ خود کو سنبها لتی اور اپنے آنسو صاف کرتی اس کے نزدیک پڑی کرسی پر جا بیٹھی ۔۔
نرس سدرہ کو وہاں چھوڑے خود باہر چلی گئی تھی ۔۔
سدرہ نے اپنا گداز ہاتھ بڑے پیار سے سراج کے ماتھے پر رکھا ۔۔۔
"سراج ۔۔۔۔"
جس پر سراج نے دھیرے سے اپنی آنکھیں کھول کر اس کی طرف دیکھا ۔۔۔
"ابھی کیسا فیل کر رہے ہیں آپ ؟؟؟"
وہ مسکرا کر بولی ۔۔۔
"ٹھیک "
سراج نے مختصر جواب دیا ۔۔
"همم گڈ ۔۔بہت جلد بلکل ٹھیک ہو جائیں گے ان شااللّه ۔۔۔"
"ہو تو جاؤں گا مگر اب ساری زندگی کے لئے یہ بستر ہی میرا مقدر بن گیا ہے ۔۔"
سراج دکھ سے بولا ۔۔
اس کی بات پر سدرہ تڑپ گئی تھی ۔۔
"نہیں ایسے نہیں بولتے ۔۔۔
اللّه بہت مہربان ہے ۔۔۔بس اس کے کن کہنے کی دیر ہے پھر تو معجزے ہونے میں دیر نہیں لگتی کیا ہوا اگر ڈاکٹرز نے ایسا کہہ دیا تھا ۔۔۔اللّه کی ذات بہت بڑی ہے مجھے یقین ہے وہ آپ کو جلد سے جلد پہلے جیسا کر دے گا ۔۔"
سدرہ کی بات پر سراج نے کوئی جواب نہ دیا ۔۔۔
"اچھا اب آپ آرام کریں ۔۔۔میں ابھی آئی "
سدرہ بہانے سے اٹھ کر واش روم کی طرف چل دی کیوں کہ اس کا ضبط ٹوٹ گیا تھا وہ سراج کے سامنے بلکل نہ رونا چاھتی تھی ۔۔۔
***
سراج کے ایکسیڈنٹ کو تین دن ہو چکے تھے ۔۔
سدرہ سراج کے لئے آج اپنے ہاتھوں سے سوپ بنا کر اسپتال لائی تھی ۔۔۔
"اف توبہ سراج آپ کو پتہ ہے جب میں گھر گئی تو سارا گھر بکھرا پڑا تھا دو دن سے صفائی والی ماسی نہیں آئی رضیہ باجی نے بتایا اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ۔۔۔ابھی کہہ کر آگئی ہوں رضیہ باجی سے کہ صفائی کروا دیں ۔۔۔"
سدرہ سوپ کٹوری میں ڈالتے ہوۓ سراج سے مخاطب تھی ۔۔جو بیڈ کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا ۔۔اس کے بازو پر پلستر لگا ہوا تھا ۔۔۔
"اچھا "
سراج بولا ۔۔
"جی ۔۔۔یہ لیں آپ یہ سوپ پی لیں ۔۔۔"
سدرہ نے کٹوری اس کے سامنے رکھتے ہوۓ کہا ۔۔
"میں کیسے پیوں میرا ہاتھ دیکھو "
وہ مسکرا کر بولا ۔۔
"اوہ ۔۔ہاں آپ کیسے پئیں گے ؟؟؟
ٹہریں میں پلاتی ہوں ۔۔۔"
سدرہ یہ کہتی اب خود سراج کو اپنے ہاتھوں سے سوپ پلانے لگی
"آہ !!!!
بہت مرچ ہے یار "
سراج سوپ کا ایک گھونٹ پیتے ہی بولا تھا ۔۔جس پر سدرہ پریشان سی ہو گئی ۔۔۔
"کیا ؟؟؟ مرچ ہے ۔۔۔
مگر مرچ تو میں نے بہت ہلکی رکھی تھی ۔۔۔"
سدرہ نے حیران ہوتے ہوۓ سوپ کا ایک گھونٹ لیا ۔۔
"کیا سراج ؟؟؟؟
کہاں ہے مرچ ۔۔۔بلکل بھی نہیں ہے ۔۔۔پھر جھوٹ کیوں بولا آپ نے ۔۔۔
اہ اب سمجھی جناب کا دل نہیں ہے سوپ پینے کا "
سدرہ شوخی سے بولی جس پر سراج بے ساختہ ہنس دیا ۔۔۔
"کوئی بہا نہ نہیں اچھا تھوڑا سا پی لیں "
"نہیں دل چاہ رہا رکھ دو بعد میں پی لوں گا "سراج بے زاریت سے بولا ۔۔
"کیا آپ ؟؟؟
بچوں کی طرح بہیو کر رہے ؟؟"
وہ دونوں یہ باتیں کر ہی رہے تھے کے رضوان بھی کمرے میں داخل ہوا ۔۔۔
سدرہ زبردستی سراج کو سوپ پلانے میں مشغول تھی جب کہ سراج بہانے پر بہانے بنا رہا تھا یہ منظر دیکھ رضوان کو ہنسی آگئی تھی ۔۔۔
"گڈ ایوننگ سر !"
اب وہ بھی وہاں بیٹھتے ہوۓ سراج سے بولا تھا ۔۔
سراج اس کو دیکھ کر ذرا سنبهل کر بیٹھ گیا ۔۔اور سر کے اشارے سے اس کو جواب دیا ۔۔
"اب کیسے ہیں آپ ؟؟"
"بہتر ہوں ۔۔۔۔بہت شکریہ تمہارا تم نے میرے لئے اتنا کیا مسلسل تین دن سے لگے پڑے ہو میرے ساتھ ۔۔۔"
سراج نے مسکر ا کر اس کو شکریہ ادا کیا ۔۔
"کیسی بات کر رہے ہیں سر آپ نے تو ہمیشہ میری اتنی مدد کی ہے اور آج میں نے جو کیا وہ تو کچھ بھی نہیں اس کے آگے ۔۔۔
اس کے جواب میں سراج کچھ نہ بولا تو رضوان ایک بار پھر خود ہی گویا ہوا ۔۔
"اوکے سر ۔۔۔یہ لیں آپ کی گاڑی کی كیز ۔۔۔میں چلتا ہوں گھر ۔۔۔
اللّه آپ کو صحت کاملہ عطاء فرماے ۔۔۔۔۔آمین ۔۔۔"
سراج کے پاس پڑی میز پر وہ گاڑی کی چابیاں رکھتا وہاں سے چل دیا ۔۔۔
اس کے جانے کے بعد سدرہ نے بلآخر سراج کو سارا سوپ پلا ہی دیا
***
آج سراج اسپتال سے گھر آگیا تھا ۔۔۔اس کے آنے سے پہلے سدرہ نے کمرہ اچھے سے صاف کروادیا تھا پردے اور بیڈ کی چادر بھی تبدیل کروا دی تھی ۔۔
سراج کے معذور ہو جانے کے بارے میں جب گھر کے ملازمین کو علم ہوا تو ان کو بھی بیحد رنج ہوا تھا مگر اس میں کوئی کچھ نہ کر سکتا تھا یہ تو اللّه کے کام ہیں ۔۔۔
سراج بیڈ پر لیٹا گہری سوچ میں ڈوبا تھا وہ اپنی آنے والی زندگی کے بارے میں سوچ رہا تھا اور یہ بھی کہ جب رہبر کو پتہ چلے گا کہ اس کے ڈیڈ اب کبھی اپنے پیروں پر چل نہیں سکیں گے تو اس کو کتنا دکھ ہو گا ۔۔۔وہ بیحد دکھ میں تھا مگر ضبط کئے ہوۓ تھا۔اسی اثنا میں سدرہ کمرے میں داخل ہوئی ۔۔
"یہ میں نے پانی رکھ دیا ہے وہ پانی کل کا پڑا پرانا ہو گیا تھا ۔۔"
یہ بولتے سدرہ نے پانی کا جگ میز پر رکھا اور خود اپنے کھلے بالوں کو كلپ کی مدد سے قید کرتی الماری کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔
سراج چپ چاپ بس اس کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔
سدرہ نے الماری کھولتے ہوۓ سراج کا ایک سوٹ نکالا جو اس نے پہلے سے ہی پریس کر رکھا تھا اور بیڈ پر رکھتے ہوۓ بولی ۔۔
"آپ چینج کر لیں ۔۔۔میں جب تک آتی ہوں کچن سے ہو کر ۔۔۔"
سدرہ اب باہر جانے لگی
"سدرہ ۔۔۔!!"
سراج نے اس کو پکارا ۔۔
"جی ۔۔"
سدرہ بولی اور اس کے قریب آکر کھڑی ہو گئی ۔۔
"کچھ چاہیے تھا آپ کو ؟؟"
"بیٹھو !"
سراج بولا تو سدرہ بیڈ پر بیٹھ گئی ۔۔۔
اور سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگی ۔۔۔
"ایسے مت کیا کرو "
سراج بولا ۔۔
"کیسے ؟؟؟ کیا کیا میں نے ؟؟"
سدرہ حیران ہوئی
"مجھے اپنی عادت مت ڈالو ۔۔کیوں کہ میں جانتا ہوں کچھ دن بعد تم اب مجھے چھوڑ کر چلی جاؤ گی ۔۔"
وہ گردن جھکاے دکھ کی شدت سے بولا ۔۔۔
اس کی بات پر سدرہ تڑپ کر رہ گئی ۔۔۔
"نہیں سراج !!!!
میں آپ کو چھوڑ کر کبھی کہیں نہیں جاؤں گی ۔۔۔دوبارہ آپ ایسا کبھی نہ کہنا ۔۔۔"
سدرہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔۔۔
"میں صرف آپ سے پیار کرتی ہوں اور بہت کرتی ہوں ۔۔۔۔آپ ہی میری دنیا ہیں آپ کو چھوڑ کر میں کیسے جی پاؤں گی "
وہ بولی جس پر سراج کا دل باغ باغ ہو گیا مگر وہ بولا کچھ نہیں ۔۔۔
"آپ یہ سب فالتو باتیں سوچنا بند کریں ۔۔۔میں کہیں نہیں جانے والی اتنی آسانی سے پیچھا نہیں چھوڑوں گی آپ کا ٹھیک ہے نہ چاہے آپ جتنی کوشش کر لیں "
سدرہ مسکرا کر بولی ۔۔۔
وہ ماحول کو ذرا ہلکا کرنا چاہ رہی تھی ۔۔۔
"ہاں چڑیل جو ہو ۔۔۔۔اور چڑیلیں کہاں اتنی آسانی سے پیچھا چھوڑتی ہیں "
سراج نے اس کو پیار سے چھیڑا ۔۔
"کیا ؟؟؟؟ میں چڑیل ہوں ؟؟؟"
وہ آنکھیں پھیلاے بولی ۔۔
"ارے نہیں میں ہوں بس ؟؟"
جس پر دونوں ہی کھلکھلا کر ہنس پڑے ۔۔۔
"اچھا میں فریش ہو کر آتی ہوں ۔۔۔"
یہ بولتی سدرہ ایک بار پھر الماری کی طرف بڑھ گئی ۔۔اور اس میں سے اپنے کپڑے نکال کر واش روم کی طرف جانے لگی ۔۔
"اور ہاں جب میں واپس آؤں تو آپ مجھے ان کپڑوں میں نہ نظر آئیں چینج کر لیں ۔۔۔"
یہ بولتی وہ واش روم میں گھس گئی ۔۔۔
***
چھ ماہ کا عرصہ یوں ہی گزر گیا ۔۔۔سدرہ سراج کا بیحد خیال رکھتی تھی شرو ع کے پہلے مہینے میں تو وہ ساری ساری رات جاگتی رہتی تھی کیوں کہ سراج رات کو اکثر تکلیف سے اٹھ جایا کرتا تھا ۔۔اس کے کھانے پینے پہننے اوڑھنے ۔۔یہاں تک کہ وہ اس بات کا بھی خاص خیال رکھتی کہ سراج تنہائی کا شکار نہ ہو ۔۔۔وہ ڈاکٹروں کے مشورے کے مطابق اور خود بھی نیٹ سے سراج کے لئے طرح طرح کی ورزشیں دیکھتی رہتی اور اس کو كرواتی بھی ۔۔۔
سراج نے تو امید چھوڑ ہی دی تھی مگر وہ سدرہ کے زور دینے پر وہ ورزشیں کرنے پر مجبور ہو جاتا تھا ۔۔۔سدرہ اس کو کھڑا کرتی اور اس کے ہاتھ تھام کر اس کو ایک دو قدم چلاتی اور پھر اپنے ہاتھ پیچھے کر لیتی اس امید پر کہ سراج شاید اپنے پیروں پر چل پڑے مگر وہ ایک قدم رکھتے ہی گر پڑتا ۔۔۔۔پھر بھی سدرہ نے امید نہ چھوڑی تھی وہ اس کو ورزش باقاعدہ طور پر كرواتی تھی اور مسلسل اس کی صحتیابی کے لئے دعا بھی کرتی ۔۔
آج بھی سدرہ اس کو لئے لان میں آئی ہوئی تھی اور وہ دونوں باتوں میں مگن تھے ۔۔۔
سراج ویل چیئر پر تھا ۔۔۔
جب کہ سدرہ ننگے پیر سرسبز گھاس پر چہل قدمی کر رہی تھی ۔۔۔
"یہ دیکھیں یہ دیکھیں سراج ۔۔۔کتنی پیاری تتلی ۔۔۔۔"
سدرہ اس کو ایک تتلی دکھاتے ہوۓ بولی جو اڑتے اڑتے پھولوں پر آبیٹھی تھی ۔۔۔
سراج کو تو اس پل سدرہ بھی کسی رنگین تتلی کی طرح لگ رہی تھی وہ اس کو محبت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔۔اب سدرہ نے وہاں سے ایک گلاب توڑا اور اس کو لئے سراج کے قریب آگئی ۔۔۔
اور وہ گلاب سراج کو پیش کر دیا ۔۔
"یہ آپ کے لئے "
وہ شوخی سے ہنس کر بولی ۔۔۔
تو سراج نے بھی مسکر ا تے ہوۓ اس کے ہاتھ سے وہ پھول لے لیا ۔۔
"اچھا سدرہ بات سنو ۔۔۔"
اچانک ہی سراج بولا جیسے اس کو کچھ یاد آگیا ہو ۔۔
"جی جی جانتی ہوں اس وقت آپ کو اپنے آفس کا کام دیکھنا ہوتا ہے ۔۔۔لے کر آتی ہوں آپ کا لیپ ٹاپ ۔۔۔۔"
یہ بول کر سدرہ لیپ ٹاپ لینے اندر چل دی ۔۔
سراج کے لئے اپنے کاروبار کو دیکھنا اب بہت مشکل ہو گیا تھا مگر اس نے ہمت نہ ہاری تھی وہ کافی کام گھر بیٹھے ہی لیپ ٹاپ کے زریعے سنبهال رہا تھا اور باقی کے کام اس کے کچھ بھروسے مند قابل ورکرز دیکھ لیتے ۔۔۔
***
سراج کے ایکسیڈنٹ کو آج پورے گیارہ ماہ گزر چکے تھے مگر ان گیارہ مہینوں میں سدرہ کے پیار اور توجہ میں ذرا کمی نہ آئی تھی ۔۔۔وہ تو بس اس بات سے ہی خوش تھی کہ سراج اس سے اب ذرا ہنس کر بات کر لیا کرتا تھا ۔۔۔
سدرہ باورچی خانے میں موجود کھانا بنارہی تھی جب وہ کمرے سے آئی تھی تب سراج سو رہا تھا مگر ابھی کچھ دیر پہلے اس کی آنکھ کھل گئی تھی ۔۔
دروازے کی گھنٹی بجی تو کسی ملازم نے دروازہ کھول دیا ۔۔
منیجر اسفند آیا تھا
اس کے تعارف کرانے پر ملازم اس کو اندر لے آیا اور بٹھا دیا ۔۔
پھر اس نے سدرہ کو جا کر اسفند کے آنے کا بتایا اور خود چلا گیا ۔۔
تو سدرہ اپنے ہاتھ دھوتی باورچی خانے سے نکل کر اب وہاں آگئی جدهر اسفند بیٹھا تھا ۔۔۔
"اسلام و علیکم ۔۔۔"
اسفند نے اس کو دیکھتے ہی سلام کیا ۔۔۔
"وعلیکم اسلام ۔۔"
"کیسی ہیں آپ اور سر کیسے ہیں ؟"
وہ ادب سے بولا ۔۔۔مگر وہ جس طرح سے سدرہ کو دیکھ رہا تھا سدرہ کو اچھا نہ لگا تھا ۔۔
"میں ٹھیک ہوں ۔۔اور سراج بھی ٹھیک ہیں ۔۔۔"
وہ بولی ۔۔
"اہ اچھا ہیں کدھر وہ ؟؟ مجھے کام تھا ان سے اور مل بھی لوں گا کافی عرصہ ہو گیا ہے میری ملاقات نہیں ہوئی ان سے ۔۔"
"جی وہ اپنے کمرے میں ہیں سو رہے ہیں کام ضروری ہے تو جگا دوں کیا ؟؟"
سدرہ بولی ۔۔۔
"اہ ہو !!!
نہیں ان کو سوتا ہی رہنے دیں میرے لئے تو یہی اچھا ہے ۔۔۔اور کون کون ہے گھر میں ؟"
وہ عجیب سے انداز سے مسکرا کر بولا ۔۔۔
"جی اور کوئی نہیں ۔۔۔"
واقعی اس وقت وہاں اب اور کوئی نہ تھا ملازمین جا چکے تھے اور جس نے دروازہ کھولا تھا وہ بھی سرونٹ کوارٹر میں موجود اپنے کمرے کو چلا گیا تھا ۔۔۔
سدرہ کو گهبرا ہٹ سی ہونے لگی ۔۔۔
"آپ ابھی چلے جائیں صبح آجانا ۔۔۔"
یہ بولتی سدرہ تیزی سے وہاں سے جانے لگی تو اسفند نے اٹھ کر جلدی سے اس کا ہاتھ تھام لیا ۔۔۔
"یہ کیا بدتمیزی ہے چھوڑیں میرا ہاتھ آپ کی ہمت کیسے ہوئی "
سدرہ غصے سے بولی مگر اسفند نے اس کا ہاتھ نہ چھوڑا بلکہ مزید بے تكلف ہونے لگا جو سدرہ سے برداشت نہ ہوا اور اس نے ایک تھپڑ اسفند کے منہ پر دے مارا ۔۔۔جس پر اسفند غصے میں آگیا تھا تو اس نے بھی پلٹ کر ایک تھپڑ سدرہ کے بھی منہ پر دے مارا جس سے وہ پاس پڑی میز پر جا گری اور میز پر پڑی تمام چیزیں نیچے گر گئیں ۔۔۔
ان کے گرنے کی آواز سراج تک بھی گئی جس پر اسے کھٹکا ہوا ۔۔
اور اسی وقت سدرہ کے چیخنے کی آوازیں بھی سنائی دینے لگی ۔۔۔سدرہ کی چیخ سن کر سراج بے تاب ہو گیا وہ اٹھ کر بیٹھ گیا تھا ۔۔۔
"چھوڑیں ۔۔۔۔۔۔
چھوڑیں مجھے کیا کر رہے ہیں ؟؟۔۔"
سدرہ چیخی ۔۔۔
"ایسے کیسے چھوڑ دوں بڑی مشکل سے تو ہاتھ لگی ہو رانی ۔۔"
اسفند بولا ۔۔
اسفند کی آواز سراج نے پہچان لی اور پھر معاملہ کی حقیقت کو سمجھنے میں اس کو زیادہ دیر نہ لگی ۔۔۔
"اس کا مطلب اسفند آیا ہے اور سدرہ کے ساتھ زبردستی کر رہا "
یہ خیال آتے ہی سراج کا خون کھول اٹھا اس کا دماغ پوری طرح سے گھوم گیا ۔۔۔مگر وہ اٹھ نہیں پا رہا تھا ۔۔اس پل وہ خود کو بہت بے بس محسوس کر رہا تھا ۔۔۔دوسری طرف اس کی بیوی کی عزت تھی اور سراج کچھ نہیں کر پا رہا تھا یہ لمحہ اس کے لئے بہت قربناک تھا ۔۔اس نے بیڈ کا سہارا لیتے ہوۓ اٹھنے کی کوشش کی مگر گر پڑا ۔۔۔۔وہ ایک بار اور اٹھا ۔۔۔۔اور ہمت جمع کرتے ہوۓ ایک قدم بڑھایا ۔۔۔مگر پھر گر پڑا ۔۔سدرہ کی چیخیں مسلسل تھیں ۔۔۔۔
سراج کو اسفند پر حد سے زیادہ طیش آرہی تھی ۔۔۔۔اس کے پیروں میں بہت درد شرو ع ہو گیا تھا ۔۔۔
"کیا میں اتنا بے بس ہوں کہ اپنی محبت کو بچا نہیں پا رہا ۔۔۔۔"
اس نے سوچا ۔۔
"نہیں میں اتنا بے بس نہیں ہو سکتا ..
سراج علی ذولفقار یوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیںں ں ں
بیٹھ سکتا ا اا ا ا ا ۔۔۔۔۔۔"
وہ چیخا ۔۔۔
اور ایک بار پھر اٹھ کھڑا ہوا اور اپنی تکلیف کی پرواہ کئے بغیر لڑ کھڑا تے ہی صحیح مگر قدم بڑھانے لگا اور اس کا جذبہ اس کی معذوری کو آخر مات دے ہی گیا ۔۔۔
وہ بڑی مشکل سے بلآخر وہاں پہنچ ہی گیا جدهر اسفند سدرہ کے ساتھ بدتمیزی کرنے میں مصروف تھا ۔۔
سراج نے اسفند کو اس کی قمیض کے پیچھے سے ہی پکڑ لیا کیوں کہ اس کی پشت سراج کی طرف تھی ۔۔۔
اسفند نے مڑ کر دیکھا تو دنگ رہ گیا اور ساتھ ہی سدرہ بھی ۔۔۔
"س سر سر ا ا آپ ؟؟؟"
وہ بوکھلا گیا ۔۔۔
سراج اس کو بری طرح پیٹنے لگا ۔۔۔وہ آپے سے بلکل باہر ہو گیا تھا ۔۔۔
"سر سوری سر آپ غلط سمجھ رہے ہیں "
اسفند اپنی نوکری بچانے کی کو شش میں لگا تھا ۔۔کہ سدرہ نے سراج کو روکنے کی کوشش کی کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ اگر سراج نہ رکا تو آج ایک اور قتل اس کے ہاتھوں سے ہو جاۓ گا ۔۔۔
"سراج چھوڑ دیں اس کو جانے دیں پلیز !!"
یہ کہتے سدرہ نے سراج کا ہاتھ پکڑا اور اسفند موقع دیکھ کر وہاں سے بھاگ نکلا ۔۔۔۔
اس کے جانے کے بعد سراج زور زور سے چیخنے لگا اس کی آنکھیں اور چہرہ بلکل سرخ ہو رہا تھا ۔۔۔وہ دماغی طور پر صحت مند انسان نہ تھا تب ہی اس کی ایسی حالت ہو گئی تھی ۔۔سدرہ کو سمجھ ہی نہ آرہا تھا کہ وہ کیا کرے
"سراج سنیں ریلكس ۔۔
ادھر دیکھیں میری طرف میری بات سنیں ۔۔۔
کچھ بھی نہیں ہوا پلیز چپ ہو جائیں پلیز ریلیکس ۔۔۔"
سدرہ اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لئے بول رہی تھی ۔۔۔اور اب سدرہ نے اس کو پیار سے گلے لگا لیا ۔۔۔تو وہ بلکل خاموش ہو گیا ۔۔۔
در اصل اس کو پیار ہی کی ضرورت تھی جو اس کو زندگی میں کبھی بھی سچا نہ ملا تھا سدرہ کا پیار محسوس کر وہ خاموش ہو گیا ۔۔اور کچھ دیر تک پانی وغیرہ پینے کے بعد نارمل ہو گیا۔
اب وہ دونوں نیچے فرش پر ہی بیٹھے تھے ۔۔مگر دونوں طرف خاموشی تھی ۔۔
"سراج ؟؟"
سدرہ نے اس خاموشی کو توڑا ۔۔
"ہم "
سرآج بولا
"آپ اپنے پیروں پر چلے ؟؟؟؟؟؟"
کمرے سے حال تک ؟؟؟؟"
سدرہ کی تو خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا وہ چہک کر بولی ۔۔۔
اور اس کی بات پر سراج بھی چونکا ۔۔
"ارے ہاں !!!
میں ۔۔۔
میں اپنے پیروں پر چلا !!!!
سدرہ میں اپنے پیروں پر چلا نہ ؟؟؟؟"
وہ خوشی سے جھوم کر بولا ۔۔
سدرہ کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو بہہ نکلے ۔۔۔
"یہ سب تمہاری وجہ سے ہی ممکن ہوا ہے سدرہ ۔۔۔
تھینک یو سوو مچ ۔۔۔۔۔"
وہ سدرہ کے ہاتھ تھامے جذباتی انداز سے بولا ۔۔
"نہیں سراج ۔۔۔
یہ سب اللّه کا کرم ہے ۔۔۔
میں کہتی تھی نہ کہ وہ ایک دن سب کچھ ٹھیک کر دے گا اور آپ پہلے جیسے ہو جائیں گے ۔۔۔تو بس آج وہ دن آہی گیا دیکھا ۔۔"
"تم نے سچ کہا تھا ۔۔۔
سدرہ آج برسوں بعد میرا نماز پڑھنے کو بہت جی چاہ رہا ہے ۔۔
میں نماز پڑھنا چاہتا ہوں ۔۔"
سراج بولا ۔۔۔
اس کے منہ سے یہ الفاظ سن کر سدرہ کو حد سے زیادہ خوشی ملی تھی ۔۔
"جی ٹھیک ہے سراج آج آپ بیٹھ کر ہی نماز پڑھ لیں ۔۔زیادہ دیر کھڑے رہنا یا چلنا ٹھیک نہیں ہو گا ۔۔
کل ہم ڈاکٹر سے بات کریں گے "
"همم ٹھیک ہے ۔۔"
وہ بولا اور سدرہ اس کو سہارا دیتے ہوۓ وضو کر وانے واش روم تک لے آئی
سراج نے آج پورے تیرہ سال بعد نماز ادا کی تھی وہ سجدے میں نہ جانے کتنی ہی دیر روتا رہا تھا ۔۔۔اس کو آج ایسا سکون ملا تھا جس کا موازنہ دنیا کی کسی دوسری چیز سے نہ ہو سکتا تھا ۔۔۔۔
***
اس واقع کو گزرے کافی دن ہو گئے تھے اور سراج اب مکمل طور پر ٹھیک ہو کر اپنے پیروں پر کھڑا ہو گیا تھا اب تو وہ آفس بھی جانے لگا تھا منیجر کے ساتھ بھی اس نے وہی کیا جو وہ اپنے ہر شکار کے ساتھ کرتا آیا تھا ۔.
سدرہ لان میں بیٹھی پھول پودوں کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہو رہی تھی ۔۔مغرب کی اذان ہونے لگی تھی وہ با وضو ہی تھی اٹھی اور نماز ادا کرنے چل دی جب نماز ادا کر چکی تو کھانا بنانے باورچی خانے چل دی اتنے ملازمین کے ہوتے ہوۓ بھی وہ سراج کے لئے کھانا ہمیشہ خود ہی بناتی تھی ۔۔
اس کو آج اپنی طبیعت کچھ ٹھیک نہ لگ رہی تھی ۔۔۔
کھانا بنانے کے بعد وہ صوفے پر آ بیٹھی اور ٹیوی دیکھنے لگی ۔۔اور اس کو پتہ ہی نہ چلا کہ کب اس کی آنکھ لگ گئی ۔۔۔
اس کی آنکھ کھلی تو اس وقت رات کے سوا گیارہ بج رہے تھے ۔۔۔
"اوہ میں سو گئی تھی اور اتنی دیر ہو گئی ۔۔
ابھی تو سراج بھی آچکے ہوں گے ۔۔۔اور کھانا !!"
سدرہ یہ سب کچھ سوچتے اٹھی اور تیز قدموں سے چلتی بیڈ روم کی طرف بڑھ گئی ۔۔
جب وہ وہاں پہنچی تو ہر طرف مدھم سی روشنی پھیلی ہوئی تھی پورا کمرہ لال گلابوں سے بھرا پڑا تھا ۔۔پورے فرش پر گلاب کی نرم و نازک پتیوں کی موٹی تہہ تھی ۔۔بیڈ بھی اسی طرح پتیوں سے بھرا ہوا تھا ۔۔۔اور کمرے کا کونا کونا گلاب کے گلدستوں سے بھرا تھا ۔۔۔کمرے سے بہت ہی عمده قسم کی خوشبو پھوٹ رہی تھی ۔۔۔
اس سے پہلے کہ سدرہ کچھ سمجھ پاتی سراج نے پیچھے سے اس کے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھ دیئے تو سدرہ نے پلٹ کر دیکھا ۔۔
"اچھا لگا ؟؟؟"
وہ بولا ۔۔
"جی بہہہہت !! یہ سب کچھ آپ نے میرے لئے کیا ۔۔؟"
"ہاں تمہارے لئے کیا کیوں کہ میں تم سے محبت کرنے لگا ہوں سدرہ "
وہ سدرہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے محبت سے بولا
سراج کے منہ سے یہ الفاظ سن کر سدرہ کو پہلے تو یقین ہی نہ ہوا تھا کہ آج اس کو وہ خوشی مل گئی جس کی اسے اتنی چاہت تھی ۔۔۔
اب سراج باقاعدہ اپنا ایک گھٹنا نیچے رکھ کر بیٹھ گیا اور ایک بڑا سا سرخ گلاب سدرہ کو پیش کیا ۔۔۔
"آ ئی لو یو ۔۔۔۔۔۔"
سدرہ خوشی سے اچھل گئی ۔۔۔
"رئیلی سراج ۔۔۔"
"یس "
"ای لو یو ٹو ۔۔۔"
وہ بولی اس کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو بہہ نکلے
پھر سدرہ نے اس کے ہاتھ سے گلاب پکڑا اور دوسرے ہاتھ سے اس کو اٹھا یا ۔۔۔اور اس کے سینے سے لگ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔۔۔کچھ دیر تو سراج نے اس کو رونے دیا مگر پھر اس کو خود سے الگ کرتا اس کے آنسو اپنی ہتھیلی سے پونچھے ۔۔۔
"ششش۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !
پلیز رونا بند کرو پہلے ہی بہت رلا چکا ہوں تمہیں ۔۔۔"
سراج شرمندگی سے بولا ۔۔
"مگر اب تمہیں کبھی کوئی دکھ نہ دوں گا مجھے معاف کر ۔۔۔۔۔۔۔"
سراج کا جملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی سدرہ نے اس کے سرخ ہونٹوں پر اپنا نازک ہاتھ رکھ کر اس کو مزید کچھ کہنے سے روک دیا ۔۔۔"
"بھول جائیں پچھلی باتیں ۔۔۔کیا آج سے ہم نئی زندگی شروع کریں ؟؟؟"
سدرہ بولی ۔۔
تو سراج نے اس کے ہاتھ پر پیار سے بوسہ دیا جو ہاتھ اس نے سراج کے ہونٹوں پر رکھا ہوا تھا ۔۔
اب سراج نے اس کو اپنی بانہوں میں اٹھا یا اور بیڈ تک لے آیا ۔۔
لا کر بہت آرام سے اس کو بیڈ پر بٹھا دیا اور خود اس کے سامنے بیٹھ گیا ۔۔
سدرہ تو خواب کی سی کیفيت میں ہی تھی ۔۔۔
"سدرہ جانتی ہو جب میں نے تمہیں پہلی مرتبہ دیکھا تھا تب ہی تم میرے دل کو چھو گئی تھی سب سے الگ لگی تھی مگر پھر میں نے اپنے جذبات پر قابو پا لیا تھا اور جب تم نے مجھ سے محبت کا دعوہ کیا تو مجھے تم پر بہت غصہ آیا تھا ۔۔۔اور اس کی وجہ یہ تم نہیں سمجھو گی ۔۔"
سراج سدرہ کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے اس سے مخاطب تھا۔۔اور سدرہ بہت دھیان سے اس کی باتیں سن رہی تھی
"مگر میرا دل کہتا تھا کہ تم ایک اچھی لڑکی ہو اور چھوٹی بھی ہو تب ہی تمہیں سمجھانے کی ہر ممکنہ کوشش بھی کی پھر تم نے مجھے اپنی جان کی دھمکی دی تب ہی میں نے ضد میں تم سے شادی کر لی کہ میرا رویہ دیکھے گی تو عقل ٹھکانے آجاۓ گی مگر تمہاری عقل ٹھکانے ہی نہ آئی "
آخری الفاظ بولتے ہوے سراج مسکرا گیا تھا ۔۔۔
"بس پھر وقت کے ساتھ ساتھ تم میرے دل میں گھر کرتی جارہی تھی اور میں مسلسل خود کو روکنے کی کوشش میں لگا تھا ۔۔میں بہت ڈر گیا تھا کسی پر اعتبار نہیں کرنا چاہتا تھا ۔۔مگر پھر ایک دن مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میں ہار گیا اپنے دل کے آگے۔۔۔
اور تمہاری سیرت تمہاری اچھائی جیت گئی ۔۔۔اس دن مجھے تم سے محبت کا احساس ہوا تھا ۔۔۔تم سے پیار کرنا تو میرے بس میں نہ تھا مگر ایک چیز میرے بس میں تھی اور وہ یہ کہ میں تم سے اپنی محبت چھپالیتا اور بس میں نے وہی کیا ۔۔
میں نے ارادہ کر رکھا تھا کہ تم سے محبت کا اظہار کبھی نہ کروں گا ۔۔۔"
تم بھی سوچ رہی ہو گی کہ کیسا بندہ ہے پیار کرنے سے ڈرتا ہے ۔۔۔بتاؤں گا کسی دن تمہیں سب کچھ پر ابھی نہیں یہ لمحہ بہت قیمتی ہے اور صرف تمہارے لئے ہے اس کو میں بے کار لوگوں کو یاد کر کہ ویسٹ نہیں کرنا چا ہتا ۔۔۔"
یہ بولتے ہوۓ سراج نے سدرہ کا ہاتھ چوما تھا
"میں آپ کی زندگی کے بارے میں سب کچھ جان گئی ہوں ۔۔۔مالی بابا نے مجھے سب بتا دیا کہ کیسے لوگوں نے آپ کو اتنا درد دیا ہے "
سدرہ دکھ سے بولی ۔۔۔
"تمہیں سب بتا دیا انکل نے ؟؟؟"
سراج حیران ہوا ۔۔۔
"جی سب ۔۔۔۔مگر ہم اب ان تلخ لمحات کو کبھی یاد نہیں کریں گے ۔۔۔"
وہ مسکرا کر بولی جس کے جواب میں سراج بھی مسکرا گیا ۔۔۔اور اپنا سر سدرہ کی آغوش میں رکھ دیا ۔۔۔ اپنا یت اور محبت بھرا لمس پا کر سراج کی برسوں سے پیاسی روح کو تسکین مل گئی تھی ۔۔۔اور سدرہ نے اس کی پیشانی کو چوم لیا.


 خونی شیطان ( قسط نمبر 9)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں



Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with 
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں