خونی شیطان (قسط نمبر9) آخری

 

خونی شیطان (قسط نمبر9) آخری

اگلے دن سراج اپنے آفس میں بیٹھا کام میں مگن تھا کہ اس کا ایک امپلوی کمرے کا دروازہ کھولتے اس سے اندر آنے کی اجازت طلب کرنے لگا ۔۔تو سراج نے اس کو اجازت دے دی تب اس نے اندر آکر سراج کے سامنے ایک فائل پیش کی ۔۔
"سر کام ہو گیا ۔۔۔"
وہ خوشی سے بولا ۔۔
"گڈ !!"
یہ بولتے سراج نے اس کے ہاتھ سے فائل تھامی اور اس کو کھول کر دیکھنے لگا ۔۔۔
"وٹ ربش !!!!!"
فائل دیکھنے کے بعد وہ غصے سے دهاڑا ۔۔۔
"یہ ۔۔۔۔؟
یہ کارکردگی ہے تمہاری ؟؟؟"
جس پر وہ بندہ کنفیوز سا ہونے لگا
"کیا ہوا سر ؟؟"
"کیا ہوا ؟؟؟؟ یہ بھی میں بتاؤں ؟؟
کام کرنے کے بعد ایک مرتبہ اس کو چیک بھی کر لیا کرو۔۔۔
تم جانتے ہو مجھے کام میں لاپرواہی ذرا پسند نہیں ۔۔۔
جاؤ اور جا کر دیکھو اس فائل کو ۔۔۔"
سراج نے فائل اس کے منہ پر ماری ۔۔
"لاسٹ وارننگ ہے ۔۔۔اس کے بعد نوکری سے جاؤ گے تم ۔۔۔
ناؤ گیٹ اؤٹ فروم ہیر !!"
سراج غصے سے بولا
"سوری سر "
وہ بندہ یہ بولتا شرمندگی سے گردن جھکائے وہاں سے چل دیا ۔۔
سراج اب اپنی آنکھیں بند کئے موونگ چیئر کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا ۔۔کہ اچانک اس کے کمرے کا دروازہ ایک بار پھر کھلا جب سراج نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو وہاں جواد موجود تھا سراج کا موڈ پہلے ہی خراب تھا اور جواد کا چہرہ دیکھ کر تو اور بھی خراب ہونے لگا ۔۔۔
"جواد بنا اس سے کوئی اجازت لئے اندر داخل ہوا اور اب اس کے سامنے پڑی کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھ گیا ۔۔۔
سراج چپ چاپ بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا
اب جواد نے اپنی آنکھوں پر سے چشمہ اتارا ۔۔۔اور بڑے ہی رعب سے سراج کو گھورتا ہوا اپنی مونچھ کو تاؤ دینے لگا ۔۔
"سنا ہے آپ کے منیجر کا پچھلے دنوں بڑی بے رحمی سے قتل ہوا ہے ؟؟"
جواد زومعنی انداز سے بولا ۔۔
"ہاں ہوا ہے تو ؟؟؟
سراج اپنے خمدار ابرو اچکا کر بولا ۔۔۔
"همم بہت ۔۔۔افسوس ہوا مجھے سن کر ۔۔۔"
جواد بولا ۔۔
" کیوں تمہارا بہنوئی لگتا تھا وہ ؟"
سراج اپنی مخصوص یک طرفہ مسکراہٹ دکھاتے بولا ۔۔
"اس کی بات اور ڈھٹائی بھرے انداز پر جواد کو طیش آنے لگی تھی ۔۔۔
"بہت چالاک ہو تم داد دیتا ہوں تمہارے شاطر دماغ کو قتل کرنے کے بعد بڑے اچھے طریقے سے سارے ثبوت مٹاتے ہو ویل ڈن !!"
جواد بولا ۔۔
کیسی باتیں کر رہے ہیں یہ آپ ؟؟"
سراج کمال مکاری سے بولا
"کھیل لو ۔۔
جتنا کھیللنا چاہتے ہو مسٹر ۔۔کیوں کہ تم اب زیادہ دیر آزاد نہیں رہ پاؤ گے ۔۔۔وہ اس لئے کہ اب میں تمہارے ساتھ تمہاری ہی چال کھیلنے والا ہوں سمجھے ؟؟؟"
وہ غصے سے بولا ۔۔۔
جس پر سراج بے زاریت دکھانے لگا ۔۔
"کیا ہو گیا ہے جواد صاحب آپ کو ۔۔۔؟؟
کیوں مجھ جیسے شریف بندے پر شک کر رہے ہیں ؟؟
اور ویسے اگر آپ کا ہو گیا ہو تو میں کام کر لوں اپنا ؟"
در اصل آج جواد اس کی آواز کو ریکارڈ کرنے کی نیت سے یہاں آیا تھا کہ وہ سراج سے ایسے سوال کرے گا کہ جس کہ جواب میں وہ خود اپنے گناہ قبول کررہا ہو گا ۔۔
مگر ایسا بھی نہ ہو سکا اپنا یہ پلین بھی چوپٹ ہوتا دیکھ جواد کے مزاج بگڑنے لگے تھے۔
سراج کو اپنی تیز ترین چھٹی حس کے تحت اس کے ارادے کا شک ہو گیا تھا تب ہی اس نے آج اکیلے میں بھی ایسی کوئی بات نہ کہی تھی کہ جس کی وجہ سے وہ قانون کے ہاتھ آجاتا ۔۔۔
"دیکھ لوں گا تمہیں بہت جلد "
جواد اب کرسی پر سے اٹھا اور سراج کو انگلی دکھاتے بولا ۔۔۔
جس پر سراج ایک بار پھر ڈھٹائی سے مسکرانے لگا ۔۔
جواد تیز قدم اٹھاتا زور سے اس کے کمرے کا دروازہ پٹختا وہاں سے نکل گیا ۔۔۔
***
سراج آج شام سدرہ کے ساتھ فائیو اسٹار ہوٹل میں ڈنر کے لئے آیا تھا ۔۔۔بہار کے دن تھے ہلکی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی ۔۔سدرہ نے سرخ رنگ کی فراک پہن رکھی تھی جس میں وہ بلکل کسی حسین پری کی طرح لگ رہی تھی جب کہ سراج نے کالے رنگ کا تھری پیس سوٹ پہن رکھا تھا اس کی شخصیت مزید سحر انگیز دکھ رہی تھی ۔۔۔
وہ دونوں ایک خوب صورت سی میز پر ایک دوسرے کے روبرو بیٹھے ہوۓ تھے میز کو بہت عمدگی سے سجایا گیا تھا اس کے چاروں طرف خوشبو دار موم بتیياں روشن تھیں جن کو کانچ میں رکھا گیا تھا اور اس کے علاوہ میز کو سجانے میں سرخ گلابوں کی بھی مدد لی گئی تھی ۔۔۔
سراج نے اپنے کوٹ میں سے ایک چھوٹی سی ڈبی نکالی جس پر ایک پیارا سا ربن لگا تھا ۔۔سدرہ پر اشتیاق نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔اب سراج نے اس ڈبی کو کھولا اس میں ایک ہیرے کی نیلے رنگ کی بہت ہی خوب صورت انگوٹھی موجود تھی ۔۔جس کو سراج نے اس ڈبی میں سے نکالا پھر اپنا دوسرا ہاتھ آگے کرتے ہوۓ سدرہ کو ہاتھ بڑھانے کا اشارہ دیا تو سدرہ نے مسکراتے ہوۓ اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دیا ۔۔سراج نے وہ انگوٹھی سدرہ کو پہنا دی ۔۔جو سدرہ کے ہاتھ میں آکر مزید خوب صورت لگنے لگی تھی ۔۔
"واو !! بیوٹی فل ۔۔۔
تھنک یو سراج ۔۔۔۔"
وہ خوشی سے بولی ۔۔جس پر سراج مسکرا گیا ۔.
"جانتے ہیں آج میری زندگی کی سب سے پیاری رات ہے ۔۔
تھینںک یو۔۔
مجھے یہ خوب صورت رات دینے کے لئے "
سدرہ آس پاس کے ماحول پر ایک نظر ڈالتے ہوۓ خوشی سے بولی ۔۔
"تھنکس مجھے مت کہو ۔۔۔
تھنکس ٹو یو مائی لائف ۔۔۔
میری بے رنگ زندگی میں آنے کے لئے اور اس کو اتنا رنگین بنانے کے لئے ۔۔۔"
سراج اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے محبت سے بولا ۔۔۔
"ایک بات کہوں ؟؟؟"
سدرہ بولی ۔۔
"همم ؟؟"
سراج نے اس کو پیار سے دیکھتے ہوۓ اجازت دی ۔۔
"آپ وہ سب کچھ چھوڑ کیوں نہیں دیتے ؟؟"
وہ بولی ۔۔
"کیا سب ؟؟؟"
سراج سمجھ نہ پایا کہ وہ کس چیز کی بات کر رہی ۔۔
"لوگوں کو قتل کرنا اور ۔۔۔۔۔"
کچھ دیر کو خاموش ہونے کے بعد سدرہ ایک بار پھر گویا ہوئی ۔
"اور ان کا گوشت کھانا خون پینا ۔۔۔"
اب وہ سراج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دوٹوک بولی ۔۔۔
"چاہتا ہوں چھوڑنا۔۔۔
سدرہ میں خود یہ سب چھوڑنا چاہتا ہوں بے زار آ چکا ہوں اپنی ایسی جانوروں سے بھی بد تر زندگی سے تنگ آچکا ہوں قانون سے بھاگتے بھاگتے"
سراج بولا اور اس کے چہرے پر تکلیف کے آثار صاف نماياں تھے پھر کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ پھر سے گویا ہوا
"لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ اگر میرا تم ساتھ دوگی تو یہ سب میں چھوڑنے میں کامیاب ہو جاؤں گا ۔۔
ساتھ دو گی نہ میرا ؟؟"
وہ سدرہ کو پر امید نظروں سے دیکھتے بولا
"جی بلکل ۔۔۔
میں آپ کے ساتھ ہوں "
سدرہ گرم جوشی سے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے بولی تو سراج نے بھی اپنا دوسرا ہاتھ اس کے ہاتھ پر نرمی سے رکھ دیا ۔۔۔
اتنی دیر میں ویٹر بھی وہاں آگیا ۔۔
***
سدرہ حسب معمول رات کا کھانا بنانے کے بعد سراج کا انتظار کر رہی تھی کہ اس کو گاڑی کا ہارن سنائی دیا ۔۔اور کچھ دیر میں دروازے کی گھنٹی بجی ۔۔۔
"رضیہ باجی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دروازہ کھول دیں ۔۔۔۔"
سدرہ بولی مگر تھوڑی دیر گزر جانے کے بعد بھی رضیہ نہ آئی تو سدرہ خود ہی اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔
جیسے ہی اس نے دروازہ کھولا تو سامنے اپنی امی کو کھڑا پایا ۔۔۔
"امی ۔۔۔۔!!!!!"
سدرہ خوشی سے جھوم اٹھی اور ناصرہ شمیم کے گلے لگ گئی ۔۔۔
"سدرہ ۔۔!!
میری بچی کیسی ہے تو ؟؟"
وہ بولیں ۔۔۔
سدرہ کی آنکھیں نم ہو چکی تھیں ۔۔۔
"ٹھیک ہوں امی ۔۔۔۔آپ کی بہت یاد آتی تھی ۔۔۔"
سدرہ چھوٹے بچوں کی طرح بولی ۔۔۔
"مجھے بھی بیٹا !! لیکن چل اب رونا بند کر مجھے اندر نہیں بلاے گی ؟؟؟"
وہ مصنوعی ناراضگی سے بولیں ۔۔۔
"کیوں نہیں امی ضرور آئیں نہ ؟؟؟"
سدرہ نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوۓ ان کو راستہ دیا
وہ اندر آگئیں اور اب آنکھیں کھولے سدرہ کا عالیشان محل نما گھر دیکھنے لگیں ۔۔۔
ان کے پیچھے سراج بھی گھر میں داخل ہوا تھا ۔۔۔
سراج کے اندر آتے ہی سدرہ خوشی سے بولی
"تھینککککک ۔۔۔۔یووو ۔۔۔۔"
جس پر سراج بنا کچھ بولے بس مسکرا گیا ۔۔۔
اب وہ تینوں حال میں آبیٹھے تھے ۔۔۔
"سدرہ اب یہ یہیں رہیں گی ہمارے ساتھ ہمیشہ کے لئے "
سراج بولا
"سچ امی "
اس کی بات پر سدرہ خوشی کا اظہار کرتے ہوۓ ناصرہ شمیم کی طرف دیکھ کر بولی ۔۔۔جس کے جواب میں انہوں نے مسکرا کر اثبات میں گردن ہلائی ۔۔۔
"اچھا آپ لوگ باتیں کریں ۔۔۔میں چینج کر کے آتا ہوں ۔۔۔"
یہ بولتا سراج اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔
"امی میں آتی ہوں ۔۔۔"
یہ کہتی سدرہ بھی سراج کے پیچھے کمرے میں آگئی ۔۔۔
سراج نے اپنا کوٹ اتار کر بیڈ پر رکھ دیا تھا اور اپنی شرٹ کے كف کھولنے میں مگن تھا کہ سدرہ نے اس کو پیچھے سے آ کر جھپی ڈال دی ۔۔۔۔
"لو یو ۔۔۔۔"
وہ بولی تو سراج نے بھی مڑ کر اس کے گرد اپنے بازو حمائل کر دیئے۔۔
سدرہ نے اب اپنی گوری بانہیں اس کے گلے میں ڈال دیں اور پہلے اس کا دایاں گال چوما پھر باياں اور پھر اس کی ٹھوڈی ۔۔۔
"آئی رئیلی لو یو نیور وانٹ ٹو لوز یو ۔۔۔"
وہ جذباتی انداز سے بولی تو سراج نے بھی محبت سے اس کی پیشانی چوم لی ۔۔۔
سراج لوز یو ٹو ۔۔۔۔"
کچھ پل تو وہ دونوں یوں ہی ایک دوسرے میں کھوئے رہے مگر پھر سدرہ خود کو اس کے بازوں کے حصار سے چھڑاتے ہوۓ بولی ۔۔۔
"اچھا اب چھوڑیں مجھے کھانا وغیرہ لگانے جانا ہے ۔۔۔آپ بھی چینج کر کے نیچے آجائیں ۔۔۔"
"اور اگر نہ چھوڑوں تو ؟؟؟؟"
وہ شوخی سے بولا ۔۔۔
"سراج ؟؟؟؟؟؟
کیا ہو گیا ہے ۔۔۔
امی اکیلی بیٹھی ہیں "
سدرہ اس کو مصنوعی گھورتے ہوۓ بولی
اس کی اس ادا پر سراج مسکرا گیا اور اپنی گرفت ڈھیلی کر دی اب سدرہ الماری کی طرف بڑھی اور اس میں سے سراج کا ایک سوٹ نکال کر وہاں رکھتی ہوئی باہر چل دی ۔۔۔
***
"تمہیں پودوں سے بہت لگاؤ ہے ؟؟"
سراج نے سدرہ سے سوال کیا جو اس وقت بڑے بڑے گملوں میں لگے پودوں کو پانی دینے میں مشغول تھی ۔۔۔
وہ دونوں سویمینگ پول کے پاس موجود تھے اور سدرہ پودوں کو پانی دینے میں مشغول تھی جب کہ سراج لیپ ٹاپ پر کوئی کام کر رہا تھا اور ساتھ ساتھ گاجر کا جوس بھی پی رہا تھا ۔۔۔سدرہ کی نظر جب سراج کے سامنے پڑے گلاس پر پڑی تو وہ ٹھنک گئی اور دوڑ کر اس کے نزدیک آئی پھر جوس کا گلاس اٹھا کر پھینکنے ہی لگی تھی کہ سراج بول پڑا ۔۔
"ارے ارے یہ کیا کر رہی ہو ؟؟"
"یہ چھوڑیں کہ میں کیا کر رہی یہ بتائیں کہ آپ یہ کیا کر رہے تھے ؟؟"
وہ ناراض ہوتے بولی ۔۔
"کیا مطلب کیا کر رہا ہوں ؟؟؟
جوس پی رہا ہوں ؟؟؟"
وہ کچھ نہ سمجھ آنے کے انداز سے بولا ۔
"جوسسس !!؟؟!!!"
سدرہ آنکھیں سکیڑے بولی ۔۔
"ہاں کیروٹ جوس ۔۔۔!!!"
سراج نے صفائی پیش کی اور پھر سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھنے لگا ۔۔تو سدرہ نے ایک بار بغور گلاس میں موجود مشروب کو دیکھا تو اس کو یقین ہو گیا کہ یہ واقعی جوس ہے
"اہ اچھا ۔۔۔یہ لیں سوری "
وہ اپنے سر پر ایک ہلکی جپت لگاتے ہوۓ بولی ۔۔۔
"اور تمہیں لگا کہ میں ؟؟؟؟"
سراج نے جملہ ادهورا ہی چھوڑ دیا
ارے نہیں مجھے کچھ نہیں لگا ۔۔
سدرہ نے بات بنائی ۔۔۔
"خون کا رنگ اتنا ہلکا نہیں ہوتا اس کا تو الگ ہی رنگ ہوتا ہے
اور ۔۔۔ذائقہ بھی ۔۔۔۔!!!!"
سراج گلاس کو اٹھاتا اپنی نظروں کے بلکل نزدیک کرتے ہوۓ عجیب سے ہی انداز سے بولا تھا
خون کا ذکر آتے ہی سراج کی آنکھیں سرخ ہونے لگی تھیں اور چہرے کا رنگ بدل گیا تھا ۔۔
سدرہ کو اس سے خوف محسوس ہونے لگا ۔۔۔
"اچھا کیا کام کر رہے تھے آپ لیپ ٹاپ پر ؟؟"
وہ گهبرا کر موضوع بدلنے کی کوشش کرنے لگی ۔۔
سراج بھی خود پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگا تھا ۔۔
اب سدرہ نے دوبارہ وہ پائپ اٹھا لیا جس سے وہ تھوڑی دیر پہلے پودوں کو پانی دے رہی تھی ۔۔۔مگر اب اس میں پانی آنا بند ہو گیا تھا ۔۔
"یہ کیا پانی کیوں بند ہو گیا ؟؟"
سدرہ پریشانی سے بولی اور اس نے انجانے میں پائپ کا رخ سراج کی طرف کر دیا ۔۔
اس سے پہلے کہ سراج اس کو بات کا کوئی جواب دیتا پائپ سے ایک دم ہی پانی نکلا جس کا دباو کافی تھا ۔۔۔جو سیدھا سراج کے منہ پر پڑا تھا ۔۔اور سراج پوری طرح بھیگ گیا ۔۔۔
سدرہ نے جلدی سے پائپ کو پول میں ڈال دیا
"اہ آئی ۔۔۔
آئی ایم رئیلی سوری ۔۔۔"
سدرہ اپنی ایک انگلی دانتوں میں دباتے بولی ۔۔
اور جلدی سے سراج کا لیپ ٹاپ وہاں سے اٹھالیا اس نے دیکھا تو پانی لیپ ٹاپ پر نہ گیا تھا ۔۔۔
اس پل سدرہ کو سراج کی حالت پر بہت ہنسی بھی آرہی تھی اور پھر وہ زیادہ دیر اپنی ہنسی کو روک نہ سکی اور زور زور سے ہنسنے لگی ۔۔۔
مگر سراج بلکل سنجیده بیٹھا تھا اور اس کی آنکھیں پھر سے سرخ ہونے لگیں تھیں ۔۔۔
سدرہ نے جب سراج کے تاثر دیکھے تو نہ جانے کیوں خوف کی ایک لہر اس کے جسم میں دوڑ گئی تھی ۔۔۔
اب وہ بھی بلکل خاموش ہو گئی ۔۔۔سراج اس کو عجیب سی نظروں سے دیکھ رہا تھا اس کو یہ ہمیشہ والا سراج نہ لگا ۔۔۔
"ک کیا ہوا سراج ؟؟؟"
وہ خوف سے بولی مگر سراج کچھ نہ بولا وہ شدید غصے میں تھا ۔۔۔
پھر وہ اپنی جگہ سے اٹھا سدرہ کے ہاتھ سے لیپ ٹاپ لیا اور لے جا کر اس کو ذرا دور پڑی میز پر رکھ دیا اب وہ پلٹا اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا پلٹ کر وہ دھیرے دھیرے سے چلتا سدرہ کے نزدیک آنے لگا ۔۔"
"س سراج ک کیا ہوا آ آپ ٹھیک ت تو ہ ہیں نہ ؟؟؟"
سدرہ خوف سے کانپتے بولی مگر سراج بنا کوئی جواب دیئے آگے بڑہتا رہا اور سدرہ کے قدم خود بخود ہی پیچھے کی طرف اٹھنے لگے ۔۔

سراج آگے بڑھتا جا رہا تھا اور سدرہ پیچھے ہوتی جا رہی تھی بلآخر سدرہ ایک چیخ کے ساتھ سویمینگ پول میں گر پڑی ۔۔جس پر سراج نے شوخی سے ایک زور دار قہقہہ لگایا ۔۔۔
پانی اتنا زیادہ نہ تھا سدرہ خود کو بڑی مشکل سے سنبھالتی ہوئی پول میں کھڑی ہو گئی ۔۔۔اور حیرت سے سراج کو دیکھنے لگی ۔۔
"بدلہ پورا ۔۔۔"
سراج بولا اور ایک بار پھر سے ہنسنے لگا ۔۔۔سدرہ اس کو گھورنے لگی ۔۔
اب وہ آگے بڑھ کر سدرہ کو پول سے نکلنے میں مدد دینے لگا ۔۔۔
جیسے ہی سراج نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تو سدرہ نے اس کو اس کے ہاتھ سے کھینچتے ہوۓ پانی میں گرا دیا ۔۔۔
مگر سراج کی ہنسی پھر بھی رکنے کا نام نہ لے رہی تھی ۔۔
"کیا ہے یہ ؟
ہاں !؟"
سدرہ خفگی سے بولی ۔۔۔
"کتنا ڈر گئی تھی میں یہ مذاق اچھا نہیں تھا ۔۔۔اوپر سے ہنس رہے میری حالت پر "
وہ غصے سے رخ پھیرے بولی ۔۔
"واہ ۔۔۔جب آپ ہم پر ہنسیں تو ٹھیک جب ہم ہنسیں تو غلط ؟؟"
سراج مسکراتے ہوۓ بولا
"بات یہ نہیں ہے بات یہ ہے کہ میں کتنا ڈر گئی تھی ۔۔۔کس طرح سے بیہو کیا آپ نے ہاں ؟؟؟
اور میں بتا رہی ہوں اگر اب اپنے اس طرح کی حرکتیں نہ چھوڑیں نہ تو میں چلی جاؤں گی آپ کو چھوڑ کر "
سدرہ روہانسی ہوتی ہوئی بولی ۔۔وہ اس وقت واقعی بہت غصے میں تھی ۔۔
سراج جو تھوڑی دیر پہلے اس کی ناراضگی سے بھی لطف اندوز ہو رہا تھا اس کے منہ سے چھوڑ جانے کا لفظ سن کر یک دم بلکل سنجیدہ ہو گیا ۔۔۔
"نہیں کروں گا ۔۔۔۔کبھی ایسی کوئی حرکت نہیں کروں گا جس کی وجہ سے تم مجھے چھوڑ جاؤ ۔۔۔۔
مجھے معاف کر دو سدرہ ۔۔۔"
سدرہ کو اندازہ نہ تھا کہ وہ اتنا سنجیدہ ہو جاۓ گا ۔
"اچھا کیا معاف "
وہ مسکرا کر بولی تو جیسے سراج کی جان میں جان آگئی ۔۔۔
***
صبح کے آٹھ بج رہے تھے جب سراج کی آنکھ کھلی ۔۔۔وہ اپنی آنکھیں مسلتا اٹھ بیٹھا ۔۔۔
"آٹھ بج گئے اور سدرہ نے مجھے ابھی تک جگایا کیوں نہیں ایسا تو کبھی نہیں ہوتا ۔۔۔"
سراج سوچتے ہوۓ اٹھا اور پیروں میں جوتی ڈالتا اٹھ کر واش روم کی طرف بڑھ گیا ۔۔
اور کچھ ہی دیر میں فریش ہو کر نکل آیا ۔۔۔
حسب معمول وہ تیار ہونے کے بعد اپنی کافی کا انتظار کرنے لگا جو سدرہ روز اس کے لئے لاتی تھی ۔۔
مگر آج اتنی دیر گزر جانے کے باوجود بھی نہ لائی تھی ۔۔۔
سراج کو اس کی چھٹی حس نے کسی خطرے کی علامت دی جس پر سراج بلکل یقین نہ کرنا چاہتا تھا ۔
وہ تیزی سے کمرے سے نکلا اور باورچی خانے کی طرف بڑھا ۔۔
جہاں رضیہ اور ایک دو اور ملازم اپنے اپنے کام میں لگے تھے۔۔سدرہ کو وہاں بھی نہ پا کر سراج کے ٹھنڈے پسینے چھوٹ گئے تھے ۔۔
"سدرہ کدھر ہے ؟؟؟"
اس نے بے چینی سے سوال کیا ۔۔
جس پر رضیہ اور دیگر ملازم بھی اس کی طرف متوجہ ہوۓ تھے ۔۔
"پتہ نہیں صاحب آج کچن میں نہیں آئیں وہ میں سمجھی شاید اپنے کمرے میں سو رہی ہوں گی ۔۔۔کیوں کمرے میں نہیں ہیں میڈم ؟؟؟"
رضیہ بھی فکر مندی سے بولی ۔۔۔
"نہیں نہ !!!!!!
ڈھونڈو اس کو "
وہ چیخا سراج حد سے زیادہ پریشان ہو گیا تھا ۔۔۔جس پر اب گھر کے تمام ملازم اپنے اپنے کام چھوڑ کر سدرہ کو پورے گھر میں تلاش کرنے لگے
ناصرہ شمیم بھی اپنے کمرے سے نکل آئیں تھیں ۔۔۔
"کیا ہوا ہے ؟؟"
انہوں نے فکرمندی سے ایک ملا زم سے سوال کیا ۔۔
"سدرہ میڈم پورے گھر میں نہیں مل رہی ۔۔۔"
"کیا ا ا ا ا ؟؟؟
سدرہ نہیں مل رہی !!!
کدھر گئی میری بچی ۔۔۔"
ناصرہ شمیم کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اب وہ بھی سدرہ کو ڈھونڈنے میں لگ گئی ۔۔۔
سراج تو بلکل پاگل سا ہونے لگا تھا پورا گھر چھان مارنے کے باوجود سدرہ کہیں نہ ملی تھی سراج اب اپنا سر پکڑے صو فے پر بیٹھ گیا ۔۔۔
اور پھر ایک خیال کے آتے ہی اپنا موبائل فون نکالے سدرہ کا نمبر ملانے لگا (سراج نے کچھ دن پہلے سدرہ کو نیا فون دلادیا تھا )مگر فون کے بجنے کی آواز اسی کے کمرے سے آنے لگی ۔۔
"اوہ نو !!!
اس کا سیل فون بھی گھر پر ہے ۔۔۔"
سراج نے بے چینی سے اپنے بال نوچے ۔۔۔
"بیٹا میری بچی کدھر ہے ؟؟؟؟ کہاں چلی گئی ۔۔اس کو لے کر آؤ کہیں سے بھی مگر لے کر آؤ "
ناصرہ شمیم روتے ہوۓ سراج کے سامنے گڑگڑائیں ۔۔۔
سراج ان کی باتوں کا کیا جواب دیتا وہ تو خود نہیں سمجھ پا رہاتھا کہ سدرہ اس وقت کہاں ہو گی اور کس حال میں ہو گی ۔۔۔
"آنٹی آپ پریشان نہ ہوں میں اس کو ضرور لے آؤں گا ۔۔۔"
پھر بھی سراج ان کو تسلی دیتے بولا ۔۔
اور خود کچھ سوچتے ہوۓ سدرہ کا موبائل فون اٹھانے کی غرض سے اپنے کمرے میں آیا ۔۔۔فون بیڈ کے ساتھ پڑی میز پر موجود تھا سراج اس کو اٹھانے کے لئے آگے بڑھا تو اس کو وہاں پر کوئی چٹھی پڑی ملی ۔۔۔
جس کو سراج نے ایک پل کی بھی دیر کئے بنا اٹھا لیا
اور کھول کر پڑھنے لگا ۔۔۔
جس میں لکھا تھا کہ :
"سراج ۔۔۔۔میں سدرہ
میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں تب ہی چاہتی ہوں کہ جلد سے جلد آپ کی برائی سے جان چھوٹ جاۓ میں جانتی ہوں جو راستہ میں چن رہی ہوں وہ غلط ہے ۔۔۔
غلط ہے اپنا گھر چھوڑ کر چلے جانا مگر اس کے پیچھے بھی میرا کوئی اچھا مقصد ہے ۔۔۔
اب میں گھر تب ہی واپس آؤں گی جب آپ خود کو پولیس کے حوالے کر دیں گے ۔۔۔اور میں جانتی ہوں کہ میں آپ کو کچھ نہیں ہونے دوں گی کچھ بھی نہیں ۔۔۔۔ اگر کبھی میرا چہرہ دیکھنا چاہتے ہیں تو آگے بڑھیں اور خود کو پولیس کے حوالے کر دیں اگر نہیں تو مجھے بھول جائیں ۔۔ای لو یو سراج مجھ پر یقین ہے نہ ؟؟؟
آپ کی سدرہ "
یہ پڑھتے ہی سراج کو ایک زور دار چکر آیا ۔۔۔
اور شدید غصہ بھی اس نے وہاں موجود میز کو اٹھا کر زور سے سامنے لگی کانچ کی كهڑکی میں دے مارا جس سے وہ چکنہ چور ہو گئی
اب وہ دیوار کا سہارا لیتے ہوۓ بیٹھ گیا ۔۔۔
اس پل اس کو اپنی قسمت پر بہت رونا آیا ۔۔۔
اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ۔۔۔
"مجھ سے آج تک ہر کوئی ہی اپنے پیار کی ایک بھاری قیمت وصول کرتا آیا ہے اور آج ۔!!!!
آج تو تم نے بھی وہی کیا سدرہ ۔۔۔"
وہ خود سے ہی مخاطب تھا ۔۔
"کیوں کیا ایسا ؟؟
تم تو ایسی نہ تھی ان بے حس لوگوں میں شامل نہ تھی ؟؟ اور رہی بات میرے ٹھیک ہونے کی تو میں ٹھیک تو ہونا چاہتا تھا پھر کیوں ایسے امتحان میں ڈال دیا مجھے ایک تم ہی تو سمجھتی تھی مجھے کہ میں جو کچھ بھی کرتا ہوں جان بوجھ کر نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
سراج کے الفاظ اس کے گلے میں ہی اٹک گئے ۔۔۔
روتے روتے اس کی ہچکی بندھ گئی ۔۔۔
وہ کافی دیر یوں ہی اپنی قسمت کا سوگ مناتا رہا اور پھر کافی سوچنے کے بعد بل آخر ایک نتیجہ پر پہنچ ہی گیا ۔۔
"ٹھیک ہے سدرہ ۔۔۔جیسا تم چاہتی ہو ویسا ہی ہو گا ۔۔۔
میں نہیں جانتا کہ تم میں اتنی ہمت کہاں سے آگئی کہ مجھے پھانسی سے لٹکتا دیکھ سکو لیکن اگر تم فیصلہ کر ہی چکی ہو اور ۔۔۔۔
اور میرے گھر اور مجھے یوں اکیلا چھوڑ کر جا چکی ہو تو مجھے قبول ہے تمہاری شرط ۔۔۔
کیوں کہ اگر تم ہی میری زندگی میں نہ رہی تو پھر یہ زندگی بھی کس کام کی ۔۔۔"
سراج روتے ہوۓ خود سے ہی باتیں کئے جا رہا تھا آج وہ ایک بار پھر ویسا محسوس کر رہا تھا جیسا اس دن محسوس کیا تھا اس نے جب شاہینہ نے اپنا اصل روپ اس کو دکھایا تھا ۔۔۔وہ ایک بار پھر بری طرح سے ٹوٹ گیا ۔۔۔اور اب تو اس میں دوبارہ سنبهلنے کی ذرا بھی ہمت باقی نہ تھی وہ سدرہ کو خود سے زیادہ چاہنے لگا تھا ۔۔۔۔تب ہی تو اس کو دوبارہ اپنے سامنے دیکھنے کی خاطر اپنی جان داؤ پر لگانے کو راضی ہو گیا
اسی اثنا میں سدرہ کی امی بھی کمرے میں داخل ہوئی مگر سراج نے بڑی پھرتی سے وہ کاغذ اور اپنے آنسو دونوں ہی ان سے چھپا لئے تھے ۔۔
"کیا ہوا بیٹا ؟؟؟ اس کے فون سے کچھ پتہ لگا اس کا ؟؟"
وہ روتے ہوۓ سراج سے بولیں ۔۔۔
"آپ فکر نہ کریں آنٹی بہت جلد سدرہ واپس آجائے گی ان شااللّه ۔۔"
وہ پر عزم انداز میں بولا
اور اپنا فون اٹھاۓ کمرے سے باہر نکل گیا ۔۔۔
اس نے کال کر کے آج شام کی فلائٹ میں ہی امریکہ جانے کے لئے سیٹ بک کرا لی تھی ۔۔۔
وہ آخری بار اپنے بیٹے سے ملنا چاہتا تھا
***
سراج پورے چھ دن اپنے بیٹے کے ساتھ رہا اور ساری زندگی کو اس نے ان چھ دنوں میں ہی جینے کی پوری کوشش کی تھی ۔۔
آج اس کی واپسی تھی اور اپنے بیٹے سے آخری بار ملاقات بے شک یہ ایک مشکل ترین وقت تھا ۔۔۔سراج اس کا ہاتھ پکڑے ذرا دور کھڑی گاڑی کی طرف بڑھا
Are you going Dad so soon
(آپ جا رہے ہیں ڈیڈ ؟؟ اتنی جلدی ؟؟)
رہبر افسردگی سے بولا ۔۔۔
اب سراج مسکراتے ہوۓ گھٹنوں کے بل اس کے برابر بیٹھ گیا ۔۔۔
Don't be sad my prince
My Rehbar is so strong!
(اداس نہیں ہوتے میرے شہزادے میرا رہبر تو سٹرونگ ہے نہ بہت )
سراج بڑے مشکل سے خود کے آنسوں پر قابو رکھے ہوۓ تھا کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ اگر آج وہ رو دے گا تو رہبر عمر بھر کے لئے کمزور پڑ جاۓ گا ۔۔۔
Promise me today never be sad
(آج مجھ سے ایک وعدہ کرو کہ کچھ بھی کیوں نہ ہو جاۓ تم اداس نہیں ہو گے )
سراج نے اس سے وعدہ لینے کی خاطر ہاتھ آ گے بڑھا یا تھا ۔۔۔جس پر رہبر نے بھی اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھتے ہوۓ اس سے وعدہ کیا تھا
Good make another promise to me no matter how difficult life is you will always choose the positivity..
(گڈ ایک وعدہ اور کرو ۔۔زندگی کتنی بھی مشکل کیوں نہ ہو جاۓ غلط راستہ کبھی نہیں چنو گے وعدہ ؟؟؟)
Promise..
(وعدہ )
رہبر نے اس سے ایک اور وعدہ نبهانے کی حامی بھر لی ۔۔
اب سراج نے بے ساختہ اس کو گلے سے لگا لیا ۔۔۔اور یہ بات وہی جانتا تھا کہ اس پل وہ اپنے آنسو کیسے پی رہا تھا شاید پتھر کا ہو چکا تھا وہ ۔۔۔
کافی دیر بعد بہت ہمت جوڑتے ہوۓ اس نے رہبر کو خود سے الگ کیا اور اس کے پورے چہرے پر بے تحاشہ بوسے دے ڈالے ۔۔۔اور جانے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا ۔۔
سراج کے پیروں سے اس وقت جیسے جان ہی نکل گئی تھی مگر اس کو جانا تھا کیوں کہ وہ جان چکا تھا کہ جس برائی کے راستے پر وہ زندگی بھر چلتا آیا ہے اس کی منزل آخر کار یہی تھی ۔۔۔
اب اس نے رہبر کو گود میں لیا اور گاڑی میں بٹھاتا اس کی ماں کے گھر کی طرف چل دیا کچھ ہی دیر میں وہ سونیا کے گھر کے سامنے تھا ۔۔
(ٹھیک ہے پھر میں جاؤں ڈیڈ ؟)
رہبر معصومیت سے بولا مگر سراج کے لئے اس کی بات کا جواب دینا بہت مشکل تھا وہ جی بھر کر اپنے جگر کے ٹکڑے کو دیکھ لینا چاہتا تھا ۔۔۔وہ بنا کوئی جواب دیے کافی دیر رہبر کو یوں ہی تکتا رہا ۔۔۔پھر اس کی پیشانی کو چومتے ہوۓ اس نے رہبر کو جانے کی اجازت دے دی ۔۔۔
رہبر گاڑی سے اتر کر اب دوسری طرف آگیا اور سراج کی طرف کا دروازہ کھولنے لگا جو اس سے نہ کھل پا رہا تھا مگر سراج نے کھول دیا تھا
Hug me once before you go Dad
(جانے سے پہلے ایک بار گلے لگالیں ڈیڈ )
وہ سراج کی طرف دیکھ کر اپنے بازو پھیلائے بولا
ایک پل کو تو سراج چونک گیا اس کو ایسے لگا جیسے رہبر جان گیا ہو کہ اس بار جب سراج جاۓ گا تو وہ پھر کبھی واپس نہ آئے گا ۔۔۔۔
مگر پھر اگلے ہی لمحے سراج کو اپنی بے وقوفی پر حیرت بھی ہوئی ۔۔وہ یہ خیال جھٹکتا گاڑی سے اترا اور رہبر کو اپنے سینے سے لگا لیا رہبر نے بھی پیار سے اس کو گلے لگا یا تھا ۔۔۔سونیا دور کھڑی یہ منظردیکھ رہی تھی ۔۔اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے سراج کو دیکھنے کے بعد اس کو وہ سارے پل یاد آگئے تھے جو اس نے اور سراج نے پیار سے ساتھ گزارے تھے ان دونوں کو گلے لگا دیکھ سونیا کو وہ وقت یاد آ گیا جب رہبر اس دنیا میں آنے والا تھا اور سراج اس بات کو لے کر بہت خوش تھا اور سونیا کو ایک قدم بھی زمین پر نہ رکھنے دیتا تھا ۔۔زندگی بہت پر سکون تھی مگر پھر ایک ایسا طوفان آیا جو سراج کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سونیا سے چھین کر لے گیا ۔۔۔آج بھی سراج اس سے کتنا دور کھڑا تھا یہ سب سوچتے ہی سونیا اپنا ایک ہاتھ منہ پر رکھے رونے لگی
اس نے سراج سے طلاق کے بعد دوبارہ اپنا گھر نہ بسا یا تھا سراج کے لئے اب بھی اس کے دل میں جگہ تھی وہ واقعی محبت سراج سے ہی کرتی تھی مگر اس سے ایک بہت بڑی غلطی ہو گئی تھی۔۔۔
آج نہ جانے کیوں اس کا دل شدت سے چاہا کہ وہ آگے بڑھے اور اپنے اس گناہ کی معافی سراج سے مانگ لے ۔۔تاکہ وہ سکون سے اپنی باقی کی زندگی گزار سکے ۔۔۔وہ یہ جانتی تھی کہ سراج اس کو دوبارہ کبھی اپنی زندگی میں شامل نہ کرے گا مگر بس آج اس کا دل بار بار اس کو اکسا رہا تھا کہ یہی موقع ہے معافی مانگ نے کا پھر شاید جیسے اس کی آنکھ سراج کو کبھی دیکھ نہ پاۓ گی
اس کا یہی جذبہ اس کو سراج کے پاس لے آیا ۔۔۔۔
وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی اس کے قریب آکھڑی ہوئی
"س سراج ؟؟"
وہ ہمت جمع کرتی گلو گیر آواز سے بولی
سونیا کی آواز پر سراج نے چونک کر اس کی طرف دیکھا ۔۔
"ہاں "
سراج اٹھ کھڑا ہوا اور بولا ۔۔۔
ایک مدت بعد وہ دونوں ہم کلام ہوۓ تھے
سونیا سمجھ ہی نہ پا رہی تھی کہ وہ بات کہاں سے شرو ع کرے ۔۔۔بل آخر وہ اپنے الفاظ کو ترتیب دیتے ہوۓ گویا ہوئی ۔۔
"میں جانتی ہوں سراج کہ جو غلطی جو گناہ میرے سے ہوا تھا وہ نہ قابل تلافی ہے ۔۔مگر پھر بھی ایک دفعہ اور آج اپنے اس گناہ کی آپ سے معافی مانگتی ہوں ۔۔کسی کا دل دکھانا بہت بڑا گناہ ہے یہ بات میں بہت اچھے سے سمجھ گئی ہوں جس کی سزا اللّه بہت بڑی دیتا ہے ۔۔۔میں یہ سب کچھ آپ کی زندگی میں دوبارہ جگہ پانے کے لئے نہیں کر رہی ۔۔۔مگر اس دل پر بڑا بوجھ ہے ۔۔۔۔جو راتوں کو سونے نہیں دیتا ۔۔۔شاید آپ کی دی گئی معافی سے وہ بوجھ ذرا ہلکا ہو جاۓ ۔۔۔"
سونیا روتے ہوۓ سراج کے سامنے ہاتھ جوڑے بولی ۔۔۔
سراج بڑے دھیان سے اس کی بات سن رہا تھا ۔۔۔
جب وہ بول چکی تو سراج نے اس کے جڑے ہاتھوں پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوۓ نرمی سے اس کو ایسا کرنے سے روکا ۔۔۔
"معاف کیا "
وہ بولا تو سدرہ نے حیرت سے نظر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا جیسے اس کو اپنے کانوں پر یقین نہ ہوا ہو ۔۔۔
"آپ نے مجھے معاف کر دیا "
"ہاں معاف کر دیا غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے ۔۔۔
سونیا ۔۔
شاید میں تمہیں اس وقت ہی معاف کر دیتا جب کچھ نہ بگڑ ا تھا اگر میں پہلے سے ہی زندگی میں اتنی ٹھوکریں نہ کھا چکا ہوتا ۔۔۔۔آخر تو تم میرے بیٹے کی ماں تھی ۔۔۔مگر میں تمہیں معاف نہیں کر سکا تھا تب وہ میرے بس میں نہ تھا مگر ہاں آج مجھ میں اتنی ہمت ہے کہ میں تمہیں معاف کر سکوں ۔۔سو کر دیا ۔۔۔۔"
وہ بولا اور دونوں طرف ایک قرب ناک خاموشی چھاگئی
سونیا کا جی چاہنے لگا کے آج سراج اس کو چھوڑ کر نہ جاۓ بلکہ ہمیشہ کے لئے دوبارہ اپنا لے اب کوئی غلطی نہ کروں گی ۔۔۔
وہ سوچ رہی تھی کہ سراج نے خاموشی کے تسلسل کو توڑا
"میرے بیٹے کا بہت دھیان رکھنا ۔۔اس کو اچھائی برائی کا فرق واضح طور پر سمجھانا اور کبھی میری کمی محسوس نہ ہونے دینا رہبر بہت حساس ہے "
یہ بولتا سراج سونیا سے نظریں چرا ئے رہبر کے بالوں میں ہاتھ پھیرتا اور ایک بار اور اس کو گلے لگا کر اب تیزی سے جانے کو پلٹا ۔۔۔۔اور گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کر دی ۔۔۔
***
سراج اپنے کمرے کے بیڈ پر آنکھیں بند کئے لیٹا تھا نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔۔اس کی نظروں کے سامنے اس کی گزری ساری زندگی گهومنے لگی تھی وہ سارے لمحے اس کو یاد آنے لگے تھے ۔۔اس کو اپنی ماں کی بہت یاد آئی یعنی کے شاہینہ کی جو بھی تھا بچپن سے جوانی تک سراج کے لئے وہی اس کی ماں تھی جو پہلے تو ایک ممتا کی مورت تھی مگر وقت نے اس سے اس کی حد سےزیادہ محبت کرنے والی ماں چھین لی تھی ۔۔۔وو جانتا تھا کہ شاہینہ کی حقیقت کیا تھی مگر وہ آج تک اپنی اس ماں کو کبھی بھلا نہیں پایا تھا جس نے ہمیشہ اس کو محبت دی تھی ۔۔۔پھر اس کو اپنے بابا کے ساتھ گزارے پل یاد آنے لگے اور یہ بھی کہ جب اس کے بابا کا جنازہ گھر آیا تھا بس اسی دن کے بعد سے زندگی تلخ ہو گئی تھی پھر اپنا بھائی جسے وہ جان سے بڑھ کر چاہتا تھا اور ہمیشہ جس کی خوشی پر اپنی خوشی قر بان کرتا آیا تھا سوچا بھی نہ تھا ایک دن اسی لاڈلے بھائی کو اپنے ہاتھوں سے گلا دبا کر ماروں گا ۔۔
پھر وہ پل جب اس کو پہلا پیار ہوا تھا کتنا معصوم تھا تب وہ اور اس کا پیار بھی اس وقت بھی اس نے ایسا سوچا نہ تھا کہ جس لڑکی پر وہ ذرا سی آنچ بھی برداشت نہ کر سکتا تھا اس کو خود ہی اپنے ہاتھوں سے اس بری طرح مارے گا۔۔اور زندگی کے سب گزرے پلوں میں سے سراج کے لئے وہی پل سب سے انمول تھے جو اس نے سدرہ کے ساتھ اس کی وفا کے سہارے بتا ئے تھے اس کو سدرہ کی شدت سے یاد آنے لگی ۔۔۔اس نے خود کو کل پولیس کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اپنی جائیداد کے متعلق تمام قانونی کاروائی وغیرہ بھی آج ہی مکمل کرا لی تھی کہ اس کے بعد اس کی جائیداد سدرہ اور رہبر کی ہو گی ۔۔
اب وہ اپنے بستر پر سے اٹھ گیا ۔۔یہ خیال ہی اس کو تڑپا رہا تھا کہ جیسے وہ سدرہ کے ساتھ اس گھر میں ہنسی خوشی پیار بھری زندگی بتا رہا تھا وہ پل محدود تھے اور اب ان کی مدت پوری ہو چکی تھی ۔۔۔
مگر یہی حقیقت تھی تب ہی وہ اٹھا اور اس کمرے کے کونے کونے میں موجود سدرہ کے وجود اور اس کی وفا کی خوشبو کو اپنی سانسوں میں اتارنے کی کوشش کرنے لگا ۔۔۔صرف کمرہ ہی نہیں سدرہ کی مہک تو اس کے پورے گھر میں رچ بس گئی تھی ۔۔۔
"جب سے تم گئی ہو گھر بہت سونا ہے "
سراج خیالوں میں ہی سدرہ سے مخاطب تھا ۔۔۔
سنگهار میز پر سجی سدرہ کی رنگین چوڑیوں پر سراج نے ہاتھ پھیرا تو اس کو سدرہ کا لمس محسوس ہوا جس پر اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے
"اب میں کبھی تمہاری بانہوں میں تمہاری آغوش میں لیٹ کر وہ سکون حاصل نہیں کر سکوں گا "
سراج باقاعدہ رو پڑا ۔۔۔
"ایسا کیوں کیا سدرہ ؟؟؟ کیا تم میرے بغیر رہ لو گی ؟؟
شاید رہ لو گی مگر میں ایک پل نہیں رہ پا رہا ہوں ۔۔۔۔"
سراج سدرہ سے بیحد محبت کرنے لگا تھا جو جذبات اس کے دل میں سدرہ کو لے کر جاگے تھے وہ کبھی بھی حرا یا پھر سونیا کے لئے پیدا ہوۓ ہی نہ تھے ۔۔۔
اب سراج سنگهار میز کے سامنے سے اٹھا اور الماری کی طرف بڑھا الماری سے سدرہ کا ایک دوپٹہ نکال لایا اور اسی کے سہارے لیٹ کر یہ مشکل رات گزارنے کی کوشش کرنے لگا آنسو اس کی آنکھوں سے مسلسل جاری تھے
***
آج عدالت میں سراج کی پیشی تھی ۔۔مقدمہ شروع ہونے سے پہلے پولیس سراج کو بڑی بڑی بیڑیوں میں جکڑ کر لے کر آئی تھی ۔۔کچھ تو اس کے آدم خور ہونے کے خیال سے ہی خوف زدہ تھے اور کچھ نے تو اس کو بڑی مضبوطی اور احتیاط سے پکڑ رکھا تھا جیسے وہ کوئی انسان نہیں بلکہ جنگلی جانور ہو ۔۔
مگر سراج کو کسی بات سے کوئی مطلب نہ تھا ۔۔
مقدمہ شرو ع ہوا تو جج کو یہ جان کر حیرت ہوئی تھی کہ سراج نے اپنے حق میں کوئی وكیل نہ کیا تھا اور وہ بڑی آسانی سے بھری عدالت میں کسی بے جان پتھر کی مورت کی طرح کھڑا اپنے سارے جرائم قبول کرتا گیا اس کی آنکھیں بلکل سرخ تھیں اور ان میں آنسو تیر رہے تھے ۔۔۔
جواد آج بے حد خوش تھا اور اس کا پورا محکمہ اس پر فخر محسوس کر رہا تھا ۔۔۔
تمام گواہوں اور ثبوتوں کی مد نظر رکھتے ہوے بل آخر جج نے سراج کے خلاف فیصلہ سنا دیا ۔۔۔جس کے مطابق اس کو ٹھیک ایک ہفتے بعد بروز جمعہ سورج نکلنے سے پہلے سزاے موت دی جانی تھی ۔۔
جج نے اپنا قلم توڑ ڈالا تو سراج نے اس پل اپنی آنکھیں موند لیں اس کی نظروں کے سامنے اس وقت صرف اور صرف اپنی ماں شاہینہ کا چہرہ گھومنے لگا تھا ۔۔۔
عدالت کا وقت ختم ہو چکا تھا پولیس اہلکار بیڑیوں میں جکڑے سراج کو پکڑ کر جیل کی طرف لے جانے لگے ۔۔۔
سراج چپ چاپ بنا کوئی تاثر دیے ان کے ساتھ چل رہا تھا کہ اچانک جواد اس کے راستے میں آیا ۔۔۔
اور ایک انداز سے اس کے سامنے کھڑے ہوتے ہوۓ اس نے اپنا چشمہ اتارا ۔۔۔
"اہم اہم ۔۔۔۔"
وہ مصنوعی کھانسی کھانستے ہوۓ سراج کو طنزیہ مخا طب کر رہا تھا ۔۔۔
"سو مسٹر سراج علی ۔۔۔۔
آخر کار آج آپ کو اے ۔سی ۔پی جواد نے پھانسی تک پہنچا ہی دیا ۔۔۔۔"
سراج نے اس کی بات پر بھی کوئی تاثر نہ دیا ۔۔۔
جواد وہاں کھڑا نہ جانے کتنی ہی دیر اس پر طنز کے تیر برسا تا رہا تھا اور پھر ایک طرف ہو کر ان کو جانے کا راستہ دے دیا ۔۔۔

جواد کمرے میں داخل ہوا جدهر سدرہ پہلے سے ہی موجود تھی ۔۔جواد کو دیکھتے ہی سدرہ اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔
"کیوں بند کر رکھا ہے مجھے آپ نے یہاں پلیز مجھے جانے دیں سراج اور امی بہت پریشان ہوں گے پلیز !"
سدرہ جواد کے سامنے گڑگڑائی ۔۔۔
"چلیں جی مان لیتے ہیں آپ کی بات ۔۔۔اب آپ جا سکتی ہیں ۔۔"
وہ مسکرا کر بولا ۔۔۔
جواد نے سراج کو پکڑنے کی خاطر یہ جال بچھایا تھا ۔۔سدرہ کو اس کے گھر سے اٹھوا کر وہ چٹھی وہاں خود ہی چھوڑ آیا تھا ۔۔۔سدرہ کو اس بارے میں کوئی خبر تک نہ تھی وہ تو دس دن سے ایک کمرے میں قید تھی اور پولیس کی حفاظت میں تھی اس پر کسی قسم کی کوئی سختی نہ ہو اس بات کا خاص خیال جواد نے رکھا تھا ۔۔
کمرہ بھی پر آسائش تھا اور کھانے پینے وغیرہ کی بھی تمام سہولتیں اس کو مہيا کی گئی تھیں ۔۔۔مگر پھر بھی سدرہ نے یہ دن بہت بے چینی سے گزارے تھے اس کو ہر پل سراج کی یاد آئی تھی ۔۔۔
"کیا ؟؟؟
میں جا سکتی ہوں ؟؟"
سدرہ نے حیرت سے جواد سے سوال کیا ۔۔۔
"جی "
جس کا جواد نے مختصر ہی جواب دیا ۔۔۔اور اس کے بعد اپنے موبائل فون سے کسی کو کال ملاتا ہوا باہر کی طرف چل دیا ۔۔۔
اور دو منٹ کے بعد اندر آیا تھا ۔۔۔
"ویسے آپ نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا ؟؟؟"
سدرہ بولی ۔۔۔
"میڈم آپ ایک اچھی لڑکی ہیں میری نظر میں آپ کی بہت عزت ہے مگر ہم پولیس والوں کو کبھی کبھی حق کی منزل تک پہنچنے کے لئے بعض اوقات غلط راستہ بھی اختیار کرنا پڑ جاتا ہے ۔۔میرا ذاتی مقصد آپ کو تکلیف دینا نہ تھا ۔۔۔اس لئے میں آپ سے بہت معذرت خواہ ہوں ۔۔۔"
جواد ادب سے بولا مگر سدرہ کو اس کی بات سمجھ نہ آئی تھی ۔۔
"آئیں ۔۔۔۔"
جواد ایک بار پھر اس سے مخاطب ہوا تھا ۔۔۔
یہ کہتا وہ کمرے سے پھر نکل گیا اور سدرہ بھی اس کے پیچھے پیچھے چل دی ۔۔
وہ دونوں اب کمرے سے باہر آچکے تھے سامنے ایک پولیس موبائل کھڑی تھی جواد نے سدرہ کو اس میں بیٹھنے کو کہا تو وہ بھی چپ چاپ بنا کوئی سوال کئے گاڑی میں بیٹھ گئی تھی ۔۔
***
پولیس نے سدرہ کو بحفاظت اس کے گھر کر سامنے اتار دیا تھا ۔۔سدرہ تیزی سے گھر کی جانب بڑھی ۔۔۔
جب وہ گھر میں داخل ہوئی تو اس وقت گھر میں صرف ملازمین ہی موجود تھے جو سدرہ کو دیکھ کر بہت خوش ہوۓ تھے
سدرہ بھاگ کر اپنی خواب گاہ میں آئی سراج کو نہ پا کر دوبارہ باہر آ گئی اور رضیہ کے پاس گئی
"باجی سراج کہاں آفس میں ہیں ؟؟"
سدرہ کی بات پر رضیہ نے پہلے تو چونک کر اس کی طرف دیکھا پھر رنج سے گردن جھکا گئی ۔۔
"نہیں میڈم "
وہ اس سے زیادہ کچھ بولنے کی ہمت نہ کر پا رہی تھی ۔۔
"تو پھر کہاں ہے ؟؟؟ ان کو بتاؤ میں آ گئی ہوں وہ بہت پریشان ہوں گے اور ۔۔۔
اور امی کہاں ہیں ؟؟"
سدرہ سب کچھ ایک ہی سانس میں بولتی گئی ۔
"جی وہ تو اپنے گھر چلی گئیں ۔۔۔"
"مگر کیوں ؟؟؟؟"
سدرہ اضطراب کی سی کیفيت میں بولی ۔۔۔
"پتہ نہیں "
رضیہ باجی سدرہ سے نظریں چراتے بولیں ۔۔۔
سدرہ اب دوڑ کر اپنے کمرے میں آ گی اور الماری سے عبایہ نکال کر پہنا پھر ڈرائیور کے ساتھ اپنے پرانے گھر کی طرف چل دی ۔۔۔
***
سدرہ کو اپنی آنکھوں کے سامنے پا کر ناصرہ شمیم خوشی سے جھوم گئیں تھیں اور سدرہ کو گلے لگا کر کافی دیر روتی رہی تھیں ۔۔۔
امی آپ یہاں کیوں آگئیں اور سراج کہاں ہیں؟؟؟پلیز مجھے بتائیں ۔۔۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ؟؟"
سدرہ اپنی امی کے سامنے بیٹھی بولی ۔۔
"نام بھی نہ لینا اس وحشی کا دوبارہ ۔۔ سدرہ جانتی ہو جس انسان سے تم نے شادی کی اور اتنا عرصہ اس کے ساتھ رہی وہ ایک آدم خور ہے ۔۔۔
اتنے لوگوں کو جان سے مار چکا ہے "
سدرہ کی امی بولیں ۔۔
"آپ کو یہ سب کیسے پتہ ؟؟"
"مجھے مطلب ؟؟
کیا تو یہ سب جانتی تھی سدرہ ؟؟"
ناصرہ شمیم نے حیرت سے آنکھیں پھاڑے سدرہ کی طرف دیکھتے ہوۓ سوال کیا ۔۔۔
جس پر سدرہ گردن جھکا گئی ۔۔
"کیا !!!!
پھر بھی تو اس جنگلی کے ساتھ رہتی رہی ۔۔۔کہیں ۔۔
کہیں تجھ کو بھی تو نہیں لگا دیا اس نے انسان کو مار مار کر کھانے پر ؟؟"
"امی کیا ہو گیا ہے آپ کو یہ وقت ان سب باتوں کا نہیں ہے ۔۔۔میرے سراج کہاں ہیں مجھے کوئی بتا دے "
سدرہ نے روتے ہوۓ اپنی والدہ کے سامنے ہاتھ جوڑے ۔۔۔
"اور کہاں ہو گا جیل میں ہے اگلے ہفتے اس کو پھانسی دے دی جائے گی ۔۔"
ناصرہ شمیم نفرت سے منہ پھیرے بولیں جب کہ پھانسی کا لفظ سنتے ہی سدرہ بری طرح سے ہل کر رہ گئی ۔۔
"ک ک کیا ؟؟!
پھ پھانسی ؟؟؟؟؟
یہ ی کیا کہہ رہی ہیں امی ؟؟"
ٹھیک کہہ رہی ہوں ۔۔اچھا ہوا اس جلاد سے ٹھیک وقت پر میری بچی کی جان چھوٹ گئی ۔۔۔میں تو کہتی ہوں اس بے غیرت کو پھانسی سے بھی بڑھ کر سزا ہونی چاہ۔۔۔۔۔"
"بس امی "
ناصرہ شمیم کا جملہ ابھی بیچ میں ہی تھا کہ سدرہ نے اپنی والدہ کو مزید کچھ کہنے سے روکا
"پلیز سراج کے بارے میں اب اور کچھ مت بولیے گا "
سدرہ دکھ سے بولی اور روتے روتے وہاں سے چل دی ۔۔۔
***
سدرہ اب اپنے کمرے میں موجود تھی ۔۔۔اس کا دماغ کام کرنا چھوڑتا جارہا تھا وہ اپنا سر دونوں ہاتھوں سے تھامے بیڈ پر بیٹھ گئی اور زاروقطار رونے لگی ۔۔۔کافی دیر یوں ہی روتی رہی ۔۔
مغرب کو اذان ہونے لگی تھی سدرہ اٹھی اور نماز ادا کرنے چل دی ۔اللّه کے حضور اس نے بہت دعائیں کیں ۔۔۔
نماز پڑھنے کے بعد سدرہ کے سوچنے سمجهنے کی صلاحیت تھوڑی بحال ہوئی ۔۔۔
"نہیں مجھے ہمت نہیں ہارنی یہ وقت رونے کا نہیں ہے بلکہ یہ سوچنے کا ہے کہ سراج کو کیسے بچاؤں کیا کروں ۔۔؟؟؟میں ؟؟
سدرہ سوچنے لگی اور کچھ دیر سوچنے کے بعد اس کو کچھ خیال آیا تو اس نے اپنا فون اٹھاۓ سراج کے ذاتی وكیل کو کال ملانے لگی
"ہیلو ۔۔اجمل صاحب میں مسز سراج علی بات کرہی ہوں ۔۔۔"
سدرہ بولی ۔۔۔
"ہیلو میم ۔۔۔ہاو ار یو ۔۔۔"
"مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے "
سدرہ اس کی بات کا جواب دیے بنا بولی
جی میں جانتا ہوں آپ کو کیا بات کرنی ہے ۔۔مجھے سراج صاحب کے بارے میں پتہ چلا تھا بہت افسوس ہوا مجھے ۔۔ مگر حیرت کی بات تو یہ ہے کہ انہوں نے مجھ سے اس بارے میں کوئی بات نہ کی جیسے وہ خود کو ذہنی طور پر پھانسی کے لئے تیار کر چکے ہوں ۔۔۔"
وكیل بولا تو سدرہ ایک بار پھر رونے لگی ۔۔۔
"میم میں سمجھ سکتا ہوں آپ کی حالت کو مگر پلیز رونا بند کریں ۔۔۔"
"وكیل صاحب آپ کچھ بھی کریں مگر میرے سراج کو واپس لا دیں پلیز آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں "
سدرہ روتے ہوۓ بولی ۔۔۔
"دیکھیں ۔۔۔۔۔عدالت فیصلہ سنا چکی ہے ابھی کچھ بھی کر پانا بہت مشکل ہوگا "
"ایسے مت بولیں ۔۔۔پلیز کچھ کریں ورنہ سراج نہ رہے تو میں بھی مر جاؤں گی ۔۔۔کیا اتنا بے بس ہے آپ کا قانون ۔۔۔۔
سزا سناتے وقت تو بڑی جلدی کی قانون نے مگر یہ تک نہ دیکھا کہ وہ انسان خود کتنی ازيت سے گزرا ہے "
"مطلب ؟ کس ازيت کی بات کر رہی ہیں آپ ؟؟"
وكیل بولا ۔۔۔
"سراج یہ سب کچھ جان بوجھ کر نہیں کرتے تھے ۔۔۔ایکچولی انہوں نے زندگی میں اتنے دکھ دیکھے ہیں کہ ان کا ذہنی توازن خراب ہو گیا ۔۔۔اور اب جو وہ کرتے ہیں تو اس پر ان کا کوئی بس نہیں ہوتا ۔۔"
"ذہنی توزن ٹھیک نہیں مطلب ؟؟؟ کیا وہ ذہنی مریض ہیں ؟؟"
وكیل نے تجسس سے پوچھا
"جی "
سدرہ نے روتے ہوئے جواب دیا ۔۔
"ار یو سیریس ؟؟ یہ کیسی باتیں کر رہی ہیں "
وكیل بولا ۔۔۔
"سچ کہہ رہی ہوں "
"کیا مگر ان کو دیکھ کر تو نہیں لگتا کہ وہ ۔۔۔۔مگر جو حقائق ان کے بارے میں سامنے آئے ہیں وہ تو واقعی کوئی ٹھیک انسان نہیں کر سکتا اگر تو یہ بات سچ ہے پھر تو بہت اچھی بات ہے "
"کیا ؟؟؟
اس میں کونسی خوشی والی بات ہے "
سدرہ کو وكیل پر غصہ آنے لگا تھا ۔۔
" وہ یہ کہ ایک دماغی مریض کو پھانسی نہیں دی جا سکتی بس آپ دعا کریں کہ جو کوشش اب میں کرنے جا رہا ہوں اس میں کامیاب ہو جاؤں "
وكیل کی بات سن کر سدرہ کو جیسے نئی زندگی ہی مل گئی ۔۔۔
"شکر یا اللّه "
وہ بے ساختہ بول پڑی
"تھینک یو سو مچ "
وہ خوشی سے بولی اور اس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آگئے ۔۔
"اچھا اب آپ مجھے یہ بتائیں کہ ان کا کہیں سے ٹریٹمنٹ چل رہا تھا ؟؟ تو مجھے جلدی سے اس ہوسپٹل یا كلینک کے کچھ پیپیرز دکھایں از ا پروو ۔۔۔۔۔"
اس کی بات پر سدرہ پریشان سی ہو گئی ۔۔۔ایسا کوئی پروو تو نہیں ہو گا میرے پاس "
"اہ نو !!!! پھر تو کافی مشکل ہو جاۓ گا آپ کچھ بھی کریں مگر ایسا کوئی ثبوت ڈھونڈ کر لائیں ۔۔۔
میں آپ سے پھر بات کرتا ہوں اوکے ۔۔۔"
"اوکے "
سدرہ نے مرجھائی آواز سے جواب دیا اور فون رکھ کر سوچنے لگی کہ اب ثبوت کہاں سے لاۓ اور کافی دیر سوچنے کے بعد اس کو خیال آیا کہ ضرور تھومس کے پاس ایسا کوئی نہ کوئی پروو لازمی ہو گا مگر تھومس سے رابطے کے لئے اس کا سراج سے ایک بار ملنا ضروری تھا
***
"سراج ؟؟؟"
سدرہ آج سراج سے ملنے جیل آئی تھی ۔۔سراج جو جیل کے ایک کونے میں دیوار کی طرف رخ کئے بیٹھا تھا سدرہ کی آواز سنتے ہی پلٹا اور سدرہ کو اپنے سامنے پا کر اٹھا اور چلتا ہوا اس کے قریب آیا ۔۔۔سراج نے اب جیل کی موٹی سلاخوں کو تھاما اور سدرہ نے نم آنکھوں کے ساتھ اس کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے لیا تھا ۔۔۔
"اب خوش ہو ؟؟"
سراج درد کی شدت سے مسکراتے ہوۓ بولا ۔۔
"مطلب ؟؟"
سدرہ نے حیرانگی سے اس سے سوال کیا ۔۔۔
"مطلب یہی کہ تمہاری مرضی کے مطابق میں نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا ہے ۔۔۔"
"میری مرضی ؟؟؟؟!!!!
یہ کیا کہہ رہے ہیں سراج ؟؟ میں بھلا کیوں چاہوں گی ایسا ؟؟"
سدرہ بولی ۔۔اس کی بات پر سراج چونکا ۔۔
"تم اتنے دن کہاں تھی ؟"
اب وہ بے چینی سے سدرہ کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے بولا ۔۔
"مجھے ان اے ۔ سی ۔پی جواد نے گھر سے اٹھوالیا تھا اور اتنے دن کسی کمرے میں قید رکھا ۔۔
"کیا !!!!!!
اور اور وہ چٹھی ؟؟؟"
سراج چیخا ۔۔
"کون سی چٹھی ۔۔یہ سب کیا کہہ رہے ہیں آپ ۔۔۔؟"
اور پھر سراج کو معاملے کی حقیقت سمجهنے میں زیادہ دیر نہ لگی ۔۔۔اس کو جواد پر اس وقت سخت طیش آنے لگی ۔۔
"ہاں ۔۔
میں جانتا تھا سدرہ میں جانتا تھا کہ تم دوسروں جیسی نہیں ۔۔اور کبھی میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتی سدرہ مجھے یقین تھا ۔۔۔۔"
سراج اس تکلیف میں ہونے کے باوجود بھی خوشی سے بولا
"جی سراج میں ایسا کبھی نہیں کر سکتی اتنا یقین ہے نہ آپ کو مجھ پر تو اس بات کا بھی یقین رکھیں کہ میں آپ کو کچھ نہیں ہونے دوں گی کچھ بھی نہیں ۔۔۔"
سدرہ مضبوط ارادے سے بولی ۔۔۔
"بس آپ مجھے اپنے اس امریکہ والے دوست تھومس کا نمبر دے دیں "
"تھومس کا ؟؟؟؟"
سراج حیران ہوا
"جی "
"مگر کیوں ؟؟"
"وہ سب میں آپ کو بعد میں بتادوں گی فلحا ل ہمارے پاس وقت بہت کم ہے "
"اچھا ٹھیک ہے "
سراج نے سدرہ کو تھومس کا نمبر بتا دیا تھا ۔۔۔
"بس کچھ دن اور سراج ۔۔۔اس کے بعد آپ کو یہاں نہیں رہنا پڑے گا ۔۔۔اور میں آپ کو کچھ بھی نہیں ہونے دوں گی ابھی میں چلتی ہوں آپ اپنا بہت خیال رکھیے گا "
سدرہ اس کے چہرے پر اپنا ایک ہاتھ رکھتے بولی تو سراج نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر چوم لیا ۔۔۔دونوں کی آنکھیں نم ہو گئی تھیں ۔۔۔
***
ایڈوکیٹ اجمل حسیب کی بہت جدوجہد کی بدولت سراج کے مقدمے کو ایک بار پھر کھول دیا گیا تھا اور آج بھی اس مقدمے کی ایک اور سنوائی تھی سراج کو ایک بار پھر جیل سے نکال کر اسی طرح بیڑیوں میں جکڑ کر عدالت میں پیش کیا گیا تھا سدرہ جو وہاں پہلے سے موجود تھی اس نے جب سراج کو ایسی حالت میں دیکھا تو اس کو اپنا دل دکھتا محسوس ہوا مگر اس نے ہمت نہ ہاری تھی اور اپنی طرف سے پو ری پوری کوشش کی تھی سراج کو بچانے کی سنوائی شرو ع ہو چکی تھی سدرہ کے دل کی دھڑکن بہت بڑھ گئی تھی ۔۔۔اور وہ اس پل آنکھیں بند کئے دعا کرنے میں مشغول تھی آنسو اس کی آنکھوں سے رواں تھے ۔۔۔اس کی ماں نے اس کو سختی سے روکنے کی بہت کوشش کی تھی مگر سدرہ نے کسی کی بھی نہ سنی تھی تو بل آخر اس کی ماں نے بھی اس کے حق میں کامیابی کے لئے دعا کر دی تھی کیوں کہ ان کو اس بات کا یقین تھا کہ ان کی بیٹی سدرہ کبھی غلط راستے پر نہیں چلے گی کبھی بھی برائی کا ساتھ نہ دے گی اور اپنی بیٹی پر کئے اسی بھروسے کی بنیاد پر ہی انہوں نے سدرہ کو آج عدالت کے لئے نکلنے سے پہلے دعا دی تھی اور بے شک ماں کی دعا بہت پر اثر ہوتی ہے ۔۔۔سدرہ جانتی تھی کہ سراج کو بچانا بہت مشکل تھا پھر بھی اس نے اپنی کوشش جاری رکھی تھی ۔۔۔وہ سراج کے ساتھ آج اس حالات میں کھڑی تھی جب پوری دنیا سراج کے خلاف تھی ۔۔۔شاید یہ یقین کی انتہا تھی جس وجہ سے سراج کے دل میں بھی سدرہ کے لئے قدر اور محبت پہلے سےکئی گناہ زیادہ بڑھ گئی تھی
کچھ دن پہلے سدرہ نے تھومس سے رابطہ کر کے تمام ثبوت اس سے تصاویر کی صورت میں منگوا لئے تھے ۔۔
جن کو ایڈوکیٹ اجمل نے عدالت کے سامنے رکھتے ہوۓ جج سے اپیل کی کہ سراج کو پھانسی کی بجاۓ علاج کی ضرورت ہے
" تمام ثبوتوں کے مطابق یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مسٹر سراج علی ذولفقار ایک بہت ہی خطرناک قسم کی ذہنی بیماری میں مبتلہ ہیں جس وجہ سے ان کو سزاے موت دینا قانون کے خلاف ہے اسی لئے عدالت آج سراج علی زولفقار کو اس شرط پر رہا کرتی ہے کہ ان کا کسی اچھے ذہنی ماہر ڈاکٹر سے علاج کر وایا جاۓ گا ۔۔۔"
جج نے فیصلہ سنایا جس پر سدرہ اپنے دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھپاےخوشی سے رو پڑی
یہ فیصلہ سنتے ہی سراج نے مسکرا کر سدرہ کی طرف دیکھا۔۔اس کو سدرہ کا اتنا پیار پا کر اس پل اپنی زندگی کے پچھلے تمام دکھ مٹتے دکھائی دیئے اور اس نے دل سے سچی توبہ کرنے کا فیصلہ کیا جب کہ سدرہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکی تھی اور دوڑ کر سراج کے گلے آ لگی سراج نے بھی اس کو اپنی بانہوں میں لے لیا اور اس کی پیشانی چوم لی ۔۔۔
اور وہاں موجود تمام لوگ ان کی محبت اور سدرہ کی وفا دیکھ اش اش کر اٹھے تھے ۔۔۔

 مزید اچھی کہانیوں کے لیے کلک کریں

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں



Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with 
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں