خونی شیطان (قسط نمبر1)

Urdu Stories

خونی شیطان (قسط نمبر1)

شہر سے دور ایک ویران علا قے میں موجود قبرستان سے تھوڑا فاصلے پر ایک گاڑی آکر رکی تھی ۔وہ دسمبر کی ایک سرد رات تھی۔

 طوفانی بارش ہورہی تھی بارش کی پڑتی بوندوں کی تیز آواز سے سماعتوں میں ایک عجب سی الجھن محسوس ہورہی تھی وقفے وقفے بعد بجلی پوری کڑک کی ساتھ چمک اٹھتی تھی جس کی روشنی ایک پل کے لیے اس قبرستان کو اپنی لپیٹ میں لے کر روشن کر دیتی تھی بادلوں کی گرج کی آواز سے کان کے پردے پھٹنے لگتے۔گاڑی سے ایک شخص اترا اس نے کالا رین کوٹ پہنا ہوا تھا اور اپنے چہرے کو ہوڈی سے ڈهانپ رکھا تھا گاڑی کا دروازہ ایک جھٹکے سے بند کرتا وہ گاڑی کی ڈگی کے پاس اگیا اس کی چال بہت ہی پر سکون تھی جس کو دیکھ کر صاف معلوم ہوتا کہ وہ شخص ارد گرد کے ماحول سے بلکل بے خوف تھا۔اس نے گاڑی کی ڈگی کھولی اور اس میں سے کسی کو بالوں سے پکڑتے ہوے باہر نکال کر زمین پر پٹخ دیا پھر اس کی ٹانگوں کو پکڑ کر گهسیٹتے ہوۓ قبرستان کی طرف لے جانے لگا۔

وہ شخص زندہ تھا وہ چیخنے لگا چلا نے لگا اپنی جان کی بخشش مانگتا رہا مگر سامنے والا بیحد بے رحم تھا وہ اس کی آہ وبقا کو نظر انداز کرتا ہوا اس کو اب قبرستان کے بیچ و بیچ لے آیااور پنجوں کے بل بیٹھ گیا اب اپنے کوٹ کی جیب میں سے ایک تیز دھار خنجر نکال کر اس بندے کی گردن پر رکھ دیا ۔
"نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! مجھ مجھے جانے د دو کو کون ہو تم میں ن نے کیا بگاڑا ہ ہے تمہارا "

نیچے لیٹا بندہ اپنی موت کو سامنے دیکھ کر خوف سے چلا اٹھا تھا
"ہاہا ہا ہا ہا ہا "
جب کہ سامنے والے اس بے رحم شخص کو اس پر ذرا رحم نہ آیا اور وہ شیطانیت سے ہںنسنے لگا ۔۔
"ایسے کیسے جانے دوں ؟بہت بھوک لگی ہے مجھے "
"ا ا آپ جو کہیں گے جیسا ک کھ کہیں گے سب ویسا ہ ہی ہوگا "
وہ تھرآتی آواز سے بولا
جس کی بات پر کوٹ والا شخص مکاری سے مسکرا تا ہوا اپنے ہاتھ میں موجود خنجر کو گھورتے ہوے بولا

" ہمیشہ ہی وہی ہوتا ہے جیسا میں چاہتا ہوں اس میں نئی بات کیا ہے ؟کیوں کہ مجھے اپنی مرضی کے خلاف کوئی بات پسند نہیں "
وہ اپنے چہرے پر سے ہوڈی ہٹا تا ہوا اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے لگا ۔۔اس کی آنکھوں کی پتلیاں سرخ رنگ کی تھی یہ منظر دیکھتے ہی نیچے لیٹا بندہ خوف سے کانپ گیا تھا
" مجھ مجھے جا ج جا نی نے دیں "
"شٹ اپ"
وہ دھاڑا
"مجھے میرے سامنے اونچی آواز سے بولنے والے لوگ بلکل اچھے نہیں لگتے جانتے نہیں کیا؟ پھر بھی اتنا اونچا بول کر کان کھا گۓ ہو میرا " وہ اپنے کان میں انگلی ڈالتے ہوےبےزاریت سے بولا۔۔
"کتنےظالم ہو تم "

" تمہاری سوچ سے بھی زیادہ ۔۔ویسے تم بولتے بہت ہو "
سامنے والے نے نہایت ڈهٹای سے جواب دیا پھر اس بندے کے منہ میں ہاتھ ڈال کراس کی زبان پکڑ لی اور خنجر کی مدد سے کاٹ ڈالی ۔ جس کے نتیجے میں وہ بری طرح چیخ اٹھا خون اس کے منہ سے پانی کی طرح بہنے لگا اس تکلیف سے اس بندے کی آنکھیں باہرکو ابل گیں ۔۔

اس کے بعد کوٹ والا شخص اٹھا اور اپنی گاڑی کی طرف بڑھنے لگا اور گاڑی سے ایک بیلچا نکال لایا اور آرام آرام سے قبروں کے بیچ زمین کھودنے لگا ۔۔
یہ منظر دیکھ نیچے لیٹا بندہ سمجھ گیا کہ ہو نہ ہو وہ اس کی قبر ہی کھود رہا تھا تب ہی وہ تڑپنے لگا اپنی جان بچانے کی سعی کرنے لگا مگر اس کے ہاتھ پیر بندھے ہوے تھے وہ چاہ کر بھی بھاگ نہ سکتا تھا کافی دیر گزر جانے کے بعد وہ کالے کوٹ والا شخص چہرے پر ایک مکروہ مسکراہٹ لیے دھیرے دھیرے اسکے نزدیک آیا اور ایک بار پھر اپنے تیز دھار خنجرسے سے اس کے جسم پر حملہ کیا اور اس کے جسم کو جگہ جگہ سے زخمی کرنے لگا اور اس کے زخموں میں اپنی انگلیاں ڈالتے ہوے اس کا گوشت نوچنے لگا کافی دیر تک وہ اس کو ایسے ہی تڑپاتا رہا پھر اس نے اس بندے کی انگلیاں کاٹنا شورع کی اور ایک ایک کر کے اس کی انگلیاں اپنے منہ میں ڈال کر چبا نے لگا پھر خنجر پر لگا سارا خون چاٹ گیا "هممممم ۔۔۔۔۔۔کتنا مزہ ہے اس انسانی خون میں "

وہ آنکھیں میچے بولا ۔۔ نیچے پڑے شخص کی درد ناک چیخوں سے پورا قبرستان گونجنے لگا تکلیف اور خوف سے اس کا برا حال ہو گیا اس پل وہ اپنی موت کی طلب کرنے لگا تھا کیوں کہ جو ازيت وہ شخص اس کو دے رہا تھا وہ برداشت کرنا اب اس کے بس سے باہر ہو چکا تھا مگر سامنے والا ظالم شخص بڑے اطمینان سے اپنے کام میں مگن تھا ۔۔

اور اب وہ کھڑا ہوا اوراپنا پیر اس کے سر پر ٹکا دیا پھر بیلچا ہاتھ میں لیےاپنی پوری طاقت لگاتے ہوے بیلچے کا ایک کاری وار اس کے پیٹ پر کیا تو خون کا ایک فوارہ اس ظالم کے منہ پر پڑا تھا جس سے اس کی روح کو ایک سکون پہنچا تھا اپنے بائیں ہاتھ کی مدد سے اس نے وہ سارا خون اپنے چہرے پر مل دیا ۔۔سرخ آنکھیں اور خون سے بھرا چہرہ وہ اس پل بے حد خوفناک معلوم ہو رہا تھا ۔۔ وہ شخص دو ٹکڑوں میں بٹ چکا تھا اور اس کے جسم کے دونوں ہی حصے بنا جل کی مچھلی کی طرح تڑپنے لگے ۔۔یہ منظر خاصہ دل دہلا دینے والا تھا مگر اس ظالم نے زور سے قہقہہ لگایا ۔۔

ایک بار پھر وہ اس کے نزدیک آیا تھا اور اس کے پھٹے پیٹ پر اپنا منہ رکھتے ہوےاس کا گوشت بھوکے شیر کی طرح کھانے لگا کافی دیر تک یہ تماشہ جاری رہا جب وہ اس بندے کا خاصہ گوشت کھا چکا تو اس کا سر بے جان دھڑ سے جدا کرنے لگا اس کی آنکھوں میں خنجر مار مار کر آنکھیں پھوڑ دیں منہ میں ہاتھ ڈال کر اسکا جبڑا بھی پھاڑ ڈالا اب وہ گھٹنوں کے بل بیٹھے آسمان کی طرف رخ کئے زور زور سے قہقہے لگانے لگا پھر اس نے نیچے پڑے بندے کے مرده جسم کے ٹکڑوں کوٹھڈے کی مدد سے اس کھڈے میں ڈال دیا اس دوران اس کا منہ خون سے لت پت تھا اور وہ کسی وحشی درندے سے کم نہ لگ رہا تھا پھر اس نے کھڈے کو مٹی سے بھردیا ۔۔اور اپنے ہاتھوں پر لگی گیلی مٹی کو بارش کے پانی سے ہی دھونے لگا پھر ایک نفرت بھری نگاہ اس بند کھڈے پر ڈالتا ہوا وہ اپنی گاڑی کی طرف چل دیا ۔گاڑی میں بیٹھ کر پہلے تو اس نے ٹشو پیپر کی مدد سے اپنےمنہ کو صاف کیا اور اپنا چہرہ آئنہ میں دیکھتے ہوے ایک سائیڈ سمائل دی جو بیحد دلکش تھی پھر گاڑی سٹارٹ کرتے ہوے اپنی منزل کی جانب روانہ ہو گیا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سدرہ اپنی والدہ کے سرہانے بیٹھی تھی جو اکثر بیمار رہا کرتی تھیں مگر آج ان کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہو گئی تھی دراصل وہ دل کی مریضہ تھیں ڈاکٹروں نے تو انھیں بہت پہلے ہی دل کا آپریشن کرالینے کا مشورہ دے رکھا تھا مگر ان لوگوں کے پاس اتنے پیسے تھے ہی کہاں جو دل کا آپریشن کرواتے بس ناصرہ شمیم اب تو دوا پر ہی جی رہی تھیں اس بات کو لے کر سدرہ بہت افسرده رہتی تھی اس کا دنیا میں ماں کے سوا اور تھا ہی کون والد کا انتقال تو اس کے بچپن میں ہی ہو گیا تھا ایک بھائی تھا جس نے شادی ہوتے ہی رنگ بدل لیا تھا 

اس کی بیوی اچھی عورت نہ تھی وہ سارا دن سدرہ اور اس کی والدہ کے خلاف اپنے شوہر کےکان بھرتی رہتی تھی ۔۔کہنے کو تو وہ لوگ ایک ہی مکان میں رہتے تھے مگر سدرہ کی بھابھی ہما کے زور دینے پر سدرہ کے بھائی کاشف نے گھر کے بیچ ایک دیوار اٹھا دی تھی اور اپنا کھانا پینا بھی ان سے الگ کر لیا تھا مہینے میں بس دو تین ہزار روپے ہاتھ میں پکڑا جاتا تھا جن سے ان ماں بیٹی کا گزارا ناممکن ہی تھا ۔ سدرہ کی عمر اس وقت بیس سال تھی سونے جیسا گورا رنگ، كتابی چہرہ ،نازک بدن، پھول جیسے ہاتھ پیر ،کمر تک آتے ریشمی بال اس کے چہرے پر بلا کی معصومیت تھی صرف چہرے پر ہی نہیں وہ خود بھی بیحد معصوم تھی اس کی سب سے خاص بات تھی اس کی سیرت اس نے آج تک کسی کا برا نہ چاہا تھا وہ دنیا کی برای سے بےخبر اپنےآپ میں مگن رہنے والی لڑکی تھی

 پڑھائی میں بھی بہت اچھی تھی اس نے ایف ایس سی بہت اچھے نمبروں سے کیا تھا وہ بچپن سے ہی ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھ رہی تھی اس کے نمبر اتنے اچھے تھے کہ اس کو شہر کے بڑے سے بڑے کالج میں بھی داخلہ مل سکتا تھا مگر اس کا اصل مسلہ تھا فیس اس کے پاس میڈیكل کی فیس دینے کے لیے پیسے نہ تھے اس کی منگنی اس کے خالا زاد نعمان سے ہو چکی تھی۔

 وہ پنج وقتہ نمازی تھی اور ہر نماز میں اپنی والدہ کے علاج اور اپنی فیس کے انتظام کے لیے دعا مانگا کرتی اس کو یقین تھا کہ خدا اس کے لیے کوئی نہ کوئی راستہ ضرور کھول دیگا ۔۔ناصرہ شمیم کی طبیعت آج بھی دوا نہ ہونے کی وجہ سے بگڑی تھی کاشف ابھی تک دفتر سے نہیں آیا تھا اور ہما سے مدد مانگنا بلکل بیکار تھا یہ بات سدرہ اچھے سے جانتی تھی مگر وہ یوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بھی تو نہ بیٹھ سکتی تھی اس نے ایک نظر اپنی والدہ پر ڈالی جو تکلیف سے بے حال تھیں پھر وہ اٹھی الماری سے چادر نکال کر اوڑھ لی اور تیزی سے دروازے کی جانب بڑھی اور اپنے بھائی کے گھر کا دروازہ بجانے لگی ۔۔

" ارے کون ہے آرہی ہوں سارے سكرب کا بیڑا غرق کر دیا میرے پتہ نہیں کون ہے "
ہما نے بڑبڑاتے ہوئے دروازہ کھولا ۔۔
" بھابھی ۔۔۔۔بھابھی وہ امی کی طبیعت بہت خراب ہے کچھ پیسے دے دیں دوائی ختم ہو گئی ہے "
سدرہ روہانسی ہوتےہوے بولی ۔۔
" او ہو ! مگر سدرہ میرے پاس تو اس وقت بلکل پیسے نہیں ہیں کاشف کی سیلری بھی نہیں ہوئی اب تک ۔۔۔"
ہما نے سفید جھوٹ بولا ۔۔

سدرہ سمجھ تو گئی تھی مگر وہ کر بھی کیا سکتی تھی چپ چاپ وہاں سے چل دی اور گھر آکر اپنی سہیلی اریبہ کو فون کرنے لگی ۔۔
"ہاں ہیلو ! اریبہ ہاں میں ٹھیک ہوں وہ سب چھوڑو میری بات سنو ۔۔یار امی کی دوائی ختم ہو گئی ہے کچھ پیسے دے سکتی ہو پلیز ۔۔۔۔"
سدرہ نے بہت مجبور ہوکر اریبہ کے اگے ہاتھ پھیلاے تھے ۔۔۔
"همم سدرہ یار وہ ۔۔۔۔میری ماما نے سختی سے منع کردیا ہے تمہیں مزید پیسے دینے سے میں کیا كرسكتی ہوں اب "
"اریبہ سچی میں اس دفعہ سارے پیسے لوٹا دونگی "
اچھا سدرہ مجھے ذرا کام ہے میں فون رکھ رہی پھر بات ہوتی ہے خدا حافظ !"
سدرہ کو اریبہ کے رویہ سے بیحد توہین محسوس ہوئی تھی وہ بیحد حساس تھی ویسے بھی زندگی کی تلخیوں کو اس نے کبھی نہ جهیلا تھا یہ سب کچھ اس کے لیے کافی مشکل تھا اس نے مایوس ہو کر فون رکھ دیا ۔اپنی والدہ کی بگڑتی حالت کو دیکھ کر اس کا سر درد سے پھٹنے لگا تھا وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی ۔۔
" سدرہ بیٹا دوائی لا دے مجھے "

ناصرہ شمیم کی آواز ابھری اب وہ بیچاری اپنی والدہ کو کیا بتاتی کہ دوا تو ختم ہو چکی ہے "جی امی میں لے کر آتی ہوں بس آپ تھوڑا انتظار کریں "
یہ کہتی وہ ایک بار پھر چادر اوڑھے گھر کی دہلیز سے نکل پڑی وہ نہیں جانتی تھی کہ کدھر جا رہی ہے مگر بس گھر سے دوا لینے کے ارادے سے نکل آئ تھی ۔۔وہ سڑک پر نہ جانے کتنی ہی دیر چلتی رہی تھی پھر اس کو اپنے دور کہ ایک رشتے دار کا خیال آیا جو اسی شہر میں رہتا تھا جس کا نام حارث تھا وہ مالی لحاظ سے بہت اچھا تھا اور شادی شدہ بال بچے دار آدمی تھا یہ خیال آتے ہی سدرہ کے دل میں ایک امید سی جاگی تھی وہ رکشہ لے کر حارث کی طرف چل دی تھی

حارث نے بھی سدرہ کی کوئی مدد نہ کی تھی اب تو اس کا دل ڈوبنے لگا تھا وہ سمجھ ہی نہ پارہی تھی کہ اب گھر کس طرح جائے اوپر سے اسکو اپنی والدہ کی فکر بھی کھاےجارہی تھی کیوں کہ وہ اس حالت میں گھر میں اکیلی تھیں ۔۔
" کچھ بھی کر کہ مجھے امی کے لیے دوائی لینی ہی ہوگی ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔"
یہ سوچ کر سدرہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گۓ تھے شام کا وقت تھا اس وقت وہ ایک پارک کے سامنے کھڑی تھی یہ ایک پوش علاقہ تھا سدرہ چلتے چلتے پارک کے اندر پڑے ایک بینچ پر جا بیٹھی اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا تھا کچھ سمجھ نہ آرہی تھی کہ وہ کرے تو کیا کرے ۔اتنی دیر میں ایک ادھیڑ عمر کی عورت اس کے برابر میں آکر بیٹھ گئی اور اپنا پرس کھول کر اس میں سے پانی کی بوتل نکال کر پانی پینے لگی اسی دوران ایک بچہ جو اس عورت کے ہی ساتھ تھا شاید اس کا پوتا یا نواسہ تھا وہ بھاگتے ہوے گر پڑا تھا
"اہ فہد بیٹا دھیان سے ۔۔۔۔۔۔۔"

یہ کہتے ہوے وہ عورت بھاگتے ہوے اس بچے کو اٹھانے چل دی جب کہ اس کا پرس وہیں کھلا پڑا رہ گیا وہ جلدی میں جو بھاگی تھی۔ سدرہ کی نظر اس کے پرس میں پڑی جدهر اےٹی ایم کارڈ موجود تھا اور تھوڑی سی رقم بھی تھی سدرہ کو بس ایک آخری راستہ یہی دکھائی دینے لگا کہ وہ یہ رقم اٹھا لے اور اپنی امی کی دوا لے کر گھر چلی جائے مگر اس نے آج سے پہلے کبھی کوئی غلط کام نہ کیا تھا اس خیال سے ہی اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی تھی بڑی مشکل سے اس نے خود کو مضبوط کرتے ہوے كانپتے کانپتے اپنا ہاتھ پرس کی طرف بڑھایا اور رقم اٹھا لی جیسے ہی اس نے رقم پر ہاتھ ڈالا تھا کسی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر زور سے پیچھے جھٹکا

"چور کہیں کی ۔۔۔میرے پیسے چوری کر رہی تھی تم "
یہ اسی عورت کی آواز تھی جس کا پرس تھا ۔۔
" نہ نہیں میں وہ آنٹی وہ میری امی کی طبیعت ۔۔۔"
اس سے پہلے سدرہ مزید کچھ کہتی اس عورت نے ایک زور دار تھپڑ سدرہ کے منہ پر دے مارا ۔۔سدرہ بیحد شرمندگی محسوس کرنے لگی تھی اس کو اس پل خود سے نفرت محسوس ہو رہی تھی وہ چپ چاپ گردن جھکاے کھڑی تھی اور وہ عورت سدرہ کو ذلیل کرنے میں مصروف تھی آس پاس لوگوں کا ہجوم لگنا شروع ہو گیا تھا اب وہ عورت پولیس کو کال کرنے لگی تھی پولیس کا نام سنتے ہی سدرہ زور زور سے رونے لگی مگر اس کو اپنی صفائ میں کچھ کہنا بھی نہ آتا تھا۔۔کچھ ہی دیر میں پولیس وہاں موجود تھی اور خواتین اہلکار سدرہ سے سخت کلامی کر رہی تھیں کہ کسی نے سوال کیا "ایکسکیوز می ! میں پوچھ سکتا ہوں کہ کیا ہو رہا ہے یہ سب ؟"
سدرہ نے نظر اٹھا کر دیکھا تو سامنے ایک خوبرو جوان کھڑا تھا اس نے جینز اور گرے رنگ کی شرٹ پہن رکھی تھی ۔۔

چھ فٹ قد ،کسرتی جسم ، سرخ و سفید رنگت ، سنجیدہ چہرہ ،داڑھی کے خط بنے ہوے ،سرخ ہونٹ ،بڑی بڑی مخمور آنکھیں اور خمدار ابرو۔۔
اس کو دیکھ کر کسی شہزادے کا گمان ہوتا تھا ۔۔
"ہاں ہیرو تو کون ہے ؟"
پولیس اہلكارنے طنز بھرے لہجے میں سوال کیا تھا
" میں سراج علی ذولفقار
چیئرمین اوف میگا کونگلومیریٹ اینڈ میگا گروپ _ایس آئ۔زی ۔۔
اس شخص نے نہایت سنجیدگی سے جواب دیا
جس پر اس پولیس والے کے چہرے کا رنگ یک دم بدلہ تھا ۔۔
"اووہ ! سوری سر وہ میں نے آپکو پہچانا نہیں تھا ۔۔
جب کہ سراج اس کو غصے سے گھورتے ہوے بولا "اس کا مطلب ہے کہ آپ غریب سے عزت سے بات نہیں کر سکتے "
"نہیں ایسی کوئی بات نہیں سر وہ ۔۔۔"
اس سے پہلے وہ مزید کچھ بولتا سراج نے اس کی بات کاٹی
" یہ کیا تماشا لگا ہے یہاں ؟"

سر آپ کیوں تکلیف اٹھا رہے بہتر ہوگا آپ اس معاملے میں نہ ہی پڑیں چھوٹی موٹی چوری کا معاملہ ہے "
"یہ میرے ساتھ تھیں شی از مائی فرینڈ ۔۔اور انہوں نے کوئی چوری نہیں کی"
سراج نے سدرہ کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا سدرہ اس کے اس جھوٹ پر حیران رہ گئی تھی ۔۔۔
" همم لگتا ہے محترمہ آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی پھر" پولیس اہلکار پرس والی خاتون سے بولا
"ایسے کیسے غلط فہمی مجھے کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی یہ میرے پیسے چرا رہی تھی "
وہ خاتون تپ کر بولی

"کوئی ثبوت ہے آپ کے پاس ؟"
سراج اس سے مخاطب ہوا
جس پر وہ خاموش ہو گئی تھی
"سوری میڈم وی آرریلی سوری آپ کو اتنی تکلیف اٹھانی پڑی"
پولیس اہلكار سدرہ سے بولا تھا ۔۔۔
اچانک ہی اتنی تعظیم ملنے پر سدرہ سے کوئی جواب نہ بن پایا

وہ ہکا بكا کھڑی سراج کا چہرہ تک رہی تھی."اوکے نو پرابلم ہو جاتا ہے ۔۔۔۔چلیں ؟"
سراج خود ہی پولیس والوں کو جواب دے کر سدرہ سے مخاطب ہوا ۔۔۔۔
پولیس اہلكار سراج سے خوش دلی سے ہاتھ ملاتا اپنی موبائل کی طرف بڑھ گیا اور وہ عورت بھی پیر پٹختی وہاں سے چل دی ۔

 خونی شیطان ( قسط نمبر 2)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں



Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں