بھیانک خاموشی (قسط نمبر1)

Urdu Stories in Urdu Font

بھیانک خاموشی (قسط نمبر1)

یار کار کیوں روکی (رمضان نے سعد کو گھورتے ہوئے کہا)
یار کار خراب ہو گئی ہے (سعد نے بے چینی سے جواب دیا)
اب اس سنسان جنگل میں کہاں سے مکینک ملے گا اور اوپر سے رات کے وقت (رمضان نے پریشانی کے عالم میں سعد سے کہا)
رک میں باہر دیکھتا ہوں کیا ہوا ہے کار کو (سعد نے باہر جاتے ہوئے کہا)
میں بھی آتا ہوں بھائی (رمضان باہر نکل گیا)

بھائی ہمیں یہاں آنا ہی نہیں چاہیئے تھا اس منہوس کی بات ماننی ہی نہیں چاہئے تھی یہاں جنگل میں آنے کی شرط اس نے اسی لیے لگائی ہو گی کہ ہم ہار جائیں ویسے بھی اس جنگل میں اس قدر خاموشی کسی طوفان کے آنے کی طرف اشارہ کر رہی ہے (رمضان نے سعد کو سمجھاتے ہوئے کہا)
یار ان سب کا وقت نہیں ہے ہمیں کار کو ٹھیک کرنا ہے پر پتا نہیں اسکو کیا ہوا ہے (سعد نے کار کو دیکھتے ہوئے کہا)
آسمان پر چاند نہیں نکلا تھا آسمان پر بادل تھے اور لگ رہا تھا بارش ہونے والی ہے دونوں اس بات پر بھی خوفزدہ تھے

سعد بارش ہونے والی ہے (رمضان نے اسے پکارا)
سعد جو کام میں مصروف تھا آسمان کی طرف دیکھ کر بولا (شاید)
اچانک جنگل میں سوکھے پتوں پر کسی کے چلنے کی آواز آئی
سس۔سعد دد_دیکھ ووہاں کک کوئی ہے (رمضان اچھل پڑا)
سعد رمضان کے مقابلے کافی بہادر تھا (اچھا میں دیکھتا ہوں تو رک)سعد نے ہاتھ صاف کرتے ہوئے کہا

رک میں بھی تیرے ساتھ چلتا ہوں (رمضان اس کے برابر ڈر کے مارے چلنے لگا)
اب آواز نہیں آ رہی تھی اور دوبارہ سے مکمل خاموشی نے پورے جنگل کو گھیر لیا تھا حیرت یہ تھی کہ کوئی جنگلی جانور بھی آواز نہیں کر رہا تھا
سعد یہاں کوئی تھا میں سچ بول رہا ہوں اس کے چلنے کی آواز آئی تھی (رمضان نے دھیمی آواز میں کہا)
کوئی جنگلی جانور ہو گا بھائی فکر نہ کر (ابھی سعد نے بات ختم ہی کی تھی کہ اسے اپنے پیچھے کسی کے ہونے کا احساس ہوا وہ جلدی سے پیچھے مڑا مگر وہاں کچھ نہیں تھا )

یار تو ٹھیک بول رہا ہے یہاں واقعی کوئی ہے مجھے بھی احساس ہوا مگر کون ہے (سعد نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا)
بھائی ___(رمضان کے الفاظ رک گئے ہو ساکت ہو گیا)
کیا ہوا تجھے بول کیا بول رہا تھا (سعد نے اسے جھنجھوڑا)
وہ کچھ بول نہ سکا جیسے اس نے کچھ ایسا دیکھا ہو جو بالکل پراسرا ہو وہ بت بنے کھڑا تھا جب سعد نے اسے اک بار پھر جھنجھوڑا
اس کا چہرہ زرد پڑ چکا تھا گویا سعد کو شک ہوا کے اس کے پیچھے اس نے کچھ دیکھا ہے سعد جونہی پیچھے مڑا اس کا پائوں کسی چیز پر پڑا اور اک آواز نے خاموشی کے زورکو توڑ کر رکھ دیا

یہ کسی لڑکی کی پایل تھی جس پر سعد کا پائوں پڑا تھا اور وہ چونک پڑا تھا
تبھی رمضان نے حوش سمبھالا (بھائی بھائی تیرے پیچھے کک کوئی لڑکی تھی میں نے دیکھا اس کا چہرہ نہیں دکھا سرخ لباس تھا اور لمبے بال منہ پر بکھرے ہوئے دکھائی دیئے اور اس سے پہلے میرے منہ سے الفاظ نکلتے مجھے لگا کسی نے مجھے بولنے سے روک دیا اور وہ وہ غائب ہو گئی)
سعد حیرانی سے اس کی باتیں سن رہا تھا

اور تبھی بارش شروع ہو گئی انہوں نے جلد بازی میں ادھر ادھر دیکھے بغیر اک طرف تیزی سے چلنا شروع کر دیا کہ بارش سے بچ سکیں اور وہ کار سے بہت دور نکل آئے اور بارش بھی بہت تیز ہو چکی تھی جب بجلی گرجتی تو تو پورا جنگل اس طرح لگتا جیسے کسی نے درختوں میں برق بھر دی ہو
انہوں نے اک پرانے بڑے درخت کے نیچے پناہ لی ..

انہوں نے اک پرانے بڑے درخت کے نیچے پناہ لی
بجلی اس قدر چمک رہی تھی کہ لگتا تھا ابھی یہ ان پر گر پڑے گی جب بادل گرجتے تو جنگل کی خاموشی میں ان کی آواز گونج اٹھتی اور پورے جسم میں خوف کی وجہ سے کپکپی طاری ہو جاتی دونوں درخت کے نیچے بارش رکنے کا انتظار کر رہے تھے کہ اچانک ان کے کانوں میں دوبارہ وہی آہٹ محسوس ہوئی اس بار آواز بہت زیادہ تھی اور آواز آہستہ آہستہ قریب آ رہی تھی
رمضان دہشت کے مارے کانپ رہا تھا جبکہ سعد اس بات کا اندازہ لگا رہا تھا کہ آواز کس سمت سے آ رہی ہے

سعد یار دیکھ وہاں کچھ ہلا تھا( رمضان نے اک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا)
نہیں سن آواز پیچھے سے آ رہی ہے ہمیں پھنسایا جا رہا ہے ہم آگے متوجہ ہوں اور پیچھے سے ہم پر کسی طرح کا حملہ ہو جائے (سعد نے رمضان کو آہستہ سے سمجھاتے ہوئے کہا)
مگر (رمضان ہچکچاتے ہوئے کچھ نہ کہے سکا)
سعد آہستہ سے آگے بڑھا اور اپنے موبائل کی لائٹ وہاں ماری جہاں رمضان نے کہا تھا کہ کچھ ہلا تھا وہ چونک پڑا وہاں اک کالی بلی تھی جو ان کو گھور رہی تھی سعد نے اسے بھگانے کے لیے پائوں زمین پر مارا مگر وہ زرا بھی نہ سہمی اور خوفناک قسم کی آوازیں نکالتی ہوئی ان دونوں کے گر چکر کاٹنے لگی۔۔۔تحریر۔۔فیاض
سعد یہ کیا کر رہی ہے ( رمضان نے کانپتے ہوئے کہا)

میں نہیں سمجھ پا رہا مگر چاروں طرف نظر رکھنا یہ محض دکھاوا بھی ہو سکتا ہے میں نے اپنے اردگرد کسی اور چیز کو بھی محسوس کیا ہے کچھ پراسرا کچھ ایسا جو عام چیز نہیں ہے (سعد نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا)
اچانک بجلی کڑکی اور رمضان خو سعد کے بالکل پیچھے وہی لڑکی دوبارہ دکھائی دی
سعد سعد پپپیچھے (وہ زور سے چیخا)
سعد جونہی پیچھے مڑا اک زور دار آندھی کا جھونکا آیا وہ انکھیں نہ کھول سکا اور اس نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیا
کچھ لمحوں بعد اسے رمضان کا خیال آیا وہ جلدی سے پیچھے مڑا مگر رمضان تو وہاں تھا ہی نہیں

یا اللہ (سعد کے منہ سے بے اختیار یہ الفاظ نکلے )
رمضان رمضان کہاں ہو (وہ زور زور سے چیخنے لگا اور خاموش جنگل میں اس کی آواز ا سناٹے کو توڑ رہی تھی )
رمضان تجھے میری آواز آ رہی ہے وہ ادھر ادھر دیکھ کر چیخ رہا تھا مگر اسے کوئی جواب نہ ملا بارش رک چکی تھی وہ بھاگنا چاہتا تو بھاگ جاتا مگر اسے اپنے دوست کی کمی محسوس ہوئی وہ اس کے بھائی جیسا تھا وہ اسے اکیلا چھوڑ کر کیسے جاتا لہزا سعد نے یہ ٹھان لی کے وہ رمضان کے ساتھ ہی واپس جائے گا اس نے رمضان خو ڈھونڈھنا شروع کر دیا آوازیں دیتے ہوئے ہو جنگل کے ایک سنسان راستے پر چل پڑا اسے اب بھی لگ رہا تھا کوئی اسے دیکھ رہا ہے خوئی اس کے پیچھے ہے یہ سوچ کر وہ کئی بار پیچھے مڑا مگر اس نے مایوسی کے سوا کچھ نہ پایا

وہ رمضان کو ڈھونڈھتے ڈھونڈھتے جنگل کے درمیان میں آ پہنچا اس نے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی وہاں اسے ایک پرانا کنواں دکھا مگر اس نے اس پر دھیان نہ دیا وہ جانے ہی لگا تھا کے اسے کنویں کے باہر رمضان خا موبائل دکھا اس نے جلدی سے اسے اٹھایا اور ادھر ادھر نگاہ دوڑائی اس نے اندازا لگا لیا تھا کہ رمضان یہں تھا
اس نے جیسے ہی کنوں میں جھانکنے کے لیے نیچے دیکھا وہی کالی بلی اس پر درخت سے آ گری وہ خود کو سمبھال نہ سکا اور کنویں میں جا گرا اسے اندھیرے کے سوا کچھ نہیں دکھائی دے رہا تھا وہ 5 منٹ کے بعد نیچے جا گرا اس نے خود کو سمبھالا اور ہمت کر کے اس نے زمین پر ہاتھ سے ٹٹولنا شروع کیا زمین پر ہاتھ مارتے ہوئے اس کا یاتھ کسی چیز سے جا ٹکرایا اس کے اوسان خطا ہو گئے

 اس نے اپنا موبائل نکالا اور اس کی روشنی میں جونہی اس چیز کی طرف دیکھا اس کے حلق سے بے اختیار چیخ نکل پڑی یہ رمضان کی لاش تھی جو خون میںلت پت پڑی تھی اس میں ہمت نہ رہی کے وہ اسے چھوئے اس نے ہمت کر کے موبائل کی لائٹ سے اردگرد کا جائزہ لیا یہ دیکھ کر اس کی دھڑکنیں تیز ہو گئی سامنے ایک لڑکی سرخ لباس میں چوکڑی لگائے بیٹھی اسے دیکھ کر ہنس رہی تھی اس کا دل کیا بھاگ جائوں مگر اس کے جسم کی ہمت اور طاقت جواب دے گئی اس کو اپنی موت صاف دکھائی دے رہی تھی اتنے گہرے کنویں سے بھاگنا ناممکن تھا

لڑکی آہستہ سے اٹھی اور چلتے ہوئے اس کی طرف آنے لگی وہ اٹھ نہ سکا اس لیے ہاتھوں اور پیروں کے سہارے اس نے زمین پر پیچھے کی طرف جانا شروع کر دیا لڑکی کے چلنے سے وہی آہٹ پیدا ہو رہی تھیجو ان کو پہلے سنائی دی تھی پیروں میں پایل کی آواز سناٹے کو مزید خوفناک کر رہی تھی

سعد نے اللہ کا نام لیا اور ادھر ادھر ہاتھ مارنا شروع کیا اس کے ہاتھ میں اک موٹی درخت کی ٹہنی آ گئی اس نے جلدی سے اسے اٹھایا اور لڑکی اس کے سر پر پہنچ چکی تھیاس نے اللہ کا نام لے کر اس کے سر پر زور سے مارا اور وہ دور جا گری سعد نے اپنا موبائل اٹھایا اور بھاگنے کا راستہ تلاش کرنے لگا ...

ادھر ادھر دیکھتے ہوئے اسے کچھ نہیں ملتا اتنے میں وہ لڑکی کھڑی ہو جاتی ہے سعد کو اب کپکپی طاری ہو جاتی ہے اس کا دل کرتا ہے چیخے چلائے مگر اس کی آواز حلق میں دب کر رہے جاتی ہے لڑکی اس کی طرف آتی ہے سعد بے اختیار بھاگنے لگتا ہے مگر وہ با بس ہو کر گر پڑتا ہے اسے اب کوئی نہیں بچا سکتا نا امید ہو کر وہ دل میں یہی سوچتا ہے کہ آج وہ موت کے ہاتھ لگ چکا ہے لیکن تبھی اسے خیال آتا ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہیں اور ہمیں کبھی بھی نا امید نہیں ہونا چاہیئے وہ اللہ کو یاد کر کے اونچی آواز میں آیت الکرسی پڑھنا شروع کر دیتا ہے اور اسی لمحے وہ لڑکی بھیانک آواز میں چیخ کر وہاں سے غائب ہو جاتی ہے

 سعد پسینے میں شرابور ہوتا ہے اس کے دل کی دھڑکن اسے اس خاموشی میں صاف صاف سنائی دے رہی ہوتی ہے وہ اٹھتا ہے اور اللہ کا شکر ادا کرتا ہے مگر اسے یہ اندازا ہوتا کے کہ وہ ابھی بھی اسی خوفناک علاقے میں ہے جہاں اس خے سوا کسی انسان کا نام و نشان تک نہیں ہے وہ ہمت کر کر اٹھتا ہے وہ اک نظر رمضان کی طرف دیکھتا ہے وہ بے قصور مارا گیا تھا سعد کی آنکھوں سے بے اختیار آنسوں نکل پڑتے ہیں کچھ لمحوں کے بعد وہ خود کو سمبھال کر کنویں سے نکلنے کا راستہ سوچتا ہے اتنے میں صبح کو روشنی کی پہلی کرن اس کے کے چہرے پر پڑتی ہے خوشی کی اک لہر اس کے جسم میں دوڑ گئی یا خدا تیرا شکر ہے اس نے آس پاس کا جائزہ لیا سامنے ہی درخت کی ٹہنیاں دکھائی دی اس نے ان کا جائزہ لیا وہ مظبوط تھی ان کو جوڑ کر اک رسی بنائی جا سکتی تھی 

اس نے کام کرتے ہوئے خود کو چوکس بھی رکھا کیونکہ وہ جو چیز بھی تھی مری نہیں تھی صرف بھاگی تھی لیکن اس دوران ایسا کوئی واقعہ نہ ہوا اس نے رسی کو کو زور سے اوپر کی طرف پھینکا رسی کنویں سے باہر آ گئی اس نے رسی کے ساتھ اک مظبوط لکڑی کو جوڑا تھا تاکہ ہو کسی چیز کے ساتھ اٹک جائے اور رسی کے سہارے وہ اوپر چڑھ سکے اس نے اوپر رسی پھینک کر اسے کھینچا گویا رسی کسی چیز کے ساتھ اٹک چکی چھی اس نے اسے زور سے کھینچا مگر رسی مظبوطی سے اٹکی تھی اس نے اللہ کا نام لیا اور اوپر چڑھنے لگا وہ خافی اوپر چڑھ آیا تھا اچانک اس پر اسی کالی بلی نے چھلانگ لگا دی

 سعد نے خود کو سمبھالا مگ بلی نے اس کر ہاتھوں پر پنبجے مارے جس سے اس کے ہاتھ زخمی ہو گئے اس نے اک ہاتھ سے رسی خو مظبوطی سے پکڑا اور دوسرے ہاتھ سے بلی کو زور سے پکڑ خر نیچے کنویں میں پھینک دیا وہ جلدی سے اوپر چڑھنے لگا اسے اب تک معلوم نہ ہوا تھا کہ رسی اتنی مظبوطی سے خس چیز سے اٹکی ہے اس نے کنویں کے کنارے پر ہاتھ رکھا اور تبھی اسے اوپر رسی پکڑے وہی رات والی لڑکی دکھائی دی اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس کے پیچھے پڑ گئی ہے اس نے جلدی سے اوپر چڑھنا چاہا مگر لڑکی نے اس کے ہاتھوں پر زور سے پیر مارے وہ لڑکھڑاتے ہوئے بچا

تم تم کیا چاہتی ہو کون ہو تم میرے دوست کو کیوں مارا کیا قصور تھا اس کا (وہ چیخا)
لڑکی نے کوئی جواب نہ دیا وہ وحشیانہ انداز میں مسکرا رہی تھی اب کیا کروں سعد سوچنے لگا لڑکی اس کے ہاتھوں پر زور زور سے پیر مار رہی تھی اسے گرانے کے لیے مگر وہ مظبوطی سے پکڑے ہوئے تھا اس نے ایک ہاتھ سے لڑکی کا پیر پکڑ لیا اور اسے زور سے کھینچ کر کنویں میں دھکیل دیا وہ نیچے جا گری
سعد جلدی سے اوپر چڑھا اور اک طرف بھاگنے لگا جس طرف وہ بھاگ رہا تھا جنگل مزید گھنا ہوتا جا رہا تھا اگر وہ رکتا سوچنے کے لیے تو اتنے میں اس کا بھی وہی حال ہوتا جو اس کے دوست کا ہوا تھا وہ بھاگتے بھاگتے اک جھیل پر آ گیا

 پیاس سے اس کا گلا خشک تھا اس نے اردگرد دیکھ کر جھیل سے پانی پینے کے لیے اس میں دونوں ہاتھ ڈالے تبھی اسے اس جھیل میں اپنے ٹھیک پیچھے اک سائے کا عکس دکھائی دیا وہ جلدی سے اٹھا اور پیچھے مڑا مگر وہاں کوئی نہیں تھا ہر طرف مکمل خاموشی تھی اسے لگا وہ پاگل ہو جائے گا عجیب بات یہ بھی تھی کہ وہ جب سے آیا تھا اس کی گھڑی کا وقت رک گیا تھا اور کیونکہ یہ اک جنگل تھا یہاں جنگلی جانوروں کو ہونا چاہیئے تھا مگر اب تک اس کا ان سب سے واسطہ نہیں پڑا تھا اس نے سوچا وہ کب تک بھاگے گا مگر کیا کر سکتا تھا اس نے دوبارہ اک طرف تیز تہز قدم سے چلنا شروع کر دیا اسے سامنے ہی اک لڑکی دکھائی دی جو نیچے بیٹھی ہوئی تھی مگر یہ وہ لڑکی نہیں تھی سعد ڈر گیا اسے لگا آج موت اسے نہیں چھوڑے گی وہ بھاگنے ہو والا تھا کہ لڑکی نے اسے آواز دی
رکو بھاگو مت 

سعد کے اوسان خطا ہو گئے وہ پیچھے مڑا
وہ لڑکی بے حد حسیں تھی لمبے سنہرے بال بھوری آنکھیں سفید لباس وہ کسی پری سے کم نہ تھی مگر سعد کو جان بچانے کی پڑی تھی اس نے سوچا اگر یہ بھی کوئی اور مخلوق ہوئی تو ___
آپ صحیح سوچ رہے ہیں میں انسان نہیں ہوں (لڑکی نے کہا)
سعد کو پسینے چھوٹ پڑے ممممم میں نے تت تو کچ کچھ ننہیں کککک کہا( اس کے الفاظ کانپ رہے تھے )
لڑکی ہنس پڑی( آپ یہ بات سوچ رہے تھے )
سعد نے جواب نہ دیا وہ تو مارے دہشت کے کانپ رہا تھا اس نے سوچا بھاگ جائوں مگر لڑکی نے یہ بھی بول دیا کے بھاگنے کی ضرورت نہیں ہے ..


 بھیانک خاموشی ( قسط نمبر 2 آخری)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں



Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں