ایک معصوم قاتل کی کہانی

Moral Stories in Urdu

ایک معصوم قاتل کی کہانی

کلیم شام کو دفتر سے گھر پہنچا تو جیسے ہی آرام کے لیے بستر پر لیٹا، اس کا بڑا بیٹا کمرے میں داخل ہوا۔ کلیم کو سلام کر کے بولا " بابا، آپ کو دادی اماں بلا رہی ہیں." کلیم یہ سنتے ہی اٹھ کر والدہ کے کمرے میں چلا گیا، سلام کر کے ان کے پاس ہی کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس کی والدہ بولیں " بیٹا، مجھے اندازہ ہے کہ تمہیں دن بھر کی تھکن کے بعد آرام کی ضرورت ہے مگر آج تمہارے ابا جی کی کیفیت دیکھ کر مجھے ڈر لگ گیا ہے کہ خدانخواستہ اب بھی مکمل چیک اپ نہ کرایا گیا تو کچھ غلط ہی نہ ہو جائے۔" کلیم بولا " اماں جی، گزشتہ ماہ کافی سارے ٹیسٹس کرائے تھے، ڈاکٹر کو کچھ بھی سمجھ نہیں آئی۔ بظاہر کوئی سنگین مسئلہ نہیں ہے۔ بہر حال، میں اسی ہفتہ چھٹی لے کر ابا جی کو بڑے ہسپتال لے جاتا ہوں، شاید کسی بیماری کی تشخیص ممکن ہو۔"

کلیم نے اگلے روز تین دن کی چھٹی لی اور والد صاحب کو بڑے ہسپتال لے گیا۔ وہاں نئے سرے سے علاج شروع کیا گیا۔ پہلے مرحلہ میں کافی سارے ٹیسٹس کا کہا گیا۔ دو دن ٹیسٹس میں لگ گئے۔ تمام رپورٹس آنے کے بعد سینئر ڈاکٹر نے رپورٹس چیک کیں تو اسے بھی حیرت کا سخت جھٹکا لگا، مریض کی کیفیت سے متعلق کوئی بھی علامات رپورٹس میں کہیں ظاہر نہ ہوئیں۔ ڈاکٹر نے کلیم سے کہا " مریض کی عمر کے لحاظ سے بلڈ پریشر، شوگر وغیرہ تقریباً معمول کے مطابق ہیں۔ دل اور دیگر اعضائے رئیسہ کا کسی بھی قسم کا کوئی پیچیدہ مسئلہ نہیں ہے۔ بظاہر، تمام رپورٹس مریض کی بہتر صحت کی غماز ہیں۔ جو کیفیت آپ نے بتائی ہے، مجھے اس کی ایک ہی وجہ سمجھ آتی ہے، میں اپنے ایک دوست ڈاکٹر سے اس حوالے سے ضروری مشاورت کر کے اپنی حتمی رائے دو تین دن تک دوں گا۔ آپ کال کر کے ذاتی طور پر میرے ساتھ رابطہ کر سکتے ہیں۔ وقتی آرام کے لیے دوا لکھ دی ہے، جب تک کسی بھی بیماری کی تشخیص نہیں ہو جاتی، اسے جاری رکھیں۔ "

تین دن بعد کلیم نے ڈاکٹر کو کال کی تو ڈاکٹر نے اسے بتایا کہ اس کے والد صاحب کو ڈیپریشن کا مسئلہ ہے، اس کی وجہ جاننے تک مکمل علاج ممکن نہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ کسی اچھے ماہر نفسیات کو چیک کرایا جائے۔ کلیم کے استفسار پر ڈاکٹر نے اپنے ماہر نفسیات ڈاکٹر کے بارے میں معلومات فراہم کیں اور جلد از جلد چیک کرانے کی تاکید کی۔

کلیم نے اگلے روز ماہر نفسیات سے ملاقات کے لیے کال کی تو اسے کہا گیا کہ پہلے اکیلے خود ہی ملنے آئے۔ وہ مقررہ وقت پر کلینک پہنچا۔ ڈاکٹر سے رسمی سلام و دعا کے بعد گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا تو کلیم نے اپنے والد صاحب کی مکمل کیفیت بتائی۔ ڈاکٹر کے استفسار پر اس نے تفصیلات بتائیں " ہم نے بچپن سے ہی والد صاحب کی کیفیت اس طرح ہوتے دیکھی ہے۔ اس کا دورانیہ کم ہوتا تھا، لمبے وقفے کے بعد ایسی کیفیت ہوتی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ دورانیہ بڑھتا گیا اور درمیانی وقفہ کم ہوتا چلا گیا۔ جب تک ملازمت کرتے ریے، صورتحال کسی حد تک تشویشناک نہیں تھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد جوں جوں وقت گزرا، صورتحال زیادہ پریشان کن ہوتی چلی گئی۔ اب ہر دوسرے تیسرے دن دو دو گھنٹے بالکل بے سدھ بستر پر پڑے رہتے ہیں، تکلیف کی شدت کی وجہ سے آنسوؤں کا سیلاب امڈ آتا ہے۔" ڈاکٹر نے پوچھا " آپ کے علم میں کوئی ایسا واقعہ ہے جس نے آپ کے والد صاحب کو دکھی کیا ہو؟" اس پر کلیم نے بتایا " ہمارے علم میں ایسا کچھ نہیں ہے۔

 دراصل ہمارے والد بچپن میں ہی اپنے آبائی گاؤں سے شہر آگئے تھے، شادی کے بعد یہیں شہر میں بس گئے۔ کسی خوشی غمی کے موقع پر گائوں جانا بھی ہو تو اکثر اکیلے ہی جاتے ہیں اور حاضری لگوا کر واپس آجاتے ہیں۔ ہم بہن بھائی بھی ایک دو بار ہی ان کے ساتھ گائوں گئے، جب وہ اپنی والدہ کی قبر پر گئے تھے۔" رویہ سے متعلق ڈاکٹر کے سوال پر کلیم بولا " ابا جی بہت ہی کم گو ہیں، دھیمے لہجہ میں بات کرتے ہیں، زیادہ سوشل نہیں ہیں، دو چار دوست ہیں، رش اور شور والی جگہوں اور محافل میں نہیں جاتے۔ " ڈاکٹر نے تمام اہم نکات اپنے پاس نوٹ کر لیے اور اگلی نشست میں مریض کو بھی ساتھ لانے کا کہا۔

کلیم گھر آیا تو والدہ کو من و عن تمام تفصیلات بتائیں، ان سے کہا کہ اگر اس حوالے سے آپ کے علم میں کچھ ہے تو بتا دیں تا کہ ڈاکٹر کے علم میں لایا جا سکے۔ اس پر اس کی والدہ بولیں " مجھے آج تک اس بات کی سمجھ نہیں ائی، نہ آپ کے ابا جی نے میرے پوچھنے پر کبھی بتایا کہ ان کے والد صاحب کی قبر کہاں ہے، وہ کبھی ان کی قبر پر کیوں نہیں گئے۔ وہ اپنی ماں کا تذکرہ بھی بہت کم کرتے ہیں، یاد کریں تو بس یہی کہتے ہیں کہ میری ماں بہت عظیم خاتون تھیں، جنت میں ان کا بہت پرسکون گھر ہوگا، یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھیں میں نمی اتر آتی ہے۔"

کلیم رات کو اپنی والدہ کے ساتھ والد کے کمرے میں گیا تو ان کی طبیعت بہتر دیکھ کر ادھر ادھر کی باتیں شروع کر دیں۔ گپ شپ کے دوران انہیں اگلے دن ماہر نفسیات کے پاس لے کر جانے کا بتایا۔ ماہر نفسیات کا نام سنتے ہی اس کی والد کے چہرے پر یکدم شدید ناگواری کے آثار نمودار ہوئے، وہ اٹھ کر بیٹھ گئے، اس کی طرف ایسے دیکھا جیسے اس کی بات سن کر خفا ہوگئے ہوں۔ سرہانے کے ساتھ ٹیک لگا کر بولے "کیا تجھے میں پاگل لگتا ہوں؟ ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوا لے رہا ہوں، مزید تجربے نہ کرو، اب مجھے میرے حال پر چھوڑ دو، اگر آپ لوگوں پر بوجھ ہوں تو کسی اولڈ ہائوس میں چھوڑ آئو۔" کلیم کرسی سے والد کے بیڈ پر جا بیٹھا، کمال محبت و نیازمندی سے والد کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر چومے اور اپنے چہرے پر رکھ کر بولا "ابا جی! آپ تو ہمیں اپنی جان سے بڑھ کر عزیز ہیں، آپ نے ایسا سوچا بھی کیوں، ہم تو صرف آپ کی زندگی کا سکون چاہتے ہیں، اگر آپ کہیں نہیں جانا چاہتے تو ہم کوئی زبردستی نہیں کریں گے، آپ کی خوشی میں ہی ہماری خوشی ہے۔"

ڈاکٹر نے کلیم کو اسی ردعمل کا بتایا تھا، اس لیے وقتی طور پر اس معاملہ میں بظاہر چپ ہو گیا، والدہ کو بھی کہہ دیا کہ غیر محسوس انداز میں کوشش جاری رکھیں۔ دو ہفتوں کے بعد اس کے والد نے ماہر نفسیات کے پاس جانے کے لیے نیم رضامندی ظاہر کی تو وہ مزید وقت ضائع کیے بغیر انہیں کلینک لے گیا۔ ڈاکٹر نے پہلے دن مریض کے ساتھ معمول کی بات چیت کی کوشش کی، اس میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ ڈاکٹر کو اسی کی امید تھی لہذا اس نے کلیم کو ایک ہفتہ بعد پھر اگلے سیشن کے لیے آنے کا کہا، یہ بھی بتا دیا کہ بہتر نتائج کے لیے دو تین ماہ یا اس بھی زیادہ وقت لگ سکتا ہے، اس کا انحصار مریض کے تعاون کی سطح اور مسئلہ کی گہرائی پر ہے۔

کلیم ہر ہفتے اپنے والد کو کلینک پر لے کر جاتا، گھنٹہ بھر گفتگو کا سیشن جاری رہتا۔ آہستہ آہستہ اس کے والد اپنے ڈاکٹر کے ساتھ مانوس ہو تے گئے، جوں جوں اپنائیت اور دوستی بڑھی، وہ ذاتی نوعیت کی باتیں بھی ڈاکٹر کے ساتھ شیئر کرنے لگے۔ ڈاکٹر اپنے طریقے سے مسئلہ کی جڑ تک پہنچنے کی کوشش میں تھا، اس دوران اسے لگا کہ مسئلہ مریض کے بچپن میں کہیں پوشیدہ ہے، اس کے تانے بانے کلیم کے دادا کے ساتھ ملتے ہیں۔ ڈاکٹر نے کلیم کو کہا کہ کسی طرح حیات صاحب کو قائل کریں وہ اپنے والد کے ساتھ گزرے دنوں کی یادیں کسی کے ساتھ شیئر کرنے پر تیار ہو جائیں، تب ہی مسئلہ کی تہہ تک پہنچا جا سکتا ہے۔

دو ماہ تک کلینک پر جانے کے بعد ایک سیشن میں حیات صاحب ڈاکٹر کے ساتھ اپنی زندگی کے ابتدائی سالوں کے بارے میں بات کرنے لگے۔ انہوں نے ایک گہری سانس لے کر اپنی زندگی کی کہانی سنانا شروع کی۔ " زندگی شروع دن سے میرے لیے مہربان نہیں رہی۔ میرے والدین کی شادی ان کی دادی کی خواہش پر طے ہوئی تھی۔ میری نانی اس شادی کے سخت خلاف تھیں کیونکہ میرا باپ نشہ اور جوا کی لت میں مبتلا تھا۔ میرے نانا نے اپنی والدہ کی خواہش کے احترام اور بھتیجے کو مرحوم بھائی کی نشانی کہہ کر اپنی بیٹی کا رشتہ دے دیا تھا، ان کا یہ بھی خیال تھا کہ میرا باپ شادی کے بعد اپنی روش تبدیل کر لے گا۔

 میری والدہ نے اپنی مرضی کے خلاف کیے جانے والے فیصلہ کے سامنے صرف اپنے باپ کی خاطر سر جھکا دیا تھا۔ افسوس، شادی کے فوراً بعد ہی میری والدہ پر ظلم کے پہاڑ ٹوٹنا شروع ہوگئے۔ میرا باپ روزانہ میری ماں پر تشدد کرتا، میں نے کچھ ہوش سنبھالا تو یہی معمول دیکھا۔ میری والدہ بہت صبر والی خاتون تھیں، جب ظلم سہنے کی سکت نہ رہتی تو چند دن میکے چلی جاتیں، پھر میرے باپ کی منت سماجت اور میرے نانا کی تسلی تشفی پر واپس گھر آجاتیں، دوسرے تیسرے دن پھر وہی مار کٹائی شروع ہو جاتی۔ میں پانچ چھ سال کا ہوں گا جب میری والدہ طویل عرصہ کے لیے میرے نانا کے گھر چلی گئیں۔

 آٹھ دس ماہ وہاں رہیں، اس بار کوئی بھی میری والدہ کو میرے والد کے ساتھ بھیجنے کے حق میں نہیں تھا لیکن میرے والد نے ایک دن میرے نانا کے پائوں پکڑ کر ایسے واسطے دیئے اور وعدے کیے کہ ان کا دل نرم پڑ گیا، میری والدہ اور نانی اب بھی راضی نہیں تھیں، بڑے ماموں نے بھی نانا کو روکا مگر میرے باپ نے مسکینی اور خستہ حالی کا رونا رو رو کر میرے نانا کو منا لیا، ان کا فیصلہ میری مظلوم ماں کے لیے کسی آسمانی حکم سے کم نہیں تھا، وہ چپ چاپ میرے باپ کے گھر چلی گئیں۔ " یہ کہہ کر حیات صاحب پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ ڈاکٹر نے انہیں پانی پلایا اور ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر حوصلہ دینے کی ناکام کوشش کی۔ ڈاکٹر نے محسوس کیا کہ مزید گفتگو تکلیف دہ ہوگی، اس نے حیات صاحب کی طبیعت بہتر ہونے پر اگلے ہفتہ آنے کا کہہ کر سیشن ختم کر دیا۔

اگلے ہفتے سیشن کے شروع میں ہلکی پھلکی گپ شپ کے بعد حیات صاحب نے دوبارہ زندگی کی کتاب کھول لی، ورق گردانی کرتے ابتدائی دردناک ترین باب پر رک گئے، نم دیدہ، اپنی کہانی سنانا شروع کر دی " میری والدہ کو گھر آئے تیسرا دن تھا، سخت سردی کا موسم تھا، شاید موسم کی شدت کی وجہ مجھے تیز بخار تھا۔ میری والدہ شام کو جلدی کام نمٹا کر میرے پاس بستر میں لیٹنے آگئیں، بخار کی وجہ سے میں سو نہیں پا رہا تھا، والدہ محبت و شفقت سے مجھے اپنے ساتھ لپٹائے پیار کر کے سلانے کی کوشش کر رہی تھیں، اسی دوران زور سے دروازہ کھلا اور میرا باپ کمرے میں داخل ہوا۔ آتے ہی میری والدہ کو چائے بنانے اور کھانا لانے کا کہا۔ میری والدہ نے بس اتنا کہا کہ حیات کو تیز بخار ہے، اس کی آنکھ لگتی ہے تو اٹھتی ہوں۔ یہ سنتے ہی میرے باپ کو جیسے آگ لگ گئی،

 اس نے میری والدہ کا بازو پکڑ کر بستر سے نیچے گھسیٹا تو میں بھی ان کے ساتھ زمین پر جا گرا۔ اس جلاد نے میری والدہ کو بری طرح پیٹنا شروع کر دیا، میری والدہ کمرے سے باہر نکل کر بھاگ سکتی تھیں مگر مجھے بخار میں جلتا چھوڑنا ان کی راہ کی دیوار بن گیا۔ وہ مجھے اٹھانے کے لیے جھکیں تو اس ظالم نے ان کا دوپٹا پکڑ لیا، میرے باپ نے مجھے دھکا دے کر دور پھینک دیا، دوپٹہ گلے کا پھندا بن گیا، میری والدہ شور بھی نہ کر سکیں، بے بسی کی حالت میں ہاتھ پاؤں مارے مگر بے سود، میں نے روتے ہوئے باپ کو بار بار کہا کہ میری ماں کو چھوڑ دو، اس ظالم پر کوئی اثر نہ ہوا، گالیاں دیتے کہہ رہا تھا کہ آج میں تمہارا قصہ ہی ختم کرتا ہوں، باپ کے گھر جا کر مجھے ذلیل کراتی ہو۔

 سانس بند ہونے سے میری والدہ زمیں پر گر گئیں اور ان کی گردن ایک طرف ڈھلک گئی، میرا باپ اسی حال میں چھوڑ کر کمرے سے باہر چلا گیا، میں والدہ کے پاس پہنچا تو انہیں آوازیں دینے لگا، شاید ماں کی آخری سانسیں چل رہی تھیں جب انہوں نے ہلکے سے اشارے سے مجھے اپنی طرف بلایا، میں ماں کے سینے سے لگ کر بلک بلک کر رونے لگا، مجھے اپنا بخار بھول گیا تھا۔"

والدہ کے بعد میرے نانا مجھے اپنے گھر لے گئے۔ باپ پر کیس چلا تو میرے سوا کوئی عینی شاہد نہ ہونے کی وجہ سے جلد ہی خارج کر دیا گیا۔ میرے نانا نے مجھے مزید تکلیف سے بچانے کے لیے اس کیس میں بطور گواہ شامل ہی نہیں کیا۔ میری نانی اپنی بیٹی کا صدمہ برداشت نہ کر سکیں،چند ماہ میں ان کی وفات ہوگئی، مرنے سے پہلے میرے نانا کو وصیت کر گئیں کہ مجھے میرے بڑے ماموں کے پاس شہر بھیج دیا جائے۔ یوں نانی کے انتقال کے بعد میں ماموں کے پاس شہر آگیا۔ ماموں کی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی، ممانی میری والدہ کی گہری اور مخلص سہیلی تھیں، انہوں نے مجھے اپنی اولاد سمجھ کر پالا پوسا، میری ہر ضرورت اور خواہش کا خیال رکھا۔ میں، اس پر آسائش ماحول میں رہ کر بھی اپنی والدہ کا دکھ نہ بھول سکا، مجھے اکثر سوچیں آتیں کہ میری وجہ سے میری ماں مجھ پر قربان ہوگئی، ماں جی میری وجہ سے اٹھنے میں دیر نہ کرتیں، مجھے ساتھ لے کر جانے کے لیے نہ رکتیں، تو کبھی قتل نہ ہوتیں،

 اس قتل میں اپنے باپ کے ساتھ میں بھی شریک جرم ہوں، اسی احساس نے مجھے اب تک سکون سے جینے نہیں دیا۔ میں گائوں نہیں جاتا کی گائوں کی فضا میں سانس لیتے ہی میرا قاتل ہونے کا احساس شدت پکڑ لیتا ہے، ماں کی قبر پر جاکر دعا کم، اور معافیاں زیادہ مانگتا ہوں، واپس آکر کئی دن تک اسی بھیانک رات کے روح کو بھسم کر دینے والے خواب مسلسل دیکھتا رہتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب! اب میں تھک گیا ہوں، میرا باپ تو اس ظلم کے بعد جلد ہی موت سے ہم کنار ہو کر نجات پا گیا، میں جینے کا عذاب آج بھی سہہ رہا ہوں۔" حیات صاحب کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے، ان کی ہچکی بندھ گئی تھی، وہ زار زار رو رہے تھے۔

ڈاکٹر کواپنے مریض کی کیفیت اور ڈیپریشن کی اصل وجہ سمجھ آگئی تھی۔ اس نے دو دن بعد پھر سیشن رکھا اور حیات صاحب کو سمجھاتے ہوئے گویا ہوا " آپ کی تکلیف کی اصل وجہ آپ کا احساس جرم ہے، اس جرم کا احساس جو کسی بھی طرح آپ نے کیا ہی نہیں۔ اس احساس نے کبھی آپ کو اس نہج پر سوچنے ہی نہیں دیا کہ آپ کے والد نے اپنی نظر میں بے عزتی اور ذلت کا بدلہ لینے کے لیے آپ کی والدہ کا قتل کیا۔ اس میں آپ کا کوئی عمل دخل نہیں، آپ نے تو ایسا ہونے سے روکنے کے لیے اپنی تئیں کوشش بھی کی تھی۔ 

اگر منصفانہ انداز سے دیکھا جائے تو اس قتل میں آپ کے نانا اور ان کی والدہ پر فرد جرم عائد کی جاتی کہ انہوں نے آپ کے باپ کی بری عادات کے باوجود اپنے رشتے نبھانے کے لیے سراسر ظلم پر مبنی فیصلہ کیا، آپ کی والدہ نے کمزور یا فرماں بردار ہونے کی وجہ سے ایسا ہونے دیا، اگر کوئی مضبوط سہارا اور زیرک مشیر مل جاتا تو وہ کبھی اس چکی میں پس کر جان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھتیں۔ اس عذاب سے چھٹکارا پانے کے لیے آپ کو میرا کہنا ماننا پڑے گا، اب کلینک سے چھٹی والے دن میں آپ لوگوں کے ساتھ آپ کے گاؤں قبرستان جائوں گا، آپ دل کھول کر وہاں بولیں گے اور اس خود ساختہ عذاب سے نجات پا کر ایک پر سکون زندگی جیئیں گے، یاد رکھیں، اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو یہ عزاب نجانے مزید کتنی نسلوں کو کھا جائے گا۔"


ٹھیک چار دن بعد حیات صاحب، کلیم اور ڈاکٹر گائوں کے قبرستان پہنچے۔ کلیم اور ڈاکٹر گاڑی کے پاس رک گئے، حیات صاحب پہلے اپنی ماں کی قبر پر گئے۔ فاتحہ پڑھی اور ماں کی قبر سے لپٹ کر روتے ہوئے کہنے لگے "ماں جی، آپ اس بات کی گواہ ہیں کہ میں نے اپنے جلاد باپ کو آپ پر ظلم سے روکا تھا، اس کے جانے بعد آپ کے سینے سے لپٹ کر آپ کی زندگی کی دعائیں مانگی تھیں۔ آپ کے جدائی میں کوئی لمحہ آپ کی یاد سے خالی نہیں گزارا، اگر کسی بھی حوالے سے میں آپ کا مجرم ہوں تو میرا عزاب کبھی ختم نہ ہو، ماں جی! آپ کے دکھ اور محبت میں، میں نے آج تک آپ کے قاتل سے صلح نہیں کی۔ " حیات صاحب کو ایسے لگا جیسے ان کی ماں جی نے ان کا سر اپنی گود میں لے لیا ہو، ان کے بالوں میں اپنی انگلیوں سے کنگھی کر رہی ہوں اور بار بار ماتھا چوم کر کہہ رہی ہوں "میرا راج دلارا، اللّٰہ کی امان میں رہے، زندگی کی ساری خوشیاں میرے جگر کے ٹکڑے کی راہ دیکھیں، تو سدا سلامت رہے، میں اپنے حیات سے راضی اور خوش ہوں، میرے حیات کی حیاتی ہو۔ آمین ثم آمین"


 حیات صاحب ماں کی قبر کا بوسہ لے کر اٹھے، مسکرا کر ماں جی کو سلام کیا، اور زندگی میں پہلی بار باپ کی قبر پر جا کھڑے ہوئے، زندگی کی بھیانک ترین رات کا سارا منظر ان کی نگاہوں میں گھوم گیا، تکلیف کی وجہ سے زمین پر اکڑوں بیٹھ گئے، آنکھ سے برستے ساون نے زمیں گیلی کر دی، چپ چاپ روتے ریے، اسی کیفیت میں نگاہیں باپ کی قبر کے سرہانے ڈالیں اور بے ساختہ منہ سے نکلا " کسی کی بد بختی اور عزاب کی اس سے بڑھ کر اور کیا صورت ہو سکتی ہے کہ وہ مر کر بھی اپنی اولاد کی دعا میں کبھی شامل نہ ہو، کاش! میں، اپنی ماں جی کے قاتل کا بیٹا نہ ہوتا۔"
ختم شد

مجھے تم سے پیار تھا (مکمل اردو کہانی)


Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories for adults only, Urdu stories
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں