حلیمہ چار بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی اس کا ایک تایا اور ایک چچا تھے دونوں اپنے بیٹوں کے لیے حلیمہ کا رشتہ مانگ رہے تھے یہ ایک محنت مزدوری کرنے والا خاندان تھا کوئی فیکٹری میں کام کرتا کوئی بٹھوں پر غرض ہر کوئی مختلف جگہوں پر کام کر کے کما رہے تھے
حلیمہ اور اس کا تایا زاد سھیل ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے حلیمہ کی ماں کا خیال تھا حلیمہ کی ماں کا خیال تھا حلیمہ کا اور سھیل کا ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں تو فیصلہ سھیل کے حق میں دیا جانے تو بہتر ہوگا وہ بھی اپنے خاندان کاہے کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا جبکہ حلیمہ کا باپ یہ رشتہ اپنے چھوٹے بھائی کے بیٹے آصف کو دینے کے حق میں تھا آصف اور سھیل دونوں اچھے تھے خرابی دونوں میں کوئی نہیں تھی بات حلیمہ اور سھیل کی پسند تھی حلیمہ کا والد ایک کشمکش میں مبتلا تھا جس کی وجہ سے بات کہیں بھی بنتی نظر نہ آتی سھیل کی ایک کزن سمیعہ سھیل کو پسند کرتی تھی وہ روز دعائیں مانگتی خدا کرے حلیمہ اور سھیل کا رشتہ نہ ہو اس دوران ایک انہونی ہوگئی جو نہیں ہونی چاہیے تھی یہ ایک عام دنوں کی طرح ایک عام دن تھا مرد حضرات اپنے کاموں پر گئے ہوئے تھے حلیمہ نے جوں ہی کھانا کھایا اسے لیے میں درد اٹھا اور وہ بیہوش ہو گئی ماں نے جو یہ حالت دیکھی چیختی ہوئی باہر نکلی کوئی ہے خدا کا بندا جو میری بیٹی کو ہسپتال لے کر چلے اتفاق سے حلیمہ کا ایک خالہ زاد کزن جو اس دن کام پر نہیں گیا تھا خالہ کی چیخوں پر باہر نکل آیا اسکا گھر ساتھ ہی تھا وہ جلدی جلدی خالہ کے ساتھ اندر گیا حلیمہ کو دیکھا اس کے اوسان خطا ہو گئے وہ جلدی دوڑا گاڑی کرنے جتنا جلدی ہوسکے حلیمہ کو ہسپتال پہنچایا جا سکے حلیمہ کو ہسپتال لے جانے کے بعد ڈاکٹرز کے چیک اپ کے بعد یہ انکشاف ہوا کھانے میں زہر تھا اس کے باپ اور بھائیوں کو بھی اطلاع دی گئی وہ روتے پیٹتے ہسپتال پہنچ گئے سھیل بھی خبر ملتے ہی ہسپتال پہنچ گیا بہت دیر ہو چکی تھی زہر نے اپنا اثر دکھا دیا حلیمہ بیہوشی کی حالت میں ہی دنیا سے چلی گئی ایک کہرام مچ گیا کسی کو کچھ بی سمجھ میں نہیں آرہاتھا زہر کس نے دیا کون دشمن تھا یہ معمہ حل نہ ہو سکا ایک ہی بیٹی تھی ماں باپ تو نیم پاگل ہو گئے کوئی خوش تھا تو وہ سمیعہ تھی اس کے دل پر شادیانے بج رہے تھے کس کے دل پر کیا گزری اس سے سمیعہ کو کیا غرض تھی سھیل ابھی تک غمزدہ تھا
سمیعہ ہر وقت مختلف طریقوں سے سھیل کی دلجوئی میں لگی رہتی بہت کوششوں کے بعد اس نے سہیل کے دل میں آخرکار جگہ بنا ہی لی اب وہ سمیعہ کے بارے میں سوچنے لگا اس کے والدین بھی اب سمیعہ کو بہو بنا نے کا سوچ رہے تھے انہوں نے سھیل کی مرضی سے سمیعہ کا رشتہ مانگا تو انہوں نے ہاں کردی ایک تو رشتیداری تھی سھیل بھی دیکھا بھالا تھا سب سے بڑہ کر یہ بات سمیعہ اسے پسند کرتی تھی جھٹ منگنی پٹ بیاہ ہو گیا سمیعہ سھیل کو پاکر بہت خوش تھی اسے دنیا جہاں کا خزانہ مل گیا سھیل کی شادی کے بعد جلد ہی اس کے والد کا انتقال ہو گیا بہن کوئی تھی نہیں صرف ایک بھائی تھا جس کا نام رضوان تھا سمیعہ شروع کے دنوں میں بہت اچھی رہی آہستہ آہستہ اس نے اپنا رنگ دکھانا شروع کردیا اسے ساس اور دیور ایک آنکھ نہ بھاتے دیور بچارا سارا دن مزدوری پر ہوتا اور ماں سارا دن گھر پر مفت روٹیاں توڑنے کے طعنے سنتی رہتی دیور بچارا مزدوری بھی گھر میں ہی دیتا ایک ساتھ رہتے کھا نا وغیرہ سارا کا م سمیعہ کو کرنا پڑتا ساس بچاری بوڑہی ہو گئی تھی پہلے لوگوں کے گھروں میں کام کرتی تھی اب اس نے چھوڑ دیا اس کے ہڈیوں میں پہلے جیسی طاقت نہیں رہی تھی اب وہ بیمار رہنے لگی تھی اس کا خیال تھا ساس اور دیور الگ ہو جائیں مگر سھیل اس بات کے حق میں نہ تھا وہ اپنی ماں اور بھائی سے بہت پیار کرتا تھا گرد پر ہوتا سمیعہ کو ڈانٹ بھی دیتا اس دوران سمیعہ ایک بیٹی اور ایک بیٹے کی ماں بن گئی اولاد کی محبت نے سھیل کو سمیعہ کے اور قریب کردیا اب ماں اور بھائی سھیل کو بھی کھٹکنے لگے تھے آدھر آصف کی شادی اپنی خالہ زاد کزن بشریٰ سے ہو گئی آصف کی قسمت اچھی تھی بشریٰ ایک بہترین بیوی ثابت ہوئی اس کا رویہ گھر والوں کے ساتھ بہت اچھا تھا اس کی بھی اولاد ہو گئی وہ لوگ ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے ادھر سمیعہ نے ساس اور دیور کا جینا حرام کیا ہوا تھا ایک دن آیا واقعہ ہوا جس نے سھیل کی آنکھیں پوری طرح کھول دیں ہوا یہ جس بٹھے پر یہ لوگ کام کرتے تھے وہیں ان کا ایک کزن ٹریکٹر چلاتا تھا یہ دونوں بھائی کام پر اپنے وقت پر پہنچ جاتے مگر ان کے کزن کو دیر ہو جاتی سیٹھ نے سھیل کے بھائی رضوان سے کہا تمہارے کزن کو روز دیر ہو جاتی ہے اور تم ایک ذمیوار آدمی ہو لہذا ٹریکٹر اب تم چلائو گے تمہارے کزن کو میں کوئی اور کام دے دوں گا
آخر ایک رات اسے موقع مل ہی گیا رضوان اور اسکی ماں دنیا و مافیہا سے بے خبر باہر ہی سوئے ہوئے تھے اس کا کزن گھر کے اندر آگیا اور آتے ہی رضوان پر کلھاڑی کے وار کر دیے اس کی چیخ و پکار سے اس کی ماں جاگ گئی ماں نے جو یہ منظر دیکھا چیختے ہی بیہوش ہو گئی میرے بیٹے ک مار دیا چیخ و پکار سن کر سمیعہ اور سھیل بھی جاگ گئے باہر آکر جو دیکھا اس کے اوسان ہی خطا ہوگئے اس کا کزن بھاگ گیا قریبی گھروں کے لوگ بھی آگئے سب نے مل کر رضوان اور اسکی ماں کو ہسپتال پنہچایا اس کی ماں کو یہ منظر دیکھ کر دل کا شدید دورہ پڑا تھا وہ جانبر نہ ہو سکیں رضوان کا کافی خون بہہ گیا تھا اسے خون کی شدید ضرورت تھی سھیل نے ڈاکٹروں سے کہا میرا سارا خون نچوڑ لو میرے بھائی کی جان بچا لو ماں کی موت بھائی زندگی اور موت کے درمیان اس کی دنیا لٹ گئی اس کا دل کر رہا تھا وہ زور زور سے روئے زمین آسمان بھی اس کے ساتھ روئیں رضوان کو خون کی بوتلیں لگیں اس میں کچھ بھتری آئی ڈاکٹرز نے اسےخوشخبری سنائی اب اس کی حالت خطرے سے باہر ہے اس نے خدا کا شکر ادا کیا ماں کی موت کا اسے بہت دکھ تھا وہ افسوس کرنے لگا وہ نا حق سمیعہ کے کہنے میں آگیا رضوان صحتمند ہو کر گھر آگیا سھیل اب سارا دن اس کے ساتھ رہتا سمیعہ کے ساتھ اب بے رخی برتنے لگا سھیل کے رویے نے اسے ٹھیک ٹھاک سبق سکھایا سمیعہ کے رویے میں تبدیلی آگئی رضوان جب کام پر جانے لگا تو اس نے رضوان کی شادی کا سوچا سمیعہ کے والدین اپنی دوسری بیٹی بھی اسی گھر میں بیاہنا چاہتے تھے مگر سھیل اور رضوان نے انکار کر دیا سھیل کا خیال تھا رضوان کی شادی آصف کی بیوی بشریٰ کی بہن سے کی جائے بشریٰ کا رویہ پورے خاندان کے ساتھ اچھا تھا کزن ہونے کے ناتے سب ایک دوسرے کے حال سے واقف تھے سھیل بشریٰ کی بہن کو جانتا تھا اچھی لڑکی تھی رضوان بھی راضی تھا سھیل نے آصف سے مشورہ کیا آصف سے بات ہوئی وہ بہت خوش ہوا رضوان ایک تو کزن تھا دوسرا اس میں کوئی برائی بھی نہ تھی آصف نے سسرال میں رضوان کے رشتے کی بات چلادی اس کی کوششوں سے رشتہ طئہ ہوگیا اور شادی ہو گئی رضوان کی زندگی میں خوشی کی بہار آگئی وہ لڑکی اچھی ثابت ہوئی اب جاکر سھیل کو سکون ملا مگر ماں کا غم اپنی جگہ موجود تھا سمیعہ بھی اب سدھر گئی اب آصف اپنے گھر میں خوش رضوان اپنے گھر میں سھیل اپنے گھر میں خوش وخرم زندگی گزارنے لگے
0 تبصرے