جنات کا بھیانک انتقام (قسط نمبر 1)

jin stories in urdu
 

ایک نوجوان کی کہانی جو اپنے شوق سی خاطر جناتوں کے نرغے میں پھنس گیا تھا ۔۔ جہاں سے اسکی واپسی تو ہوی مگر اسکی اپنی شکل میں نہیں۔۔۔۔۔۔

حامد کو بچپن ہی سے پرندوں کے شکار کا شوق تھا۔۔ کبھی غلیل سے کبھی تیر کمان سے۔۔۔یہی شوق جوانی تک قایم رہ گیا تھا۔ اسےصرف اسکی دادی ماں ہی منع کرتی تھی اس کام سے ۔ وہ کہتی تو ناحق بے زبانوں کا خون سر پر لیتا ہےء۔۔ دوسرے وہ بتاتی کو پتہ نہیں کس وقت کون پرندوں کے بھیس میں ہو۔۔۔بس یہی دوسری بات حامد کے سر سے گزر جاتی ۔۔ وہ یہ مانتا ہی نہیں تھا اس قسم کے خیالات کو۔۔۔ اور اب ۔اپنے،اس شوق کے لیےء اس نے ایک ایر گن بھی خرید رکھی تھی۔ وہ ہر ہفتہ کو جنگل کی راہ لیتا اور شام ڈھلے ہی گھر لوٹتا۔۔۔۔آج وہ شہر سے کافی دور نکل آیاتھا۔ نکلتے وقت ہی دادی ماں کی آواز آئی تھی۔

 حامد کسی بے زبان کو نہ مارنا۔۔‌ایک مسکراہٹ حامد کے چہرے پر آیء اور وہ ہاں کہہ کر نکل گیا۔۔‌کچھ دور نکل جانےکے بعد وہ ایک جنگل میں پہنچ رہا تھا۔ یہ علاقہ اس کے لیے نیا تھا۔ایک مناسب جگہ پر کار پارک کر کے وہ گن کاندھے پر ڈال کر جنگل میں داخل ہوگیا۔۔‌اونچے اونچے گھنے درختوں سے بھرا جنگل تھا۔ زمین پر بھی ہریالی تھی اور گھٹنوں تک اونچے پودے تھے۔ وہ انہیں پھلانگتا آگےبڑھ رہا تھا۔ کبھی کبھار ادھر ادھر خوبصورت۔ گلہریاں پھدکتی نظر آجاتی تھیں۔ ہر طرف پرندوں کا شور تھا جو جنگل کی شان ہوتی۔ ہےء۔۔اچانک اسی کچھ دور درختوں کی بیچ تھوڑا سا کھلا میدانی علاقہ جیسا نظر آیا۔ لمبے اونچے گھنے درختوں سے گھرا ایک چھوٹا سا میدان تھا زمین پر ہریالی تھی۔۔‌حامد وہیں ایک درخت کی شاخ پر چڑھ کر بیٹھ گیا تھا۔۔‌اطراف میں بہت پرندے چہچہا رہے تھے۔ اسنے بندوق کاندھے سے اتار کر آنکھ آیء پیس سے،لگا کر دور میدان میں کسی پرندے کو نشانہ بنانے کی تیاری کرنےلگا تھا۔۔ اچانک اسنے دیکھا کہ آسمان میں چیلوں کا غول منڈرا رہا تھا۔۔۔

 اسے،لگا تھا جیسے وہاں کویء مردار جانور پڑا ہوگا جس پر چیلیں منڈرا رہی ہونگی ۔۔۔۔مگر وہ چونک گیا اس بات پر کہ یہ چیلیں ایک دایرے میں نہ گھوم کر اسطرح غول بنا کر گھوم رہی تھیں جس طرح صبح آسمان میں چڑیاں یا طوطے غول بنا کر گھومتے ہیں ۔ وہ کسی ایک جگہ ایک دایرے میں نہ گھوم کر غول کا غول ایک جگہ سے دوسری جگہ منڈراتا ہے بالکل اسی طرح سے یہ چیلیں منڈرا رہی تھیں ۔ چامد کو کچھ اچنبھا تو لگا۔‌مگر جیسے ہی وہ غول میدان پر آیا۔۔ حامد نے ایک پر نشانہ سادھ کر بندوق چلادی۔۔۔۔چیل کی ایک چینخ فضا میں لہرا گیء۔۔۔ کویء چیل پھڑ پھڑاتی ہوی میدان میں گر ی تھی۔۔ حامد نے بندوق کاندھے پر لی اور درخت سے کود گیا۔۔اور اندازے سے اس جگہ پہنچ گیا جہان چیل گری تھی۔۔ اسنے دیکھا کہ وہاں چیل تو کیا کسی چیونٹی کا بھی نسان نہیں تھا۔وہ ڈھونڈ ہی رہا تھا کہ اسکی نظر زمین پر ایک جگہ پڑی۔۔ اسکی ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر دوڑ گیء۔۔۔۔‌وہاں خون پڑا تھا۔۔۔۔۔ مگر وہ خون کسی پرندے کا نہیں بلکہ کسی بڑے ذبیحے کا لگتا تھا۔۔ گویا وہاں کوی بڑا جانور ذبح کیا گیا ہو۔۔ پھر خون کے نشان آگے جاکر درختوں میں گم ہو گےء تھے۔۔۔حامد کے کان میں دآدی کے الفاظ گونجے۔ " پتہ نہیں پرندوں کے بھیس میں کون ہو"...وہ واپس پلٹ گیا اور اپنی کار کی طرف جانے لگا۔۔

 کچھ دیر چلنے کے بعد اسے احساس ہوا کہ وہ شاید راستہ بھٹک گیا ہو کیوں کہ وہ گھم پھر کر واپس اسی جگہ آجا رہا تھا جہاں وہ درخت پر چڑھا تھا۔ اس بار وہ وہیں رک گیا ۔ اسے یاد آیا کہ اسکے آبایء گاوں میں ایک اجمل چاچا رہتے تھے وہ اکثر بتایا کرتےتھے کہ کبھی جنگل میں ایسا لگے تو سمجھ لو کہ چکوے نے تمہارا راستہ بھلا دیا ہے ( چکوا یعنی ایسی ہستی جو نظر نہ آکر تمہیں راستہ سے روک دیتی ہے اور تم گھوم پھر کر وہی آجاتے ہو جہاں سے چلے تھے۔۔یہ ایک طرح کی توہم پرستی ہی تھی) آجمل چاچا نے اس سے باہر نکلنے کا توڑ بھی بتایا تھا۔۔ کہ اگر تم قو ایسا یقین ہو جاےء تو وہیں فورا زمین پر پیشاب کے لیے بیٹھ جانا چاہیے۔ بیشاب سے فارغ ہوتے ہی تمہیں راستہ مل جایگا۔۔۔اجمل نے وہی کیا۔ پانچ منٹ بعد وہ اپنے صحیح راستے پر تھا ۔ ( قاراین یہاں میں آپکو بتاتا چلوں کہ چکوا وغیرہ کچھ نہیں ہوتا جیسا کہ مجھے بعد میں جڑی بوٹیوں پر کویء کتاب پڑھنے پر پتہ چلا تھا کہ جنگل میں ایک جڑی بوٹی ہوتی ہے ۔ اگر وہ پھلانگنے میں آجاے تو ذہن پر ایسا اثر کرتی ہے کی انسان کو راستہ نہیں سوجھتا۔۔ وہ گھوم پھر کر وہیں آجاتا ہے جہاں سے چلا تھا۔۔اسی میں اسکا توڑ یہ بتایا گیا تھا کہ ایسا جب محسوس ہو تو کم سےکم پانچ منٹ کے،لیے وہیں زمین پر اکڑوں بیٹھ جایں ۔۔ 

بوٹی کا اثر ذایل ہو جاتا ہے۔ بعد کے ماہرین نے بیٹھنے کےلیے بیشاب کے طریقہ کو رایج کر دیا تھا۔۔ بحر حال جڑی بوٹیوں کے ماہرین اس پر زیادہ روشنی ڈال سکتے ہیں) اسے کچھ دور پر اپنی کار نظر ایء تھی۔ یہان راستہ میں کہیں کہیں پ نی جمع تھا چلتے چلتے یون ہی اسکی نظر پانی پر پڑی اسمیں اسکو اپنا عکس نظر آرہا تھا ۔ اسنے دیکھا کہ دور آسماں میں چیلوں کا غول اس کے سر کے عین اوپر منڈرا رہا تھا۔۔۔اسنے اچانک سر اٹھا کر آسماں کی طرف دیکھا۔۔‌تو لرز گیا ۔۔ آسمان شاف تھا ایک تتلی بھی آسمان میں نیہں تھی۔اسنے اسے اسکا وہم‌سمجھا اور سر جھٹک کر آگےبڑھ گیا ۔۔ وہ کار کے پاس پہنچا تو۔۔‌تو اسکی روح فنا ہونے لگی تھی۔۔۔اسنے دیکھا کے کسی نے نکیلی چیز سے ونڈ اسکرین پر متعدد چوٹیں لگا کر اسکو پھوڑنے کی کوشش کی تھی۔۔۔یہی حال کار کے بونٹ اور بڈی کا بھی تھا۔ کار کو بری طرح‌ نقصان پہنچانے کی کوشش ہوی تھی۔۔وہ سوچنے لگا تھا کہ کس کی شرارت ہوسکتی ہے ۔۔ وہ شہر جا کر پولس میں شکایت درج کریگا۔۔ شام ہو رہی تھی اس لیے اس نے بندوق پچھلی سیٹ پر ڈالی اور گھر کی راہ لی۔۔ گھر پہنچتے ہی دادی کی آواز ایء۔۔ کسی بے زبان کو مارا تو نہیں۔۔۔ اس نےجواب نہی دیا بلکہ بیدلی سے غسل خانے کی راہ لی۔ فریش ہونے کے بعد ہلکا پھلکا کھانے کے بعد وہ بستر پر لیٹ گیا۔۔۔آج کے شکار سے وہ بری طرح بد دلی محسوس کر رہا تھا۔۔ رہ رہ کر اسے دادی کی بات یاد آرہی تھی ۔ وہ سوچنے لگا تھا کی کیا واقعی اسکے ہاتھوں کسی مافوق الفطرت ہستی کو نقصان تو نہیں پہنچا۔۔۔‌رات بھر وہ خوفناک خواب دیکھتا رہا۔۔ کیء بار ہڑبڑا کر نیند کھلتی تو لگتا ابھی کویء پرندہ اڑ کر روشندان سےباہر نکل گیا ہو.

حامد کو لگا جیسے وہ۔ نفسیاتی طور پر کمزور ہو چکا ہو۔ اسی لیے اسے توہمات گھیر رہے ہیں۔۔ البتہ دوسری صبح وہ اٹھا تو کافی بشاش تھا۔ ناشتہ کرکے وہ آفس کو نکل پڑا۔ آفس میں وہ معمول کے مطابق کام میں لگ کیا تھا۔۔ کل کی باتوں کو وہ مہمل خواب سمجھ رہا تھا۔اس وقت وہ لنچ روم میں وہ اپنے جگری دوست افضل کےساتھ لنچ لے رہا تھا تب ہی باتوں باتوں میں افضل بول پڑا۔۔ یار لگتا ہےء آفس کے احاطے میں کویء جانور مرا پڑا ہےء۔۔۔۔ ۔ بے خیالی میں حامد نے پوچھ لیا کیا کچھ بدبو پھیلی ہےء کیا۔۔۔نہیں یار۔۔۔آج صبح سے آفس کے اوپر چیلوں کا غول گردش کر رہا ہےء۔۔۔حامد کہ ٹھسکا لگا۔ نوالہ اسکے حلق میں پھنسنے لگا تھا۔۔ افضل نے فوراً اسے پانی کا گلاس دیا اور ایک گھونٹ لیکر اوپر دیکھنے کو کہا۔۔۔۔ اوپر دیکھتے ہی حامد کےہاتھ سے گلاس جھوٹ گیا۔۔ وہاں روشندان سے ایک چیل اسے گھور رہی تھی۔ حامد سے نظر ملتے ہی وہ وہاں سے جا چکی تھی۔۔ افضل اسکی پیٹھ سہلاتا رہا کچھ دیر میں اسکی طبیعت سنبھل گیء تھی۔۔۔ وہ سوچنے لگا تھا یقیناً یہ چیلوں کا غول اسی کی نگرانی پر معمور تھا۔۔۔روشندان‌ سے جھانکتی چیل بھی یقینا انہی میں سے تھی ۔۔ آخر وہ کون تھی۔ کیا واقعی اس سے غلطی ہوی ء تھی پرندوں کے شکار میں۔۔ کیا دادی امی کی بات صحیح تھی۔ کیا اسی کی شکار کویء مافوق الفطرت ہستی ہو ہی تھی ۔۔ اسے کچھ ٹھیک نہیں لگا تو وہ چھٹی لیکر گھر چلا گیا۔۔اسنے د،یکھا کہ اب چیلوں کا غول کہیں نہیں تھا۔

پھر کچھ دن یوں ہی گزر گےء ۔اس نے شکار پر جانا بند کردیا تھا۔ پھر اچانک ایک رات سے ہی منحوس سلسلہ پھر سے شروع ہو گیا۔۔ حامد گہری نیند میں سو رہا تھا کہ کسی پرندہ کے پھڑ پھڑانے کی آواز سے اسکی نیند کھل گیء۔ اسنے دیکھا کہ کھڑکی کے شیشہ پر باہر کی طرف سے کویء برندہ جھٹپٹا رہا تھا وہ کھڑکی کے کانچ توڑنے کے فراق میں لگ‌ رہا تھا۔۔۔اس‌ نے سمجھا تھا کہ اب چیلوں کا منحوس سلسلہ ختم ہو چکا ہےء۔۔۔مگر یہ کیا۔۔۔ اس نے دیوار سے گن اتاری اور دروازہ کھول بالکونی میں آگیا۔۔‌اس ںے دیکھا کہ ایک بڑی چیل کھڑکی کے کانچ سے لپٹی پھڑ پھڑا رہی تھی۔ حامد نے نشانہ سادھا ہی تھا کہ پیچھے سےکسی بڑی چیل نے اس طاقت سے حامد کے سر پر ٹھونگ ماری کہ حامد کا ہاتھ بہک گیا ۔ بندوق اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیء ۔۔‌اس سے پہلے کہ وہ بندوق پکڑ لیتا یا بندوق بالکونی سے نیچے گر جاتی ۔۔۔۔ پیچھے والی چیل نے عجیب طریقہ سے اسے اچک لیا تھا۔۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ دونوں چیلیں۔۔۔

اندھیرے میں غایب ہو گیں۔ حامد ہکا بکا رہ گیا تھا۔
جہاں چیل نے ٹھونگ ماری تھی وہاں اسے دکھنے لگا تھا ۔ اسنے ہاتھ لگا کر دیکھا تو وہاں سے خون رس رہا تھا۔۔ فوراً کمرے میں جاکر اس نے فرسٹ ایڈ باکس نکال کر ڈریسنگ کر لی۔۔ چوٹ چونکہ سر کے اوپری حصہ میں تھی اس لیے خون فوراً رک گیا تھا۔۔۔ دوسرے دن اس نے سب کو وجہ یہی بتایء کہ باتھ روم میں گر گیا تھا۔۔۔اور آفس سےایک ہفتہ کی چھٹی لے لی تھی۔ یہ تو سب ہوا مگر اب اسے یقین ہو چکا تھا کہ ہو نہ یہ سلسلہ اسی دن کے شکار کا ہےء۔وہ توہم پرست نہیں تھا۔ وہ کسی عامل یا بابا سے رجوع بھی کرنا نہیں چاہتا تھا۔۔ ایک پڑھا لکھا نوجوان ہونےکے ناتے وہ ایسی باتوں پر یقین بھی نہیں رکھتا تھا۔۔اسنے محکمہ جنگلات وہ محکمہ براےء تحفظ حیوانات و پرند سے رجوع کیا مگر وہاں سے بھی یہی جواب ملا کہ کچھ حیوانات پرند و حشریات بدلہ سخنی کا جذبہ رکھتے اور وہ اپنے کو گزند پہنچے کا بدلہ لیےء بغیر چین سے ‌نہیں بیٹھتے۔ 

اس سلسلے میں وہ شہد کی مکھیوں کی مثال دیتے تھے ۔‌کہ وہ اپنے شکار کا پیچھا اس وقت تک نہیں چھوڑتے جب تک وہ اسے زخمی نہ کر لیں ۔ بحرحال وہ وہاں سے اٹھ گیا۔ اب اسے یقین ہو گیا تھا کہ یہ جن بھوت والا معآملہ نہیں ہےء۔ بلکہ پرندوں کی بدلہ سخنی ہے۔۔۔۔ا۔

اسک چھٹی ایک ہفتہ کی تھی ۔ مگر اس ایک ہفتہ میں اسکی دنیا بدل گیء تھی۔۔اس رات وہ بےخوف ہو کر سویا تھا کہ قریب آدھی رات کو اسکی نیند کھل گیء تھی۔۔۔سردیوں کی راتیں یوں بھی گہری ہوتیں ہیں۔۔ اسنے دیوار گھڑی کی طرف دیکھا تو ساڑھے بارہ بج رہے تھے ۔بے خیالی میں اسکی نظر چھت کی طرف گیء تو اسنے دیکھا ایک چیل روشندان سے اسے گھور رہی تھی۔۔۔‌اب بندوق تو تھی نہیں کہ اسکا نشانہ سادھتا۔۔۔۔۔لہذا ۔‌اس نےاسے آواز سے ہشکانہ چاہا تو وہ چیل روشندان سے اتر کر اندر آکر الماری پر بیٹھ گیء تھی۔۔ اسےمحسوس ہوا کہ چیل اس سے ڈر نہیں رہی ہےء۔۔ اس نےاس پر چادر ڈالکر اسے پکڑنے کی کوشش کی۔۔۔۔۔۔ وہ آہستہ آہستہ اسکے قریب جانے لگا تھا ۔ اس سے پہلے کہ وہ چیل پر جھپٹتا۔۔ وہ اچک کر ٹریس کی سیڑھیوں پر جا بیٹھ گئی۔۔

 پتہ نہیں کیوں حامد کے ذہن میں ایک خیال گونجا کہ شاید وہ حامد سےکچھ کہنا چاہتی ہو یا اسے ٹریس پر کجھ دکھا نا چاہتی ہو۔۔۔۔۔ا۔ وہ آہستہ آہستہ اسکے پیچھے چلتا ٹریس پر پہنچ گیا ۔۔ وہاں بہت زیادہ خنکی تھی۔۔۔اسے حیرت ہوی یہ دیکھ کر کہ سامنے ہی فرش پر اسکی بندوق پڑی تھی ۔۔ اسکے سامنے منڈیر پر ایک بڑی چیل بیٹھی تھی۔۔۔ شاید بدلہ سخنی کی غرض سے۔ آیء تھی اس لیے حامد بے خوف رہا ۔ اس نے آگے بڑھ کر بندوق اٹھا نی چاہی ۔ تب ہی چیل بھی اچک کر اس بندوق پر آکر بیٹھ گیء۔۔۔۔حامد ٹھٹھک گیا ۔۔پر اسکی آنکھوں نے جو کچھ دیکھا تو اسکی جسم پر چیونٹیاں رینگتی محسوس ہویں ۔۔۔‌ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہریں محسوس ہویں ۔‌اسے اس سردی میں بھی پسینہ آرہا تھا۔


جنات کا بھیانک انتقام ( قسط نمبر 2)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں



Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں