انوکھا ایڈوانچر (تیسرا حصہ)

اردو کہانیاں
 
جس وقت میری آنکھ کھلی میں نے خود کو فرش پر لیٹے ہوئے پایا، اب میرے جسم پر قمیض نہیں تھی صرف شلوار تھی اور پورے بدن پر کوئی تیز بو والی کریم سی لگی ہوئی تھی، 

میری کمر کے نیچے کھجور کی چٹائی تھی اور اوپر لکڑیوں اور سرکنڈوں سے بنی ہوئی چھت تھی جس کی اونچائی زیادہ نہیں تھی، اس جھونپڑی نما کمرے کے دروازے کی جگہ پرانا سا کپڑا لٹکایا ہوا تھا، جس کے سوراخوں سے تیز روشنی چھن چھن کر اندر آ رہی تھی، مجھے اندازہ ہوا کہ دوپہر کا وقت تھا، کچھ دیر میں لیٹا سوچتا رہا کہ میں کہاں پر ہوں، پھر مجھے ایک ایک کر کے سب باتیں یاد آنے لگیں، اور میرا سر چکرانا شروع ہو گیا اتنا کچھ ہو گیا تھا اور میں زندہ بھی بچ گیا تھا لیکن میں اس وقت کہاں پر ہوں؟ یہ خیال آتے ہی میں اٹھ کر بیٹھ گیا، اٹھنے کی وجہ سے کمر میں کافی زیادہ درد نکلی اور میں کراہ کر رہ گیا، اسی وقت دروزے کا پردہ ہٹا اور ایک بوڑھا اندر داخل ہو گیا، اس کی عمر ساٹھ سال سے کم نہیں تھی وہ بھی میری طرح صرف شلوار میں ملبوس تھا، بلکہ شلوار کی جگہ اس کے تہبند باندھی ہوئی تھی جو کافی پرانی اور میلی لگ رہی تھی

 بوڑھے کا رنگ سانولا، چھوٹی چھوٹی داڑھی، بڑی سی مونچھیں اور آنکھوں کا رنگ زرد تھا وہ میرے پاس آ کر کھڑا ہو گیا اور اردو اور سندھی کے ملے جلے لہجے میں بولا کہ تمہاری طبیعت کیسی ہے لڑکے؟ ابھی تم مت اٹھو، تمہاری کمر اور چہرے پر چوٹ آئی ہے، میں نے اس سے پوچھا کہ میں کہاں ہوں؟ اس نے غور سے میری جانب دیکھا اور کہنے لگا کہ تم اس وقت ہمارے قبیلے میں ہو، شکر کرو تم زندہ بچ گئے ہو۔۔ پانی ۔۔۔ مجھے تھوڑا سا پانی ملے گا؟ میں نے اپنے خشک حلق پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ؟ تو اس بوڑھے نے وہیں بیٹھے آواز لگائی " کومل ۔۔ پانی لے کر آؤ، لڑکے کو ہوش آ گئی ہے، بوڑھے کے منہ سے کومل کا نام سن کر مجھے ایکدم سے یاد آیا کہ جب میں ڈھلوان سے نیچے گرا تھا تو اس وقت بھی کسی لڑکی نے کومل کو پکارا تھا، اور پھر کومل پردہ ہٹا کر اندر آ گئی، وہ لمبے قد اور گندمی رنگ کی پرکشش لڑکی تھی، اس کی آنکھیں بڑی بڑی لیکن گہرے کالے رنگ کی تھیں، ایک نظر میں مجھے اتنا ہی معلوم ہو سکا تھا، اس کے ہاتھ میں پلاسٹک کا قدرے صاف برتن تھا، جس میں پانی بھرا تھا اس نے برتن میرے آگے کر دیا،

 میں نے اس کے ہاتھ سے برتن جھپٹا اور ندیدوں کی طرف غٹا غٹ پینے لگا، بے صبری کی وجہ سے کچھ پانی تو نیچے ہی گر گیا تھا، میں نے برتن خالی کر کے کومل کو پکڑایا تو وہ مسکراتے ہوئے باہر نکل گئی شاید اس کو میرے پانی پینے کے انداز پر ہنسی آئی تھی، کچھ دیر میں یوں ہی بیٹھا رہا، اور پھر بوڑھے کے کہنے پر لیٹ گیا، تمہارا نام کیا ہے نوجوان ؟ اس نے گہری نظروں سے میرا جائزہ لیتے ہوئے پوچھا تو میں نے اسے اپنا نام بتا دیا، اس نے پوچھا کہ کہاں سے آئے ہو اور کہاں جانے کا ارادہ تھا؟ میں نے مختصر الفاظ میں اسے ساری صورت حال بتا دی، وہ غور سے میری باتیں سن رہا تھا، جب میں خاموش ہوا تو کہنے لگا کہ یہ صحرا تو بھٹکنے والوں کے لیے موت ہے۔۔ تم زندہ بچ گئے ہو بڑی بات ہے، میری دونوں بیٹاں سبزی کاٹنے کھیتوں میں گئی ہوئی تھیں جب انہوں نے تم کو اونچے ٹیلے سے نیچے گرتے ہوئے دیکھا تو وہ بھاگتی ہوئی میرے پاس آئیں، اور میں نے قبیلے کے چند نوجوانوں کو ساتھ لے کر تم کو وہاں سے اٹھایا، اور یہاں اپنی جھونپڑی میں لے آیا، تمہیں دیکھتے ہی میں سمجھ گیا تھا کہ تم کوئی بھٹکے ہوئے مسافر ہو، تمہارے منہ میں پانی ٹپکانے کے باوجود بھی جب تم کو ہوش نا آئی تو مجھے معلوم ہو گیا کہ تم زخمی ہوئے ہو، 

میری چھوٹی بیٹی رمشا بتا رہی تھی کہ تم نیچے آتے ہوئے زور سے درخت کے ساتھ ٹکرائے تھے، پھر میں نے تمہارے جسم پر ایک خاص کریم کا لیپ کر دیا، جس سے تمہارے درد کو افاقہ ہوا ہو گا، لیکن پھر بھی تم ساری رات بے ہوش رہے ہو، اور آج دوپہر کو تم نے آنکھیں کھولی ہیں، اوپر والے کا شکر ہے تم بچ گئے ہو۔۔ جب بوڑھے نے "اوپر والے کا شکر" کہا تو مجھے شک ہوا کہ کیا یہ مسلمان ہے؟ اگر مسلمان ہوتا تو اللہ کا شکر بھی کہہ سکتا تھا، لیکن اس سے براہ راست یہ بات پوچھنے کی مجھ میں ہمت نہیں تھی، وہ کون تھا کیا تھا ؟ جیسا بھی تھا اس نے میری جان بچائی تھی اور میرا محسن تھا، پھر بھی مجھے جو بات بے چین کر رہی تھی وہ یہ تھی کہ میں اس وقت کہاں پر ہوں؟

اپنے گھر اور اپنے شہر سے کتنا دور ہوں؟ جب میں نے دوبارہ یہ سوال بوڑھے سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ تم اس وقت سنیاسی قبیلے کے مہمان ہو، یہ قبیلہ میرے شہر صادق آباد سے بہت دور انڈیا کے بارڈر کے بالکل پاس بستا تھا، اور چھوٹی چھوٹی درجنوں جھونپڑیوں پر مشتمل تھا، ان لوگوں کا طرز زندگی مہذب نہیں تھا یہ لوگ مسلمان بھی نہیں تھے بلکہ ان کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں تھا اور مجھے جہاں تک معلوم تھا سنیاسی لوگ ہر طرح کے جنگلی جانور یہاں تک کے کتے بلیاں بھی شوق سے کھا جاتے تھے، یہ سب جان کر مجھے کراہت سی محسوس ہونے لگی تھی لیکن میں اس وقت مجبور تھا، اور اس بوڑھے کے بقول جس کا نام ناشی بابا تھا، میں اکیلا اپنے گھر بھی نہیں جا سکتا تھا کیونکہ یہ جگہ میرے شہر سے تیس کلو میٹر دور تھی اور میں پتا نہیں یہاں تک کیسے آن پہنچا تھا سارا راستہ ریگستان سے ہو کر گزرتا تھا، اور میں اکیلا دوبارہ موت کے منہ میں جانا بھی نہیں چاہتا تھا، کم سے کم جب تک مجھے راستے کا ٹھیک سے علم نا ہو جاتا، اور پانی کا انتظام تو اس سے بھی زیادہ ضروری تھا، وہ بوڑھا یعنی ناشی بابا مجھے آرام کرنے کا کہہ کر کھیتوں میں چلا گیا تھا، اور میں قمیض پہن کر وہیں پر لیٹ کر وقت گزاری کرنے لگا،

 ویسے بھی کمر میں چوٹ لگنے کی وجہ سے اٹھنے اور چلنے پھرنے میں دقت تھی اور میری جو حالت ہو چکی تھی اس میں مجھے آرام کی کافی ضرورت تھی، لیکن میں اپنے گھر والوں کے لیے پریشان تھا، وہ یقیناً مجھے ہر جگہ ڈھونڈ رہے ہوں گے، پھر مجھے اپنے دونوں ساتھیوں کا خیال آیا تو میرا دل بے چین ہو گیا، میں تو زندہ بچ گیا تھا لیکن ان کے بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتا تھا، ناشی بابا نے مجھے بتایا تھا کہ اس صحرا میں ان کے ساتھیوں کو کئی بار مسافروں کے ڈھانچے ملے ہیں، یہ خونی ریگستان ہے جو مسافروں کی جان لینے میں زرا بھی دیر نہیں کرتا، میں نے دل میں اپنے دوستوں کی زندگی کے لیے دعا کی، اور جیب میں ہاتھ ڈال کر موبائل باہر نکال لیا، جو ابھی تک میرے پاس تھا، سگنل تو اس پورے علاقے میں یوں غائب تھے جیسے گدھے کے سر سے سینگ، لیکن بیٹری کافی چارج تھی کیونکہ استعمال نہیں کیا تھا، میں ایسے ہی گیلری کھول کر اپنی فیملی اور دوستوں کی تصویریں دیکھ کر ان کو یاد کرنے لگا، اچانک کومل پردہ ہٹا کر جھونپڑی میں آ گئی، اس کے ہاتھ میں کھانے والی ٹرے تھی، کھانا میرے قریب زمین پر رکھتے ہوئے وہ بولی کہ بابا کہہ کر گئے تھے آپ کو کھانا دے دوں، اچانک کومل کی نظریں میرے موبائل پر پڑیں تو وہ حیران ہو گئی، یہ کیا چیز ہے جی؟ 

اس نے حیرت اور دلچسپی سے موبائل کی سکرین کو دیکھتے ہوئے پوچھا تو میں اس سے بھی زیادہ حیران ہوا کہ ان لوگوں نے آج تک شاید موبائل دیکھا ہی نہیں تھا، میں نے اس کو موبائل کے بارے میں بتایا اور اپنے گھر والوں اور دوستوں کی تصویریں دکھائیں تو وہ حیرت سے منہ پھاڑے سب کچھ دیکھتی رہی، اس نے پرجوش ہو کر اپنی چھوٹی بہن رمشا کو بھی جھونپڑی میں بلا لیا تھا، رمشا بھی کومل کی کاپی تھی بس عمر میں دو تین سال چھوٹی تھی، مجھے ڈھلوان سے نیچے گرتے سب سے پہلے رمشا نے ہی دیکھا تھا اور پھر کومل کو آواز لگائی تھی، اب وہ دونوں بہنیں دلچسپی سے میرے موبائل میں تصویریں دیکھ رہی تھیں، میں نے موبائل کا کیمرہ کھول کر دونوں بہنوں کی تصویر بنا کر ان کو دکھائی تو وہ اتنی حیران ہوئیں کہ مجھے ہنسی آ گئی پھر وہ شرما گئیں، کومل بولی کہ آپ کھانا کھا لو، ٹھنڈا ہو رہا ہے، میں نے برتن اٹھا کر دیکھا تو کسی جانور کا بھنا ہوا گوشت تھا،۔ مجھے کراہت محسوس ہونے لگی اور میں پوچھ ہی لیا کہ کیا یہ بلی کا گوشت ہے یا گیدڑ کا؟ کومل جلدی سے بولی کہ یہ جنگلی خرگوش کا گوشت ہے اور بابا نے رات ہی شکار کیا تھا،

 خرگوش کا سن کر میرے منہ میں پانی بھر آیا اور پھر میں نے ڈٹ کر کھانا کھایا، اور جب دونوں بہنیں خالی برتن اٹھا کر واپس چلی گئیں تو میں دوبارہ لیٹ گیا، پیٹ میں کھانا جاتے ہی مجھے نیند نے آن گھیرا تھا اور میں بے خبر ہو کر سو گیا۔۔

جس وقت میری آنکھ کھلی جھونپڑی میں اندھیرا چھایا ہوا تھا، جس کو چھوٹی سی لالٹین سے کم کرنے کی کوشش کی گئی تھی، یہ لالٹین شاید کسی جانور کی چربی کے تیل سے جل رہی تھی جس کی عجیب سی ناگوار بو ہر طرف پھیلی ہوئی تھی، میں اٹھ کر بیٹھ گیا اب میری طبیعت کافی بہتر تھی اور میں خود کو تازہ دم محسوس کر رہا تھا، میں جھونپڑی سے باہر نکل آیا، یہ چھوٹا سا گھر تھا جس میں اس طرح کی دو اور بھی جھونپڑیاں بنی ہوئی تھیں، ناشی بابا باہر صحن میں چارپائی ڈالے تمباکو پھونک رہا تھا کومل اور رمشا شاید کچھ پکانے میں مصروف تھیں، ایک تو مجھے بھوک نہیں تھی دوسرا میں نے سوچا ہوا تھا کہ جب تک بھی یہاں رہوں گا کھانا بہت کم اور ضرورت پڑنے پر کھاؤں گا، کیونکہ یہ لوگ جو کچھ کھاتے تھے مجھے سوچ کر ہی الٹی آنے لگتی تھی، ناشی بابا نے مجھے اپنے قریب بٹھا کر تمباکو کی آفر کی، لیکن میں نے مسکراتے ہوئے منع کر دیا، مجھے ایسی کوئی عادت نہیں تھی، دونوں لڑکیاں آتے جاتے دلچسپی سے مجھے دیکھ رہی تھیں، جب کھانا کھانے کی باری آئی تو میں نے بھوک نا ہونے کا کہہ کر منع کر دیا، لیکن جب چاولوں کی خوشبو ناک میں چڑھی تو میں خود کو روک نا پایا، اور پیٹ بھر کر چاول کھائے جو کافی مزے کے بنے تھے، کھانے سے فارغ ہو کر ناشی بابا کہنے لگا کہ میرے ساتھ باہر چلو، آج رات چاند کی چودھویں ہے اور ہمارے قبیلے میں شکاری میلہ لگا ہوا ہے۔۔ میں نے پوچھا کہ یہ شکاری میلہ کیا ہوتا ہے؟

 ناشی بابا نے بتایا کہ ہمارے قبیلے کا رواج ہے ہر چاند کی چودھویں رات کو شادی کے خواہشمند نوجوان شکار مار کر لاتے ہیں ، جس کا شکار سب سے اچھا ہو، اس کی شادی اس کی من پسند لڑکی سے کر دی جاتی ہے، آج رات بھی قبیلے کے باہر کھلے میدان میں شکار میلہ سج چکا تھا، میرے لیے یہ دلچسپ بات تھی، میں دیکھنا چاہتا تھا کہ یہاں پر نوجوان کیسا شکار کرتے ہیں اور آج رات کا شکار تگڑا ہو گا، ناشی بابا نے مجھے ایک چادر پکڑاتے ہوئے کہا کہ اسے اپنے چاروں جانب لپیٹ لو، میں نہیں چاہتا کہ ہر کوئی تمہیں دیکھ کر تمہارے بارے میں سوال پوچھے، میں نے خود کو چادر میں چھپا لیا اور ناشی بابا کے ساتھ چل پڑا، جلد ہی ہم جھونپڑیوں کے قبیلے سے باہر ایک کھلے میدان میں پہنچ چکے تھے، یہاں پر خاصا رش تھا، ہر عمر کے مردوں کے ساتھ عورتوں اور بچوں کی تعداد بھی کافی زیادہ تھی، اب ہم ایک بڑے سے دائرے کے پاس پہنچ چکے تھے، تھوڑی دیر بعد قبیلے کے نوجوان ایک ایک کر کے اپنے شکار کو کندھوں پر لاد کر لانے لگے۔ اور ایک جگہ جمع کرتے گئے، اچھے اور بڑے شکار کا فیصلہ آخر میں قبیلے کے سردار نے کرنا تھا جو ابھی تک نہیں آیا تھا، یہ دلچسپ تماشہ جاری تھا کہ ایک پندرہ بیس سال کا لڑکا بھاگتا ہوا آیا، اس کی سانس پھولی ہوئی تھی اور آنکھیں خوف کے مارے اوپر کو چڑھ گئی تھیں، اس نے لوگوں کے قریب پہنچ کر بلند آواز سے کہا کہ ماکھے کی لاش قریبی جھاڑیوں میں پڑی ہے، کسی درندے نے اس کا نرخرہ چبا ڈالا ہے، یہ سنتے ہی ہر طرف چیخ و پکار مچ گئی۔۔

لڑکے کے منہ سے ماکھے کی موت کی خبر سن کر لوگ ایک طرف کو بھاگنے لگے، ہر کسی کی خواہش تھی کہ وہ پہلے جا کر اس کی لاش دیکھے، میں نے ناشی بابا سے پوچھا کہ یہ ماکھا کون ہے اور اس کی موت کا سن کر ہر کوئی چیخ و پکار کیوں کرنے لگا ہے؟ ناشی بابا نے میرا ہاتھ پکڑا اور لوگوں کے درمیان میں سے جگہ بناتا ہوا مجھے بھی اس طرف لے جانے لگا، لوگوں کا ایک ہجوم تھا جو جھونپڑیوں سے نکل کر صحرا میں لڑکے کی بتائی ہوئی جگہ کی طرف جا رہا تھا، ناشی بابا نے آہستہ آواز میں مجھے بتایا کہ یہ لڑکا ماکھا، قبیلے کے سردار تارا خان کا اکلوتا بیٹا ہے بہت بہادر اور خوبصورت جوان تھا، آج رات ہونے والے شکار مقابلے میں اس نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ سب سے تگڑا شکار مار کر لائے گا، اور اپنی پسند کی لڑکی کو بیاہ کر لے جائے گا، یہی وجہ ہے کہ اس کی اچانک موت کا سن کر سب لوگ پریشان ہو گئے ہیں، اچھا اور بہادر لڑکا تھا لیکن معلوم نہیں کس جانور نے الٹا اس کا شکار کر لیا تھا،

 ناشی بابا کا کہنا تھا کہ ہمارے قبیلے کی تاریخ میں پہلی بار ایسا واقعہ ہوا ہے، میں نے ناشی بابا سے کہا کہ ہو سکتا ہے اسے کسی جانور نے نا مارا ہو، بلکہ کسی انسان نے یہ کارنامہ سر انجام دیا ہو، ناشی بابا کہنے لگا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ قبیلے کے سردار کا بیٹا تھا اس کی کسی سے دشمنی نہیں تھی اور قبیلے والوں کے ساتھ اس کا رویہ بہت ہی اچھا تھا یہی وجہ ہے کہ اس کی موت کا سن کر ہر کوئی آہ و بکا کرنے لگ گیا تھا، دوسری بات یہ ہے کہ ابھی وہاں پر پہنچ کر سب کچھ معلوم ہو جائے گا، جلد ہی ہم لوگ بستی سے تھوڑا دور اس جگہ پہنچ گئے تھے جہاں ماکھے کی لاش پڑی ہوئی تھی ، وہ ایک جھاڑی پر ایسے گرا تھا کہ آدھا جسم جھاڑی کے اوپر تھا اور آدھا نیچے، گاؤں کے کچھ لوگ لالٹین بھی ساتھ لائے تھے جن کی روشنی میں صاف پتا چل رہا تھا کہ کسی جنگلی جانور نے بہت بے رحمی سے اس کا گلا چبا کر چھوڑ دیا تھا،

 اس کے کپڑوں پر بھی خون کے دھبے تھے اور کئی جگہ سے قمیض پھٹ گئی تھی، قریب ہی لمبے دستے والی ایک کلہاڑی اور رسی پڑی تھی، جس سے ماکھا شکار کرنے نکلا تھا، لڑکے کا رنگ سانولا تھا لیکن قد و قامت سے کافی مضبوط اور بہادر دکھائی دیتا تھا، قبیلے کے چند سرکردہ افراد نے لوگوں کے ہجوم کو پیچھے ہٹا دیا تھا، تاکہ غور سے لاش کا جائزہ لے کر اس کی موت کی وجہ معلوم کر سکیں، ناشی بابا بھی ان چند لوگوں میں شامل تھا جو ماکھے کی لاش کے پاس موجود تھے اسی وجہ سے مجھے بھی سب کچھ قریب سے دیکھنے کا موقع مل گیا تھا، ناشی بابا نے لالٹین کی روشنی میں آس پاس کی زمین کا جائزہ لینا شروع کر دیا تھا، چونکہ یہ ریگستان کا علاقہ تھا اس لیے کسی درندے کے عجیب سے قدموں کے نشان کسی سے چھپے نا رہے، آگے اور پیچھے والے بڑے بڑے پنجے انسانی ہاتھ سے بھی بڑے تھے،

ان نشانات نے سب کو حیران اور خوفزدہ کر دیا تھا ناشی کا کہنا تھا ہمارے علاقے میں اس طرح کے قدموں والا کوئی بھی درندہ آج تک نہیں آیا، اس ریگستان میں صحرائی لومڑ، گیدڑ، جنگلی سور، اور بڑی جسامت والے جنگلی بلے وغیرہ تو بکثرت پائے جاتے تھے، لیکن اتنے بڑے پیروں والا درندہ تو کوئی بھی اس علاقے میں کبھی نہیں دیکھا گیا تھا، یہی چیز سب کو حیران کر رہی تھی، اسی وقت شور مچ گیا کہ قبیلے کا سردار یعنی ماکھے کا باپ بھی پہنچ گیا ہے، سب لوگ سائیڈ کو کھسک کر اس کے لیے جگہ بنانے لگے اور پھر سردار آ گیا، وہ بھی لمبے قد اور بھاری جسم والا آدمی تھا، سردار کا رنگ سیاہ کالا تھا اور آنکھیں بڑی بڑی، جو دیکھنے والے کو خوفزدہ کر دیں، سردار کے لمبے بال شانوں تک لہرا رہے تھے، وہ تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا اپنے بیٹے کی لاش تک آیا اور کچھ دیر پاس کھڑا ہو کر اس کا جائزہ لیتا رہا، سب لوگ دم سادھے کھڑے تھے، پھر سردار نے ماکھے کی لاش کو ٹھوکر مار کر غصے سے دھاڑتے ہوئے کہا کہ اسے لے جاؤ میری آنکھوں کے سامنے سے، ایسے بزدل کی موت یوں ہی ہوتی ہے، 

میں نے اس لیے اسے پال کر اتنا بڑا نہیں کیا تھا کہ یہ کسی بلی یا کتے کے ہاتھوں مارا جائے،، یہ ماجرا دیکھ کر میں حیران رہ گیا تھا، قبیلے کے لوگوں میں سے کسی نے بھی کچھ کہنے کی ہمت نہیں کی تھی، سردار واپس مڑنے لگا تو ہجوم میں سے ایک عجیب سے حلیے والا بوڑھا آدمی نکل کر آگے آ گیا اور کہنے لگا کہ سردار بات یہ نہیں ہے جو آپ سمجھ رہے ہو، سارے لوگ مڑ کر اس عجیب سے آدمی کی جانب دیکھنے لگے، اس کے سر ، داڑھی مونچھوں اور پلکوں کے بال سرے سے موجود ہی نہیں تھے، جس کی وجہ سے وہ آدمی بہت عجیب اور ڈراؤنا سا دکھائی دیتا تھا، سردار نے اس آدمی کو کچھ نہیں کہا اور سوالیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھنے لگا یوں لگتا تھا کہ سردار خود بھی اس بوڑھے کی بات کو اہمیت دیتا ہے، وہ مزید بولا کہ سردار اس میں قصور ماکھے کا نہیں ہے، ماکھا تو واقعی ہی بہت بہادر اور جوان لڑکا تھا، اتنا کہہ کر وہ عجیب شکل بوڑھا خاموش ہو گیا، سردار تارا خان نے دو قدم اس کی جانب بڑھائے اور پوچھا کہ تم کہنا کیا چاہتے ہو بابا؟ کیا قصور اس بلی یا کتے کا ہے جس نے میرے بیٹے کو مار دیا ہے؟ اب میں اس جانور کو پکڑ کر اس کو سزا دوں؟ تم یہ کہنا چاہتے ہو تو پھر خاموش ہی رہو۔۔۔

لیکن وہ بوڑھا سردار سے خوفزدہ ہونے کے بجائے کہنے لگا کہ سردار ماکھے کو جس جانور نے بھی مارا ہے وہ جانور نا تو ہمارے خطے کا ہے اور نا ہی کوئی بلی یا کتا ہے وہ کوئی ایسا درندہ ہے، جس کے بارے میں ہم نے ساری زندگی کچھ نہیں سنا، نا ہی اسے دیکھا ہے، زرا اس کے قدموں کے نشانات تو دیکھو ، ہاتھی کے پیروں سے بڑے تو اس کے پنجے ہیں، معلوم نہیں وہ کون سا درندہ ہے جو ہمارے علاقے میں گھس آیا ہے، آج اس نے ماکھے کی جان لی ہے کل کو کسی اور کا شکار کرے گا، اور پھر ایک وقت آئے گا کہ ہمارا قبیلہ جوان اور بہادر نوجوانوں سے خالی ہو جائے گا۔۔

اس بوڑھے بابا کی باتوں میں کچھ ایسا تھا کہ سردار سمیت وہاں موجود سب لوگ خاموش ہو گئے، پھر سردار نے کہا کہ میرے بیٹے کی لاش اٹھا کر قبیلے میں لاؤ، اور آخری رسومات آج رات ہی ادا کر دو، آج چاند کی چودھویں رات ہے اوپر والا اس کی قربانی قبول کرے گا۔ اور تم سب لوگ میرے گھر پہنچو، میں نے تم سے مشورہ کرنا ہے کہ اس درندے کو کیسے قابو کرنا ہے،۔ یہ نا ہو کل کو کسی اور کا گھر اجڑ جائے، ہم سب نے مل کر اس کو تلاش کرنا ہے اور اس کا کام تمام کرنا ہے، ورنہ میرے قبیلے کے نوجوان شکار کھیلنے باہر نہیں جایا کریں گے، اور ڈر کے مارے گھروں میں ہی بیٹھے رہیں گے، سردار کی باتوں سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ بیحد بہادر اور سمجھدار آدمی ہے، سردار کی باتیں سن کر میرے ذہن میں یہی بات آئی کہ اس نے اپنے بیٹے کی لاش کو ٹھوکر بھی اسی لیے ماری تھی تاکہ لوگوں کے دل میں اس درندے کا خوف نا بیٹھ جائے، لوگ یہی سمجھیں کہ درندہ خطرناک نہیں تھا بلکہ ماکھا ہی بزدل تھا جو اس کے ہاتھوں مارا گیا،

اپنے قبیلے کے لوگوں کے لیے سردار کی یہ حرکت میرے دل میں اس کی عزت بنا گئی تھی، پھر سنیاسی قبیلے کے لوگوں نے ماکھے کی لاش کو اٹھایا اور اسے قبیلے میں لے آئے، ناشی بابا ان لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے درندے کو پکڑنے اور مارنے کے لیے سردار کے ساتھ مشاورت کرنی تھی، اس نے مجھے کہا کہ تم بھی ساتھ چلو شاید تمہارا کوئی مشورہ کام آ جائے اور سردار تم سے مل کر خوش ہو گا، چونکہ قبیلے کے بہت سے لوگوں نے تم کو میرے ساتھ دیکھ لیا ہے اس لیے، اس سے پہلے کہ لوگ سوال کریں میں خود ہی تم کو سردار سے ملوانا چاہتا ہوں، مجھے کوئی اعتراض نہیں تھا، سردار جیسے بہادر آدمی سے ملنا میرے لیے اعزاز کی بات تھی،

لیکن یہ کام ابھی ممکن نہیں تھا کیونکہ پہلے سردار کے بیٹے کی آخری رسومات ہونا تھیں اور اس کے بعد ہی مجلس بیٹھنی تھی اس لیے ناشی بابا نے مجھے کہا کہ تم ابھی گھر چلے جاؤ، کومل اور رمشا اکیلی ہیں، ماکھے کو زمین کے حوالے کر کے پھر میں تم کو لینے آؤں گا اور ہم سردار کے گھر چلیں گے، ابھی میں وہاں سے نکلا ہی تھا کہ ایک جانب سے چیخ و پکار کی آوازیں آنے لگیں یہ ایک جھونپڑی جیسا گھر تھا جو قبیلے کے آخری کونے پر بنا ہوا تھا، یہ چیخیں عورت اور بچوں کی تھیں، میں اور سردار ناشی بھاگتے ہوئے وہاں پہنچے، تب تک آس پاس سے کچھ اور لوگ بھی وہاں پہنچ گئے تھے، ایک عورت زمین پر بیٹھی چیخ و پکار کر رہی تھی، اور ساتھ ہی ایک جانب اشارے سے کچھ بتا رہی تھی لیکن خوف اور صدمے سے اس کے گلے سے صرف چیخیں ہی نکل رہی تھیں، اس بستی پر کوئی عذاب ٹوٹ پڑا تھا اور اس کا ذمہ دار یہ لوگ مجھے سمجھنے والے تھے۔۔۔ میں ایک مصیب سے نکل کر دوسری میں پھنسنے والا تھا ۔۔

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں