نئی نویلی دلہن (قسط نمبر 2)

 Sabaq Amoz Kahani

نئی نویلی دلہن (قسط نمبر 2)


ﻭﮦ ﺻﺒﺢ ﺟﻠﺪﯼ ﺑﯿﺪﺍﺭ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺗﻬﯽ۔ ﯾﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺭﻭﺯ ﮐﺎ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﺗﮭﺎ . . ﻧﻤﺎﺯ ﺍﻭﺭ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﮐﯽ ﺗﻼﻭﺕ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﻣﺤﺘﺮﻡ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻧﺎﺷﺘﮧ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺁﺋﯽ ﺗﻬﯽ .. ﺁﺩﻫﮯ ﮔﻬﻨﭩﮯ ﮐﯽ ﻣﺸﻘﺖ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﮧ ﻣﺸﮑﻞ ﻭﮦ ﺍﺱ ﺑﮍﮮ ﮐﭽﻦ ﻣﯿﮟ ﻣﻄﻠﻮﺑﮧ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﮈﻫﻮﻧﮉﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﮨﻮﺋﯽ۔ ﺍﯾﺴﮯ ﮐﭽﻦ ﻭﮦ ﺻﺮﻑ ﭨﯽ ﻭﯼ ﮈﺭﺍﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺩﯾﮑﻬﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﻬﯽ ... ﺍﻭﺭ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﮈﻫﻮﻧﮉﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﮔﻼ ﻣﺮﺣﻠﮧ ﺗﻬﺎ ﭼﻮﻟﮩﺎ ﺟﻼﻧﺎ ... ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻟﮑﮍﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﮨﯽ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﺗﻬﺎ۔ ﺍﺱ ﮔﯿﺲ ﻭﺍﻟﮯ ﭼﻮﻟﮩﮯ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﻭﺍﺳﻄﮧ ﭘﮍ ﺭﮨﺎ ﺗﻬﺎ
.. ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺍﮔﻠﮯ ﺗﯿﺲ ﻣﻨﭧ ﻭﮦ ﺍﺱ ﭼﻮﻟﮩﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺮ ﮐﻬﭙﺎﺗﯽ ﺭﮨﯽ .... ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﯾﮧ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﭽﮫ ﻣﺮﺍﺣﻞ ﻃﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺧﺪﺍ ﮐﺎ ﺷﮑﺮ ﺍﺩﺍ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﮍﺍ ﺳﺎ ﮈﺑﮧ ‏( ﻓﺮﯾﺞ ‏) ﮐﻬﻮﻝ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﻧﮉﮮ ﻧﮑﺎﻟﮯ .. ﺷﮑﺮ ﺗﻬﺎ ﺟﻮ ﺍﻧﮉﮮ ﺷﮩﺮﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﮩﺎﺗﻮﮞ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺟﮕﮩﻮﮞ ﭘﮧ ﺍﯾﮏ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ .
ﻭﮦ ﻧﺎﺷﺘﮧ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﭼﮑﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﻦ ﭘﻮﺭﺍ ﭘﻬﯿﻼ ﭼﮑﯽ ﺗﻬﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺁﻣﻠﯿﭧ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﭼﮑﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﺱ ﺁﻣﻠﯿﭧ ﺷﮩﯿﺪ ﮐﺮ ﭼﮑﯽ ﺗﻬﯽ . . ﭘﻮﺭﮮ ﺩﻭ ﮔﻬﻨﭩﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﺱ ﺁﻣﻠﯿﭩﻮﮞ ﮐﯽ ﺷﮩﺎﺩﺕ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﻬﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﯿﺎ ﺗﻬﺎ ﺍﺳﮯ ﻧﺎﺷﺘﮯ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﮐﮩﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﻬﺎ .. ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﭘﮭﺮ ﺳﮯ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﻧﯽ ﭼﺎﮨﯽ
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﮔﻬﺒﺮﺍﮨﭧ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﻬﯽ ۔ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻭﮦ ﺷﻮﮨﺮ ﻣﺤﺘﺮﻡ ﮐﯿﺎ ﺳﻮﭼﮯ ﮔﺎ ﮐﯿﺴﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﺳﮯ ﻭﺍﺳﻄﮧ ﭘﮍﺍ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﻧﺎﺷﺘﮧ ﺗﮏ ﺑﻨﺎﻧﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ ... ﺍﭘﻨﮯ ﮔﺎﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺳﮕﻬﮍ ﻣﺎﻧﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﻬﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮩﺎﮞ ﺁ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺳﺎﺭﯼ ﻗﺎﺑﻠﯿﺖ ﮨﻮﺍ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﺗﻬﯽ ... ﻭﮨﺎﮞ ﻭﮦ ﺍﮐﯿﻠﯽ ﺑﯿﺲ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﺎ ﮐﻬﺎﻧﺎ ﺑﻨﺎﺗﯽ ﺗﻬﯽ ﺟﺒﮑﮧ ﯾﮩﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﺁﻣﻠﯿﭧ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺳﮯ ﮐﺘﻨﯽ ﻣﺤﻨﺖ ﮐﺮﻧﯽ ﭘﮍ ﺭﮨﯽ ﺗﻬﯽ
ﺧﯿﺮ ﺧﺪﺍ ﺧﺪﺍ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﭽﮫ ﺑﻨﺎ ﮨﯽ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺁﻣﻠﯿﭧ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﻭﺩﮪ ﮐﺎ ﮔﻼﺱ ﺑﻬﯽ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ ... ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ ﺑﺎﮨﺮ ﺁﺋﯽ ﺑﺎﻗﯽ ﮔﻬﺮ ﮐﮯ ﮐﺎﻡ ﮐﺎﺝ ﺩﯾﮑﻬﻨﮯ
ﯾﮩﺎﮞ ﮐﯽ ﺗﻮ ﺭﻭﭨﯿﻦ ﻣﺎﺣﻮﻝ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺍﻟﮓ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﻬﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﺷﺘﮧ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﭽﯽ ﺣﻮﯾﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﺟﻬﺎﮌﻭ ﻣﺎﺭ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﺗﯽ ... ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮩﺎﮞ ﻭﮦ ﮐﯿﺎ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﮮ ﮔﻬﺮ ﺗﻮ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﮨﯽ ﺻﺎﻑ ﮨﮯ .. ﮐﭽﮫ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﭘﺮﺍﻧﺎ ﮐﭙﮍﺍ ﮈﻫﻮﻧﮉﺍ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﻮﺍﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﻓﻮﻡ ﻭﺍﻟﯽ ﮐﺮﺳﯿﻮﮞ ‏( ﺻﻮﻓﻮﮞ ‏) ﮐﯽ ﺑﻬﯽ ﺻﻔﺎﺋﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﯽ ﺗﻬﯽ ... ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﺳﮯ ﻓﺎﺭﻍ ﮨﻮ ﮐﺮ ﻭﮦ ﭨﯽ ﻭﯼ ﮐﻮ ﺻﺎﻑ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﯽ ﺟﺐ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﭘﮧ ﭘﮍﯼ ﻭﮦ ﺑﺲ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﻬﺘﯽ ﮨﯽ ﺭﮦ ﮔﺌﯽ .
. ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﺎﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﮔﺒﺮﻭ ﺟﻮﺍﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﻬﺎ ﺗﻬﺎ .. ﯾﮧ ﺟﻮ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺳﺎ ﺷﺨﺺ ﺗﻬﺎ ﯾﮧ ﺻﺮﻑ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﻠﮑﯿﺖ ﺗﻬﯽ . ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﭘﮧ ﺭﺷﮏ ﺑﮭﯽ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﺮﺱ ﺑﮭﯽ . . ﺍﺱ ﮐﺎ ﺷﻮﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﻧﻈﺮ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﮐﭽﻦ ﻣﯿﮟ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ .... ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺳﮯ ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺑﮩﺖ ﺩﮐﮫ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﻨﺎﺋﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺁﻣﻠﯿﭧ ﮐﻮ ﭼﻬﻮﮌ ﮐﺮ ﺧﻮﺩ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﯿﮯ ﺁﻣﻠﯿﭧ ﺑﻨﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ
ﺍﮔﺮ ﮔﺎﻭﮞ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﻭﮨﺎﮞ ﮐﯽ ﻟﮍﮐﯿﺎﮞ ﮨﻨﺲ ﮨﻨﺲ ﮐﺮ ﭘﺎﮔﻞ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺩ ﺧﻮﺩ ﭼﻮﻟﮩﮯ ﭘﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﯿﮯ ﻧﺎﺷﺘﮧ ﺑﻨﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ .. ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺟﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﺧﻮﺩ ﺍﺳﮯ ﻧﺎﺷﺘﮧ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﭘﮭﺮ ﯾﮧ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﺭﮎ ﮔﺌﯽ ﺟﺐ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺁﻣﻠﯿﭧ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﻬﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﺪﺩ ﮐﯿﺴﮯ ﻟﮯ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ۔۔
افراہیم تو آفس جا چکا تها جبکہ وہ وہیں ٹی وی کے پاس گم سم سی کهڑی تهی. باقی کا وقت وہ ادهر ادهر گهر کا جائزہ لیتی رہی لیکن ان سب سے بهی اس کی بوریت بالکل ختم نہیں ہوئی حالانکہ وہاں ٹائم پاس کے لیے کافی چیزیں تهیں.. میگزین اور ڈائجسٹ یہ تو وہ پڑھ نہیں سکتی تهی اور رہی بات ٹی وی کی تو وہ ڈر کے اسے آن نہیں کر رہی تهی کیونکہ بچپن میں اس نے سنا تھا ان سب چیزوں میں کرنٹ ہوتا ہے اور آن ہوتے ہی پهٹ جاتے ہیں.
وہ بچپن کے اس ڈر کو اپنے دل سے نکال ہی نہیں پائی..... دوپہر کا کهانا اس نے خود اپنے لیے بنایا تھا۔ گهر میں ضرورت کی ہر شے موجود تهی۔ یہ الگ بات ہے کہ ان چیزوں کو تلاش کرنے میں اس کا کافی وقت ضائع ہو گیا.. امیر لوگوں کی ہر شے الگ ہوتی ہے واش روم سے لے کر کچن تک
جتنا بڑا ان کا واش روم ہوتا ہے وہاں گاوں میں دو کمرے اتنی جگہ پہ بن جاتے اور باقی سازو سامان الگ.. پہلے پہل تو وہ واش روم کو دیکھ کر حیران ہوئی .. اس کے شوہر محترم شادی کے تیسرے دن ہی آفس چلے گئے اپنی نئی نویلی دلہن کو اتنے بڑے گهر میں اکیلے چهوڑ کر.
اس نے تو کهبی زندگی میں ان سب چیزوں کی تمنا نہیں کی تهی۔ یہ سب تو اسے بنا مانگے ہی مل گیا لیکن اتنی جلدی اتنی آسانی سے بڑی چیزیں کهبی نہیں ملا کرتیں.
عصر کی نماز ادا کر کے وہ ایک بار پھر کچن میں گهس گئی۔ اتنی بڑی عمارت میں اس کی کام کی جگہ صرف کچن ہی تهی... وہ اپنے شوہر کے لیے اپنے ہاتھوں سے کچھ اچها بنانا چاہتی تهی اس لیے وقت سے پہلے ہی تیاری کرنے لگی..
وہ جانتی تھی آدهے گهنٹے کے کام میں وہ تین گهنٹے تو ضرور لگا دے گی.... اس نے کہیں سنا تها کہ شوہر کے دل کا راستہ اس کے پیٹ سے ہو کر جاتا ہے اس لیے وہ اپنے شوہر کے دل میں جگہ بنانے کے لیے اس کی پسندیدہ بریانی بنانا چاہتی تهی....
اس کی پسند نا پسند اور اس کے بارے میں کچھ اور معلومات دادی نے عمرے پہ جانے سے پہلے اسے فراہم کیں تهیں.. چاہے وہ اس سے ناپسند کرے چاہے وہ اس سے نفرت کرے مگر وہ کهبی اس سے نفرت نہیں کرے گی ۔ وہ ایک بیوی ہونے کا فرض ضرور نبهائے گی.... چاہے وہ شوہر ہونے کا فرض نبهائے یا نا نبهائے......
صبح سے کچن میں مختلف الٹے سیدھے تجربات کر کے وہ اب کافی حد تک سمجھ چکی تهی.... اسے اس کے واپس آنے کا وقت نہیں پتا تها اس لیے سب کچھ جلدی جلدی کرنا چاہتی تهی. .. اپنی مطلوبہ ہر شے اس نے اپنے پاس کر لی.. اور پیاز کاٹنے لگ گئی۔ پیاز کاٹنے سے اس کی آنکھوں میں آنسو آنے لگے.. یہ صرف پیاز کاٹنے کے آنسو تهے یا ان میں کوئی اور آنسو بھی شامل ہو گئے یہ وہ نہیں سمجھ سکی.
فریج سے گوشت نکال کر اس نے پتیلے میں ڈال دیا اور چولہے کی آگ تهوڑی کم کر کے وہ مغرب کی نماز ادا کرنے کمرے میں چلی گئی.
جب نماز پڑھ کر واپس آئی تو بریانی تیار ہو چکی تهی اس نے احتیاطی طور پر پہلے خود چیک کر کے دیکها. اسے تو ٹهیک لگا لیکن پتا نہیں اس کے شوہر محترم کو پسند آئے گا بهی یا نہیں. .. وہ اور بھی کچھ بنانا چاہتی تهی لیکن بریانی بنانے میں ہی اتنا وقت ضائع ہو گیا کہ مزید کچھ بنانے کی گنجائش نہیں رہی.. وہ اب آہستہ آہستہ کچن سمیٹنے لگی۔ ایک بریانی بنانے کے چکر میں اس نے پورے کا پورا کچن بکهیر کر رکھ دیا تها.
اس نے دروازہ کھلنے کی آواز سنی وہ بهاگتی ہوئی کچن کے دروازے تک گئی وہ اپنا بیگ اٹهائے اندر داخل ہو چکا تها. .. اس کے ہاتھوں میں شاید کچھ کهانے کا سامان بھی تها جو اس نے ٹیبل پر رکھ دیا اور خود اپنے کمرے کی طرف چلا گیا..
ایک تو تهکن کافی محسوس ہو رہی تهی اور اوپر سے ٹینشن اسے کهائے جا رہے تھی۔ اپنے کمرے میں آ کر اس نے بیگ صوفے پہ پهینک دیا اور خود جوتوں سمیت بیڈ پہ لیٹ گیا... یہ شاید اس کی زندگی کے سب سے برے دن چل رہے تهے۔ گهر آتے ہی سب سے پہلے زوجہ محترمہ کے درشن ہو گئے .. وہ پہلے سے ہی بہت ڈسٹرب تها اور رہی سہی کسر محترمہ نے پوری کر دی.. اسے تو یہ سوچ سوچ کر ہی تکلیف ہو رہی تهی یہ ان پڑھ گوار لڑکی اس کی بیوی کی حیثیت سے اس گهر میں موجود ہے.
کافی دیر وہ یونہی بیڈ پہ لیٹا رہا جب تهکن کا احساس کافی حد تک کم ہوا تو اسے بهوک لگنا شروع ہوئی.. واش روم میں جا کر اس نے ہاتھ منہ دهوئے اور نیچے چلا گیا... اس نے متلاشی نگاہوں سے ادهر ادهر دیکها وہ نظر نہیں آئی.. لیکن اسے خود کے اس طرح متلاشی ہو کر دیکهنے پہ بہت غصہ آیا ۔ وہ کہاں ہے کیا کر رہی ہے اس سے اسے کیا مطلب؟ جہنم میں جائے اس کی بلا سے.
لیکن ٹیبل کے پاس پہنچ کر اس نے اپنا مطلوبہ شاپر غائب پایا جس میں وہ ہوٹل سے اپنے لیے کهانا لے کر آیا تها..
ویسے تو وہ ہمیشہ اپنے لیے گهر پہ کهانا خود بناتا تھا لیکن آج تهوڑا تهکا ہوا اور پریشان تها اس لیے اس نے ہوٹل سے کهانا خرید لیا. . مگر یہ شاپر اچانک کیسے کہاں غائب ہو گئا. .. اسے سمجهنے میں دیر نہیں لگی۔ یہ ضرور اس کی جاہل زوجہ محترمہ کا کام ہو گا.. لیکن وہ اس طرح شاپر لے جا کر کہاں غائب ہو گئی. . کیا اسے بهوک لگ رہی تهی... اور وہ کهانا وہ اپنے لیے لے گئی... لیکن وہ خود بھی تو بنا کر کها سکتی تهی.. بقول دادی کے تو وہ ہوٹلوں سے بهی اچها کهانا بناتی ہے. ..... وہ غصے سے کهولتا ہوا کرسی پہ بیٹھ گیا.
اور آنکھیں بند کر کرسی کی پشت پر ٹیک لگا دی.. پھر اس نے اپنی آنکھیں تب کهولیں جب اس نے ٹیبل پہ کچھ رکهنے کی آواز سنی... وہ ٹیبل پہ مختلف پلیٹوں میں کهانا لگا رہی تهی... اس نے ایک نظر اسے دیکها جو حد سے زیادہ خوش فہمی میں نظر آ رہی تهی اور پھر کهانے کو دیکهنے لگا.
جو وہ بے ترتیبی سے ٹیبل پہ سجا رہی تهی.. سالن کے بڑے ڈونگے میں اس نے بریانی ڈالی ہوئی تهی اور چاولوں کی پلیٹ میں اس نے سالن نکالا ہوا تها اور سب سے عجیب بات اس نے روٹیاں پتیلے میں رکھ دیں تهیں... اس نے غصہ ضبط کر لیا اور صرف خاموشی سے اسے یہ سب کاروائی کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا. . جب وہ سب کچھ مکمل کر چکی تب بھی وہ وہیں کهڑی اسے دیکهتی رہی.
کچھ چاہیے. .. اس نے سرد لہجے میں اسے مخاطب کیا.. اسے مخاطب کرنا اس کی مجبوری تهی۔ وہ کهانے کے دوران اسے بالکل بھی اپنے پاس نہیں دیکھ سکتا تها.. وہ اپنی گردن ہلا کر دوبارہ کچن میں چلی گئی اور برتن دهونے لگی۔ لیکن وہ جانتا تها وہ برتن دهوتے ہوئے بھی اسے ہی دیکھ رہی ہے.
وہ اسے نظر انداز کر کے کهانے کی طرف متوجہ ہوا. اس کی لائی ہوئی ساری چیزوں کے ساتھ بریانی کا بھی اضافہ تها . یہ بریانی وہ تو نہیں لایا تها تو پھر ضرور دادی کی اس سگهڑ بہو نے بنائی ہو گی . ویسے تو بریانی اس کی پسندیدہ ڈش تهی لیکن یہ چونکہ اس محترمہ نے بناٸی تھی اس لیے وہ اس ٹیبل پہ موجود بریانی کو چهوڑ کر ہر ڈش کے ساتھ انصاف کرنے لگا.. حالانکہ اس کا دل بہت چاہ رہا تها وہ بریانی کهائے لیکن دل کی اس خواہش کے درمیان اس کی انا آ رہی تهی اور وہ صرف بریانی کے لیے اپنی انا کهبی نہیں کچل سکتا تها.
کهانے کے بعد ٹشو سے ہاتھ صاف کرتا وہ لاونج میں رکهی ٹی وی دیکهنے لگا . ٹی وی دیکهتے وقت بھی وہ پتا نہیں کیوں بار بار ادھر ادھر دیکھ رہا تھا. .
دو گهنٹے کے بعد وہ ٹی وی کو چهوڑ کر اپنے کمرے کی طرف جا رہا تها حالانکہ وہ جو مووی دیکھ رہا تھا اس کے ختم ہونے میں ابهی آدها گهنٹہ باقی تها لیکن پتا نہیں کیوں اس کا ٹی وی دیکهنے کو بالکل دل نہیں چاہ رہا تھا . ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا وہ ہر مووی مکمل ہی دیکها کرتاتھا.
سیڑھیاں عبور کر کے وہ اپنے کمرے میں آیا .. کمرے میں جاتے ہی سب سے پہلی نظر اس پہ ہی پڑی وہ فرش پہ پوری دنیا سے بے خبر سو رہی تهی.. کتنے اطمینان سے وہ نیند کی آغوش میں تهی. . اس کا سکون چهین کر ، اس کی خوشی چهین کر.
وہ بنا کوئی آواز پیدا کیے بیڈ پہ آ کر لیٹ گیا. نیند کو کافی دیر تک بلانے کی کوشش کرتا رہا.. بہرحال رات کے جانے کون سے پہر وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہو چکا تها.
پهر اسے کی آنکھ رات کے دو بجے کهلی اس نے اس لڑکی کو دیکها جو بے خبر سو رہی تهی .. اسے پیاس اور بهوک کا احساس ہوا .. عموماً رات کو اسے بهوک اور پیاس کا احساس ہوتا رہتا اس لیے وہ ہمیشہ اپنے لیے فریج میں کهانا بچا کر رکهتا.. لیکن آج جہاں تک اسے یاد پڑ رہا ہے وہ جو کهانا لایا تها وہ سارا ختم کر چکا تها اب اسے اپنی بهوک مٹانے کے لیے خود ہی کچھ نہ کچھ بنانا تها.... وہ دروازہ کھول کر باہر نکل گیا.
دروازہ کھلنے کی آواز سے اس کی آنکھ کهلی.. اس نے سب سے پہلے اٹھ کر دروازے کو نہیں بیڈ کو دیکها.. جب اسے بیڈ سے غائب پایا تو وہ حیرانی سے کهڑی ہو گئی.. سامنے دیوار پہ لگی سوئیوں والی گهڑی سے اس نے وقت کا اندازہ لگانے کی کوشش کی تو اسے حیرت ہوئی دو بج رہے تهے. . اتنی رات کو وہ باہر کیا کرنے چلا گیا... پانی پینے؟
نہیں پانی کا تو جگ رکها ہوا ہے پهر کہاں گیا .. اسے تجسس ہونے لگا اور وہ کمرے سے باہر نکل آئی .. آہستہ آہستہ ادهر ادهر نگاہیں دوڑاتے ہوئے وہ سنگ مرمر سے بنی سیڑھیوں سے نیچے اترنے لگی۔ اسے کچن سے کچھ آوازیں آنے لگیں... اس نے قدموں کا رخ کچن کی جانب کر دیا
کچن کے دروازے پہ پہنچ کر اس پہ عجیب انکشاف ہوا .. وہ رات کے دو بجے کهانا کها رہا تها اس کا منہ دوسری طرف تها اس لیے وہ اسے دیکھ نہ سکا.... اور غور کرنے پہ اسے پتا چلا وہ اس کی بنائی ہوئی بریانی کها رہا تها .. یہ انکشاف خوشگوار تها اس کے چہرے پہ مسکراہٹ کے ساتھ ساتھ حیرت بهی تهی....
رات کے کهانے میں ٹیبل پہ موجود ہر شے کهانے والا اس کا وہ شوہر محترم صرف اور صرف اس کی بنائی ہوئی بریانی کو نظر انداز کر گیا... اسے اس وقت حقیقتاً بہت دکھ ہوا. . وہ کچن میں کافی دیر تک روتی رہی اس نے اتنی محنت سے اس کے لیے بریانی بنائی تهی اور اس نے چکهنا تک گوارا نہیں کیا.
اسے غصہ آیا اپنے مغرور شوہر پہ... اسے جتنا غصہ تها جتنا دکھ تها وہ سب اب ختم ہو چکا تها.. رات کے کهانے میں اس کے انا پرست شوہر نے بریانی کو ہاتھ تک نہیں لگایا اور اب رات کے دو بجے وہ اس کی بنائی ہوئی بریانی کتنی رغبت سے کها رہا تها.
وہ دروازے سے واپس پلٹ آئی اور کمرے میں آ کر سونے کے لیے لیٹ گئی.. اسے پہلے اگر دکھ کی وجہ سے نیند نہیں آ رہی تهی تو اب وہ خوشی سے سو نہیں پائے گی.
بیس منٹ بعد اس نے دروازے پہ اس کی آمد کو محسوس کیا. . لیکن وہ خود کو سوتا ہوا ظاہر کر رہی تهی .. جبکہ دل ہی دل میں اپنے شوہر کی اس عجیب و غریب چوری پہ مسکرا بھی رہی تھی.


نئی نویلی دلہن (قسط نمبر 3)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں


Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں