آرزو عشق - سیزن 1 (پہلا حصہ)

urdu stories

آرزو عشق - سیزن 1 (پہلا حصہ)

ہاتھ میں ٹارچ پکڑے، پھولتے تنفس اور تیز قدموں سے آگے بڑھتی وہ اس گھنے خوفناک جنگل سے نکلنے کا راستہ تلاش کر رہی تھی۔ گھنے جنگل میں پھیلتا دھواں اور دور سے آتی بھیڑیوں کی آواز نے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ناکارہ بنا دیا تھا۔ ماؤف ہوتے ذہن کے ساتھ وہ آگے بڑھ کر جھاڑیوں کو ہٹاتے ہوئے ایک بار پھر وہیں آ کھڑی ہوئی جہاں سے چلنا شروع کیا تھا۔

" اُف میرے خدا !! یہ جنگل تو ختم ہی نہیں ہوتا۔"
بےبسی اور خوف کے ملے جلے تاثرات لیے اس نے ٹارچ کی روشنی ارد گرد دوڑائی کہ اچانک عقب سے آتی اپنے نام کی پکار پر وہ یکدم اچھل پڑی۔ ایک فلک شگاف چیخ اس کے حلق سے نکلتی اس خوفناک جنگل کی فضاء میں گونج اٹھی تھی۔ ہاتھ میں پکڑا ٹارچ اچھلنے کے باعث دور جا گرا تھا۔ جبکہ وہ اندھیری سرد رات اور اس گھنے جنگل میں ارد گرد سے بیگانہ کھڑی وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔ جو بلیک پینٹ شرٹ میں ملبوس جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑا، چہرے پر پراسرار مسکراہٹ سجائے، اپنی آگ رنگ آنکھوں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

" کک۔۔ کون ہو تم؟ "
اس نے ڈرتے ہوئے پوچھا ساتھ ہی ہاتھ بڑھا کر اسے چھونا چاہا مگر پلک جھپکنے کی دیر تھی کہ یکدم وہ غائب۔۔۔
" یہ۔۔۔ یہ کہاں گیا؟ "

اس اندھیرے جنگل میں پھیلتے دھوئیں کو پریشانی اور خوفزدہ نظروں سے دیکھتے ہوئے وہ بڑبڑائی کہ تبھی قریب سے آتی بھیڑے کی آواز نے اس کی بچی کچی ہمت بھی مفقود کر دی۔
" یا اللّٰه !! "

بے اختیار اس کے منہ سے نکلا۔ قریب تر ہوتی بھیڑے کی آواز نے جسم کا سارا خون خشک کر دیا تھا۔ وہ ڈرتے ڈرتے پیچھے مڑی ہی تھی کہ تیزی سے چھلانگ لگاتا وہ اس سے پہلے اسے اپنا شکار بناتا کوئی تیزی سے ان کے درمیان آیا تھا۔
" آاااہ !! "

وہ چیختے ہوئے اُٹھ بیٹھی۔ مری کی سرد راتوں میں بھی اس کے چہرے پر پسینے کے قطرے چمک رہے تھے۔ تنفس تیزی سے چل رہا تھا۔ نیم اندھیرے کمرے میں وہ اس وقت اپنے بیڈ پر موجود خوف سے بُری طرح کانپ رہی تھی۔
" یہ کیسا بھیانک خواب تھا۔"

اس نے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پیسنے کو صاف کیا پھر خود پر سے کمبل ہٹاتی بیڈ سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ دور مسجدوں سے فجر کی اذان کی آوازیں آ رہی تھیں۔
ساری سوچوں کو جھٹکتے ہوئے اس نے آگے بڑھ کر نائٹ بلب بند کیا ساتھ ہی کمرے کی باقی لائٹس جلائیں اور وضو کرنے کمرے میں موجود باتھ روم کی طرف بڑھ گئی۔ جبکہ وہ وہیں بیڈ کے قریب رکھی کرسی پر بیٹھا اپنی آگ رنگ آنکھوں سے باتھ روم کے بند دروازے کو دیکھتے ہوئے اس کے باہر آنے کا انتظار کرنے لگا۔

نماز کے بعد وہ اپنے کمرے سے نکل کر لکڑی کی سیڑھیاں اُترتی نیچے آئی جہاں لیونگ روم کے ساتھ ہی چھوٹا سا کچن بنا تھا اور اس وقت اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔
" لگتا ہے ماما اُٹھی نہیں۔"

خود سے کہتے ہوئے وہ آگے بڑھی اور لائٹ آن کی جس کے ساتھ ہی پورے لیونگ روم میں روشنی چھا گئی۔ اس نے نظریں گھما کر چاروں طرف دیکھا۔
یہاں آئے آج انہیں دوسرا دن تھا۔ جبکہ زندگی کے اٹھارہ سال کراچی میں گزارتے ہوئے اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اپنے باپ عامر گردیزی کے انتقال کے بعد اسے سب کچھ چھوڑ کر مری آنا پڑے گا جہاں وہ ہمیشہ سردیوں میں اسکول کی چھٹیاں گزارنے آتی تھی۔
" کیا ہوا خاطره ایسے کیوں کھڑی ہو؟ "

مشہد کی آواز پر اس نے چونک کر ماں کی طرف دیکھا جو سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھیں۔
" کچھ نہیں بس ویسے ہی۔"
اس نے ٹالنا چاہا۔ باپ کا ذکر کر کے وہ صبح ہی صبح ماں کو اداس نہیں کرنا چاہتی تھی۔
" اچھا تو تم آتش دان جلا دو بہت سردی ہو رہی ہے مجھ سے برداشت نہیں ہو رہی۔"
مشہد کہتی ہوئی کچن کی طرف بڑھ گئی۔ جبکہ صوفے پر بیٹھتی خاطره ان کی بات پر رک کر انہیں دیکھنے لگی۔ جو ان گزرے پانچ ماہ میں کافی کمزور ہوگئی تھیں۔ اوپر سے کراچی جیسے شہر میں رہنے والے لوگوں کو بھلا مری کی ٹھنڈ کہاں برداشت ہوتی۔

" کیا ہوا مصری حسینہ یہاں آئے دو دن نہیں گزرے اور ابھی سے برداشت جواب دے گئی حالانکہ اب پوری زندگی یہاں گزارنی ہے۔"
دیوار میں بنے آتش دان کی طرف بڑھتے ہوئے وہ شرارت سے بولی ساتھ ہی چہرہ موڑ کر ماں کی طرف دیکھا جو ناشتہ بنانے میں مصروف ہو چکی تھیں۔

مشہد کا تعلق مصر سے تھا جبکہ عامر پاکستان سے مگر اکثر اپنی جاب کے باعث عامر کا پاکستان سے باہر آنا جانا رہتا تھا۔ ان کی ایک دوسرے سے ملاقات بھی امریکہ میں ہوئی تھی۔ جس کے بعد دوستی اور دوستی محبت میں بدلی تو دونوں نے شادی کا فیصلہ کر لیا۔ گھر والوں کو بھی کوئی اعتراض نہیں تھا۔ اس لیے عامر سے شادی کے بعد مشہد پاکستان چلی آئی تھی۔ چند ماه ساس سسر کے ساتھ مری میں گزارنے کے بعد وہ کراچی چلے گئے تھے۔ جہاں عامر کرائے کے فلیٹ میں رہتا تھا۔

خاطره کی پیدائش بھی کراچی میں ہی ہوئی تھی مگر اپنا سارا بچپن وہاں گزار کر اب اٹھارہ سال بعد جب عامر گردیزی کا روڈ ایکسیڈنٹ میں انتقال ہوا تو مشہد کی عدت پوری ہوتے ہی وہ فضول اخراجات سے بچنے کی خاطر دو کمروں کے کرائے کے فلیٹ کے ساتھ ساتھ کراچی کو چھوڑ کر مری میں اپنے دادا کے گھر چلی آئی تھی۔ جو دادا دادی کے انتقال کے بعد آٹھ سال سے ملازم کے رحم وکرم پر پڑا تھا۔

" تم نے پڑھائی کا کیا سوچا ہے؟ "
ڈائننگ ٹیبل پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھی وہ ناشتہ کرنے میں مصروف تھیں جب مشہد نے اس سے پوچھا۔
" میں اب پڑھنا نہیں چاہتی اب بس جاب کرنی ہے۔"
خاطره اپنی پلیٹ پر سر جھکائے دھیرے سے بولی۔ اچھے سے جانتی تھی مشہد کبھی اس بات پر راضی نہیں ہوں گی۔
" دماغ خراب ہے تمہارا؟ تمہیں لگتا ہے بس اے لیول کے بیس پر تمہیں کوئی اچھی جاب ملے گی؟ " وہ اسے گھورتے ہوئے پوچھنے لگی۔
" تو آپ بتائیں کیا صرف آپ کے جاب کرنے پر گھر کا خرچہ چل جائے گا اور میری یونیورسٹی کی فیس وغیرہ بھی؟ جبکہ یہاں کے ملازم کو بھی ہم نے فارغ کر دیا فضول خرچی سے بچنے کیلئے۔"
" فضول خرچی سے بچنے کیلئے نہیں بلکہ اپنی اور تمہاری حفاظت کیلئے اسے فارغ کیا ہے۔ کیونکہ وہ غیر مرد تھا اور اب صرف ہم دو لوگ ہیں اور ویسے بھی کرائے کے گھر سے بھی جان چھوٹ گئی۔ تو میں سب سنبال لونگی۔" مشہد سنجیدگی سے بولی جبکہ اس کی آخری بات پر خاطره کی ہنسی چھوٹ گئی۔
" سنبال نہیں ماما سنبھال اتنے سال گزر گئے مگر آپ کی اردو ابھی تک ٹھیک نہیں ہوئی۔" وہ ہنسی دباتے ہوئے بولی۔
" بات نہیں گھماؤ۔" مشہد نے اسے ٹوکا۔

" ماما پلیز ابھی نہیں پاپا کے بعد اب میرا کچھ کرنے کو دل نہیں چاہ رہا۔" ایک دم کھانا چھوڑتی وہ اُٹھ کھڑی ہوئی۔ مشہد نے خاموشی سے اس کی نم ہوتی آنکھوں کو دیکھا۔ پھر گلا کھنکھار کر گویا ہوئی۔
" ٹھیک ہے ابھی پڑھنا نہیں چاہتی مت پڑھو مگر جاب کا خیال بھی دماغ سے نکال دینا۔" اتنا کہہ کر وہ برتن سمیٹنے لگیں۔

خاطره نفی میں سر ہلاتی سیڑھیوں کی جانب بڑھی کہ مشہد کی آواز پر رک کر انہیں دیکھنے لگی۔
" تم آج گروسری سٹور جا کر کچھ شاپنگ کر آؤ۔ ایسا کرنا مہینے بھر کا سامان لے آنا۔"
" ٹھیک ہے میں چلی جاتی ہوں۔ کمرے سے اپنا کوٹ لے آؤں۔" وہ اثبات میں سر ہلا کر کہتی اپنا کوٹ لینے اوپر کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ جبکہ مشہد ناشتے کے برتن دھونے لگی تھیں۔

مری کی فلک بوس پہاڑیاں اور ان پہاڑیوں کے سینے سے بہتے جھرنوں کی آوازیں وہاں موجود ہر شخص کو سکون بخش رہی تھی ہر سو سبزہ ہی سبزہ پھیلا ہوا تھا۔ ایسے میں وہ بلیک کوٹ اور سر پر لال اسکارف پہننے، ہاتھوں میں شاپر بیگز تھامے اپنی ہی دھن میں مگن سڑک پر آگے بڑھتی جا رہی تھی۔ جب گاڑی کے تیز ہارن کی آواز پر چونک کر اچھلی۔ ہاتھ میں پکڑے شاپر بیگز چھوٹ کر زمین بوس ہو چکے تھے۔
" اف !! یہ کیا ہوگیا۔"

غصّے سے اپنے سامنے موجود کار میں بیٹھے شخص کو دیکھ کر وہ نیچے جھکی اور شاپر بیگز اُٹھانے لگی جب وہ کار سے باہر نکل کر گاڑی کا دروازہ بند کرتا اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔
" مس خطرہ !! میری ہی گاڑی ملی تھی سامنے آ کر خودکشی کیلئے؟ "
اس سوال پہ ماتھے پر بل ڈالے خاطره نے چہرہ اُٹھا کر اسے دیکھا جو وائٹ پینٹ شرٹ پر بلیک کوٹ پہنے آنکھوں پہ سن گلاسز لگائے اس کے سر پر کھڑا تھا۔

" او ہیلو !! اول تو یہ کے میرا نام "خاطره" ہے نہ کے "خطرہ" اور دوسرا میں کوئی خودکشی نہیں کر رہی تھی بلکہ آپ مجھے اپنی گاڑی کے نیچے کچلنے والے تھے۔" وہ اس کے مقابل کھڑے ہوتے ہوئے بولی۔
" اول تو خود گاڑی کے سامنے آ کر مجھے بھی کورٹ جانے کیلئے دیر کروا رہی ہیں دوسرا اوپر سے کہہ رہی ہیں میں آپ کو اپنی گاڑی سے کچلنے والا تھا آر یو میڈ مس خاطره ؟ "
آنکھوں سے گلاسز اُتارتے ہوئے وہ بھی اسی کے انداز میں بولا۔ جبکہ اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے خاطره مبہوت سی ہو کر ان سمندر جیسی نیلی آنکھوں کو دیکھنے لگی تھی کہ ایک دم چونکی۔
" ایک منٹ !! آپ کو کیسے پتہ میرا نام خاطره ہے؟ "
" کیا !! دماغ تو ٹھیک ہے آپ کا؟ " اس نے حیرت سے سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھا جو ناک پھلائے اپنی سیاہ آنکھوں سے اسے مشکوک انداز میں دیکھ رہی تھی۔
" ابھی آپ نے ہی بتایا میرا نام "خطرہ" نہیں "خاطره" ہے۔ حالانکہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کیلئے بھی خطرہ بنی ہوئی ہیں۔" ایک ابرو اُٹھا کر کہتے ہوئے اس نے یوں کار کے سامنے آ جانے پر چوٹ کی۔
"میں نہیں آپ خطرہ بنے پھر رہے ہیں سڑک پر چلنے والے لوگوں کیلئے مسٹر لائر (جھوٹا) صاحب !! "
اب کے خاطره نے بھی اس کے مخصوص وکیلوں والے حلیے کو ایک نظر دیکھتے ہوئے چوٹ کی اور شاپر بیگز کو مضبوطی سے پکڑ کر اس کے سائڈ سے نکلتی چلی گئی۔ جبکہ وہ مسکرا کر اس کی پشت کو دیکھتا مڑا ہی تھا کہ نیلی سمندر جیسی آنکھوں کی جگہ لال انگارا آنکھوں نے لے لی۔

" ماما یہ دیکھ لیں میں سامان لے آئی ہوں۔" گھر میں داخل ہو کر اس نے شاپر بیگز ڈائننگ ٹیبل پر رکھے ساتھ ہی مشہد کو آواز لگائی۔
" کتنی دیر لگا دی تم نے آنے میں، میں تو پریشان ہی ہوگئی تھی۔"
اپنے سنہرے بالوں کا جوڑا بناتے ہوئے وہ کمرے سے باہر نکلی۔ بھوری آنکھوں اور لہجے میں فکر واضح تھی۔
" اوہو !! پریشان ہونے والی کیا بات ہے۔ کونسا پہلی دفعہ ہم یہاں آئے ہیں۔"
اسکارف اور کوٹ اُتار کر صوفے پر رکھتے ہوئے وہ کچن کی طرف بڑھی اور فریج سے پانی کی بوتل نکال کر پینے لگی۔
" بیٹا جن مکان کی چھت نہ ہو وہاں چوروں کے آنے کا خطرہ ہی رہتا ہے۔ پہلے تم اپنے بابا کے ساتھ جاتی تھیں اور آج اکیلے۔"
دھیمے لہجے میں کہتے ہوئے انہوں نے بیٹی کی طرف دیکھا جس کی گلابی رنگت اور تیکھے نین نقوش تو ماں سے مشابہت رکھتے تھے مگر بال اور آنکھیں اس کے پاپا پر تھے " سیاہ "
خاطره پانی کی بوتل واپس فریج میں رکھ کر وہ مشہد کے پاس چلی آئی۔
" پیاری ماما آپ کی فکر ٹھیک ہے مگر اللّٰه کا سہارا ہے نا ہمارے ساتھ اور اللّٰه اپنے بندوں کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑتا۔"
ماں کے کندھے پر ٹھوڑی رکھ کر وہ پیار سے بولی۔ مشہد نے بھی نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا۔
" چلو اب کچن سے باہر نکلو میں زرا کھانے کی تیاری کر لوں۔"
" اوکے۔"

مشہد کے گال پر بوسہ دیتی وہ پیچھے ہٹی اور کچن سے باہر نکل کر لیونگ روم کے صوفے پر رکھا اپنا کوٹ اور اسکارف اُٹھا کر لکڑی کی سیڑھیاں چڑھتی اپنے کمرے کی جانب بڑھی۔ جبکہ وہ وہیں صوفے پر بیٹھا اپنی آگ رنگ آنکھوں میں پُراسرار چمک اور ہونٹوں پر تبسم لیے بڑبڑایا تھا۔
" دیوونتم !! "

آسمان پر چھائے سرمی بادل اور ہلکی پھلکی بارش میں مری کا موسم جہاں خوشگوار لگ رہا تھا وہیں ذوالفقار پیلس میں پراسرار سا سماں تھا۔ اندھیرے کمرے میں وہ ایزی چیئر پر بیٹھا اپنی سمندر جیسی نیلی آنکھوں سے آتش دان میں اُٹھتے شعلوں کو دیکھ رہا تھا کہ تبھی اس کے عقب سے ایک نسوانی آواز ابھری۔
" غازی میرے بچے تم کب آئے؟ "
سیاہ لباس میں ملبوس، اپنے سیاہ گھنے بالوں کا جوڑا بنائیں وہ اس کے سامنے آئیں۔ ان کی سمندر جیسی نیلی آنکھوں میں اپنے بیٹے کیلئے محبت صاف واضح تھی۔
" وہ کیوں آیا تھا یہاں؟ "

جتنے نرم لہجے میں رباب نے اسے مخاطب کیا تھا اتنی ہی گرجدار آواز میں اس نے پوچھا تھا کہ ذوالفقار پیلس کے درو دیوار بھی اس کی دھاڑ سے گونج اُٹھے تھے۔
" غازی تمہارے دادا کی طبیعت خراب ہے بیٹا آرام سے اور وہ بابا سے ملنے ہی آیا تھا۔"
وہ اسے پیار سے سمجھانے لگیں۔ جس کی آنکھیں اب لال انگارا ہو رہی تھیں۔
" آئندہ وہ مجھے ذوالفقار پیلس تو کیا مری میں بھی نظر نہ آئے ورنہ اس بار کوئی اسے نہیں بچا پائے گا۔" وہ دانت پیستے ہوئے غرایا۔
" غازی !! " اب کے رباب کی آواز میں بھی سختی در آئی۔
غازان سر جھٹکتا چیئر سے اُٹھا اور اپنا کوٹ اُتارنے لگا۔ وہ ابھی بھی اپنے وکیلوں والے حلیے میں ہی تھا۔
" مجھے کورٹ جاتے وقت ہی محسوس ہو گیا تھا کہ وہ مری میں ہے۔"
" غازی یہ گھر اس کا۔۔۔"

وہ بول ہی رہی تھیں کہ ایک دم رکیں ساتھ ہی نظروں کا رخ دروازے کی جانب کیا۔ جو خودبخود کھلتا چلا گیا تھا۔
" تم !! " غازان کے ماتھے پر بل پڑے۔
" میں آپ سے ملنے ہی آرہی تھی پر آپ لوگوں کی باتیں کرنے کی آوازیں سن کر باہر رک گئی۔"
ریڈ گاؤن میں ملبوس قانتا کہتی ہوئی اندر آئی۔ وہ عام سے نقوش کی حامل لڑکی تھی جس نے اپنے چہرے کو میک اپ کی تہ میں چھپا رکھا تھا۔

" ہماری باتوں کی آوازوں پر باہر رک گئی یا باتیں سننے کیلئے باہر رک گئیں۔"
وہ اسی طرح ماتھے پر بل ڈالے سختی سے پوچھ رہا تھا جبکہ قانتا اس کی بات کو نظر انداز کرتی رباب کے پاس جا کھڑی ہوئی۔
" کیا حال ہیں میڈم حسینہ!! "اپنی خالہ کے گلے میں بازو ڈال کر اس نے لاڈ سے پوچھا۔
رباب مسکرا دیں۔ وہ واقعی کہیں سے بھی غازان کی ماں نہیں لگتی تھیں۔ سرخ وسفید رنگت پر خوبصورت نین نقوش، سمندر جیسی نیلی آنکھیں اور اس پر ان کے کالے سیاہ لمبے بال جس کے باعث وہ ادھیڑ عمری میں بھی جوان ہی نظر آتی تھیں۔
" میں بالکل ٹھیک بچے۔ تم کب آئیں؟ "
" بس تبھی جب آپ نے میرے استقبال کیلئے دروازہ کھولا تھا۔" وہ آنکھوں میں شرارت لیے بولی۔
" اچھا چلو باہر چل کر باتیں کرتے ہیں۔"
رباب اس سے کہہ کر غازان کی جانب مڑیں جو بیزار نظر آرہا تھا۔ انہوں نے مسکرا کر اس کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھاما اور آگے بڑھ کر اس کے ماتھے پر بوسہ دیا ہی تھا کہ وہ ایک دم ٹھہر گئیں۔ نظروں کے سامنے غازان کسی لڑکی کے ساتھ کھڑا نظر آیا تھا۔
" میں تم سے بعد میں بات کروں گی۔"
وہ پیچھے ہوتے ہوئے بولیں۔ آنکھوں میں سرد مہری در آئی تھی۔ جسے غازان بڑے آرام سے نظر انداز کر گیا تھا۔

رباب قانتا کو اپنے ہمراہ لیے کمرے سے باہر نکل گئیں۔ جبکہ وہ پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑکی کے پاس جا کھڑا ہوا جہاں سے وہ چھوٹی چھوٹی اینٹوں سے بنا خوبصورت سا گھر صاف دکھائی دے رہا تھا۔ وہ ایک چھلاوے کی طرح کھڑکی سے باہر نکلا اور بائیں جانب موجود درختوں سے گزرتے ہوئے اس ایک درخت پر جا بیٹھا جہاں سے اس گھر کے اندر کا منظر واضح دکھائی دے رہا تھا۔
" تو میڈم آرام فرما رہی ہیں۔"
غازان کے لبوں کو مسکراہٹ نے چھوا۔ کمرے سے چھلکتی بلب کی روشنی میں وہ اپنے بیڈ پر نیم دراز ٹی وی دیکھنے میں مگن تھی۔


آرزؤ عشق سیزن 1 (دوسرا حصہ)


تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں



Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories for adults only, Urdu stories
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں