آرزو عشق - سیزن 1 (دوسرا حصہ)

Urdu Font Stories

آرزو عشق - سیزن 1 (دوسرا حصہ)

جن اور انسانی لڑکی کی محبت

فجر کے بعد سے ہی ہلکی پھلکی بارش کا سلسلہ بند ہو چکا تھا۔ جسے دیکھتے ہی خاطره ناشتے کے بعد مشہد سے اجازت لے کر چہل قدمی کیلئے گھر سے باہر نکل آئی تھی اور اب بلیک کوٹ اور ریڈ اسکارف میں ملبوس، مری کی دلکش وادیوں کو دیکھتے ہوئے گیلی سڑک پر آگے بڑھتی جارہی تھی جب اس کی نظر سڑک کے بائیں جانب موجود محل نما گھر پر پڑی۔
" یہ گھر تو۔۔۔"

اس نے آگے بڑھ کر مین گیٹ پر نصب تختی کو دیکھا جس پر ذوالفقار پیلس لکھا تھا۔
" یہ گھر تو مسٹر آفندی کا تھا یہ کب سے ذوالفقار پیلس میں بدل گیا۔" وہ بڑبڑائی۔
آواز اتنی اونچی تھی کہ اس کے پیچھے چلتے غازان نے باآسانی سن لی۔
" تقریباً ایک سال پہلے۔"

عقب سے آتی آواز پر وہ چونکی۔ مڑ کر دیکھا تو غازان ٹریک سوٹ پہنے، سینے پر بازو باندھے کھڑا سنجیدگی سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
" ایک سال؟ " خاطره نے دھرایا۔
" ہاں !! تقریباً ایک سال ہونے والا ہے۔ مسٹر آفندی کو یہ گھر بیچے ہوئے اور ہمیں یہاں رہتے ہوئے۔" اس کے چہرے کے اُتار چڑھاؤ کو بغور دیکھتے ہوئے اس نے بتایا۔

" ویسے مس خطرہ کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کیسے جانتی ہیں یہاں مسٹر آفندی اور ان کی فیملی رہتے تھے؟ " غازان نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔ جس کے ماتھے پر " خطرہ " سنتے ہی بل پڑگئے تھے۔
" مائنڈ یو !! اول تو میرا نام خطرہ نہیں خاطره ہے اور دوسری بات میں آپ کو جواب دینا ضروری نہیں سمجھتی مسٹر۔۔۔"
" غازان۔۔۔ غازان ذوالفقار !! "
اس سے پہلے وہ ایک بار پھر اسے " لائر " جیسے لقب سے نوازتی خاطره کی بات کاٹتا وہ اپنا تعارف کرانے لگا۔

" جو بھی ہو اب خطرہ بولا نا تو واقعی خطرہ بن کر آپ پر نازل ہو جاؤ گی۔"
غصّے سے پیر پٹختی وہ اس کے سائڈ سے نکلتی چلی گئی۔ غازان نے چمکتی آنکھوں سے اسے دور جاتے دیکھا پھر مڑکر خود بھی ذوالفقار پیلس کے اندر چلا گیا۔
۔*********۔
" تو میرا پوتا آ گیا۔"
دادا ذوالفقار نے اسے کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر کہا۔ جو اپنی خالہ زاد قانتا اور چچا زاد میکال کو ان کے کمرے میں بیٹھا دیکھ کر ایک دم سنجیدہ ہو گیا تھا۔
" کیسی طبیعت ہے دادا ؟ " انکے بیڈ کے قریب جاتے ہوئے اس نے نرم لہجے میں ان کی خیریت دریافت کی۔
"اب بالکل ٹھیک ہوں۔ تم بتاؤ کل سے کہاں غائب تھے؟ "
سفید شلوار قمیض میں ملبوس، اپنے پُرنور چہرے پر سجی لمبی سفید داڑھی پر ہاتھ پھیرتے وہ اس کے چہرے کے تاثرات کا بغور جائزہ لے رہے تھے۔
" آپ جانتے ہیں پھر کیوں پوچھ رہے ہیں؟ " اس نے پلٹ کر سوال کیا۔ قانتا اور میکال خاموشی سے انہیں گفتگو کرتے دیکھ رہے تھے۔
" خیر میں پھر آؤں گا ابھی مجھے ضروری کام سے جانا ہے۔" سنجیدگی سے کہتا وہ جیسے آیا تھا ویسے ہی باہر نکل گیا۔ اس کے جاتے ہی میکال دادا ذوالفقار کو دیکھتے ہوئے گویا ہوا۔
" تو اسے پتا چل گیا وہ آیا تھا؟ "
" اُس کے آنے کی خبر کسی کو ہو نہ ہو اسے لازمی ہو جاتی ہے۔" وہ جتاتے ہوئے بولے۔ جس پر میکال اپنا سر کھجا کر رہ گیا۔
آخر کو وہ کیسے سوچ سکتا تھا غازان ذوالفقار کو اس بات کی خبر نہ ہوگی؟ اگر کوئی پرندہ بھی ذوالفقار پیلس میں پر مارے تو اسے خبر ہوجاتی تھی۔ تو پھر اپنے دشمن کی آمد کی خبر اسے کیسے نہ ہوتی۔
۔*********۔
مشہد اپنے جاب انٹرویو کیلئے جا چکی تھی اس لیے گھر کی صاف صفائی کے بعد خاطره اپنے کمرے میں چلی آئی تھی۔ تنہا گھر میں اسے نہ جانے کیوں عجیب سا محسوس ہو رہا تھا۔
" اف !! تھوڑی دیر کمر سیدھی کر لوں پھر دوپہر کے کھانے کی تیاری کروں گی۔"
خود سے بڑبڑاتی وہ بیڈ پر جا لیٹی ابھی آنکھیں بند کیے چند منٹ ہی گزرے تھے کہ ایک زور دار آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ اس نے پٹ سے آنکھیں کھولیں۔
" یہ کیسی آواز ہے؟ "
چہرہ موڑ کر دیکھا تو کمرے کا دروازہ کھلا پڑا تھا وہ ایک جھٹکے سے اُٹھ بیٹھی ساتھ ہی بیڈ سے اُتر کر دروازے کی جانب بڑھی۔
" میں نے تو دروازہ بند کیا تھا۔ یہ کیسے کھلا؟ "
کمرے سے باہر نکل کر اس نے سیڑھیوں سے نیچے جھانکا۔ پورے لیونگ روم میں اندھیرا چھایا ہوا تھا جو اس بات کا ثبوت تھا کہ مشہد ابھی تک واپس نہیں لوٹی۔
" ماما تو ابھی تک نہیں آئیں پھر یہ۔۔۔ اف شاید میرا وہم تھا۔"
سر پر ہاتھ مارتی وہ واپس کمرے میں آئی ساتھ ہی دروازے کو اچھے سے لاک لگا کر بیڈ پر جا لیٹی مگر اب جسمانی تھکن کے بجائے ذہنی تھکن سوار ہو چکی تھی۔ اس لیے کچھ دیر کروٹیں بدلتے رہنے کے بعد وہ تنگ آ کر بیڈ سے اُٹھی اور کمرے سے باہر نکل گئی۔ جبکہ وہیں بالکنی سے باہر درخت پر بیٹھے کوّے کی آگ رنگ آنکھیں چمک اُٹھی تھیں۔
۔*********۔
کمرے سے نکل کر وہ نیچے کچن میں چلی آئی تھی اور اب دوپہر کے کھانے کی تیاری میں لگی تھی جب باہر دروازے سے بیل بجنے کی آواز آئی۔ اس نے کوفت سے دروازے کو دیکھا اگر مشہد ہوتی تو چابی ان کے پاس تھی وہ خود دروازہ کھول کر آجاتیں مگر اب نہ جانے کونسا بن بلایا مہمان آ گیا تھا جو دروازے کی بیل مسلسل بجائے جا رہا تھا۔ جیسے اگلے نے دروازہ کھولنے چل کر نہیں اُڑ کر آنا ہے۔
" آئی بھئی صبر۔"
اس نے کچن سے ہی آواز لگائی پھر ہاتھ صاف کرتی دروازے کی جانب بڑھی۔
" جی کون؟ "
دروازہ کھولا تو سامنے ہی ایک خوش شکل نوجوان کو کھڑا پایا۔
" جی میں آپ کا پڑوسی ہوں۔ وہ اُس گھر سے۔" اس نے دائیں جانب موجود ایک گھر کی طرف اشارہ کیا۔
" جی ٹھیک ہے پھر؟ " خاطره نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔ کیا وہ بس یہ بتانے آیا تھا۔
" جی یہ میری امی نے بھیجا ہے دراصل آج کے دن ہم حلوہ بنا کر بانٹتے ہیں تو پڑوسی ہونے کے ناطے میں آپ کو بھی دینے چلا آیا۔"
اس نے کہتے ہوئے ہاتھ میں پکڑی پلیٹ خاطره کی طرف بڑھائی۔ جسے اس نے جھجکتے ہوئے تھام لیا تھا۔
" شکریہ !! "
خاطرہ نے چہرے پر مسکراہٹ سجا کر کہا۔ جواباً وہ بھی مسکراہٹ اچھالتا وہاں سے چلا گیا۔ جبکہ خاطره دروازہ بند کرتی واپس کچن میں چلی آئی۔ ہاتھ میں پکڑی پلیٹ سلیب پر رکھ کر اس نے دیکھا تو سوجی کا حلوہ تھا۔
" فریج میں رکھ دیتی ہوں۔ ماما آئیں گی تو وہی دیکھیں گی کیا کرنا ہے۔"
سوچتے ہوئے اس نے پلیٹ اُٹھا کر فریج میں رکھ دی۔ گوکہ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی کراچی میں بھی ہر تہوار کے موقع پر یا ویسے ہی عام دنوں میں بھی ایسے کھانے پینے کی چیزیں بنا کر بانٹی جاتی تھیں۔ مگر اس انجان جگہ میں آکر اسے سب کچھ عجیب لگ رہا تھا حالانکہ اس کیلئے مری اتنا انجان بھی نہیں تھا۔
۔*********۔
غازان اپنے کمرے میں داخل ہوا تو رباب کو دیکھ کر ایک دم ٹھٹھک گیا۔ جو غالباً اس کے ہی انتظار میں یہاں موجود تھیں۔
" آپ یہاں؟ "
غازان ان کی موجودگی کی وجہ سے انجان نہیں تھا پر پھر بھی انجان بن کر سوال کر رہا تھا۔
" سیرئیسلی غازان؟ " انہوں نے حیرت سے اسے دیکھا۔ لیکن وہ خاموش رہا۔
" سچ میں تم۔۔۔ تم ایک انسان سے؟ "
وہ شاکڈ تھیں بھلا یہ تربیت تو انہوں نے نہیں کی تھی۔ انہوں نے تو اسے انسانوں کے درمیان رہتے ہوئے انسانوں سے دور رہنا سکھایا تھا۔
" ماما میں اس معاملے میں بےبس ہوں اور اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔"
غازان کہتا ہوا کمرے میں موجود صوفے پر جا بیٹھا۔ وہ غصّے سے اس کی طرف مڑیں۔
" تم شاید بھول رہے ہو غازان۔"
" میں کچھ نہیں بھولا۔"

وہ بھی غصّے سے دھاڑ اُٹھا جس پر ذوالفقار پیلس کے درو دیوار بھی اس کی دھاڑ سے گونج اُٹھے تھے۔ باہر سے گزرتا میکال بھی ایک پل کیلئے چونکا مگر پھر سر جھٹک کر آگے بڑھ گیا۔ غازان کے غصّے سے ہر کوئی واقف تھا۔ اتنا غصّہ اتنا جنون تو شاید باپ میں بھی کبھی نہیں رہا تھا جتنا بیٹے میں موجود تھا۔
" نہیں تم بھول رہے ہو کہ تم انسان نہیں بلکہ۔۔۔"
" ایک جن ہوں۔"
غازان نے رباب کی بات کاٹی۔ آنکھوں کا رنگ بدل کر لال انگارا ہو رہا تھا۔ جیسے شعلے بھڑک رہے ہوں۔
" ہاں اور اللّٰه نے جن و انس کے درمیان ایک حد قائم کی ہے جسے تم پار کرنے کی کوشش کر رہے ہو۔ ہم ان کے درمیان تو رہ سکتے ہیں مگر ان کے ساتھ نہیں۔"
اب کے رباب کے لہجے میں سختی کی جگہ نرمی نے لے لی تھی۔ آخر کو اکلوتی اولاد تھی اور پھر ماں چاہے جس بھی روپ میں ہو آخر کو ماں ہوتی ہے جو اپنی اولاد کو ہر سرد و گرم سے بچا کر رکھنا چاہتی ہے۔ وہ نہیں چاہتی تھیں غازان اُس لڑکی کی وجہ سے کسی مشکل میں پڑ جائے۔
" کچھ نہیں بھولا ہوں میں ماں۔ لیکن میں کیا کروں؟ میں وہ دن آج تک نہیں بھولا جب پہلی بار میں نے اسے کراچی میں اپنے روبرو دیکھا تھا۔"
سر صوفے سے ٹکائے بےبسی سے کہتا وہ آنکھیں بند کر گیا۔ جبکہ رباب ساکت کھڑی اسے دیکھ رہی تھیں۔ وہ کیا کہہ گیا تھا۔۔۔

" یہ تم نے بنایا ہے؟ "
مشہد نے پلیٹ میں موجود سوجی کے حلوے کو دیکھتے ہوئے خاطره سے پوچھا جو ڈائننگ ٹیبل پر کھانا لگا رہی تھی۔
" نہیں کوئی لڑکا دے کر گیا ہے کہہ رہا تھا پڑوسی ہے۔" وہ سرسری سے لہجے میں بولی۔
" اچھا ٹھیک ہے۔"
مشہد نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ کیونکہ ان باتوں کی وہ خود بھی عادی ہو چکی تھیں۔ انہوں نے چمچہ اُٹھایا اور تھوڑا سا چکھ کر دیکھا۔
" کافی اچھا بنایا ہے۔ تمہاری دادی بھی ایسے ہی حلوہ بنایا کرتی تھیں جب وہ ہم سے ملنے کراچی آتی تھیں تو اپنے ساتھ بنا کر لے آتی تھیں۔ تمہارے پاپا کو بہت پسند تھا نا۔" وہ کہتے ہوئے گزرے وقت کو یاد کرتیں اداسی سے مسکرائیں۔
خاطره نے خاموشی سے چاول پلیٹ میں نکال کر ان کے سامنے رکھے۔ کبھی کبھی تسلی، دلاسے کیلئے انسان کے پاس الفاظ کم پڑ جاتے اور اس وقت سب سے بہتر راستہ "خاموشی" ہی ہوتا ہے۔
" آپ کے انٹرویو کا کیا بنا؟ ویسے میں بتاتی ہوں واپسی پر آپ جتنی خوش تھیں اس سے تو یہ ہی لگ رہا ہے کہ جاب مل گئی۔" خاطره ان کے سامنے رکھی چیئر پر بیٹھتے ہوئے بولی۔
" بالکل ٹھیک لگ رہا ہے۔ مجھے اسکول میں انگلش لیکچرر کی جاب مل گئی ہے۔ او لیولز کے بچوں کو پڑھانا ہے اور سیلری بھی اچھی ہے۔" وہ مسکرا کر بولیں۔ خوشی ان کے انداز سے ہی جھلک رہی تھی۔
" چلیں اچھا ہے۔ میں بھی سوچ رہی تھی کوئی آن لائن جاب کر لوں۔"
خاطره کی بات پر مشہد کی مسکراہٹ ایک دم سمٹی۔ منہ تک جاتا نوالہ ہوا میں ہی رہ گیا تھا۔ انہوں نے گھور کر اسے دیکھا۔
" تم بس پڑھائی کا سوچو فضول باتوں کو دماغ سے نکال دو ویسے بھی پیسوں کی کمی نہیں۔ تمہارے پاپا کافی پیسہ بینک میں چھوڑ کر گئے ہیں پھر اب میں بھی جاب کروں گی اور گھر کے رینٹ کا بھی اب کوئی مسئلہ نہیں تو بہتر ہے بس پڑھائی کے بارے میں سوچو اس کے بعد جہاں جاب کرنا ہو کر لینا سمجی؟ "
" سمجی نہیں سمجھی۔" وہ منہ کر بولی۔
" زیادہ میری اماں بنے کی کوشش مت کرو۔"
اسے ڈپٹ کر وہ واپس اپنی پلیٹ پر جھک گئیں جبکہ خاطره منہ بنا کر چیئر سے اُٹھی کہ اچانک سر چکرانے لگا۔ اس نے فوراً ہاتھ بڑھا کر ٹیبل کو تھاما۔
" کیا ہوا؟ " مشہد متفکر سی ہو اُٹھیں۔
" کچھ نہیں میں ٹھیک ہوں آپ کھانا کھائیں۔"
انہیں بیٹھے رہنے کا اشارہ کرتی وہ چکراتے سر کے ساتھ کچن کی طرف بڑھنے لگی تھی جب کسی خیال کے تحت اس نے مڑ کر حلوے کی طرف دیکھا جسے آدھے سے زیادہ وہ کھا چکی تھی۔
" میں بھی نہ جانے کیا سوچ رہی ہوں۔ بھلا حلوے میں کیا ہوگا۔"
سر جھٹکتی وہ واپس کچن کی طرف بڑھ گئی۔

آرزؤ عشق سیزن 1 (تیسرا حصہ)


تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں



Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories for adults only, Urdu stories
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں