آرزو عشق - سیزن 1 (تیسراحصہ)

urdu stories in urdu font

آرزو عشق - سیزن 1 (تیسرا حصہ)

جن اور انسانی لڑکی کی محبت

کمرے میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔ رباب خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھیں۔ ساری کہانی سننے کے بعد انہیں سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ اسے کیسے منع کریں کہ اس لڑکی سے دور رہے مگر۔۔۔ کچھ تو کرنا تھا۔
" میں اُس سے دور نہیں رہوں گا ماما۔ اس لیے اگر آپ نے اسے مجھ سے دور کرنے کی کوشش کی یا اُسے نقصان پہنچایا تو میں خود کو ختم کر دوں گا۔" وہ جیسے ان کی سوچ پڑھ گیا تھا۔
رباب نے شکوہ کناں نظروں سے اسے دیکھا۔ شوہر کے بعد اپنی اکلوتی اولاد کو وہ کھو نہیں سکتی تھیں آخر کو اسی کا چہرہ دیکھ کر تو وہ جی رہی تھیں۔ ورنہ زندگی نے دیا ہی کیا تھا۔ بے لوث محبت کے بدلے بے وفائی۔
" ٹھیک ٹھیک میں کچھ نہیں کروں گی مگر تم اُس سے دور رہو گے۔"
" میں نے کہا نا میں اس سے دور نہیں رہ سکتا۔" وہ دھاڑتا ہوا ایک دم صوفے سے اُٹھ کھڑا ہوا۔ رباب ڈر کر ایک قدم پیچھے ہٹی تھیں۔

" تم۔۔۔ تم ایسا کیسے کر سکتے ہو؟ کہیں تم نے۔۔۔ تم نے اس پر اپنی مہر تو نہیں لگا دی؟ "
وہ بے یقینی سے اسے دیکھنے لگیں۔ مگر غازان کے چہرے پر کوئی افسوس، کوئی ملال نہیں تھا۔ بلکہ ضد تھی، جنون تھا، ملکیت کا نشہ تھا، سب کچھ پا لینے کی چاہ تھی۔
" اب کچھ نہیں ہوسکتا۔ میں اُس سے دستبردار نہیں ہو سکتا۔"
کہنے کے ساتھ ہی وہ وہاں سے غائب ہو گیا جبکہ رباب کی چیخ و پکار پورے ذوالفقار پیلس میں گونج اُٹھی۔

 
کھانے کے بعد مشہد تھکن کے باعث اپنے کمرے میں آرام کرنے چلی گئی تھیں۔ جبکہ خاطره وہیں لیونگ روم میں رکھے صوفے پر بیٹھی اپنے موبائل میں مصروف تھی جب دروازے سے بیل بجنے کی آواز آئی۔
" شاید وہ لڑکا اپنی پلیٹ لینے آیا ہو۔"
وہ سوچتے ہوئے صوفے سے اُٹھی اور دروازے کی طرف بڑھی۔ ہاتھ بڑھا کر ابھی دروازہ کھولا ہی تھا کہ اپنے سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر اس کی آنکھیں پھیل گئیں۔
" آپ !! "
" جی میں؟ " غازان مسکرایا۔
" آپ یہاں کیا کر رہے ہیں اور یہ آپ کو کیسے پتہ میرا گھر ہے؟ "
خاطره نے اسے مشکوک انداز میں گھورا ساتھ ہی دروازہ بند کر کے گھر سے باہر نکل آئی تاکہ مشہد کی نیند نہ خراب ہو۔
" آپ نے تو بتایا تھا آج صبح۔ لگتا ہے بھول گئیں۔"
غازان اسے چمکتی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بولا۔ جو ریڈ ہائی نیک اور بلیک جینز پر گلے میں اسٹالر پہنے کھڑی اسے گھور رہی تھی۔
" میں نے !! میں نے کب بتایا؟ " وہ حیران ہوئی۔
" ارے آپ بھول گئیں۔ آپ تو اپنا نام بتا کر بھی بھول گئی تھیں۔" غازان نے اسے جتایا۔
خاطره الجھ کر اسے دیکھتی ذہن پر زور ڈالنے لگی جب غازان اس کا دھیان بٹانے کیلئے بول پڑا۔
" ویسے آپ کا گھر بہت پیارا ہے اندر نہیں بلائیں گی؟ "
" میں بن بلائے مہمان کو گھر کے اندر نہیں بلاتی۔" وہ منہ بنا کر بولی۔
غازان دلچسپی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ سارا غصّہ، ساری تھکن اسے سامنے دیکھ کر ہی ہوا ہوگئی تھی۔
" اچھا دیکھیں موسم کتنا پیارا ہو رہا ہے کہیں گھومنے چلتے ہیں۔"
" او بھائی ہیلو !! کیوں بلاوجہ فری ہو رہے ہو اور میں کیوں جاؤں آپ کے ساتھ؟ " دونوں ہاتھ کمر پر رکھے اس نے گھورا۔

" استغفر اللّٰه !! اتنا ہینڈسم بندہ آپ کو بھائی لگ رہا ہے توبہ یہ سننے سے پہلے میرے کان پھٹ کیوں نہیں گئے۔" غازان نے باقاعدہ کانوں کو ہاتھ لگایا۔
" اُف !! خاصے چھچھورے ہیں آپ لائر۔۔۔"
" ایڈووکیٹ غازان ذوالفقار !! "
اس سے پہلے وہ پھر اسے لائر جیسے لقب سے نوازتی غازان اس کی بات کاٹتا جلدی سے بول اُٹھا۔
" جو بھی ہوں۔ یہاں کیوں آئے ہیں آپ؟ "
" میں تو ہمسایوں کے حقوق نبھانے آیا تھا مگر آپ تو سیدھے منہ بات ہی نہیں کر رہیں۔" غازان نے مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا۔
" اب نبھا لیے نا حقوق جائیں مجھے اور بھی بہت کام ہیں۔" خاطرہ کہہ کر جانے لگی تھی جب غازان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر روکا۔
" یہ آپ کی انگوٹھی ہے جو آپ میرے گھر کے سامنے چھوڑ آئی تھیں۔"
چند منٹ پہلے اس کے کمرے سے چوری کی ہوئی انگوٹھی غازان نے مسکراتے ہوئے اس کے سامنے کی۔
" یہ کب میں نے تو وضو کرتے وقت اُتار دی تھی۔" وہ الجھی ساتھ ہی شرمندگی بھی ہوئی۔ وہ اس کی انگوٹھی لوٹانے آیا تھا اور وہ کیا سوچ رہی تھی۔
" کیا ہوا آپ کی نہیں ہے؟ "
" نہیں۔۔۔ میرا مطلب میری ہی ہے پر۔۔۔۔"
" پر کیا؟ آپ کی ہے تو لیں۔" غازان نے کہتے ہوئے اس کے ہاتھ میں تھمائی۔
" چلیں چلتا ہوں پھر ملاقات ہوگی۔"
اسے وہیں کشمکش میں کھڑا چھوڑ کر وہ جیسے آیا تھا ویسے ہی واپس ہو لیا۔ خاطرہ نے الجھن بھری نظروں سے اپنے ہاتھ میں موجود انگوٹھی کو دیکھا نہ جانے آج اس کے ساتھ ہو کیا رہا تھا۔
" مجھے شاید آرام کی ضرورت ہے۔" خود سے بڑبڑاتی وہ واپس گھر کے اندر چلی گئی۔
۔*********۔
رباب پریشان سی کمرے میں ادھر سے اُدھر ٹہل رہی تھیں۔ غازان کا انداز انہیں کسی خطرے کی علامت لگ رہا تھا۔ پر اسے روکنا بھی ناممکنات میں سے تھا۔ وہ یوں ہی سوچتی پریشانی سے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگیں جب قانتا اچانک وہاں نمودار ہوئی۔ اس کا یوں آنا رباب کو سخت ناگوار گزرا۔
" تم اس وقت یہاں کیا کر رہی ہو؟ "
" آپ کا اور غازان کا جھگڑا کیوں ہو رہا تھا ایسی کیا بات ہوئی ہے؟ " وہ ان کی بات نظرانداز کرتے ہوئے بولی۔
" کچھ نہیں تمہیں پتہ تو ہے جب " وہ " آتا ہے تو غازان ایسے ہی بھڑک جاتا ہے۔"
رباب کہتے ہوئے سائڈ ٹیبل کی جانب بڑھیں اور وہاں رکھا لال مشروب اب گھونٹ گھونٹ اپنے اندر اُتار رہی تھیں۔

" تو پھر آپ اتنے غصّے میں کیوں چیخ رہی تھیں؟ " قانتا جیسے مطمئن نہیں ہوئی تھی۔
" قانتا یہ ہم ماں بیٹے کے بیچ کی بات تھی۔ تم چھوڑو اسے اور مجھے بتاؤ میری بہن نازیہ کیسی ہے؟ "
وہ اس کے پاس آکے گال تھپتھپا کر بولیں پھر اسے لیے صوفے پر جا بیٹھیں۔
" ماما بالکل ٹھیک ہیں اور وہ چاہتی ہیں آپ جلد از جلد ان کے داماد سے بات کریں۔" وہ تھوڑا شرماتے ہوئے بولی۔
رباب کے چہرے پر ایک دم سنجیدگی چھا گئی تھی۔ اب وہ اسے کیا بتاتیں کہ ان کا بیٹا ایک انسان پر عاشق ہو گیا ہے اور اب وہ اس سے شادی نہیں کرے گا۔
" بیٹا تم فکر نہیں کرو میں جلد بات کروں گی۔" وہ کچھ سوچتے ہوئے بولیں۔ ذہن میں ایک جنگ سی چھڑ چکی تھی۔
" اور کتنا وقت خالہ ستائیس سال کا ہے وہ اور آپ ابھی بھی صرف بات کریں گی۔" قانتا نے الجھ کر انہیں دیکھا۔
غازان کی ضدی طبیعت کے باعث اسے ہمیشہ سے ڈر تھا کہیں وہ اپنی مرضی سے شادی نہ کر لے گوکہ وہ کوئی عاشق مزاج جن نہیں تھا جو ہر کسی پر فدا ہو جائے۔ وہ جن ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سچا مسلمان بھی تھا جو خود کو اپنی محرم کیلئے محفوظ رکھتا تھا۔ مگر قانتا سے غازان ذوالفقار کا گریز اسے ہمیشہ ہی خوف کا شکار کر دیتا تھا۔
" میں نے کہا نا، تم فکر نہیں کرو میں تمہیں مایوس نہیں کروں گی۔" وہ اسے تسلی دینے لگیں جبکہ ذہن صرف ایک ہی بات پر اٹکا ہوا تھا۔
" اگر وہ نہیں مانا تو۔۔۔ "

اس نے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی مگر چہرے کو جھلسا دینے والی سورج کی کرنوں نے اس کی کوشش کو نام بنا دیا تھا۔ جسم جل رہا تھا جیسے کسی نے آگ کے قریب لا کھڑا کیا ہو اور آگ کی لپٹیں اسے چھونے کی کوشش کر رہی ہوں۔
گلے میں چبھن سی محسوس ہو رہی تھی جس کے ساتھ ہی پیاس کی شدت بڑھتی جارہی تھی۔ اس نے آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر ارد گرد دیکھنا چاہا مگر یہ کیا۔۔۔ وہ تو کسی تپتے صحرا میں آ گری تھی۔
" میں۔۔۔ میں یہاں کیسے؟ "
اس نے خوف سے ارد گرد دیکھا۔ دور دور تک ریت ہی ریت نظر آ رہی تھی۔
" میں ادھر کیسے آئی؟ میں تو گھر پر تھی؟ " خوف بڑھتا جا رہا تھا جب ایک چنگھاڑتی ہوئی آواز اسے اپنے عقب سے سنائی دی۔
وہ ایک جھٹکے سے پیچھے مڑی جب چمگادڑ نما دیو قامت پروں والے خوفناک پرندے کو اپنے پیچھے آتے دیکھ اس نے سامنے دوڑ لگا دی۔
پیچھے مڑے بغیر وہ آگے بھاگتی جا رہی تھی۔ سانس بھی اب پھولنے لگی تھی جب کڑکتی دھوپ اور پیاس کی شدت سے نڈھال ہوکر وہ منہ کے بل تپتی ريت پر جا گری۔ آنکھیں بند ہونے لگی کہ تبھی اپنے گرد سخت گرفت محسوس ہوئی۔ اس نے آنکھوں کو بمشکل کھولنے کی کوشش کی جب اس نے اپنے چہرے پر کسی کو جھکتا ہوا پایا۔۔۔
"چھوڑو مجھے۔۔۔"
وہ چیختے ہوئے اُٹھ بیٹھی۔ ماتھے پر پسینے کے قطرے چمک رہے تھے۔ اس نے ارد گرد دیکھا وہ اپنے کمرے میں ہی موجود تھی۔ کمرے کی لائٹس بھی جل رہی تھیں اور دروازے کے سامنے مشہد کھڑی تھیں۔
" مغرب کے وقت سوتی رہو گی تو ایسے ہی ڈراؤنے خواب آئیں گے۔" وہ اس کے چیخنے پر طنز کرتے ہوئے بولیں۔
" سوری وہ میں بور ہو رہی تھی تو لیٹے لیٹے آنکھ لگ گئی تھی۔"
خاطره کہتی ہوئی اُٹھ کھڑی ہوئی اور سیدھا باتھ روم میں گھس گئی۔ منہ ہاتھ دھو کر اس نے سامنے لگے آئینے میں خود کو دیکھا تو چونک اُٹھی۔
" یہ کیسے ہوا؟ "
گردن پہ موجود سرخ نشان اسے ایک پل کیلئے ساکت کر گیا تھا۔

نیم اندھیرے کمرے میں پھیلتا لال دھواں ماحول کو پراسرار بنا رہا تھا۔ وہیں وہ ایک کونے میں کھڑی، آگ کے اوپر رکھی بڑی سی دیگچی میں چمچہ چلاتی ساتھ ساتھ کچھ پڑھتی جا رہی تھی جب "وہ" دروازہ کھول کر تیزی سے اندر داخل ہوا۔
" کیا ہے؟ کیوں آئے ہو؟ "
وہ ناگواری سے اسے دیکھتے ہوئے بولیں۔ جو آتے ہی سائڈ ٹیبل پر رکھے کیمیکلز کی بوتلیں اُٹھا اُٹھا کر دیکھ رہا تھا۔
" ماما زوجیل !! آپ کا دیا مشروب ختم ہو گیا مجھے اور چاہیئے۔"
وہ اپنی آگ رنگ آنکھوں سے انہیں سنجیدگی سے دیکھتا ہوا گویا ہوا۔
" پہلے بھی تم لے کر گئے تھے آخر کرنا کیا چاہ رہے ہو تم؟ " زوجیل نے تیکھی نظروں سے اسے دیکھا۔
" اپنے دشمن کو سبق سکھانا چاہتا ہوں اور کیا۔ بس آپ مجھے وہ مشروب دے دیں۔ میں اس وقت فضول بحث کے موڈ میں نہیں۔" وہ آنکھیں گھماتا ہوا بولا۔
" زوالقرنین !! " وہ دھاڑ اُٹھیں۔
" وہ بھائی ہے تمہارا دشمن نہیں۔"

" اوہ پلیز ماما !! یہ بھائی بھائی بہت کھیل لیا اب وقت آگیا ہے کہ یہ کھیل ختم کیا جائے۔"
منہ بنا کر کہتا وہ دائیں ہاتھ پر بنے کیبنٹ کی طرف بڑھا۔ کھول کر دیکھا تو سامنے ہی من چاہا مشروب رکھا ہوا تھا۔ اس کی آنکھیں چمک اُٹھیں۔
ہاتھ بڑھا کر اس نے مشروب اُٹھایا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہاں سے غائب ہو گیا۔ جبکہ زوجیل سر جھٹکتی ایک بار پھر اپنے سابقہ کام میں مشغول ہو چکی تھیں۔


آرزؤ عشق سیزن 1 (چوتھا حصہ)


تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں



Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories for 
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں