آرزو عشق - سیزن 1 (چوتھا حصہ)

Urdu Stories
 

آرزو عشق - سیزن 1 (چوتھا حصہ)

جن اور انسانی لڑکی کی محبت

اُس کے کمرے میں اندھیرا پھیلا ہوا تھا ۔ آج شاید جلدی سوگئی تھی ورنہ رات کے دو بجے سے پہلے وہ سویا نہیں کرتی تھی ۔
غازان باہر ٹیرس میں کھڑا دور سے اس کے کمرے کو دیکھ رہا تھا۔ دل تھا کہ وہاں جائے مگر دماغ تھا جو اسے روک رہا تھا۔ آخر اس سے اتنی بڑی غلطی کیسے ہو گئی تھی۔ اسے یہ نہیں بھولنا چاہیئے تھا کہ وہ جن ہے اور خاطره ایک انسان اس طرح دو مخلوق کا ملن ناممکن تھا۔ مگر مشکل تو نہیں تھا اگر وہ خاطره کو اور اس کی ماں کو نہ بتائے تو۔۔۔؟

لیکن یہ دھوکے والی بات ہوجائے گی پھر اگر سچ بتائے گا تو بھی وہ اسے کھو دے گا اور خاطره کو وہ کھونا نہیں چاہتا تھا۔
" غازی؟ "
میکال کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ غازان نے مڑ کر نہیں دیکھا اس کی پکار سے پہلے ہی وہ اس کی آمد سے واقف ہوچکا تھا۔
" تم گئے نہیں لندن ظہیر چاچو اور صبرینا چچی کے پاس؟ "
غازان نے چہرہ موڑ کر اسے دیکھا جو اس کے برابر آ کھڑا ہوا تھا۔

" نہیں !! عدینہ (بہن) بھی پوچھ رہی تھی کب تک آؤں گا پر اب میرا جانے کا ارادہ نہیں۔" میکال آسمان پر نظر آتے تاروں کو دیکھتے ہوئے بولا۔
ظہیر ذوالفقار اور صبرینا ذوالفقار اپنی چھوٹی بیٹی عدینہ کے ساتھ ایک ماہ پہلے لندن شفٹ ہوچکے تھے۔ مقصد وہاں بزنس کی دنیا میں اپنا نام بنانا تھا۔ جو ان کیلئے مشکل نہیں تھا۔ مگر میکال کا لندن جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا اس لیئے بعد میں آنے کا بہانہ بنا کر وہ یہیں رک گیا تھا۔

" کیوں؟ تم نے تو کہا تھا بعد میں جاؤ گے اور اب تو ایک ماہ ہوگیا۔" غازان پوری طرح سے اس کی طرف متوجہ ہوا۔
" یار بھائی میں یہیں رہنا چاہتا ہوں۔ تمہارے اور دادا ذوالفقار کے پاس مجھے لندن نہیں جانا۔" اس نے منہ بنایا۔
" تو پھر جھوٹ کیوں بولا تھا۔"
" کیونکہ ماما ایموشنل بلیک میل کرنے بیٹھ جاتیں اس لیے انہیں ٹالنے کیلئے بول دیا تھا۔"
وہ سر کھجاتا ہوا بولا۔ غازان نے مسکرا کر اس کے سر پر ہاتھ مارا۔
" اف کتنا بھاری ہاتھ ہے۔"
" ایک اور ماروں۔"
" نہیں نہیں۔" میکال نے کانوں کو ہاتھ لگایا۔
" اچھا ایک بات تو بتاؤ تمہارا بڑی ماں سے کیوں جھگڑا ہوا ہے؟ " میکال اب اصل بات پر آیا تھا۔
" کچھ خاص نہیں بس ویسے ہی؟ " غازان ایک دم سنجیدہ ہوا۔
" تم جھوٹ نہیں بول سکتے یہ کام بس مجھے ججتا ہے۔"
اس نے کہتے ہوئے فخریہ انداز میں کالر جھاڑے۔ غازان خاموش رہا۔ ایک بار پھر اس کی سوچوں کا محور خاطره کی جانب ہوا تھا۔
" باس کہیں کسی جنی کا چکر تو نہیں؟ کہیں تم قانتا کے ساتھ بے وفائی کا تو نہیں سوچ رہے۔"
میکال تو مزاحیہ انداز میں بولا مگر قانتا کا ذکر اور لفظ بے وفائی نے غازان کو بھڑکنے پر مجبور کر دیا۔
" دماغ درست ہے تمہارا کیا بکواس کر رہے ہو۔"
اس کی دھاڑ سے ذوالفقار پیلس کی درودیوار تک ہل کے رہ گئی۔ آنکھوں میں بھی سرخی اُتر آئی تھی جس پر میکال کو فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔ اس لیے ایک بھی پل مزید ضائع کیے بغیر وہ فوراً وہاں سے غائب ہوا۔

صبح ہوتے ہی مشہد ناشتے کے بعد تیار ہو کر اسکول کیلئے نکل چکی تھی جبکہ خاطره گھر کی صاف صفائی میں لگ گئی تھی۔ کیونکہ فی الوقت اس کے پاس اپنی مصروفیات کیلئے اور کچھ تھا بھی نہیں۔ جلدی جلدی ہاتھ چلاتی وہ گھر کو سمیٹنے میں لگی تھی جب دروازے کی بیل بجی۔
" کہیں آج پھر تو نہیں آگئے؟ "

اسے غازان کا خیال آیا مگر پھر سر جھٹکی دروازے کی طرف بڑھی۔ ہاتھ بڑھا کر دروازہ کھولا تو سامنے وہی حلوے والا شخص کھڑا تھا۔
" آ آ۔۔۔ آپ !! "
" جی وہ پلیٹ لینے آیا تھا۔" وہ اس کی جھجھک محسوس کرتا وضاحت دینے لگا۔
" اوہ ہاں !! ہاں ابھی لائی۔"
خاطره جلدی سے دروازہ بند کر کے کچن کی جانب مڑی اور سلیب پر رکھی پلیٹ اُٹھا کر واپس دروازے پر آئی۔
" یہ لیں آپ کی پلیٹ، کافی اچھا بنا تھا حلوہ۔"
اس کی بات پر سامنے کھڑے شخص کی بھوری آنکھوں میں چمک سی ابھری۔
" واقعی آپ کو پسند آیا؟ "
" جی اپنی امی کو میرا شکریہ کہے گا۔" وہ مسکرا کر بولی۔
" جی ضرور، ویسے کیا میں آپ کا نام جان سکتا ہوں؟ "
اب کے خاطره کی مسکراہٹ سمٹی۔ وہ خاموشی سے اسے دیکھنے لگی۔
" وہ دراصل پھر امی کو کیسے بتاؤ گا کہ کن محترمہ نے ان کے حلوے کی تعریف کی ہے اور شکریہ بھی کہا ہے۔ اس لیے آپ کا نام پوچھا۔ اب تو ویسے بھی ہم پڑوسی ہیں آنا جانا تو لگا رہے گا۔" وہ لہجے میں شرارت لیے وضاحت کرنے لگا۔ خاطره دھیرے سے مسکرا دی۔ اس کی مسکراہٹ دیکھ کر وہ مزید ہمت کرتا اپنا تعارف کرانے لگا۔

" ویسے میرا نام رہبان مرزا ہے۔ پچیس سال عمر ہے اور ایک کمپنی میں سافٹ وئیر انجینئر ہوں۔"
" اور میرا نام خاطره گردیزی ہے۔ اے لیول کیا ہے اور فی الوقت فارغ ہوں"
اسے سر سے ٹالنے کیلئے ناچار خاطره کو بھی بتانا پڑا۔ مگر چونکہ لڑکیاں عمر نہیں بتاتیں اس لیے وہ بھی چھپا گئی۔
" نائس !! " رہبان ہنسا۔
" خیر اچھا لگا آپ سے مل کر پھر ملاقات ہوگی۔"
مسکرا کر کہتا وہ پلیٹ ہاتھ میں لیے اپنے گھر کی جانب بڑھ گیا۔ جبکہ خاطره لب کاٹتی اس کی پشت کو گھورے جا رہی تھی۔
" اف !! میرا دماغ خراب ہو گیا ہے میں کل سے کچھ زیادہ ہی سوچے جارہی ہوں۔"
خود سے بڑبڑاتی وہ دروازہ بند کر کے واپس اپنے کام میں لگ گئی۔ ابھی اسے دوپہر کے کھانے کی بھی تیاری کرنی تھی۔
۔*********۔
" کیا ہوا رباب بیٹا؟ کل سے پریشان لگ رہی ہو۔"
رباب اس وقت دادا ذوالفقار کے کمرے میں تھیں جب انہوں نے پریشان دیکھ کر پوچھا۔
" کچھ نہیں بابا بس غازان کی فکر ہے۔"
رباب چہرے پر جبراً مسکراہٹ سجا کر بولیں۔ اب وہ دادا ذوالفقار کو کیا بتاتیں کہ ان کا پوتا ایک انسان کی چاہ میں عاشق بنا پھر رہا ہے۔
" تم اس کی فکر چھوڑ دو۔ غازان اب سمجھدار ہو گیا ہے ہمارے خاندان کا سب سے لائق بچہ ہے۔"
وہ اپنے خوبرو پوتے کو سوچتے ہوئے فخر سے بولے۔ رباب نے آنکھیں گھمائیں۔
" ابھی انہیں پتہ چل جائے ان کا لائق فائق پوتا کتنی سمجھداری کا کام کر رہا ہے تو دنیا سے کوچ کر جائیں گے۔" وہ سوچ کے رہ گئیں۔
" اب کیا سوچ رہی ہو؟ "
" کچھ نہیں میں آپ کیلئے سوپ لے کر آتی ہوں۔ بہت کمزور ہوگئے ہیں۔"
" کمزور نہیں بوڑھا ہوگیا ہوں۔"
دادا ذوالفقار نے کہتے ہوئے اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرا۔ رباب مسکرا کر انہیں دیکھتی کمرے سے باہر نکلیں تو ایک بار پھر ان کے چہرے پر سنجیدگی چھاگئی۔

کمرے میں آکر وہ بالکنی کے دروازے پر لگے پردوں کو درست کرنے لگی جب ایک تیز ہوا کا جھونکا اس کے چہرے پر آئی سیاہ زلفوں کو چھوتے ہوئے گزرا۔ خاطره چونکی پھر سر جھٹک کر واپس پردوں کی طرف متوجہ ہوئی۔ اس بات سے بےخبر کہ اس وقت وہ کمرے میں موجود دو نیلی پُرشوق نگاہوں کی زد میں ہے۔
" شاید پاپا کے انتقال کو میں نے اپنے سر پر سوار کر لیا اس لیے مجھے وہم ہونے لگا ہے۔"
وہ سوچتے ہوئے بالکنی کا دروازہ بند کرکے بیڈ کی جانب بڑھی کہ تبھی بالکنی کے دروازے سے کچھ ٹکرانے کی آواز آئی۔ وہ تیزی سے مڑی، دروازہ کھول کر دیکھا تو پتھر پڑا ہوا تھا۔ اس کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔
" یہ بچے بھی نا۔"
پتھر اُٹھا کر اس نے بالکنی سے نیچے جھانکا تو آنکھوں کی پتلیاں یکدم پھیل گئیں۔
" تم۔۔۔ میرا مطلب آپ؟ "
" ہاں میں نیچے آؤ۔"
غازان کے کہنے پر اس نے تیکھی نظروں سے گھورا پھر واپس کمرے کے اندر چلی گئی۔
نیچے کھڑا غازان اس کے باہر آنے کا انتظار کرنے لگا جب چند لمحوں بعد وہ فل سلیوز پنک ٹی شرٹ اور بلیو ٹائٹس میں ملبوس دروازہ کھول کر باہر آئی۔
" اب کیا ہوا؟ آج تو میں گھر سے باہر بھی نہیں نکلی کہ آپ کے دروازے پر کچھ چھوڑ آئی ہوں۔"
" ہاں تو میں نے بھی کب کہا کچھ دینے آیا ہوں۔" غازان دلچسپی سے اسے دیکھتے ہوئے بولا۔
" کیا کوئی کام نہیں ہے آپ کو لائر صاحب؟ " وہ طنز کرنے سے باز نہ آئی۔
" ہے نا مس خطرہ۔" غازان نے مسکراہٹ دبائی۔
" ہے تو پھر جا کر کریں۔"
" وہی کر رہا ہوں۔"

" کیا؟ " خاطره نے بھنویں بھینچ کر اسے دیکھا۔
" مطلب میں نے کہا تھا نا پھر ملاقات ہوگی۔ کل مجھے ضروری کام تھا اس لیے جانا پڑا لیکن آج فارغ ہوں تو بتائیں کیا کہنا ہے۔" وہ لہجے میں شرارت لیے بولا۔
" مجھے کچھ نہیں کہنا آپ جائیں یہاں سے۔"
" چلیں پھر ساتھ چلتے ہیں۔" اس کی ڈھٹائی پر اب کی بار خاطره کا منہ کھل گیا۔
" کہاں؟ "
" کہیں بھی گھومنے چلیں موسم کتنا خوبصورت ہو رہا ہے۔"
" موسم روز ایسے ہی خوبصورت ہوتا ہے اور آپ کیا ہر کسی کو ایسے ہی گھومنے کی آفر کرتے رہتے ہیں جو آج میرے پاس آگئے؟ " وہ ماتھے پر بل ڈال کر بولی۔ دل تو چاہ رہا تھا اسے کہیں اُٹھا کر پھینک دے۔
" استغفر اللّٰه !! میں "ون ویمن مین" ہوں۔ ہر کسی کو ایسی آفر کرنا تو دور یوں ہر کسی سے بات بھی نہیں کرتا۔" غازان اس کی بات کا برا مان گیا۔
" تو پھر مجھے کیوں کر رہے ہیں؟ " خاطره نے دونوں بازوں سینے پر باندھے۔
" کیونکہ آپ "ہر کسی" میں شامل نہیں ہوتیں۔"
غازان نے کہتے ہوئے اپنی چمکتی آنکھیں اس کی آنکھوں پہ جمائیں۔ دو منٹ کیلئے تو خاطره ہر چیز سے غافل ہو کر اس کی سمندر جیسی نیلی آنکھوں کو دیکھنے لگی۔ عین ممکن تھا کہ وہ اس کے جملوں پر ایمان لے آتی کہ ایک دم چونک کر پیچھے ہٹی۔

" بہت بہت شکریہ لیکن مجھے کہیں نہیں جانا۔"
اتنا کہہ کر وہ تیزی سے مڑی اور گھر کے اندر جا کر دروازہ غازان ذوالفقار کے منہ پر بند کر دیا۔ اب وہ دروازے کے ساتھ لگی اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کر تیز ہوتی دھڑکنوں کو قابو کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
" اف یہ آدمی !! لگتا ہے مجھے اپنا اسیر بنا کر ہی دم لے گا۔"

" یہ آج کل تم کیا کر رہے ہو زوالقرنین؟ "
کمرے میں داخل ہو کر وہ تیز لہجے میں بولیں۔ سامنے ہی بیڈ پر لیٹا وہ اپنا من پسند مشروب پینے میں مصروف تھا۔
" ماما زوجیل !! جب سب جانتی ہیں تو پھر کیوں پوچھ رہی ہیں۔ ہر وقت تو اُس جادوئی بال کے زریعے مجھ پر نظر رکھتی ہیں پھر بھی یہ ڈرامے۔" سرخ خون کو اپنے حلق سے اُتارتے ہوئے وہ زوجیل کو تیش دلا گیا۔
" تمیز سے بات کیا کرو ماں ہوں تمہاری۔"
" اور میں بھی آپ کی اولاد ہوں وہ بھی ناجائز، پھر آپ اپنے گناہ سے نیکی کی امید کیسے کر سکتی ہیں؟ "
زوالقرنین کی بات سے زوجیل کا چہرہ سرخ پڑ گیا جبکہ وہ سکون سے بیٹھا چہرے پر مکرو مسکراہٹ سجائے انہیں دیکھ رہا تھا۔
" صحیح کہتا تھا تمہارا باپ تمہارا اور " اس کا " کوئی مقابلہ نہیں۔"
اب کے زوجیل نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی اسے تیش دلانے کی۔ ان کی بات پر ایک جھٹکے سے اُٹھتا ان کے پاس پہنچا اور گردن کو دبوچ کر دیوار سے لگا دیا۔
" میرا اور اس کا کوئی مقابلہ نہیں؟ " اس نے گرفت مزید سخت کی۔
" ہاں وہ میرے سامنے کچھ بھی نہیں چیونٹی کی طرح مسل کر نہ رکھ دیا تو میرا نام بھی "زوالقرنین ذوالفقار" نہیں۔"

ایک جھٹکے سے ان کی گردن چھوڑتا وہ دیوار کے آر پار نکل گیا۔ جبکہ زوجیل گردن پہ ہاتھ رکھے، کھانستی ہوئی وہیں گھٹنوں کے بل بیٹھتی چلی گئیں۔ انکے اپنے گناہ زوالقرنین کی بدولت اب سامنے آ رہے تھے۔


آرزؤ عشق سیزن 1 (پانچواں حصہ)


تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں



Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں