آرزو عشق - سیزن 1 (پانچواں حصہ)

 

urdu font stories

آرزو عشق - سیزن 1 (پانچواں حصہ)

جن اور انسانی لڑکی کی محبت

وہ غصّے سے بھپرا درختوں سے گزرتے ہوئے جنگل کے بیچوں بیچ جا کھڑا ہوا تھا۔ خاطره کی گردن پہ موجود نشان اس سے مخفی نہیں رہا تھا۔ غازان اُس سے پوچھنا چاہتا تھا کہ اُس کی گردن پہ وہ نشان کیسے آیا مگر اس کے پوچھنے سے پہلے ہی خاطره گھر کے اندر جا چکی تھی۔

پھر وہ نشان بھی کوئی معمولی نشان نہیں تھا۔ ایسے نشانات کسی جنات کے چھونے سے ہی انسان کے جسم پر نمایاں ہوتے تھے اور یہی بات غازان کو پاگل کر دینے کیلئے کافی تھی۔

" آخر کون کر سکتا ہے ایسا؟ " اس نے غصّے سے پاس موجود درخت پر ہاتھ مارا۔
" کہیں ماما؟ نہیں وہ ایسا کبھی نہیں کریں گی۔ باقی کسی اور میں بھی اتنی ہمت نہیں کے میری چیز کو ہاتھ لگانے کی جرات کرے۔ پھر کون ہو سکتا ہے؟ " غازان سوچتے ہوئے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا کہ ایک دم چونکا۔
" کہیں وہ۔۔۔ نہیں نہیں وہ اگر مری میں ہوتا تو مجھے معلوم ہوجاتا۔" اس نے خود کو جھٹلایا۔

" پھر کون۔۔۔ ڈیم اٹ مجھے اس پر نظر رکھنی چاہیئے تھی تاکہ اُسے کوئی چھونا تو دور آنکھ اُٹھا کر دیکھ بھی نہ سکے۔"
خود سے کہتے ہوئے اس نے پاس موجود درخت پر ایک بار پھر غصّے سے ہاتھ مارا مگر اس بار انداز میں ایسی شدت تھی کہ درخت اُکھڑ کر زمین پر جا گرا ساتھ ہی ایک زور دار آواز فضاء میں بلند ہوئی تھی۔ جس کے بعد جانوروں کی آوازیں بھی اس خوفناک جنگل کی فضاؤں میں گونجنے لگیں تھی۔
" تم جو کوئی بھی ہو، تمہیں اس کی قیمت چکانی پڑے گی۔"
اپنی سمندر جیسی نیلی آنکھوں میں بدلے کی آگ لیے وہ تیزی سے درختوں کے اوپر سے گزرتا چلا گیا جبکہ دور ایک درخت پر بیٹھا، چہرے پر پُراسرار مسکراہٹ لیے، وہ اسے جاتے دیکھ رہا تھا۔

" تم ابھی تک گئی نہیں؟ "
کمرے میں بیٹی قانتا اپنا میک اپ درست کرنے میں لگی تھی جب ایک دم میکال اس کے پیچھے آ کھڑا ہوا۔
" تم سے مطلب؟ "
اس نے ایک اچٹتی نظر آئینے میں ڈالی جس میں اس کے ساتھ ساتھ میکال کا عکس بھی واضح دکھائی دے رہا تھا۔
" مطلب تو بہت ہے پیاری بہنا۔ آخر کو ہمارے گھر میں ڈیرہ جما کر بیٹھی ہو۔" وہ جلانے والی مسکراہٹ لیے اسے دیکھتا ہوا بولا۔
" اول تو یہ میں تمہاری بہن نہیں ہونے والی بھابھی ہوں اور دوسرا میں تمہارے گھر نہیں اپنی خالہ کے گھر ہوں۔"
میکال کی بات پر بڑی مشکل سے اس نے خود پر ضبط کرتے ہوئے کہا ورنہ دل تو کر رہا تھا ابھی اسے جلا کر راکھ کر دے۔
" اوو بھابھی صاحبہ !! لیکن جہاں تک مجھے یاد ہے غازان نے تو کبھی تمہیں اس نظر سے دیکھنا تو دور سوچنے کی بھی کوشش نہیں کی پھر کس بھرم میں یہ بات کہہ رہی ہو؟ "
میکال نے جھک کر اس کے کان میں سرگوشی کی۔ آج نہ جانے کیوں وہ اس کے سر پر کھڑا اس کے ضبط کو آزما رہا تھا۔
" میں اس کے بچپن کی منگیتر ہوں۔" آخر کار ضبط ٹوٹا، وہ چلاتے ہوئے اس کی جانب مڑی۔
" کونسی منگیتر؟ یہ تو بڑوں کی بات تھی جبکہ غازان نے تو تم سے کوئی عہدو پیمان نہیں باندھے بلکہ آج کل تو وہ کسی اور کے خیالوں میں مصروف ہے۔"
روانی میں کہتا میکال کیا کہہ گیا تھا، اسے خود بھی اندازہ نہیں ہوا۔ جبکہ قانتا اس کی بات پر ایک دم چوکنا ہوئی تھی۔
" ایک منٹ !! یہ تم کیا کہہ رہے ہو، کس کے خیالوں میں؟ "
" اوئی ماں !! اب تو تو گیا میکال۔ یہ کیا بول دیا۔"
اس نے اپنے خشک ہوتے لبوں پہ زبان پھیری ساتھ ہی قانتا کے سرخ لمبے ناخنوں کو دیکھا جو کسی کو بھی نوچ کر رکھ دینے کیلئے کافی تھے۔
" نہیں میں نے ایسا تو کچھ نہیں کہا پیاری بہنا۔ ٹھیک ہے اب میں چلتا ہوں۔"
کہنے کے ساتھ ہی وہ جیسے آیا تھا ویسے ہی وہاں سے غائب ہوگا۔ ورنہ یہاں رک کر مزید کچھ کہتا تو قانتا اس کا خون کرے نہ کرے مگر غازان نے اس کے ٹکڑے کر دینے تھے۔

اسکول سے چھٹی ہوتے ہی مشہد گھر کیلئے روانہ ہو چکی تھی۔ آج تھکن کچھ زیادہ ہی سوار تھی اس لیے تیزی سے گاڑی چلاتی وہ جلد از جلد گھر پہنچنا چاہتی تھی جب اچانک آدھے راستے میں گاڑی ایک جھٹکے سے رکی۔
" حد ہوگئی، اب اسے کیا ہوا؟ "
جھنجھلاتے ہوئے گاڑی کو بار بار اسٹارٹ کرنے کی کوشش کی مگر اس نے تو نہ چلنے کی قسم کھالی تھی۔ سڑک پر بھی دور دور تک کوئی نظر نہیں آرہا تھا کہ وہ کسی کو روک کر مدد لیتیں۔ اس لیے گاڑی سے اُتر کے خود ہی بونٹ اٹھا کر خرابی تلاش کرنے کی کوشش کرنے لگیں مگر بے سود، کچھ سمجھ ہی نہيں آرہا تھا۔
" کس مصيبت ميں زندگی پھنس گئی ہے۔"
اچانک ہی انہیں رونا آیا۔ یوں تو وہ ایک خود مختار مصری خاتون تھیں مگر ایک لمبے عرصے سے عامر کے ساتھ نے انہیں محتاج بنا دیا تھا کیونکہ عامر گردیزی کی موجودگی میں انہیں کبھی ایسی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔
" ايکسکيوزمی ميم !! مے آئی ہيلپ يو؟ "
خود سے الجھتے زيادہ دير نہيں ہوئی تھی کہ پشت سے آنے والی آواز پر وہ ٹھٹھک گئیں۔ گردن موڑی تو اپنے سامنے سوٹ بوٹ میں ملبوس غازان ذوالفقار کو پایا۔
" آنٹی آپ !! "
غازان نے چہرے پر خوشگوار حیرت کے تاثرات لیے کہا۔ البتہ مشہد الجھن بھری نظروں سے اسے دیکھنے لگیں۔ یہ کون تھا جو اسے جانتا تھا مگر وہ نہیں اور یہ آنٹی کیوں کہہ رہا ہے؟
" جی آپ کون؟ "

" میں آپ کا پڑوسی ہوں غازان ذوالفقار، ایک سال پہلے مسٹر آفندی نے اپنا گھر ہمیں بیچ دیا تھا۔ ویسے مسٹر آفندی کو تو جانتی ہیں نا؟ " غازان نے خوش اخلاقی سے بتاتے ہوئے آخر میں مشہد سے پوچھا۔
" اوہ ہاں !! میرے ہسبینڈ سے اچھی بات چیت تھی ان کی۔" وہ یاد کرتے ہوئے بولیں۔
" لیکن آپ مجھے کیسے جانتے ہیں؟ میں نے تو آپ کو پہلے نہیں دیکھا۔ " ذہن میں مچلتا سوال مشہد گردیزی کی زبان پہ آیا۔
" وہ آج صبح میں نے آپ کو آپ کے گھر سے نکلتے دیکھا تھا اور اب یہاں دیکھا تو پہچان گیا۔ " اس نے فوراً وضاحت دی۔
" اوہ اچھا !! وہ دراصل ہم تین چار دن پہلے یہاں شفٹ ہوئے ہیں ورنہ بس کراچی سے چھٹیاں گزارنے ہی یہاں آتے تھے اور پھر ایک سال سے ہم یہاں آئے نہیں تو آپ کو جانتے نہیں ہیں۔" الجھن سلجھی تو اب کے مشہد نے چہرے پر مسکراہٹ سجاتے ہوئے بتایا۔
" جی کوئی بات نہیں اب تو جان پہچان ہوتی رہے گی۔ ویسے آپ کی گاڑی کو کیا ہوا؟ "
" پتا نہیں چلتے چلتے بند ہوگئی اور اب اسٹارٹ نہیں ہو رہی۔" ایک بار پھر ان کے چہرے پر پریشانی کے تاثرات ابھرے۔
" اچھا آپ ایسا کریں میری کار پر گھر چلی جائیں۔ آپ کی گاڑی کو میں ٹھیک کروا کر آپ کے گھر پر چھوڑ دوں گا۔"
اس نے کہتے ہوئے ایک سائڈ پر کھڑی اپنی کار کی طرف اشارہ کیا۔
" لیکن آپ؟ "
" میری فکر نہیں کریں، میں آجاؤں گا۔ چابی گاڑی میں لگی ہے آپ آرام سے جائیں۔"
اب کی بار مشہد نے خاموشی سے اثبات میں سر ہلایا اور چند قدموں کے فاصلے پر کھڑی غازان کی گاڑی کی جانب بڑھ گئیں۔
ان کے روانہ ہوتے ہی غازان نے اپنا جھکا سر اُٹھا کر گاڑی کے بونٹ کو بند کیا۔ چہرے پر شرارتی مسکراہٹ تھی۔
" سوری آنٹی ویسے تو میں پہلے ہی اچھا ہوں مگر آپ کی نظروں میں اچھا بننے کیلئے اس سے اچھا طریقہ مجھے کوئی اور نہیں سوجھا۔"
مشہد کے تصور سے مخاطب ہوتا وہ کندھے اچکا کر ڈرائیونگ سیٹ کی جانب بڑھا کہ اگلے ہی لمحے گاڑی ہوا سے باتیں کرتی اپنی منزل کی طرف گامزن ہوگئی۔

وہ صوفے پر بیٹھی کوئی ڈائجسٹ پڑھنے میں مصروف تھی جب اچانک باہر سے گاڑی کے رکنے کی آواز سنائی دی۔ وہ وہیں ڈائجسٹ کو صوفے پر چھوڑ کر کھڑکی کے سامنے جا کھڑی ہوئی کہ تبھی اپنے سامنے موجود بلیک کار کو دیکھ کر اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ پہچاننے میں ایک لمحہ نہیں لگا تھا کہ یہ کس کی کار ہے۔
" اس ایڈووکیٹ کی کار ماما کے پاس کیا کر رہی ہے؟ " وہ الجھی کہ تبھی دروازہ کھول کر مشہد اندر داخل ہوئیں۔
" السلام علیکم !! "

" وعليكم السلام !! ماما یہ کار؟ " سلام کا جواب دیتے ہی اس نے پوچھا۔
" وہ سڑک پر میری گاڑی خراب ہوگئی تھی تو اُس لڑکے نے اپنی گاڑی مجھے دے دی اور۔۔۔"
ابھی وہ بتا ہی رہیں تھی کہ ایک بار پھر باہر سے گاڑی کے رکنے کی آواز آئی۔ خاطره نے آگے بڑھ کر کھڑکی سے جھانکا تو اس بار غازان تھا جو ان کی گاڑی سے نکل کر اب دروازے کی طرف بڑھ رہا تھا۔
" لو اب یہ بھی آگئے۔"
اس نے آنکھیں گھمائیں اور کھڑکی سے ہٹ کر دروازے کو کھولا۔
غازان جو بیل بجانے ہی والا تھا کہ اچانک دروازہ کھلنے اور پھر سامنے کھڑی خاطره کو دیکھ کر مسکرا اُٹھا۔
" ارے واہ !! لگتا ہے میرا ہی انتظار کر رہی تھیں۔"
" خوش فہمی ہے آپ کی۔"
وہ کہتے ہوئے دروازے سے ہٹی تاکہ غازان گھر کے اندر آسکے۔
" یہ لیں آنٹی آپ کی چابی۔ چھوٹا سا مسئلہ تھا میں نے خود ٹھیک کر دیا۔" ڈھٹائی سے جھوٹ بولتے ہوئے اس نے گاڑی کی چابی مشہد کے سامنے کی۔
" بہت بہت شکریہ بیٹا۔"
" ارے شکریہ کس بات کا یہ تو میرا فرض تھا۔ آخر پڑوسی ہی پڑوسی کے کام آتے ہیں۔"
وہ مسکراتے ہوئے بولا۔ آخر کو کارنامہ بھی تو اپنا ہی تھا پھر شکریہ کس بات پر وصول کرتا۔
" ارے نہیں بیٹا تم نے اتنی مدد کی ورنہ آج کل کے زمانے میں کون کس کی مدد کرتا ہے۔"
وہ مشکور لہجے میں کہہ رہی تھیں۔ ناچاہتے ہوئے بھی غازان کو شرمندگی ہونے لگی۔
" اچھا آنٹی میں چلتا ہوں۔"
اس سے پہلے شرم سے چُلّو بھر پانی میں ڈوب مرنے کا مقام آتا، اس نے واپس جانے کا سوچا۔
" ارے بیٹھو تو سہی، باتوں کے چکر میں چائے پانی کا بھی پوچھنا بھول گئی اور تم کھڑی کیا دیکھ رہی ہو جاؤ کچھ کھانے پینے کو لاؤ۔"
غازان سے کہتے ہوئے وہ غصّے سے خاطره کی جانب مڑیں۔ جو ایک طرف کھڑی خاموشی سے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔
" نہیں نہیں آنٹی مجھے ضروری کام ہے پھر کبھی۔"
" پر۔۔۔"
" پھر کبھی آنٹی۔ ابھی چلتا ہوں اور میری چابی۔"
نرمی سے ان کی بات کاٹ کر اس نے اپنی چابی کیلئے ہاتھ آگے کیا تو مشہد نے بھی مسکراتے ہوئے چابی اس کے ہاتھ پر رکھ دی۔
غازان چابی لے کر جانے کیلئے مڑا کہ تبھی کچھ عجیب سا محسوس ہوا۔ اس نے نظریں گھما کر چاروں طرف دیکھا، سب کچھ ٹھیک ہی لگ رہا تھا۔ وہ سر جھٹکتا گھر سے باہر نکل گیا۔ جبکہ خاطره ایک بار پھر کھڑکی کے سامنے کھڑے ہوکر اسے جاتے دیکھ رہی تھی۔

وہ کمرے میں جلے پیر کی بلی کی طرح ادھر سے اُدھر چکر لگا رہی تھی حالانکہ وہ جانتی تھی میکال اسے تنگ کرنے کیلئے مذاق کر رہا ہوگا۔ لیکن اگر اس کی بات سچ ثابت ہوئی تو؟
یہ سوچ ہی اسے بےچین کیے جا رہی تھی۔ بچپن سے ہی وہ غازان کے ساتھ کو سوچتی آئی تھی۔ اُسے من ہی من چاہتی آئی تھی۔ ہاں !! یہ بات ٹھیک تھی کہ غازان نے اس کے بارے میں کبھی ایسا سوچا بھی نہیں تھا بلکہ ذوالفقار پیلس میں اس کے وجود کو بھی رباب کی وجہ سے برداشت کرتا تھا۔ مگر اسے یقین تھا شادی کے بعد سب ٹھیک ہو جانا تھا۔ غازان نے اسے قبول کر لینا تھا نہ صرف قبول بلکہ اس سے محبت بھی کرنی تھی مگر۔۔۔
اس ایک مگر نے ہی اس کا سکون غارت کر دیا تھا۔ اب جبکہ وہ اپنی منزل کے قریب تھی تو پھر یہ کون تھا جو غازان اور اس کے بیچ آ گیا تھا؟
آخر کون۔۔۔؟
" اگر یہ بات جھوٹ ہوئی نا میکال تو تمہارا خون میرے ہاتھوں ہوگا۔" اس نے غصّے سے اپنے بالوں کو مٹھی میں جکڑا۔
" لیکن اگر یہ بات سچ ہوئی تو۔۔۔ پھر اپنے اور غازان کے بیچ آنے والی ہر زی روح کو موت کے گھاٹ نہ اُتار دیا تو میرا نام بھی "قانتا اواب" نہیں۔"
خود سے کہتی وہ ایک دم غائب ہوگئی۔ اسے ابھی رباب سے بھی اپنے سوالوں کے جواب چاہیئے تھے۔
وہ گھر میں داخل ہوا تو ایک دم ٹھٹھک گیا۔ اُس کی موجودگی کا احساس آس پاس پھیل گیا تھا۔ وہ یہاں تھا۔ اس کے گھر میں یہ بات ہی اس کے غصّے کو بھڑکانے کیلئے کافی تھی۔
" تو تو پھر آگیا۔"
اس نے مٹھیاں بھینچ لیں۔ آنکھوں میں شعلے بھڑک اٹھے تھے۔ غصّہ تھا کہ بڑھتا ہی جا رہا تھا مگر خود پر قابو پانے کے بجائے وہ بجلی کی سی تیزی سے دادا ذوالفقار کے کمرے کے سامنے پہنچا اور دھاڑ کی آواز کے ساتھ دروازے کو دھکیلتا اندر داخل ہوا۔ جہاں وہ دادا ذوالفقار کے سامنے کھڑا، اس کی آمد کو محسوس کرتے ہی مسکرا دیا تھا۔
" غازی تم کب آئے؟ "
دادا ذوالفقار اس کے غصّے سے بھپرے چہرے کو ایک نظر دیکھ کر گویا ہوئے۔ دروازہ کھولنے کے انداز نے ہی بتا دیا تھا کہ یہ آتش فشاں پہاڑ بنا یہاں پھٹنے کیلئے آیا ہے۔
" ابھی چار سیکنڈ پہلے ہی آیا تھا کہ پتا چلا زوالقرنین ذوالفقار آپ کے حُجرے میں تشریف لائے ہیں۔" کاٹ دار نظروں سے زوالقرنین کو دیکھتا وہ طنز کرنے سے باز نہ آیا۔
" غازان !! "
دادا ذوالفقار کے لہجے میں اس کیلئے تنبیہ تھی۔
" رہنے دیں دادا ذوالفقار۔ اب تو میں اس کے رویے کا عادی ہو چکا ہوں۔ نہ جانے بڑے بھائی کی نفرت میرے اور میری ماں کیلئے کب ختم ہوگی۔" وہ چہرے پر معصومیت سجا کر بولا۔ غازان نے مٹھیاں بھینچ لیں۔
" اگر آپ کو یہ اتنا ہی عزیز ہوگیا ہے تو بتا دیں میں اپنی ماں کو لے کر اس گھر سے نکل جاؤں گا۔"
وہ کہہ کر جیسے آیا تھا ویسے ہی وہاں سے نکلتا چلا گیا۔ جبکہ زوالقرنین نے من ہی من مسکراتے ہوئے دادا ذوالفقار کو دیکھا اور ان سے جانے کی اجازت چاہی۔
" اب چلتا ہوں دادا ذوالفقار اپنا خیال رکھے گا۔"
اس کے کہنے پر دادا ذوالفقار نے خاموشی سے اثبات میں سر ہلایا۔ زوالقرنین نے مسکراتے ہوئے سر کو خم دیا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔
اس کے جانے کے بعد دادا ذوالفقار خاموش بیٹھے اپنے دونوں خوبرو پوتوں کو سوچنے لگے۔ اگر غازان انہیں عزیز تھا تو زوالقرنین بھی ان کا خون تھا۔ بے شک دونوں کی مائیں ضرور الگ تھیں مگر دونوں ہی ان کے بڑے بیٹے کی اولادیں تھیں۔ ایک کیلئے وہ دوسرے کی حق تلفی نہیں کرسکتے تھے۔ اس لیے ہی " قائم ذوالفقار " کی موت کے بعد ذوالفقار علی نے اس پر اس گھر کے دروازے کھول دیئے تھے۔ لیکن ان کا یہ فیصلہ غازان کو ایک آنکھ نہیں بھایا تھا اور اس کی اصل وجہ کیا تھی یہ تو بس غازان ذوالفقار ہی جانتا تھا۔
 
" خالہ کیا آپ جانتی ہیں غازان کسی سے محبت کرتا ہے؟ " قانتا غصّے سے رباب کے سر پر کھڑی پوچھ رہی تھی۔
رباب نے کتاب سے چہرہ اُٹھا کر اسے دیکھا۔ اس کی بات سے وہ پریشان تو ہوئی تھیں کہ آخر قانتا تک یہ بات کیسے پہنچی مگر چہرے سے ظاہر نہیں ہونے دیا تھا۔
" کیا کہہ رہی ہو؟ کس نے کہی تم سے یہ بات؟ " انہوں نے اپنے لہجے کو سخت کرتے ہوئے پوچھا۔
" وہ میکال کہہ رہا تھا آج کل غازان کسی اور کے خیالوں میں گم ہے۔" رباب کے سختی سے پوچھنے پر وہ دھیمے لہجے میں بولی۔
" میکال کی تو عادت ہے ہر وقت مذاق کرنے کی مگر تم تو سمجھدار ہو تم نے کیسے اس کی بات پر یقین کر لیا۔"
رباب نے اسے گھورا۔ خود اپنے جھوٹ پر بھی غصّہ آ رہا تھا مگر ایک آخری کوشش کرنے سے پہلے وہ اپنی بھانجی کا دل نہیں توڑنا چاہتی تھیں۔
" خالہ میں کیا کروں آپ تو جانتی ہیں غازان نے کبھی اس بچپن کی منگنی کو سنجیدگی سے نہیں لیا بلکہ وہ تو اس بارے میں بات کرنا بھی پسند نہیں کرتا۔ اس لیے مجھے ڈر رہتا ہے اگر اسے کسی اور سے محبت ہوگئی تو؟ "
قانتا کہتی ہوئی ان کے پاس ہی بیڈ پر بیٹھ گئی۔ جبکہ رباب کو قانتا کی بات سے ایک بار پھر شرمندگی نے آن گھیرا۔ البتہ چہرے کے تاثرات سے اب بھی ظاہر نہیں ہونے دیا تھا۔
" میں نے کہا تھا نا فکر نہیں کرو۔ میں کہوں گی غازان سے جلد میری بیٹی کو اس گھر میں بہو بنا کر لے آئے۔" رباب نے کہتے ہوئے اس کی پیشانی پر بوسہ دیا۔ قانتا ایک دم پُرسکون ہوئی تھی۔ جبکہ کمرے کے باہر کھڑا زوالقرنین مکرو مسکراہٹ چہرے پر سجائے وہاں سے غائب ہوگیا۔

وہ بالکنی میں لگی گریل سے ٹیک لگائے کھڑا پُرسکون انداز میں اسے نماز پڑھتے دیکھ رہا تھا۔ دادا ذوالفقار کے کمرے سے نکلنے کے بعد وہ ذہنی سکون کیلئے سیدھا اس کے پاس آ گیا تھا اور اب اس کے فارغ ہونے کا انتظار کر رہا تھا جو جائے نماز پر بیٹھی دعا مانگ رہی تھی۔
" عشقم !! " (میری محبت) وہ بڑبڑایا۔
ادھر خاطره دعا مانگنے کے بعد جائے نماز اُٹھا کر ٹیبل پر رکھ رہی تھی۔ جب بالکنی سے اس کے نام کی پکار سنائی دی۔
" کون ہے؟ "
وہ بالکنی کی جانب بڑھی کہ اپنے سامنے گریل پر بیٹھے غازان ذوالفقار کو دیکھ کر اس کے حلق سے چیخ نکل گئی۔
" اف لڑکی !! کان پھاڑنے ہیں کیا؟ " غازان نے اپنے کانوں میں انگلیاں گھسائیں۔
" آپ یہاں کیا کر رہے ہیں اور یہ کونسا طریقہ ہے کسی کے گھر میں گھسنے کا؟ " دونوں ہاتھ کمر پر ٹکائے، وہ اسے گھورتے ہوئے بولی۔
" یہ بڑا رومینٹک طریقہ ہے کسی کے گھر آنے کا۔ لڑکیاں تو خواب دیکھتی ہیں کوئی اپنی جان پر کھیل کر ان سے یوں ملنے آئے۔" غازان شرارت سے اسے دیکھتے ہوئے بولا۔
البتہ اس کا یہ انداز اگر میکال دیکھ لیتا تو اُس نے بے ہوش ہو جانا تھا۔ ہر وقت سنجیدہ اور غصّے سے بھرا غازان ذوالفقار کیا اتنا چھچھورا بھی ہو سکتا ہے۔
" وہ دوسری لڑکیاں ہوں گی میں نہیں۔"
خاطره ماتھے پر بل ڈالے اس کے عین مقابل جا کھڑی ہوئی۔ درمیان میں بس دو قدم کا فاصلہ رہ گیا تھا۔
" ویسے اچھا طریقہ ہے ماما کو ایمپریس کرکے گھر میں داخل ہونے کا۔ "
" ارے واہ لڑکی !! بہت سمجھدار ہو۔ کیسے پتہ چلا میں نے گھر میں گھسنے کیلئے یہ سب کیا ہے؟ " غازان اس کے صحیح اندازہ لگانے پر محظوظ ہوا۔
" کیوں کر رہے ہیں یہ سب؟ " خاطرہ نے اس کا سوال نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا۔
" میں یہ سب اس لیے کر رہا ہوں کیونکہ۔۔۔" وہ رکا۔ خاطره کی بھنویں بھینچ گئیں۔
" کیونکہ؟ "
" کیونکہ۔۔۔ دیوونتم !! "
" کیا۔۔۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ " غازان کے کہنے پر وہ الجھ کر اسے دیکھنے لگی۔
" مجھے کیا پتہ خود معلوم کر لیں۔" اس نے کہتے ہوئے کندھے اچکائے۔
" لیکن بولا تو آپ نے ہے۔"
" کہا تو آپ کیلئے ہے۔ چلتا ہوں پھر ملاقات ہوگی۔"
کہنے کے ساتھ ہی وہ چھلانگ لگا کر نیچے اترا اور ہاتھ ہلا کر اسے بائے کہتا وہاں سے تیزی سے نکل گیا۔
اس کے جاتے ہی خاطره کمرے میں آئی اور ٹیبل پہ رکھا اپنا لیپ ٹاپ اُٹھایا کر بیڈ پر جا کے بیٹھ گئی۔

اب وہ اسکرین پہ نظریں جمائے "دیوونتم" کا معنی تلاش کر رہی تھی کہ تبھی اسکرین پر اُبھرتے لفظوں کو دیکھ کر ایک پل کیلئے ساکت رہ گئی۔
" I'm crazy about you "
ساکت، اسکرین پر نظریں جمائے، وہ زیرِلب بڑبڑائی تھی۔

" کیوں بلایا آپ نے مجھے؟ " غازان نے شکوه کناں نظروں سے انہیں دیکھا۔
خاطره سے بات کرتے وقت ہی اسے دادا ذوالفقار کا سگنل مل گیا تھا جس کی وجہ سے فوراً وہاں سے چلا آیا تھا۔
" یہ کیا کہہ کر گئے تھے؟ تم اچھے سے جانتے ہو تم سے زیادہ عزیز مجھے کوئی نہیں۔" وہ سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھ رہے تھے۔
" تو اور کیا کہوں پھر؟ آپ بھی اچھے سے جانتے ہیں مجھے اُس کا یہاں آنا پسند نہیں۔" کہتے ہوئے اس نے دائیں ہاتھ کی مٹھی بھینچ لی۔
" غازی جب تم اپنے باپ کو معاف کر چکے ہو تو اس سے نفرت کیوں۔ آخر اس کی کیا غلطی؟ "
دادا ذوالفقار کو ان پانچ سالوں میں آج تک اس کی نفرت کی وجہ سمجھ نہیں آئی تھی۔
" کیونکہ اسے دیکھ کر میری ماں کا ہر زخم تازہ ہو جاتا ہے۔ وہ زبان سے کچھ نہیں کہتیں کہ وہ آپ کے بیٹے کی اولاد ہے اس خاندان کا خون ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں وہ اسے قبول کر چکی ہیں اور پھر بھلے پانچ سال پہلے قائم ذوالفقار کی موت پر میں نے اور میری ماں نے انہیں معاف کر دیا تھا۔ لیکن اس تنہائی کو نہیں بھولے جو زوالقرنین اور اس کی ماں کی وجہ سے ہمارا مقدر بنی تھی۔"
آج جب بولنا شروع کیا تو پھٹ ہی پڑا۔ آنکھوں میں بھی سرخی در آئی۔ جبکہ دادا ذوالفقار خاموشی سے سر جھکائے اسے سن رہے تھے۔
" بابا اس دنیا سے چلے گئے اور ہم یہاں بے خبر بیٹھے رہے کہ ایک دن اُن کا بیٹا آ کر ہمیں خبر دیتا ہے کہ قائم ذوالفقار اس دنیا میں نہیں رہے۔" وہ رکا اور اپنا غصّہ ضبط کرنے کی کوشش کرنے لگا۔
" پھر بیٹے کی موت کے غم میں دادا ذوالفقار سب کچھ بھلا کر اپنے دوسرے پوتے کو بھی قبول کر لیتے ہیں۔ ذوالفقار پیلس کے دروازے اس پر کھول دیتے ہیں۔ کہ اب بیٹا نہیں رہا تو بیٹے کی اولاد تو ہے۔"
غازان کی بات پر دادا ذوالفقار نے اپنا چہرہ اُٹھا کر اسے دیکھا۔ جو اپنے دل میں زوالقرنین کے ساتھ کہیں نا کہیں ان کے لیے بھی بدگمانی لیے بیٹھا تھا۔
" مجھے معلوم نہیں تھا کہ میرے ایک فیصلے سے تم اپنے دل میں میرے لیے بھی نفرت پال لو گے۔" وہ بولے تو لہجے میں دکھ سمٹ آیا۔
" مجھے کسی سے کوئی نفرت نہیں ہے۔ بس اتنا چاہتا ہوں وہ اس گھر میں کم ہی دکھائی دیا کرے۔ بار بار میرے اور میری ماں کے سامنے آکر یہ یاد دلانے کی ضرورت نہیں کہ قائم ذوالفقار بے وفا تھا۔" وہ کہہ کر تیزی سے وہاں سے نکلتا چلا گیا۔
دادا ذوالفقار نے بے بسی سے اسے جاتے دیکھا۔ وہ بیٹے کو کھو چکے تھے مگر اب غازان کو نہیں کھونا چاہتے تھے۔ اس لیے انہیں جلد از جلد کوئی فیصلہ کرنا تھا۔ جو غازان کے اندر پلتی بدگمانی کو نکال سکے۔

مری کی وادیوں میں رات اُتری تو ٹھنڈ بھی اپنے جوبن پر پہنچ گئی۔ اس لیے سردی کی شدت کو کم کرنے کیلئے آتش دان میں مزید لکڑیاں ڈال کر وہ صوفے کی طرف بڑھی جہاں مشہد ہاتھ میں بھاپ اُڑاتی کافی کا کپ تھامے اس کا انتظار کر رہی تھیں۔ خاطره ان کے سامنے والے صوفے پر جا بیٹھی ساتھ ہی ٹیبل پر رکھا اپنا کافی کا کپ اُٹھا کر پینے لگی۔
" کیا ہوا اتنی خاموش کیوں ہو؟ "
مشہد کب سے اس کی خاموشی کو محسوس کر رہی تھیں۔ کھانے کے وقت بھی وہ بالکل چپ تھی اور ایسا تب ہی ہوتا تھا جب کوئی بات اسے اندر سے پریشان کر رہی ہوتی تھی۔
" کچھ نہیں ماما بس ایسے ہی گھر میں رہ کر بوریت محسوس ہو رہی ہے۔ سوچ رہی ہوں یونیورسٹی میں ایڈمیشن لے ہی لوں۔" بھاپ اُڑاتے کپ پر نظریں جمائے وہ دھیرے سے بولی۔

" اچھی بات ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ تم نے پڑھائی کے بارے ميں سوچا۔"
مشہد نے مسکراتے ہوئے کہا۔ انہیں حقیقتاً اس کے فیصلے سے خوشی ہوئی تھی۔ وہ چاہتی تھیں خاطره اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے اپنا مستقبل بنائے تاکہ ان کے بعد در در کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑیں۔
" ویسے جب تک ایڈمیشن نہیں ہوتے تم باہر گھومنے چلی جایا کرو۔ گھر میں رہ کر واقعی بوریت محسوس ہوتی ہوگی۔" ان کی بات پر خاطره نے سر اُٹھا کر انہیں دیکھا پھر اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولی۔
" ہاں میں بھی یہی سوچ رہی تھی پر آپ سے پوچھا نہیں تھا اس لیے کہیں گئی نہیں۔"
" ہمم اچھا کیا۔ " مشہد کہتی ہوئی کافی کا کپ ٹرے میں رکھ کر اُٹھ کھڑی ہوئیں۔
" چلو اب میں کمرے میں جا رہی ہوں۔ کل اسکول بھی جانا ہے۔"
" اوکے گڈ نائٹ !! "
خاطره انہیں دیکھتے ہوئے بولی۔ پھر اپنا کپ ٹرے میں رکھ کر وہ ٹرے اُٹھاتی، کچن میں چلی آئی اور اب سنک میں کپ دھوتے ہوئے وہ مسلسل غازان کو سوچ رہی تھی۔ اُس کی کہی باتیں اسے الجھا رہی تھیں۔ آخر اس نے ایسا کیوں کہا تھا؟ کیا اُسے خاطره سے۔۔۔

" نہیں شاید وہ مذاق میں ایسا بول گئے یا کہیں دل لگی کرنے کی کوشش تو نہیں کر رہے۔ ویسے اس طرح کے لگتے تو نہیں ہیں۔ پر کسی کی شکل پر تھوڑی لکھا ہوتا ہے وہ کیسا انسان ہے اور پھر آج کل کا ماحول۔۔۔ اُف !! "
ساری سوچوں کو فی الوقت جھٹک کر اس نے دھولے ہوئے کپ سلیب پر رکھے اور لائٹس بند کر کے اوپر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔ جبکہ اس کے جاتے ہی سلیب پر رکھا کپ اچانک ہی فرش پر جا گرا تھا۔

آرزؤ عشق سیزن 1 (چھٹا حصہ)


تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں



Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں