مجرم بیٹے کا استقبال

کہانیاں اردو میں

مجرم بیٹے کا استقبال

وہ جب بھی سفر سے واپس گھر پہنچتا، دہلیز پر قدم رکھتے ہی اونچی آواز میں "ماں جی" کہہ کر اپنی والدہ کو پکارتا۔ والدہ فوراً اس کے استقبال کے لئے دوڑی آتیں اور آتے ہی اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لے کر کمال محبت اور شفقت سے اس کی پیشانی چومتیں۔ مگر آج ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ وہ دہلیز پر ہی اپنا سر پکڑ کر سسکیاں لیتے زور زور سے رو رہا تھا، اس کی زبان پر فقط یہی الفاظ تھے "ماں جی، چند دن اور میرا انتظار کیا ہوتا، ماں جی، میں آپ کا مجرم ہوں۔۔۔میں آپ کا مجرم ہوں "

میٹرک کے بعد گھر کے حالات دیکھ کر برکت نے مزید پڑھائی پر ملازمت کو ترجیح دی تھی۔ اس کے والدین نے بھی مالی مسائل کی وجہ سے اس کے فیصلہ سے اختلاف نہیں کیا تھا۔ البتہ اس کے والدین نے اسے فی الحال کہیں قریب ہی کوئی چھوٹا موٹا کام کرنے کی اجازت دی تھی تاکہ شام کو گھر واپس آجائے۔ اس نے بھی فرماں برداری کے ساتھ ان کا کہا مان لیا تھا۔

شروع میں اس نے گائوں میں ہی ایک دکان پر کام شروع کر دیا۔ صبح سے شام تک دکان پر کام کرتا اور اندھیرا چھانے سے پہلے گھر واپس چلا جاتا۔ کام کا کسی حد تک مناسب معاوضہ مل جاتا جس سے اس کے خاندان کی مالی مشکلات میں کچھ کمی ہوگئی۔ آٹھ دس ماہ بعد اسے لگا کہ اس کے والدین اس پر پہلے سے زیادہ اعتماد کرنے لگے ہیں تو اس نے ان سے شہر جا کر کوئی ملازمت ڈھونڈنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ والدین نے ہفتہ بھر سوچ بچار کے بعد اسے جاننے والے کے ساتھ شہر میں ایک فیکٹری میں ملازمت پر جانے کی اجازت دے دی۔

برکت شہر جا کر بہت خوش تھا۔ مشقت زیادہ تھی مگر تنخواہ بھی پہلے سے دگنی ہوگئی تھی۔ رہائش کے لیے کمرہ فیکٹری کی طرف سے ملا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ تین اور نوجوان بھی اسی کمرے میں رہائش پذیر تھے۔ اسے شروع میں ان سے اجنبیت محسوس ہوئی لیکن جلد ہی وہ ان کے ساتھ گھل مل گیا۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا، ان کا تعلق دوستی میں تبدیل ہو گیا۔ سب ایک دوسرے پر مکمل بھروسہ کرتے اور کسی بھی بات پر باہم تبادلہ خیال کرتے۔

برکت کے والدین اس سے بے پناہ خوش تھے کہ اتنی کمسنی میں اس نے گھر کی زمہ داری اٹھا لی تھی۔ وہ جب بھی شہر سے گھر جاتا، اس کی والدہ کی خوشی دیدنی ہوتی۔ اس کے والد بھی اسے خوب دعائیں دیتے اور ہر جگہ اٹھتے بیٹھتے اس کی تعریفیں کرتے۔ یوں پورے گاؤں میں اس کی نیک نامی اور فرماں برداری کا تذکرہ عام ہونے لگا۔ اس سے برکت میں بتدریج خود نمائی اور برتری کا جزبہ انگڑائیاں لینے لگا۔ اس نے مزید پیسہ کمانے اور اپنی مالی حالت کو بہتر بنانے کے طریقے سوچنے شروع کر دیئے۔ اس حوالے سے وہ اپنے فیکٹری کے دوستوں کے ساتھ بھی تبادلہ خیال کرتا رہتا۔ اس نے زیادہ پیسوں کے لیے فیکٹری میں معمول کے اوقات کار کے علاوہ اضافی وقت بھی کام کرنا شروع کر دیا تھا۔

ایک دن وہ کسی کام سے بازار گیا، جب واپس آیا تو ان کے کمرے میں ایک مہمان بھی آیا ہوا تھا۔ دوستوں نے تعارف کرایا تو پتہ چلا کہ وہ شخص فیض کا جاننے والا ہے۔ کسی دفتر میں ملازم ہے۔ ایک دن فیض سے سرراہ ملا تو اس کی دعوت پہ آج انہیں ملنے فیکٹری آگیا۔ برکت تھکا ہوا تھا اس لیے کچھ دیر سب کے ساتھ بیٹھنے کے بعد آرام کے لیے لیٹ گیا۔ وہ آنکھیں بند کیے سونے کی کوشش میں ان کی گفتگو بھی سنتا رہا۔ فیض نے مہمان سے کہا "تم خرچہ بتائو، ہم تینوں جانے کے لیے تیار ہیں، امید ہے برکت بھی شامل ہو جائے گا"۔ برکت یہ بات سن کر فوراً اٹھ بیٹھا اور بولا "کہاں جانا ہے؟" فیض نے اسے تمام تفصیلات بتائیں تو اسے لگا کہ اس کے خواب پورے ہونے کے دن آنے والے ہیں۔ اس نے ان کے ساتھ جانے کی حامی بھر لی اور اگلے دن فیکٹری سے چھٹی لے کر اپنے گھر چلا گیا۔

برکت لگ بھگ دو ماہ کے بعد چھٹی لے کر آیا تھا۔ سب گھر والے اس کی آمد پر بہت خوش تھے۔ والدہ کی خوشی تو چہرے سے عیاں تھی۔ انہوں نے ساری مصروفیات ترک کر کے برکت کی پسند کا کھانا تیار کرنے میں سارا دن لگا دیا تھا۔ شام کو سب نے مل کر کھانا کھایا اور خوب باتیں کیں۔ جب چھوٹے بہن بھائی سو گئے تو برکت نے والدین کو گھر آنے کی وجہ بتائی۔ اس کی والدہ نے تو اسی وقت کہہ دیا کہ جہاں کام کر رہے ہو، کرتے رہو، تم جان بھی نہیں سکتے کہ میں نے دل پر کیا جھیل کر تمہیں شہر میں نوکری کی اجازت دی ہے، تمہارے ابا بار بار مجھے تسلی نہ دیتے تو میں تمہیں کبھی نہ جانے دیتی۔ اس کے والد بھی اس سے متفق نہ تھے۔ بس اتنا کہا کہ جو کچھ تھوڑا بہت مجھے پتہ ہے یہ اتنا آسان اور سادہ معاملہ نہیں ہے، ویسے بھائی شفیق سے بات کر کے کوئی قدم اٹھانے کی اجازت دوں گا۔ برکت کو والدین کا رویہ دیکھ کر سخت مایوسی ہوئی اور رات بھر سکون سے سو بھی نہیں سکا۔

اگلے دو دن گھر میں سوگ جیسا ماحول رہا، برکت زیادہ وقت بستر پر لیٹا اپنے خواب ریزہ ریزہ ہوتے دیکھ کر کڑھتا رہتا۔ جب دو دن کسی نے اس کے من چاہے موضوع پر کوئی بات نہ کی تو اس نے خود والدین سے اس بابت پوچھا۔ اس پر اس کے والد نے بتایا کہ بھائی شفیق کی رائے میں اس طرح یورپ جانا خود کشی کرنے کے مترادف ہے۔ اسی طرح کے خواب دکھا کر انسانی سمگلروں نے سیکنڑوں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ غیر قانونی طریقے سے یورپ جانا سیدھا سادہ موت کا راستہ چننا ہے۔ اگر یورپ جانا ہی ہو تو تعلیم حاصل کرنے کے لیے آسانی سے جا سکتے ہیں۔ والد کی بات سن کر برکت بولا "تعلیم حاصل کرنے کے لیے جائیں تو بیس تیس لاکھ روپے ضرورت ہوتے ہیں، ہمیں تو صرف چار لاکھ میں یورپ پہنچایا جائے گا"۔ اس کی والدہ نے بھی صاف انکار کر دیا کہ خواہ ایک پیسہ بھی نہ لگے، وہ اسے شہر سے پرے نہیں جانے دیں گی۔ برکت نے والدین کے ساتھ مزید بحث نہ کرنا ہی مناسب سمجھا اور چھٹی ختم ہونے سے چار دن پہلے ہی چھٹی ختم ہونے کا بہانہ کر کے فیکٹری واپس جانے کی تیاری شروع کر دی۔ اس کی والدہ اس کی نیت بھانپ گئیں اور اسے پیار سے سمجھانے کی کوشش کرنے لگیں، مگر برکت پر جیسے فیض کی باتوں نے جادو سا کر دیا تھا، اسے اپنی بات منوانے کے سوا کوئی چیز اچھی نہیں لگ رہی تھی۔ وہ اگلے دن فیکٹری واپس جانے کے لیے گھر سے جانے لگا تو اس کی والدہ نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لے کر اسے پیار کیا اور یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ کر نیچے گرنے لگے " بیٹا یہ بات کبھی مت بھولنا کہ ماں کے لیے اس کی اولاد سے بڑھ کر کوئی شئے نہیں ہوتی، تم میری آنکھوں کی روشنی اور دل کی ٹھنڈک ہو "۔ برکت نے سر جھکا لیا اور بولا " ماں جی، میں چاہتا ہوں کہ یورپ جا کر ڈھیر ساری دولت کمائوں، آپ کے سارے دکھ دور ہو جائیں، میں جب واپس گھر آئؤں تو میری پیاری ماں جی خوشی سے نہال میرا استقبال کریں"۔

برکت نے فیکٹری واپس جاکر دوستوں کے ساتھ سارا معاملہ ڈسکس کیا۔ اجتماعی فیصلہ یہی ہوا کہ چونکہ سب کے خاندان والے راضی نہیں ہو رہے لہذا کسی طرح پیسوں کا انتظام کر کے جانے کی تیاری کی جائے اور جانے سے ایک دو دن پہلے صرف گھر والوں کو اطلاع دینے کے لیے گھر کا چکر لگا لیا جائے، ویسے بھی جب دو چار سال بعد خوب پیسے کما کر لوٹیں گے تو سب ان کے گن گائیں گے۔
کم و بیش تین ماہ بعد برکت گھر گیا اور والدین کو دو دن بعد سفر پر روانگی کا بتایا۔ جوان بیٹے کی ضد نے اس کے والدین کو چپ کرا دیا۔ انہوں نے گویا اپنی شکست تسلیم کر لی۔ ٹھیک دو دن بعد جب برکت لاہور جانے لگا تو اس کی والدہ پھوٹ پھوٹ کر روئیں، جبکہ اس کے والد نے ضبط کر کے انہیں دلاسہ دینے کی کوشش کی۔ اس ساری صورتحال میں برکت اچھے دنوں کے خواب دیکھ کر خود کو مطمئن کرتا رہا کہ یہ سب وقتی تکالیف ہیں۔ اس نے والدہ سے وعدہ کیا کہ سفر کے دوران انہیں اپنی خیریت کی اطلاع دیتا رہے گا۔ اس کے جانے کے بعد اس کی والدہ گھر کی دہلیز پر کھڑی کافی دیر تک روتی رہیں۔

برکت نے لاہور پہنچنے پر والد کو کال کر کے پہنچنے کا بتایا۔ اس کے بعد جب کوئٹہ پہنچا تو والدین کو آگاہ کیا۔ اگلی منزل ایران کا شہر زاہدان تھا، وہاں پہنچ کر گھر میں اطلاع دی اور والدین کو بتایا کہ دو تین دن تک ترکی جانا ہے۔
برکت کے والدین اس کی روانگی کے بعد مسلسل شدید اذیت میں مبتلا تھے۔ جبکہ برکت زاہدان پہنچنے تک تمام سفر بخیریت طے ہونے پر بہت خوش تھا اور والدین کو بھی بھی اطمینان سے رہنے کی تلقین کرتا رہا۔ وہ اب یورپ پہنچنے کے لیے پہلے سے بھی کہیں زیادہ بے تاب تھا۔مگر اس کے ساتھ جو ہونے والا تھا وہ اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا۔ زاہدان میں ایک دن رکنے کے بعد وہ تبریز کے لیے روانہ ہوئے۔ وہاں پہنچ کر ایجنٹ نے انہیں بتایا کہ اب رات کو ایران ترکی سرحد عبور کرنی ہے۔ سخت پہرہ داری کی وجہ سے دشوار ترین راستے سے جانا ہوگا۔ ایران سے ترکی میں داخل ہونے کے لیے انہیں ایک ہفتہ لگ گیا۔ پیدل سفر نے اس کا برا حال کر دیا۔ اب اسے بھی احساس ہونے لگا تھا کہ والدین نے ٹھیک ہی کہا تھا۔ اس نے گھر پر رابطہ کر کے ترکی پہنچنے کی خبر دے دی۔ سرحد عبور کر کے جب وہ ترکی کے شہر وان وارد ہوئے تو انہیں ایک گھر میں گویا قید کر دیا گیا۔ ترکی میں رہائش کی قانونی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے انہیں کہیں بھی باہر نکلنے سے روک دیا گیا۔ انہیں سختی سے کہا گیا کہ مزید سفر کے لیے ہر بندہ بیس لاکھ روپے ایجنٹ کے اکائونٹ میں بھجوائے۔ پیسوں کا انتظام ہونے تک قید ہی رہنا پڑے گا۔ وہاں کھانے کے لیے انہیں ابلے ہوئے چاول دو وقت دیئے جاتے۔ برکت کے لیے یہ سب ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوا۔ اس میں گھر رابطہ کر کے مزید پیسے بھیجنے کا کہنے کی ہمت ہی نہیں تھی۔ پیسے بھجوانے میں تاخیر کی وجہ سے اب اسے شدید تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔

چاروناچار اس نے اپنے والد کو چند دن بعد کال کر کے صورت حال بتائی اور اس عذاب سے نجات کا کوئی راستہ نکالنے کی درخواست کی۔ اس کے والد نے فیض کی فیملی سے رابطہ کر کے کسی بھی طرح برکت کو واپس لانے کے لیے کہا۔ منت سماجت کے بعد مزید پانچ لاکھ روپے ایجنٹ کی طرف بھجوانے پر برکت کی محفوظ واپسی کی بات طے ہوئی۔ دوست احباب سے ادھار لے کر پانچ لاکھ روپے ایجنٹ کی طرف بھجوائے گئے۔

برکت کی واپسی کا سفر شروع ہوا، تبریز تک اذیت کا عمل جاری رہا۔ اس کے بعد حالات معمول پر آگئے لیکن برکت کے لیے کچھ بھی خوشگوار نہیں رہا تھا۔ اسے بس یہ سوچ کسی قدر سکون دیتی کہ گھر جا کر ماں جی کے قدموں میں گر کر معافی مانگ لے گا، اور اپنے دیس میں ہی محنت مشقت کر کے قرضہ اتارے گا۔ وہ تمام راستہ انہی سوچوں میں گم رہا۔ سفر کے دوران اپنے والد سے رابطہ میں رہا، والدہ سے بات کرنے کی اس میں ہمت ہی کہاں رہی تھی۔

وہ لاہور والی بس سے اترا تو گھر جانے کے لیے اپنے گاؤں کے ایک ڈرائیور کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گیا۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی ڈرائیور نے کہا " برکت بھائی، خالہ کے بے وقت جانے کا بہت افسوس ہے، آپ کو شاید چھٹی نہی ملی جو جنازے پر نہیں دیکھا". برکت کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا، اس کا دل یکدم بجھ گیا، اس کی زبان گنگ ہوگئی۔ ڈرائیور بولا " جنازے میں کوئی بندہ بتا رہا تھا کہ خالہ نے ٹی وی پر یورپ جانے والی چھوٹی کشتی ڈوبنے کی خبر دیکھی تو دل کا دورہ پڑ گیا، ماں کا دل ہوتا جو نازک ہے، اتنے سارے جوانوں کی موت کا صدمہ ان کی جان بھی لے گیا". برکت یہ ساری تفصیل سن کر گہرے صدمہ میں چلا گیا، چاہتے ہوئے بھی نہ کچھ بولا، نہ رو سکا۔


گاڑی سے اتر کر گھر کی طرف دوڑا، جیسے ہی دروازے پر نظر پڑی، اسے ماں جی کا پھوٹ پھوٹ کر رونا یاد آگیا، ایکدم دکھ کا لاوا ابل پڑا، فضا میں اس کی درد بھری آواز گونجنے لگی۔ وہ دہلیز پر ہی اپنا سر پکڑ کر سسکیاں لیتے زور زور سے رو رہا تھا، اس کی زبان پر فقط یہی الفاظ تھے " ماں جی، چند دن اور میرا انتظار کیا ہوتا، ماں جی، میں آپ کا مجرم ہوں۔۔۔میں آپ کا مجرم ہوں".
ختم شد
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں