یہ ایک سچا واقعہ ہے ۔جو میرے کزن کی بیوی کے ساتھ پیش آیا ۔
وہ بتاتی ہیں کہ میری بہن کی شادی تھی اور مجھے ضروری گاؤں جانا تھا ۔ ۔اس سے پہلے بھی کئی دفعہ گاؤں جانے کا ارادہ کیا لیکن پھر ملتوی کر دیتی کیونکہ میرا دل نہیں کرتا تھا ۔لیکن اب بہن کی وجہ سے جانا پڑا ۔جب وہاں پہنچی تو وہاں اک رونق لگ گئی ۔اگلی صبح رشتہ داروں سے ملنے نکلی تو راستے میں کسی نے میری چادر پکڑ لی پیچھے سے
۔۔پیچھے مڑ کر دیکھا تو میرے سامنے ایک فقیرنی کھڑی تھی جس کا میلہ لباس. خشک ہونٹ. گندے بال تھے ۔اس کو دیکھ کر مجھے ایک جھٹکا لگا کہ یہ تو وہ تھی جس کے حسن پر پورے گاؤں کے لڑکے فدا تھے ۔جس کے سر سے کبھی دوپٹہ نہیں اترا تھا مگر آج وہ بیٹے سے بے نیاز کھڑی تھی
۔میں اسے پورے پانچ سال بعد دیکھ رہی تھی ۔وہ میری بہترین دوست سیما تھی ۔جس سے میری سترo سال پرانی دوستی تھی ۔جس کے بغیر میرا اور میرے بغیر اس کا نا دل لگتا تھا اور نہ وقت گزرتا تھا ۔۔جس کی وجہ سے میری بڑی بہن میرے سے چڑتی تھی کہ مجھے لگتا ہے کہ میری جگہ اس نے لے لی ہے ۔۔اور کہتی تھی ک تو میری کم اس کی سگی بہن زیادہ ہے
۔۔سیما ہمارے گھر کا ایک فرد تھی ۔۔جب ہم بڑے ہوئے تو ہماری شادی کی باتیں چلنے لگیں ۔۔لیکن وہ بہت گھبراتی اور فکرمند تھی. کیونکہ وہ چاہتی تھی کے ہماری شادی ایک ہی گھر میں ہو. وہ شادی کرکے کہیں مجھ سے دور نہیں جانا چاہتی تھی
۔۔ایک بار ایک شادی میں ہم لوگ شریک تھے تو ایک خاتون ہمارے پاس آکر ہمارے نام پتے پوچھنے لگی۔۔میں نے اس بات کو زیادہ اہمیت نہیں دی مگر کچھ دنوں بعد وہ خاتون اپنے دونوں بیٹوں کا ہمارے لیے رشتہ لے کر آگئی ۔۔بڑے بھائی کا میرے لئے اور چھوٹے بھائی کا سیما کے لئے
۔میرے گھر والوں کو رشتہ بہت پسند آیا اور انہوں نے ہاں کر دی ۔۔سیما کے گھر والوں کی طرف سے بھی ہاں ہوگئی
۔شادی کے دن قریب آگئے ۔میری بڑی بہن نے مجھے سمجھایا تھا کہ اب تمہارا سیما کے ساتھ دو رشتے ہیں ۔۔دیورانی جیٹھانی کا رشتہ ۔۔جو نہایت نازک رشتہ ہے. اب تم لوگ ایک ساتھ رہو گے. تم دونوں کو ہر بات میں بہت برداشت سے کام لینا ہوگا ۔میں نے بہن کو کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا جو آپ سوچ رہی ہیں میرا اور سیمہ کا ساتھ بہنوں جیسا ہے ہمارا تو سالوں کا ارمان پورا ہو رہا ہے ۔۔ہم دیورانی جیٹھانی بعد میں ہیں. دوست پہلے ہیں
۔میں اور سیما شادی کر کے اس گھر میں پہنچ گئے ۔۔زندگی بہت خوبصورت ہو گئی تھی ۔شادی کے ایک سال بعد میری گود میں میرا بیٹا اور سیمی کی گود میں اس کا بیٹا آگیا ۔میرے میاں کی نوکری شہر میں لگ گئی تھی وہ پڑھے لکھے تھے اس لیے ان کو شہر میں ہی نوکری ملی تھی ۔
۔وہ ضد کر رہے تھے کہ میں اور میرا بیٹا ان کے ساتھ شہر چلیں. جبکہ میرا دل کسی صورت شہر جانے کے لیے راضی نہیں تھا ۔۔آخر میرے شوہر شہر چلے گئے جب وہ آتے تو خوب سارے تحفے لاتے ۔ہماری ایک بیٹی بھی ہوگئی. ۔۔میرا بیٹا چار سال کا ہو گیا تھا ۔۔جس گھر میں ہم رہتے تھے اس گھر کے بیچ میں ایک چھوٹی سی دیوار تھی ۔۔ایک حصہ میں میں اور ایک میں سیما رہتی تھی..
یہ حصے تو بس نام کے تھے ورنہ ہم اکٹھے رہتے تھے ۔۔میں دوبارہ امید سے ہوگئی تھی مگر سیمی کے ہاں ایک بیٹے کے بعد دوبارہ اولاد نہیں ہوئی ۔اس بار میرے شوہر نے ضد پکڑ لی کہ تم میرے ساتھ شہر چلو یہاں اکیلی کیسے رہو گی ۔اور بڑے بیٹے کا داخلہ بھی اسکول میں کروانا ہے ۔میرے سارے سسرال والوں نے بھی کہا کہ وہ ٹھیک کہہ رہا ہے ناشکری مت کرو ۔سب کے سمجھانے پر مجھے مجبور ماننا پڑا مگر میں دل سے خوش نہیں تھی
۔طے یہ پایا کہ میں ولادت کے بعد شہر چلی جاؤں گی ۔جس دن یہ فیصلہ ہوا اس دن سیما میرے پاس آئی اور اداسی سے بولی کہ تم چلی جاؤ گی تو میرا دل کیسے لگے گا. ۔میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کے اس کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ہر مہینے مجھے تم سب سے ملوانے آتے رہیں گے ۔اس نے کہا میں تم کو بہت یاد کرو گی ۔میں نے کہا کہ شہر کونسا دور ہے تم مجھ سے آ جایا کرنا ملنے ۔۔ میں بھی آ جایا کروں گی ۔پھر وہ میرے گلے لگی ہم دونوں بہت اداس تھے.
۔کچھ وقت گزرا. میرے ہاں میرے چھوٹے بیٹے کی ولادت ہوئی ۔سرخ سفید بڑی بڑی آنکھوں والا بچہ سب کو بہت پیارا تھا ۔میرے شوہر نے کہا تم نہیں جانتی تم نے مجھے بہت بڑا تحفہ دیا ہے ۔اس بار تیاررہنا میں آؤں گا تو تم سب میرے پاس شہر چلنا ۔ان کو دو مہینے بعد آنا تھا ۔.
شوہر کے چلے جانے کے بعد ہم سب اکٹھے بیٹھے شام کو چائے پی رہے تھے تو میرے دیور نے کہا کہ بھابھی تم چلی جاؤ گی تو اداسی ہو جائے گی ۔گھرسونا ہو جائے گا.. میں نے کہا، تم بھی چلو نا ۔وہ بولا، میں کیا کروں گا جا کر مجھے کوئی کام تو آتا نہیں. کم از کم یہاں زمین پر کام کر کے بیوی بچوں کے لئے دو وقت کی روٹی کما لیتا ہوں.
۔سیمی بالکل سر جھکائے چپگم سم بیٹھی تھی. میرا دل عجیب ہو گیا. مگر میں بھی مجبور تھی شوہر کے ہاتھوں. اور بچوں کے مستقبل کا سوال تھا.
۔کچھ دنوں بعد میری طبیعت میںبے چینی شروع ہوگی. میری طبیعت میں بوجھل پن آگیا.. مزاج چڑچڑا ہو گیا. بلاوجہ بچوں پر غصہ آ جاتا ۔سب سے چھوٹے بیٹے کی طبیعت بھی خراب تھی وہ بھی بہت روتا تھا ۔۔ سیمی نے کہا کہ اس کے پیٹ میں درد نہ ہو.
ہم دونوں اس کو ڈاکٹر کے پاس کلینک میں لے گئے. ڈاکٹر نے اس کو دوائیاں دے دی. اس کو تھوڑا سا آرام آیا لیکن رات کو پھر اس نے رونا شروع کردیا ۔میں،، سیمی ں اور میرا دیور ہم سب اس کو چپ کراتے کراتے تھک گئے لیکن وہ چپ ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا ۔سمجھ میں نہیں آ رہا تھا یہ کیوں اتنا روتا ہے کہ پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا. وہ اب کچھ کمزور بھی ہوگیا تھا..
سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میرا بیٹا اتنا کیوں روتا ہے۔ پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا. وہ اب کچھ کمزور بھی ہوگیا تھا..
ہم دوبارہ ڈاکٹر کے پاس لے گئے. ڈاکٹر نے کہا، میں کچھ دوائیاں دے رہا ہوں، اس سے فرق آ جائے گا ۔ان دواؤں سے اس بچے کو کافی آرام آیا. تو ہمیں سکون ملا. لیکن ابھی دو ہی دن گزرے تھے کہ اس کو تیز بخار چڑھ گیا ۔میں بری طرح گھبرا گئی. اس کا سفید رنگ نیلے رنگ میں تبدیل ہونا شروع ہوگیا. میں اور سیمیں اس کو ڈاکٹر کے پاس لے کر بھاگے لیکن اس کو آرام نہیں آیا ۔میں نے پریشان ہو کے شوہر کو فون کر دیا. وہ بھی شہر سے گاؤں کے لئے روانہ ہو گئے. انہوں نے کہا تم تیار رہو. ہم اس کو شہر لے آئیں گے. شہر اس کو کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھائیں گے ۔میرا رو رو کے برا حال تھا. میرا صحت مند بچہ دنوں میں سوکھ گیا تھا ۔اگلی صبح شوہر نے پہنچ جانا تھا مگر جب اگلی صبح وہ آئے تو میرا بیٹا اس دنیا سے منہ موڑ کے بہت دور جا چکا تھا ۔فجر کے وقت اس نے میرے ہاتھوں میں دم توڑ دیا تھا. میں سکتے کی حالت میں بیٹھی تھی. میرے شوہر کا غم سے الگ برا حال تھا. میرے اوپر قیامت گزر گئی تھی ۔اس کی موت کے پندرہ بیس دن تک میں غم سے نڈھال بستر پر پڑی رہی. مجھے شوہر بچوں کا کوئی ہوش نہیں تھا. سب کچھ سیمی نے سنبھالا ہوا تھا ۔ابھی بیٹے کا صدمہ کم نہیں ہوا تھا کہ میری امی بھی اس دنیا سے چلی گئیں.. میں بالکل ٹوٹ کے رہ گئی.
۔میرے شوہر کو دفتر سے فون آگیا. ان کا شہر جانا ضروری تھا. وہ واپس چلے گئے. جبکہ میری حالت بستر سے اٹھنے والی نہیں تھی. ابھی میں دونوں غم سے نڈھال پڑی ہوئی تھی کہ میری بیٹی ماہین کو تیز بخار چڑھ گیا ۔اس کا بخار بڑتا جا رہا تھا. میں بدحواس ہو کر رہ گئی.. میں اپنے ایک بیٹے کو کھو چکی تھی. اب مجھ میں مزید غم اٹھانے کی سکت نہیں تھی.
۔سیمی میری پاس بیٹھی مجھے حوصلہ دے رہی تھی کہہ رہی تھی. میں سب دیکھ رہی ہوں. تم پریشان نہ ہو. یہ بالکل ٹھیک ہوجائے گی ۔میں نے کہا، میں تمہاری بہت احسان مند ہوں. جس طرح تم میرا اور میرے بچوں کا خیال رکھ رہی ہو.
مجھے اتنی کمزوری ہو چکی تھی. مجھ سے بولا بھی نہیں جا رہا تھا. مگر سیمی میرے اور میرے بچوں کی دیکھ بھال کر رہی تھی. دن رات وہ ہمارے لیے بھاگ بھاگ کر کام کرتی تھی ۔رات وہ ہمارے پاس رہتی. مجھے زبردستی کھانا کھلا کر دوائی دے کر میرے بچوں کو سلا کر ہی جاتی تھی.
۔ایک دن آدھی رات کو پیاس کی شدت سے میری آنکھ کھلی مگر میری اتنی ہمت نہیں تھی کہ میں بستر سے اٹھ سکوں. ۔میرے کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا. میری نظر کمرے سے باہر گئی. جہاں مجھے کسی کا سایہ نظر آیا. میرے کمرے سے باہر صہن نظر آتا تھا. وہ سایہ جھکا ہوا میرے صحن کی مٹی کھود رہا تھا. میں غنودگی کمزوری میں یہ سب دیکھ رہی تھی اور یہ سب دیکھتے دیکھتے میں دوبارہ سو گئی.
۔صبح جب میری آنکھ کھلی. وقت پر نگاہ پڑھتے میں دھک سے رہ گئی. دوپہر کے 3:00 بجے تھے. میں نے سوچا کیا میں اتنی دیر سوتی رہی ہوں. میں نے اپنے برابر لیٹے دونوں اپنے بچوں کو دیکھا. جو بے خبر سو رہے تھے. میری بیٹی ماہین کو ابھی بھی بخار تھا.. اسی لئیے سیما نے بھی مجھے نہیں جگایا. ۔میں اٹھنے کی کوشش کرنے لگی کہ اچانک مجھے قریب سے کسی کے رونے کی آواز پر میں گھبرا گئی. میں نے سوچا یہ تو سیمی کی آواز ہے. میں دیوار کا سہارا لیتے آہستہ قدموں سے اس طرف آئی.. سیما اپنے بیٹے کو گود میں لئے ہوئے برے طریقے سے بس روے چلی جا رہی تھی. ۔اس کے بیٹے کے ہاتھ پیر بالکل مڑے ہوئے تھے اور اس کی سانس بہت تیز تھی.. میں اس کی حالت دیکھ کر ڈر گئی. میں نے کہا،، کیا ہوگیا سیمی. ۔۔میرے دیور نے غمگین آواز میں کہا،، ۔پتہ نہیں بھابھی کیا ہوگیا ۔صبح اٹھتے ہی یہ آپ کے کمرے میں آیا کہ بچوں کے ساتھ کھیل سکے مگر آپ سب سو رہے تھے. یہ باہر جاکر بچوں کے ساتھ کھیلنے لگا. کھیلتے کھیلتے اچانک بے ہوش ہوگیا.. ڈاکٹر کو ابھی دکھا کے لائے تھے.. اچانک یہ حالت ہوگئی ۔...
سیمی کی حالت بہت ابتر تھی. کیونکہ وہ اس کا اکلوتا بیٹا تھا اور اس کی اپنے بیٹے میں جان بسی ہوئی تھی.. میں نے کہا،، تم لوگ پریشان نہ ہو.. میں ان سے بات کرتی ہوں. میں نے اپنے شوہر کا نام لیا.. تم دونوں اس کو لے کر شہر نکلو.. وہ کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھاؤ.
۔اندر سے میں بھی پریشان ہوگئی تھی. میں نہیں چاہتی تھی. کہ سیمی کسی ایسے کر ب سے گزرے جس سے میں گزری ۔.
۔اگلی صبح بس کی ٹکٹ ہو گئی تھی. میں اپنے خراب طبیعت کے ساتھ دکھتے بدن اور چکر آتے سر کے ساتھ اپنے بچوں اور سیمی کو سنبھال رہی تھی. مگر اگلی صبح جانے کی نوبت ہی نہ آئی. رات اس کے بیٹے نے دم توڑ دیا.
۔۔میں وحشت بھری نظروں سے سیمی کو بین کرتے دیکھ رہی تھی اور خوفزدہ بیٹھی تھی. کیا ہمارے بچوں کو کسی کی نظر لگ گئی ہے؟.
۔۔جب اس کے بیٹے کا جنازہ اٹھا تو سیمی غش کھا کر گر گئی. میرے شوہر بھی آ چکے تھے ۔ہمارے گھر کا ہر شخص ٹوٹ سا گیا تھا.. اب مجھے اپنے دونوں بچوں کی فکر ہو رہی تھی.. مجھ میں اب کسی غم اٹھانے کی برداشت نہیں تھی. ۔۔میرے شوہر اور دیور شاہ صاحب کو لے کر ہمارے گھر آگئے.. میں نے جلدی سے دوپٹہ لے کر نقاب کر لیا.. وہ تعزیت کے لیے آئے تھے..
شاہ صاحب ہمارے گاؤں کی مسجد کے بڑے تھے اور ساتھ ہی ان کا حجرہ تھا. جمعرات کو مسجد میں بیان کرتے تھے. نورانی چہرے والے، بہت پرہیزگار اور نیک بزرگ تھے ۔ان کے الفاظ.،،آواز میں ایسا جادو تھا کہ سامنے والا ان کا گرویدہ ہو جاتا.
اب بھی وہ تعزیت کے لیے آئے تھے تو اپنے مخصوص انداز میں نرم لہجے میں بات کر رہے تھے کہ اچانک بات کرتے کرتے رک گئے ۔۔پھر وہ جیسے ہوا میں کچھ سونگھنے لگے اور ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بولے:: پتا نہیں کیوں مجھے فضا میں شیطانی بو محسوس ہو رہی ہے.
۔۔۔پھر وہ میرے حصے کی طرف جانے لگے.. وہاں پہنچ کر وہ میرے کمرے کے باہر صحن میں بنےکچے فرش کے پاس ٹھہر گئے.
۔۔پھر اس جگہ رک کر غور سے اس مٹی کو دیکھنے لگے. میں ان سے دور کھڑی سب دیکھ رہی تھی. انہوں نے میرے شوہر سے کہا،، یہاں سے مٹی ہٹاؤ ۔.
۔میرے شوہر مٹی ہٹانے لگے.
۔۔اچانک زمین کے اندر سے جو چیزیں نکلیں انہیں دیکھ کر میں چکرا گئی. مٹی کا ایک پتلا تھا. اس پتلے کے ساتھ ایک پرچی تھی. جس پر کچھ لکیریں بنی ہوئی تھی ۔۔اور اس پرچی پر ماہین کا نام لکھ کر اس پر کراس کا نشان تھا ۔۔ہم سب بے یقینی کی کیفیت میں تھے. اچانک میرے ذہن میں ایک دھماکا ہوا. جس رات مجھے بخار تھا. میں نے ے صحن میں سایہ دیکھا تھا. جو میرے کمرے کے باہر مٹی کھود رہا تھا.
۔میرے شوہر اور دیور نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ لیا اور کہا یہ کس کا کام ہے ۔۔۔شاہ صاحب نے میرے دیور سے کہا کہ آپ کی بیگم کی طبیعت کیسی ہے.
وہ پریشانی سے بولا،، شاہ صاحب بہت زیادہ برا حال ہے. شاہ صاحب نے کہا.،، کیا میں ان سے مل سکتا ہوں،،
اس نے کہا،، جی جی آجائیں. دم بھی کر دیجئے گا. دعا بھی کر دیجئے گا.
۔۔سیمی بستر پر لیٹی ہوئی تھی. شاہ صاحب کی آمد کا سن کر بڑی مشکل سے اٹھ بیٹھی. پھر آہستہ سے ان کو سلام کیا.
۔شاہ صاحب نے اس کے قریب پہنچ کر زور سے سانس لیں اور ان کا چہرے کا رنگ غصے سے لال ہوگیا. وہ غصے میں بولے،، جو تم نے کیا ہے اسی کا پھل تمہیں ملا ہے ۔۔دنیا مکافات عمل ہے. تم نے دوسرے کی گود اجاڑ نی چاہی، مگر تمہاری اپنی گود اجڑ گئ. اپنی دنیا بھی برباد کی اور آخرت بھی.
۔۔شاہ صاحب کی باتوں پر ہم سب حیرانگی سے دیکھ رہے تھے ۔۔اچانک سیمی اونچا اونچا رونا شروع ہوگئی اسے ایک دورہ پڑ گیا. وہ چلاتے ہوئے بولی،، میں کیا کرتی میرے ساتھ ہی کیوں ایسا ہوا ۔ہم ایک سات پلے بڑے.. ایک ساتھ میٹرک کیا.. لیکن قسمت نے دھوکا دے دیا.. شادی بھی ایک دن وہ ایک ہی گھر میں ہوئی مگر اس کا شوہر میرے شوہر سے خوبصورت اور قابل تھا.. حالانکہ میں اس کے مقابلے میں کئی گنا حسین تھی ۔۔اس کے شوہر کی شہر میں نوکری لگ گئی جب کہ میرا شوہر ان پڑھ تھا.. اس کا شوہر اسے چیزیں لا کر دیتاجبکہ میرے شوہر کے ایسے حالات نہیں تھے.. پھر میرے ہاں ایک بیٹے کے بعد کوئی بچہ نہیں ہوا جبکہ یہ تین بچوں کی ماں بن گئی.. اب جب بچے بڑے ہو رہے تھے تو اس کے شوہر کو اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر ستا رہی تھی ۔وہ ان کو تعلیم یافتہ بنانا چاہتا تھا اور اس کو شہر لے جاکر عیش و عشرت میں رکھتا اور میں یہیں رہ جاتی.. یہ وہاں جاکر اچھی زندگی جیتی.. شان و شوکت سے رہتی اور میں یہاں معمولی زندگی بسر کرتی ۔۔یہ باتیں مجھ سے برداشت نہیں ہو سکیں. میں روز اخبار پڑھا کرتی تھی. اخبار میں ایک اشتہار آیا جو کالے علم کا ماہر تھا. میں نے اس سے خط کے ذریعے رابطہ کیا ۔۔پہلے میں نے اس کے بڑے بیٹے کو راستے سے ہٹا یا. پھر میں اس پر عمل کروا کے اب مجھے اس کی بیٹی کو ہٹانا تھا ۔۔میں نے ہی پتلا زمین میں گاڑا تھا. کیونکہ میں چاہتی تھی کہ تینوں بچے مر جائیں. تاکہ یہ شہر ہی نہ جا سکے. کیونکہ اپنی اولاد کی خاطر جارہی تھی اور میں کیسے برداشت کر لیتی کہ یہ وہاں جاکر ٹھاٹ سے رہتی ۔۔۔اس عمل کے مطابق اس زمین پر جہاں پتلا گاڑا تھا. اسے سب سے پہلے جو بھی چلتا ہوا آتا وہ اس عمل کی لپیٹ میں آ جاتا ۔۔اس رات میں سب کو نیند کی دوائی دودھ میں ملا کے دے چکی تھی.. میں جانتی تھی یہ سب سوتے رہیں گے. مگر ماہین ضرور اٹھ کے باہر آئے گی مگر میرا کیا مجھ پر ہی واپس آگیا ۔۔صبح جب میں سو کر اٹھی تو میرا بیٹا میرے برابر میں نہیں تھا.. میں گھبرا کر اس کو دیکھنے گئی تو وہ اس کے کمرے سے واپس آ رہا تھا. یہ کہتے ہوئے کہ چاچی اور سب سو رہے ہیں .
۔میں نے اس کو آتا دیکھ کر دل پکڑلیااور پھر مجھے پھل مل گیا.
وہ روتی ہوئی اپنا سر پیٹی ہوئی چیخ رہی تھی ۔اور میں بے یقینی سے سیمی کو دیکھ رہی تھی. مجھے لگ رہا تھا جو میں نے سنا ہے وہ غلط ہے۔میرا دل کر رہا تھا میں چیخ چیخ کر رووں کہ کیا کوئی انسان حسد میں اتنا بھی گر جاتا ہے.
۔شاہ صاحب نے کہا،، جو لوگ اللہ کی تقسیم پر راضی نہیں ہوتے.. ان کا یہی انجام ہوتا ہے..
میں دیوار کا سہارا لیے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی باہر آگئی میرے دیور نے نفرت سے چیخ کے بیوی کو کہا،، میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا تم اتنی گھٹیا ہو..
۔۔۔میں اپنے کمرے میں آکر پیکنگ کرنے لگی.. مگر میرا دل رو رہا تھا. سیمی میرے پاس آئی اور روتی ہوئی بولی، مجھے معاف کر دو. میں نے اس کو کہا. جو عورت آپ کے بچوں کی جان لے لے. کیا اسے معاف کیا جاسکتا ہے. تم کو دشمنی تھی. تو مجھ سے نکال لیتی مگر میرے بچوں نے کیا بگاڑا تھا ۔میں نفرت سے روتے ہوئے بولی.
سیمیں بولی. مجھے دشمنی نہیں تھی. پتہ نہیں مجھے کیا ہو گیا تھا. مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا تھا. تمہارے پاس سب کچھ اچھا دیکھ کر ۔.
۔۔میں نے کہا میں تم کو کچھ بھی نہیں بولوں گی نہ کوئی لعنت بولوں گی. کیونکہ میں جان گئی ہوں کہ اللہ کا بدل بہترین ہے. مجھے کچھ بھی نہیں بولنا. اور میں اس کو بغیر دیکھے اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ اس گھر سے ہی نہیں بلکہ اس کی زندگی سے اور گاؤں سے بھی نکل گئی.
۔۔میرے دیور نے اس کو طلاق دے دی تھی. اپنے بیٹے کی موت اور پھر طلاق کے بعد اس کا دماغی توازن بالکل الٹ چکا تھا اور اب وہ گاؤں کی گلیوں میں بکھرے بالوں سے بدحال بنی پھرتی ہے ۔۔میں دوبارہ پلٹ کر گاؤں نہیں گئی لیکن اب پانچ سال بعد جب میں واپس گئی تو اس نے میری چادر کو پکڑ لیا ۔.
۔مگر میں اپنی چادر اس کے ہاتھوں سے چھڑوا کر اور اس کو نظرانداز کرتی آگے بڑھ گئی ۔۔بھابی کی یہ باتیں سن کر مجھے سمجھ آگئی کہ بھابھی کیوں اپنے گاؤں نہیں جاتی تھی ۔
ختم شد ۔۔
0 تبصرے