بس ڈرائیور کی کہانی (قسط نمبر 1)

Bus Driver Urdu Story

بس ڈرائیور (قسط نمبر 1)


ایک بس ڈرائیور کی کہانی جس نے زندگی میں ایسی بھیانک صورتحال کا سامنہ کیا کہ جان کر رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے 

میں اپنے گاؤں سے شہر تک بس چلاتا تھا۔میرے ماموں باہر ملک میں کام کرتے تھے جو ہم سب بہن بھائیوں سے بڑھ کر مجھے پیار کرتے تھے جب میں پڑھتا تھا تب سے وہ میرے لیے الگ سے پیسے بھیجتےہیں مجھے ڈرائیونگ کا جنون کی حد تک شوق تھا جو میں نے ماموں کو بتایا تھا میں نے کافی پیسے جمع کر رکھے تھے اور شوق کی تکمیل کیلیے بہترین حالت میں ایک بس خرید لی تھی۔ ماموں کو بھی بتادیا تھا انہوں نے کہا ٹھیک ہے بیٹےجیسے تمہاری مرضی۔ مگر اب اہنا کماؤ اور اپنا کھاؤ۔ ڈرائیونگ کرتے مجھے تقریبا ً 6 سال ہوچکے تھے۔ یہ شدید گرمیوں کا موسم تھا ایک بار میں نے پہلا ٹائم گاؤں سے شہر کیلیے اٹھایا۔ ہمارے گاؤں سے شہر تک آدھا روڈ کچا تھا اسکے بعد شہر تک پکی سڑک تھی۔ اور گاؤں سے شہر تک 4 گھنٹے کا فاصلہ ہے۔ درمیان میں دو گاؤں اور بھی پڑتے ہیں اور باقی راستہ ویران ہے۔ شہر پہنچنے کے بعد گاڑی کا کچھ کام کرایا کھانا وغیرہ کھایا اور معمول کے مطابق دوستوں کے ساتھ ٹائم گزارا گپ شپ کی۔ شہر سے گاؤں کیلیے شام ساڑھے چار بجے اڈے سے نکلنا تھا۔

ساڑھے چار ہونے والے تھے بس میں سواریاں پوری ہو چکی تھیں کلینر نے گاڑی چمکا دی تھی وہ بولا استاد جی بس کو لشکا دیا ہے چلیں ٹائم ہوگیا ہے۔ آج شدید گرمی تھی۔ میں نے چائے کا کپ رکھا اورگاڑی کی طرف لپکا اور ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔ 

بس کو آہستہ آہستہ اڈے سے نکالا اور آہستہ آواز میں ٹیپ ریکارڈر پر عطااللّٰہ کی کیسٹ چلا دی۔ گاڑی روڈ پر چل پڑی تھی۔ راستے پر سواریاں اٹھانے اور اتارنے کا سلسلہ جاری تھا۔ شہر سے نکلنے کے 3,4 کلو میٹر کے بعد ویران اور جنگل کا راستہ شروع ہوجاتا ہے۔ سورج آگ برسا رہا تھا۔ میرے سمیت ہر مسافر جلد منزل پر پہچنا چاہتا تھا۔ ابھی میں پکی سڑک پر تھا اور سفر تیزی سے کٹ رہا تھا گرمی کی وجہ روڈ پر ٹریفک بہت کم تھی ویسے بھی یہ سنگل روڈ تھا کبھی کبھی کوئی موٹر سائیکل چھوٹی گاڑی یا ٹریکٹر ٹرالی نظر آجاتی۔ کچھ دیر بعد کچا سفر شروع ہوگیا سپیڈ مزید کم ہو گئی اب راستے میں کہیں کہیں جگہ پر لوگ مویشیوں کو چراتے نظر آرہے تھے۔ اور کوئی گھروں کو واپس ہونے لگے تھے۔ کچی سڑک ہونے کی وجہ سے دُھول اور گرد بھی اُڑنے لگی تھی۔ ویران راستہ ختم ہوا تو ایک گاؤں آگیا روڈ گاؤں کے بیچوں بِیچ گزرتی تھی اور گاؤں کے درمیان ایک کافی کھلی جگہ ہے جس کو بس سٹاپ کا نام دے دیا گیا تھا۔

 روڈ کے بالکل ساتھ ایک گھر ہے جس کی حویلی نہیں ہے اس گھر کے ایک طرف کچھ گھنےدرخت شہتوت بیری دھریک اور کیکر وغیرہ لگے ہیں۔ ان کے نیچے ہینڈ پمپ ہے۔ جب بھی گاڑی رکتی ہے تو لوگ بلا جھجک وہاں جا کر ہاتھ منہ دھوتے اور پانی پیتے ہیں۔ سب لوگ جب واپس آچکے تو میں بھی وہاں گیا ہاتھ منہ دھو کر گرد مٹی اتاری اور پانی پینے لگا تو ایک تقریباً 26 سال کی بہت ہی گوری چٹی خوبصورت گلابی رنگ کے کپڑوں میں ملبوس لڑکی میرے سامنےکھڑی مجھے کہہ رہی تھی۔ جی یہ گلاس لے لیں بلکہ یہ لیں اور ساتھ ہی اس نے ہینڈ پمپ سے پانی کا گلاس بھرکر میری طرف بڑھا دیا۔

میں ہکا بکا پتھر کا بُت بنا اسے دیکھ رہا تھا اور اس وقت چونکا جب اس نے پانی کا گلاس میرے ہاتھ سے ٹکرایا۔ میں نے پانی پیتے ہوے بھی اسے لگاتار دیکھ رہا تھا اور وہ مجھے دیکھتے ہوے مسکرا رہی تھی۔ میں حیران تھا کہ یہاں میں روزانہ ر ُکتا ہوں مگر یہ قدرت کا کرشمہ لڑکی کبھی دکھائی نہیں دی۔ پانی پی چکا تو گلاس اسکی طرف بڑھاتے ہوے شکریہ ادا کیا تو وہ بولی اپنوں کا شکریہ ادا نہیں کرتے۔ یہ سنتے ہی میرے جسم میں جھُرجُھری آگئی کہ یہ اس نے کیا کہہ دیا کیونکہ اس سے قبل میرے ساتھ کبھی کوئی ایسا چانس نہیں ہوا اورنہ میں نے کبھی ایسا سوچا۔اور ساتھ ہی وہ گھر کے برآمدے کی طرف چل دی۔ اور میں گاڑی کی جانب۔

میرا دماغ سائیں سائیں کر رہا تھا میں نے دماغ کو دو تین بار ہاتھوں سے تھپکی دی۔ صحیح پوچھیں تو وہ میرے دل کو بھا گئی تھی اور اپنے سپنوں کی رانی لگنے لگی تھی۔ سر سے سرکتا کاندھوں پر پڑتا گلابی دوپٹہ سرخ سفید رنگ گلاب کی پنکھڑیوں جیسے ہونٹ موتیوں کی لڑی جیسے سفید دانت سیاہ زلفیں صراحی نما گردن درمیانہ مناسب قد۔ تعریف کیلیے لفظ ناکافی تھے۔ میں گاڑی کے سٹیئرنگ پر سر رکھے سوچوں میں گم تھا کہ اتنے میں کلینر کی آواز نے مجھے چونکا دیا استاد جی جان دیو۔

میں نے سر اٹھایا اور گاڑی آگے بڑھا دی۔ میں سر کو بار بار جھٹک کر اس واقعہ کو ذہن سے نکال رہا تھا کہہ کہیں گاڑی ہی نہ ٹھوک دوں۔ اور گاڑی پر مکمل توجہ دے رہا تھا۔ اب ہم پھر ویرانے میں سفر کر رہے تھے سورج ڈھلنے لگا تھا۔ گرمی کی شدت میں کمی آگئی تھی۔ اچانک گاڑی رک گئی کچھ سمجھ نہ آیا کہہ کیا ہوا۔ گاڑی سے اتر کر انجن کو دیکھنے لگے کافی دیر تک دیکھا بھالا مگر کوئی خرابی نظر نہ آئی اور واپس ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر سوچنے لگا کہ کیا کیا جائے ٹائم بھی نازک تھا سب مسافر بھی پریشان تھے۔ سفر تو کم رہ گیا تھا مگر راستہ جنگل تھا اور آگے ایک گاؤں کی سوراریاں بھی تھیں۔ انہی سوچوں میں گم تھا کہ اچانک ایک نسوانی آواز کانوں میں گونجی ؛؛اب گاڑی اسٹارٹ کرو؛؛ میں نے ادھر ادھر دیکھے بغیر جلدی سے گاڑی اسٹارٹ کی تو گاڑی اسٹارٹ ہوگئی۔
 
پھر یہاں وہاں دیکھا مگر کوئی دکھائ نہ دیا۔ میں نے مسافروں کو مخاطب کر کے
پُو چھا کہ کسی نے کوئی آواز سُنی کیا؟ تو سب نے کہا نہیں۔۔
میں بھی حیران ہوگیا کہ یہ سب کیا ہے۔
گاڑی آگے بڑھا دی اور دھیرے دھیرے چلنے لگا سب مسافر خاموشی سے بیٹھے تھے کلینر لڑکا میرے پاس آکر بولا استادجی یہ کیسے خود بخود اسٹارٹ ہوگئی؟ میں نے کہا ہوگئی تو ہوگئی ٹھیک ہوگیا۔

اب ہم دوسرے گاؤں میں تھے یہ گاؤں میرے سارھ کلینر کا تھا اور اس نے یہاں اتر کر گھر جانا ہوتا ہے۔ اسکے بعد میں نے اپنے گاؤں۔ اور وہ لڑکا اتر گیا۔ جن سواریوں نے اترنا تھا اتر گئیں اور سوار ہونے والی سوار ہوگئیں۔ میں نے گاڑی آگے بڑھا دی۔ میرے ذہن میں پھر وہ خوبصورت لڑکی اور وہ آواز جس نے گاڑی اسٹارٹ کرنے کا کہا تھا چھا گئیں۔ یہ سب سمجھ سے بالا تر تھا۔ میں گاڑی کو دوڑانے لگا تاکہ گھر جاکر جلدی سے فریش ہوکر آرام سے لیٹ کر سارا کچھ سوچ سمجھ سکوں۔

 کچھ ہی دیر بعد میں اپنے گاؤں پہنچ گیا مغرب ہو چکی تھی سب مسافر اتر کر چلے گئے میں نے گاڑی کو اپنی جگہ کھڑا کیا لاک کرکے گھر آگیا غسل وغیرہ کرنے کے بعد نماز ادا کی کھانا کھایا سوچوں میں گم دیکھ کر امی نے پوچھا بیٹا کیا بات ہے سب خیریت تو ہے پریشان لگتے ہو میں نے تھکاوٹ کا بہانہ کیا اور بستر پر آکر سارے واقعے کے بارے سوچنے لگا اور سوچتے سوچتے ہی میری آنکھ لگ گئی۔۔
صُبح امی کی آواز پر آنکھ کھلی اور گزشتہ روز پیش آنے والا واقعہ آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا۔ دماغ کو جھٹکا دیا کیونکہ ابھی اس بارے سوچنا نہیں چاہتا تھا۔
ابھی نماز کا وقت باقی تھا میں جلدی سے مسجد میں گیا نماز ادا کر کے گھر آگیا۔
ناشتہ تیار تھا ناشتہ کیا بس کی چابی لی سب کو سلام کیا اور اڈہ کی طرف چل پڑا۔ اب کافی روشنی ہوچکی تھی گاڑی کو سٹارٹ کیا اور آہستہ آہستہ اڈے پر لے آیا۔ ایک گھنٹے تک بس کی سواریاں پوری ہو چکی تھیں اب میں نے گاڑی اڈے سے نکالی اور شہر کی جانب روانہ ہونے لگا۔ تھوڑی ہی دیر بعد گاؤں سے باہر نکل چکے تھے۔

میں یہ بتاتا چلوں کہ جو دو گاؤں ہمارے گاؤں اور شہر کے درمیان آتے ہیں ان دونوں کے پاس ایک ایک برساتی نالہ بھی آتا ہے۔
اب ویران اور سنسان جنگل کا راستہ شروع ہوچکا تھا۔ سورج نکل چکا تھا اور آنکھیں دکھا رہا تھا موسم آج بھی بالکل صاف تھا اسلیے سخت گرمی پڑنے کا امکان تھا۔ تھوڑی دیر بعد میرے ساتھی کلینر لڑکے شفیق کا گاؤں آنے والا تھا۔ اور اس وقت میرے دماغ پر کل والی خوبصورت لڑکی سوار تھی جو پانی پیتے ہوے ہینڈ پمپ پر ملی تھی۔ اور اب میں اس سے جلد از جلد ملنا چاہتا تھا۔ اس وقت میں جنگل سے نکل کر شفیق کے گاؤں کے قریب برساتی نالےسے گزر رہا تھا۔

نالے میں پانی بہت کم تھا البتہ ابھی مویشیوں کے پینے کے لیے کافی تھا۔ کچھ بھیڑ بکریاں پانی پی بھی رہی تھیں۔ برساتی نالہ کراس کرنے کے کچھ ہی دیر بعد شفیق کا گاؤں آگیا جیسے ہی گاؤں میں داخل ہوے تو روڈ کے ایک طرف شفیق کھڑا تھا اس نے ہاتھ کے اشارے سے سلام کیا اور بس پر سوار ہوگیا اور سواریوں سے کرایہ وصول کرنے لگا۔ ٹیپ ریکاڈر چل رہا تھا اور میرے ذہن پر وہی لڑکی سوار تھی۔
دل چاہ رہا تھا پلک جھپکتے اسکے پاس پہنچ جاؤں جو کہ اس وقت ممکن نہیں تھا۔ یہ سوچ کر گاڑی کی سپیڈ بڑھادی کیونکہ سفر کافی تھا راستے سےسواریاں اٹھانی اتارنی بھی ہوتی ہیں۔

 اس طرح اگلا گاؤں بھی آگیا اور وہ سٹاپ بھی جہاں سے سواریاں اٹھانی اتارنی اور پانی پینا ہوتا ہے۔ میں ڈرائیونگ سیٹ پر ہی تھا اورچند سواریاں ہی گاڑی سے اتر کر ہینڈ پمپ پر گئیں اور پانی وغیرہ پی کر واپس آگئیں یہاں ہم دس پندرہ منٹ ہی رکتے ہیں۔

اب جبکہ نلکے پر کوئی نہیں تھا تو میں بھی اٹھا اور پانی پینے کےبہانے نلکے کے پاس جاکر ہاتھ وغیرہ دھوتے ہوے چور نظروں سے اس لڑکی کو ڈھونڈنے لگا۔ وہ گھر کے ایک طرف برآمدے کے پاس رکھی لکڑی کی چارپائی پر ایک بڑھیا کے ساتھ ڈارک نیلے رنگ کے لباس میں بیٹھی نظر آئی تو میرا دل تیز تیز دھڑکنے لگا مگر اس نے ابھی مجھے دیکھا نہیں تھا۔ اس صحن میں ایک تقریباً پانچ سال کابچہ بھی ایک کھلونے سے کھیل رہا تھا جیسے ہی وہ میرے پاس آیا تو میں نے آہستہ سے اس سے کہا بچے اپنی باجی سے پانی پینے کے لیے گلاس لے آؤ تو وہ بولا میری باجی تو ہے ہی نہیں۔ تو میں نےفوراً کہا اچھا تو وہ جو لڑکی اس بوڑھی عورت کے پاس بیٹھی ہے اس کو بولو (اب اس لڑکی نے مجھے دیکھ لیا تھا) وہ پھر بولا چاچو وہاں تو صرف میری دادی بیٹھی ہے اور تو کوئی نہیں ہے گھر میں صرف دادی اور میں ہی ہیں۔ ٹھہریں میں آپکو گلاس لا دیتا ہوں وہ جلدی سے گلاس لایا تو میں نے گلاس میں پانی بھرتے ہوے کہا بیٹا وہ نیلے کپڑوں والی لڑکی جو اِدھر دیکھ کر مسکرا رہی ہے وہ کون ہے؟
وہ حیرانی سے ادھر ادھر دیکھتے ہوے بولا کہاں؟ چاچُو مجھے تو دادی کے علاوہ کوئی دکھائی نہیں دے رہا۔

میں نے کہا اچھا بیٹا تم کھیلو شاباش۔ یہ کہہ کر میں جلدی سے آکر گاڑی میں بیٹھ گیا اور حیرانگی کی حالت میں سٹیئرنگ پر سر رکھ دیا اور پھر کچھ سوچ کر شفیق سے کہا تم پانی کے بہانے جاؤ اور دیکھو گھر میں کتنے لوگ ہیں؟ وہ بولا استاد یہ کیا بات ہے؟ میں نے کہا کچھ نہیں بس تم جاکر دیکھو اور مجھے بتاؤ۔ وہ گیا اور تھوڑی ہی دیر میں واپس آکر بولا استاد جی گھر میں تو ایک بچہ کھیل رہا ہے اور ایک بڑھیا چارپائی پر بیٹھی ہے اور کوئی بھی دکھائی نہیں دیا کمروں کے دروازے بھی بند ہیں۔ میں نے کہا اچھا ٹھیک ہے اور گاڑی آگے بڑھا دی۔

شفیق کی بات سن کر میرا دماغ سائیں سائیں کرنے لگا اور دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ یہ سوچ کر اور بھی پریشانی ہوئ کہ وہ مجھے دیکھ بھی چکی تھی پھر بھی میری طرف نہیں آئی جو کہ کل کہہ رہی تھی اپنوں کا شکریہ ادا نہیں کرتے تو پھر آج کیا؟؟؟؟؟

شفیق بولا استاد بات کیا ہے کیوں گم سم ہو؟ میں نے کہا کچھ نہیں پھر بتاؤں گا اور وہ پیچھے سواریوں کی طرف چلا گیا۔ مجھے لگ رہا تھا اب میرا دماغ پھٹ جائے گا۔ مگر میں نے بہت ہمت کرکے خود کو سنبھالا کیونکہ بس سواریوں سے بھری ہے تھی انکی بھی ذمہ داری بھی مجھ پر تھی اور خدانخواستہ کہیں گاڑی نہ ٹھوک دوں۔ یہ سوچ کر ہمت جُتائی اور ساری توجہ گاڑی پر دی اور دھیان سے گاڑی چلانے لگا۔۔ جیسے تیسے کرکے شہر پہنچ گیا۔ دماغ کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پا رہا تھا اور سُن ہو چُکا تھا دل بھی گھبرانے لگا تھا۔ الٰہی یہ کیا ماجرہ ہے۔

میں نے گاڑی سے اتر کر ہوٹل پر آکر ٹھنڈے پانی کا جگ بھرا اور سر پر پانی ڈالنے لگا منہ وغیرہ دھو کر جلدی سے پنکھے کے سامنے لیٹ گیا۔ اور بگڑتی طبیعت کو سنبھالنے کی کوشش کرنے لگا۔ مگر پھر بھی ناکام ہو رہا تھا۔ ہوٹل والے سے سپیشل کڑک چائے بنوائی اور سر درد کی گولی لی اور آنکھیں بند کرکے طبیعت کے سنبھلنے کا انتظار کرنے لگا۔

کافی دیر بعد سردرد کا تو آرام آگیا مگر ذہنی تناؤ ختم نہ ہوا۔
میری سمجھ میں کچھ نہ آرہا تھا کہ کیا کروں میرے ساتھ یہ ہو کیا رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد شفیق آکر بولا چلو استاد جی کھانے کا ٹائم ہو گیا ہے۔
میں نے کہا تم جاؤ کھالو میرا دل نہیں چاہ رہا۔ اس نے دو تین بار کہا مگر میں نے منع کر دیا اور وہ چلا گیا۔ میں سونے کی کوشش کرنے لگا دائیں بائیں کروٹیں لے رہا تھا آخر کچھ دیر بعد نیند آگئی خواب میں دیکھا ایک پانی کے کنوئیں کے پاس بیٹھا ہوں اور کانوں میں کسی لڑکی کی آواز سنائی دی۔۔۔ تم نے مجھے بلایا کیوں نہیں؟
اچانک میری آنکھ کُھل گئی۔ یہ نیند صرف دس پندرہ منٹ کی تھی۔ یہ سوچ کر میری پریشانی مزید بڑھ گئی کہ اب یہ کیا بات ہوئی؟ اٹھ کر بیٹھ گیا ٹائم گزر رہا تھا اور واپسی کا ٹائم بھی قریب تھا مگر میری طبیعت سنبھل نہیں رہی تھی۔ کچھ دیر بعد شفیق کو بلایا اور میں نے اسکو بولا ابھی واپسی میں گھنٹہ ڈیڑھ باقی ہے اور کوئی سواری ابھی تک نہیں آئی۔ میرا واپس جانا ممکن نہیں ہے۔ تم ابھی سے واپس چلے جاؤ گاڑی کھڑی رہے گی۔ 

وقت کافی ہے تم کسی نہ کسی طرح پہنچ جاؤ گے ہمارے گھر بتا دینا کہ اسد آج ضروری کام سے شہر رک گیا ہے کل آئے گا اور پھر اپنے گھر چلے جانا میں کل آجاؤں گا۔ میں نے شفیق کو سارا قصہ بھی سنا دیا اور کہا یہ بات کسی کو بھی نہ بتانا اور ہمارے گھر بھی نہ بتانا۔ یہ سب سن کر وہ بغیر کچھ کہے روانہ ہوگیا۔ میں نے ہوٹل والوں اور دوسرے دوست ڈرائیوروں سے کہا کہ میری گاڑی کی سواریاں آئیں تو کہنا کہ یہ بس خراب ہے نہیں جائے گی۔ اور خود کمرے میں جاکر لیٹ گیا۔ شام کو تھوڑا کھانا کھایا اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔ کچھ کلام پڑھتے پڑھتے میری آ نکھ لگ گئی جب آنکھ کھلی تو ہوٹل والے جاگ کر کاموں میں مصروف تھے اور سورج بھی نکلنے لگا تھا اور میری طبیعت بھی بہت حد تک سنبھل چکی تھی اللّٰہ کا شکر ادا کیا اور غسل کرکے ناشتہ کیا۔ آج میں کسی سواری کا انتظار کیے بغیر اکیلا گھر جانا چاہ رہا تھا۔ اور شہر سے میرا اس وقت کوئی ٹائم بھی نہیں تھا۔ یہ سوچ کر میں گاڑی وہاں سے نکال کر روڈ پر لے آیا کچھ سواریاں پوچھ کر بس پر سوار ہو گئیں آگے نکل کر سپیڈ بڑھا دی کچھ سواریاں اٹھاتا اتارتا چلا جا رہا تھا۔

 اصل میں میرا مقصد اسی لڑکی کا کھوج لگانا تھا۔ جب میں اس گاؤں پہنچا تو پھر پانی کے بہانے اس بغیر حویلی والے گھر میں داخل ہوا تو وہ لڑکی مجھے نظر آ گئی اور مجھے دیکھتے ہی میرے پاس آگئی آج بھی وہ نیلے رنگ کے کپڑوں میں تھی اور پہلے روز سے بھی زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی۔ مجھے اس نے پانی کیلیے شیشے کا خالی گلاس دیتے ہوے کہا یہ لو اور خود ہی بھر کر پیو۔ اس نے یہ کچھ ناراضگی کا انداز میں کہا تھا۔

میں نے وجہ پوچھی تو اسنے کہا خود ہی بیگانا سمجھ کر پوچھ رہے ہو۔ میں نے حیرانگی سے پوچھا کیا مطلب تو بولی یہ بعد میں پتہ چلے گا۔ میں نے پوچھا آج گھر میں کوئی نہیں ہے؟ تو بولی نہیں دوسری بہن اور بھائی ہیں وہ آج چچا کے ہاں گئے ہیں باقی گھر والے دوسرے گاؤں گئے ہیں کل آئینگے۔ اور بولی میں تمہیں کیسی لگتی ہوں میں نے کہا بہت اچھی۔ وہ بولی مان لیتی ہوں مگر ایسا کچھ لگتا تو نہیں۔ میں نے کہا یقین کرو پھر اسنے کہا ایسا ہے تو مجھے اپنے گاؤں لے جاؤ گے وہاں میری ایک سہیلی بھی ہے رات کو اسکے پاس رہ لونگی۔ 
میں حیران ہوگیا تو بولی کیا ہوا ؟ اور اسنے کہا تم گاڑی میں بیٹھو میں چچا کو اور بھائی بہن کو بتا کر آتی ہوں۔ اور وہ چلی گئی تو میں گاڑی میں آکر بیٹھ گیا۔ گاڑی میں کوئی سواری نہیں تھی۔

تھوڑی ہی دیر بعد وہ آئی اور میرے پیچھے والی سیٹ پر بیٹتے ہوے بولی چلو۔۔ میں بہت حیران ہوا کہ یہ کیسے اکیلی میرے ساتھ چل پڑی؟
وہ بہت پیاری لگ رہی تھی میں اس سے گزرے واقعے کے متعلق بات کرنا چاہ رہا تھا مگر یہ سوچ کر کہ یہ ناراض نہ ہو جائے خاموش رہا۔ میں اسے سامنے سر پر لگے آئینے میں مسلسل دیکھ رہا تھا۔ جب وہ کچھ دیر نہ بولی تو میں نے خاموشی توڑتے ہوے اس سے پوچھا ہمارے گاؤں میں موجود تمہاری دوست کے امی ابو کا کیا نام ہے۔ تو وہ رُوکھے انداز میں بولی تمہیں اس سے مطلب کیوں میں تمہارے لیے کافی نہیں؟ اب اس سے متعلق بات نہ کرنا اور ہاں راست سے سواری نہ اٹھانا اور جب جہاں گاڑی روکنے کا کہوں تو روک دینا مہربانی ہوگی۔

 میں مزید حیران ہوگیا۔ اور پھر وہ مجھ سے پیار سے باتیں کرنے لگی اور میری گزری زندگی کے بارے سوال جواب کرنے لگی میں بھی بے تکلف ہوگیا۔ اچانک وہ بولی وہ سامنے گھنے درخت کے نیچے گاڑی روکو اور پیچھے میرے پاس آکر بیٹھو یہ سن کر میں تھوڑا ڈرا تھوڑا خوش ہوا اور سیٹ پر سے تھوڑا چاہتے تھوڑا نہ چاہتے اٹھنے لگا۔۔۔

بس ڈرائیور ( قسط نمبر 2)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں



Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں