مظلوم بیوہ کی دکھ بھری کہانی

moral stories in urdu


اس کا خاوند شہرکی کسی فیکٹری کا ورکر تھا، جو ایک سال قبل فیکٹری کے اندر بجلی کا کرنٹ لگنے سے ہلاک ہو گیا تھا۔

 تاہم دنیا سے منہ موڑنے سے قبل وہ اپنی زوجہ کو چھ بچوں کی سوغات دے گیا تھا، جن میں سے ایک بچہ ذہنی ابنارمل بھی تھا۔ فیکٹری کے مالک شیخ صاحب ایک نیک، ہمدرد اور دردِ دل رکھنے والے انسان تھے۔ وہ اپنے فیکٹری ورکر کی نماز جنازہ میں بنفسِ نفیس شریک ہوئے اور چند ہزار روپے نقد بیوہ کے ہاتھ پر بھی رکھ گئے تھے۔ اس غمناک موقع پر انہوں نے بیوہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر نہ صرف اسے حوصلہ دیا بلکہ اس کے خاوند کی ملازمت کے قانونی واجبات بھی جلد از جلد ادا کرنے کا وعدہ کیا۔ تاہم بعد میں بیوہ نے فیکٹری کے رستے میں بڑی جوتیاں گھسائیں مگر بدقسمتی سے یہ وعدہ وفا نہ ہو سکا۔

 شیخ صاحب تو ہر حال میں بیوہ کو اس کا حق دینا چاہتے تھے مگر بقول فیکٹری فنانس ڈائریکٹر، مسئلہ یہ درپیش تھا کہ واجبات کے کاغذات کی تیاری میں بڑی پیچیدگیاں اور رکاوٹیں حائل تھیں۔ آخر جب ایک دن اس پر فیکٹری کے دروازے بند کر دیئے گئے تو اس نے کسی کے مشورے پر لیبر قوانین کے تحت کارروائی کے لیے اعلیٰ حکام کو درخواستیں بھجوانا شروع کر دیں مگر اس کی کہیں شنوائی نہ ہو سکی۔ نیم خواندہ بیوہ کو علم نہیں تھا کہ بڑے بڑے سرکاری ادارے چلانے کا بارِ گراں اٹھانے والوں کے پاس ایسی چھوٹی موٹی درخواستوں پر غور کرنے کے لیے وقت نہیں ہوتا۔

اب جو شیخ صاحب کے دیئے پیسے ختم ہو گئے اور رشتہ داروں نے بھی منہ موڑ لیا تو غم جاں اور غم جاناں کے عجیب امتزاج کے ساتھ بیوہ پر ایک نئی مگر خوفناک زندگی آشکار ہوئی۔ تاہم اس نے ہمت نہ ہاری اور لوگوں کے گھروں کا کام کاج کرکے بمشکل بچوں کو پالنا شروع کر دیا۔ رمضان المبارک کے بابرکت مہینے کا آغاز ہوا تو رنگ و نور کا سیلاب اُمڈ آیا۔ اہل محلہ نے خیرات اور افطار پارٹیوں کے ذریعے دونوں ہاتھوں سے ثواب دارین سمیٹا، البتہ بیوہ نے کسی کے سامنے ہاتھ پھیلایا، نہ کسی کو اس کا خیال آیا۔ اگرچہ متقی حضرات پر مشتمل زکوٰۃ کمیٹی بھی موجود تھی مگر مانگنے سے شرمانے کی عادت نے اس کے بچوں کی زندگی مشکل ہی بنائے رکھی۔

 اسی ماہِ صیام کا ایک گرم اور لمبا دن سر کرکے شام کو جب افطاری کے لیے گھر میں کچھ نہ تھا تو اس نے بسم اللہ پڑھ کر گھڑے کے پانی سے روزہ افطار کیا۔ وہ پیاس کی شدت سے بہت سا پانی چڑھا گئی اور بیمار ہو گئی۔ پے در پے قے سے حالت غیر ہوئی تو اس نے ہمت کرکے دوپٹے کے کونے سے اپنی آخری پونجی پچاس پچاس روپے کے دو نوٹے باندھے اور کسی طرح عطائی کے پاس پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔ عطائی نے اسے ایسا انجکشن گھونپا کہ بے چاری اگلے حال سے بھی گئی۔ اگلے دن شام تک وہ نیم جاں ہو چکی تھی۔ 


رات کو وہ چپکے سے دیوار کا سہارا لیتے بمشکل پڑوسن کے ہاں پہنچی اور پہلی دفعہ رازداری سے بچی کھچی روٹی کی خیرات کی درخواست کرتے ہوئے اسے بتایا کہ میں نے بچوں کو بہلانے کی خاطر ہنڈیا میں سادہ پانی ڈال کر چولہے پر چڑھا دیا کہ کھانا پک رہا ہے۔ باقی تو کھانے کے انتظار میں ایک ایک کرکے سو گئے لیکن پاگل نہیں سو رہا اور اس نے بھوک سے رو رو کر آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے، کیا کروں ”جھلا‘‘ جو ہوا۔ اسی شب سحری سے قبل ہی اس کے جسم میں پانی ختم ہو گیا۔ بیوہ نے ٹوٹی چارپائی پر لیٹے لیٹے زیرِ لب اپنا تکیہ کلام ”واہ مالک! تیری شان‘‘ دہرایا اور ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی۔ 

محلے کی فضا سوگوار ہو گئی۔ اہل محلہ نے دکھی دل کے ساتھ اس کے کفن دفن کا انتظام کیا، اس کے روح کے ایصال ثواب کے لیے مشترکہ طور پر پورے محلے کے لیے افطاری کا بندوبست کیا اور اس کے بچوں کو یتیم خانے پہنچا کر اپنے اخلاقی فرائض سے بطریق احسن سبکدوش ہو گئے۔

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories for adults only, Urdu stories

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں